سلطان صلح و ادب

235

 امام حسن مجتبيٰ عليہ السلام كي شخصيت اتني باعظمت ہے كہ مجھ جيسے حقير كے بس ميں نہيں كہ ميں ان كي توصيف ميں كوئي مقالہ يا كتاب لكھ سكوں ۔ شيعہ علماء اور دانشوروں كے علاوہ بعض اہلسنت كے بزرگ علماء نے بھي امام حسن عليہ السلام كے بارے ميں كتابيں لكھي ہيں اور مختلف مقامات پر آپ كے فضائل و مناقب كو اپني تفسير ، كتب احاديث، اخلاقي كتب اور تراجم و رجال ميں آپ كے فضائل و مناقب كو ذكر كيا ہے ۔ “صحيح بخاري” ، “صحيح مسلم”، ” سنن ترمذي” ، ” سنن ابن ماجہ ” ، ” طبقات ابن سعد” ، ” سنن ابي داؤد ” ، ” خصائص نسائي ” ، ” جامع الصغير” ، ” مصابيح السنۃ” ، “اسعاف الراغبين” ، “نورالابصار” ، ” تذكرۃ الخواص” ، ” الاتحاف” ، ” كفايۃ الطالب” ، ” شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد” ، “مرآۃ الجنان” ، ” ملتقي الاصفياء، ” نظم درر السمطين” ، ” فرايد السمطين” ، ” سيرہ حلبيہ” ، ” اسد الغابہ” ، ” الاستيعاب” ” الاصابۃ” ” تاريخ الخلفاء، ” الفصول المہمہ” وغيرہ ۔۔۔۔جيسي كتابوں ميں آپ كا ذكر پايا جاتا ہے ۔ ہم يہاں پر اختصار كي رعايت كرتے ہوئے “توفيق ابوعلم”۱كي كتاب ” اہل البيت”(صفحات ۲۶۳۔ ۴۱۵) كے كچھ حصہ كا ترجمہ بعض اضافات كے ساتھ پيش كر رہے ہيں ۔ يہ كتاب سن ۱۳۹۰ہجري ميں مصر ميں لكھي گئي ہے ۔ لا تعداد فضائل شيعہ اور اہلسنت دونوں كا يہ عقيدہ ہے كہ آنحضرت اصحاب كساء ميں سے ہيں جن كي شان ميں آيت تطہير نازل ہوئي ہے اور متواتر حديث ” حديث ثقلين” كے مطابق آپ قرآن كے ہم پلہ اور ان چار لوگوں ميں سے ہيں جنہيں پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اپنے ہمراہ نجران كے نصاريٰ سے مباہلہ كرنے كے لئے لے گئے تھے ۔ ” اسامہ بن زيد” نے پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روايت كي ہے كہ آپ نے فرمايا : يہ دونوں (حسن و حسين) ميرے فرزند ، ميري بيٹي كے بيٹے ہيں ، خدايا! ميں انھيں دوست ركھتا ہوں تو بھي انھيں دوست ركھ، اور جو انھيں دوست ركھے انھيں بھي دوست ركھ ۔ “زيد بن ارقم ” سے روايت ہے كہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا : مَنْ اَحبَّ هوُلاءِ فَقَدْ اَحَبَّني، وَ مَنْ اَبْغَضَ هؤُلاءِ فَقَدْ اَبْغَضَني ( كشف الغمہ ، ج/۲، ص/۱۴۹ ) جو بھي انھيں ( علي ، فاطمہ ، حسن و حسين) كو دوست ركھے وہ مجھے دوست ركھے گا اور جو ان سے دشمني كرے گا وہ مجھ سے دشمني كرے گا ۔ “عايشہ ” سے منقول ہے : اِنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ كانَ يَأخُذُ حَسَناً فَيَضُمُْهُ اِلَيهِ ثُمَّ يَقُولُ: «اللّهُمَّ إنَّ هذا ابْني وَ اَنَا اُحِبُّهُ فَاَحِبَّهُ وَ اَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ ،۲ انس بن مالك كہتے ہيں : حسن عليہ السلام پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي خدمت ميں آئے ، ميں نے چاہا كہ انھيں پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے دور كر دوں ليكن پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا : افسوس ہے تم پر اے انس ، ميرے بيٹے اور ميوہ دل كو چھوڑ دو جو بھي اسے اذيت كرے گا وہ مجھے اذيت كرے گا اور جو مجھے اذيت دے گا وہ خدا كو اذيت دے گا ۔ مكارم اخلاق امام حسن عليہ السلام كي پرورش خانہ وحي ميں ہوئي مكتب توحيد اور پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي آغوش رحمت ميں تربيت پائي ۔ آپ خوش رفتاري اور حسن اخلاق اور نيك كرداري ميں نمونہ تھے ، آپ كي غير معمولي محبوبيت كا ايك سبب آپ كا كريمانہ اخلاق تھا جس كي بنياد پر سبھي آپ كے ثناخواں بن جاتے تھے ۔ ادب ، حلم ، فصاحت ، صداقت ، سخاوت ، شجاعت ، تقويٰ ، عبادت ، زہد ، تواضع، اور ديگر صفات حميدہ آپ كے اندر يكجا تھيں اور اخلاق محمدي(ص) آپ كے كردار سے جھلكتا تھا ۔ آنحضرت كے صفات حميدہ اور اخلاق كريمہ كے چند نمونہ ہم اس مضمون كي زينت كے لئے ذكر كر رہے ہيں ۔ ۔ عذاب الٰہي كا خوف امام حسن عليہ السلام اپنے زمانے كے سب سے بڑے عبادتگذار ، زاہد اور فاضل انسان تھے ۔ حج كے لئے نكلتے تو پيادہ چلتے اور كبھي كبھي پابرہنہ حج كے لئے نكلتے تھے ۔ وضو كرتے وقت بدن كانپنے لگتا اور چہرے كا رنگ زرد ہو جاتا تھا ۔ كسي بھي وقت ذكر خدا ترك نہيں كرتے تھے ، متقي پرہيزگار ، حليم و بردبار تھے اور خدا كا خوف دل ميں ركھتے تھے ۔ روايت ميں ہے كہ ايك شخص نے آنحضرت كے گريہ و مناجات كو سنا تو كہنے لگا : كيا آپ كو عذاب الٰہي سے ڈر لگتا ہے جبكہ وسيلہ نجات آپ كے پاس ہے ؟ آپ پيغمبر(ص) كے فرزند ہيں ، حق شفاعت آپ كے پاس ہے ، اور رحمت الٰہي عام ہے اور ہر شئي كو اپنے گھيرے ميں لئے ہوئے ہے ۔ امام نے جواب ديا : تم نے كہا كہ ميں رسول خدا كا فرزند ہوں تو خداوند عالم كا ارشاد ہے : فَاِذا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلا اَنْسابَ بَيْنَهُمْ (سورہ مومنون، آيت/۱۰۱) پھر جب صور پھونكا جائے گا تو رشتہ دارياں نہ رہ جائيں گي ۔ شفاعت كے لئے خداوند عالم فرماتا ہے : مَنْ ذَاالَّذي يَشْفَعُ عِنْدَهُ اِلا بِاِذْنِهِ (سورہ بقرہ، آيت/۲۵۵ ) كون ہے جو اس كي بارگاہ ميں اس كي اجازت كے بغير سفارش كرسكے رحمت الٰہي ہر چيز كا احاطہ كئے ہوئے ہے ، خداوند عالم كا ارشاد ہے : فَسَاَكْتُبُها لِلَّذينَ يَتَّقُون (سورہ اعراف ،آيت/۱۵۶ ) جسے ميں عنقريب ان لوگوں كے لئے لكھ دوں گا جو خوف خدا ركھنے والے ہيں ۔ اس كے بعد حضرت نے فرمايا : فَكَيْفَ الْاَمانُ يا أخَا الْعَرَبِ ، اس طرح كس كے لئے امان ہے اے بھائي ۔ ۔ زہد امام امام كے زہد كا يہ عالم تھا كہ دنيا اور اس ميں پائي جانے والي تمام نعمتوں سے وابستگي كے تمام اسباب كو خيرباد كہہ ديا تھا اور صرف آخرت اور ابدي منزل كي جانب توجہ تھي جيسا كہ خود آپ نے فرمايا : ” مَنْ عَرَفَ اللهُ اَحَبَّهُ، وَ مَنْ عَرَفَ الدُّنْيا زَهَّدَ فيها، وَ الْمُؤْمِنُ لايَلْهُو حَتّي يَغْفُلَ، اِذا تَفَكَّرَ حَزَنَ ” ( اہل البيت، توفيق ابوعلم، ص/۲۹۶ ) ترجمہ : جو خدا كو پہچان لے گا اس سے محبت كرے گا جو دنيا كو پہچان لے گا اس سے بے رغبت ہو جائے گا ، مومن لہو لعب ميں مشغول ہو كر غافل نہيں ہوتا اور جب لہو و لعب كے بارے ميں سوچتا ہو تو غمگين ہو جاتا ہے ۔ امام عليہ السلام نے اسلام و مسلمين كي مصلحت كي خاطر دنيا كي حكومت سے چشم پوشي كيا ۔ جب بھي امام موت كے وقت انسان كي حالت كو ذہن ميں لاتے تو ناخواستہ طور پر رونے لگتے ، اور جب بھي حشر و نشر اور پل صراط سے گزرنے كا خيال آتا تو گريہ كرتے ، اور جب خداوند عالم كے سامنے حساب و كتاب كے لئے حاضري كا تصور كرتے تو نالہ و شيون كرتے كرتے بيہوش ہو جاتے تھے ۔ ۔ رحمت الٰہي كي نمايش امام حسن عليہ السلام اپنے جد امجد پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم كي طرح رحمت الٰہي كا مظہر تھے جو نااميد اور غمناك دلوں كو اميد و رحمت سے بھر ديتے تھے ، كمزور لوگوں كو ديكھنے كے لئے جاتے تھے ، بيمار كي عيادت كرتے تھے ، تشييع جنازہ ميں شريك ہوتے تھے ، مسلمانوں كي دعوت قبول كرتے تھے اور ہميشہ يہ خيال رہتا تھا كہ كہيں كوئي آپ سے رنجيدہ خاطر نہ ہو جائے ، آنحضرت كي جانب سے كسي كو كوئي تكليف نہيں ہوتي تھي ، فقيروں كے ساتھ بيٹھتے تھے اور برائي كا جواب اچھائي سے ديا كرتے تھے ۔ ۔ حلم امام امام حسن عليہ السلام انسان كامل كا حقيقي مصداق اور اخلاق پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كا كامل نمونہ تھے ، غيض و غضب كے عالم ميں كنٹرول نہيں كھوتے تھے اور زندگي كي مشكلات آپ كو پريشان نہيں كرتي تھي ، غصہ ميں كوئي كام انجام نہيں ديتے تھے ، اور آپ كا ہر عمل ان آيات كا بارز مصداق تھا ۔ وَ الْكاظِمينَ الْغَيْظَ وَالْعافينَ عَنِ النّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنينَ (سورہ آل عمران ، آيت/ ۱۳۴) ترجمہ: اورغصّہ كو پي جاتے ہيں اور لوگوں كو معاف كرنے والے ہيں اور خدا احسان كرنے والوں كو دوست ركھتا ہے وَلا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلاَالسَيِّئَةُ، اِدْفَعْ بِالَّتي هِي اَحْسَنُ (سورہ فصلت، آيت/۳۴) ترجمہ: نيكي اور برائي برابر نہيں ہوسكتي لہٰذا تم برائي كا جواب بہترين طريقہ سے دو ۔ آنحضرت اپنے دشمنوں كي جانب سے ہونے والے ہر اقدام كا جواب صبر و عفو كے ذريعہ ديتے تھے ، يہاں تك كہ مروان بن حكم جو كہ اہلبيت عليھم السلام كا خبيث ترين دشمن ہے ، اس نے امام كو حلم اور بردباري كا پہاڑ كہا ہے ۔ وہ اپنے جد امجد كي طرح حلم و صبر و عفو ميں نمونہ عمل تھے ، تاريخ كے دامن ميں آپ كے اخلاق كے بہت ہي نادر نمونہ محفوظ ہيں جو اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ آپ صاحبان اخلاق كے سردار اور عالم اسلام ميں ادب و اخلاق كي بنياد ركھنے والے ہيں ۔ ۔ بے نظير سخاوت امام حسن مجتبيٰ عليہ السلام كا كرم اور سخاوت بھي عجيب تھا ، حقيقي سخاوت كا مطلب نيك نيتي سے نيك كام كرنا اور احسان كے ارادے سے احسان كرنا ہے، يہ صفت امام حسن عليہ السلام كا امتياز تھي اور خدا اس صفت كو دوست ركھتا ہے ۔ امام حسن مجتبيٰ عليہ السلام كے اندر يہ صفات بحد كمال موجود تھيں اس طرح كہ آپ كو ” كريم اہل البيت” كا لقب ديا گيا ہے ۔ امام حسن عليہ السلام اپنے جود و سخاوت ، غريبوں كي مدد اور امت كي مدد اور راہ خدا ميں انفاق كي وجہ سے عام شہرت كے حامل تھے ۔ امام كي نظر ميں مال دنيا كي كوئي قيمت نہ تھي ، اور اسے كوئي اہميت نہ ديتے تھے مگر يہ كہ اس كے ذريعہ كسي بھوكے كا پيٹ بھر جائے ، يا كسي بے لباس كو لباس مل جائے ، يا كسي مصيبت زدہ كے كام آ جائے يا اس مال كے ذريعہ كسي قرضدار كا قرض ادا ہو جائے ۔ سخاوت امام كي ذات كا حصہ تھي ، اگر چہ امام كے دروازے پر محتاج اور نادار افراد كا سيلاب امنڈ آتا تھا ليكن آپ كي باران سخاوت ان سب پر برستي اور كوئي سوالي آپ كے در سے خالي ہاتھ نہيں لوٹتا تھا ۔ آنحضرت سے پوچھا گيا : كس طرح آپ كے در سے كوئي سائل خالي ہاتھ نہيں جاتا ہے ؟ جواب ديا : ميں خود درگاہ الٰہي كا سائل ہوں ، مجھے شرم آتي ہے كہ خود سائل ہو كر كسي سائل كو خالي ہاتھ لوٹا دوں ۔ ۔ لوگوں سے محبت امام عليہ السلام شيرين بيان ، خوش رفتار اور لوگوں كي نظر ميں محبوب تھے ، بوڑھے ، جوان سبھي آپ كو آپ كے اخلاق حميدہ اور پسنديدہ صفات كي وجہ سے دوست ركھتے تھے ، ہميشہ لوگوں كو ہدايا اور بخشش سے نوازتے چاہے لوگ تقاضا كريں يا نہ كريں ۔ نماز صبح كے بعد طلوع آفتاب تك تعقيبات ميں مشغول رہتے ، پھر جن كے پاس جانا ہوتا وہاں جاتے اور ان كے ساتھ مہر و محبت كا مظاہرہ كرتے ، اور نماز ظہر ادا كرنے كے بعد مسجد ميں بيٹھتے اور لوگوں كو علم و ادب كي تعليم ديتے تھے ۔ يہ ہے امام حسن عليہ السلام كے فضائل و مناقب كے بحر ذخار كا ايك قطرہ كہ جس سے زيادہ كچھ بيان كرنے كي طاقت ہم ميں نہيں ہے ، كہ جتنا بھي بيان كيا جائے كم ہے اور الفاظ ان كي توصيف سے عاجز ہيں ۔ صَلَّي اللهُ عَلي جَدِّه وَ عَلي اَبيهِ وَ اُمِّهِ وَ عَلَيْهِ وَ عَلي اَخيهِ، وَ عَلَي الاَْئِمَّةِ التِّسْعَةِ مِنْ ذُرِّيَّةِ الْحُسَيْنِ عَلَيْهِمُ السَّلامِ ۔ لطف اللہ صافي ۱۔ مسجد سيدہ نفيسہ كے متولي اور عدليہ كے وكيل اور ماہر عالم دين تھے ۲۔ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم حسن كو اپنے سينے سے لگا كر فرماتے تھے ” خدايا! يہ ميرا بيٹا ہے ميں اسے دوست ركھتا ہوں ، پس تو بھي اسے اور اس كے چاہنے والوں كو دوست ركھ ” ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.