عدل الٰھی(باعتبارجبر واختیار)

184

<إِنَّ اللّٰہَ یَاٴمَرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ>[1]
“بے شک خداوند عالم انصاف اور (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے اور احسان کا حکم کرتا ھے۔”
<وَمَا رَبُّکَ بِظَلاّٰمٍ لِلْعَبِیْدِ>[2]
“اور تمھارا پروردگا تو بندوں پر (کبھی) ظلم کرنے والا نھیں ھے۔”
 
صدق اللّٰہ العلی العظیم
مقدمہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
الحمد للّٰہ علی نعمائہ والصلاة علی خاتم انبیائہ وعلی آلہ الطیبین الطاھرین حجج اللّٰہ واولیائہ۔
خداوند عالم پر ایمان لانے والوں کے نزدیک عدل الٰھی ایک ایسی چیز ھے جس کے بارے میں کوئی شک وشبہ نھیں ھے۔
تمام آسمانی ادیان، ھر عقلِ سلیم اور علمی منطق مکمل طریقہ سے عدل الٰھی کا اقرار کرتے ھیں۔
لہٰذا صرف عدل الٰھی ا ن عقائد میں سے نھیں ھے جس کی تصحیح کے لئے یہ خاص بحث کی جائے یعنی عدل الٰھی پر کوئی دلیل قائم کرنے یااس سلسلہ میں هوئی قیل وقال اور شبھات کے جوابات کی کوئی ضرورت نھیں ھے بلکہ یہ تو ایک واضح بحث ھے ،جس کے لئے کسی وضا حت اور استدلال کی بھی ضرورت نھیں کیونکہ توضیح واضحات اور مسلمات پر استد لال کی کوئی ضرورت نھیں هوا کرتی ۔
لیکن ان واضح اور بد یھی فکر ی مسائل میں کبھی کبھی کچھ ملاوٹ اور حاشیہ زنی هوجاتی ھے اور فرعی طور پر گمراہ کن چیزیں اضافہ هوجاتی ھیں اور غلط ونا مناسب تفسیر وتاویلات کے ذریعہ بعض مشکلات پیدا هوجاتی ھیں، تو پھر اس قدر واضح وروشن چیزوں کی شفافیت مکدر هوجاتی ھے ۔اور ان کا وضوح انحراف وکجروی کی طرف مٹرجاتا ھے ۔اس صورت میں ان چیزوں کو واضح کر نے کے لئے مزید بحث وگفتگو کی ضرورت هوتی ھے تاکہ حقیقت سے پردہ اٹھایا جاسکے ۔تاکہ پھر حواشی اور فروعات پر کوئی پردہ باقی نہ رھے نیزبحث وجدل کے وجہ سے مکدرفضا کوخوشگوار بنایا جاسکے ۔
چنانچہ علماء علم کلا م نے مسئلہ جبر واختیار کے سلسلے میں ایک طویل بحث کی ھے ۔ اور ان کو دو متقابل یا دومتضاد صفات میں تقسیم کیا ھے۔
اور ان تمام بحثوں کا نتیجہ عدل الٰھی لیا ھے لہٰذا جبر واختیار کا مسئلہ عدل الٰھی کی ایک فصل بن چکی ھے یا عدل الٰھی کے ابواب میں سے ایک باب بن گیا ھے ۔
اسی طرح علماء علم کلام نے مسئلہ قضاوقد رمیں بھی بہت تفصیلی گفتگو کی ھے اور بعض جگہ افراط کیا ھے یھاں تک کہ اس کو ایک مشکل مسئلہ بنا دیا ھے اور اس بحث کو عدل الٰھی کے ساتھ اضا فہ کردیا ھے اور اس کو اس اھم بحث کی ایک فصل قرار دیدیا ھے ۔
اس کے بعد بعض لوگوں نے اس مشکل کے بارے میں اکثر مسلمانوں کو اس بحث میں جاھل بتا یا ھے ۔اور بعض جوانوں کو مسئلہ قضا وقدر میں شک کرنے والابتایا ھے ۔
انھی وجوھات کی بناپر ھمارے لئے ضروری ھے (تاکہ اپنے دینی فریضہ کو پورا کر سکیں اور اپنے قارئین کی خد مت بھی ) کہ ھم اس اسلامی عقیدہ کے تحت ایک تفصیلی بحث کریں ۔لہٰذا امید کرتے ھیں کہ اس بحث کو مکمل طور پر واضح کریں اور اس مسلہ میں موجود شک وشبھات کو دور کریں اور حقیقت سے پردہ اٹھائیں۔
چونکہ یہ بحث علم کلام کی اصطلاحات والفاظ پر مشتمل ھے جس میں مختلف اقوال ونظریات اور شبھات واحتمالات پائے جاتے ھیں، لیکن ھماری پوری کوشش رھے گی کہ اس بحث کو آسان الفاظ اور واضح مطلب کے ذریعہ مکمل کریں تا کہ عصر حاضر کے تمام متعلم وطلباء اور عام لوگوں پر حقیقت واضح هوجا ئے ۔
ھماری دلی آرزویہ ھے کہ خداوندعالم ھماری اس سعی کو درجہٴ قبولیت عطا کرے اور ھمارے لئے (اور دوسروں کے لئے ) سود مند وثواب واجر کا باعث بنے ۔
والحمد للّٰہ الذی ہدانا وما کنا لنھتدی لولا ان ھدانا اللّٰہ۔
خداوندعالم عادل ھے
خداوند عالم پر سچا اور واقعی ایمان ( جیسا کہ ھماری عقل اور دیگر دلائل اس بات پر دلالت کرتے ھیں) یہ ھے کہ ھم خداوند عالم کی قدرتِ خلاقیت پر ایمان رکھیں،۔ وہ قدرت خداجس کے ذریعہ یہ تمام کائنات اور جو کچھ بھی اس میں موجودھے اور اس کا ئنات کے لئے ایک مرتب نظام اور مسلم قوانین ترتیب دئے جن کو علماء کرام قوانین “الا سباب والمسبات” یا” علل ومعلولات” کہتے ھیں ۔
اس نظام کائنات کی ایجاد جس میں دقیق اور حساب شدہ قوانین پائے جاتے ھیں جس میں عمل وسلوک کا بہترین طریقہ ھے، جو ایسی تنظیم ھے جس کا ہدف صواب، ثبوت اور استقرار ھے (جیسا کہ گذشتہ باب میں تفصیل گذر چکی ھے) یہ تمام چیزیں اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتی ھیں کہ بے شک ان تمام چیزوں کا خلق کرنے والا عاقل، حکیم، صاحب اختیار اور قادر مطلق ھے اس کے حی (زندہ) هونے میں بھی کوئی شک نھیں ھے بلکہ یہ کھا جائے کہ وہ تمام صفاتِ جمال وکمال کا مالک ھے، (ان الفاظ کے بھر پور معنی میں) اور اس کی یہ صفات ذاتی ھیں یعنی اضافی نھیں ھیں ، جیسا کہ بعض اذھا ن میں اس کا تبادر هوتا ھے، بلکہ خداوند عالم کی یہ تمام صفات ذاتی اور لازمی ھیں جن کو علماء علم کلام “عین ذات” کہتے ھیں۔
اور یہ بات اپنی جگہ ثابت هوچکی ھے کہ حقیقی حاکمیت خداوندعالم ھی کی ھے کیونکہ وھی ھر چیز پر قادر ھے جو چاھے کرسکتا ھے اس کی ذات ھے :
<لَا یَسْاٴَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ> [3]
“جو کچھ وہ کرتا ھے اس کی پوچھ گچھ نھیں هوگی (ھاں) اور لوگوں سے باز پرس هوگی۔”
<قُلْ مَنْ بِیَدِہِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیءٍ>[4]
“(اے رسول) تم ان لوگوں سے پوچھو کہ بھلا اگر تم کچھ جانتے هو تو(بتاؤ) کہ وہ کون ھے جس کے اختیار میں ھر چیز کی بادشاہت ھے۔”
اس کی ذات میں خطا اور غلطی کا ذرہ برابر بھی امکان نھیں ھے اور اس کی قدرت کاملہ کے سامنے کوئی قدرت نھیں آسکتی۔
نیز اسی طرح یہ بات بھی مسلم ھے کہ حاکمیتِ قانونی صرف اور صرف خداوندعالم ھی کی ذات کے لئے ھے جس میں اس کا کوئی شریک نھیں ھے:
<اِ نِ الْحُکْمُ اِلاّٰ لِلّٰہِ اَمَرَ اٴَنْ لَا تَعْبُدُوْا اِلاّٰ اِیَّاہُ۔>[5]
“حکومت تو بس خدا ھی کے لئے خاص ھے اس نے تو حکم دیا ھے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔”
<وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنْزَلَ اللّٰہُ فَاٴُوْلٓئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ۔>[6]
“(اور سمجھ لو) جو شخص خدا کی نازل کی هوئی (کتاب) کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ھی لوگ کافر ھیں۔”
یہ بات گذشتہ آیات ودلائل کے ذریعہ ثابت هوچکی ھے کہ انسا ن کی موت کے بعد اس سے بڑا سخت حساب وکتاب هوگا کہ اگر انسان فرمانبردار تھا تو اس کو جزا وثواب ملے گا اور اطاعت کے بدلے اس کو نعمتیں اور سعادت ابدی نصیب هوگی، اور اگر کوئی شخص گناہگار تھا تو اس کی نافرنی کی بدولت اس کو عذاب اور بدبختی میں مبتلا کیا جائے گا۔
چنانچہ ان تمام مذکورہ باتوں سے نتیجہ یہ نکلتا ھے جس کو ماننا اور اقرار کرنا ھر انسان کا فریضہ ھے کہ وہ حاکم مطلق جس میں حقیقی اور قانونی حاکمیت دونوں موجودھےں اور جس کے قبضہ قدرت میں ثواب وعقاب ھے توپھر اس حاکم کے لئے ضروری ھے کہ وہ پاک وپاکیزہ اور عادل هو، اور اس کی پاکیزگی عدل مطلق کے درجہ تک پهونچی هوئی هو، تاکہ انسان اپنی خوشی اور اطمینان اور رضایت کے ساتھ اس کی اطاعت کرے اور اس کی ذات کو تمام شهوات اور نفسانی خواہشات سے پاک ومنزہ مانے، اس حاکم کی عدالت پر بھر پور اعتماد کرے، تاکہ اس کے احکام اور اس کی عدالت میں کوئی شک وشبہ نہ هونے پائے، اور اگر اس حاکم کی عدالت پر ایما ن نہ هو اور اس کو ظلم وجور سے پاک ومنزہ نہ مانے تو پھر انسان اپنے نفس کو نفس پرستی سے نھیں روک سکتا ، اور نہ ھی اپنے کو اعمال صالحہ پر پابند بناسکتا ھے اور نہ ھی اپنے کو محرمات سے روک سکتا ھے۔
عدل کے عقیدہ کے لئے اور اس کو ارکان اسلام کا ایک اھم رکن ماننے نیز ظلم کو قبیح ماننے اور اسی کو برائی وفساد کی بنیاد ماننے کے لئے ھمارے لئے کافی ھے کہ قرآن کریم نے ھم سب لوگوں کو عدل وانصاف کا حکم دیا ھے اور ظلم وستم سے منع فرمایا ھے جیسا کہ عقل بھی یھی حکم کرتی ھے، چنانچہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اس مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ھے۔
عدل کے بارے میںقرآن مجید میں ارشاد هوتا ھے:
<إِنَّ اللّٰہَ یَاٴمَرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ>[7]
“بے شک خداوند عالم انصاف اور (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے اور احسان کا حکم کرتا ھے۔”
<اِعْدِلُوْا هو اٴَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ>[8]
“تم (ھر حال میں) انصاف کرو، یھی پرھیزگاری سے بہت قریب ھے۔”
<وَ إِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اٴَنْ تَحْکَمُوْا باِلْعَدْلِ>[9]
“اور جب لوگوں کے باھمی جھگڑوں کا فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔”
<وَاٴُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ>[10]
“اور مجھے حکم هوا ھے کہ میں تمھارے (اختلافات کے) درمیان انصاف (سے فیصلہ) کروں۔”
<ہَلْ یَسْتَوِیْ هو وَمَنْ یَاٴْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ هو عَلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ>[11]
“کیا وہ شخص جو لوگوں کو عدل میانہ روی کا حکم کرتا ھے اور وہ خود بھی سیدھی راہ پر قائم ھے۔”
<وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ صِدْقاً وَعَدْلاً >[12]
“اور سچائی اور انصاف میں تو تمھارے پروردگار کی بات پوری هوئی۔”
اسی طرح قرآن مجید میں ظلم وستم سے نھی کی گئی ھے اور ظلم کے نتائج سے باخبر کیا گیا ھے، چنانچہ ارشاد خداوندی ھے:
<قَالَ اٴَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسُوْفَ نُعَذِّبُہُ>[13]
” جو شخص سرکشی کرے گا ھم اس کو فوراً سزا دیں گے۔”
<وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظَّاْلِمِیْنَ>[14]
“خدا ظالموں کو دوست نھیں رکھتا۔”
<لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الظَّاْلِمِیْنَ>[15]
“ظالموں پر خدا کی لعنت ھے۔”
<وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اٴیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلَبُوْنَ>[16]
“اور جن لوگوں نے ظلم کیا انھیں عنقریب معلوم هوجائے گا کہ وہ کس جگہ لوٹائے جائیں گے۔”
<فوَیلُ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اٴَلِیْمٍ>[17]
“جن لوگوں نے ظلم کیا ان پر درد ناک دن کے عذاب سے افسوس ھے۔”
<وَمَا ظَلَمْنَاْہُم وَلَکِنْ کَانُوْا اٴَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ>[18]
“ان پر کچھ ظلم نھیں کیا مگر وہ لوگ خود اپنے اوپر ستم توڑتے رھے ھیں۔”
<وَمَا ظَلَمْنَاْہُمْ وَلَکِنْ ظَلَمُوْا اٴَنْفُسَہُمْ >[19]
“اور ھم نے کسی طرح ان پر ظلم نھیں کیا بلکہ ان لوگوں نے آپ اپنے اوپر (نافرمانی کرکے) ظلم کیا۔”
قارئین کرام ! یہ تھیں قرآن مجید کی بعض وہ آیات جن میں خداوند عالم نے عدل کا حکم دیا ھے اور عدل کی ترغیب (رغبت) دلائی ھے نیز ظلم وجور سے روکا ھے اور اس کے نتائج سے مسلمانوں کو باخیر کیاھے، (اور اس سلسلہ میں مزید بہت سی آیات ھیں جن کو اختصار کے پیش نظر بیان نھیں کیا گیا ھے)
لہٰذا ان تمام آیات کے پیش نظر خداوندعالم کو عادل مطلق اور ظلم سے پاک وپاکیزہ ماننا ضروری ھے۔
حقیقت یہ ھے کہ خداوندعالم کو عادل ماننے کے لئے ھمیں کسی قرآنی آیت یا دوسری لفظی دلیلوں کے سھارے کی کوئی ضرورت نھیں ھے بلکہ خود عقل انسانی اس مسئلہ پر بہترین دلیل ھے، کیونکہ عدل کو حسن ماننا اور ظلم کو قبیح ماننا عقل کے ان مسلمات میں سے ھے جن کے لئے کسی بھی دلیل وبرھان کی ضرورت نھیں ۔
کیونکہ اگر کوئی انسان آپ کی مکمل طور پر اطاعت کرے اور آپ کے احکامات کو مکمل طریقہ سے انجام دے لیکن پھر بھی آپ کی طرف سے یہ یقین هو کہ آپ اس کو پریشان کریں گے یا اس کو اذیت دیں گے یا آپ اس کی اطاعت کا صلہ نھیں دیں گے، تو انسانی عقل چاھے مومن هو یا کافر اس بات کے لئے قطعی راضی نھیں هوگی بلکہ اس کام کو بہت برا اور پست ترین صفات میں شمار کرے گی۔
اسی بنا پر اس مسئلہ میں کوئی بھی مخالف نھیں ھے۔
اور چونکہ خداوندعالم (جوکہ کمالِ مطلق ھے) ایک عام انسان کے اخلاق سے گرا هوا نھیں ھے (تعالی اللّٰہ عن ذالک علواً کبیراً)
مزید وضاحت:
قارئین کرام ! ھم ایک بنیادی اور اھم قاعدہ پر ایمان رکھتے ھیں (جیسا کہ عقل کا فیصلہ بھی یھی ھے) جس کا خلاصہ یہ ھے کہ خداوندعالم کے افعال صرف اور صرف حسن (نیک) هوتے ھیں، یعنی خداوندعالم کسی بھی فعلِ قبیح کا مرتکب نھیں هوتا کیونکہ خداوندعالم اس برے فعل کی برائی جانتا ھے اور اس فعل کے انجام دینے میں کوئی رغبت بھی نھیں رکھتا،کیونکہ جب کوئی انسان کوئی برا کام کرتا ھے تو اس کو کسی نہ کسی غرض کے لئے یا اس کی برائی سے لاعلمی کی وجہ سے یا اس کو کسی ذاتی مصلحت کے لئے انجام دیتا ھے، لہٰذا خداوندعالم اس برے کام کو اس لئے نھیں انجام دیتا کہ وہ ھر چیز سے بے نیاز ھے، ھر چیز کا عالم ھے اور کسی چیز کا محتاج نھیں ھے۔
اسی طرح ھم یہ بھی عقیدہ رکھتے ھیں (گذشتہ قاعدہ کے تحت اور عقلی حکم کی بنا پر بھی) کہ خداوندعالم کا ھر کام کسی نہ کسی غرض اور کسی نہ کسی فائدہ کے لئے هوتا ھے:
<وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاٴَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلاً >[20]
“اور ھم نے آسمان اور زمین اورجو چیزیںان دونوں کے درمیان ھیں بے کار نھیں پیدا کیا۔”
<اٴَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَاْ خَلَقْنَاکُمْ عَبَثاً>[21]
“تو کیا تم یہ گمان کرتے هو کہ ھم نے تم کو یوں (ھی) بے کار پیدا کیا ھے۔”
مذکورہ آیت میں فعل عبث (بے هودہ کام)کی نفی کی گئی اور بے هودہ کام بے غرض هوتا ھے اور بے غرض وبے مقصد کام حکیم اور صاحب عقل کے لئے قبیح هوتاھے اور جیسا کہ ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ فعل قبیح خداوندعالم کے لئے محال ھے۔
غرض سے ھماری مراد یہ نھیں ھے (جیسا کہ بعض خود غرض لوگوں نے مراد لی ھے) بلکہ وہ غرض جو خدا کی طرف پلٹتی ھے وہ ذاتی مصلحت یا ذاتی منفعت کے تحت هوتی ھے، اور چونکہ خداوندعالم کسی چیز کا محتاج نھیں ھے اور نہ خدا کے لئے ھماری اصطلاح کے مطابق کوئی مصلحت ھے بلکہ اس غرض سے انسانوں کا فائدہ اور نظام کائنات کی مصلحت مراد هوتی ھے۔
اور چونکہ خداوندعالم کا کوئی بھی کام عبث اور لهو ولعب نھیں هوتا ،تو پھر ضروری ھے کہ خدا کے بارے میں یہ ایمان رکھیں کہ وہ اپنے بندوں سے اطاعت چاہتا ھے اور نافرمانی کو ناپسند سمجھتا ھے:
<یُرِیْدُ اللّٰہُ اٴَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمَاْتِہِ>[22]
“خدا یہ چاہتا ھے کہ دینی باتوںسے حق کو ثابت کرے”
<وَلاٰ یَرْضٰی لِعَبَادِہِ الْکُفْرَ>[23]
“(خدا) اپنے بندوں سے کفر اور ناشکری پسند نھیں کرتا”
<فَاِنَّ اللّٰہَ لاٰ یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِیْنَ>[24]
“خدا قوم فاسقین سے ھر گز راضی نہ هوگا”
<یُرِیْدُ لِیُطَهرکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکُمْ>[25]
“(خدا) یہ چاہتا ھے کہ تم کو پاک وپاکیزہ کردے اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کردے”
<یُرِیْدُ اللّٰہَ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَیَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ>[26]
“خدا تو یہ چاہتا ھے کہ (اپنے احکام) تم لوگوں سے صاف صاف بیان کردے اور جو اچھے لوگ تم سے پھلے گذر چکے ھیں ان کے طریقہ پر چلادے”
قارئین کرام ! یہ وہ حقیقت ھے جس کے لئے کسی لفظی دلیل کی ضرورت نھیں ھے بلکہ ھمارے لئے کافی ھے کہ خداوندعالم نے تمام لوگوں کی اطاعت کا حکم دیا ھے، (اور اس کے لئے حکم کرنا صحیح نھیں ھے مگر وھی کام جس کا وہ ارادہ کرے) اور خداوندعالم نے لوگوں کو اپنی نافرمانی سے منع فرمایا ھے (اور اس کا نھی کرنا صحیح نھیں ھے مگر جس کام کو وہ ناپسند کرے) بلکہ یہ بات عقلی لحاظ سے بھی صحیح نھیں ھے کہ جس کام کو نھیں چاہتا اس کا حکم دے اور جس کو پسند کرتا ھے اس سے روکے۔
لیکن بعض مسلمان متکلمین نے اس بات کو ماننے سے انکار کیا ھے اور کہتے ھیں کہ وہ تمام اطاعتیں اور نافرمانیاں جن کے انسان مرتکب هوتے ھیں وہ تمام افعال خدا میں سے ھیں اور وہ سب خداکے خاص ارادہ کے تحت انجام پاتے ھیں، (یعنی تمام کام خدا کرتا ھے انسان کچھ نھیں کرتا)
چنانچہ اس بات پر ان کی دلیل دو چیزیں ھیں:
پھلی دلیل:۔ اگر خداوندعالم صرف اطاعت کا ارادہ کرے، تو پھر اس کا ارادہ ھر حال میں متحقق هونا چاہئےے، اگرچہ بندہ اس کی مخالفت ھی کیوں نہ کرنا چاھے ، کیونکہ اگر انسان نافرمانی کا ارادہ کرے، تو یہ خداوندعالم کے ارادہ کے خلاف ھے جس کے معنی یہ ھیں کہ خداوندعالم کا ارادہ فیل هوگیا ھے، (نعوذ باللہ) اور خدا کے ارادہ پر بندہ کے ارادہ کا غلبہ هوگیا ھے، اور یہ بات غیر ممکن اور غیر معقول ھے۔
لہٰذا یہ بات کھی گئی کہ خداوندعالم ھمیشہ اپنے بندوں سے اطاعت نھیں چاہتابلکہ جو وہ چاھے وہ انجام پاتا ھے۔
قارئین کرام ! اس مذکورہ اعتراض کا جواب یہ ھے کہ خداوندعالم ھرحال میں اطاعت چاہتا ھے لیکن خداوندعالم بندہ کو مجبور نھیں کرتا بلکہ وہ یہ چاہتا ھے کہ بندہ خود اپنی مرضی،رغبت اور یقین کے ساتھ اس کی اطاعت کرے، اور صرف مکلف کے ارادہ سے وجود پائے، بغیر اس کے خداوندعالم کے ارادہ سے اس کا کوئی ربط هو۔
دوسری دلیل:۔ خداوندعالم جس چیز کے انجام پانے کے بارے میں علم رکھتا ھے اس کا انجام پانا ضروری هوتا ھے اور اس کا جس چیز کے نہ هونے پرعلم هوتا ھے اس کو انجام نھیں پانا چاہئے۔
پس جب خداوندعالم کسی انسان سے اطاعت نہ کرنے کا علم رکھتا ھے تو پھر انسان پر اس کا انجام دینا محال ھے، کیونکہ وہ ایسا کام کیسے کرسکتا ھے جو محال هو، اور چونکہ خداوندعالم ھر چیز پر احاطہ رکھتا ھے تو پھر بندوں کے تمام افعال، خداوندعالم کے علم کے مطابق هونے چاہئےں ، چاھے بندہ اس کام کا ارادہ کرے یا نہ کرے، لہٰذا انسان کے لئے اطاعت ونافرمانی میں کوئی اختیار نھیں ھے۔
اس اعتراض کے جواب کا خلاصہ یہ ھے کہ خداوندعالم کے علم کا مطلب یہ ھے کہ اس کے سامنے تمام حقائق واضح اورتمام چیزیں روشن ھیں اسی وجہ سے خداوندعالم کا ابولھب کے کفر اور ھمیشگی عذاب کے بارے میں خبر دینا ھے، کیونکہ خداوندعالم کو معلوم ھے کہ یہ شخص اسلام کا اقرار نھیں کرے گا اور آخر عمر تک اپنے کفر پر بضد رھے گا، اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ خداوندعالم کا علم اس کے ایمان نہ لانے کا سبب ھے اور آخر عمر تک اس کے کفر پر باقی رہنے کا باعث ھے۔
قارئین کرام ! اس بات کو سمجھانے کے لئے ھم ایک دنیاوی مثال پیش کرتے ھیں:
فرض کیجئے جب کوئی ڈاکٹر کسی مریض کود یکھتا ھے اور اس کا معائنہ کرنے کے بعد اس کے نہ بچنے کی خبر دیتا ھے تو اس کی وجہ اس کا خطرناک مرض هوتاھے اور کبھی کبھی اس کے تیمارداروں کو یہ بھی خبر دیدیتا ھے کہ یہ شخص مرنے سے پھلے بہت زیادہ درد وپریشانی میں مبتلا رھے گا۔
کیونکہ ڈاکٹر اس کے مرض کی کیفیت کو اچھی طرح جانتا ھے تو کیا کوئی انسان یہ کہہ سکتا ھے کہ اس شخص کی موت کا سبب ڈاکٹر کا علم ھے؟! یا یہ کہ ڈاکٹر کا علم اور اسی کی موت کا خبر دینا ڈاکٹر پر اس کی حقیقت واضح و روشن هونے کی وجہ ھے۔
اس طرح کی گفتگو کرنے والوں پر یہ بات پوشیدہ رھی ھے اور انھوں نے دو فاعلوں میں غلط فھمی کی ھے کیونکہ کوئی فاعل جیسے انجینیر، موٴلف اور شاعر کے لئے ضروری ھے کہ یہ لوگ پھلے اپنے کام کو اپنے ذہن میں تصورکریں کیونکہ اسی تصور کے تحت ان کی کتاب، قصیدہ اور نقشہ تیار هوتا ھے جو ان کے سابق علم کا معلول هوتا ھے۔
لیکن واقعیات کا علم (مثلاً بندوں کے افعال پر خداوندعالم کاعلم) اس کے بر خلاف هوتا ھے کیونکہ ان کا علم صرف کشف حقیقت هوتا ھے اور جس طرح هونے والا هوتا ھے اسی پرعلم هوتا ھے اور اس علم میں علت وسبب کا کوئی تصور نھیں پایا جاتا۔
قارئین کرام ! ھمارے لئے یہ بات واضح ھے کہ ان دونوں اعتراضات میں کوئی بھی ایسی دلیل نھیں ھے جس سے گذشتہ مطلب ثابت هوسکے، کیونکہ خداوندعالم اپنے ارادہ میں انسان کو مجبور نھیں کرتا، اور نہ ھی اس کا علم اطاعت ومعصیت کا سبب بنتا ھے۔
جیسا کہ ارشاد پروردگار ھے:
<وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاّٰ مَا سَعٰی>[27]
“اور یہ کہ انسان کو وھی ملتا ھے جس کی وہ کوشش کرتا ھے۔”
<وَمَنْ کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہُ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحاً فَلِاٴَنْفُسِہِمْ یَمْہَدُوْنَ>[28]
“جوکافر بن بیٹھا اس پر اس کے کفر کا وبال ھے اور جنھوں نے اچھے کام کئے وہ اپنے ھی لئے آسائش کا سامان کررھے ھیں”
قارئین کرام ! ان اعتراضات کے جوابات اور ردّ نیز ان جیسے اعتراضات کے مزید جواب آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں۔
جبر واختیار
“جبر واختیار” کا مسئلہ ایک طولانی بحث کا حامل ھے چند صفحات میں اس کو بیان نھیں کیا جاسکتا اور نہ ھی اس کتاب میں اس کی تفصیل بیان هوسکتی ھے۔
اور چونکہ مسئلہ “جبر” ایک سیاسی حربہ ھے یہ صرف غیر مذھبی حکام نے اپنے افعال واعمال کو صحیح کرنے کا ایک ذریعہ نکالا ھے ، ان کا مقصد صرف اسلام کے مخالف اعمال کو غیر اختیاری (جبری) کہہ کر عذر پیش کرنا ھے ۔
یہ موضوع بہت سے شعبے اور مختلف پھلو رکھتا ھے اسی وجہ سے علم کلام کے اھم مسائل میں شمار هوتا ھے اور عقائد کے باب میں اھم باب ھے اور دینی مسائل کا ایک مشکل مسئلہ ھے۔
مسئلہ “جبر” یااس کے مثل دوسرے مسائل جن پر بعض مسلمانوں کا عقیدہ ھے ان کی بنیاد یہ ھے کہ انسان کے افعال واعمال صرف اس کے ارادہ واختیار سے انجام نھیں پاتے بلکہ وہ خداوندعالم کے ارادہ اور اس کے حکم سے انجام پاتے ھیں اور ان کے انجام دینے میں انسان کا کوئی کردار نھیں هوتا، اس نظریہ کو “جبر” کھا جاتا ھے جس کے نتیجہ میں انسان کو مجبور ماننا پڑتا ھے، چاھے وہ اطاعت هو یا معصیت یعنی ان کے انجام پر مجبور هوتا ھے چاھے ان کا ارادہ کرے یا نہ کرے۔
چنانچہ جبر کے قائل لوگوں نے اپنے گمان کے مطابق قرآن کریم کی بعض وہ آیات جن میں اس بات کا ایک ھلکا سا اشارہ پایا جاتا ھے، پیش کی ھیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ھے:
<قُلْ لَنْ یُصِیْبَنَا اِلاّٰ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا>[29]
“(اے رسول) تم کہہ دو کہ ھم پر ھر گز کوئی مصیبت نھیں پڑسکتی مگر وھی جو خدا نے (ھماری تقدیر میں) لکھ دیا ھے۔”
<قُل کُلُّ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ>[30]
“(اے رسول) تم کہہ دو کہ سب خدا کی طرف سے ھے”
لہٰذا ان آیات کے پیش نظر ان لوگوں نے یہ گمان کرلیا کہ ان آیات کے ذیل میں انسان کے افعال واعمال بھی آتے ھیں۔
جبکہ بعض مسلمانوں کا عقیدہ یہ ھے (کیونکہ وہ مذکورہ نظریہ کو باطل جانتے ھیں) کہ انسان او ر خداوندعالم میں سوائے خلق اول کے کوئی رابطہ نھیں ھے، یعنی خداوندعالم نے ان کو خلق کرنے کے بعد مکمل آزاد کردیا ھے اور تمام چیزوں کو انھیں پر چھوڑ دیا ھے ، ان کا خدا سے کوئی ربط نھیں ھے، ان کا ماننا یہ ھے کہ علت محدثہ معلول کی بقا کے لئے کافی ھے، اس حیثیت سے کہ معلول اپنے وجود کے بعد اپنی علت سے بے نیاز هوجاتا ھے کیونکہ وہ فقط پھلی علت حدوث کا محتاج هوتا ھے ،چنانچہ علماء علم کلام اس نظریہ کو” تفویض” کہتے ھیں یعنی خداوندعالم نے تمام کاموں کو انسان پر چھوڑ دیا ھے اور اب اس سے کوئی مطلب نھیں۔
جبکہ حقیقت میں صحیح نظریہ ان دونوں نظریات کا درمیانی راستہ ھے، اس سلسلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام کا بیان بہترین او ر دقیق ھے، آپ نے اپنی مشهور حدیث میں فرمایا:
“لا جبر ولا تفویض ، بل منزلة بین المنزلتین”[31]
(نہ جبر اور نہ تفویض بلکہ دونوں کا درمیانی راستہ صحیح ھے)وضاحت:
ھرانسان فطری طور پر اس بات کو سمجھتا ھے کہ وہ بہت سے کاموں پر قادر ھے اور وہ جن کاموں کا ارادہ کرے ان کو انجام دے سکتا ھے اور جن کاموں کو انجام نہ دینا چاھے ان کو چھوڑ سکتا ھے اور ھمارے لحاظ سے کوئی بھی ایسا انسان نھیں هوگا جو اس بات میں شک کرے، جو اس بات کی بہترین دلیل ھے کہ انسان مکمل طور پر آزاد ھے۔
اسی طرح ھر انسان یہ بات بھی اچھی طرح سمجھتا ھے کہ تمام صاحبان عقل اس بات پر متفق ھیں کہ جو شخص اچھے کام کرتا ھے اس کی مدح وتعریف کرتے ھیں اور جو شخص برے کام کرتا ھے اس کی مذمت کرتے ھیں، اور یہ بھی اس بات کی بہترین دلیل ھے کہ انسان اپنے افعال میں مکمل آزاد ھے اور (اگر اختیار نہ هو) تو صاحبان عقل کا مدح ومذمت کرنا صحیح نہ هوگا۔
اسی طرح انسان فطری طور پر اس بات کا بھی احساس کرتا ھے کہ انسان کے کسی بلندی سے سیڑھی کے ذریعہ نیچے اترنے اور بلندی سے زمین کی طرف کودنے میں فرق ھے کیونکہ انسان پھلی صورت پر قادر ھے اور دوسری صورت میں مجبور۔
اسی طرح عقل سلیم کے نزدیک یہ بات بھی مسلم ھے اور کسی کو بھی اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ انسان میں ان طاقت وتوانائی کا خلق کرنے والا ان کو ایجادکرنے کے بعد ان سے جدانھیںهوا ھے، بلکہ ان چیزوں کاباقی رہنا ھر لمحہ اس موٴثر کا محتاج ھے،کیونکہ ان اشیاء کا خالق کسی معمار کی طرح نھیںھے کہ مکان بننے کے بعد مکان کو معمار کی ضرورت نھیں هوتی،بلکہ عمارت اپنی جگہ پرباقی رہتی ھے چاھے اس کابنانے والا معمار مرھی کیوں نہ هوجائے، اسی طرح کتاب جو اپنے لکھے جانے میںکاتب کی محتاج ھے ، بلکہ اس کائنات اور جوکچھ اس میں موجود ھے؛کاخالق روشنی کے لئے بجلی کی طرح ھے کہ جب تک بجلی رہتی ھے روشنی باقی رہتی ھے، اورروشنی اپنی بقاء میں ھر لمحہ بجلی کی محتاج رہتی ھے اوراگر بجلی کا تار ایک لمحہ کے لئے ہٹالیاجائے تو روشنی فوراًختم هوجاتی ھے،بالکل اسی طرح اس کائنات کی تمام چیزیں اپنے وجود اور بقاء میںھر لمحہ اپنے مبدع اور مصدر (خالق) کی محتاج ھیں۔
قارئین کرام ! ھماری گذشتہ باتوں سے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ انسان کے اعمال وافعال جبر وتفویض کے درمیان هوتے ھیں، اور ان کے لئے دونوں میں حصہ هوتا ھے، لہٰذا فعل یا ترک کو انجام دینے کی طاقت اگرچہ انسان کے اختیار سے ھی هوتی ھے لیکن یہ قدرت خدا کا عطیہ ھے، اور انسان کا فعل ایک لحاظ سے خود انسان کی طرف منسوب هوتاھے، اور ایک لحاظ سے خدا کی طرف منسوب هوتا ھے۔
قرآن کریم کی وہ آیات جن سے “جبریوں” نے استدلال کیا ھے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ھیں کہ انسان کا اختیار کسی کام کو انجام دینے میں خدا کی قدرت کے نافذ هونے میں مانع نھیں بن سکتا، اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ انسان خدا کی ذات اور اس کی قدرت سے بے نیاز هوگیاھے ؟!!۔
اس سلسلہ میں ھمارے استاد آیت اللہ العظمیٰ امام خوئی رحمةاللہ علیہ نے اپنے درس میں “المنزلة بین المنزلتین”کی تفسیر کرتے هوئے درج ذیل بہترین مثال پیش کی:
“اگر کسی انسان کا ھاتھ اس طرح شَل هوجائے کہ وہ اس کو نہ چلا سکے، اور کوئی ڈاکٹر اس کے کوئی ایسا آلہ لگائے جس کی وجہ سے اس کا ھاتھ حرکت کرنے لگے، اس طرح کہ جب وہ آلہ لگا هوا هو تو انسان اپنے ھاتھ کو حرکت دے سکے، تو جب تک وہ آلہ لگا هوا ھے اس کا ھاتھ کام کرتا ھے اور جب اس کو الگ کردیا جائے تو اس کا ھاتھ اپنی پھلی حالت پر پلٹ جائے، تو جب اس کے وہ آلہ لگا هوا ھے اور وہ اپنے ھاتھ کو حرکت دینے پر قادر ھے اور اپنے معمولی کاموں کو انجام دے رھا ھے تو اس کی یہ حرکت دونوں چیزوں کی سبب هوگی ایک لحاظ سے صاحب دست کی طرف مستند ھے کیونکہ وہ اپنا ھاتھ خودچلا رھا ھے ، دوسری طرف وہ حرکت اس آلہ کی طرف بھی منسوب ھے کیونکہ وہ اس آلہ کے ذریعہ اپنا ھاتھ چلانے پر قادر ھے۔”
قارئین کرام ! یھی گذشتہ مثال مسئلہ “جبر وتفویض” کو اچھی طرح واضح کردیتی ھے کیونکہ ایک انسان حیات وقدرت کے عطا کرنے والے کا محتاج ھے جو ھر حال میں خدا کی طرف سے عطا هوتی ھے لہٰذا “تفویض” بھی نھیں اوردوسری طرف انسان اپنے اعمال میں مجبوربھی نھیں ھے اور اس کے افعال بغیر اس کے ارادہ کے انجام نھیں پارھے ھیں لہٰذا “جبر” بھی نھیں ھے۔
لہٰذامذکورہ مطلب کے پیش نظر ھم پر یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ انسان فعل وترک پر مکمل اختیار رکھتا ھے اور اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نھیں رہتی۔
اس سلسلہ میں مزید وضاحت کے لئے یعنی انسان کے مختار هونے کے سلسلہ میں کچھ دلائل پیش کرتے ھیں اور اس سلسلہ میں هوئے اعتراضات کے جوابات بھی پیش کرتے ھیں:
۱۔اختیاری اور اضطراری افعال میں فرق
ھم نے اس بات کی طرف پھلے بھی اشارہ کیا ھے کہ انسان کے وہ افعال جواس کے قصد وارادہ سے انجام پاتے ھیں اور ان افعال میں جو اس کے اراداہ کے بغیر انجام پاتے ھیں ان دونوں میں واضح فرق ھے مثلاً کسی کے ھاتھ میں رعشہ پیدا هوجائے اور اس کا ھاتھ ھلتا رھے، تو یہ اس کے مرض کی وجہ سے ھے اور انسان اس کو روکنے پر قادر نھیں ھے کیونکہ اسکے اختیار اورطاقت سے باھر ھے اور کبھی اس کاکام اختیاری هوتاھے اوروہ اپنے اختیارسے انجام دیتاھے۔
اسی طرح انسان دوسرے افعال میں بھی فرق محسوس کرتاھے کہ کچھ کام اس کے اختیار سے هوتے ھیں اور کچھ کام بغیر اختیار کے۔
او رجب ھمارے تمام افعال (ایک گمان کے مطابق) خداوندعالم کی مخلوق ھیں اور ان میں ھمیں ذرہ برابر بھی اختیار نھیں ھے تو پھر اختیاری و اضطراری کاموں میں فرق کااحساس کیسے کرسکتے ھیں؟!
اس سلسلہ میں بعض متکلمین نے فلسفہ تراشی کی ھے اور دونوں (اختیاری واضطراری) میں فرق بیان کیا ھے، ان کا کہنا ھے کہ فعل اضطراری وہ افعال ھیں جو خدا کے ارادہ سے انجام پاتے ھیں انسان کی قدرت او ر اس کے ارادہ کا کوئی دخل نھیں هوتا، او ر فعل اختیاری وہ هوتے ھیں جن کو خداوندعالم انسان کے ارادہ کے ساتھ ساتھ ایجاد کرتا ھے۔ لیکن ان کا یہ قول بالکل واضح البطلان ھے۔
کیونکہ اگرقدرت سے مراد ، مشهور لغوی معنی هوںکہ” اگر چاھے انجام دے اورنہ چاھے تو انجام نہ دے” تو یہ مذکورہ جبر کے معنی کے خلاف ھیں بلکہ یہ تو اختیار پر دلیل ھے اور اگر اس قدرت سے کوئی دوسرے معنی مراد هوں، تو پھر یہ اکراہ کے خلاف نھیں ھے، اور اس کو کبھی بھی قدرت نھیں کھا جاسکتا۔
لیکن اگر ارادہ کے معنی مذکورہ فلسفی لحاظ سے لئے جائیں تواسکے معنی بھی اختیار کے هوں گے۔ (جیسا کہ صحیح بھی ھے)کیونکہ قائل کے گمان کے مطابق یھاںپر اختیار ھے ھی نھیں۔ کیونکہ (دعوی کے مطابق) فعل انسان کے ارادے واختیارسے نھیں ھے، او ر اگر قائل کے نزدیک ارادہ کے معنی فعل کوانجام دینے میں رغبت مراد هو تو یہ رغبت فعل کا ایجاد کرنانھیںھے جیسا کہ ھماری عقل بھی یھی کہتی ھے،کیونکہ ایسے بہت سے کام ھیں جن میں انسان رغبت رکھتاھے لیکن صرف رغبت سے وہ کام نھیںهوپاتے، جبکہ رغبت عین فعل نھیں ھے (جیساکہ ھم پھلے کہہ چکے) تو پھراختیار واضطرار میں مذکورہ فرق لاحاصل هوجاتاھے۔۲۔اختیارکے سلسلہ میں قرآن مجید کی وضاحت :
قرآن مجید میںایسی بہت سی آیات موجودھیں جو اختیار کو بہترین طریقہ سے ثابت کرتی ھیں،اور واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ھےں کہ انسان اپنے افعال واعمال میں مکمل طور پر مختارھے اوراگر ھر فعل اس انسان کی طرف منسوب ھے جس میں کسی بھی طرح کی تاویل وتفسیرنھیں کی جاسکتی۔
ارشادخداوندی هوتاھے:
<کُلُّ امْرِیٴٍ بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ>[32]
“ھرشخص اپنے اعمال کے بدلے میں گرو ھے”
<مَنْ یَّعْمَلُ سُوْء اً یُجْزَ بِہِ >[33]
“اور جو بھی برام کام کرے گا بھر حال اس کو سزا ملے گی”
<اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ وَاِنْ اٴَسَاٴتُمْ فَلَہَا>[34]
“اگر تم لوگ اچھے کام کروگے تو اپنے فائدہ کے لئے کرو گے اور اگر برے کام کرو گے تو(بھی) اپنے لئے۔”
<فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوٴمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ>[35]
“بس جو چاھے ایمان لائے اور جو چاھے کفر اختیار کرے”
<فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْراً یَرَہُ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَہُ>[36]
“جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ھے وہ اسے دیکھ لے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی ھے تو اسے (بھی) دیکھ لے گا”
<وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبُّوْا الْعَمٰی عَلَی الْہُدیٰ>[37]
“اور رھے ثمود تو ھم نے ان کو سیدھا رستہ دکھادیا مگر ان لوگوںنے ہدایت کے مقابلہ میں گمراھی کو پسند کیا”
<اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ>[38]
“جو کچھ تم کرتے تھے تمھیں اس کی سزا دی جائے گی”
<وَاَنِّی لاٰ اُضِیْعُ عَمَلَ عَاْمِلٍ مِنْکُمْ>[39]
“ھم تم میں سے کسی کے عمل کو ضایع نھیں کرتے”
اسی طرح قرآن کریم میں دیگر آیات بھی موجود ھیں جو تمام کی تمام اس بات کی واضح دلیل ھیں کہ فعل کی نسبت اس کے اختیار کی وجہ سے خود انسان کی طرف ھے، لیکن کوئی فعل خدا کی مشیت اور اس کے ارداہ کے بغیر انجام نھیں پاتا۔
لیکن بعض لوگوں نے اس نظریہ کو نھیں مانا اور کھا کہ خداوندعالم کا یہ قول:
<اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیٴٍ> [40]
“اللہ ھر چیز کا خالق ھے”
اس بات کی دلیل ھے کہ تمام افعالِ انسان،خدا کی مخلوق ھیں کیونکہ “کُلِّ شَیٴٍ” میں افعال انسان بھی آتے ھیں اور یہ افعال صرف انسان کی تخلیق نھیں ھیں، لہٰذا یہ “جبر” ھے۔
جبکہ حقیقت یہ ھے کہ یہ آیت انسان کے افعال واعمال کے سلسلہ میں نھیں ھے بلکہ اس آیت میں ان لوگوں کے نظریہ کی رد ھے جو متعدد خالق مانتے تھے مثلاً زمین کا خالق، افلاک کا خالق، انسانوں کا خالق وغیرہ وغیرہ، لہٰذا یہ آیت ان لوگوں کی ردّ میں نازل هوئی ھے اور یہ کہتی ھے کہ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نھیں ھے اور تمام اشیاء کا خالق اللہ تعالیٰ ھی ھے۔
لفظ “خالق” کا خداوندعالم سے مخصوص هونا اس بات کی دلیل نھیں ھے کہ ھم اس کی خلقت کو تمام چیزوں میں عمومیت دیدیں یھاں تک انسان کے افعال بھی خدا کی مخلوق میں شمار هونے لگےں، کیونکہ قرآن مجید میں تو خلق کی نسبت انسان کی طرف بھی دی گئی ھے جیسا کہ ارشاد الٰھی هوتا ھے:
<وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَةِ الطَّیْرِبِاِذْنِی فَتَنْفَخُ فِیْہَا فَتَکُوْنُ طَیْراً بِاِذْنِی>[41]
“اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے چڑیا کی مورت بناتے پھر اس پر (کچھ) دم کردیتے تو میرے حکم سے (سچ مچ) چڑیا بن جاتی۔”
< اٴَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُم مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَةِ الطَّیْرِبِاِذْنِی فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْراً بِاِذْنِ الله۔>[42]
“میں گندھی هوئی مٹی سے ایک پرندہ کی مورت بناؤں گا پھر اس پر (کچھ) دم کرونگا تو وہ حکم خدا سے اڑنے لگے گا”
<وَتَخْلُقُوْنَ اِفْکاً>:[43]
“تم ان کو گھڑتے هو۔”
<فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اٴَحْسَنُ الْخَاْلِقِیْنَ>[44]
“(سبحان اللہ) خدا بابرکت ھے سب بنانے والوں سے بہتر ھے”
<وَتَذَرُوْنَ اٴَحْسَنَ الْخَاْلِقِیْنَ >[45]
“اور خدا کو چھوڑ بیٹھے هو جو سب سے بہتر پیدا کرنےوالا ھے”
قارئین کرام ! مذکورہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ انسان بھی خالق ھے لیکن خداوندعالم احسن الخالقین ھے۔ لیکن قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے یہ استدلال کرنا کہ افعالِ انسان، خداوندعالم کی ایجاد ھے:
<اَللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ > [46]
” خدا تمھارا خالق ھے اور جو کچھ تم انجام دیتے هو”[47]
کیونکہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ھے کہ جو کچھ انسان انجام دیتا ھے وہ خداوندعالم کی خلقت ھے تو نتیجہ باطل ھے کیونکہ یہ آیہٴ شریفہ پھلی آیت کا نتیجہ ھے ارشاد هوتا ھے:
<قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ >[48]
(جناب ابراھیم نے کھا کہ افسوس ) تم اس کی پرستش کرتے هو جسے تم لوگ خود تراش کر بناتے هو”
لہٰذا اس سوال کے جواب میں یہ مذکورہ آیت نازل هوئی:
<اَللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ > [49]
اگر انسان ان دونوں آیات کوسامنے رکھے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ آیہ کریمہ ان لوگوں کی ردّ میں نازل هوئی جو لکڑی اور پتھر سے بت بناکر ان کی عبادت کیاکرتے تھے اور ان سے قربت حاصل کرتے تھے، لہٰذا خداوندعالم نے اس آیت کے ذریعہ یہ ظاھر کردیا کہ ھم ھی نے ان مشرکین کو پیدا کیا ھے اور ان چیزوں کو پیدا کیا جن کے ذریعہ سے مشرکین بت بناتے ھیں۔
لہٰذا اس آیت میں بندوں کے افعال واعمال کے متعلق کوئی بات نھیں ھے۔
۳۔ عذاب، خود اختیا رپر دلیل ھے :
قارئین کرام ! خداوندعالم کا گناہکاروں پر عذاب کرنا، انسان کے مختار هونے پر بہترین دلیل ھے، اس سلسلہ میں قرآن مجید میںموجودہ آیات کو ملاحظہ فرمائیں:
<لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ >[50]
“اگر (کھیں) شرک کیا تو یقیناً تمھارے سارے اعمال اکارت هوجائیں گے اور ضرور تم گھاٹے میں آجاؤگے”
<فَلاَیُجْزَی الَّذِینَ عَمِلُوا السَّیِّئَاتِ إِلاَّ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ >[51]
“اور برائی کرنے والوں کو اتنی ھی سزا دی جائے گی جیسے وہ اعمال کرتے رھے ھیں”
< یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اٴَلْسِنَتُہُمْ وَاٴَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ>[52]
“جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ھاتھ اور پیر ان کی کارستانیوں کی گواھی دیں گے”
<وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ>[53]
“اور جیسی جیسی تمھاری کرتوتیں تھیں (ان کے بدلے) اب ھمیشہ عذاب کے مزے چکھو”
<وَقِیْلَ لِلظَّالِمِیْنَ ذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْسِبُوْنَ>[54]
“اور ظالموں سے کھا جائے گا کہ تم دنیا میں جو کچھ کرتے تھے اب اس کے مزے چکھو۔”
<فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اٴَمِرِہِ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَةٌ>[55]
“جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ان کو اس بات سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ (مبادا) ان پر کوئی مصیبت آپڑے”
<وَمَنْ یَزِغْ مِنْہُمْ عَنْ اٴَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ>[56]
“اور جس نے ھمارے حکم سے انحراف کیا اسے ھم (قیامت میں) جہنم کے عذاب کا مزا چھکائیں گے”
کیونکہ اگر خداوندعالم اپنے بندوں کے افعال کا خالق هو اور پھر ان کاموں پر ان کو عذاب میں بھی مبتلا کرے تو یہ محال ھے کیونکہ یہ تو کھلم کھلا ظلم ھے، (کہ افعال کو خود انجام دے اور سزا بندوں کو دے) اور خداوندعالم ھر ظلم سے پاک وپاکیزہ ھے:
<وَمَارَبُّکَ بِظَلاّٰمٍ لِلْعَبِیْدِ>[57]
“اور تمھارا پروردگا ر بندوں پر (کبھی) ظلم کرنے والا نھیں ھے”
<وَاَنَّ اللّٰہَ لَیْس بِظَلاّٰمٍ لِلْعَبِیْدِ>[58]
” خدا تو کبھی بندوں پر ظلم کرنے والا نھیں”
<وَمَا اٴَنَابِظَلاّٰمٍ لِلْعَبِیْدِ>[59]
“اور میں اپنے بندوں پر (ذرہ برابر بھی) ظلم کرنے والا نھیں هوں”
<وَمَا اللّٰہُ یُرِیْدُ ظُلْماً لِلْعَالَمِیْنَ>[60]
“اور خدا سارے جھان کے لوگوں (میںسے کسی) پر ظلم کرنا نھیں چاہتا”
<وَمَا اللّٰہُ یُرِیْدُ ظُلْماً لِلْعِبَادِ>[61]
“اور خدا تو اپنے بندوں پر ظلم کرنا چاہتا ھی نھیں”
<اِنَّ اللّٰہَ لاٰ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ>[62]
“خدا تو ھر گز ذرہ برابر بھی ظلم نھیں کرتا”
<اِنَّ اللّٰہ لاٰ یَظْلِمُ النَّاْسَ شَیْئاً>[63]
“خدا تو ھر گز لوگوں پر کچھ ظلم نھیں کرتا”
<وَلاٰ یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحداً>[64]
“اور تیرا پروردگار کسی پر (ذرہ برابر) ظلم نہ کرے گا”
(یہ تھیں وہ آیات جن میں خداوندعالم نے اپنے سے ظلم کی نفی کی ھے۔)
لیکن بعض علماء علم کلام نے خداوندعالم کی طرف ظلم کی نسبت کو صحیح مانا ھے ، چنانچہ ان کے نظریہ کا خلاصہ یہ ھے:
“خداوندعالم کے لئے ظلم قبیح نھیں ھے کیونکہ وہ ظلم قبیح ھے جس کو عقل مکروہ جانے، یعنی وہ ظلم قبیح ھے جو دوسرے پر کیا جائے لیکن اگر اپنے پر ظلم کیا جائے چاھے وہ اپنے بدن پر هو یا اپنے مال اور اپنی عزت پر،کیونکہ انسان اپنے مال میں تصرف کرنے میں آزاد ھے اور بغیر کسی قید وشرط کے تصرف کرسکتا ھے اور اس کا یہ تصرف کرنا قبیح نھیں ھے۔
اسی طرح خداوندعالم کو بھی اپنی مخلوقات میں تصرف کرنے کامکمل حق ھے کیونکہ وھی ان کا خالق اور مالک ھے اور چونکہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ھے وہ سب اللہ کی ملکیت ھے اور اس کی قدرت وسلطنت کے آگے خاضع ھیں، لہٰذا وہ جس طرح چاھے ان میں تصرف کرسکتا ھے، پس جس کو چاھے عذاب کرے چاھے وہ مومن ھی کیوں نہ هو، اور جس کو چاھے اپنی نعمتوں سے سرفراز کرے چاھے وہ کافر ھی کیوں نہ هو، کیونکہ تمام انسان اس کی ملکیت ھےں:
<وَلاٰ یُسْاٴَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْاٴَلُوْنَ >[65]
“جو کچھ وہ کرتا ھے اس کی پوچھ گچھ نھیں هوسکتی (ھاں) اور لوگوں سے باز پرس هوگی۔”
لہٰذا انسان کو یہ حق نھیں ھے کہ خدا کی عظمت کے سامنے اپنی قابلیت دھائے اور کھے کہ خداوندعالم کا یہ فعل حسن ھے اور یہ فعل قبیح۔
قارئین کرام ! یہ اعتراض چند وجوھات سے مردود اور باطل ھے:
۱۔ کیونکہ خداوندعالم کے بارے میں حکمِ عقل کے فرض کی گفتگو نھیں ھے بلکہ اس چیز کا بیان ھے جس سے بندوں کے معاملات میں فضل ولطف کی امید هو، کیونکہ ھم اس بات کو مکمل طور پر قبول کرتے ھیں کہ محال پر تکلیف کرنا یا جس کام کے انجام دھی کی قدرت نہ هو، اس کا حکم دینا یا گناہکار کوجنت میں داخل کرنا یا مطیع اور فرمانبردار کو جہنم میں داخل کرنا، ان تمام چیزوں پر خداوندعالم مکمل قدرت رکھتا ھے، اور ھر طریقہ کا تصرف کرسکتا ھے اور کوئی بھی حکم کرسکتا ھے، اور ھم یہ بھی یقین رکھتے ھیں کہ وہ اس طرح کے کام انجام نھیں دیتا لیکن اس کا ان کاموں کو انجام نہ دینا اس کے لطف وکرم کی وجہ سے ھے نہ یہ کہ وہ ان کاموں کو انجام دینے سے قاصر اور عاجز ھے۔
۲۔ اگر ھم ظلم کو قبیح نہ مانیں تو پھر انسان خداوندعالم کے احکامات کی پیروی نھیں کرے گا کیونکہ ان احکامات اور ان کے نتائج کے درست هونے پر یقین نہ هوگا، اور اسی طرح اس کو خدا کے وعدہ وفا کرنے پر بھی اطمینان نہ هو گا۔
جبکہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:
<اِنَّ اللّٰہَ لاٰ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ>[66]
“بے شک خدا اپنے وعدہ کے خلاف نھیں کرتا”
کیونکہ یہ سب کچھ اس اعتبار سے ھے کہ ظلم، کذب اور خلف وعدہ قبیح ھے، لیکن اگر مسئلہ قبح وقباحت کو ہٹالیا جائے جیسا بعض لوگوں کا گمان ھے تو پھر انسان، خدا کی اطاعت، خواہشات نفس کی مخالفت هوا اور نفس امارہ سے جنگ پر اطمینان اور اعتماد نھیں کرے گا۔
۳۔ ظلم کسی غیر پر تعدی کرنے سے مخصوص نھیں ھے بلکہ درمیانی راستہ سے افراط وتفریط کرنا بھی ظلم ھے، اسی وجہ سے کھا جاتا ھے کہ فلاں شخص نے اپنے اوپر ظلم کیا، جبکہ اس سے مراد یہ هوتی ھے کہ وہ شخص اپنے تصرف، لباس، طعام، اور خرچ میں راہ اعتدال سے خارج هوگیا ھے، درحالیکہ یہ سب کچھ اس کی ملکیت میں هوتے ھیں، اور وہ اپنے مال میں تصرف کرنے میں بھی مکمل آزاد هوتا ھے لیکن مذکورہ طریقہ کو عرف عام میں ظلم شمار کیا جاتا ھے۔
مثلاً اگر کوئی انسان کسی حیوان کو مارے جبکہ وہ حیوان اس کی ملکیت بھی هو، اور اس کا فرمانبردار ،اور اس کو اذیت نہ دینے والا هو تو کیا اس کو مارنے پر یہ عذر پیش کرسکتا ھے کہ میں تو اس کا مالک هوں؟!
۴۔ ظلم قبیح ھے۔
اگر انسان اپنے افعال کے انجام دینے پر قادر اور مختار نہ هو،اور صرف اس کے ارادہ سے ایجاد هوجائے تو پھر خداوندعالم(معاذ اللہ) “اظلم الظالمین” هوجائےگا، کیونکہ گناہگار شخص کو عذاب دیا جانا ضروری ھے اور چونکہ معصیت انسان کے اپنے اختیار سے نھیں ھے، لہٰذا اس کو عذاب کرنا کئی گنا ظلم سے بھی بُرا ھے۔
قارئین کرام ! “جبر” کا عقیدہ رکھنے والے اس سلسلہ میں دو جواب پیش کرتے ھیں:
۱۔ عذاب کسی فعل کی بنا پر نھیں ھے بلکہ “کسب “کی بنا پر ھے۔
لیکن ھم ان کے جواب میں کہتے ھیں کہ:
جو بات “کسب” کے لغوی معنی اور قرآن کریم میں استعمالات سے سمجھی جاتی ھے وہ یہ ھے کہ کسب اختیار کے ذریعہ انجام شدہ فعل کو کہتے ھیں، جیسا کہ ارشاد هوتا ھے:
<وَمَنْ یَکْسِبْ اِثْماً فَاِنَّمَا یَکْسِبُہُ عَلیٰ نَفْسِہِ>[67]
“اور جو شخص کوئی گناہ کرتا ھے تو اس سے کچھ اپنا ھی نقصان کرتا ھے”
<لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَااکْتَسَبَتْ>[68]
“اس (انسان) نے اچھا کام کیا تو اپنے نفع کے لئے اور برا کام کیا تو اس کا (وبال) اسی پر پڑے گا”
<وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اٴَیْدِیَہُمَا جَزَاءً بِمَا کَسَبَا>[69]
“اور چور خواہ مرد هو یا عورت تم ان کے کرتوت کی سزا میں ان کا (داہنا) ھاتھ کاٹ ڈالو”
<وَالَّذِیْنَ کَسَبُوا السَّیِّئَاٰتِ جَزَاءُ سَیِّئَةٍ بِمِثْلِہَا>[70]
“اور جن لوگوں نے برے کام کئے ھیں تو گناہ کی سزا ان کے برابر ھے ”
<اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُوْنَ الاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ>[71]
“جو لوگ گناہ کرتے ھیں انھیں اپنے اعمال کا عنقریب ھی بدلا دیا جائے گا”
اسی طرح قرآن کریم میں دیگر آیات بھی موجود ھیں جو تما م اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ ارادہ واختیار کے ذریعہ جو فعل انجام پائے اس کو “کسب” کہتے ھیں لیکن اختیار کی ایک شرط قدرتِ انسان ھے۔
لہٰذا ان کو جب خود اپنا دعویٰ ناقص دکھائی دیا تو انھوں نے یہ کھا کہ وہ کسب جو عذاب کا سبب بنتا ھے وہ ایسا فعل ھے جو خدا سے صادر هوتا ھے لیکن انسان کے ارادہ کے ساتھ یعنی اس فعل کے وجود کے لئے انسان کا ارادہ اور خدا کا اس کام کوکردینا ضروری ھے۔
لیکن ھم اس کا جواب یوں دیتے ھیں:
۱۔اگر یہ مقارن هونا (ارادہ انسان اور فعل خدا کا ایک ساتھ ملنا) اختیار سے خارج هو تو انسان پر عذاب کرنا صحیح نھیں ھے کیونکہ ان کے گمان کے مطابق انسان تو صرف اس فعل سے رغبت رکھتا تھا، لیکن اس فعل کو خداوندعالم نے ایجاد کیا (ان کے گمان کے مطابق)
پس در حقیقت رغبتِ انسان اور ایجاد خدا میں مقارنت پائی گئی ، اور یہ مقارنت بھی خدا کے ارادہ اور اس کی قدرت کے ذریعہ پیدا هوئی کیونکہ ان کے گمان کے مطابق وھی فاعل حقیقی ھے، تو پھر یہ کس طرح صحیح هوگا کہ خداوندعالم اس بندہ پر عذاب کرے جس نے فعل ھی انجام نہ دیا هو، یا اس مقارنت کی بنا پر جس پر اُسے ذرا بھی اختیار نھیں۔
۲۔ خداوندعالم کا اپنے بندوں پر ظلم کرنا قبیح نھیں ھے کیونکہ یہ تو مالک کے تصرف کا ایک حصہ ھے اور وہ جو چاھے کرسکتا ھے، (ھم نے اس سلسلہ میں وضاحت کردی ھے) کیونکہ خود ذات افعال میں ایسی کوئی چیز نھیں ھے جس کی وجہ سے ان کو حسن یا قبیح کا نام دیا جائے، اور انسان کے کاموں کو حسن وقبیح کہنا شریعت کی بناپر هوتے ھیں کیونکہ جس کام کا شریعت نے حکم دیدیا ھے وہ حسن ھے اور جن کاموں سے روک دیا ھے وہ قبیح ھیں، کیونکہ اگر شارع کی نظر بدل جائے اور جس کام کا امر کیا تھا اس کے بارے میں نھی کردے اور جس چیز کے بارے میں منع فرمایا تھا اس کا حکم دیدے تو پھر قبیح، حسن سے اور حسن، قبیح سے بدل جائے گا، یعنی جو چیز حسن تھی وہ قبیح هوجائے گی اور جو قبیح تھی وہ حسن هوجائے گی۔
اور چونکہ (ان کے گمان کے مطابق) فعل کا حُسن وقبح شریعت مقدس کی وجہ سے ھے نہ کہ حکمِ عقل کی بنا پر، تو پھر خداوندعالم کے فعل کو حسن وقبح کا نام نھیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ تو شریعت سے بھی بالاتر ھے، پس نتیجہ یہ هوا کہ ھر وہ کام جو خدا انجام دے (چاھے ظلم پر ھی کیوں نہ منطبق هو)وہ حسن وجمیل اور نیک ھے اور عقلِ انسانی یہ حکم کرنے سے قاصر ھے کہ خداوندعالم سے ظلم صادر هونا قبیح ھے۔
قارئین کرام ! صحیح نظریہ بیان کرنے سے پھلے ھم حسن و قبح کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ھیں:پھلے معنی :
حسن وقبح کا اطلاق کمال ونقص پر هوتا ھے، لہٰذا علم حسن ھے اور جھل ونادانی قبیح، شجاعت وکرم حسن ھیں اور ان کے مقابلہ میں بزدلی اور بخل قبیح ھیں، اور ان میں کسی بھی مفکر اور دانشمند نے کوئی اختلاف نھیں کیا ھے کیونکہ یہ ایسے یقینی مسائل ھیں جن کو انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتا ھے۔دوسرے معنی:
حسن اس کو کہتے ھیں جو طبیعت کو اچھا لگے، اور قبیح اس کو کہتے ھیں جس سے طبیعت نفرت کرے،مثلاً یہ منظر، حسن ھے، یہ آواز حسن ھے یا بھوک کے وقت کھانا کھانا حسن ھے، اسی طرح یہ بھی کھا جاتا ھے کہ یہ منظر قبیح ھے یہ آواز قبیح ھے، اور اس معنی میں بھی کوئی اختلاف نھیں ھے، کیونکہ اس کا فیصلہ بھی خود انسانی شعور کرتا ھے اور اس میں شرع کا کوئی دخل نھیں ھے۔تیسرے معنی :
حسن وقبح کا اس چیز پر اطلاق کرنا جو مستحق مدح وذم هو، لہٰذا اسی بناپر یہ دونوں اختیاری افعال کی صفت قرار پاتے ھیں،اس حیثیت سے کہ عقلاء کے نزدیک حسن کے فاعل کو مستحق مدح وثواب سمجھا جاتا ھے اور تمام ھی لوگوں کے نزدیک قبیح کے فاعل کو مستحق ذم وعذاب سمجھا جاتا ھے ،اور یھی تیسرے معنی موضوع بحث ھیں۔
چنانچہ اشاعرہ کا عقیدہ ھے کہ افعال کے حُسن وقُبح پر عقل کوئی حکم نھیں کرتی، بلکہ حسن وہ ھے جس کو شریعت حسن قرار دے اور قبیح وہ جس کو شریعت مقدس قبیح قرار دے، اور ان چیزوں میں عقل کی کوئی دخالت نھیں ھے۔
لیکن شیعہ امامیہ اور معتزلہ مذکورہ نظریہ کو قبول نھیں کرتے بلکہ ان کا عقیدہ یہ ھے کہ عقل کی نظر میں خود افعال کی ارزش واھمیت ھے بغیر اس کے شریعت کا اس میں کوئی دخل هو، اور انھی افعال میں سے بعض وہ افعال ھیں جو بذات خود حسن ھیں اور بعض بذات خود قبیح ھیں اور بعض ایسے افعال ھیں جن کو ان دونوں صفات میں سے کسی بھی صفت سے متصف نھیں کیا جاسکتا، شریعت مقدس انھی چیزوں کا حکم کرتی ھے جو حسن هوتی ھیں اور ان چیزوں سے منع کرتی ھے جو قبیح هوتی ھیں اور چونکہ صدق بذات خود حسن ھے اسی حسن کی وجہ سے خداوندعالم نے صدق کے لئے حکم کیا ھے اور جھوٹ چونکہ بذات خود قبیح ھے ، اسی قبح کی وجہ سے خداوندعالم نے اس سے روکا ھے، نہ یہ کہ خدا نے منع کرنے کے بعد جھوٹ کو قبیح قرار دیا هو۔
اس مطلب پر ھماری دلیل یہ ھے کہ جو لوگ دین اسلام کو نھیں مانتے اور مختلف نظریات کے حامل ھیں وہ بھی صدق کو حسن اور جھوٹ کو قبیح مانتے ھیںجبکہ ان کو شریعت نے حسن وقبح کی تعلیم نھیں دی ھے۔
لہٰذا ان تمام باتوں سے ثابت یہ هواکہ حسن وقبح ذاتی دونوں شرعی هونے سے پھلے عقلی ھیں، عدل حسن ھے کیونکہ عدل ھے اور ظلم قبیح کیونکہ وہ ظلم ھے، بغیر اس کے کہ ان کے حسن وقبح میں کوئی شرعی اور دینی حکم هو۔ لہٰذا عقلی لحاظ سے خداوندعالم کا عادل هونا ضروری ھے کیونکہ عدل حسن ھے، اسی طرح عقلی لحاظ سے خداوندعالم کا ظالم هونا محال ھے کیونکہ ظلم قبیح ھے۔خلاصہ بحث:
عقلی اور قرآنی دلائل کے پیش نظر انسان اپنے فعل میں صاحب اختیار ھے اور اپنے تصرفات میں مکمل آزاد ھے اور کوئی جبر اکراہ نھیںھے، اور جو باتیں جبر کو ثابت کرنے کے لئے لوگوں نے بیان کی ھیں وہ ھماری بیان کردہ محکم نصوص ودلائل کے سامنے بے کار ھیں۔(لہٰذا نظریہ جبر باطل وبے بنیاد ھے)
خداوندعالم کا فرمان صادق اور سچا ھے:
ارشاد هوتا ھے:
<وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہٰا فَاٴَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوَاہَا قَدْ اٴَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا وَقَدْ خَاْبَ مَنْ دَسَّا ہَا>[72]
“(اور قسم ھے) جان کی جس نے اسے درست کیا پھر اس کی بدکاری اور پرھیزگاری کو اسے سمجھادیا، (قسم ھے) جس نے اس جان کو(گناہ سے) پاک رکھا وہ تو کامیاب هوا، اور جس نے گناہ کرکے اسے دبادیا ، وہ نامراد رھا”
 
قضاء وقدر
مسئلہ” قضاء وقدر” کی بحث (اگر چہ علماء کلام نے اس کو خاص عنوان کے تحت بیان کیا ھے) “جبر واختیار” کا اھم حصہ ھے جس کو جبر واختیار کی بحث سے جدا نھیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ مسئلہ بھی مذکورہ بحث کا بنیادی نظریہ ھے۔
ھم اس باب میں اختصار کی خاطر مکمل طریقہ سے تمام پھلوٴوں کوبیان نھیں کریں گے، کیونکہ بہت سی چیزیں اس کتاب کی وسعت سے باھر ھیں، ھم یھاں صرف اس کے اسلامی معنی کو واضح کرنا چاہتے ھیں جیسا کہ قرآن وسنت نے اس بارے میں وضاحت کی ھے، تاکہ ھمارے عزیز قارئین اصول دین کے اس اھم مسئلہ کو پہچان لیں اور اس پر عقیدہ رکھیں، خصوصاً جیسا کہ ھم آج کل دیکھتے ھیں کہ انسان صبح سے لے کر شام تک کے واقعات،مصیبت و بلا اور خیر وشر کی باتوں کو قضا وقدر کہہ دیتاھے، تو کیایہ تمام کے تمام اسلامی عقیدہ کے تحت ھیں؟!یا نھیں؟
ھم ان دونوں الفاظ کے معنی اسلامی صحیح نقطہ نظر سے بیان کرنا چاہتے ھیں جیسا کہ لغت اور قرآن کریم میں استعمال هوئے ھیں تاکہ ھم اس طریقہ سے ان دونوں الفاظ کے معنی میں شریعت کے ہدف ومقصد کو سمجھ سکیں، اوریہ دیکھ سکیں کہ اسلامی نصوص میں ان کا استعمال کس طرح هوا ھے:۱۔ لغوی معنی:
“قضا کے معنی عمل کے ھیں، پس اس کے معنی صنعت اور اندازہ کے ھیں مثلاً : “قضی الشیٴ قضاء ا صنعہ وقدرہ” (یعنی کسی چیز کو بنانے کے لئے اس کی مقدار معین کی) یا ھر وہ کام جس کو کرنے کے لئے تیاری کی، اس کو تمام کیا، یا کسی چیز کو ادا کیا ، یا کسی چیز کو واجب کیا یا کسی چیز کا علم پیدا کیا، یا کسی چیز کو نافذ کیا۔ تو گویا اس نے ان کاموں کا اندازہ معین کیا۔
“وقضیٰ ای حکم” (یعنی اس نے قضا کی یعنی اس پر حکم لگایا) جس طرح کوئی شخص فیصلہ میں قضاوت کرتے هوئے حکم لگاتا ھے۔
قضا کے ایک معنی اعلان کے بھی ھیں جیسا کہ کہتے ھیں:
“قضینا الیہ ذالک الامر ای ھیناہ الیہ وابلغناہ ذالک” [73]
(یعنی ھم نے فلاں شخص کے لئے یہ اعلان کیا یعنی اس کو منع کیا اور اس تک خبر پهونچائی)
معنی قدر: قدر کے معنی قضا اور حکم کے ھیں۔ [74]۲۔ قرآنی معنی:
قرآن مجید میں قضا کے درج ذیل چند معنی بیان هوئے ھیں:
الف: خلق وایجاد، جیسا کہ ارشاد هوتا ھے :
< فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ >[75]
یعنی ھم نے سات آسمان کو خلق کیا۔
ب: وجوب وحکم، جیسا کہ ارشاد ربّ العزت ھے:
<وَقَضَی رَبُّکَ اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا >[76]
یعنی ھم نے انسان پر واجب اور حکم کیا کہ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت نہ کرے۔
ج: اعلان کرنا ، خبر دینا، جیسا کہ ارشاد ھے:
< وَقَضَیْنَا إِلَی بَنِی إسْرائِیلَ فِی الْکِتَابِ>[77]
یعنی ھم نے بنی اسرائیل تک یہ خبر پہنچائی یا ان کے لئے یہ اعلان کیا۔
اسی طرح قرآن مجید میں لفظِ “قدر” دومعنی میں استعمال هوا ھے:
الف: خلق وتنظیم اور تدبیر وترتیب، ارشاد هوتا ھے:
<وَقدَّرَ ِفیْہَا اٴَقْوَاتَہَا>[78]
“اور اس نے ایک مناسب انداز پر اس میں سامان معیشت کا بندوبست کیا”
<وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ>[79]
“اور ھم نے چاند کے لئے منزلیں مقرر کردیں”
<وَاللّٰہُ یُقَدِّرُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ>[80]
“اور خدا ھی رات اور دن کا اچھی طرح اندازہ کرسکتا ھے”
<وَخَلَقَ کُلَّ شَیءٍ فَقَدَّرَہُ تَقْدِیْراً>[81]
“اور ھر چیز کو اسی نے پیدا کیا پھر اسے اندازے سے درست کیا”
ب: بیان کرنا اور خبر دینا، جیسا کہ ارشاد ھے:
<اِلاّٰ امْرَاٴتَہُ قَدَّرْنَاہَا مِنَ الْغَابِرِیْنَ>[82]
“یعنی ھم نے (جناب نوح (ع)) کو خبر دی ان کے لئے بیان کیا کہ ان کی بیوی غابرین (تقدیر میں پیچھے رہنے والوں) میں سے ھیں۔”
اب جبکہ ھمارے لئے ان دونوں الفاظ کے لغوی اور قرآنی معنی واضح هوگئے ھیں تو ضروری ھے کہ ھم قضاء وقدر کی طرف اپنے افعال کو منسوب کرتے هوئے ان معنی کا لحاظ کریں اور جب ھم یہ کھیں کہ ھمارا یہ کام خداوندعالم کی قضاء وقدر سے ھے تو ھمیں اس کے معنی معلوم هونے چاہئےں۔
کیونکہ ھمیں قضا وقدر سے معنی خلق مراد لینے کا حق نھیں ھے، (جو قضا وقدر کے ایک معنی ھیں)چونکہ گذشتہ بحث میں یہ بات ثابت هوگئی ھے کہ ھمارے افعال ھمارے اختیار ، ھمارے ارادہ اور ھماری ایجاد سے هوتے ھیں اور خداوندعالم کی ایجاد اور اس کے خلق کردہ نھیں هوتے۔
پس جب ھم دلیل کے ذریعہ اس معنی (خلق) کو مراد نھیں لے سکتے تو پھر ان دونوں الفاظ کے معنی محصور هوجاتے ھیں اس وقت خدا کی قضا کے معنی “وجوب اور حکم” کے هوں گے، اور قدر کے معنی “بیان اور علم” کے هوں گے۔
اس وقت کسی معنی فعل کے بارے میں ھمارا خبر دینے کا مطلب قضاء اللہ هوگی اس کی قدر یعنی کسی چیز کے بارے میں وجوب یا اس کو بیان کرنا یا اس کا علم پیدا کرنا۔
لہٰذا ھم اس بنیاد پر کہتے ھیں کہ اللہ کی قضا پر راضی رہنا ، اور اس کی قدر کو قبول کرنا ضروری اور جس چیز کو خداوندعالم نے ھمارے لئے بیان کیا یا کسی چیز کے بارے میں حکم کیا ان پر ایمان ویقین رکھنا ضروری ھے، اور قضاوقدر کا یھی مطلب ھے، اس کے علاوہ اور کوئی مطلب ومقصد نھیں ھے۔
اس بات کے صحیح هونے کی دلیل میں ھمارے لئے حضرت علی علیہ السلام کے اس جواب پر توجہ کرنا کافی ھے جوآپ نے صفین کے راستہ میں ایک شامی شخص کے سوال( کہ کیا جنگ صفین خداوندعالم کی قضاو قدر سے ھے؟ )کے جواب میں فرمایا:
“نعم یا شیخ، ما علوتم تلعة ولاھیطتم وادیاً الا بقضاء اللّٰہ ۔
فقال الشامی:
عند اللّٰہ احستب عنائي یا امیر المومنین۔
فقال علیہ السلام:
مہ یا شیخ ، فان اللّٰہ قد عظم اجرکم فی مسیرکم وانتم سائرون وفی مقامکم و انتم مقیمون، وفی انصرافکم وانتم منصرفون ولم تکونوا فی شیٴ من امورکم مکرھین”[83]
ھاں اے شیخ، تم کسی پھاڑی پر نھیں چڑھتے اور نہ کسی وادی میں اترتے مگر یہ سب کام خدا کی قضاء قدر سے هوتے ھیں، اس وقت اس شامی نے کھا یا امیر المومنین (ع)کیا یہ کام اللہ کے نزدیک عنایت شمار هوگا یعنی کیا جنگوں کی تمام پریشانیوں کا ثواب ملے گا؟!
تب حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اے شیخ !(صبر کرو تاکہ واضح هوجائے) خداوندعالم انھیں امور کا تمھیں بہت زیادہ اجر دیتا ھے اور تمھارے اٹھنے بیٹھنے اور چلنے میں ثواب ھے اور تم کسی کام میں مضطر ومجبور نھیں هو ۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا:
“لعلک ظننت قضاء اً لازماً وقدراً حاتماً ولوکان ذلک کذلک لبطل الثواب والعقاب وسقط الوعد والوعید، ان اللّٰہ سبحانہ امر عبادہ تخییرا ونھاھم تحذیراً وکلف یسیرا ولم یکلف عسیراً واٴعطی علی القلیل کیثراً”[84]
کیا تم نے یہ گمان کرلیا ھے کہ قضا وقدر حتمی اور ضروری ھیں کیونکہ اگر ضروری اور حتمی هوں تو پھر ثواب وعذاب باطل هوجائیں، وعدہ ووعید ختم هوجائیں، بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اختیار کے ساتھ حکم دیا ھے اور ڈرانے کی وجہ سے نھی کی ھے، کم تکلیف کی ھے اور مشکل کاموں پر مکلف نھیں کیا اور وہ تو تھوڑے (اعمال) پر کثیر (جزا) دیتا ھے۔
قارئین کرام ! آپ نے توجہ فرمائی کہ حضرت علی علیہ السلام کے یہ فصیح وبلیغ کلمات ھماری بات پر واضح دلیل ھیں اور اس بات کی وضاحت کرتے ھیں کہ شام کی طرف حرکت کرنا خدا کے حکم سے تھا (یعنی خداوندعالم کا حکم تھا کہ باغیوں سے جنگ کرنا واجب ھے) اور خداوندعالم نے ان لڑنے والوں کے لئے اجر کو عظیم قرار دیا ھے کیونکہ انھوں نے خدا کے حکم کی خاطر اس جنگ میں حصہ لیا ھے۔
اسی طرح حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ملائکہ کا ذکر کرتے هوئے فرماتے ھیں:
“ومنھم امناء علی وحیہ والسنة والیٰ رسلہ ومختلفون بقضائہ وامرہ”[85]
(اور ان میں سے بعض خدا کی وحی پر امین بنائے گئے اور بعض مرسلین کے لئے خدا کی زبان ھیں اور خدا کی قضا اور اس کے حکم کے پهونچانے والے ھیں)
ھم قضاء الٰھی اور امر ربی کو نھیں سمجھتے مگر وہ واجبات اور احکام جو ملائکہ، انبیاء ومرسلین کے لئے لے کر نازل هوتے ھیں تاکہ انبیاء اپنی امتوں تک پهونچادیں۔
قدر پر ایمان کے سلسلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
“الناس فی القدر علی ثلاثة اٴوجہ:رجل یزعم ان الامر مفوض الیہ فقد وہن اللّٰہ فی سلطانہ، فهو ھالک ورجل یزعم ان اللّٰہ جل وعز اجبر العباد علی المعاصی وکلفھم ما لا یطیقون فقدظلم اللّٰہ فی حکمہ فهو ھالک۔ ورجل یزعم ان اللّٰہ کلف العباد ما یطیقون ولم یکلفھم ما لا یطیقون فاذا اٴحسن حمد للہ واذا اٴساء استغفر اللّٰہ فہذا مسلم۔” [86]قدر کے سلسلہ میں لوگوں کے تین گروہ ھیں:
۱۔ وہ شخص جو گمان کرتا ھے کہ تمام کام اس پر چھوڑدئے گئے ھیں تو اس نے خدا کی سلطنت میں اس کی توھین کی اور وہ ھلاک هونے والا ھے۔
۲۔ وہ شخص جو گمان کرتا ھے کہ خداوندعالم بندوں کی معصیت کرنے میں ان کا اجیر ھے، اور اس نے بندوں کو ان چیزوں پر مکلف بنایا جو ان کی قدرت سے باھر ھیں، تو اس نے خدا کے حکم کے سامنے خدا پر ظلم کیا اور وہ بھی ھلاک هونے والا ھے۔
۳۔ وہ شخص جس کا یہ عقیدہ ھے کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو انھی کاموں پر مکلف کرتا ھے جن کی وہ طاقت رکھتے ھیں اور جس چیز کی طاقت نھیں رکھتے ان پر مکلف نھیں کرتا، اور وہ جب کوئی نیک کام کرتا ھے تو خدا کی حمد کرتا ھے اور جب کوئی برا کام هوجاتا ھے تو خدا سے استغفار کرتا ھے پس یھی شخص مسلمان ھے۔) اور یہ خداوندعالم کی قضاوقدر کے ایک دوسرے معنی ھیں جس میں اس کے امر( حکم) اور بندوں پر تکالیف کو بیان کیا گیا ھے،لہٰذا ھمارا اسلام پر راضی رہنا اور شریعت مقدسہ کا اقرار کرنا قضاء الٰھی پر راضی هونا اور قدر الٰھی کا اقرار کرنا ھے۔ ہدایت وگمراھی
آخر بحث میں صرف “ہدایت وگمراھی”کا مسئلہ باقی رہ گیا ھے جس کو علماء کرام نے جبر واختیار اور قضا وقدر کا ضمیمہ قراردیا ھے جیسا کہ قرآن مجید میں بہت سی آیات ذکر هوئی ھیں جن میں سے ایک اشارہ ملتا ھے کہ خداوندعالم ھی انسان کو ہدایت یا گمراھی دیتا ھے اور اس میں انسان کو کوئی اختیار بھی نھیں ھے، ارشاد هوتا ھے:
<فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَاءُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ>[87]
“تو یھی خدا جسے چاہتا ھے گمراھی میں چھوڑدیتا ھے اور جس کو چاہتا ھے ہدایت کرتا ھے”
<وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ>[88]
“اور جس کو خدا گمراھی میں چھوڑدے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نھیں”
قارئین کرام ! یھاں پر یہ سوال پیدا هوتا ھے کہ اگر ہدایت وگمراھی خدا کی طرف سے
ھے تو پھر گمراهوں کو ان کی گمراھی کی بناپر کیوں عذاب دے گا؟!! اور مومنین کو ان کی ہدایت پر ثواب کیوں دے گا؟!! جبکہ دونوں خداوندعالم کے افعال اور اس کے ارادہ سے ھیں۔
اس اعتراض کے جواب سے پھلے ھم ہدایت وگمراھی کے معنی بیان کرنا ضروری سمجھتے ھیں کہ لغت کی کتابوں اور قرآن مجید کے استعمالات میں ان دونوں کے کیا معنی ھیں تاکہ واضح طور پر ان دونوں کے مفهوم کو سمجھ سکیں۔
لغت میں ہدایت کے معنی:
“الدلالة علی الطریق الرشد”[89]
 
(ترقی کے راستہ پر دلالت کرنا)
لسان العرب میں ہدایت کے اس طرح معنی کئے ھیں:
“ہداہ للطریق والی الطریق، ۔۔۔۔ اذا دلّہ علی الطریق، وہدیتہ الطریق والبیت ہدایة ای عرفتہ۔[90]
اس کی راستہ کی طرف ہدایت کی جبکہ وہ راستہ کو جانتا تھا، یا میں نے اس کی راستہ کی ہدایت کی یعنی اس کو جانتا تھا )
ہدایت گمراھی کی ضد ھے ،ہدایت کے معنی راہ دکھانا اور دلالت کے ھیں۔[91]
یا جیسا کہ کھا جاتا ھے : “ہد یت لک فی معنی بینت لک “۔[92]
(میں نے تمھارے اس معنی میں ہدایت کی جس کو میں نے بیان کیا )
اسی طرح سے خدا وند عالم کایہ فرما ن بھی ھے ۔<اَوَلمْ یَہْدِ لَہُمْ> [93]
“کیا ان لوگوں کو یہ نھیں معلوم۔ ”
لیکن خداوند عالم کا یہ فرمان :
<قَالَ رَبَّنَا الَّذِیْ اٴَعْطٰی کُلَّ شَیٴٍ خَلَقَہُ ثُمَّ ہَدیٰ >[94]
“(جناب موسی علیہ السلام نے کھا ) ھمارا پروردگار جس نے ھرچیز کو اسی کے (مناسب ) صورت عطافرمائی اور پھراس نے ہدایت کی”
اس کے معنی یہ ھیں کہ خداوند عالم نے ھر چیز کو اس طریقہ سے پیدا کیا ھے تا کہ اس سے استفادہ کیا جاسکے ۔اس کے بعد اس کی زندگی کی طرف ہدایت کی ھے۔[95]
کلام عرب میں ہدایت کے معنی توفیق کے بھی ھیں جیسا کہ شاعر کہتا ھے :
ولاتحر فنی ہداک اللّٰہ مساٴلتی
ولاآکونن کمن اودی بہ السفر ۔[96]
(یعنی خداوندعالم آپ کو توفیق دے کہ آپ ھماری حاجت پوری کریں ۔)
جیسا کہ خداوند عالم کا فرمان بھی ھے:
<فَاہْدُوْہُمْ اِلٰی صِرَاطِ الْجَحِیْمِ >[97]
یعنی ان کو جہنم میں داخل کردو۔
” کما تہدی المراٴة الی زوجھا یعنی بذلک انھا تدخل الیہ”[98]
(جیسا کہ بیوی کو اس کے شوھر کے گھر بھیجا جاتا ھے، اور (اسی نکاح کے ذریعہ) ان میں میاں بیوی کا رشتہ قائم هوجاتا ھے)
اسی وجہ سے جو شخص قوم کے آگے آگے چلتا ھے یا ان کی ہدایت کرتا ھے اس کو “ھادی” کھا جاتا ھے ۔ [99]
او رہدایت کے معنی ثواب کے بھی ھیں [100]
جیسا کہ ارشاد هوتا ھے:
<یَہْدِیْھِمْ رَبُّہُمْ بِاِیْمَانِہِمْ >[101]
“یعنی خدا نے ان کو ایمان کا ثواب عنایت فرمایا۔”
<وَاللّٰہُ لاٰ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ> [102]
<وَاللّٰہُ لاٰ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْنَ>[103]
<وَاللّٰہُ لاٰ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ >[104]
<اِنَّ اللّٰہُ لاٰ یَہْدِیْ کَیْدَ الْخَائِنِیْنَ > [105]
یعنی ان ظالمین، کافرین، فاسقین اور خائنین کو ثواب نھیں دیا جائے گا۔
نیز ارشاد قدرت هوتا ھے:
<لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ>[106]
“یعنی ان کو ثواب نھیں دیا جائے گا او رخدا جس کو چاھے ثواب عطا کرے”
قارئین کرام ! ضلال وگمراھی کے معنی ھلاکت کے ھیں ، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھے:
<وَاِذَا ضَلَلْنَا فیْ الاٴرْضِ>[107]
“یعنی ھم نے ان کو ھلاک کردیا۔”
اور دین سے گمراھی کا مطلب حق سے دور هوجانا اور اضلال کے معنی گمراھی کی دعوت دینا، یا گمراھی کو کسی کے سر پر لاد دینا، جیسا کہ خداوندعالم کا فرمان ھے:
<وَاَضَلَّہُمُ السَّاٴمِرِیُّ>[108]
“یعنی سامری نے ان کو گمراہ کر چھوڑا”
اور اضلال کے معنی گناہگاروں کو جہنم میں ڈالنے کے بھی ھیں۔ [109]
قارئین کرام ! ہدایت وضلال کے ان تمام مذکورہ معنی کے پیش نظر درج ذیل چیزیں روشن هوجاتی ھیں:
۱۔ اضلال کے معنی مخالف حق، اور گمراھی کی دعوت دینا یا کسی کے سر پر گمراھی کو لاد دینا بھی ھیں، اور ان معنی کے لحاظ سے خدا کی طرف اس کی نسبت نھیں دے سکتے، ارشاد هوتا ھے:
<وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ اِذْ ہَدَاہُمْ > [110]
“خدا کی شان یہ نھیں کہ کسی قوم کو جب ان کی ہدایت کرچکا هو اس کے بعد انھیں گمراہ کردے”
بلکہ ضلالت وگمراھی (جیسا کہ قرآن مجید میں وضاحت کی گئی ھے) صرف انسان کے ارادہ واختیار سے هوتی ھے، ارشاد هوتا ھے:
<وَمَنْ یُشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاٰلاً بَعِیْداً>[111]
“جس نے کسی کو خدا کا شریک بنالیا وہ تو بس بھٹک کر بہت دور جاپڑا”
 
<قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَآ اَضِلُّ عَلٰی نَفْسِيْ >[112]
“(اے رسول ) تم (یہ بھی) کہہ دو کہ اگر میں گمراہ هوگیا هوں تو اپنی ھی جان پر میری گمراھی (کا وبال) ھے”
<مَنِ اہْتَدیٰ فَاِنَّمَا یَہْتَدِیْ لِنَفْسِہِ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا>[113]
“جو شخص روبراہ هوتا ھے تو بس اپنے فائدہ کے لئے راہ پر آتا ھے او رجو شخص گمراہ هوتا ھے تو اس نے بھٹک کر اپنا آپ بگاڑا”
<اِنَّ رَبَّکَ هو اٴَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہِ>[114]
“بے شک تمھارا پروردگار ان سے خوب واقف ھے جو اس کی راہ سے بھٹکے هوئے ھیں”
اسی طرح اضلال ، ابطال وھلاکت کے معنی میں استعمال هوا ھے:
ارشاد قدرت ھے:
<کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ الْکَافِرِیْنَ>[115]
“یعنی کافرین کو ھلاک کردیا گیا”
<وَمَنْ یُضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ>[116]
“یعنی کافرین وظالمین میں سے خدا جس کو بھی ھلاک کرنا چاہتا ھے اس کو ثواب عطا نھیں کرتا”
نیز خداوندعالم کا قول ھے:
< وَالَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ فَلَنْ یُضِلَّ اٴَعْمَالَہُمْ>[117]
“یعنی جو لوگ راہ خدا میں جھاد کرتے ھیں خدا ان کے اعمال کو باطل نھیں کرتا”
۲۔ ہدایت، حق کی طرف دلالت کو کہتے ھیں۔
جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:
<اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَا اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ>[118]
“شکر ھے اس خدا کا جس نے ھمیں اس (منزل مقصود) تک پهونچایا اور اگر خدا ھمیں یھاں تک نہ پهونچاتا تو ھم کسی طرح یھاں تک نھیں پهونچ سکتے تھے”
<بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدَاکُمْ لِلْاِیْمَاْنِ>[119]
“بلکہ اگر تم (دعوی ایمان میں) سچے هو تو (سمجھو کہ) خدا نے تم پر احسان کیا کہ اس نے تم کو ایمان کا راستہ دکھایا”
<وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبُّوْا الْعَمٰی عَلَی الْہُدیٰ>[120]
“اور رھے ثمود تو ھم نے ان کو سیدھا رستہ دکھا دیا مگر ان لوگوں نے ہدایت کے مقابلہ میں گمراھی کو پسند کیا۔”
اسی طرح ہدایت کاثواب پر بھی اطلاق هوتا ھے۔
جیسا کہ ارشاد خداوندعالم ھے:
<وَسَیَہْدِیْہِِمْ وَیُصْلِحُ بَالَہُمْ >[121]
“یعنی ان کو ثواب دیا جائے گا”
قارئین کرام ! ہدایت وضلالت کے معنی کی بحث سے درج ذیل نتائج برآمد هوتے ھیں:
اگر اضلال کے ” خلاف حق اشارہ کرنے” کے معنی مرادلئے جائیں تو یہ معنی خداوندعالم کے لئے محال ھیں کےونکہ خدا تو حق کا حکم دیتا ھے، جبکہ عقلِ انسان بھی حکم کرتی ھے کہ خداوندعالم کبھی بھی خلاف حق حکم نھیں دے سکتا۔
ہدی وہدایت کے معنی ، حق کی طرف دلالت کرنا ھے اور یہ کام خداوندعالم نے کیا بھی ھے اور ھر زمانہ میں ارسال رسل اور انزال کتب کے ذریعہ حق کی طرف ہدایت کی بھی ھے۔
لہٰذا ان تمام باتوں کے پیش نظر ہدایت وگمراھی کے صرف یھی بہترین معنی ھیں کہ اضلال کے معنی ھلاکت اور عقاب کے ھیں او رہدی وہدایت کے معنی ثواب کے ھیں، اور قرآن مجید میں
یھی دونوں معنی مراد بھی ھیں، جن کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ھے، ارشاد هوتا ھے:
<اٴَ ُترِیدُوْنَ اَنْ تَہْدُوْا مَنْ اَضلَّ اللّٰہُ >[122]
“یعنی جن کو خدا کے عذاب میں مبتلا کیا ھے کیا وہ چاہتے ھیں کہ ان کو ثواب دیا جائے”
<یُضِلُّ بِہِ کَثِیْراً وَیَہْدِی بِہِ کَثِیْراً>[123]
“یعنی قرآن کے ذریعہ، خداوندعالم نے بہت سے لوگوں کو ھلاک کردیا ، کیونکہ ان لوگوں نے قرآن کے مقابلہ میں سرکشی کی اور اس کے اوامر ونواھی پر عمل نھیں کیا جبکہ ان پر اس پر عمل کرنا واحب ھے۔”
اور اگر ہدایت کے معنی ثواب نہ هوں تو پھر ھم قرآن مجید میں موجود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں ہدایت کے معنی نھیں سمجھ پاتے، کیونکہ ارشاد هوتا ھے:
< لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَشَاءُ >[124]
“(اے رسول) ان کا منزل مقصود تک پہچانا تمھارا فرض نھیں ھے (تمھارا کام ) راستہ دکھانا ھے مگر ھاں خدا جس کو چاھے منزل مقصود تک پهونچادے”
<اِنَّکَ لاٰ تَہْتَدِیْ مَنْ اٴحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَشَاءُ >[125]
“(اے رسول ) تم جسے چاهو منزل مقصود تک نھیں پهونچاسکتے مگر ھاں جسے خدا چاھے منزل مقصود تک پہنچائے”
کیونکہ اگر ہدیٰ کے معنی ارشاد اور دلالت کے هوں تو پھر یہ دونوں آیات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی رسالت کو ناکام کردیتی ھیں کیونکہ پھر نبی پر ارشاد اور توجیہ کرنا واجب ھے۔
لہٰذا اسی طریقہ پر ھم قرآن مجید کی دوسری آیات میں موجود لفظ ہدیٰ واضلال کو سمجھ سکتے ھیں کیونکہ ھمارے لئے واضح ھے کہ یہ تمام نصوص اختیار کامل اور ارادہ وآزادی کے خلاف معنی سے سالم ومحفوظ ھیں۔
اسی بنا پر ھم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے فرمان کو بہترین طریقہ سے سمجھتے ھیں کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا:
” الشقی من شقی فی بطن امہ والسعید من سعد فی بطن اُمّہ”
(شقی اپنے ماں کے شکم سے شقی هوتا ھے او رسعید اپنی ماں کے شکم سے سعید هوتا ھے)
اس کے معنی یہ نھیں ھیں کہ خداوندعالم نے انسان کو مجبور خلق کیا تاکہ وہ ضلالت وگمراھی کے ذریعہ شقی هوجائے یا اطاعت وہدایت کے ذریعہ سعید هوجائے بلکہ مقصد یہ ھے جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
“الشقی من علم اللّٰہ وهو فی بطن امہ انہ سیعمل عمل الاشقیاء، والسعید من علم اللّٰہ وهو فی بطن امہ انہ سیعمل عمل السعداء”
(شقی وہ ھے جس کے بارے میں خدا جانتا ھے (درحالیکہ وہ شکم مادر میں هوتا ھے) کہ وہ اشقیاء والے کام انجام دے گا، اور سعید وہ ھے جس کے بارے میں خدا جانتا ھے کہ نیک کاموں کو انجام دے گا)
پس ثابت یہ هوا کہ خداوندعالم پر حقیقت واضح هوتی ھے، جیسا کہ ھم پھلے بھی بیان کرچکے ھیں اور اس میں ذرہ برابر بھی معنی جبر واکراہ نھیں ھیں۔
<قُلْ ہَذِہِ سَبِیلِی اٴَدْعُو إِلَی اللهِ عَلَی بَصِیرَةٍ اٴَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی وَسُبْحَانَ اللهِ وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ ۔>
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین۔
 
[1] سورہ نحل آیت ۹۰۔
[2] سورہ فصلت (حم سجدہ) آیت ۴۶۔
[3] سورہ انبیاء آیت ۲۳۔
[4] سورہ مومنون آیت ۸۸۔
[5] سورہ یوسف آیت ۴۰۔
[6] سورہ مائدہ آیت ۴۴۔
[7] سورہ نحل آیت ۹۰۔
[8] سورہ مائدہ /۸۔
[9] سورہ نساء/ ۵۸۔
[10] سورہ شوریٰ آیت۱۵۔
[11] سورہ نحل آیت ۷۶۔
[12] سورہ انعام/ ۱۱۵۔
[13] سورہ کہف/۸۷۔
[14] سورہ آل عمران/۵۷۔
[15] سورہ اعراف/۴۴۔
[16] سورہ شعرا/ ۲۲۷۔
[17] سورہ زخرف/۶۵۔
[18] سورہ نحل/ ۱۱۸۔
[19] سورہ هود /۱۰۱۔
[20] سورہ ص/۲۷۔
[21] سورہ مومنون /۱۱۵و
[22] سورہ انفال آیت۷۔
[23] سورہ نساء آیت ۲۶۔
[24] سورہ زمرآیت۷۔
[25] سورہ توبہ آیت ۹۶۔
[26] سورہ مائدہ آیت ۶۔
[27] سورہ نجم آیت ،۳۹۔
[28] سورہ روم آیت ۴۴۔
[29] سورہ توبہ آیت ۵۱۔
[30] سورہ نساء آیت ۷۸۔
[31] عیون اخبار الرضا(ع) تالیف شیخ صدوق ، ج ۲ ص ۱۱۴، روضة الواعظین تالیف فتال نیشاپوری، ص۳۸، احجاج طبرسی، ص ۱۹۸، بحار ا لانوار ج ۷۵ ۳۵۴، (تحقیق مترجم)
[32] سورہ طور آیت ۲۱۔
[33] سورہ نساء آیت ۱۲۳۔
[34] سورہ نساء آیت ۱۲۳۔
[35] سورہ کہف آیت ۲۹۔
[36] سورہ زلزلة آیت ۷،۸۔
[37] سورہ فصلت( حم سجدہ)آیت ۱۷۔ (۶)سورہ تحریم آیت ۷۔
[38] سورہ آل عمران آیت ۱۹۵۔
[39] سورہ زمر آیت ۲۶۔
[40] سورہ مائدہ آیت ۱۱۰۔
[41] سورہ آل عمران آیت ۴۹۔
[42] vسورہ عنکبوت آیت ۱۷۔
[43] سورہ مومنون آیت ۱۴۔
[44] سوره مومنون، آیت 14.
[45] سورہ صافات آیت ۱۲۵۔
[46] سورہ صافات آیت ۹۶۔
[47] ترجمہ معترض کے لحا ظ سے ھے۔ مترجم)
[48] سورہ صافات آیت ۹۵۔
[49] سورہ صافات آیت ۹۶۔
[50] سورہ زمر آیت ۶۵۔
[51] سورہ قصص آیت ۸۴۔
[52] سورہ نور آیت ۲۴۔
[53] سورہ سجدہ آیت ۱۴۔
[54] سورہ زمر آیت ۲۴۔
[55] سورہ نور آیت۶۳۔
[56] سورہ سبا آیت ۱۲۔
[57] سورہ حم سجدہ آیت ۴۶۔
[58] سورہ آل عمران آیت ۱۸۲۔
[59] سورہ ق آیت ۲۹۔
[60] سورہ آل عمران آیت ۱۰۸۔
[61] سورہ غافر آیت ۳۱۔
[62] سورہ نساء آیت ۴۰۔
[63] سورہ یونس آیت ۴۴۔
[64] سورہ کہف آیت ۴۹۔
[65] سوره انبیاء، آیت ۲۳ ۔
[66] سورہ آل عمران آیت ۹۔
[67] سورہ نساء آیت ۱۱۱۔
[68] سورہ بقرہ آیت ۲۸۶۔
[69] سورہ مائدہ آیت ۳۸۔
[70] سورہ یونس آیت ۲۷۔
[71] سورہ انعام آیت ۱۲۰۔
[72] سورہ شمس آیت ۷ تا ۱۰۔
[73] لسان العرب ج۱۵ص ۱۸۶۔۱۸۷۔
[74] لسان العرب ج۱۵ص۷۴۔
[75] سورہ فصلت آیت ۱۲۔
[76] سورہ اسراء آیت ۲۳۔
[77] سورہ اسراء آیت ۴۔
[78] سورہ فصلت (حم سجد) آیت ۱۰۔
[79] سورہ یٰس آیت ۳۹۔
[80] سورہ مزمل آیت ۲۰۔
[81] سورہ فرقان آیت ۲۔
[82] سورہ نحل آیت ۵۷۔
[83] تحف العقول ص ۳۴۹تا ۳۵۰۔(اصول کافی جلد اول ص ۱۵۵، بحار الانوار ج۵ ص ۷۵ ، مترجم)
[84] نہج البلاغہ ج۳ ص ۱۶۷۔
[85] نہج البلاغہ ج۳ ص ۱۶۷۔
[86] تحف العقول ص ۳۴۴۔
[87] سورہ ابراھیم آیت ۴۔
[88] سورہ رعد آیت ۳۳۔
[89] التبیان جلد اول ص ۴۱۔
[90] لسان العرب ،ج۱۵ ص۳۵۵۔
[91] لسان العرب ،ج۱۵ ص۳۵۳ تا ص۳۵۴۔
[92] لسان العرب ،ج۱۵ ص۳۵۳ تا ص۳۵۴۔
[93] سورہ سجدہ آیت ۲۶۔
[94] سورہ طٰہ آیت ۵۰۔
[95] لسان العرب ،ج۱۵ ص۳۵۳ تا ص۳۵۴۔
[96] تفسیر طبری جلد اول ص۷۲تا ص۷۳۔
[97] سورہ صافات ص۲۳۔
[98] تفسیر طبری جلد اول ص۷۳۔
[99] مجمع البیان جلد اول ص ۲۷،۲۸۔
[100] مجمع البیان جلد اول ص ۲۷،۲۸۔
[101] سورہ یونس آیت ۹۔
[102] سورہ بقرہ آیت ۲۵۸۔
[103] سورہ بقرہ آیت ۲۶۴۔
[104] سورہ مائدہ آیت ۱۰۸۔
[105] سورہ سوسف آیت ۵۲۔
[106] سورہ بقرہ آیت ۲۷۳۔
[107] سورہ سجدہ آیت ۱۰۔
[108] سورہ طٰہٰ آیت ۸۵۔
[109] التبیان جلد اول ص ۴۶۔
[110] سورہ توبہ آیت ۱۱۵۔
[111] سورہ نساء آیت ۱۱۶۔
[112] سورہ سباء آیت ۵۰۔
[113] سورہ اسراء آیت ۱۵۔
[114] سورہ قلم آیت۷۔
[115] سورہ غافر آیت ۷۴۔
[116] سورہ رعد آیت ۳۳۔
[117] سورہ محمد آیت ۴۔
[118] سورہ اعراف آیت ۴۳۔
[119] سورہ حجرات آیت ۱۷۔
[120] سورہ فصلت( حم سجدہ)آیت ۱۷۔
[121] سورہ محمد آیت ۵۔
[122] سورہ نساء آیت ۸۸۔
[123] سورہ بقرہ آیت ۲۶۔
[124] سورہ بقرہ آیت ۲۷۲۔
[125] سورہ قصص آیت ۵۶۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.