پیغمبر شناسی
( نبوت )
اس حصہ میں بھی مورد بحث مطالب کو متوسط انداز میں پیش کریں گے۔
نبی
نبی لغت میںبا خبرشخص کو کہتے ہیں جوکلمہ نباء بمعنی خبر سے اخذ کیا گیا ہے۔لیکن اس حصہ (مسئلہ نبوت) میں نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے با خبر ہونے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر رکھنے کے معنی میں ہے نہ صرف باخبر دار ہونے کے معنی میں۔
نبوت عامہ
نبوت عامہ سے مراد انسان کا ایک الہٰی شخصیت کا محتاج ہونا ہے جو لوگوں اور خدا کے درمیان واسطہ و رابطہ ہواورجو اللہ کی طرف سے انسانوں تک الٰہی دستور وقانون کو پہنچائے۔
نبوت خاصہ
نبوت خاصہ سے مرادمقام نبوت و رسالت کو ایک فرد یاافراد معین کے لیے متعین کرنا ہے، جیسے ہم کہتے ہیں حضرت ابراہیمں ، حضرت موسیٰں ، حضرت عیسیٰ ں اور حضرت محمد ۖ پیغمبر ہیں۔
وجود نبی کی ضرورت
نبوت عامہ (انسان کے پیغمبر کے محتاج ہونے) کے بارے میںمتعدد دلایل بیان کے گئے ہیں، ان میں سے ایک دلیل کی وضاحت درج ذیل ہے:
انسان ایک قابل تربیت موجود ہے جس کی فطرت میں طلب کمال اورہدایت کا جذبہ موجود ہے اور طبیعی طور پر اس کی زندگی اجتماعی و مدنی ہے لہذاانسانی زندگی میں قضاوت، معاشرت اور مختلف ارتباطات وتعلقات موجود ہیں اور ایسی زندگی قانون کی محتاج ہے اور واضح ہے کہ انسانی زندگی کی تمام خصوصیات کے لئے جامع اوربے خطا قانون کسی انسان کے بس میں نہیں ہے بلکہ صرف خداوند متعال ہی ایسا قانون بناسکتا ہے اورانسانی معاملات کے خیر وشر کو سمجھتا ہے اور سب سے مہم تر یہ ہے کہ انسان اپنی ابدی زندگی کے لیے سعادت مند، قوانین و افعال کے درک سے عاجز و ناتوان ہے اور نیز واضح ہے کہ اس با استعداد و با صلاحیت موجود کو بے کار چھوڑ دینا اس کے مستعد خلق ہونے کے منافی اور حکمت کے خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ جس نے انسانی حالت کے لیے مفیدکسی بھی چیز کو مزاہم کرنے سے دریغ نہیں کیا ہے واضح ہے کہ وہ انسان کو ہمیشگی سعادت سے محروم نہیںکرسکتا. اور واضح ہے کہ افراد بشر میںسے ہر فرد وحی کے ذریعے خداوند متعال سے رابطے کی قابلیت نہیں رکھتا اور خلقت موجودہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایسی باتوں کی توقع بے جا ہے۔اب درج ذیل باتوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ خداوند متعال کی طرف سے ایسے پیغمبر کا وجود ضروری ہے جو انسانی معاشرہ کے دنیوی و اخروی تمام امور کے بارے میں مختلف سعادت بخش پروگرام لوگوں تک پہنچائے۔
بالفاظ دیگر وہ چیز جو انسانی زندگی میں ہر چیز سے زیادہ ضروری ہے وہ نیک و بداور جو کچھ انجام دینا ضروری ہے یا جسے ترک کرنا ضروری ہے اور ضروری اور غیر ضروری کی پہچان ہے۔ اس شناخت میں حس و عقل دونون انسان کے لیے آلہ معرفت ہیںاور اس کے باوجود کہ وہ بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن کافی نہیںہیں
حس و عقل معرفت سعادت سے عاجز ہیں
حس کا ضروری و غیر ضروری خوبی و بدی اور اقدار کی معرفت سے عاجز ہونا واضح ہے ، کیونکہ یہ امور حس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ حس صرف تاثیر و تأثراور فعل و انفعالات خارجی کی تشخیص دے سکتی ہے۔مثلاً دیکھنے والاانسان جو دوانسانوں کے جھگڑے کو دیکھتا ہے ان دونوں میں سے فریاد کرنے والے کی فریاد کو محسوس کرتا ہے لیکن وہ اس کی خوبی و بدی کو درک کرنے سے مکمل طور پر عاجز ہے۔ اس بناء پر حس حسن و قبح اشیاء کوسمجھنے سے عاجز ہے۔
عقل کی نارسائی بھی واضح ہے کیونکہ عقل کچھ خوبیوں و بدیوں اور جس چیز کو انجام پانا چاہیے اور جو انجام نہیں پانا چاہیے کو درک کرتا ہے لیکن پھر بھی جتنا ادراک ضروری ہے اسے درک کرنے سے عاجز ہے،کیونکہ ادراکات عقلی، کلی اورعام ہوتے ہیں(جیسے اجتماع ضدین اور اجتماع نقیضین کا محال ہونا اور ہر معلول محتاج علت ہے وغیرہ)جو جزئی اعمال اور زندگی میں اچھے، بُرے کی پہچان کے ساتھ کس قسم کا ارتباط نہیں رکھتے .ادراکات عقلی مواد خارجیہ اور خوبیوں، بدیوں اور ضروری اور غیر ضروری کی تعیین سے متعلق جو حس و تجربہ سے انجام پاتے ہیں ان میں سعادت بخشی اور تمام سعادت آوراور شقاوت آور موارد کی تعیین کی قدرت نہیں رکھتے۔ کیونکہ انسان کی سعادت و شقاوت، نیک بختی و بدبختی سے متعلق مہم ترین مسائل میں دنیا و آخرت میں انسان کے اختیاری اعمال کے رد عمل کی معرفت ہے اور واضح ہے کہ عقل کے لیے ایسی وسیع سطع کی شناخت موجود نہیں، کیونکہ شناخت عقلی شخصی و جزئی اور مختلف اعمال زندگی سے مربوط نہیں۔ اور مصادیق کی شناخت بھی حس کے ذریعے دنیا و آخرت میں انسان کے اختیاری اعمال کے ردعمل کی معرفت سے مربوط نہیں کیونکہ عالم آخرت انسان کے مشاہدہ اور حس کے موارد میں سے نہیں ۔
بشری وانسانی ،کاتب کی عاجزی و پارسائی
بشری مکاتب جو حس و عقل سے استفادہ کرتے ہیںوہ سعادت بخش و شقاوت آور مسائل کی وسیع سطح پر شناخت کے قابل نہیںہیں اور اس کے باوجود کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے بہت سے مسائل واضح ہوتے جاتے ہیں لیکن مسائل کی وسعت و پیچیدگی کی وجہ سے مکاتب بشری حس سے مربوط امور اور ماروائے حس امور کی جزئیات و تفصیلات کی تشخیص کرنے میں ناکام ہیں۔مثلاً اس کے باوجود کہ مفہوم سعادت و شقاوت کلی طور پر مشخص اور واضح ہے لیکن سعادت کس چیز میں ہے؟ اور کس طرح حاصل ہوتی ہے ؟ اور بد بختی کس چیز میں ہے اور کس طرح حاصل ہوتی ہے؟ یہ وہ مجہولات ہیں جو ابھی تک مکاتب بشری کی نظر سے مورد اختلاف ہیں اور مکاتب بشری میں ان مہم ترین مسائل میں اختلاف مکاتب بشری کی ناتوانی کو ثابت کرتا ہے۔
نتیجتاً انسان سعادت تک رسائی اور شقاوت سے دوری اور اپنے حقیقی تکامل اور رشد کے لیے ایک شخصیت الہٰی کا محتاج ہے اور طبیعی طور پر مکتب وحی کا محتاج ہے جو علم محیط سے پیدا ہوا ہو اوراگرانسان ان کاموں کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے جنہیں انجام دینا چاہیے یا جن سے پرہیز کرنا چاہیے یاان کاموں کو جاننا چاہتا ہے جو آخرت میں اس کے لئے اچھایا برات نتیجہ رکھتے ہیں تو اسے وحی الٰہی اورانبیاء کے فرامین سے استفادہ اور ان کی پیروی کرنی چاہیے.
نبوت عامہ کی بحث کے آخر میں مناسب ہے کہ سلطان المحققین مرحوم خواجہ نصیر الدین طوسی کے قول کو ذکر کیا جائے۔
‘البعثہ حسنة لاشتمالھا علی فوائد، کمعاضدة العقل فیما یدّل علیہ، واستفادة الحکم فیما لا یدّل، و ازالة الخوف، و استفادة الحسن والقبح والنافع والضّارو حفظ النوع الانسانی، و تکمیل أشخاصہ بحسب استعداداتھم المتفاوتة، و تعلیمھم الصنایع الخفیّة والأخلاق، والسیاسات، والاخبار بالعقاب والثواب فیحصل اللّطف للمکلّف’ (١)
ترجمہ: ‘بعثت انبیاء حَسَن ہے کیونکہ بہت سے فوائد پر مشتمل ہے جیسے ان امور میں عقل کی تقویت جن پر عقل دلالت کرتی ہے اور ان امور میں حکم کا استفادہ جن چیزوں پر عقل دلالت نہیں کرتی اورانسان کے اندر سے خوف دورکرنا اوروحی کے ذریعے انسان ا چھے برے اورمفید و نقصان دہ معاملات کو متعین کرتا ہے اور انبیاء کی بعثت نسل انسانی کی بقاء وحفاظت
کاذریعہ ہے اورنسل انسانی کی مختلف صلاحیتوں کی تکمیل کا سبب ہے اور انسانوں کو مفیدصنعتوں اوراچھے اخلاقیات ، سیاسیات کی تعلیم دینے اور انسان کوثواب و عقاب سے آگاہ کرنے کا ذریعہ ہے ۔ پس بعثت انبیاء انسانوں کے لئے اللہ کا لطف ہے جو ان کی سعادت کی طرف راہنمائی کرتا ہے.
(معجزہ)
مذکورہ باتوں سے واضح ہو گیا ہے کہ انسان انبیاء کا محتاج ہے اور اب مسئلہ یہ ہے کہ کس طرح نبوت و رسالت ثابت ہو اور ہم کہاں سے اور کس ذریعے سے جان سکتے ہیں کہ فلاں شخص نبی و پیغمبر ہے۔ اس بارے میں اصلی و بنیادی راستہ جو کسی بھی شخص کی رسالت یا نبوت کو متعین کرتا ہے وہ معجزہ ہے اور معجزہ قوانین طبیعی کے خلاف اور غیر عادی کام ہے اور سب لوگ اس جیسے کام کو انجام دینے سے عاجز ہوتے ہیں اور معجزہ دعویٰ نبوت کے ہمراہ ہوتاہے۔ جیسے مردوں کو زندہ کرنا، پتھر و ں اورپہاڑوں سے بات کروانا وغیرہ۔
وضاحت:معجزہ غیر عادی کام ہے پس انسان جو کام معمول کے مطابق انجام دیتا ہے جیسے چلنا پھرنا، کھانا، پینا وغیرہ کسی نبی کی نبوت و رسالت کی دلیل نہیں ہو سکتے اور غیر عادی کام جنہیں بعض افرادمخفی قوانین طبیعی کی بنیاد پر انجام دیتے ہیںجیسے شعبدہ باز، جادوگر اور ماہرین علوم غریبہ وغیرہ یہ کام معجزہ نہیں ہوتے،کیونکہ معجزہ قوانین طبعی کے خلاف ہوتا ہے اور قوانین کو توڑنا ہوتاہے اور اسی طرح علمی پیشرفتیں جیسے چاند پر جانا وغیرہ بھی معجزہ نہیں کیونکہ واضح ہے کہ یہ تمام کام کچھ قوانین خلقت پر دسترس حاصل کرنے کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں اور قوانین طبیعی کے خلاف نہیں۔ اور اگر ان علوم کے ماہرین سے پوچھا جائے کہ کیا تمہارے یہ کام قوانین خلقت کے خلاف ہیں تو وہ جواب دیں گے کہ نہیں، ہمارے کام قوانین خلقت (کے علم )سے استفادہ کا نتیجہ ہیں نہ قوانین خلقت کے خلاف
(کرامت)
معجزہ ہمیشہ دعویٰ نبوت کے ہمراہ ہوتا ہے اس بناء پر وہ خارق عادت اور خلاف قوانین طبیعی کام جو بعض موارد میں اولیاء الہٰی سے انجام پاتے ہیں اور اصطلاحی طور پر انھیں کرامت کہتے ہیں ان کی ماہیت و حقیقت وہی معجزے کی ماھیت و حقیقت ہے لیکن چونکہ یہ دعویٰ نبوت کے ہمراہ نہیںہوتے اس لئے اصطلاحی طور پر انھیں کرامت کہتے ہیں۔ البتہ بہت سے موارد میں درج بالا اصطلاح سے صرف نظر کیا جاتا ہے اور کرامت کو بھی معجزہ کہا جاتا ہے۔
(معجزہ و سحر (جادو))
مذکورہ بیان سے معجزہ اور سحر کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور پتہ چل جاتا ہے کہ معجزہ او رسحر ایک دوسرے سے ذاتی وحقیقی فرق رکھتے ہیںکیونکہ معجزہ بلا واسطہ اذن، ارادہ و رضاالہٰی سے مربوط ہے اور دوسرے غیر عادی کام اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ان قوانین طبیعی کی بنیاد پر ہیںجو سب پر واضح نہیں۔ پس معجزہ حقیقت و ذات میں دوسرے غیر عادی کاموں سے مختلف ہے۔ معجزہ اورسحر کو ایک دوسرے سے الگ کر نے اور یہ جاننے کیلئے کہ کون سی چیز معجزہ اور کون سی چیز جادو ہے درج ذیل دو باتیں اس کو واضح کر دیتی ہیں:
١۔ سحر و جادو اور علمی پیشرفتیںقابل تعلیم و تعلم ہیں لیکن معجزہ قابل تعلیم و تعلم نہیں۔
٢۔ معجزہ کے ذریعے چیلنج کیا جاتا ہے یعنی صاحب اعجاز دوسروں کو ایسا کرے کی دعوت دیتا ہے اور اصطلاحی طور پر مدّمقابل طلب کرتا ہے اور خود کبھی مغلوب نہیں ہوتا(لیکن جادو اور دوسرے غیر عادی کاموں میں چیلنج نہیں ہوتا) اور اگر جادو گر وغیرہ مد مقابل کو طلب کریں تو ان سے بھی قوی تر لوگ ظاہر ہو جائیں گے لہٰذا جادو گر مغلوب بھی ہو جاتا ہے۔
معجزہ کس طرح رسالت کی دلیل ہے؟
صاحب اعجاز پیغمبر کی پیامبری و رسالت پر معجزہ کی دلالت (معجزہ کی تعریف اور اس کے بارے میں مذکورہ تو ضیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہے روشن و واضح ہے کیونکہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اس طرح کسی سے معجزہ انجام پائے تو ضروری کہ وہ شخص سچا اور خداوند متعال سے مربوط ہو وگرنہ اللہ تعالیٰ نے ایک جھوٹے شخص کو بہت زیادہ گمراہ کن ذریعہ سے مسلح کیا ہے تا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے در حالانکہ واضح ہے کہ حق تعالیٰ ایسی باتوں سے منزہ ہے وہ مخلوق کو راہِ سعادت و صراط مستقیم کی طرف ہدایت فرماتا ہے اور اس نے ہدایت مخلوق کے لیے مختلف اسباب مقرر کیے ہیں۔ اس بناء پر معجزہ صاحب اعجاز کی صداقت و سچائی کی دلیل ہے اور اس کی رسالت کو ثابت کرتا ہے۔
پیغمبر اسلام ۖ کے معجزات
ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام حضرت محمدمصفطےٰ ابن عبداللہ ۖ نے جزیرة العرب میں مکہ میں رسالت و پیامبری کا دعویٰ و اعلان کیا اور اعلان رسالت کے آغاز سے لے کر آخر عمر تک پیغمبر اسلام ۖسے بہت سے معجزات دیکھے گئے تاریخی حقائق کی جانچ پڑتال سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ میں آپ ۖ کے بہت سے معجزات ثابت ہیں اورآپ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے ۔ اسی طرح مردوں کو زندہ کرنا ،بیماروں کو شفاء دینا اورآپ ۖ سے پہاڑوں کا باتیں کرنا اورحیوانوں کا آپ ۖ سے باتیں کرنا ، شق القمر اورغیب کی خبردیں دینا ، جیسے آپ ۖکے بہت سے معجزات ہیں۔
(اعجاز قرآن)
معجزہ کے بارے میں مذکورہ بیانات سے معلوم ہوگیا کہ قرآن مجید ہمیشہ رہنے والا اورہرانسان کی دسترس میں رہنے والا ہے کیونکہ یہ کتاب طبعی قوانین کے خلاف اوردعویٰ رسالت کے ہمراہ ہے کیونکہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آپ ۖ نے کسی استاد سے علم حاصل نہیں کیا اورآپ ۖ نے جزیزة العرب کے جاہل و خرافاتی معاشرہ میں زندگی بسر کی ہے اس کے باوجود آپ ۖ اس آلودہ معاشرہ کی آلودگی سے آلودہ نہیں ہوئے۔اور معارف، عقاید، اخلاق، وظائف وذمہ داریوں،اورانفردی و اجتماعی قوانین کے مجموعے کو بہترین اسلوب اورفصاحت و بلاغت میں لائے ہیںاور تمام جن و انس کو اس کتاب کے مقابلہ کے لئے بلکہ دس سوروں کے مقابلہ یا ایک سورہ کے مقابلہ کی دعوت دی ہے۔
قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الانْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰی أَنْ یَاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْآنِِ لاٰ یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہِ وَ لَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا (2)
ترجمہ: ‘آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں ۔’
وَ اِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِہِ وَ ادْعُوْا شُہَدائَ کُمْ مِنْ دُوْنِِ اللّٰہِ اِِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْن(3)
ترجمہ: ‘ اگر تمہیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کا جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور اللہ کے علاوہ جتنے تمہارے مددگار ہیںسب کو بلالو اگر تم اپنے دعوے اور خیال میںسچے ہو۔’
اس مبارزہ طلبی میں مکمل طور پر دشمن کے احساسات وجذبات کوبھڑکایاگیا ہے اور انہیں کہا گیا ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملاؤ اور جس سے چاہو مدد حاصل کرو اور اگر تم سچے ہو وغیرہ جیسے جملات سے ان کو مقابلہ کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ واضح ہے کہ ایسی چیز غیر عادی و خلاف قوانین طبیعی ہے اور آپ کی صداقت کو ثابت کرتی ہے۔
(وجوہ اعجاز قرآن)
قرآن کریم مختلف جہات سے معجزہ ہے۔
١۔ فصاحت و بلاغت
عصر نزول قرآن میں پیغمبر اکرم ۖکی بعثت کے مرکز(مکہ) میں فن خطابت و شعر، پرکشش گفتگو، تشبیہات اور تعجب انگیز کنایات کا رواج تھا،اس طرح کہ خطبائ، شعراء اورمقررین کے لیے بازار اوربیٹھنے کی جگہیں مختص تھیںجہاں وہ اپنے اشعار، نثر اور قصاید کو پڑھتے تھے اور ایک دوسرے کے سامنے پیش کرتے تھے اور ہر شخص کی قدر و قیمت اس کے شعراورخطابت کے مطابق تھی۔
اس قدر شعر، خطابت، کلام فصیح و بلیغ کی قدر دانی کی جاتی تھی کہ قصاید عرب کے سات بہترین قصیدے سونے کے پانی سے لکھ کر خانہ کعبہ کی دیواروں پر لٹکائے گئے تھے۔ ایسے ماحول میں خدا وندمتعال نے وجوہ اعجاز قرآن میں سے ایک وجہ فصاحت و بلاغت، حیرت انگیز اسلوب اورنظم کو قرار دیا تا کہ وہ لوگ جن کی مکمل مہارت صرف فصاحت و بلاغت ہے اور دقائق علمی و اجتماعی سے دور ہیں اور اس طریقہ سے عظمت قرآن کو نہیں سمجھ سکتے وہ بھی عظمت قرآن کو سمجھ سکیں اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے قرآن کو سمجھ کر اپنی عاجزی کا اعتراف کریں اور اعجاز قرآن کو قبول کریں۔
ہاں، قرآن نہ شعر ہے نہ عام نثر بلکہ خاص اسلوب رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود قرآن تعلیم و تربیت اور درس و ہدایت کی کتاب ہے۔صرف خیالی مطالب نہیںاورقرآن کے مطالب اس قدر جدید اور حیرت انگیز ہیں کہ عرب کے بہترین مقررین حیران ہوگئے اوراسلام اوررسول خدا ۖ کے دشمن جو اسلام کے مقابلہ میں ہر قسم کی جانی، مالی تکالیف کو برداشت کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے ،قرآن کے مقابلے میں اگر ایک مختصر سورہ لانے پر قادر ہوتے توقرآن کی مختصر سورتوں کے مقابلہ میں ایک مختصر سورہ بنا کر اسلام کی زندگی کو ختم کر دیتے لیکن وہ اپنی پوری کوشش کے باوجود اس پر قادر نہیں ہوئے بلکہ واضح طور پرانہوں نے اپنے عجز اور عظمت قرآن کی تصدیق کی۔
ولید بن مغیرہ مخزومی جو کہ عربوں کے بزرگ اور ثروت مند، زیرک، تجربہ کاراورنکتہ سنج شخصیت شمار ہوتاتھا، ایک دن رسول خدا ۖکے پاس سے گذرا اور آنحضرت ۖ کی خدمت میں عرض کی، اپنے اشعار پڑھیں۔ آپ ۖ نے فرمایا ، وہ شعر نہیں بلکہ خداوند متعال کاکلام ہے۔ ولید نے کہا اس کا کچھ حصہ میرے لیے پڑھیں۔پیغمبر اکرم ۖنے سورہ حٰم سجدہ کی تلاوت کی جب اس آیت پر پہنچے:
وَ اِنْ اَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُکُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُوْدَ. (4)
ولید کانپ اُٹھااور اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اورآپ ۖ کو قسم دی کہ خاموش ہو جائیں، اور پھر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا اور اپنے دوستوں رشتہ داروں سے کہا میں نے محمد ۖ سے ایسا کلام سنی ہے جو کلام بشر نہیں اور نہ ہی کلام جن ہے،بے شک اس میں ایک مخصوص حلاوت و شرینی ہے اورخاص حسن و جمال ہے وہ کلام اس درخت کی طرح ہے۔ جس کی شاخیں پھل دار ہیں اور جڑیں زیادہ پانی پیتی ہیں بے شک وہ غالب ہے اور کوئی اس پر غالب نہیں۔
قریش جب اس واقعے سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے کہا ولید نے دین محمد ۖ کو قبول کر لیا ہے، اگر یہ خبر پھیل ہو گئی تو عرب بھی آپ کی طرف مائل ہوجائیں گے اور ہمارا کام مشکل ہو جائے گا۔ ابو جہل جو ولید کا چچا زاد بھائی تھااس نے کہامیں اس مسئلے کو حل کرتا ہوں اور پھر ولید کے پاس گیا اور غمزدہ حالت میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔
ولید نے کہا: میرے چچا زاد میں تمہیں غم زدہ دیکھ رہا ہوں۔ ابو جہل نے کہا قریش تیری سرزنش و ملامت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تو محمدۖ پر ایمان لے آیا ہے اور ہمیں ذلیل ورسواکر دیا ہے، اور دشمن کو ہماری برائی پر آمادہ کیا ہے۔
ولید نے کہا۔ میں ان کے دین کی طرف مائل نہیں ہوا لیکن میں نے مشکل کلام کو سنا جس نے میرے جسم پر لرزہ طاری کر دیا۔ ابو جہل نے کہا۔ آپ ۖ کی کلام خطابت ہے۔
ولید نے کہا نہیں، خطابت مسلسل کلام ہے اور آپ ۖ کا کلام قطعات پر مشتمل ہے۔
ابو جہل نے کہا: شعر ہے .
ولید نے کہا، نہیںمیں نے اشعار عرب کی تمام اقسام کو سنا ہے اور تمام اشعار عرب سے آشنا ہوں ان کی کلام شعر نہیں۔
ابو جہل نے کہا: پس وہ کیا ہے؟
ولید نے کہا چھوڑو مجھے سوچنے دو۔
دوسرے دن ابو جہل قریش کی محفل میں داخل ہو ا اور ان کی تمام تجاویز کو سنا کہ وہ کہہ رہے تھے محمدۖدیوانے، یاجھوٹے یا کاہن ہیں اور پھر انہیں رد کر دیا۔ تو انہوں نے کہا تو کیا کہتا ہے؟ تو ابو جہل نے کہا، کہو جادو گرہے کیونکہ آ پ ۖکا کلام دلربا ہے اوررشتہ داروں میں جدائی ڈالتا ہے۔
اس واقعہ کی خبر آنحضرت ۖتک پہنچی تو آپ ۖ متاثر ہوئے اورغم واندوہ کے عالم میں اپنے گھر میں رہے۔ اس دوران جبرائیل نازل ہوئے اور آیات سورہ مدثر کو لائے۔
یَا ایُّھَا المُدَّثِر ں قُم فَاَنذِر ںسے لے کر اس آیت تک فَقَالَ اِن ھٰذَا اِلّا سحر یُؤثَرُ۔(5)
‘ اوراس نے کہا کہ یہ(قرآن) تو ایک جادو ہے جو پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے’ ۔
وجوہ اعجاز قرآن میں سے وجہ اول کے آخر میںیہ بتانا ضروری ہے کہ نزول قرآن کو تقریباً چودہ صدیاں گذر چکی ہیں اور اس طویل مدت میں اسلام و مسلمین کے ساتھ دشمنوں نے انتہا کی دشمنی کی اور اب بھی مغرب و مشرق جنہوں نے اقتصادی و ثقافتی لحاظ سے بہت ترقی کر لی ہے اور مختلف علوم کے ماہرین اورمفکرین اپنے پاس رکھتے ہیںاور اسلام کے ساتھ ان کی دشمنی بھی قابل بیان نہیںاس کے باوجود اگر ان اہم ترین خطباء ، سخنوران، متفکرین و مصنفین کے دماغوں سے استفادہ کر سکتے اورلمبے عرصے میں ان کے لیے فکر کرنے کا بہترین ماحول فراہم کرتے اور ایک مختصر سورہ جیسے سورہ توحید، سورہ کوثر جیسی ایک سورت بنا کرلاسکتے اور اسلام و مسلمین کی زندگی کو ختم کر سکتے تو یقیناً یہ کام کرتے لیکن وہ قرآن کی ایک مختصر ترین سورہ جیسی سورہ بنا کر بھی نہیں لا سکے۔
٢۔ مختلف اہم حقائق کا بیان
قرآن مجید میں اہم ترین معارف و حقائق اعتقادی، معاشرتی، علمی، عملی،عبادی اور اسرار خلقت کی تشریح، اخبار غیبی کا بیان اور قرآن میں عدم اختلاف اور قرآن کاکتاب ہدایت ہونااچھی طرح واضح ہے۔ کیونکہ پیغمبر اکرم ۖ کے اُمی ہونے اورکسی سے علم حاصل نہ کرنے اور استاد کے پاس نہ جانے ، اور نیز جزیرة العرب کی پس ماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ مذکورہ خصوصیات پر مشتمل مجموعہ کو پیش کرنا طبیعی قوانین کے خلاف اور قدرت بشر سے بالاتر ہے اور نتیجةً روشن و واضح معجزہ ہے۔
ہاں قرآن کریم اپنی فصاحت و بلاغت کے علاوہ اپنے مضامین ، معارف اورکائنات کے حقائق و دقائق کی وضاحت اورغیب کی خبروں کے لحاظ سے بھی معجزہ ہے اورحضرت محمد ۖ کی رسالت کو ثابت کرتا ہے البتہ مختلف جہات سے اعجاز قرآن کی کیفیت کی تشریح مفصل کتب میں موجود ہے۔ اور ہم بھی انشاء اللہ دوسری تحریروں میں تفصیلی طور پر ذکر کریں گے۔
بحث اعجاز قرآن کے آخر میں مناسب ہے بعض آیات شریفہ کو جو مختلف اعتقادی، اخلاقی، اجتماعی، عبادی، اخبار غیب اور اسرار خلقت، کے مسائل سے مربوط ہیں ذکر کیا جائے ۔ اب ہم ان میں سے بعض آیات کو ذکر کرتے ہیں:
الف۔ توحید و توصیف الہٰی
ہُوَاللّٰہُ الذِ ی لاَ اِلٰہَ اِلاّ ہُوَ عاٰ لِمُ الغَیبِ و الشَّہَادَة ِ ہُوَ الرَّحمٰنُ الرحِیم ں ہوَ اللّٰہُ الَّذِی لٰاا ِلہ اِلا ہُوَ َالملِکُ القُدُّوسُ السَّلامُ المُؤمِنُ المُہَیمِنُ العَزِیزُ الجَبَّارُ المُتَکَبِِّرُ سُبحَانَ اللّٰہِ عَمَّا یُشرِکُِونَ ں و َہُوَ اللّٰہُ الخَالِقُ الباٰرِِیُ المُصَوِّرُ لَہُ الأسمٰائُ الحُسنیٰ یُسَبِّحُ لَہُ مَا فیِ السَّمَاوَاتِ وَ الأَرِضِ وَ ہُوَ العَزِیزُ الحَکِیمُ ۔(6)
ترجمہ: ‘ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ غیب و شہود کا جاننے والا ہے، وہی رحمن و رحیم ہے۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی بادشاہ ہے، نہایت پاکیزہ، سلامتی دینے والا، امان دینے والا، نگہبان، بڑا غالب آنے والا، بڑی طاقت والا، کبریائی کا مالک، پاک ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ وہی اللہ ہی خالق، موجد اور مصوِّر ہے جس کے لیے حسین ترین نام ہیں، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔’
ب۔ معاشرتی مسائل
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
الف: اِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُ کُمْ بِالعَدْلِ وَ الاحْسَانِ وَا ِیتایِٔ ذِیِ الْقُرْبیٰ وَ یَنْہیٰ عَنِ الْفَحْشَاء ِ وَ المُنْکَرِ وَ الْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔(7)
ترجمہ: ‘بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور قرابتداروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بدکاری اور ناشائستہ حرکات و ظلم سے منع کرتا
ہے وعظ و نصیحت کرتا ہے تا کہ شاید تم اسی طرح نصیحت حاصل کرو’
ب: اِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُوا لأَمَانَاتِ اِ لٰی اَہْلِہَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ۔ (8)
ترجمہ:’ بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو’
ج: وَاعْبُدُو ا اللّٰہَ وَ لٰا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَ بِذیِ الْقُرْبیٰ وَ الْیَتٰامیٰ وَ الْمَسٰاکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِیِ الْقُرْبیٰ وَ الجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاٰحِبِ بِالجَنْبِ وَ ابْنِ السَّبِیلِ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمٰانُکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لٰا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتٰالاً فَخُوراً۔(9)
ترجمہ:’ اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شئے کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیکی کرو اور قرابتداروں کے ساتھ اور یتیموں، مسکینوں، قریب کے ہمسایہ، دور کے ہمسایہ، پہلو نشین، ابن سبیل، غلام و کنیز سب کے ساتھ نیک برتاؤ کروبے شک اللہ مغرور اور متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا’د: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواکُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُہَداٰء لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلیٰ أنْفُسِکُمْ اَوِالوٰالِدَیْنِ وَ الأقْرَبِینَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیّاً أَوْ فَقِیراً فَاللّٰہُ أَوْلیٰ بِہِِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الہَوَیٰ اَنْ تَعْدِلُوا وَ اِنْ تَلْوُوا اَوْ تُعْرِضُوا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمٰا تَعْمَلُونَ خَبِیراً۔ (10)
ترجمہ’ اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو۔ اور اللہ کے لیے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین و اقرباء کے خلاف کیوں نہ ہو۔ جس کے لیے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر اللہ دونوں کے لیے تم سے اولیٰ ہے۔ لہذا خبر دار خواہشات کا اتباع نہ کرنا تا کہ انصاف کر سکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشی کر لی تو یاد رکھو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے’
ھ: فَمَنِ اعْتَدیٰ عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدیٰ عَلَیْکُمْ (١1)
ترجمہ: پس جو تم پر زیادتی کرے تم بھی ویسا ہی برتاؤ کرو'(اس سے زیادہ نہیں)
و: اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّاٰبِِرُونَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ۔ (1٢)
ترجمہ’ صبر کرنے والے ہی وہ ہیں جن کو بے حساب اجر دیا جاتا ہے’
ج۔ اخلاقی، عبادی، اقتصادی اور اعتقادی
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِِ الَّذِیْنَ یَمْشُونَ عَلَی الأَرْضِ ہَوْناً وَ اِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ں وَ الَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّہِمْ سُجَّداً وَ قِیاٰماً ں وَ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَاماً ں اِنَّہَا سَائَ تْ مُسْتَقَرّاً وَ مُقَاماً ں وَ الَّذِینَ اِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَ لَمْ یَقْتُرُوا وَ کَانَ بَیْنَ ذَالِکَ قَوَاماً ںوَ الَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللّٰہِ ِالٰہاً آخَرَ وَ لَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتیِ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُونَ وَ مَنْ یَفْعَلْ ذَالِکَ یَلْقَ أَثَاماً ںیُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَ یَخْلُدْ فِیہِ مُہَاناً ںاِلَّا مَنْ تَابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُولٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوراً رَحِیماً ںوَ مَن تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحاً فَاِنِّہُ یَتُوبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَاباً ں وَ الَّذِینَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ وَ اِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَاماً ںوَ الَّذِینَ اِذَا ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْہَا صُمّاً وَ عُمْیَاناً ںوَ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِیَّتِنَا قُرَّةَ أَعْیُنٍ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ اِمَاماً ںأُولٰئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَ یُلَقَّوْنَ فِیہَا تَحِیَّةً وَ سَلَاماً ںخَالِدِینَ فِیہَا حَسَنَتْ مُسْتَقَرّاً وَ مُقَاماً(١3)
ترجمہ: ‘اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں۔ اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں۔ یہ لوگ راتوں کو اس طرح گذارتے ہیں کہ اپنے رب کی بارگاہ میں کبھی سجدہ میںرہتے ہیں اور کبھی حالت قیام میں رہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ پروردگار ہم سے عذاب جہنم کو پھیر دے کہ اس کا عذاب بہت سخت اور پائیدار ہے وہ بدترین منزل اور محل اقامت ہے۔ اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ بلکہ ان دونوں کے درمیان اوسط درجہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اور یہ لوگ خدا کے ساتھ کسی اور کو نہیں پکارتے اور کسی کو بھی اگر خدا نے محترم قرار دیا ہے تو اسے حق کے بغیر قتل نہیں کرتے اور زنا بھی نہیں کرتے ہیں کہ جو ایسا عمل کرے وہ اپنے عمل کی سزا بھی برداشت کرے گا۔ جسے روز قیامت دگنا کر دیا جائے گا اور وہ اسی میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ پڑا رہے گا۔ علاوہ اس شخص کے جو توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل بھی کرے کہ پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کر دے گا اوروہ بہت بخشنے والا مہربان ہے اور جو توبہ کرے گا اور عمل صالح انجام دے گاوہ اللہ کی طرف واقعاً رجوع کرنے والا ہے۔ اور وہ لوگ جو جھوٹ، فریب کے پاس حاضر بھی نہیں ہوتے ہیں اور جب لغو کاموں کے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں اور ان لوگوں کو جب آیات الہٰیہ کی یاد دلائی جاتی ہے تو بہرے اندھے ہو کر گر نہیں پڑتے ہیں۔ اور وہ لوگ برابر دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدایا ہمیں ہماری ازواج اور اولاد کی طرف سے خنکی چشم عطا فرما اور ہمیں صاحبان تقویٰ کا پیشوا بنا دے۔ یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کی بناء پر جنت کے بالاخانے عطا کیے جائیں گے اور وہاں انہیں تعظیم اور سلام کی پیش کش کی جائے گی وہ انہیں مقامات پر ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ بہترین مستقر اور حسین ترین محل اقامت ہے۔’
د۔ غیب کی خبریں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
الف: فَاصْدَعْ بِمَا تُؤمَرُ وَ أَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرکِِینَ ںاِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَہْزِئِیْنَ ں الَّذِیْنَ یَجْعَلُونَ مَعَ اللّٰہِ ِالَہًا ئَ اخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ ۔(١4)
ترجمہ: پس آپ اس بات کا واضح اعلان کر دیں جس کا حکم دیا گیا ہے اور مشرکین سے کنارہ کش ہو جائیں ہم ان استہزاء کرنے والوں کے لیے کافی ہیں جو خدا کے ساتھ دوسرا خدا قرار دیتے ہیں۔ اور عنقریب انہیں ان کا حال معلوم ہو جائے گا۔
ب: الم ںغُلِبَتِ الرُّومُ ں فیِ أَ دْنَی الأَرْضِ وَ ہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوْنَ ۔(١5)
ترجمہ: ‘روم والے مغلوب ہو گئے قریب ترین علاقہ میں لیکن یہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب پھر غالب ہو جائیں گے’
ج: تَبَّتْ یَدَاَ بِی لَہَبٍ وَ تَبَّ ںمَا أَغْنٰی عَنْہُ مَالُہُ وَ مَا کَسَبَ ںسَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ ں وَ امْرَأَتُہُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ۔(16)
ترجمہ: ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہو جائے۔ نہ اس کا مال ہی اس کے کام آیا اورنہ اس کا کمایا ہوا سامان ہی۔ وہ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گااور اس کی بیوی بھی جوایندھن اٹھانے والی ہے ‘
سورہ حجر کی آیت نمبر (٩٤) میں استہزاء کرنے والوں کے شر سے حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور اسی طرح ہوا بھی اور ان سب کا شر خود ان کی طرف لوٹ گیا۔سورہ روم کی اولین آیت میں رومیوں کے غلبہ کی خبر دی ہے اور وہ بھی قرآن کی فرمائش کے مطابق غالب آئے۔ اور سورہ لہب میں ابو لہب کے ایمان نہ لانے کا اعلان فرمایا اور وہ ایمان نہ لایا۔ درج ذیل آیات قرآن کریم کی اخبار غیبی کا ایک نمونہ ہیں جن میں ادعائے نبوت کے ساتھ ساتھ قطعی طور پر آیندہ کی خبر دی گئی ہے۔ واضح ہے کہ اگرحضرت محمد ۖ صادق نہ ہوتے تو خداوند متعال ان کے دعوے کو باطل کرتا۔
ھ۔ اسرار خلقت
الف: وَأَنْبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ شَیئٍ مَّوْزُونٍ ۔ (١7)
ترجمہ: اور اس میں ہر چیز کو معین مقدار کے مطابق پیدا کیا۔
ب: وَأَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ….. (18)
ترجمہ: اور ہم نے ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اُٹھانے والا بنا کر چلایا ہے۔
ج: وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَراتِ جَعَلَ فِیْہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ۔۔۔ (19)
ترجمہ:’اور نہریں جاری کیں اور ہر پھل کا جوڑا قرار دیا ۔’
د: سُبْحَانَ الَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا مِمَّا تُنْبِتُ الأَرْضُ وَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ وَ مِمَّا لاَ یَعْلَمُونَ ۔(20)
ترجمہ:’ پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا ہے ان چیزوں میں سے جنہیں زمین اگاتی ہے اور ان کے نفوس میں سے اور ان چیزوں میں سے جن کا انہیں علم بھی نہیں ہے ۔’
ھ: الَّذِ ی جَعَلَ لَکُمُ الأَرْضَ مَہْدًا۔۔(21)
ترجمہ:’اس نے تمہارے لئے زمین کو گہوارہ بنایا ہے ‘۔
و: رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَ رَبُّ الْمَغْرِبَیْن ۔(22)
ترجمہ:’ وہ چاند اور سورج دونوں کے مشرق اور مغرب کا مالک ہے۔’
ز: فَلاَ أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَ الْمَغَارِبِ ِانَّا لَقَادِرُونَ ۔(23)
ترجمہ:’میں تمام مشرق و مغرب کے پروردگار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں ۔’
درج بالا آیات میں زوجیت نباتات اور ہوا کے ذریعے لقاح اور گردش زمین اور دو مشرق و مغرب کی موجودیت اور زمین کی کرویت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک زمان نزول قرآن سے صدیوں بعد کشف ہو چکے ہیں۔ اور جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ قرآن کے بیان کردہ اسرار خلقت کی طرف توجہ دینا ہے۔ اور واضح ہے کہ اس کی تفصیل مفصل بحث اورمستقل کتاب کی تحریر کی متقاضی ہے۔
یاددہانی:واضح ہے کہ قرآن کا مقصد راہنمائی و ہدایت ہے جیسا کہ وہ خود اپنا تعارف کرواتا ہے کہ کتاب ہدایت، نور، بصیرت و درس و تعلیم و تربیت اور رہنمائے سعادت کتاب ہے۔ لیکن اس ہدف کے راستے میں اور اس ہدف تک رسائی کے لیے اور اعجاز، حقانیت، آیت و علامت ہونے کی وضاحت کے لیے بلند ترین مناسب خصوصیات سے برخوردار ہے۔
١۔ بے مثل بے نظیر فصاحت و بلاغت۔
٢۔ عصر نزول قرآن میں مخفی علوم جیسے اسرار خلقت اور حقائق کائینات کی طرف اشارہ.
٣۔قطعی اور حتمی غیبی خبریں.
٤۔ محکم و متقن ہونا اور مطالب میں اختلاف کا نہ ہونا اور حیرت انگیز اسلوب۔
٥۔ بے انتہاء لطائف۔
٦۔ دلوں میں تاثیر و نفوذ اور اس کی تلاوت کا روح و قلب کے لیے اطمینان بخش ہونا
ہاں قرآن فرمان رسول اکرم ۖ کے مطابق:
‘ظاھرہ أنیق (وثیق) و باطنہ عمیق لہ نجوم و علی نجومہ نجوم لاتحصی عجائبہ و لاتبلی غرائبہ’ (24)
ترجمہ: قرآن کریم کا ظاہر شیرین اور باطن عمیق اور افکار کی دسترس سے دور ہے؛ اس کے عجائب کا شمار نہیں کیا جا سکتا اور اس کے شگفت انگیز مطالب کبھی پرانے نہیں ہوتے۔’
اور امیرلمؤمنین ں کے فرمان کے مطابق:
‘و فیہ ربیع القلب و ینابیع العلم و ما للقب جلاء غیرہ’۔ 25
ترجمہ: قرآن میں دلوں کی بہار اور دانش کے سرچشمے ہیں؛ اور قرآن سے ہٹ کر کوئی چیز دلوں کی جلا اور صفا کا سبب نہیں بن سکتی۔’
عصمت
بحث نبوت میں قابل تحقیق مسائل میں سے ایک مسئلہ عصمت انبیاء ہے۔ عصمت لغت میں حفاظت و نگہبانی کے معنی میں ہے۔ اور عصمت انبیاء سے مقصود انبیاء کا خطا و نسیان (عصمت علمی) اور گناہ و معصیت (عصمت عملی) سے محفوظ ہونا ہے۔ انبیاء الہٰی ایک ایسی خصوصیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اشتباہ، خطا، نسیان، فراموشی، گناہ اور آلودگی سے محفوظ ہیں۔ تبلیغ نبوت و رسالت میں اشتباہ نہیں کرتے اور زندگی کے معمولی امور میں بھی خطا نہیں کرتے اور عمداً، توجہ کے ساتھ ان سے گناہ سر زد نہیں ہوتا اور گناہ پر قدرت کے باوجود کبھی گناہ نہیں کرتے۔
عصمت انبیاء کے اثبات پر متعدد عقلی، نقلی دلایل بیان کیے گئے ہیں۔ ہم مختصر طور پر اُن میں سے بعض دلائل کو ذکر کرتے ہیں۔
انبیا ء ٪ کی عصمت پر عقلی دلائل
١۔ عصمت انبیاء پر ایک عقلی دلیل یہ ہے کہ اگر انبیاء اشتباہ سے محفوظ نہ ہوں تو ان پر اطمینان و اعتماد نہیں رہے گا۔ اور وہ قابل اطمینان و اعتماد نہ ہوں تو یہ غرض نبوت و رسالت کے خلاف ہو گا۔ اس بناء پر ضروری ہے کہ انبیاء گناہ و اشتباہ سے محفوظ ہوں۔
استدلال کی وضاحت
واضح ہے کہ جس شخص کی گفتار و رفتار میں خطا کا امکان ہو نیز گناہ، معصیت جیسے جھوٹ بولنا اس کے لیے فرض کیا جائے تو جب وہ بات کرے گا۔ اور اس بات کی نسبت خدا کی طرف دے گا تو یہ بھی احتمال ہے کہ جھوٹ بول رہا ہو کیونکہ گناہ سے محفوظ نہیںاور یہ بھی احتمال ہے کہ اشتباہ کر رہا ہو اور غلطی سے اپنی بات کو اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت دے رہا ہو کیونکہ وہ خطا سے محفوظ نہیں۔ اس بناء پر یہ یقین کہ اس کی بات خدا کی بات ہے۔ اور اس کا حکم ،حکم الہٰی ہے۔ حاصل نہیں ہو گااور نتیجتاً رسالت کا مقصد کہ لوگوں کا احکام الہٰی پر یقین و اطمینان حاصل ہو عملی نہیں ہو گا۔ اور یہ غرض بعثت و رسالت کے خلاف ہے۔
٢۔ واضح ہے کہ عقل حجت الہٰی ہے اور عقل کے واضح حکم کی پیروی کرنی چاہیے۔ اور نیز یہ بھی ہے کہ پیغمبر اکر م ۖحجت الہٰی ہیں اور ان کی بھی پیروی کرنی چاہیے۔ اگر پیغمبر گناہ گار، ہواور خطا واشتباہ کرسکتا ہو تو عقل کہتی ہے کہ ایسے گناہ گار خطاکار شخص کی پیروی جائز نہیں۔اور دوسری طرف انبیاء الہٰی کی پیروی ضروری ہے۔ تو اس بناء پر لوگ دو متناقص باتوںکے درمیان پھنس جائیں گے اور خدا وند متعال لوگوں کو دو متناقص امور کے درمیان حیران و سرگردان نہیں چھوڑ سکتا۔ نتیجتاً ضروری ہے کہ پیغمبر خطا و اشتباہ سے محفوظ ہو تا کہ ایسا تناقض و تحیر پیدا نہ ہو۔
٣۔ نبی و رسول کی خبر کو بغیر تأمل قبول کرنا ضروری ہے وگرنہ اس کی پیامبری و نبوت لغو، بے سود ہو گی۔ اور اگر پیغمبر گناہ گار و خطار کار ہو تو واضح طور پر اس کی خبر قابل قبول نہیں ہو گی۔ پس پیغمبر کو گناہ گار و خطا کار نہیں ہونا چاہیے۔
عصمت انبیاء پر عقلی دلائل بہت زیادہ بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن اختصار کی وجہ سے درج بالا تین دلائل پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ یہاں پر سلطان المحقیقین خواجہ نصیر الدین طوسی کی عبارت کو(جس میں انہوں نے عصمت انبیاء پر چند عقلی دلائل کو ذکر کیا ہے) ہم بھی ذکر کرتے ہیں۔
‘و یجب فی النّبیّ العصمة، لیحصل الوثوق، فیحصل الغرض، ولوجوب متابعتہ و ضّدھا والانکار علیہ'(26)
ترجمہ: ‘اور نبّی کا معصوم ہونا واجب ہے تاکہ اس پر وثوق حاصل ہو سکے؛ اس لئے کہ اگر نبی پر وثوق ہو گا تو نبی کی بعثت کی غرض حاصل ہو سکے گی۔ اور نبی کا معصوم ہونا واجب ہے کیونکہ اس کی پیروی کرنا کلی طور پر واجب ہے اورغیر معصوم کی پیروی طور جائز نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی معصوم نہ ہو توکلی طور پر اور بطور مطلق اس کی پیروی کرناجائز نہیں ہوتا۔’
انبیاء ٪کی عصمت پر نقلی دلائل
اس نکتہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ عصمت انبیاء پر بنیادی و اصلی استدلال وہی واضح عقلی دلائل ہیں اور اگر ہم عصمت انبیاء پر عقلی دلائل سے صرف نظر کریں تو انہوں نے خود جو باتیں اپنی عصمت کے بارے میں کی ہیں وہ بھی مشکوک ہو جائیں گی۔اور واضح ہے کہ ان کی گفتار میں جھوٹ کا احتمال اصل رسالت و نبوت کے منافی ہے۔
بعض دلائل نقلی
١۔ خداوند متعال فرماتا ہے:
و مَا أرْسَلنَا مِنْ رَسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاذْنِ اللّٰہِ ۔(27)
اس آیت شریفہ سے اطاعت پیغمبر ۖ کا وجوب واضح ہے کیونکہ بعثت پیغمبر ۖ کی غرض ان کی اطاعت اور کلی طور پر ان کی پیروی اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو بیان کیا گیا ہے۔ اور واضح ہے کہ اگر پیغمبر گناہ و خطا سے محفوظ نہ ہوںتو حکم عقل کے مطابق ان کی مطلق پیروی جائز نہیں ہو گی۔ اس بناء پر واضح ہے کہ انبیاء معصوم اور گناہ و خطا سے محفوظ ہیں۔
٢۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَةُ۔ (٢8)
ترجمہ:’ مسلمانو! تمہارے لئے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے ۔’
درج بالا آیت پیغمبر اکرم ۖ کوایسا اسوۂ ونمونہ قرار دیتی ہے جس کی پیروی سعادت کا باعث ہے واضح ہے کہ اگر پیغمبراکرم ۖ گناہ و خطا سے محفوظ نہ ہوں تو وہ بطور مطلق اسوہ و نمونہ نہیں ہوں گے۔ کیونکہ خدا وند متعال گناہ گار، خطاکار کی پیروی کا ہرگز حکم نہیں کرتا۔بنابر این اس آیت سے واضح طور پر حضور ۖ کی عصمت کا استفادہ ہوتا ہے.
٣۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَ ہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا۔
ترجمہ:’ اے اہل بیت پیغمبرۖ!بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جس طرح پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے’
درج بالا آیات ہر رجس و پلیدی سے پاک گروہ اہل البیت کو بیان کرتی ہے۔ اس بناء پر پیغمبر اکرم ۖ اور آپ کا خاندان وہ ہستیاں ہیں جو ہر رجس و پلیدی سے منزہ ہیں اور واضح ہے. کہ گناہ و اشتباہ، پلیدی اوررجس ہیں۔ اس بناء پر مذکورہ آیت میں مذکورہ گروہ، گناہ و خطا سے محفوظ ہیں۔ (29)
٤۔ جابر نے حضرت امام محمد باقر ںسے علم عالم کے بارے میں سوال کیاتو حضرت نے اسے فرمایا:
انّ فی الأنبیاء و الأوصیاء خمسة أرواح، روح القدس و روح الایمان و روح الحیوة و روح القوّة و روح الشھوة فبروح القدس یا جابر علمنا ما تحت العرش الی ما تحت الثری ثمّ قال: یا جابر! انَّ ھذہ الأرواح یصیبہ الحدثان الاّ انّ روح القدس لایلھو ولا یلعب۔(30)
ترجمہ: ‘یقینا انبیأ اور ان کے جانشینوں میں پانچ ارواح ہیں: روح القدس، روح الایمان، روح الحیاة ، روح القوة اور روح الشہوة۔ ائے جابر! ہم نے روح القدس کے ذریعے ماتحت عرش سے ماتحت ثریٰ (یعنی پورے عالم ہستی) کا علم پایا۔ پھر آپ نے فرمایا: روح القدس کے علاوہ باقی روحیں دنیا کے حوادث سے متأثر ہوتی ہیں لیکن روح القدس سے لہو و لعب (اور نتیجہ میں گناہ اور معصیت) سرزد نہیں ہوتے.’
٥۔ حضرت امیرلمؤمنین ـ فرماتے ہیں۔ وہ واجبات جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر کیے ہیں ان کی پانچ قسمیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے لیے چار شرائط ہیں کہ جن سے عدم آگاہی کا کسی کوحق اور اختیار نہیں پھر آپ نے فرمایا:
و أمّا حدود الامام المستحقّ للامامة، فمنھا أن یعلم المأموم المتولّی علیہ أنّہ معصوم من الذّنوب کلّھا صغیرھا و کبیرھا، لا یزّلُ فی الفتیا و لا یخطیء فی الجواب ولا یسھو ولا ینسی ولا یلھو بشیء من أمر الدنیا …(31)
ترجمہ: ‘اور جہاں تک امامت کے مستحق امام کی شرائط کا تعلق ہے تو ان میں سے ایک یہ ہے کہ مأموم کو معلوم ہو کہ اس کا امام وہ ہو سکتاہے کہ جو صغیرہ و کبیرہ ہر قسم کے گناہ سے معصوم ہو؛ وہ فتوی دینے او رلوگوں کے مسائل کا جواب دینے میں لغزش نہ کرے اور نہ سہو کا شکار ہو اور نہ نسیان کا اور نہ ہی دنیا کے لغویات میں سے کسی میں مبتلا ہو…. ‘
جو دلایل عقلی و نقلی بیان ہوئے ہیں وہ بہت سی دلیلوں کا ایک نمونہ ہیں۔ انہیں مدنظر رکھتے ہوئے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء خطا سے محفوظ اور گناہ سے مصون ہیں اوراس کے باوجود کہ قدرت گناہ ان سے سلب نہیں کی گئی ہے لیکن ان سے گناہ سرزد نہیں ہوتا۔
سوال: عصمت انبیاء پردرج بالا بیان کے باوجود یہ اشکال کیا جاتا ہے، کہ اگر انبیاء گناہ و خطا سے محفوظ ہیں تو قرآن کریم میں ان کی طرف جو گناہ کی نسبت دی گئی ہے اور انبیاء و اولیاء کے استغفار کا کیا معنی ہے؟
قرآن کریم میں حضرت آدم ں ، حضرت ابراہیم ں، حضرت موسیٰ ں اور دیگر انبیاء کی طرف عصیان و گناہ کی نسبت دی گئی ہے یہ نسبتیں ان کی عصمت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی مثلاً پیغمبر اکرم ۖ کے متعلق جو تمام انبیاء سے افضل ہیں، قرآن فرماتا ہے
ِانَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا ں لِیَغْفِرَ لَکَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تََخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا. (32)
ترجمہ:’بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح عطا کی ہے تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہوں کو معاف کردے اور آپ پر اپنی نعمت کو تمام کردے اور آپ کو سیدھے راستہ کی ہدایت د ے د ے ‘۔
حضرت ابراہیمں کے متعلق فرمایا:
فَلَمَّا رََی الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہَذَا رَبِّی فَلَمَّا َفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ یَہْدِنِی رَبِّی لََکُونَنَّ مِنْ الْقَوْمِ الضَّالِّینَ ں فَلَمَّا رََی الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ ہَذَا رَبِّی ہَذَا َکْبَرُ فَلَمَّا َفَلَتْ قَالَ یَاقَوْمِ ِنِّی بَرِیئ مِمَّا تُشْرِکُونَ۔(33)
ترجمہ:’ پھر جب چاند کو چمکتا دیکھا تو کہا کہ پھر یہ رب ہوگا .پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا کہ اگر پروردگار ہی مجھے ہدایت نہ دے گا تو میں گمراہوں میں ہوجاں گا ۔ پھر جب چمکتے ہوئے سورج کو دیکھا تو کہا کہ پھر یہ خدا ہوگا کہ یہ زیادہ بڑا ہے لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہااے قوم میں تمہارے شِرک سے بری اور بیزار ہوں ‘
جواب:اس سوال کے جواب کی وضاحت کے لیے چند باتوں کی طرف توجہ ضروری ہے۔
١۔ عقلی و نقلی دلائل عصمت انبیاء کو مکمل طور پر ثابت کرتے ہیںاور تردیدو ابہام کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے۔ اس بناء پر اس قاطیعت و صراحت کے مقابلہ میں جو بھی آئے گااگر ان دلائل کے ہم پلہ نہ ہو تو قابل تاویل و توجیہ ہے۔
٢۔ قرآن ایسی کتاب ہے جس کی خصوصیت ہدایت ہے اور انسان کو حق کی صحیح معرفت عطاکرتی اور حق کی طرف اس کی راہنمائی کرتی ہے اور انسان کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ لیکن اس کتاب کی آیات سے مکمل استفادہ کرنے کی ایک خاص کنجی ہے اور ایسا نہیں کہ صرف لغت عربی اور قواعد لغت عرب پر تسلط کی بناء پر تمام آیات سے استفادہ ممکن ہو کیونکہ قرآن کی کچھ آیات محکم ہیں اورعربی زبان سے واقفیت کی بنا پر اُن سے استفادہ ممکن ہے اور صحیح راستے کو مشخص کیا جا سکتا ہے اور مختلف گمراہیوں، ضلالتوں سے نجات پائی جا سکتی ہے۔ لیکن بعض آیات شریفہ قرآن متشابہ ہیںجن سے باآسانی مرادو مقصود الہٰی کو نہیں پایا جا سکتا اور نیز بہت سے ظواہر آیات شریفہ قرآن مصالح مہمہ کی وجہ سے مقصود الہٰی نہیں اور بہت سی آیات قرآن مجمل یا عام ہیں جو مبین و مخصص کی محتاج ہیں۔ نتیجةً قرآن کریم سے مکمل استفادہ کرنے کیلئے ایک خاص مہارت کی ضرورت ہے اور اس کا علم پیغمبر اکرم ۖور آئمہ معصومین ٪کے پاس ہے۔ اور جو لوگ آئمہ معصومین٪ سے علم حاصل کیے بغیر اس کتاب سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فہم قرآن اہلبیت ٪کا محتاج نہیں بہت بڑے اشتباہ میں مبتلا ہیں، اور بہت سی باتیں جو انہوں نے قرآن سے حاصل کی ہیں وہ قرآن سے مشرق و مغرب سے زیادہ فاصلہ رکھتی ہیں۔
بَلْ ہُوَ آیاٰت بَیِِّنَات فیِ صُدُورِ الَّذِین اُوتُوا الْعِلْمَ۔ ( العنکبوت ٤٩)
ترجمہ:’ درحقیقت یہ قرآن چند کھلی ہوئی آیتوں کا نام ہے جو ان کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے’۔
اس آیت شریفہ میں قرآن نے لوگوں کو اپنی طرف دعوت نہیں دی اور تشریح و وضاحت آیت کو دوسری آیت پر موقوف نہیں کیاجبکہ کچھ موارد میں ایسا ہوتا ہے، بلکہ اپنے علاوہ مخصوص ہستیوں کی طرف تشریح و توضیح قرآن کو پلٹایا ہے۔
درج بالا بیان کے مطابق وہ آیات قرآن کریم جو انبیاء کے گناہ و خطا سے معصوم و محفوظ نہ ہونے کو بیان کرتی ہیںوہ تمام وارثان و صاحبان علوم قرآن کی وضاحت و بیان سے واضح ہو جاتی ہیں کہ مذکورہ آیات کا معنی کیا ہونا چاہیے۔اب مذکورہ آیات جو بحث عصمت انبیاء میں مورد سوال واقع ہوئی ہیں کی تشریح و توضیح سے قبل بعنوان مقدمة چند آیات کا ذکر کرتے ہیں توحید اورذات باری تعالیٰ کی معرفت سے متعلق چند آیات ایسی ہیں جن سے عربی ادب کے مطابق ظاہری معنی قطعاً مقصود نہیں کیونکہ ظاہری معنی عقل، نقل دونوں کے خلاف ہے ان بعض آیات کو ہم یہاں ذکرکرتے ہیں۔
وَ جاٰئَ رَبُّک(34) ترجمہ:’ اورتیرارب آیا ۔’
وَ نَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحیِ (35) ترجمہ:’ میں نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔’
یَدُ اللّٰہِ فَوقَ أَیْدِیہِمْ (٣6) ترجمہ:’ ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے ‘۔
قُلْ اَتُنَبِّؤُنَ اللّٰہ بِمَا لٰا یَعْلَمُ فیِ السَّمٰواٰتِ وَ لَا فیِ الاَرْضِ(37)
ترجمہ:’ توکہہ دیجئے کہ تم تو خدا کو اس بات کو اطلاع کررہے ہو جس کا علم اسے آسمان و زمین میں کہیں نہیں ہے
وَ أَرْسَلْناٰہُ اِلٰی مِائَةِ أَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُونَ (38)
ترجمہ:’ اور اسے ایک لاکھ یا اس سے زیادہ کی قوم کی طرف نمائندہ بناکر بھیجا ‘
درج بالا آیات ان بہت سی آیات کا نمونہ ہیں کہ اگر عربی زبان کے قواعد کے مطابق ان کا معنی کیا جائے اور فہم قرآن کریم کی کنجی سے استفادہ نہ کیا جائے اور اسی ظاہری معنی پر اکتفاء کیا جائے تو ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف تجسم، تقسیم پذیر، ترکیب، جہالت کی نسبت دیں۔ درحالانکہ حکم قطعی عقل کی بناء پر خداوند متعال ان تمام نقائص سے پاک ومنزہ ہے۔
اسی طرح آیات احکام کی تحقیق میں بہت سی آیات کو دیکھتے ہیں کہ جن سے ظاہری معنی مقصود نہیں اور قطعی طور پر اس کا ارادہ نہیں کیا گیا۔ جیسے:
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَیْدِیَہُمَا۔ (39)
ترجمہ: ‘چور مرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ۔’
فَلاَ جُناٰ حَ عَلَیْہِ اَنْ یطَّوَّفَ بھما (40)
ترجمہ:’ اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں(صفا و مروہ)کا چکر لگائے ‘۔
فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُناٰح اَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلٰوةِ۔ (41)
ترجمہ:’ اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی نمازیں قصر کردو ‘۔
اگر ظاہر آیت سے استفادہ پر اکتفاء کیا جائے تو کبھی بھی کلمہ’ أیدی ‘سے (جس کا معنی ہاتھ ہے) انگلیوں اور کلمہ ‘لاجناح'(جس کا معنی کوئی اشکال و حرج نہیں ) سے وجوب کااستفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ در حالانکہ مسلم ہے کہ ‘أیدی’ سے مقصود چار انگلیاں ہیںاور صفا و مروہ کے درمیان سعی واجب ہے اور سفر میں نماز کا قصر ہونا واجب ہے۔
اب عرض کرتے ہیں کہ مورد سوال آیات جو بحث عصمت میں انبیاء کیغیر معصوم ہونے کے شاہد کے طور پر لائی گئی ہیںمذکورہ دونوں مقدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی توجیہ و تاویل کی جا سکتی ہے اور ان میں سے ہر ایک آیت کے لیے آئمہ معصومین ٪نے واضح بیان دیا ہے جس کو ہم ذکر کرتے ہیں۔
الف۔ آیت اوّل :لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَ ماٰ تَأَخَّرَ۔(42)
کے سلسلے میں حضرت امام رضا ں سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے جو مطلب کی وضاحت کرتی ہے:
‘مامون نے امام رضا ں سے سوال کیا کہ اس گناہ سے کیا مراد ہے جس کی پیغمبر اکرم ۖکی طرف نسبت دی گئی ہے؟ کیا آپ نہیں کہتے کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں؟ تو امام رضا ں نے فرمایا کہ بالکل صحیح ہے کہ انبیأ معصوم ہوتے ہیں۔ تو مامون نے عصمت انبیاء کے بارے میں آیات کے بارے میں سوال کیا اور یہاں تک کہ آیت شریفۂ ‘ لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَ ماٰ تَأَخَّرَ’ کے بارے میں پوچھا کہ آپ اس آیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ تو امام نے فرمایا مشرکین مکہ کے نزدیک رسول اکرم ۖسے زیادہ کسی کا گناہ نہیں تھا۔ کیونکہ ان کے تین سو ساٹھ بت تھے رسول اکرم ۖجو انہیں توحید کی دعوت دیتے تھے، ان کے لیے یہ دعوت بہت تکلیف دہ تھی اور کہتے تھے کس طرح محمد ۖ تین سو ساٹھ خداؤں کی بجائے ایک خدا کی بات کرتے ہیں ۔
دوسرے کو آنحضرتۖ کے مقابلہ کیلئے آمادہ کرتے تھے۔اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اکرم ۖ کو مکہ پر فتح دی اور فرمایا:
ہم نے تیرے لیے مکہ کو فتح کیا ہے تاکہ اہل مکہ آغاز بعثت سے لے کر فتح مکہ تک جس چیز کو تیرا گناہ سمجھتے تھے خدا اس کو چھپا دے'(43)
وضاحت: رسول اللہ ۖ کی طرف سے بت پرستی اور شرک، خرافات کی نفی اور توحید کی دعوت کفار و مشرکین مکہ کے نزدیک گناہ تھی۔ لہٰذا ایسے موارد میں جو ان کی عادات و خرافات کی مخالفت کرتا اور ان کی باطل معاشرتی رسومات پر حملہ کرتا ہے جب تک کہ وہ مغلوب رہتا ہے معاشرہ کے عام افراد کی طرف سے مورد تنقید واقع ہوتا ہے اور اس کے کام کو گناہ شمار کیاجاتاہے اور لوگ اس کی سرزنش کرتے ہیں۔ لیکن جب وہی شخصیت خرافات اوربرائیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے قدرت کو حاصل کر لیتی ہے تو تمام مذمتیں ختم ہو جاتی ہیں بلکہ وہی مذمتیںتحسین و تعریف میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ فتح مکہ کے واقعہ میں بھی ایسا ہی ہوا کہ رسول اکرم ۖ کی قدرت تک رسائی کے بعد کفار و مشرکین عرب کی نظر میں آپ کے جو گناہ و برائیاں تھیں وہ سب ختم ہو گئیںاور تعریف و تمجید میں تبدیل ہو گئیںاور کہتے ‘انت أخ کریم و ابن أخ کریم’ آپ کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔
ب۔آیت دوم کے بارے میں حضرت ابراہیمں سے متعلق حضرت امام رضا ںنے مامون کے جواب میں فرمایا:
‘ حضرت ابراہیم ں کا زہرہ، چاند ، سورج کے بارے میں کہنا(ہذا ربی) انکار و استخبار ہے، نہ اپنے عقیدہ کی خبر دینا یا ایک امر حقیقی واقعی کا اقرار، پس جب انہوں نے ہر ایک کے غروب کا مشاہدہ کیا تو ان تینوں کی عبادت کرنے والوں سے کہا۔ اے میری قوم تم جو اللہ کے ساتھ شریک قرار دیتے ہو میں اس سے بیزار ہوں ‘(44)
وضاحت: واضح ہے کہ کوئی عاقل بھی حضرت ابراہیم ں کی طرف شرک کی نسبت نہیں دے سکتابالخصوص اس آیت مبارکہ کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
قاٰلَ اِنِّیِ جاٰعِلُکَ لِلنَّاسِ ِامَامًا قاٰلَ وَ مِنْ ذُرِیَّتیِ قاٰلَ لاٰ یَناٰلُ عَہْدِ ی الظّٰالِمِینَ (45)
ترجمہ:’خدا کہا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام اور قائد بنا رہا ہوں.
ابراہیم نے عرض کی کہ میری ذریت میں سے بھی کسی کو یہ امامت ملے گی؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدئہ امامت ظالمین کو نہیں ملے گا ‘۔
حضرت ابراہیم ں کے سوال کہ آیا منصب امامت میری ذریت کو بھی دیا جائے گا؟ کے جواب میں فرمایا میرا عہدہ ظالموں کو نہیں مل سکتا۔ اور واضح ہے کہ یہ ظلم حال نبوت میں نہیں بلکہ مقصود قبل از نبوت ظلم ہے۔ اس بناء پر ممکن نہیں کہ حضرت ابراہیم ں شرک جو سب سے بڑا ظلم ہے میں مبتلا ہوں اور نتیجتاً مذکورہ بالاآیات کا معنی وہی ہے جو حضرت امام رضا صلوات اللہ وسلامہ علیہ نے فرمایا ہے۔
گذشتہ تمام بیانات اور مورد سوال دونوں آیات کی تشریح میں جو کچھ بیان ہوا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کا ایک حصہ تشریحات آئمہ معصو مین ٪سے واضح ہوتا ہے۔ اور ان کی طرف رجوع کے بغیر اپنے شخصی نظریہ یا لغت عربی سے ترجمہ کرنے سے آیت سے مقصود الہٰی واضح نہیں ہوتا بلکہ جو نتیجہ حاصل کیا جائے گا وہ واقعیت وحقیقت سے کوسوں دوُر ہو گا۔ ہاں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن فرماتا ہے:
بَلْ ہُوَ آیاٰت بَیِِّنَات فیِ صُدُورِ الَّذِینَ اُوتُوا الْعِلْمَ ۔
ترجمہ:’ درحقیقت یہ قرآن چند کھلی ہوئی آیتوں کا نام ہے جو ان کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے’۔
جیسا کہ بیان ہوا ہے قرآن کی بہت سی آیات کی خود قرآن اورمعتبر روایات کے مطابق آئمہ معصومین ٪ جو خطاء و اشتباہ سے پاک ہیں کے ذریعے تفسیر کرنا ضروری ہے۔جیسے حضورۖ کی یہ
مشہور و معتبر حدیث:
‘انی تارک فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا، کتاب اللّٰہ و عترتی أھل بیتی و انھما لن یفترقا حتی یردا علیَّ الحوض فانظروا کیف تخلفونی فیھما’
ترجمہ: ‘میں تمہارے درمیان دو گراں قدرچیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ جب تک ان دونوں کا دامن تھامے رہو گے گمراہ نہیں ہو گے؛ ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسری میری عترت اورمیرے اہل بیت؛ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچیں گے؛ پس خیال رکھنا کہ میرے بعد تم ان دو کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہو۔’ (46)
اور زیر بحث آیات کے معنی کی وضاحت کے لیے حضرت امام رضا ںکی طرف سے مامون کے سوالوں کے جواب کی طرف رجوع کریں۔جو عیون اخبار الرضا اور مسند الامام الرضا میں ذکر ہیں۔
عصمت و عدالت
بحث عصمت کے آخر میں واضح کیا جاتا ہے کہ امام معصوم سے گناہ کا سرزد ہونا نا ممکن ہے لیکن عادل ممکن ہے گناہ کا مرتکب ہو اور عدالت سے نکل جائے۔
خاتمیت
بحث نبوت میں جن مسائل کی تحقیق ضروری ہے ان میں سے ایک مسئلہ ختم نبوت یعنی آنحضرتۖ پر نبوت کا ختم ہونا ہے۔ اس بارے میں بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ کے بعد کوئی
نبی نہیں آئے گا اور سلسلہ رسالت آنحضرت ۖ پر ختم ہو جاتا ہے۔خاتمیت رسالت حضرت محمد ۖ کے اثبات پر قطع نظر از وسعت احکام اسلام جو خود خاتمیت رسالت کے متناسب ہیں، بنیادی دلیل قرآن و سنت کا اعلان اور مکتب وحی کی تصریح ہے۔
واضح ہے کہ حضرت محمد ۖ کی رسالت کو قبول کرنے کے بعد مکتب وحی سے متعلق تمام خصوصیات کی معرفت اور بطور کلی ہر حقیقت جو مکتب وحی میں ذکر ہے، اسی مکتب وحی کے ذریعے اس کی تبیین و تشریح ضروری ہے ۔ جس طرح مکتب وحی میںجن مختلف مسائل کی وضاحت ہوئی ہے ان اعتقاد رکھنا اور انھیں قبول کرنا ضروری ہے.
مکتب وحی کے تمام مدارک قرآن و سنت پیغمبر اکر م ۖاور آئمہ معصومین ٪سے دو طرح سے خاتمیت رسالت کا استفادہ جا سکتاہے.
١۔ خاتمیت رسالت حضرت ۖکی تصریح
٢۔ وہ مطالب جن کا لازمة خاتمیت رسالت آنحضرت ۖ کو ثابت کرتا ہے.
قرآن نے اعلان کیا ہے.
مَا کَانَ مُحَمَّد أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالکُِمْ وَ لَکِنْ رَسُولَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِِّنَ۔(47)
ترجمہ: ‘ محمدۖ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن و ہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں
اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ خاتَم(ت پر زبر) کے ساتھ اور خاتِم(ت کے زیر) کے ساتھ ایک معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور وہ معنی کسی شئے کی انتہا اور اختتام ہے اور درج بالا آیت میں آنحضرت ۖ کی خاتمیت نبوت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرم ۖ کا حضرت علی ں سے یہ خطاب جو کہ حدیث کی بہت سی کتب میں نقل ہوا ہے:
‘أنت منّی بمنزلة ھرون من موسی الّا انّہ لا نبیّ بعدی'(48)
ترجمہ: ‘(اے علی!) آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو موسی سے ہارون کوتھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔’
اس حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میں کچھ مطالب ذکر ہوئے ہیں جن کا لازمہ آنحضرت کی رسالت کی خاتمیت ہے۔ ان آیات میں سے بعض آیات یہ ہیں:
الف۔ وَ مَا أَرْسَلْنَاکَ اِلاَّ کَافَّةً لِلنَّاسِ۔ (49)
ترجمہ: ‘ اوراے پیغمبر ہم نے آپ کونہیں بھیجا مگر تمام انسانوں کیلئے۔’
واضح ہے کہ جب حضرت محمد ۖ تمام لوگوں اور ہر نسل کے لیے پیغمبر ہیں تو اس کا لاذمہ آپ کی رسالت کی ابدیت آور آپ کا آخری پیغمبر ہونا ہے۔
ب:اِنْ ہُوَ اِلَّا ذکِْر لِلْعَالَمِینَ ۔ (50)
ترجمہ:’یہ صرف عالمین کے لئے ایک نصیحت کا سامان ہے۔’
واضح ہے کہ قرآن کا عالمین اور تمام لوگوں کے لیے ذکر ہونا قرآن کی ہمیشگی اور آنحضرت ۖ کی خاتمیت رسالت کو مستلزم ہے کیونکہ اگر آنحضرت ۖ کے بعد کوئی پیغمبر آئے تو قرآن اسی زمانہ تک ذکر ہو گا نہ تمام عالمین کے لیے۔
قُلْ أَیُّ شَیئٍ أکْبَرُ شَھاٰدَةً قُلْ اللّٰہُ شَہِید بَیْنیِ وَ بَیْنَکُمْ وَ اُوحِیَ اِلَیَّ ہَذٰا الْقُرآنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہِ وَ مَنْ بَلَغَ ۔(5١)
ترجمہ: ‘ آپ کہہ دیجئے کہ گواہی کے لئے سب سے بڑی چیز کیا ہے اور بتادیجئے کہ خدا ہمارے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعہ میں تمہیں اور جہاں تک یہ پیغام پہنچے سب کو ڈراؤں ۔’
اور اسی طرح بعضی روایات بھی مذکورہ مطلب کو ثابت کرتی ہیں مثال کے طور پر:
عن زرارة قال: سألت أبا عبدا اللّٰہ عن الحلال و الحرام، فقال: حلال محمد حلال أبداً الی یوم القیامة و حرامہ حرام أبداً الی یوم القیامة لا یکون غیرہ ولا یجیء غیرہ(5٢)
ترجمہ: ‘زرارہ کا کہنا ہے کہ : میں نے اباصادق ـ سے حلال و حرام کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: جس چیز کو محمد ۖ نے حلال قرار دیاہے وہ ہمیشہ کیلئے قیامت کے دن تک حلال ہے اور جس چیز کو آپ ۖنے حرام قرار دیا ہے وہ ہمیشہ کیلئے قیامت تک حرام ہے؛ نہ اس کے علاوہ کچھ ہو سکتا ہے اور نہ کوئی اور پیغمبر اکر م ۖ کے علاوہ کچھ (حرام و حلال)لے کے آ سکتا ہے۔’
اس حدیث شریف میں دین مقدس اسلام کے حلال و حرام کو روز قیامت تک قرار دیا گیا ہے اور واضح ہے کہ یہ ہمیشگی آنحضرت ۖ کی رسالت کی أبدیت کے ہمراہ ہے وگرنہ حلال و حرام پیغمبر ۖ تا قیامت نہیں ہو سکتا۔ واضح ہے کہ مدارک و دلائل سے قطعی طور پر آنحضرت ۖ کی رسالت تمام جن و انس اور تمام زمانوں کے لیے ثابت ہوتی ہے۔ اس بناء پر مسألہ خاتمیت حضرت محمد ۖ تمام مسلمانوں کے نزدیک قطعی اور ضروریات اسلام میں سے ہے۔
وحی
وحی لغت میں مخفی و پوشیدہ ادراک کو کہتے ہیں اور بحث نبوت میں اس ے مراد پیغمبر ۖ کا خدا کے ساتھ رابطہ کاذریعہ ہے۔ یہاں پر جو مختصر طور پر بیان کیا جا سکتا ہے، یہ ہے کہ انسان کا خداوند متعال سے ارتباط قرآن کے مطابق تین طرح سے ہے۔
١۔ خدا وند متعال سے بلا واسطہ کلام ، مکالمہ
٢۔ اللہ تعالیٰ کا کلام کو کسی موجود میں ایجاد کرنا اور انسان کا اس کلام کو سننا
٣۔ انسان کے پاس فرشتے کا آنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام لانااللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ ماٰ کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیاً اَوْ مِنْ وَرٰائِ حِجاٰبٍ أَ وْ یُرْسِلُ رَسُولاً فَیُوحِیَ بِاِِذْنِہِ ماٰ یَشاٰ ئُ اِنَّہُ عَلِیّ حَکِیم ۔ (53)
ترجمہ:’ اورکسی انسان کے لئے یہ بات نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یہ کہ وحی کردے یا پس پردہ سے بات کر لے یا کوئی نمائندہ (فرشتہ) بھیج دے اور پھر وہ اس کی اجازت سے جو وہ چاہتا ہے وہ پیغام پہنچا دے کہ وہ یقینا بلند و بالا اور صاحبِ حکمت ہے ۔’
اگر صرف کلمہ وحی استعمال ہو تو معنی عام رکھتا ہے یعنی بیان شدہ تینوں صورتوں کو شامل ہے۔ اور اگر بیان شدہ تینوں صورتیں ایک دوسرے کے ساتھ ہوں تو وحی سے مقصود بلاواسطہ مکالمہ ہے جو خداوند متعال کی طرف سے قلب مقدس پیغمبر اکرم ۖ پر تمام مطالب کا القاء ہے۔
جیسا کہ ہم درج بالا آیت میں دیکھتے ہیں کہ وحی ‘من وراء حجاب’ اور ‘یرسل رسولاً’ کے مقابل آیا ہے۔ انبیاء کے لیے خداوند متعال سے ارتباط تینوں صورتوں میں انجام پایا ہے اور واضح ہے کہ اس رابطہ کی کیفیت مخفی ہے اور اس کی حقیقت مخفی امور میں سے ہے۔
اولواالعزم انبیائ
بہت سی روایات کے مطابق انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ (54)جن میں سے بعض کا نام قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔ موقعیت انبیاء کے مقامات کے متعلق ایک مطلب پر توجہ ضروری ہے کہ انبیاء کے درمیان اولو العزم انبیاء ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ جو مدارک ومآخذحدیثی کے مطابق پانچ ہیں۔ حضرت نوح ں، حضرت ابراہیمں، حضرت موسیٰں، حضرت عیسیٰں اور حضرت محمد ۖ۔
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوُا العَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ۔(55)
ترجمہ: ‘ائے پیغمبر! آپ بھی اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر کریں’
ان انبیاء کے اولواالعزم ہونے کی دو وجوہات نقل ہوئی ہیں۔
١۔ اولواالعزم انبیاء اپنے زمانہ کے تمام افراد کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور مستقل شریعت رکھتے تھے۔
٢۔ سابقہ اولواالعزم پیغمبر کی بعثت سے لے کر دوسرے اولواالعزم پیغمبر کی بعثت تک تمام لوگوں کے لیے پہلے نبی کی شریعت کی پیروی ضروری ہوتی تھی۔
_________________—————————————–
حوالاجات
(١)۔تجرید الاعتقاد، القمصد الرابع فی النبوّة، ص ٢١١
(2)الاسرائ/٨٨
(3)۔بقرہ ٢٣
(4)۔فصلت /١٣
(5)۔مجمع البحرین،سورہ مدثر کی آیات نمبر١١سے٢٤ کے ذیل میں.
(6) حشر / ٢٢ و ٢٣ و ٢٤
(7) نحل/ ٩٠
(8)۔نسائ/ ٥٨
(9)۔نساء / ٣٦
(10)۔نساء / ١٣٥
(1١)۔بقرہ / ١٩٤
(1٢)۔ زمر /١٠
(١3)۔فرقان /٦٣، ٧٦
(١4)۔ حجر / ٤ ٩ ،٩٦
(١5)۔ روم / ١ ،٣
(16)۔مسد / ١ ،٤
(١7) ۔حجر(١٩)
(18)۔حجر (٢٢)
(19) رعد (٣)
(20)۔ یس (٣٦)
(21)۔ طہ (٥٣)
(22)۔ الرحمٰن (١٧)
(٢3)۔ معارج (٤٠)
(24)۔بحار الانوار، کتاب الروضة، باب جوامع وصایا رسول اللہ ۖ ح ٤٦، ١٣٧٧٧و ربحار الانوار، کتاب القرآن، باب فصل القرآن و اعجازہ، ح ١٦، ٩٢ ١٧۔
(٢5)۔نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٥ و بحار الانوار، کتاب القرآن، باب فضل القرآن و اعجازہ، ح ٢٤، ٢٤٩٢ و بحار الانوار، کتاب العلم، باب البدع و الرأی و المقائیس، ح ٧٦، ٣١٣٢
(26)تجرید الاعتقاد،المقصد الرابع فی النبوة،صفات النبی،ص٢١٣
(27)نسائ٦٤
اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اذن خدا سے اسکی اطاعت کی جائے.
(٢8)۔الأحزاب (٢١)
(29)۔الاحزاب (٣٣)
(30)واضح ہے کہ جن سے کھلم کھلا عظیم گناہ سرزد ہوئے ہوں جیسے یہ کہ خلیفة رسولۖ سے جنگ کی ہووہ اگر لغوی لحاظ سے اہل بیست کے مفہوم میں داخل ہوں بھی تو پھر بھی قطعی قرائن کی وجہ سے اس آیت کے مصدق نہیں ہیں اس لیے کہ اس سے بڑھ کر اور کونسا رجس ہوسکتا ہے.(٢)۔بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد ۖ،الاحادیث فی الجزء التاسع، باب ١٤، ما جعل اللہ فی الانبیأ و الاوصیأ و المؤمنین، ص ٤٤٧، حدیث ٤
(3١)۔(بحار الانوار، کتاب القرآن، باب ١٢٨، ما ورد فی أصناف آیات القرآن ٩٣ ٦٤ و بحار الانوار، کتاب الامامة، باب ١١، نفی السہو عنھم ٪، بیان ٢٥ ٣٥١
(32)۔ فتح (١ و ٢)
(33)۔ انعام (٧٧ و ٧٨)
(34)۔ الفجر (٢٢)
(35)۔ الحجر (٢٩)
(٣6) الفتح (١٠)
(37)۔ یونس (١٨)
(38)۔ الصافات (١٤٧)
(39)۔ المائدہ / (٣٨)
(40)۔البقرہ /(١٥٨)
(41)۔النساء /(١٠١)
(42)۔ الفتح / ٢
(43)۔مسند الامام الرضا ـ؛ العطاردی، کتاب الاحتجاجات، باب ٣، احتجاجہ مع العلماء فی مجلس المأمون، ح ١٢، ٢ ١٢٥
(44)۔بقرہ ، ١٢٤
(45)۔ العنکبوت ،٤٩
(46)۔(بحارالانوار، کتاب العلم باب ٣٤، البدع و الرأی، ٢/٢٨٥ و بحار الانوار ٥ /٢١؛ صحیح مسلم کتاب فضایل الصحانہ، باب فضائل علی بن ابی طالب ٤ ١٨٧٣ و مستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفة الصحابہ، و من مناقب اھل رسول اللہ ح٤٧١١، ٣٣ ١٦٠)
(47)۔ الاحزاب (٤٠)
(48)۔بحار الانوار، تاریخ امیر المؤمنین، الباب ٥٣، فی اخبارالمنزلة و الاستدلال بھا علی امامتہ ، ح ٢٠، ٢٦١٣٧ ، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب ، ٤ ١٨٧٠)
(49)۔السباء (٢٨)
(50)۔ التکویر (٢٧)
(5١)۔ الانعام (١٩)
(5٢)۔کافی، باب البدع والرأی والمقائیس، ح ١٩، ج ١ /٥٧
(53)۔ الشوریٰ (٥١)
(54)۔بحار الانوار،کتاب الروضة،باب٤،ما اوصی بہ رسول اللہ ۖالی ابی ذر ، حدیث١،٧٧/٧١
(55)۔ الأحقاف ٣٥پیغمبر شناسی
تالیف: آیت الله استاد محقق : سید جعفر سیّدان دام ظلہ
مترجم: الفت حسین ساقی
( نبوت )
اس حصہ میں بھی مورد بحث مطالب کو متوسط انداز میں پیش کریں گے۔
نبی
نبی لغت میںبا خبرشخص کو کہتے ہیں جوکلمہ نباء بمعنی خبر سے اخذ کیا گیا ہے۔لیکن اس حصہ (مسئلہ نبوت) میں نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے با خبر ہونے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر رکھنے کے معنی میں ہے نہ صرف باخبر دار ہونے کے معنی میں۔
نبوت عامہ
نبوت عامہ سے مراد انسان کا ایک الہٰی شخصیت کا محتاج ہونا ہے جو لوگوں اور خدا کے درمیان واسطہ و رابطہ ہواورجو اللہ کی طرف سے انسانوں تک الٰہی دستور وقانون کو پہنچائے۔
نبوت خاصہ
نبوت خاصہ سے مرادمقام نبوت و رسالت کو ایک فرد یاافراد معین کے لیے متعین کرنا ہے، جیسے ہم کہتے ہیں حضرت ابراہیمں ، حضرت موسیٰں ، حضرت عیسیٰ ں اور حضرت محمد ۖ پیغمبر ہیں۔
وجود نبی کی ضرورت
نبوت عامہ (انسان کے پیغمبر کے محتاج ہونے) کے بارے میںمتعدد دلایل بیان کے گئے ہیں، ان میں سے ایک دلیل کی وضاحت درج ذیل ہے:
انسان ایک قابل تربیت موجود ہے جس کی فطرت میں طلب کمال اورہدایت کا جذبہ موجود ہے اور طبیعی طور پر اس کی زندگی اجتماعی و مدنی ہے لہذاانسانی زندگی میں قضاوت، معاشرت اور مختلف ارتباطات وتعلقات موجود ہیں اور ایسی زندگی قانون کی محتاج ہے اور واضح ہے کہ انسانی زندگی کی تمام خصوصیات کے لئے جامع اوربے خطا قانون کسی انسان کے بس میں نہیں ہے بلکہ صرف خداوند متعال ہی ایسا قانون بناسکتا ہے اورانسانی معاملات کے خیر وشر کو سمجھتا ہے اور سب سے مہم تر یہ ہے کہ انسان اپنی ابدی زندگی کے لیے سعادت مند، قوانین و افعال کے درک سے عاجز و ناتوان ہے اور نیز واضح ہے کہ اس با استعداد و با صلاحیت موجود کو بے کار چھوڑ دینا اس کے مستعد خلق ہونے کے منافی اور حکمت کے خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ جس نے انسانی حالت کے لیے مفیدکسی بھی چیز کو مزاہم کرنے سے دریغ نہیں کیا ہے واضح ہے کہ وہ انسان کو ہمیشگی سعادت سے محروم نہیںکرسکتا. اور واضح ہے کہ افراد بشر میںسے ہر فرد وحی کے ذریعے خداوند متعال سے رابطے کی قابلیت نہیں رکھتا اور خلقت موجودہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایسی باتوں کی توقع بے جا ہے۔اب درج ذیل باتوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ خداوند متعال کی طرف سے ایسے پیغمبر کا وجود ضروری ہے جو انسانی معاشرہ کے دنیوی و اخروی تمام امور کے بارے میں مختلف سعادت بخش پروگرام لوگوں تک پہنچائے۔
بالفاظ دیگر وہ چیز جو انسانی زندگی میں ہر چیز سے زیادہ ضروری ہے وہ نیک و بداور جو کچھ انجام دینا ضروری ہے یا جسے ترک کرنا ضروری ہے اور ضروری اور غیر ضروری کی پہچان ہے۔ اس شناخت میں حس و عقل دونون انسان کے لیے آلہ معرفت ہیںاور اس کے باوجود کہ وہ بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن کافی نہیںہیں
حس و عقل معرفت سعادت سے عاجز ہیں
حس کا ضروری و غیر ضروری خوبی و بدی اور اقدار کی معرفت سے عاجز ہونا واضح ہے ، کیونکہ یہ امور حس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ حس صرف تاثیر و تأثراور فعل و انفعالات خارجی کی تشخیص دے سکتی ہے۔مثلاً دیکھنے والاانسان جو دوانسانوں کے جھگڑے کو دیکھتا ہے ان دونوں میں سے فریاد کرنے والے کی فریاد کو محسوس کرتا ہے لیکن وہ اس کی خوبی و بدی کو درک کرنے سے مکمل طور پر عاجز ہے۔ اس بناء پر حس حسن و قبح اشیاء کوسمجھنے سے عاجز ہے۔
عقل کی نارسائی بھی واضح ہے کیونکہ عقل کچھ خوبیوں و بدیوں اور جس چیز کو انجام پانا چاہیے اور جو انجام نہیں پانا چاہیے کو درک کرتا ہے لیکن پھر بھی جتنا ادراک ضروری ہے اسے درک کرنے سے عاجز ہے،کیونکہ ادراکات عقلی، کلی اورعام ہوتے ہیں(جیسے اجتماع ضدین اور اجتماع نقیضین کا محال ہونا اور ہر معلول محتاج علت ہے وغیرہ)جو جزئی اعمال اور زندگی میں اچھے، بُرے کی پہچان کے ساتھ کس قسم کا ارتباط نہیں رکھتے .ادراکات عقلی مواد خارجیہ اور خوبیوں، بدیوں اور ضروری اور غیر ضروری کی تعیین سے متعلق جو حس و تجربہ سے انجام پاتے ہیں ان میں سعادت بخشی اور تمام سعادت آوراور شقاوت آور موارد کی تعیین کی قدرت نہیں رکھتے۔ کیونکہ انسان کی سعادت و شقاوت، نیک بختی و بدبختی سے متعلق مہم ترین مسائل میں دنیا و آخرت میں انسان کے اختیاری اعمال کے رد عمل کی معرفت ہے اور واضح ہے کہ عقل کے لیے ایسی وسیع سطع کی شناخت موجود نہیں، کیونکہ شناخت عقلی شخصی و جزئی اور مختلف اعمال زندگی سے مربوط نہیں۔ اور مصادیق کی شناخت بھی حس کے ذریعے دنیا و آخرت میں انسان کے اختیاری اعمال کے ردعمل کی معرفت سے مربوط نہیں کیونکہ عالم آخرت انسان کے مشاہدہ اور حس کے موارد میں سے نہیں ۔
بشری وانسانی ،کاتب کی عاجزی و پارسائی
بشری مکاتب جو حس و عقل سے استفادہ کرتے ہیںوہ سعادت بخش و شقاوت آور مسائل کی وسیع سطح پر شناخت کے قابل نہیںہیں اور اس کے باوجود کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے بہت سے مسائل واضح ہوتے جاتے ہیں لیکن مسائل کی وسعت و پیچیدگی کی وجہ سے مکاتب بشری حس سے مربوط امور اور ماروائے حس امور کی جزئیات و تفصیلات کی تشخیص کرنے میں ناکام ہیں۔مثلاً اس کے باوجود کہ مفہوم سعادت و شقاوت کلی طور پر مشخص اور واضح ہے لیکن سعادت کس چیز میں ہے؟ اور کس طرح حاصل ہوتی ہے ؟ اور بد بختی کس چیز میں ہے اور کس طرح حاصل ہوتی ہے؟ یہ وہ مجہولات ہیں جو ابھی تک مکاتب بشری کی نظر سے مورد اختلاف ہیں اور مکاتب بشری میں ان مہم ترین مسائل میں اختلاف مکاتب بشری کی ناتوانی کو ثابت کرتا ہے۔
نتیجتاً انسان سعادت تک رسائی اور شقاوت سے دوری اور اپنے حقیقی تکامل اور رشد کے لیے ایک شخصیت الہٰی کا محتاج ہے اور طبیعی طور پر مکتب وحی کا محتاج ہے جو علم محیط سے پیدا ہوا ہو اوراگرانسان ان کاموں کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے جنہیں انجام دینا چاہیے یا جن سے پرہیز کرنا چاہیے یاان کاموں کو جاننا چاہتا ہے جو آخرت میں اس کے لئے اچھایا برات نتیجہ رکھتے ہیں تو اسے وحی الٰہی اورانبیاء کے فرامین سے استفادہ اور ان کی پیروی کرنی چاہیے.
نبوت عامہ کی بحث کے آخر میں مناسب ہے کہ سلطان المحققین مرحوم خواجہ نصیر الدین طوسی کے قول کو ذکر کیا جائے۔
‘البعثہ حسنة لاشتمالھا علی فوائد، کمعاضدة العقل فیما یدّل علیہ، واستفادة الحکم فیما لا یدّل، و ازالة الخوف، و استفادة الحسن والقبح والنافع والضّارو حفظ النوع الانسانی، و تکمیل أشخاصہ بحسب استعداداتھم المتفاوتة، و تعلیمھم الصنایع الخفیّة والأخلاق، والسیاسات، والاخبار بالعقاب والثواب فیحصل اللّطف للمکلّف’ (١)
ترجمہ: ‘بعثت انبیاء حَسَن ہے کیونکہ بہت سے فوائد پر مشتمل ہے جیسے ان امور میں عقل کی تقویت جن پر عقل دلالت کرتی ہے اور ان امور میں حکم کا استفادہ جن چیزوں پر عقل دلالت نہیں کرتی اورانسان کے اندر سے خوف دورکرنا اوروحی کے ذریعے انسان ا چھے برے اورمفید و نقصان دہ معاملات کو متعین کرتا ہے اور انبیاء کی بعثت نسل انسانی کی بقاء وحفاظت
کاذریعہ ہے اورنسل انسانی کی مختلف صلاحیتوں کی تکمیل کا سبب ہے اور انسانوں کو مفیدصنعتوں اوراچھے اخلاقیات ، سیاسیات کی تعلیم دینے اور انسان کوثواب و عقاب سے آگاہ کرنے کا ذریعہ ہے ۔ پس بعثت انبیاء انسانوں کے لئے اللہ کا لطف ہے جو ان کی سعادت کی طرف راہنمائی کرتا ہے.
(معجزہ)
مذکورہ باتوں سے واضح ہو گیا ہے کہ انسان انبیاء کا محتاج ہے اور اب مسئلہ یہ ہے کہ کس طرح نبوت و رسالت ثابت ہو اور ہم کہاں سے اور کس ذریعے سے جان سکتے ہیں کہ فلاں شخص نبی و پیغمبر ہے۔ اس بارے میں اصلی و بنیادی راستہ جو کسی بھی شخص کی رسالت یا نبوت کو متعین کرتا ہے وہ معجزہ ہے اور معجزہ قوانین طبیعی کے خلاف اور غیر عادی کام ہے اور سب لوگ اس جیسے کام کو انجام دینے سے عاجز ہوتے ہیں اور معجزہ دعویٰ نبوت کے ہمراہ ہوتاہے۔ جیسے مردوں کو زندہ کرنا، پتھر و ں اورپہاڑوں سے بات کروانا وغیرہ۔
وضاحت:معجزہ غیر عادی کام ہے پس انسان جو کام معمول کے مطابق انجام دیتا ہے جیسے چلنا پھرنا، کھانا، پینا وغیرہ کسی نبی کی نبوت و رسالت کی دلیل نہیں ہو سکتے اور غیر عادی کام جنہیں بعض افرادمخفی قوانین طبیعی کی بنیاد پر انجام دیتے ہیںجیسے شعبدہ باز، جادوگر اور ماہرین علوم غریبہ وغیرہ یہ کام معجزہ نہیں ہوتے،کیونکہ معجزہ قوانین طبعی کے خلاف ہوتا ہے اور قوانین کو توڑنا ہوتاہے اور اسی طرح علمی پیشرفتیں جیسے چاند پر جانا وغیرہ بھی معجزہ نہیں کیونکہ واضح ہے کہ یہ تمام کام کچھ قوانین خلقت پر دسترس حاصل کرنے کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں اور قوانین طبیعی کے خلاف نہیں۔ اور اگر ان علوم کے ماہرین سے پوچھا جائے کہ کیا تمہارے یہ کام قوانین خلقت کے خلاف ہیں تو وہ جواب دیں گے کہ نہیں، ہمارے کام قوانین خلقت (کے علم )سے استفادہ کا نتیجہ ہیں نہ قوانین خلقت کے خلاف
(کرامت)
معجزہ ہمیشہ دعویٰ نبوت کے ہمراہ ہوتا ہے اس بناء پر وہ خارق عادت اور خلاف قوانین طبیعی کام جو بعض موارد میں اولیاء الہٰی سے انجام پاتے ہیں اور اصطلاحی طور پر انھیں کرامت کہتے ہیں ان کی ماہیت و حقیقت وہی معجزے کی ماھیت و حقیقت ہے لیکن چونکہ یہ دعویٰ نبوت کے ہمراہ نہیںہوتے اس لئے اصطلاحی طور پر انھیں کرامت کہتے ہیں۔ البتہ بہت سے موارد میں درج بالا اصطلاح سے صرف نظر کیا جاتا ہے اور کرامت کو بھی معجزہ کہا جاتا ہے۔
(معجزہ و سحر (جادو))
مذکورہ بیان سے معجزہ اور سحر کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور پتہ چل جاتا ہے کہ معجزہ او رسحر ایک دوسرے سے ذاتی وحقیقی فرق رکھتے ہیںکیونکہ معجزہ بلا واسطہ اذن، ارادہ و رضاالہٰی سے مربوط ہے اور دوسرے غیر عادی کام اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ان قوانین طبیعی کی بنیاد پر ہیںجو سب پر واضح نہیں۔ پس معجزہ حقیقت و ذات میں دوسرے غیر عادی کاموں سے مختلف ہے۔ معجزہ اورسحر کو ایک دوسرے سے الگ کر نے اور یہ جاننے کیلئے کہ کون سی چیز معجزہ اور کون سی چیز جادو ہے درج ذیل دو باتیں اس کو واضح کر دیتی ہیں:
١۔ سحر و جادو اور علمی پیشرفتیںقابل تعلیم و تعلم ہیں لیکن معجزہ قابل تعلیم و تعلم نہیں۔
٢۔ معجزہ کے ذریعے چیلنج کیا جاتا ہے یعنی صاحب اعجاز دوسروں کو ایسا کرے کی دعوت دیتا ہے اور اصطلاحی طور پر مدّمقابل طلب کرتا ہے اور خود کبھی مغلوب نہیں ہوتا(لیکن جادو اور دوسرے غیر عادی کاموں میں چیلنج نہیں ہوتا) اور اگر جادو گر وغیرہ مد مقابل کو طلب کریں تو ان سے بھی قوی تر لوگ ظاہر ہو جائیں گے لہٰذا جادو گر مغلوب بھی ہو جاتا ہے۔
معجزہ کس طرح رسالت کی دلیل ہے؟
صاحب اعجاز پیغمبر کی پیامبری و رسالت پر معجزہ کی دلالت (معجزہ کی تعریف اور اس کے بارے میں مذکورہ تو ضیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہے روشن و واضح ہے کیونکہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اس طرح کسی سے معجزہ انجام پائے تو ضروری کہ وہ شخص سچا اور خداوند متعال سے مربوط ہو وگرنہ اللہ تعالیٰ نے ایک جھوٹے شخص کو بہت زیادہ گمراہ کن ذریعہ سے مسلح کیا ہے تا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے در حالانکہ واضح ہے کہ حق تعالیٰ ایسی باتوں سے منزہ ہے وہ مخلوق کو راہِ سعادت و صراط مستقیم کی طرف ہدایت فرماتا ہے اور اس نے ہدایت مخلوق کے لیے مختلف اسباب مقرر کیے ہیں۔ اس بناء پر معجزہ صاحب اعجاز کی صداقت و سچائی کی دلیل ہے اور اس کی رسالت کو ثابت کرتا ہے۔
پیغمبر اسلام ۖ کے معجزات
ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام حضرت محمدمصفطےٰ ابن عبداللہ ۖ نے جزیرة العرب میں مکہ میں رسالت و پیامبری کا دعویٰ و اعلان کیا اور اعلان رسالت کے آغاز سے لے کر آخر عمر تک پیغمبر اسلام ۖسے بہت سے معجزات دیکھے گئے تاریخی حقائق کی جانچ پڑتال سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ میں آپ ۖ کے بہت سے معجزات ثابت ہیں اورآپ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے ۔ اسی طرح مردوں کو زندہ کرنا ،بیماروں کو شفاء دینا اورآپ ۖ سے پہاڑوں کا باتیں کرنا اورحیوانوں کا آپ ۖ سے باتیں کرنا ، شق القمر اورغیب کی خبردیں دینا ، جیسے آپ ۖکے بہت سے معجزات ہیں۔
(اعجاز قرآن)
معجزہ کے بارے میں مذکورہ بیانات سے معلوم ہوگیا کہ قرآن مجید ہمیشہ رہنے والا اورہرانسان کی دسترس میں رہنے والا ہے کیونکہ یہ کتاب طبعی قوانین کے خلاف اوردعویٰ رسالت کے ہمراہ ہے کیونکہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آپ ۖ نے کسی استاد سے علم حاصل نہیں کیا اورآپ ۖ نے جزیزة العرب کے جاہل و خرافاتی معاشرہ میں زندگی بسر کی ہے اس کے باوجود آپ ۖ اس آلودہ معاشرہ کی آلودگی سے آلودہ نہیں ہوئے۔اور معارف، عقاید، اخلاق، وظائف وذمہ داریوں،اورانفردی و اجتماعی قوانین کے مجموعے کو بہترین اسلوب اورفصاحت و بلاغت میں لائے ہیںاور تمام جن و انس کو اس کتاب کے مقابلہ کے لئے بلکہ دس سوروں کے مقابلہ یا ایک سورہ کے مقابلہ کی دعوت دی ہے۔
قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الانْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰی أَنْ یَاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْآنِِ لاٰ یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہِ وَ لَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا (2)
ترجمہ: ‘آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں ۔’
وَ اِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِہِ وَ ادْعُوْا شُہَدائَ کُمْ مِنْ دُوْنِِ اللّٰہِ اِِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْن(3)
ترجمہ: ‘ اگر تمہیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کا جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور اللہ کے علاوہ جتنے تمہارے مددگار ہیںسب کو بلالو اگر تم اپنے دعوے اور خیال میںسچے ہو۔’
اس مبارزہ طلبی میں مکمل طور پر دشمن کے احساسات وجذبات کوبھڑکایاگیا ہے اور انہیں کہا گیا ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملاؤ اور جس سے چاہو مدد حاصل کرو اور اگر تم سچے ہو وغیرہ جیسے جملات سے ان کو مقابلہ کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ واضح ہے کہ ایسی چیز غیر عادی و خلاف قوانین طبیعی ہے اور آپ کی صداقت کو ثابت کرتی ہے۔
(وجوہ اعجاز قرآن)
قرآن کریم مختلف جہات سے معجزہ ہے۔
١۔ فصاحت و بلاغت
عصر نزول قرآن میں پیغمبر اکرم ۖکی بعثت کے مرکز(مکہ) میں فن خطابت و شعر، پرکشش گفتگو، تشبیہات اور تعجب انگیز کنایات کا رواج تھا،اس طرح کہ خطبائ، شعراء اورمقررین کے لیے بازار اوربیٹھنے کی جگہیں مختص تھیںجہاں وہ اپنے اشعار، نثر اور قصاید کو پڑھتے تھے اور ایک دوسرے کے سامنے پیش کرتے تھے اور ہر شخص کی قدر و قیمت اس کے شعراورخطابت کے مطابق تھی۔
اس قدر شعر، خطابت، کلام فصیح و بلیغ کی قدر دانی کی جاتی تھی کہ قصاید عرب کے سات بہترین قصیدے سونے کے پانی سے لکھ کر خانہ کعبہ کی دیواروں پر لٹکائے گئے تھے۔ ایسے ماحول میں خدا وندمتعال نے وجوہ اعجاز قرآن میں سے ایک وجہ فصاحت و بلاغت، حیرت انگیز اسلوب اورنظم کو قرار دیا تا کہ وہ لوگ جن کی مکمل مہارت صرف فصاحت و بلاغت ہے اور دقائق علمی و اجتماعی سے دور ہیں اور اس طریقہ سے عظمت قرآن کو نہیں سمجھ سکتے وہ بھی عظمت قرآن کو سمجھ سکیں اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے قرآن کو سمجھ کر اپنی عاجزی کا اعتراف کریں اور اعجاز قرآن کو قبول کریں۔
ہاں، قرآن نہ شعر ہے نہ عام نثر بلکہ خاص اسلوب رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود قرآن تعلیم و تربیت اور درس و ہدایت کی کتاب ہے۔صرف خیالی مطالب نہیںاورقرآن کے مطالب اس قدر جدید اور حیرت انگیز ہیں کہ عرب کے بہترین مقررین حیران ہوگئے اوراسلام اوررسول خدا ۖ کے دشمن جو اسلام کے مقابلہ میں ہر قسم کی جانی، مالی تکالیف کو برداشت کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے ،قرآن کے مقابلے میں اگر ایک مختصر سورہ لانے پر قادر ہوتے توقرآن کی مختصر سورتوں کے مقابلہ میں ایک مختصر سورہ بنا کر اسلام کی زندگی کو ختم کر دیتے لیکن وہ اپنی پوری کوشش کے باوجود اس پر قادر نہیں ہوئے بلکہ واضح طور پرانہوں نے اپنے عجز اور عظمت قرآن کی تصدیق کی۔
ولید بن مغیرہ مخزومی جو کہ عربوں کے بزرگ اور ثروت مند، زیرک، تجربہ کاراورنکتہ سنج شخصیت شمار ہوتاتھا، ایک دن رسول خدا ۖکے پاس سے گذرا اور آنحضرت ۖ کی خدمت میں عرض کی، اپنے اشعار پڑھیں۔ آپ ۖ نے فرمایا ، وہ شعر نہیں بلکہ خداوند متعال کاکلام ہے۔ ولید نے کہا اس کا کچھ حصہ میرے لیے پڑھیں۔پیغمبر اکرم ۖنے سورہ حٰم سجدہ کی تلاوت کی جب اس آیت پر پہنچے:
وَ اِنْ اَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُکُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُوْدَ. (4)
ولید کانپ اُٹھااور اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اورآپ ۖ کو قسم دی کہ خاموش ہو جائیں، اور پھر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا اور اپنے دوستوں رشتہ داروں سے کہا میں نے محمد ۖ سے ایسا کلام سنی ہے جو کلام بشر نہیں اور نہ ہی کلام جن ہے،بے شک اس میں ایک مخصوص حلاوت و شرینی ہے اورخاص حسن و جمال ہے وہ کلام اس درخت کی طرح ہے۔ جس کی شاخیں پھل دار ہیں اور جڑیں زیادہ پانی پیتی ہیں بے شک وہ غالب ہے اور کوئی اس پر غالب نہیں۔
قریش جب اس واقعے سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے کہا ولید نے دین محمد ۖ کو قبول کر لیا ہے، اگر یہ خبر پھیل ہو گئی تو عرب بھی آپ کی طرف مائل ہوجائیں گے اور ہمارا کام مشکل ہو جائے گا۔ ابو جہل جو ولید کا چچا زاد بھائی تھااس نے کہامیں اس مسئلے کو حل کرتا ہوں اور پھر ولید کے پاس گیا اور غمزدہ حالت میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔
ولید نے کہا: میرے چچا زاد میں تمہیں غم زدہ دیکھ رہا ہوں۔ ابو جہل نے کہا قریش تیری سرزنش و ملامت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تو محمدۖ پر ایمان لے آیا ہے اور ہمیں ذلیل ورسواکر دیا ہے، اور دشمن کو ہماری برائی پر آمادہ کیا ہے۔
ولید نے کہا۔ میں ان کے دین کی طرف مائل نہیں ہوا لیکن میں نے مشکل کلام کو سنا جس نے میرے جسم پر لرزہ طاری کر دیا۔ ابو جہل نے کہا۔ آپ ۖ کی کلام خطابت ہے۔
ولید نے کہا نہیں، خطابت مسلسل کلام ہے اور آپ ۖ کا کلام قطعات پر مشتمل ہے۔
ابو جہل نے کہا: شعر ہے .
ولید نے کہا، نہیںمیں نے اشعار عرب کی تمام اقسام کو سنا ہے اور تمام اشعار عرب سے آشنا ہوں ان کی کلام شعر نہیں۔
ابو جہل نے کہا: پس وہ کیا ہے؟
ولید نے کہا چھوڑو مجھے سوچنے دو۔
دوسرے دن ابو جہل قریش کی محفل میں داخل ہو ا اور ان کی تمام تجاویز کو سنا کہ وہ کہہ رہے تھے محمدۖدیوانے، یاجھوٹے یا کاہن ہیں اور پھر انہیں رد کر دیا۔ تو انہوں نے کہا تو کیا کہتا ہے؟ تو ابو جہل نے کہا، کہو جادو گرہے کیونکہ آ پ ۖکا کلام دلربا ہے اوررشتہ داروں میں جدائی ڈالتا ہے۔
اس واقعہ کی خبر آنحضرت ۖتک پہنچی تو آپ ۖ متاثر ہوئے اورغم واندوہ کے عالم میں اپنے گھر میں رہے۔ اس دوران جبرائیل نازل ہوئے اور آیات سورہ مدثر کو لائے۔
یَا ایُّھَا المُدَّثِر ں قُم فَاَنذِر ںسے لے کر اس آیت تک فَقَالَ اِن ھٰذَا اِلّا سحر یُؤثَرُ۔(5)
‘ اوراس نے کہا کہ یہ(قرآن) تو ایک جادو ہے جو پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے’ ۔
وجوہ اعجاز قرآن میں سے وجہ اول کے آخر میںیہ بتانا ضروری ہے کہ نزول قرآن کو تقریباً چودہ صدیاں گذر چکی ہیں اور اس طویل مدت میں اسلام و مسلمین کے ساتھ دشمنوں نے انتہا کی دشمنی کی اور اب بھی مغرب و مشرق جنہوں نے اقتصادی و ثقافتی لحاظ سے بہت ترقی کر لی ہے اور مختلف علوم کے ماہرین اورمفکرین اپنے پاس رکھتے ہیںاور اسلام کے ساتھ ان کی دشمنی بھی قابل بیان نہیںاس کے باوجود اگر ان اہم ترین خطباء ، سخنوران، متفکرین و مصنفین کے دماغوں سے استفادہ کر سکتے اورلمبے عرصے میں ان کے لیے فکر کرنے کا بہترین ماحول فراہم کرتے اور ایک مختصر سورہ جیسے سورہ توحید، سورہ کوثر جیسی ایک سورت بنا کرلاسکتے اور اسلام و مسلمین کی زندگی کو ختم کر سکتے تو یقیناً یہ کام کرتے لیکن وہ قرآن کی ایک مختصر ترین سورہ جیسی سورہ بنا کر بھی نہیں لا سکے۔
٢۔ مختلف اہم حقائق کا بیان
قرآن مجید میں اہم ترین معارف و حقائق اعتقادی، معاشرتی، علمی، عملی،عبادی اور اسرار خلقت کی تشریح، اخبار غیبی کا بیان اور قرآن میں عدم اختلاف اور قرآن کاکتاب ہدایت ہونااچھی طرح واضح ہے۔ کیونکہ پیغمبر اکرم ۖ کے اُمی ہونے اورکسی سے علم حاصل نہ کرنے اور استاد کے پاس نہ جانے ، اور نیز جزیرة العرب کی پس ماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ مذکورہ خصوصیات پر مشتمل مجموعہ کو پیش کرنا طبیعی قوانین کے خلاف اور قدرت بشر سے بالاتر ہے اور نتیجةً روشن و واضح معجزہ ہے۔
ہاں قرآن کریم اپنی فصاحت و بلاغت کے علاوہ اپنے مضامین ، معارف اورکائنات کے حقائق و دقائق کی وضاحت اورغیب کی خبروں کے لحاظ سے بھی معجزہ ہے اورحضرت محمد ۖ کی رسالت کو ثابت کرتا ہے البتہ مختلف جہات سے اعجاز قرآن کی کیفیت کی تشریح مفصل کتب میں موجود ہے۔ اور ہم بھی انشاء اللہ دوسری تحریروں میں تفصیلی طور پر ذکر کریں گے۔
بحث اعجاز قرآن کے آخر میں مناسب ہے بعض آیات شریفہ کو جو مختلف اعتقادی، اخلاقی، اجتماعی، عبادی، اخبار غیب اور اسرار خلقت، کے مسائل سے مربوط ہیں ذکر کیا جائے ۔ اب ہم ان میں سے بعض آیات کو ذکر کرتے ہیں:
الف۔ توحید و توصیف الہٰی
ہُوَاللّٰہُ الذِ ی لاَ اِلٰہَ اِلاّ ہُوَ عاٰ لِمُ الغَیبِ و الشَّہَادَة ِ ہُوَ الرَّحمٰنُ الرحِیم ں ہوَ اللّٰہُ الَّذِی لٰاا ِلہ اِلا ہُوَ َالملِکُ القُدُّوسُ السَّلامُ المُؤمِنُ المُہَیمِنُ العَزِیزُ الجَبَّارُ المُتَکَبِِّرُ سُبحَانَ اللّٰہِ عَمَّا یُشرِکُِونَ ں و َہُوَ اللّٰہُ الخَالِقُ الباٰرِِیُ المُصَوِّرُ لَہُ الأسمٰائُ الحُسنیٰ یُسَبِّحُ لَہُ مَا فیِ السَّمَاوَاتِ وَ الأَرِضِ وَ ہُوَ العَزِیزُ الحَکِیمُ ۔(6)
ترجمہ: ‘ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ غیب و شہود کا جاننے والا ہے، وہی رحمن و رحیم ہے۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی بادشاہ ہے، نہایت پاکیزہ، سلامتی دینے والا، امان دینے والا، نگہبان، بڑا غالب آنے والا، بڑی طاقت والا، کبریائی کا مالک، پاک ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ وہی اللہ ہی خالق، موجد اور مصوِّر ہے جس کے لیے حسین ترین نام ہیں، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔’
ب۔ معاشرتی مسائل
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
الف: اِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُ کُمْ بِالعَدْلِ وَ الاحْسَانِ وَا ِیتایِٔ ذِیِ الْقُرْبیٰ وَ یَنْہیٰ عَنِ الْفَحْشَاء ِ وَ المُنْکَرِ وَ الْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔(7)
ترجمہ: ‘بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور قرابتداروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بدکاری اور ناشائستہ حرکات و ظلم سے منع کرتا
ہے وعظ و نصیحت کرتا ہے تا کہ شاید تم اسی طرح نصیحت حاصل کرو’
ب: اِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُوا لأَمَانَاتِ اِ لٰی اَہْلِہَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ۔ (8)
ترجمہ:’ بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو’
ج: وَاعْبُدُو ا اللّٰہَ وَ لٰا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَ بِذیِ الْقُرْبیٰ وَ الْیَتٰامیٰ وَ الْمَسٰاکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِیِ الْقُرْبیٰ وَ الجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاٰحِبِ بِالجَنْبِ وَ ابْنِ السَّبِیلِ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمٰانُکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لٰا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتٰالاً فَخُوراً۔(9)
ترجمہ:’ اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شئے کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیکی کرو اور قرابتداروں کے ساتھ اور یتیموں، مسکینوں، قریب کے ہمسایہ، دور کے ہمسایہ، پہلو نشین، ابن سبیل، غلام و کنیز سب کے ساتھ نیک برتاؤ کروبے شک اللہ مغرور اور متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا’د: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواکُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُہَداٰء لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلیٰ أنْفُسِکُمْ اَوِالوٰالِدَیْنِ وَ الأقْرَبِینَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیّاً أَوْ فَقِیراً فَاللّٰہُ أَوْلیٰ بِہِِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الہَوَیٰ اَنْ تَعْدِلُوا وَ اِنْ تَلْوُوا اَوْ تُعْرِضُوا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمٰا تَعْمَلُونَ خَبِیراً۔ (10)
ترجمہ’ اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو۔ اور اللہ کے لیے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین و اقرباء کے خلاف کیوں نہ ہو۔ جس کے لیے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر اللہ دونوں کے لیے تم سے اولیٰ ہے۔ لہذا خبر دار خواہشات کا اتباع نہ کرنا تا کہ انصاف کر سکو اور اگر توڑ مروڑ سے کام لیا یا بالکل کنارہ کشی کر لی تو یاد رکھو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے’
ھ: فَمَنِ اعْتَدیٰ عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدیٰ عَلَیْکُمْ (١1)
ترجمہ: پس جو تم پر زیادتی کرے تم بھی ویسا ہی برتاؤ کرو'(اس سے زیادہ نہیں)
و: اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّاٰبِِرُونَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ۔ (1٢)
ترجمہ’ صبر کرنے والے ہی وہ ہیں جن کو بے حساب اجر دیا جاتا ہے’
ج۔ اخلاقی، عبادی، اقتصادی اور اعتقادی
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِِ الَّذِیْنَ یَمْشُونَ عَلَی الأَرْضِ ہَوْناً وَ اِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ں وَ الَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّہِمْ سُجَّداً وَ قِیاٰماً ں وَ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَاماً ں اِنَّہَا سَائَ تْ مُسْتَقَرّاً وَ مُقَاماً ں وَ الَّذِینَ اِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَ لَمْ یَقْتُرُوا وَ کَانَ بَیْنَ ذَالِکَ قَوَاماً ںوَ الَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللّٰہِ ِالٰہاً آخَرَ وَ لَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتیِ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُونَ وَ مَنْ یَفْعَلْ ذَالِکَ یَلْقَ أَثَاماً ںیُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَ یَخْلُدْ فِیہِ مُہَاناً ںاِلَّا مَنْ تَابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُولٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوراً رَحِیماً ںوَ مَن تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحاً فَاِنِّہُ یَتُوبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَاباً ں وَ الَّذِینَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ وَ اِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَاماً ںوَ الَّذِینَ اِذَا ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْہَا صُمّاً وَ عُمْیَاناً ںوَ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِیَّتِنَا قُرَّةَ أَعْیُنٍ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ اِمَاماً ںأُولٰئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَ یُلَقَّوْنَ فِیہَا تَحِیَّةً وَ سَلَاماً ںخَالِدِینَ فِیہَا حَسَنَتْ مُسْتَقَرّاً وَ مُقَاماً(١3)
ترجمہ: ‘اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں۔ اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں۔ یہ لوگ راتوں کو اس طرح گذارتے ہیں کہ اپنے رب کی بارگاہ میں کبھی سجدہ میںرہتے ہیں اور کبھی حالت قیام میں رہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ پروردگار ہم سے عذاب جہنم کو پھیر دے کہ اس کا عذاب بہت سخت اور پائیدار ہے وہ بدترین منزل اور محل اقامت ہے۔ اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ بلکہ ان دونوں کے درمیان اوسط درجہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اور یہ لوگ خدا کے ساتھ کسی اور کو نہیں پکارتے اور کسی کو بھی اگر خدا نے محترم قرار دیا ہے تو اسے حق کے بغیر قتل نہیں کرتے اور زنا بھی نہیں کرتے ہیں کہ جو ایسا عمل کرے وہ اپنے عمل کی سزا بھی برداشت کرے گا۔ جسے روز قیامت دگنا کر دیا جائے گا اور وہ اسی میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ پڑا رہے گا۔ علاوہ اس شخص کے جو توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل بھی کرے کہ پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کر دے گا اوروہ بہت بخشنے والا مہربان ہے اور جو توبہ کرے گا اور عمل صالح انجام دے گاوہ اللہ کی طرف واقعاً رجوع کرنے والا ہے۔ اور وہ لوگ جو جھوٹ، فریب کے پاس حاضر بھی نہیں ہوتے ہیں اور جب لغو کاموں کے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں اور ان لوگوں کو جب آیات الہٰیہ کی یاد دلائی جاتی ہے تو بہرے اندھے ہو کر گر نہیں پڑتے ہیں۔ اور وہ لوگ برابر دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدایا ہمیں ہماری ازواج اور اولاد کی طرف سے خنکی چشم عطا فرما اور ہمیں صاحبان تقویٰ کا پیشوا بنا دے۔ یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کی بناء پر جنت کے بالاخانے عطا کیے جائیں گے اور وہاں انہیں تعظیم اور سلام کی پیش کش کی جائے گی وہ انہیں مقامات پر ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ بہترین مستقر اور حسین ترین محل اقامت ہے۔’
د۔ غیب کی خبریں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
الف: فَاصْدَعْ بِمَا تُؤمَرُ وَ أَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرکِِینَ ںاِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَہْزِئِیْنَ ں الَّذِیْنَ یَجْعَلُونَ مَعَ اللّٰہِ ِالَہًا ئَ اخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ ۔(١4)
ترجمہ: پس آپ اس بات کا واضح اعلان کر دیں جس کا حکم دیا گیا ہے اور مشرکین سے کنارہ کش ہو جائیں ہم ان استہزاء کرنے والوں کے لیے کافی ہیں جو خدا کے ساتھ دوسرا خدا قرار دیتے ہیں۔ اور عنقریب انہیں ان کا حال معلوم ہو جائے گا۔
ب: الم ںغُلِبَتِ الرُّومُ ں فیِ أَ دْنَی الأَرْضِ وَ ہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوْنَ ۔(١5)
ترجمہ: ‘روم والے مغلوب ہو گئے قریب ترین علاقہ میں لیکن یہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب پھر غالب ہو جائیں گے’
ج: تَبَّتْ یَدَاَ بِی لَہَبٍ وَ تَبَّ ںمَا أَغْنٰی عَنْہُ مَالُہُ وَ مَا کَسَبَ ںسَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ ں وَ امْرَأَتُہُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ۔(16)
ترجمہ: ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہو جائے۔ نہ اس کا مال ہی اس کے کام آیا اورنہ اس کا کمایا ہوا سامان ہی۔ وہ عنقریب بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گااور اس کی بیوی بھی جوایندھن اٹھانے والی ہے ‘
سورہ حجر کی آیت نمبر (٩٤) میں استہزاء کرنے والوں کے شر سے حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور اسی طرح ہوا بھی اور ان سب کا شر خود ان کی طرف لوٹ گیا۔سورہ روم کی اولین آیت میں رومیوں کے غلبہ کی خبر دی ہے اور وہ بھی قرآن کی فرمائش کے مطابق غالب آئے۔ اور سورہ لہب میں ابو لہب کے ایمان نہ لانے کا اعلان فرمایا اور وہ ایمان نہ لایا۔ درج ذیل آیات قرآن کریم کی اخبار غیبی کا ایک نمونہ ہیں جن میں ادعائے نبوت کے ساتھ ساتھ قطعی طور پر آیندہ کی خبر دی گئی ہے۔ واضح ہے کہ اگرحضرت محمد ۖ صادق نہ ہوتے تو خداوند متعال ان کے دعوے کو باطل کرتا۔
ھ۔ اسرار خلقت
الف: وَأَنْبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ شَیئٍ مَّوْزُونٍ ۔ (١7)
ترجمہ: اور اس میں ہر چیز کو معین مقدار کے مطابق پیدا کیا۔
ب: وَأَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ….. (18)
ترجمہ: اور ہم نے ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اُٹھانے والا بنا کر چلایا ہے۔
ج: وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَراتِ جَعَلَ فِیْہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ۔۔۔ (19)
ترجمہ:’اور نہریں جاری کیں اور ہر پھل کا جوڑا قرار دیا ۔’
د: سُبْحَانَ الَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا مِمَّا تُنْبِتُ الأَرْضُ وَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ وَ مِمَّا لاَ یَعْلَمُونَ ۔(20)
ترجمہ:’ پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا ہے ان چیزوں میں سے جنہیں زمین اگاتی ہے اور ان کے نفوس میں سے اور ان چیزوں میں سے جن کا انہیں علم بھی نہیں ہے ۔’
ھ: الَّذِ ی جَعَلَ لَکُمُ الأَرْضَ مَہْدًا۔۔(21)
ترجمہ:’اس نے تمہارے لئے زمین کو گہوارہ بنایا ہے ‘۔
و: رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَ رَبُّ الْمَغْرِبَیْن ۔(22)
ترجمہ:’ وہ چاند اور سورج دونوں کے مشرق اور مغرب کا مالک ہے۔’
ز: فَلاَ أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَ الْمَغَارِبِ ِانَّا لَقَادِرُونَ ۔(23)
ترجمہ:’میں تمام مشرق و مغرب کے پروردگار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں ۔’
درج بالا آیات میں زوجیت نباتات اور ہوا کے ذریعے لقاح اور گردش زمین اور دو مشرق و مغرب کی موجودیت اور زمین کی کرویت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک زمان نزول قرآن سے صدیوں بعد کشف ہو چکے ہیں۔ اور جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ قرآن کے بیان کردہ اسرار خلقت کی طرف توجہ دینا ہے۔ اور واضح ہے کہ اس کی تفصیل مفصل بحث اورمستقل کتاب کی تحریر کی متقاضی ہے۔
یاددہانی:واضح ہے کہ قرآن کا مقصد راہنمائی و ہدایت ہے جیسا کہ وہ خود اپنا تعارف کرواتا ہے کہ کتاب ہدایت، نور، بصیرت و درس و تعلیم و تربیت اور رہنمائے سعادت کتاب ہے۔ لیکن اس ہدف کے راستے میں اور اس ہدف تک رسائی کے لیے اور اعجاز، حقانیت، آیت و علامت ہونے کی وضاحت کے لیے بلند ترین مناسب خصوصیات سے برخوردار ہے۔
١۔ بے مثل بے نظیر فصاحت و بلاغت۔
٢۔ عصر نزول قرآن میں مخفی علوم جیسے اسرار خلقت اور حقائق کائینات کی طرف اشارہ.
٣۔قطعی اور حتمی غیبی خبریں.
٤۔ محکم و متقن ہونا اور مطالب میں اختلاف کا نہ ہونا اور حیرت انگیز اسلوب۔
٥۔ بے انتہاء لطائف۔
٦۔ دلوں میں تاثیر و نفوذ اور اس کی تلاوت کا روح و قلب کے لیے اطمینان بخش ہونا
ہاں قرآن فرمان رسول اکرم ۖ کے مطابق:
‘ظاھرہ أنیق (وثیق) و باطنہ عمیق لہ نجوم و علی نجومہ نجوم لاتحصی عجائبہ و لاتبلی غرائبہ’ (24)
ترجمہ: قرآن کریم کا ظاہر شیرین اور باطن عمیق اور افکار کی دسترس سے دور ہے؛ اس کے عجائب کا شمار نہیں کیا جا سکتا اور اس کے شگفت انگیز مطالب کبھی پرانے نہیں ہوتے۔’
اور امیرلمؤمنین ں کے فرمان کے مطابق:
‘و فیہ ربیع القلب و ینابیع العلم و ما للقب جلاء غیرہ’۔ 25
ترجمہ: قرآن میں دلوں کی بہار اور دانش کے سرچشمے ہیں؛ اور قرآن سے ہٹ کر کوئی چیز دلوں کی جلا اور صفا کا سبب نہیں بن سکتی۔’
عصمت
بحث نبوت میں قابل تحقیق مسائل میں سے ایک مسئلہ عصمت انبیاء ہے۔ عصمت لغت میں حفاظت و نگہبانی کے معنی میں ہے۔ اور عصمت انبیاء سے مقصود انبیاء کا خطا و نسیان (عصمت علمی) اور گناہ و معصیت (عصمت عملی) سے محفوظ ہونا ہے۔ انبیاء الہٰی ایک ایسی خصوصیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اشتباہ، خطا، نسیان، فراموشی، گناہ اور آلودگی سے محفوظ ہیں۔ تبلیغ نبوت و رسالت میں اشتباہ نہیں کرتے اور زندگی کے معمولی امور میں بھی خطا نہیں کرتے اور عمداً، توجہ کے ساتھ ان سے گناہ سر زد نہیں ہوتا اور گناہ پر قدرت کے باوجود کبھی گناہ نہیں کرتے۔
عصمت انبیاء کے اثبات پر متعدد عقلی، نقلی دلایل بیان کیے گئے ہیں۔ ہم مختصر طور پر اُن میں سے بعض دلائل کو ذکر کرتے ہیں۔
انبیا ء ٪ کی عصمت پر عقلی دلائل
١۔ عصمت انبیاء پر ایک عقلی دلیل یہ ہے کہ اگر انبیاء اشتباہ سے محفوظ نہ ہوں تو ان پر اطمینان و اعتماد نہیں رہے گا۔ اور وہ قابل اطمینان و اعتماد نہ ہوں تو یہ غرض نبوت و رسالت کے خلاف ہو گا۔ اس بناء پر ضروری ہے کہ انبیاء گناہ و اشتباہ سے محفوظ ہوں۔
استدلال کی وضاحت
واضح ہے کہ جس شخص کی گفتار و رفتار میں خطا کا امکان ہو نیز گناہ، معصیت جیسے جھوٹ بولنا اس کے لیے فرض کیا جائے تو جب وہ بات کرے گا۔ اور اس بات کی نسبت خدا کی طرف دے گا تو یہ بھی احتمال ہے کہ جھوٹ بول رہا ہو کیونکہ گناہ سے محفوظ نہیںاور یہ بھی احتمال ہے کہ اشتباہ کر رہا ہو اور غلطی سے اپنی بات کو اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت دے رہا ہو کیونکہ وہ خطا سے محفوظ نہیں۔ اس بناء پر یہ یقین کہ اس کی بات خدا کی بات ہے۔ اور اس کا حکم ،حکم الہٰی ہے۔ حاصل نہیں ہو گااور نتیجتاً رسالت کا مقصد کہ لوگوں کا احکام الہٰی پر یقین و اطمینان حاصل ہو عملی نہیں ہو گا۔ اور یہ غرض بعثت و رسالت کے خلاف ہے۔
٢۔ واضح ہے کہ عقل حجت الہٰی ہے اور عقل کے واضح حکم کی پیروی کرنی چاہیے۔ اور نیز یہ بھی ہے کہ پیغمبر اکر م ۖحجت الہٰی ہیں اور ان کی بھی پیروی کرنی چاہیے۔ اگر پیغمبر گناہ گار، ہواور خطا واشتباہ کرسکتا ہو تو عقل کہتی ہے کہ ایسے گناہ گار خطاکار شخص کی پیروی جائز نہیں۔اور دوسری طرف انبیاء الہٰی کی پیروی ضروری ہے۔ تو اس بناء پر لوگ دو متناقص باتوںکے درمیان پھنس جائیں گے اور خدا وند متعال لوگوں کو دو متناقص امور کے درمیان حیران و سرگردان نہیں چھوڑ سکتا۔ نتیجتاً ضروری ہے کہ پیغمبر خطا و اشتباہ سے محفوظ ہو تا کہ ایسا تناقض و تحیر پیدا نہ ہو۔
٣۔ نبی و رسول کی خبر کو بغیر تأمل قبول کرنا ضروری ہے وگرنہ اس کی پیامبری و نبوت لغو، بے سود ہو گی۔ اور اگر پیغمبر گناہ گار و خطار کار ہو تو واضح طور پر اس کی خبر قابل قبول نہیں ہو گی۔ پس پیغمبر کو گناہ گار و خطا کار نہیں ہونا چاہیے۔
عصمت انبیاء پر عقلی دلائل بہت زیادہ بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن اختصار کی وجہ سے درج بالا تین دلائل پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ یہاں پر سلطان المحقیقین خواجہ نصیر الدین طوسی کی عبارت کو(جس میں انہوں نے عصمت انبیاء پر چند عقلی دلائل کو ذکر کیا ہے) ہم بھی ذکر کرتے ہیں۔
‘و یجب فی النّبیّ العصمة، لیحصل الوثوق، فیحصل الغرض، ولوجوب متابعتہ و ضّدھا والانکار علیہ'(26)
ترجمہ: ‘اور نبّی کا معصوم ہونا واجب ہے تاکہ اس پر وثوق حاصل ہو سکے؛ اس لئے کہ اگر نبی پر وثوق ہو گا تو نبی کی بعثت کی غرض حاصل ہو سکے گی۔ اور نبی کا معصوم ہونا واجب ہے کیونکہ اس کی پیروی کرنا کلی طور پر واجب ہے اورغیر معصوم کی پیروی طور جائز نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی معصوم نہ ہو توکلی طور پر اور بطور مطلق اس کی پیروی کرناجائز نہیں ہوتا۔’
انبیاء ٪کی عصمت پر نقلی دلائل
اس نکتہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ عصمت انبیاء پر بنیادی و اصلی استدلال وہی واضح عقلی دلائل ہیں اور اگر ہم عصمت انبیاء پر عقلی دلائل سے صرف نظر کریں تو انہوں نے خود جو باتیں اپنی عصمت کے بارے میں کی ہیں وہ بھی مشکوک ہو جائیں گی۔اور واضح ہے کہ ان کی گفتار میں جھوٹ کا احتمال اصل رسالت و نبوت کے منافی ہے۔
بعض دلائل نقلی
١۔ خداوند متعال فرماتا ہے:
و مَا أرْسَلنَا مِنْ رَسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاذْنِ اللّٰہِ ۔(27)
اس آیت شریفہ سے اطاعت پیغمبر ۖ کا وجوب واضح ہے کیونکہ بعثت پیغمبر ۖ کی غرض ان کی اطاعت اور کلی طور پر ان کی پیروی اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو بیان کیا گیا ہے۔ اور واضح ہے کہ اگر پیغمبر گناہ و خطا سے محفوظ نہ ہوںتو حکم عقل کے مطابق ان کی مطلق پیروی جائز نہیں ہو گی۔ اس بناء پر واضح ہے کہ انبیاء معصوم اور گناہ و خطا سے محفوظ ہیں۔
٢۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَةُ۔ (٢8)
ترجمہ:’ مسلمانو! تمہارے لئے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے ۔’
درج بالا آیت پیغمبر اکرم ۖ کوایسا اسوۂ ونمونہ قرار دیتی ہے جس کی پیروی سعادت کا باعث ہے واضح ہے کہ اگر پیغمبراکرم ۖ گناہ و خطا سے محفوظ نہ ہوں تو وہ بطور مطلق اسوہ و نمونہ نہیں ہوں گے۔ کیونکہ خدا وند متعال گناہ گار، خطاکار کی پیروی کا ہرگز حکم نہیں کرتا۔بنابر این اس آیت سے واضح طور پر حضور ۖ کی عصمت کا استفادہ ہوتا ہے.
٣۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَ ہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا۔
ترجمہ:’ اے اہل بیت پیغمبرۖ!بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جس طرح پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے’
درج بالا آیات ہر رجس و پلیدی سے پاک گروہ اہل البیت کو بیان کرتی ہے۔ اس بناء پر پیغمبر اکرم ۖ اور آپ کا خاندان وہ ہستیاں ہیں جو ہر رجس و پلیدی سے منزہ ہیں اور واضح ہے. کہ گناہ و اشتباہ، پلیدی اوررجس ہیں۔ اس بناء پر مذکورہ آیت میں مذکورہ گروہ، گناہ و خطا سے محفوظ ہیں۔ (29)
٤۔ جابر نے حضرت امام محمد باقر ںسے علم عالم کے بارے میں سوال کیاتو حضرت نے اسے فرمایا:
انّ فی الأنبیاء و الأوصیاء خمسة أرواح، روح القدس و روح الایمان و روح الحیوة و روح القوّة و روح الشھوة فبروح القدس یا جابر علمنا ما تحت العرش الی ما تحت الثری ثمّ قال: یا جابر! انَّ ھذہ الأرواح یصیبہ الحدثان الاّ انّ روح القدس لایلھو ولا یلعب۔(30)
ترجمہ: ‘یقینا انبیأ اور ان کے جانشینوں میں پانچ ارواح ہیں: روح القدس، روح الایمان، روح الحیاة ، روح القوة اور روح الشہوة۔ ائے جابر! ہم نے روح القدس کے ذریعے ماتحت عرش سے ماتحت ثریٰ (یعنی پورے عالم ہستی) کا علم پایا۔ پھر آپ نے فرمایا: روح القدس کے علاوہ باقی روحیں دنیا کے حوادث سے متأثر ہوتی ہیں لیکن روح القدس سے لہو و لعب (اور نتیجہ میں گناہ اور معصیت) سرزد نہیں ہوتے.’
٥۔ حضرت امیرلمؤمنین ـ فرماتے ہیں۔ وہ واجبات جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر کیے ہیں ان کی پانچ قسمیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے لیے چار شرائط ہیں کہ جن سے عدم آگاہی کا کسی کوحق اور اختیار نہیں پھر آپ نے فرمایا:
و أمّا حدود الامام المستحقّ للامامة، فمنھا أن یعلم المأموم المتولّی علیہ أنّہ معصوم من الذّنوب کلّھا صغیرھا و کبیرھا، لا یزّلُ فی الفتیا و لا یخطیء فی الجواب ولا یسھو ولا ینسی ولا یلھو بشیء من أمر الدنیا …(31)
ترجمہ: ‘اور جہاں تک امامت کے مستحق امام کی شرائط کا تعلق ہے تو ان میں سے ایک یہ ہے کہ مأموم کو معلوم ہو کہ اس کا امام وہ ہو سکتاہے کہ جو صغیرہ و کبیرہ ہر قسم کے گناہ سے معصوم ہو؛ وہ فتوی دینے او رلوگوں کے مسائل کا جواب دینے میں لغزش نہ کرے اور نہ سہو کا شکار ہو اور نہ نسیان کا اور نہ ہی دنیا کے لغویات میں سے کسی میں مبتلا ہو…. ‘
جو دلایل عقلی و نقلی بیان ہوئے ہیں وہ بہت سی دلیلوں کا ایک نمونہ ہیں۔ انہیں مدنظر رکھتے ہوئے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء خطا سے محفوظ اور گناہ سے مصون ہیں اوراس کے باوجود کہ قدرت گناہ ان سے سلب نہیں کی گئی ہے لیکن ان سے گناہ سرزد نہیں ہوتا۔
سوال: عصمت انبیاء پردرج بالا بیان کے باوجود یہ اشکال کیا جاتا ہے، کہ اگر انبیاء گناہ و خطا سے محفوظ ہیں تو قرآن کریم میں ان کی طرف جو گناہ کی نسبت دی گئی ہے اور انبیاء و اولیاء کے استغفار کا کیا معنی ہے؟
قرآن کریم میں حضرت آدم ں ، حضرت ابراہیم ں، حضرت موسیٰ ں اور دیگر انبیاء کی طرف عصیان و گناہ کی نسبت دی گئی ہے یہ نسبتیں ان کی عصمت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی مثلاً پیغمبر اکرم ۖ کے متعلق جو تمام انبیاء سے افضل ہیں، قرآن فرماتا ہے
ِانَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا ں لِیَغْفِرَ لَکَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تََخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا. (32)
ترجمہ:’بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح عطا کی ہے تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہوں کو معاف کردے اور آپ پر اپنی نعمت کو تمام کردے اور آپ کو سیدھے راستہ کی ہدایت د ے د ے ‘۔
حضرت ابراہیمں کے متعلق فرمایا:
فَلَمَّا رََی الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہَذَا رَبِّی فَلَمَّا َفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ یَہْدِنِی رَبِّی لََکُونَنَّ مِنْ الْقَوْمِ الضَّالِّینَ ں فَلَمَّا رََی الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ ہَذَا رَبِّی ہَذَا َکْبَرُ فَلَمَّا َفَلَتْ قَالَ یَاقَوْمِ ِنِّی بَرِیئ مِمَّا تُشْرِکُونَ۔(33)
ترجمہ:’ پھر جب چاند کو چمکتا دیکھا تو کہا کہ پھر یہ رب ہوگا .پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا کہ اگر پروردگار ہی مجھے ہدایت نہ دے گا تو میں گمراہوں میں ہوجاں گا ۔ پھر جب چمکتے ہوئے سورج کو دیکھا تو کہا کہ پھر یہ خدا ہوگا کہ یہ زیادہ بڑا ہے لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہااے قوم میں تمہارے شِرک سے بری اور بیزار ہوں ‘
جواب:اس سوال کے جواب کی وضاحت کے لیے چند باتوں کی طرف توجہ ضروری ہے۔
١۔ عقلی و نقلی دلائل عصمت انبیاء کو مکمل طور پر ثابت کرتے ہیںاور تردیدو ابہام کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے۔ اس بناء پر اس قاطیعت و صراحت کے مقابلہ میں جو بھی آئے گااگر ان دلائل کے ہم پلہ نہ ہو تو قابل تاویل و توجیہ ہے۔
٢۔ قرآن ایسی کتاب ہے جس کی خصوصیت ہدایت ہے اور انسان کو حق کی صحیح معرفت عطاکرتی اور حق کی طرف اس کی راہنمائی کرتی ہے اور انسان کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ لیکن اس کتاب کی آیات سے مکمل استفادہ کرنے کی ایک خاص کنجی ہے اور ایسا نہیں کہ صرف لغت عربی اور قواعد لغت عرب پر تسلط کی بناء پر تمام آیات سے استفادہ ممکن ہو کیونکہ قرآن کی کچھ آیات محکم ہیں اورعربی زبان سے واقفیت کی بنا پر اُن سے استفادہ ممکن ہے اور صحیح راستے کو مشخص کیا جا سکتا ہے اور مختلف گمراہیوں، ضلالتوں سے نجات پائی جا سکتی ہے۔ لیکن بعض آیات شریفہ قرآن متشابہ ہیںجن سے باآسانی مرادو مقصود الہٰی کو نہیں پایا جا سکتا اور نیز بہت سے ظواہر آیات شریفہ قرآن مصالح مہمہ کی وجہ سے مقصود الہٰی نہیں اور بہت سی آیات قرآن مجمل یا عام ہیں جو مبین و مخصص کی محتاج ہیں۔ نتیجةً قرآن کریم سے مکمل استفادہ کرنے کیلئے ایک خاص مہارت کی ضرورت ہے اور اس کا علم پیغمبر اکرم ۖور آئمہ معصومین ٪کے پاس ہے۔ اور جو لوگ آئمہ معصومین٪ سے علم حاصل کیے بغیر اس کتاب سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فہم قرآن اہلبیت ٪کا محتاج نہیں بہت بڑے اشتباہ میں مبتلا ہیں، اور بہت سی باتیں جو انہوں نے قرآن سے حاصل کی ہیں وہ قرآن سے مشرق و مغرب سے زیادہ فاصلہ رکھتی ہیں۔
بَلْ ہُوَ آیاٰت بَیِِّنَات فیِ صُدُورِ الَّذِین اُوتُوا الْعِلْمَ۔ ( العنکبوت ٤٩)
ترجمہ:’ درحقیقت یہ قرآن چند کھلی ہوئی آیتوں کا نام ہے جو ان کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے’۔
اس آیت شریفہ میں قرآن نے لوگوں کو اپنی طرف دعوت نہیں دی اور تشریح و وضاحت آیت کو دوسری آیت پر موقوف نہیں کیاجبکہ کچھ موارد میں ایسا ہوتا ہے، بلکہ اپنے علاوہ مخصوص ہستیوں کی طرف تشریح و توضیح قرآن کو پلٹایا ہے۔
درج بالا بیان کے مطابق وہ آیات قرآن کریم جو انبیاء کے گناہ و خطا سے معصوم و محفوظ نہ ہونے کو بیان کرتی ہیںوہ تمام وارثان و صاحبان علوم قرآن کی وضاحت و بیان سے واضح ہو جاتی ہیں کہ مذکورہ آیات کا معنی کیا ہونا چاہیے۔اب مذکورہ آیات جو بحث عصمت انبیاء میں مورد سوال واقع ہوئی ہیں کی تشریح و توضیح سے قبل بعنوان مقدمة چند آیات کا ذکر کرتے ہیں توحید اورذات باری تعالیٰ کی معرفت سے متعلق چند آیات ایسی ہیں جن سے عربی ادب کے مطابق ظاہری معنی قطعاً مقصود نہیں کیونکہ ظاہری معنی عقل، نقل دونوں کے خلاف ہے ان بعض آیات کو ہم یہاں ذکرکرتے ہیں۔
وَ جاٰئَ رَبُّک(34) ترجمہ:’ اورتیرارب آیا ۔’
وَ نَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحیِ (35) ترجمہ:’ میں نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔’
یَدُ اللّٰہِ فَوقَ أَیْدِیہِمْ (٣6) ترجمہ:’ ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے ‘۔
قُلْ اَتُنَبِّؤُنَ اللّٰہ بِمَا لٰا یَعْلَمُ فیِ السَّمٰواٰتِ وَ لَا فیِ الاَرْضِ(37)
ترجمہ:’ توکہہ دیجئے کہ تم تو خدا کو اس بات کو اطلاع کررہے ہو جس کا علم اسے آسمان و زمین میں کہیں نہیں ہے
وَ أَرْسَلْناٰہُ اِلٰی مِائَةِ أَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُونَ (38)
ترجمہ:’ اور اسے ایک لاکھ یا اس سے زیادہ کی قوم کی طرف نمائندہ بناکر بھیجا ‘
درج بالا آیات ان بہت سی آیات کا نمونہ ہیں کہ اگر عربی زبان کے قواعد کے مطابق ان کا معنی کیا جائے اور فہم قرآن کریم کی کنجی سے استفادہ نہ کیا جائے اور اسی ظاہری معنی پر اکتفاء کیا جائے تو ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف تجسم، تقسیم پذیر، ترکیب، جہالت کی نسبت دیں۔ درحالانکہ حکم قطعی عقل کی بناء پر خداوند متعال ان تمام نقائص سے پاک ومنزہ ہے۔
اسی طرح آیات احکام کی تحقیق میں بہت سی آیات کو دیکھتے ہیں کہ جن سے ظاہری معنی مقصود نہیں اور قطعی طور پر اس کا ارادہ نہیں کیا گیا۔ جیسے:
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَیْدِیَہُمَا۔ (39)
ترجمہ: ‘چور مرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ۔’
فَلاَ جُناٰ حَ عَلَیْہِ اَنْ یطَّوَّفَ بھما (40)
ترجمہ:’ اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں(صفا و مروہ)کا چکر لگائے ‘۔
فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُناٰح اَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلٰوةِ۔ (41)
ترجمہ:’ اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی نمازیں قصر کردو ‘۔
اگر ظاہر آیت سے استفادہ پر اکتفاء کیا جائے تو کبھی بھی کلمہ’ أیدی ‘سے (جس کا معنی ہاتھ ہے) انگلیوں اور کلمہ ‘لاجناح'(جس کا معنی کوئی اشکال و حرج نہیں ) سے وجوب کااستفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ در حالانکہ مسلم ہے کہ ‘أیدی’ سے مقصود چار انگلیاں ہیںاور صفا و مروہ کے درمیان سعی واجب ہے اور سفر میں نماز کا قصر ہونا واجب ہے۔
اب عرض کرتے ہیں کہ مورد سوال آیات جو بحث عصمت میں انبیاء کیغیر معصوم ہونے کے شاہد کے طور پر لائی گئی ہیںمذکورہ دونوں مقدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی توجیہ و تاویل کی جا سکتی ہے اور ان میں سے ہر ایک آیت کے لیے آئمہ معصومین ٪نے واضح بیان دیا ہے جس کو ہم ذکر کرتے ہیں۔
الف۔ آیت اوّل :لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَ ماٰ تَأَخَّرَ۔(42)
کے سلسلے میں حضرت امام رضا ں سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے جو مطلب کی وضاحت کرتی ہے:
‘مامون نے امام رضا ں سے سوال کیا کہ اس گناہ سے کیا مراد ہے جس کی پیغمبر اکرم ۖکی طرف نسبت دی گئی ہے؟ کیا آپ نہیں کہتے کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں؟ تو امام رضا ں نے فرمایا کہ بالکل صحیح ہے کہ انبیأ معصوم ہوتے ہیں۔ تو مامون نے عصمت انبیاء کے بارے میں آیات کے بارے میں سوال کیا اور یہاں تک کہ آیت شریفۂ ‘ لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَ ماٰ تَأَخَّرَ’ کے بارے میں پوچھا کہ آپ اس آیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ تو امام نے فرمایا مشرکین مکہ کے نزدیک رسول اکرم ۖسے زیادہ کسی کا گناہ نہیں تھا۔ کیونکہ ان کے تین سو ساٹھ بت تھے رسول اکرم ۖجو انہیں توحید کی دعوت دیتے تھے، ان کے لیے یہ دعوت بہت تکلیف دہ تھی اور کہتے تھے کس طرح محمد ۖ تین سو ساٹھ خداؤں کی بجائے ایک خدا کی بات کرتے ہیں ۔
دوسرے کو آنحضرتۖ کے مقابلہ کیلئے آمادہ کرتے تھے۔اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اکرم ۖ کو مکہ پر فتح دی اور فرمایا:
ہم نے تیرے لیے مکہ کو فتح کیا ہے تاکہ اہل مکہ آغاز بعثت سے لے کر فتح مکہ تک جس چیز کو تیرا گناہ سمجھتے تھے خدا اس کو چھپا دے'(43)
وضاحت: رسول اللہ ۖ کی طرف سے بت پرستی اور شرک، خرافات کی نفی اور توحید کی دعوت کفار و مشرکین مکہ کے نزدیک گناہ تھی۔ لہٰذا ایسے موارد میں جو ان کی عادات و خرافات کی مخالفت کرتا اور ان کی باطل معاشرتی رسومات پر حملہ کرتا ہے جب تک کہ وہ مغلوب رہتا ہے معاشرہ کے عام افراد کی طرف سے مورد تنقید واقع ہوتا ہے اور اس کے کام کو گناہ شمار کیاجاتاہے اور لوگ اس کی سرزنش کرتے ہیں۔ لیکن جب وہی شخصیت خرافات اوربرائیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے قدرت کو حاصل کر لیتی ہے تو تمام مذمتیں ختم ہو جاتی ہیں بلکہ وہی مذمتیںتحسین و تعریف میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ فتح مکہ کے واقعہ میں بھی ایسا ہی ہوا کہ رسول اکرم ۖ کی قدرت تک رسائی کے بعد کفار و مشرکین عرب کی نظر میں آپ کے جو گناہ و برائیاں تھیں وہ سب ختم ہو گئیںاور تعریف و تمجید میں تبدیل ہو گئیںاور کہتے ‘انت أخ کریم و ابن أخ کریم’ آپ کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔
ب۔آیت دوم کے بارے میں حضرت ابراہیمں سے متعلق حضرت امام رضا ںنے مامون کے جواب میں فرمایا:
‘ حضرت ابراہیم ں کا زہرہ، چاند ، سورج کے بارے میں کہنا(ہذا ربی) انکار و استخبار ہے، نہ اپنے عقیدہ کی خبر دینا یا ایک امر حقیقی واقعی کا اقرار، پس جب انہوں نے ہر ایک کے غروب کا مشاہدہ کیا تو ان تینوں کی عبادت کرنے والوں سے کہا۔ اے میری قوم تم جو اللہ کے ساتھ شریک قرار دیتے ہو میں اس سے بیزار ہوں ‘(44)
وضاحت: واضح ہے کہ کوئی عاقل بھی حضرت ابراہیم ں کی طرف شرک کی نسبت نہیں دے سکتابالخصوص اس آیت مبارکہ کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
قاٰلَ اِنِّیِ جاٰعِلُکَ لِلنَّاسِ ِامَامًا قاٰلَ وَ مِنْ ذُرِیَّتیِ قاٰلَ لاٰ یَناٰلُ عَہْدِ ی الظّٰالِمِینَ (45)
ترجمہ:’خدا کہا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام اور قائد بنا رہا ہوں.
ابراہیم نے عرض کی کہ میری ذریت میں سے بھی کسی کو یہ امامت ملے گی؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدئہ امامت ظالمین کو نہیں ملے گا ‘۔
حضرت ابراہیم ں کے سوال کہ آیا منصب امامت میری ذریت کو بھی دیا جائے گا؟ کے جواب میں فرمایا میرا عہدہ ظالموں کو نہیں مل سکتا۔ اور واضح ہے کہ یہ ظلم حال نبوت میں نہیں بلکہ مقصود قبل از نبوت ظلم ہے۔ اس بناء پر ممکن نہیں کہ حضرت ابراہیم ں شرک جو سب سے بڑا ظلم ہے میں مبتلا ہوں اور نتیجتاً مذکورہ بالاآیات کا معنی وہی ہے جو حضرت امام رضا صلوات اللہ وسلامہ علیہ نے فرمایا ہے۔
گذشتہ تمام بیانات اور مورد سوال دونوں آیات کی تشریح میں جو کچھ بیان ہوا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کا ایک حصہ تشریحات آئمہ معصو مین ٪سے واضح ہوتا ہے۔ اور ان کی طرف رجوع کے بغیر اپنے شخصی نظریہ یا لغت عربی سے ترجمہ کرنے سے آیت سے مقصود الہٰی واضح نہیں ہوتا بلکہ جو نتیجہ حاصل کیا جائے گا وہ واقعیت وحقیقت سے کوسوں دوُر ہو گا۔ ہاں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن فرماتا ہے:
بَلْ ہُوَ آیاٰت بَیِِّنَات فیِ صُدُورِ الَّذِینَ اُوتُوا الْعِلْمَ ۔
ترجمہ:’ درحقیقت یہ قرآن چند کھلی ہوئی آیتوں کا نام ہے جو ان کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے’۔
جیسا کہ بیان ہوا ہے قرآن کی بہت سی آیات کی خود قرآن اورمعتبر روایات کے مطابق آئمہ معصومین ٪ جو خطاء و اشتباہ سے پاک ہیں کے ذریعے تفسیر کرنا ضروری ہے۔جیسے حضورۖ کی یہ
مشہور و معتبر حدیث:
‘انی تارک فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا، کتاب اللّٰہ و عترتی أھل بیتی و انھما لن یفترقا حتی یردا علیَّ الحوض فانظروا کیف تخلفونی فیھما’
ترجمہ: ‘میں تمہارے درمیان دو گراں قدرچیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ جب تک ان دونوں کا دامن تھامے رہو گے گمراہ نہیں ہو گے؛ ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسری میری عترت اورمیرے اہل بیت؛ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچیں گے؛ پس خیال رکھنا کہ میرے بعد تم ان دو کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہو۔’ (46)
اور زیر بحث آیات کے معنی کی وضاحت کے لیے حضرت امام رضا ںکی طرف سے مامون کے سوالوں کے جواب کی طرف رجوع کریں۔جو عیون اخبار الرضا اور مسند الامام الرضا میں ذکر ہیں۔
عصمت و عدالت
بحث عصمت کے آخر میں واضح کیا جاتا ہے کہ امام معصوم سے گناہ کا سرزد ہونا نا ممکن ہے لیکن عادل ممکن ہے گناہ کا مرتکب ہو اور عدالت سے نکل جائے۔
خاتمیت
بحث نبوت میں جن مسائل کی تحقیق ضروری ہے ان میں سے ایک مسئلہ ختم نبوت یعنی آنحضرتۖ پر نبوت کا ختم ہونا ہے۔ اس بارے میں بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ کے بعد کوئی
نبی نہیں آئے گا اور سلسلہ رسالت آنحضرت ۖ پر ختم ہو جاتا ہے۔خاتمیت رسالت حضرت محمد ۖ کے اثبات پر قطع نظر از وسعت احکام اسلام جو خود خاتمیت رسالت کے متناسب ہیں، بنیادی دلیل قرآن و سنت کا اعلان اور مکتب وحی کی تصریح ہے۔
واضح ہے کہ حضرت محمد ۖ کی رسالت کو قبول کرنے کے بعد مکتب وحی سے متعلق تمام خصوصیات کی معرفت اور بطور کلی ہر حقیقت جو مکتب وحی میں ذکر ہے، اسی مکتب وحی کے ذریعے اس کی تبیین و تشریح ضروری ہے ۔ جس طرح مکتب وحی میںجن مختلف مسائل کی وضاحت ہوئی ہے ان اعتقاد رکھنا اور انھیں قبول کرنا ضروری ہے.
مکتب وحی کے تمام مدارک قرآن و سنت پیغمبر اکر م ۖاور آئمہ معصومین ٪سے دو طرح سے خاتمیت رسالت کا استفادہ جا سکتاہے.
١۔ خاتمیت رسالت حضرت ۖکی تصریح
٢۔ وہ مطالب جن کا لازمة خاتمیت رسالت آنحضرت ۖ کو ثابت کرتا ہے.
قرآن نے اعلان کیا ہے.
مَا کَانَ مُحَمَّد أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالکُِمْ وَ لَکِنْ رَسُولَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِِّنَ۔(47)
ترجمہ: ‘ محمدۖ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن و ہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں
اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ خاتَم(ت پر زبر) کے ساتھ اور خاتِم(ت کے زیر) کے ساتھ ایک معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور وہ معنی کسی شئے کی انتہا اور اختتام ہے اور درج بالا آیت میں آنحضرت ۖ کی خاتمیت نبوت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرم ۖ کا حضرت علی ں سے یہ خطاب جو کہ حدیث کی بہت سی کتب میں نقل ہوا ہے:
‘أنت منّی بمنزلة ھرون من موسی الّا انّہ لا نبیّ بعدی'(48)
ترجمہ: ‘(اے علی!) آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو موسی سے ہارون کوتھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔’
اس حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میں کچھ مطالب ذکر ہوئے ہیں جن کا لازمہ آنحضرت کی رسالت کی خاتمیت ہے۔ ان آیات میں سے بعض آیات یہ ہیں:
الف۔ وَ مَا أَرْسَلْنَاکَ اِلاَّ کَافَّةً لِلنَّاسِ۔ (49)
ترجمہ: ‘ اوراے پیغمبر ہم نے آپ کونہیں بھیجا مگر تمام انسانوں کیلئے۔’
واضح ہے کہ جب حضرت محمد ۖ تمام لوگوں اور ہر نسل کے لیے پیغمبر ہیں تو اس کا لاذمہ آپ کی رسالت کی ابدیت آور آپ کا آخری پیغمبر ہونا ہے۔
ب:اِنْ ہُوَ اِلَّا ذکِْر لِلْعَالَمِینَ ۔ (50)
ترجمہ:’یہ صرف عالمین کے لئے ایک نصیحت کا سامان ہے۔’
واضح ہے کہ قرآن کا عالمین اور تمام لوگوں کے لیے ذکر ہونا قرآن کی ہمیشگی اور آنحضرت ۖ کی خاتمیت رسالت کو مستلزم ہے کیونکہ اگر آنحضرت ۖ کے بعد کوئی پیغمبر آئے تو قرآن اسی زمانہ تک ذکر ہو گا نہ تمام عالمین کے لیے۔
قُلْ أَیُّ شَیئٍ أکْبَرُ شَھاٰدَةً قُلْ اللّٰہُ شَہِید بَیْنیِ وَ بَیْنَکُمْ وَ اُوحِیَ اِلَیَّ ہَذٰا الْقُرآنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہِ وَ مَنْ بَلَغَ ۔(5١)
ترجمہ: ‘ آپ کہہ دیجئے کہ گواہی کے لئے سب سے بڑی چیز کیا ہے اور بتادیجئے کہ خدا ہمارے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعہ میں تمہیں اور جہاں تک یہ پیغام پہنچے سب کو ڈراؤں ۔’
اور اسی طرح بعضی روایات بھی مذکورہ مطلب کو ثابت کرتی ہیں مثال کے طور پر:
عن زرارة قال: سألت أبا عبدا اللّٰہ عن الحلال و الحرام، فقال: حلال محمد حلال أبداً الی یوم القیامة و حرامہ حرام أبداً الی یوم القیامة لا یکون غیرہ ولا یجیء غیرہ(5٢)
ترجمہ: ‘زرارہ کا کہنا ہے کہ : میں نے اباصادق ـ سے حلال و حرام کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: جس چیز کو محمد ۖ نے حلال قرار دیاہے وہ ہمیشہ کیلئے قیامت کے دن تک حلال ہے اور جس چیز کو آپ ۖنے حرام قرار دیا ہے وہ ہمیشہ کیلئے قیامت تک حرام ہے؛ نہ اس کے علاوہ کچھ ہو سکتا ہے اور نہ کوئی اور پیغمبر اکر م ۖ کے علاوہ کچھ (حرام و حلال)لے کے آ سکتا ہے۔’
اس حدیث شریف میں دین مقدس اسلام کے حلال و حرام کو روز قیامت تک قرار دیا گیا ہے اور واضح ہے کہ یہ ہمیشگی آنحضرت ۖ کی رسالت کی أبدیت کے ہمراہ ہے وگرنہ حلال و حرام پیغمبر ۖ تا قیامت نہیں ہو سکتا۔ واضح ہے کہ مدارک و دلائل سے قطعی طور پر آنحضرت ۖ کی رسالت تمام جن و انس اور تمام زمانوں کے لیے ثابت ہوتی ہے۔ اس بناء پر مسألہ خاتمیت حضرت محمد ۖ تمام مسلمانوں کے نزدیک قطعی اور ضروریات اسلام میں سے ہے۔
وحی
وحی لغت میں مخفی و پوشیدہ ادراک کو کہتے ہیں اور بحث نبوت میں اس ے مراد پیغمبر ۖ کا خدا کے ساتھ رابطہ کاذریعہ ہے۔ یہاں پر جو مختصر طور پر بیان کیا جا سکتا ہے، یہ ہے کہ انسان کا خداوند متعال سے ارتباط قرآن کے مطابق تین طرح سے ہے۔
١۔ خدا وند متعال سے بلا واسطہ کلام ، مکالمہ
٢۔ اللہ تعالیٰ کا کلام کو کسی موجود میں ایجاد کرنا اور انسان کا اس کلام کو سننا
٣۔ انسان کے پاس فرشتے کا آنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام لانااللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ ماٰ کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیاً اَوْ مِنْ وَرٰائِ حِجاٰبٍ أَ وْ یُرْسِلُ رَسُولاً فَیُوحِیَ بِاِِذْنِہِ ماٰ یَشاٰ ئُ اِنَّہُ عَلِیّ حَکِیم ۔ (53)
ترجمہ:’ اورکسی انسان کے لئے یہ بات نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یہ کہ وحی کردے یا پس پردہ سے بات کر لے یا کوئی نمائندہ (فرشتہ) بھیج دے اور پھر وہ اس کی اجازت سے جو وہ چاہتا ہے وہ پیغام پہنچا دے کہ وہ یقینا بلند و بالا اور صاحبِ حکمت ہے ۔’
اگر صرف کلمہ وحی استعمال ہو تو معنی عام رکھتا ہے یعنی بیان شدہ تینوں صورتوں کو شامل ہے۔ اور اگر بیان شدہ تینوں صورتیں ایک دوسرے کے ساتھ ہوں تو وحی سے مقصود بلاواسطہ مکالمہ ہے جو خداوند متعال کی طرف سے قلب مقدس پیغمبر اکرم ۖ پر تمام مطالب کا القاء ہے۔
جیسا کہ ہم درج بالا آیت میں دیکھتے ہیں کہ وحی ‘من وراء حجاب’ اور ‘یرسل رسولاً’ کے مقابل آیا ہے۔ انبیاء کے لیے خداوند متعال سے ارتباط تینوں صورتوں میں انجام پایا ہے اور واضح ہے کہ اس رابطہ کی کیفیت مخفی ہے اور اس کی حقیقت مخفی امور میں سے ہے۔
اولواالعزم انبیائ
بہت سی روایات کے مطابق انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ (54)جن میں سے بعض کا نام قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔ موقعیت انبیاء کے مقامات کے متعلق ایک مطلب پر توجہ ضروری ہے کہ انبیاء کے درمیان اولو العزم انبیاء ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ جو مدارک ومآخذحدیثی کے مطابق پانچ ہیں۔ حضرت نوح ں، حضرت ابراہیمں، حضرت موسیٰں، حضرت عیسیٰں اور حضرت محمد ۖ۔
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوُا العَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ۔(55)
ترجمہ: ‘ائے پیغمبر! آپ بھی اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر کریں’
ان انبیاء کے اولواالعزم ہونے کی دو وجوہات نقل ہوئی ہیں۔
١۔ اولواالعزم انبیاء اپنے زمانہ کے تمام افراد کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور مستقل شریعت رکھتے تھے۔
٢۔ سابقہ اولواالعزم پیغمبر کی بعثت سے لے کر دوسرے اولواالعزم پیغمبر کی بعثت تک تمام لوگوں کے لیے پہلے نبی کی شریعت کی پیروی ضروری ہوتی تھی۔
_________________—————————————–
حوالاجات
(١)۔تجرید الاعتقاد، القمصد الرابع فی النبوّة، ص ٢١١
(2)الاسرائ/٨٨
(3)۔بقرہ ٢٣
(4)۔فصلت /١٣
(5)۔مجمع البحرین،سورہ مدثر کی آیات نمبر١١سے٢٤ کے ذیل میں.
(6) حشر / ٢٢ و ٢٣ و ٢٤
(7) نحل/ ٩٠
(8)۔نسائ/ ٥٨
(9)۔نساء / ٣٦
(10)۔نساء / ١٣٥
(1١)۔بقرہ / ١٩٤
(1٢)۔ زمر /١٠
(١3)۔فرقان /٦٣، ٧٦
(١4)۔ حجر / ٤ ٩ ،٩٦
(١5)۔ روم / ١ ،٣
(16)۔مسد / ١ ،٤
(١7) ۔حجر(١٩)
(18)۔حجر (٢٢)
(19) رعد (٣)
(20)۔ یس (٣٦)
(21)۔ طہ (٥٣)
(22)۔ الرحمٰن (١٧)
(٢3)۔ معارج (٤٠)
(24)۔بحار الانوار، کتاب الروضة، باب جوامع وصایا رسول اللہ ۖ ح ٤٦، ١٣٧٧٧و ربحار الانوار، کتاب القرآن، باب فصل القرآن و اعجازہ، ح ١٦، ٩٢ ١٧۔
(٢5)۔نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٥ و بحار الانوار، کتاب القرآن، باب فضل القرآن و اعجازہ، ح ٢٤، ٢٤٩٢ و بحار الانوار، کتاب العلم، باب البدع و الرأی و المقائیس، ح ٧٦، ٣١٣٢
(26)تجرید الاعتقاد،المقصد الرابع فی النبوة،صفات النبی،ص٢١٣
(27)نسائ٦٤
اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اذن خدا سے اسکی اطاعت کی جائے.
(٢8)۔الأحزاب (٢١)
(29)۔الاحزاب (٣٣)
(30)واضح ہے کہ جن سے کھلم کھلا عظیم گناہ سرزد ہوئے ہوں جیسے یہ کہ خلیفة رسولۖ سے جنگ کی ہووہ اگر لغوی لحاظ سے اہل بیست کے مفہوم میں داخل ہوں بھی تو پھر بھی قطعی قرائن کی وجہ سے اس آیت کے مصدق نہیں ہیں اس لیے کہ اس سے بڑھ کر اور کونسا رجس ہوسکتا ہے.(٢)۔بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد ۖ،الاحادیث فی الجزء التاسع، باب ١٤، ما جعل اللہ فی الانبیأ و الاوصیأ و المؤمنین، ص ٤٤٧، حدیث ٤
(3١)۔(بحار الانوار، کتاب القرآن، باب ١٢٨، ما ورد فی أصناف آیات القرآن ٩٣ ٦٤ و بحار الانوار، کتاب الامامة، باب ١١، نفی السہو عنھم ٪، بیان ٢٥ ٣٥١
(32)۔ فتح (١ و ٢)
(33)۔ انعام (٧٧ و ٧٨)
(34)۔ الفجر (٢٢)
(35)۔ الحجر (٢٩)
(٣6) الفتح (١٠)
(37)۔ یونس (١٨)
(38)۔ الصافات (١٤٧)
(39)۔ المائدہ / (٣٨)
(40)۔البقرہ /(١٥٨)
(41)۔النساء /(١٠١)
(42)۔ الفتح / ٢
(43)۔مسند الامام الرضا ـ؛ العطاردی، کتاب الاحتجاجات، باب ٣، احتجاجہ مع العلماء فی مجلس المأمون، ح ١٢، ٢ ١٢٥
(44)۔بقرہ ، ١٢٤
(45)۔ العنکبوت ،٤٩
(46)۔(بحارالانوار، کتاب العلم باب ٣٤، البدع و الرأی، ٢/٢٨٥ و بحار الانوار ٥ /٢١؛ صحیح مسلم کتاب فضایل الصحانہ، باب فضائل علی بن ابی طالب ٤ ١٨٧٣ و مستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفة الصحابہ، و من مناقب اھل رسول اللہ ح٤٧١١، ٣٣ ١٦٠)
(47)۔ الاحزاب (٤٠)
(48)۔بحار الانوار، تاریخ امیر المؤمنین، الباب ٥٣، فی اخبارالمنزلة و الاستدلال بھا علی امامتہ ، ح ٢٠، ٢٦١٣٧ ، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب ، ٤ ١٨٧٠)
(49)۔السباء (٢٨)
(50)۔ التکویر (٢٧)
(5١)۔ الانعام (١٩)
(5٢)۔کافی، باب البدع والرأی والمقائیس، ح ١٩، ج ١ /٥٧
(53)۔ الشوریٰ (٥١)
(54)۔بحار الانوار،کتاب الروضة،باب٤،ما اوصی بہ رسول اللہ ۖالی ابی ذر ، حدیث١،٧٧/٧١
(55)۔ الأحقاف ٣٥