امامت
قابل توجہ بات یہ ھے کہ شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانشینی کا مسئلہ نھیں ھے؛ بلکہ دونوں کے نقطہ نظر سے “امام” کے معنی و مفھوم میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ھے جس کی بنا پر دونوں مذہب ایک دوسرے سے جدا ھوجاتے ھیں۔
ہم موضوع کی وضاحت کے لئے “امام اور امامت” کے معنی کی تحقیق کرتے ھیں تاکہ دونوں کے نظریات واضح ھوجائیں۔
لغوی اعتبار سے “امامت” کے معنی پیشوائی اور رہبری کے ھیں اور ایک معین راہ میں کسی گروہ کی سرپرستی کرنے والے ذمہ دار کو “امام” کہا جاتا ھے۔ دینی اصطلاح میں امامت کے مختلف معنی بیان کئے گئے ھیں۔
اہل سنت کے نظریہ کے مطابق “امامت” دنیوی حکمرانی کا نام ھے (نہ کہ الٰھی منصب کا) جس کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کی سرپرستی کی جاتی ھے ، اور جس طرح ہر معاشرہ کو رہبر اور قائد کی ضرورت ھوتی ھے اسی طرح اسلامی معاشرہ کے لئے بھی ضروری ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اپنے لئے ایک ہادی اور رہبر کا انتخاب کرے، اور چونکہ اس انتخاب کے لئے دین اسلام میں کوئی خاص طریقہ معین نھیں کیا گیا تو پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانشینی کے لئے مختلف طریقوں کو اپنایا جاسکتا ھے جیسے عوام الناس یا بزرگوں کی اکثریت کا نظریہ یا گزشتہ جانشین کی وصیت یا بغاوت اور فوجی طاقت کو اپنایا جاسکتا ھے۔
لیکن چونکہ شیعہ امامت کو نبوت استمرار اور امام کو مخلوق کے درمیان حجت خدا اور فیض کا واسطہ مانتے ھیں لہٰذا شیعہ اس بات پر عقیدہ رکھتے ھیں کہ “امام” کو صرف خدا معین فرماتا ھے جس کو پیغمبر یا وحی کا پیغام لانے والے کے ذریعہ پہچنواتا ھے۔ اور یہ نظریہ امامت کی عظمت اور بلند مقام کی وجہ سے شیعہ طرز تفکر میں ھے کہ امام کو نہ صرف اسلامی معاشرہ کا سرپرست اور مدیر مانتے ھیں بلکہ احکام الٰھی کا بیان کرنے والا، مفسر قرآن اور راہ سعادت کی ہدایت کرنے والا مانتے ھیں بلکہ شیعہ ثقافت میں امام عوام کے دینی اور دنیاوی مسائل کو حل کرنے والے کی ذات کا نام ھے، نہ اس طرح کہ جس طرح اہل سنت معتقد ھیں کہ خلیفہ کی ذمہ داری صرف دنیاوی معاملات میں حکومت کرنا ھے!۔
امام کی ضرورت
مذکورہ نظریات واضح ھونے کے بعد اس سوال کا جواب دینا مناسب ھے کہ قرآن کریم اور سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے باوجود امام اور دینی رہبر کی کیا ضرورت ھے ؟ (جیسا کہ شیعہ حضرات کا عقیدہ ھے)
امام کی ضرورت کے لئے بہت سے دلائل بیان ھوئے ھیں لیکن ہم ان میں سے ایک کو اپنے سادہ بیان میں پیش کرتے ھیں:
جس دلیل کے تحت انبیا علیہم السلام کی ضرورت ھے، وھی دلیل “امام” کی ضرورت کو بھی ثابت کرتی ھے، کیونکہ ایک طرف سے اسلام آخری دین اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کی طرف سے آخری پیغمبر ھیں، لہٰذا اسلام قیامت تک انسانی ضرورتوں کا جواب رکھتا ھو۔ دوسری طرف قرآن کریم میں اصول، احکام اور الٰھی تعلیمات عام اور کلّی صورت میں ھیں جن کی وضاحت اور تفسیر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذمہ ھے([1])لیکن یہ بات روشن ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلمانوں کے ہادی اور رہبر کے عنوان سے زمانہ کی ضرورت کے مطابق اور اپنے زمانہ کے اسلامی معاشرہ کی ظرفیت کے لحاظ سے آیات الٰھی کو بیان فرمایا ، اور اپنے بعد کے لئے بلافصل ایک ایسا لائق جانشین چھوڑیں جو خداوندعالم کے لامحدود علم کے دریا سے متصل ھو تاکہ جن چیزوں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان نھیں فرمایا، ان کو بیان کرے اورہر زمانہ میں اسلامی معاشرہ کا جواب پیش کرسکے
اسی طرح ائمہ علیہم السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چھوڑی ھوئی میراث کے محافظ ھیں اور قرآن کریم کے حقیقی مفسر اور اس کے صحیح معنی کرنے والے ھیں تاکہ دینِ خدا خود غرض دشمنوں کے ذریعہ تحریف کا شکار نہ ھوجائے ، نیز امامت کا یہ پاک و پاکیزہ سلسلہ قیامت تک باقی رھے۔
اس کے علاوہ “امام” انسانِ کامل کے عنوان سے انسان کے تمام پہلوؤں میں نمونہ عمل ھے ، کیونکہ انسانیت کو ایسے نمونہ کی سخت ضرورت ھے جس کی مدد اور ہدایت کے ذریعہ انسانی ظرفیت کے لحاظ سے تربیت پاسکے، نیز ان آسمانی مربی کے زیر سایہ انحراف اور اپنے سرکش نفس کے جال اور بیرونی شیاطین سے محفوظ رہ سکے۔
گزشتہ مطالب سے یہ بات روشن ھوجاتی ھے کہ عوام الناس کے لئے امام کی سخت ضرورت ھے اور امام کے فرائض اور ذمہ داریوں میں بعض اس طرح ھیں:
o رہبری اور سماجی مسائل کا ادارہ کرنا (حکومت کی تشکیل)۔
o دین پیغمبر کو تحریف سے بچانا اور قرآن کے صحیح معنی بیان کرنا۔
o لوگوں کے دلوں کا تزکیہ اور ان کی ہدایت کرنا۔([2])
امام کے خصوصیات
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین ، دین کو حیات بخشنے کا ضامن اور انسانی معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ھے، امام وہ ممتاز شخصیت ھے جو پیشوائی اور رہبری کے عظیم الشان مقام کی بنا پر کچھ خصوصیات رکھتا ھے جن میں سے چند اہم یہ ھیں:
# امام، صاحب تقویٰ و پرھیزگاری اور صاحب عصمت ھوتا ھے، جس کی بنا پر اس سے ایک معمولی سا گناہ بھی نھیں ھوسکتا۔
# امام کے علم کا سر چشمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا علم ھوتا ھے، اور علمِ الٰھی سے متصل ھوتا ھے۔ لہٰذا مادّی اور معنوی، دینی اور دنیاوی تمام مسائل کا ذمہ دار ھوتا ھے۔
# تمامفضائل سے آراستہ اور اخلاقی بلند درجات پر فائز ھوتا ھے۔
# دینی بنیاد پر انسانی معاشرہ کو صحیح طریقہ پر چلانے کی صلاحیت رکھتا ھے۔
ظاہر ھے کہ مذکورہ صفات کے پیش امام کا انتخاب عوام الناس کے بس سے باہر ھے، صرف خداوندعالم ھی اپنے لامحدود علم کی بنیاد پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین کا انتخاب کرسکتا ھے۔ لہٰذا امام کی اہم خصوصیات میں سے سب سے بڑی خصوصیت “خداوندعالم کی طرف سے منصوب ھونا”ھے۔
قارئین کرام! ان خصوصیات کی اہمیت کے پیش نظر ان میں سے ہر ایک کے بارے میں کچھ وضاحت کرتے ھیں:
امام کا علمِ :
امام ؛( جس پر لوگوں کی ہدایت اور رہبری کی ذمہ داری ھوتا ھے)کے لئے ضروری ھے کہ دین کے تمام پہلوؤں کو پہچانتا ھو، اور اس کے قوانین سے مکمل طور پر آگاھی رکھتا ھو، نیز قرآن کریم کی تفسیر کو جانتے ھوئے سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بھی مکمل احاطہ رکھتا ھو تاکہ الٰھی معارف اور دینی تعلیمات کو واضح طور پر بیان کرے اور عوام کا مختلف موضوعات میں جواب دے، اور ان کی بہترین طریقہ سے رہنمائی کرے۔ ظاہر ھے کہ ایسی ھی علمی شخصیت پر لوگوں کا ا عتماد ھوسکتا ھے، اور ایسی علمی پشت پناھی صرف خداوندعالم کے لامحدود علم سے متصل ھونے کی صورت میں ھی ممکن ھے، اسی وجہ سے شیعہ اس بات پر عقیدہ رکھتے ھیں کہ ائمہ علیہم السلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین کا علم خدا کے لامحدود علم سے اخذ ھوا ھے۔
حضرت امام علی علیہ السلام امام برحق کی نشانیوں کے بارے میں فرماتے ھیں:
“امام؛ حلال خدا ،حرام خدا اور مختلف احکام نیز خدا کے امر و نھی اور لوگوں کی ضرورت کو سب سے زیادہ جاننے والا ھوتا ھے”۔([3])
امام کی عصمت:
امام کے اہم صفات اور امامت کے بنیادی شرائط میں سے ایک شرط “عصمت” ھے، اور وہ ایک ایسا ملکہ ھے جو حقائق کے علم اور مضبوط ارادہ سے وجود میں آتی ھے، اور چونکہ امام میں یہ دو چیزیں پائی جاتی ھیں تو وہ ہر گناہ اور خطا سے محفوظ رہتا ھے۔ امام بھی دینی معارف اور تعلیمات کی پہچان اور ان کے بیان کرنے نیز ان پر عمل کرنے اور اسلامی معاشرہ میں اچھائیوں اور برائیوں کی تشخیص اور پہچان کی بنا پر خطا و لغزش سے محفوظ رہتا ھے۔
امام کی عصمت کے لئے قرآن و سنت اور عقل سے متعدد دلائل پیش کئے گئے ھیں، ان میں سے کچھ اہم دلائل اس طرح ھیں:
الف: دین اور دینداری کی حفاظت امام کی عصمت پر موقوفھے۔ کیونکہ امام پر دین کو تحریف سے محفوظ رکھنے اور دین کی ہدایت کرنے کی ذمہ داری ھوتی ھے ،اور امام کا کلام ان کی رفتاراور ان کا کردار نیز دوسرے کے عمل کی تائید یا تائید نہ کرنا معاشرہ کے لئے موثر ھوتے ھیں۔ لہٰذا امام دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہر لغزش و خطا سے محفوظ ھونا چاہئے تاکہ اپنے ماننے والوں کی صحیح طریقہ سے ہدایت کرسکے۔
ب۔ معاشرہ کو امام کی ضرورت کی ایک دلیل یہ ھے کہ عوام دینی شناخت اور دینی احکام اور شرعی قوانین کے نافذ کرنے میں خطا و غلطی سے محفوظ نھیں ھیں، اور اگر ان کا رہبر اور ہادی بھی اسی طرح ھو، تو پھر امام پر کس طرح سے مکمل اعتماد کیا جاسکتا ھے؟! دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ اگر امام معصوم نہ ھو تو عوام اس کی پیروی اور اس کے حکم پر عمل کرنے میں شک و تردید میں مبتلا ھوجائےں گے۔([4])
امام کی عصمت پر قرآن کریم کی آیات بھی دلالت کرتی ھیں جن میں سورہ بقرہ کی ۱۲۴ویں آیت ھے، اس آیہٴ شریفہ میں بیان ھوا ھے کہ خداوندعالم نے جناب ابراھیم علیہ السلام کو مقام نبوت عطا کرنے کے بعد امامت کے بلند درجہ پر فائز فرمایا ھے، اس موقع پر حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں درخواست کی کہ یہ مقام امامت میری نسل میں بھی قرار دے، تو خداوندعالم نے فرمایا:
“یہ میرا عہدہ (امامت) ظالموں اور ستمگروں تک نھیں پہنچ سکتا”، یعنی منصب امامت حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ذریت میں ان حضرات تک پہنچے گا جو ظالم نہ ھوں گے۔
حالانکہ قرآن کریم نے خداوندعالم کے ساتھ شرک کو عظیم ظلم قرار دیا ھے، اور حکم خدا سے تجاوز کو اپنے نفس پر ظلم شمار کیا ھے (جو کہ گناہ ھے) ، یعنی اور جو شخص اپنی زندگی کے کسی بھی حصہ میں گناہ کا مرتکب ھوا ھے تو وہ ظالم ھے اور وہ مقام امامت کے لئے شائستہ نھیں ھوسکتا۔
دوسرے الفاظ میں یوں کھیں کہ اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ جناب ابراھیم علیہ السلام نے “امامت” کو اپنی ذریت اور نسل میں سے ان لوگوں کے لئے نھیں مانگا تھا جن کی پوری عمر گناھوں میںگزرے یا پہلے نیک ھوں لیکن بعدمیں بدکار ھوجائیں، اس بنا پر صرف دو قسم کے افراد باقی رہتے ھیں:
۱۔ جولوگ شروع میں گناہگار تھے لیکن بعد توبہ کرکے نیک ھوگئے۔
۲۔جن افراد نے اپنی پوری زندگی میں کوئی گناہ نہ کیا ھو۔
خداوندعالم نے اپنے کلام میں پہلی قسم کو الگ کردیا، (یعنی پہلے گروہ کو امامت نھیں ملی گی)، جس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ مقام “امامت” صرف دوسرے گروہ سے مخصوص ھیں، (یعنی جن افراد نے اپنی زندگی میں کوئی گناہ نہ کیا ھو)۔
امام معاشرہ کا مدیر ھوتا ھے
چونکہ انسان ایک سماجی موجود ھے اور معاشرہ اس کے دل وجان اور رفتار و گفتار بہت زیادہ تاثیر کرتا ھے، اس کی صحیح تربیت اور قربِ الٰھی کی طرف بڑھنے کے لئے اجتماعی راستہ ہموار ھونا چاہئے اور یہ چیز الٰھی اور دینی حکومت کے زیر سایہ ھی ممکن ھوسکتی ھے۔ لہٰذا لوگوں کا ہادی اور رہبر معاشرہ کو ادارہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ھو، اور قرآنی تعلیمات اور سنت نبوی کا سہارا لیتے ھوئے بہترین طریقہ سے اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالے۔
اخلاقی کمالات سے آراستہ ھونا
امام چونکہ معاشرہ کا ہادی اور رہبر ھوتا ھے لہٰذا اس کو تمام برائیوں اور اخلاقی پستیوں سے پاک ھونا چاہئے، اور اس کے مقابلہ اخلاقی کمالات کے اعلیٰ درجہ پر فائز ھو، کیونکہ وہ اپنے ماننے والوں کے لئے انسان کامل کا بہترین نمونہ شمار ھوتا ھے۔
حضرت امام رضا علیہ الصلاة و السلام فرماتے ھیں:
“امام کی کچھ نشانیاں ھوتی ھیں: وہ سب سے زیادہ عالم، ۔۔۔ سب سے زیادہ پرھیزگار، سب سے زیادہ حلیم، سب سے زیادہ شجاع، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ عبادت کرنے والا ھوتا ھے”۔([5])
اس کے علاوہ چونکہ امام، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین ھوتا ھے لہٰذا وہ انسانوں کی تعلیم و تربیت کی ہمہ وقت کوشش کرتا ھے، لہٰذا وہ دوسرے سے پہلے اور لوگوں سے زیادہ الٰھی اخلاق سے آراستہ ھونا چاہئے۔
حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
“جو شخص (حکم خدا سے) خود کو لوگوں کا امام قرار دے تو اس کے لئے ضروری ھے کہ دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے خود اپنی تعلیم کے لئے کوشش کرے، اور اپنی رفتار و کردار سے دوسروں کی تربیت کرے، قبل اس کے کہ اپنے کلام سے تربیت کرے”۔([6])
امام کو خدا کی طرف سے منصوب ھونا چاہئے
شیعہ نقطہ نگاہ سے امام اور جانشین پیغمبر صرف حکم خدا اور اسی کے انتخاب سے معین ھوتا ھے، اور اس کے بعدپیغمبر امام کو پہچنواتا ھے۔ لہٰذا کوئی بھی شخص یا کوئی بھی گروہ اس مسئلہ میں دخالت کا حق نھیں رکھتا۔
امام کے خدا کی طرف سے منصوب ھونے کی ضرورت پر متعدد دلیل ھیں، منجملہ:
الف: قرآن کریم کے فرمان کے مطابق خداوندعالم تمام چیزوں پر حاکم مطلق ھے، اور سب پر اس کی اطاعت کرنا ضروری ھے۔ ظاہر ھے کہ یہ حاکمیت خداوندعالم کی طرف سے (صلاحیت اور شائستگی رکھنے والے) کسی بھی شخص کو عطا ھوسکتی ھے۔ لہٰذا جس طرح نبی اور پیغمبر خدا کی طرف سے منتخب ھوتا ھے، اسی طرح امام کو بھی خدا معین کرتا ھے اور لوگوں پر ولایت رکھتا ھے۔
ب۔ اس سے پہلے امام کے لئے کچھ خاص خصوصیات بیان کی گئی ھیں جیسے عصمت، علم وغیرہ، اور یہ بات واضح ھے کہ ان صفات کے حامل شخص کی شناخت اور پہچان صرف خداوندعالم ھی کراسکتا ھے کیونکہ وھی انسان کے ظاہر و باطن سے آگاہ ھے، جیسا کہ خداوندعالم قرآن مجید میں جناب ابراھیم علیہ السلام سے خطاب کرتے ھوئے فرماتا ھے:
“ہم نے تم کو لوگوں کا امام قرار دیا”۔([7])
جامع اور بہترین کلام
گفتگو کے اس آخری حصہ میں مناسب ھے کہ امام ہشتم حضرت امام رضا علیہ السلام کا بہترین کلام بیان کردیا جائے جس میں آپ نے امام کے خصوصیات بیان فرمائیں ھیں:
“(جنھوں نے امامت کے مسئلہ میں اختلاف کیا اور یہ گمان کر بیٹھے کہ امامت ایک انتخابی مسئلہ ھے) ان لوگوں نے جہالت کا ثبوت دیا۔۔۔ کیا عوام الناس امت کے درمیان امامت کے مقام و منزلت کو جانتے ھیں تاکہ وہ مل بیٹھ کر امام کا انتخاب کرلیں؟!
بے شک امامت کی قدر ومنزلت اتنی بلند وبالا، اس کی شان اتنی عظیم الشان، اس کا مقام اتنا عالی، اس کا رتبہ اتنا بلند و رفیع اور اس کی گہرائی اتنی زیادہ ھے کہ لوگوں کی عقل کی رسائی اس تک نھیں یا اپنی رائے کے ذریعہ اس تک نھیں پہنچ سکتے۔۔۔۔
بے شک امامت وہ مقام ھے کہ خداوندعالم نے جناب ابراھیم علیہ السلام کو مقام نبوت و خلت عطا کرنے کے بعد تیسرے مرتبہ میں مقام امامت عطا کی ھے۔۔۔ امامت، خلافت خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، مقام امیر المومنین علیہ السلام اور حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السلام کی میراث ھے۔ واقعاً امامت دین کی باگ ڈور، نظام مسلمین کی بنیاد اور مومنین کی عزت اور دنیا کی خیر و بھلائی کا سبب ھے۔۔۔ نماز، روزہ، حج، جہاد کے کامل ھونے کا سبب ھے، نیز امام کے ذریعہ (اس کی ولایت کے قبول کرنے کی صورت میں) سرحدوں کی حفاظت ھے۔
امام، حلالِ خدا کو حلال اور حرام کو حرام کرتا ھے (اور خداوندعالم کے حقیقی حکم کے مطابق حکم کرتا ھے) ، حدود الٰھی قائم کرتا ھے، خدا کے دین کی حمایت کرتا ھے، اور حکمت و موعظہ حسنہ نیز بہترین دلیل کے ذریعہ خدا کی طرف دعوت دیتا ھے۔
امام آفتاب کی طرح طلوع ھوتا ھے جس کا نور پوری دنیا کو منور کردیتا ھے، اور وہ خود افق میں اس طرح سے ھے کہ ہاتھ اور آنکھوں کی رسائی نھیں ھوسکتی۔ امام چمکتا ھوا چاند، روشن چراغ، نوردرخشاں اور بھر پور اندھیروں نیز شہروں و جنگلوں اور دریاؤں کے راستہ میں راہنمائی کرنے والا ستارہ ھے (اور فتنہ و فساد) اور جہالت سے نجات دینے والا ھے۔۔۔
امام، مونس ساتھی، مہربان باپ، حقیقی بھائی، اپنے چھوٹے بچوں کی نسبت نیک و مہربان ماں اور بڑی بڑی مصیبتوں میں لوگوں کے لئے پناہ گاہ ھے۔ امام ، گناھوں اور برائیوں سے پاک کرنے والا ھے، وہ مخصوص بردباری اور حلم کی نشانی رکھتا ھے۔۔۔، امام، اپنے زمانہ کا واحد شخص ھوتا ھے اور ایسا شخص ھوتا ھے جس (کی عظمت ) سے کوئی نزدیک نھیں ھوسکتا، اور کوئی بھی دانشور اس کی برابری نھیں کرسکتا، نہ کوئی اس کی جگہ لے سکتا ھے اور نہ ھی اس کا مثل و نظیر مل سکتا ھے۔۔۔
لہٰذا امام کی شناخت اور پہچان کون کرسکتا ھے، یا کون امام کا انتخاب کرسکتا ھے، ھیہات ھیہات! یہاں پر عقل و خرد حیران رہ ھوجاتی ھے ۔ (یہاں پر) آنکھیں بے نور، بڑے چھوٹے، حکماء انگشت بدندان، اور خطباء عاجز ھوجاتے ھیں اور ان میں امام کے با فضیلت کاموں کی توصیف کرنے کی طاقت نھیں ھوتی، اور یہ سبھی اپنی عجز و ناتوانی کا اقرار کرتے ھیں!!۔۔۔۔([8])
________________________________________
[1] قرآن کریم میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خطاب ہوتا ھے: “ہم نے ذکر (قرآن کریم) تم پر نازل کیا تاکہ اس میں بیان ہونے والی چیزوں کو لوگوں کے سامنے بیان کریں”، (سورہ نحل آیت ۴۴)
[2] یہ بات عرض کردینا مناسب ھے کہ امام معصوم کے ذریعہ “حکومت تشکیل دینا” راستہ ہموار ہونے کی صورت میں ہی ممکن ھے،لیکن دوسرے تمام فرائض یہاں تک کہ غیبت کے زمانہ میں بھی انجام دینا ضروری ھے، اگرچہ امام علیہ السلام کے ظہور اور لوگوں کے درمیان ظاہر بظاہر ہونے کی صورت میں یہ بات سب پر ظاہر ھے۔ اس کے علاوہ دوسرا نکتہ یہ ھے کہ اس حصہ میں جو کچھ بیان ہوا ھے اس میں لوگوں کی معنوی زندگی میں امام کی ضرورت ھے، لیکن تمام دنیا کو “وجود امام” کی ضرورت ھے اس مطلب کو “امام غائب کے فوائد” کی بحث میں بیان کیا جائے گا۔
[3]میزان الحکمة، ج۱، ح ۸۶۱۔
[4] اس کے علاوہ اگر امام خطا و غلطی سے محفوظ نہ ہو تو پھر کسی دوسرے امام کی تلاش کی جائے تاکہ لوگوں کی یہ ضرورت پوری ہوسکے، اور اگر وہ بھی خطاؤں سے محفوظ نہ ہو تو پھر کسی دوسرے امام کو تلاش کیا جائے اور یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا چلا جائے گا اور ایسا سلسلہ فلسفی لحاظ سے باطل اور بے بنیاد ھے جس کو فلسفہ کی اصطلاح میں “تسلسل” کہا جاتا ھے۔
[5] معانی الاخبار، ج۴، ص۱۰۲۔
[6] میزان الحکمة، باب ۱۴۷، ح۸۵۔
[7] سورہ بقرہ، آیت ۱۲۴۔[8] اصولکافی، ج۱، باب ۱۵، ح۱، ص ۲۵۵