غدیر میں شیاطین و منافقین
غدیر میں ابلیس اور اس کے گروہ پر مصائب کے پھا ڑ ٹوٹ گئے ،اور منافقین بھی نا امید ی و افسوس میں بسر کر رھے تھے ،ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا تھا ۔
شیطان اور اس کے تابعین امت اور مسلمانوں کو گمراہ کر نے اور جہنم رسید کر نے کی نئی فکر کر نے میں لگے تھے ،اور بظاھر مسلمان نما کفار دوران جا ھلیت اور کفر وشرک و الحاد کو دوبارہ زندہ کر نے کی فکر میں لگے هو ئے تھے ۔
تاریخ کے اس حصہ میں یہ بات ھلا دینے والی ھے کہ غدیر میں شیاطین اپنے دل منافقین سے لگا ئے هو ئے تھے اور وہ اپنی انکھوں سے ٹکٹکی باندھے هو ئے ان کے ھاتھوں اور ان کے پروگراموںکو دیکھ رھے تھے ،اور خود کو ھر طرح سے بے سروپا سمجھ رھے تھے یہ مشرک و کافر منافقین تھے جنھوں نے شیطان اور اس کے تابعین کو سرخرو کر دیا تھا ،اور انھوں نے اپنے فرزندان خَلَف کو جواُن سے کسی طرح کم نھیں تھے وحی نبوت سے مقابلہ کا درس دیااور ایسا نقشہ کھینچا کہ نہ صرف وہ اپنے برے مقاصد میں کامیاب هو ئے بلکہ قیامت تک اکثر مسلمانوں کو صراط مستقیم اور پیغمبر(ص) کے برحق بارہ جا نشینوں سے منحرف کردیا اور اسلامی خلافت کودنیا کے سامنے مخدوش بھی کردیا ۔
اس حصہ میں پھلے ھم غدیر کے دن ابلیس اور شیطانوں کے درمیان رو نما هو نے والے واقعات بیان کریں گے اس کے بعد منافقین کے اقدامات اور ردعمل کو بیان کریں گے۔
۱ غدیر میں ابلیس اورشیاطین
ابلیس اور اس کے شاگرد” انسان کے سخت ترین دشمن “غدیر کواپنے لئے سب سے خطرناک موقع سمجھ رھے تھے ۔ان کو یہ خیال تھا کہ غدیر کے بعد مسلمانوں کے گمراہ هو نے کا راستہ بند هو جا ئے گا اسی وجہ سے وہ سب اس دن بڑے غمگین و رنجیدہ تھے اور وہ بلندآواز سے فریاد کر رھے تھی ۔
لیکن انسانی شیطانوں نے ابلیس کی آواز پر لبیک کھی اور وھیں غدیر میںھی اس سے وعد ے کئے، منصوبے بنائے ،جس سے اس کے تمام رنج و غم دور هو گئے اور وہ خوش و خرم و مسرور هو گیا ۔
جب اس نے سقیفہ میں ان تمام پر وگراموں کو عملی جامہ پہنتے دیکھا تو وہ پھولا نھیں سما رھا تھا ،اس دن ابلیس(سب سے بڑا شیطان ) نے ان کی تاج پوشی کی اور ا پنے گروہ کو رسمی طور پر خوش وخرم هو نے کا حکم دیا ۔
ھم ذیل میںاس مدعا سے متعلق چند احا دیث نقل کر رھے ھیں : غدیر میں شیطان کی فریاد
امام محمد با قر علیہ السلام نے فرما یا ھے :ابلیس کی چار مر تبہ فریادبلند هوئی :جس دن وہ خدا وند عالم کی لعنت کا مستحق قرار پایا ،جس دن آسمان سے زمین پر بھیجا گیا ،جس دن پیغمبر اکرم(ص) مبعوث هو ئے اور غدیر خم کے دن (جب امیر المو منین علیہ السلام جانشین رسول بنے )۔[1] منافقین کے شیطان کے ساتھ وعدے
امام محمد باقر علیہ السلام کافرمان ھے :جب پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا ھاتھ پکڑکر فرمایا <مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌ مَوْلَاہُ>ابلیس اور اس کے گروہ کے بڑے بڑے شیاطین مو جود تھے ۔
ان شیاطین نے اس سے کھا :تو نے ھم سے یہ نھیں کھا تھا !بلکہ تم نے تو یہ خبر دی تھی کہ جب پیغمبر دنیا سے رحلت کریں گے تو ان کے اصحاب متفرق هو جا ئیں گے !لیکن آنحضرت کے بیان سے تو یہ واضح هو رھا ھے کہ انھوں نے ایک محکم پروگرام کی پیش گوئی کی ھے کہ جب ان کے جانشینوں میں سے ایک کا انتقال هو جا ئیگا تو دوسرا اس کا قائم مقام هو گا !
ابلیس نے جواب دیا :جاوٴ ، ان کے اصحاب نے مجھ سے یہ وعدہ کیا ھے کہ ان کی کسی بات کا اقرار نہ کریں ،اور وہ اپنے اس وعدے سے ھر گز سر پیچی نھیں کر یں گے ![2] مسلمانوں کے مرتد اور کافر هو جانے سے شیطان خوش
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاھے :جب پیغمبر اکرم(ص) نے امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام کا ھاتھ اپنے ھاتھ میں لیا تو ابلیس نے ایک چیخ ماری جس سے خشکی اور تری کے تمام شیطانوں نے اس کو اپنے گھیرے میں لے کر کھا :اے ھمارے آقا ،اور اے ھمارے مولا آپ کو کس مشکل نے گھیر لیا؟ ھم نے آج تک تمھاری اس سے زیادہ بھیانک آواز نھیں سنی !
ابلیس نے کھا :
اس پیغمبر اکرم(ص) نے وہ کام انجام دیا ھے کہ اگر نتیجہ بخش ثابت هو گیا تو ھر گزکوئی خدا وند عالم کی معصیت نھیں کرے گا ۔
شیطانو ں نے کھا :اے ھمارے آقا ،اے ھمارے مولا تم نے تو آدم علیہ السلام تک کو گمراہ کردیا!
جب منافقین نے آپس میں باتیں کیںکہ:”پیغمبر اپنی خواھشات نفسانی سے بات کررھے ھیں” اوران دو آدمیوں (ابو بکر اور عمر )میںسے ایک نے دوسرے سے کھا :نھیں دیکھ رھے هو کہ ان کی آنکھیں ان کے سر میں دیوانوں کی طرح گردش کر رھی ھیں “،جب ان دونوں نے یہ باتیں کیں تو ابلیس نے خوشی سے نعرہ لگایا اور اس نے اپنے تمام دوست و احباب کو جمع کر کے کھا :کیا تم جا نتے هو کہ میں نے آدم علیہ السلام کو گمراہ کیا ؟انھوں نے کھا :ھاں ،تو ابلیس نے کھا:آدم (ع) نے اپنا عھد و پیمان توڑالیکن وہ منکر خدا نھیں هو ئے لیکن ان لوگوں نے اپنے عھد و پیمان کو توڑ دیا اور پیغمبر کا انکار کر بیٹھے “!!
جب پیغمبر اکرم (ص)نے انتقال فر مایا اور لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کوچھوڑکر غیر کو اپنا خلیفہ بنا لیاتو ابلیس نے بادشاہت کا تاج سر پر رکھا اور ایک منبر رکھ کر اس پر بیٹھا اپنے تمام شیطانوں کو جمع کر کے کھا:
“خوشی مناوٴ اس لئے کہ جب تک امام قیام نھیں کرےگا اس وقت تک خدا وند عالم کی اطاعت نھیں هو سکتی “[3] شیعو ں کو گنا ہ میں ملوث کر نے کی شیطان کی کو شش
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فر مایا :جب پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم میں خطبہ دیا اور امیر المو منین علیہ السلام کولو گوں کے لئے اپنا خلیفہ و جانشین معین فرمایا تو شیطان نے ایک چیخ ماری جس سے اس کے تمام دوست و احباب اس کے پاس جمع هو کر کہنے لگے اے ھمارے سردار تم نے یہ چیخ کیوں ماری ؟!ابلیس نے کھا :وائے هو تم پر آج کا دن عیسیٰ کے دن کے مانند ھے !
خدا کی قسم ،اس سلسلہ میں لوگوں کو گمراہ کروں گا ۔۔۔
ابلیس نے دوسری مرتبہ چیخ ماری تو اس کے گروہ کے بڑے بڑے لیڈر اس کے پاس جمع هو کرکہنے لگے : اے ھمارے سردار یہ دوسری چیخ کیوں ماری ؟!ابلیس نے کھا :
خدا وند عالم نے میرے قول کے سلسلہ میں آیت نازل فر مائی ھے <وَلَقَدْصَدَّقَ عَلَیْھِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہُ>[4]
“اور ان پر ابلیس نے اپنے گمان کو سچ کر دکھایا”
اس کے بعد ابلیس نے آسمان کی طرف متوجہ هو کر کھا :
خداوندا تیری عزت و جلال کی قسم ھدایت یافتہ گروهوں کو بھی دوسرے گروهوں سے ملا دوں گا !
اس مقام پر پیغمبر “جو ابلیس کے کردار ورفتار سے واقف تھے “نے خداوند عالم کی جانب سے اس آیت کی تلاوت فرمائی:<اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانِّ> [5]
“میرے بندوں پر تیرا کو ئی اختیار نھیں ھے ”
پھر ابلیس نے چیخ ماری اور اس گروہ کے بڑے سردار نے اس کے پاس واپس آکر اس سے سوال کیا یہ تیسری چیخ کیوں ماری؟ابلیس نے کھا :
خدا کی قسم ،میں علی علیہ السلام کے اصحاب پر (تسلط نھیں رکھتا هوں)!لیکن خدوند عالم تیری عزت و جلال کی قسم ،گنا هوں کو ان کے لئے (یعنی علی علیہ السلام کے شیعہ )اچھا بناکر پیش کروں گا ،تاکہ ان کوان کے ارتکاب کرا کے تیری بارگاہ میں مبغوض کروں ۔[6]
غدیر میں شیطان کی پیغمبر اکرم(ص) سے گفتگو
غدیر میں شیطان نے ایک بوڑھے خوبصورت مرد شکل میں پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر هوکر کھا :اے محمد ،کتنے کم افراد ھیں جو آپ کی گفتگو کے مطابق آپ کی واقعی بیعت کر نے والے ھیں !![7] غدیر میں شیطان کا حزن اور سقیفہ میں خو شی
امیر المومنین علی علیہ السلام نے فر مایا :پیغمبر اکرم(ص) نے مجھے خبر دی ھے :
ابلیس اور اس کے گروہ کے بڑے بڑے لیڈر میرے جانشین بننے کے وقت غدیر میں مو جود تھے اس دن ابلیس کے اصحاب نے اس کی طرف منھ کر کے کھا : یہ امت رحمت کے لائق قرار پائی اور گمراھی سے محفوظ هو گئی ،اب ھمارے اور تمھارے لئے ان کو بھکا نے کا کوئی موقع نھیں ھے ،چونکہ انھوں نے پیغمبر اکرم(ص) کے بعد اپنے امام اورپناہ گاہ کی معرفت حا صل کر لی ھے ۔
ابلیس غمگین و رنجیدہ هو کر ان سے جدا هو گیا ۔
امیر المو منین علی علیہ السلام نے مزید فرمایا :پیغمبر اکرم(ص) نے مجھ کو خبر دی ھے:
میری رحلت کے بعد جب لوگ تمھاری بیعت توڑ لیں گے ابلیس اپنے اصحاب کو جمع کر ے گا اور وہ اس کو سجدہ کر تے هو ئے سوال کریں گے :
اے ھما رے سرپرست ،اے ھمارے بڑے سردار ،تونے ھی نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے باھر کیا تھا !
ابلیس کہتا ھے :
کو نسی امت اپنے پیغمبر کے بعد گمراہ نھیں هو ئی ؟!تم یہ گمان کر تے هو کہ میں ان پر کو ئی تسلط نھیں رکھتا هوں ؟!تم نے مجھ کو کیسا پایا کہ میں نے ایسا کام کیا جس سے انھوں نے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کے سلسلہ میں خدا اور پیغمبر کے امر کو ترک کر دیا ؟[8]
۲ غدیر میں منافقین
غدیر میں منافقین کے رفتار و کردار کا تین طرح سے جا ئزہ لیا جا سکتا ھے :
۱۔غدیر کے خلاف ان کے عملی اقدامات اور سازشیں ۔
۲۔غدیر کے سلسلہ میں ان کا حسد،کینہ اور منافقانہ اقوال۔
۳۔غدیر میں ان کے عکس العمل کے واضح نمونے ۔غدیر میں منا فقوں کی سازشیں
غدیر سے مدتوں پھلے منافق پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف اپنی صفوف مستحکم کر رھے تھے اور بعض حساس مو قعوں پرتھوڑا بہت اپنی منافقت کا اظھار بھی کرتے رہتے تھے ۔
حجة الوداع میںجب منافقین آپ (ص) کی رحلت کے نزدیک اوراپنے بعد رسمی طور اپنا جانشین معین فرمانے سے واقف هوئے تو منافقین بنیادی اقدامات کاآغاز کیا اور خود کو پیغمبر اسلام (ص)کی رحلت کے بعدکے دنوں کےلئے آمادہ و تیار کرلیا ،اس مقام پر کفر و نفاق متحد هوگئے ،ان کے جاسوس پیغمبر اسلام(ص) کے ارادوں کے جزئیات کو ان تک پہنچا نے لگے ۔ پھلی سازش[9]
منافقوں کی سازشوں کا نطفہ اس وقت منعقد هوا جب دو آدمیوں نے اس بنیادی کام کے سلسلہ میںآپس میں عھد و پیمان کیاکہ :
“اگر محمد اس دنیا سے کوچ کر گئے یا قتل هو گئے تو ھر گز ان کی خلافت اور جا نشینی ان کے اھل بیت علیھم السلام تک نھیں پہنچنا چا ہئے ”
ان کے اس عھد میں تین آدمی اور شریک هو گئے اور سب سے پھلا معاھدہ کعبہ کے پاس لکھاگیا، دستخط کر نے کے بعد اس کو کعبہ کے اندر زیر خاک چھپا دیا گیا تاکہ اس پیمان کو ھر حال میں عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک سند رھے ۔
ان تین آدمیوں میں سے ایک شخص معاذ بن جبل کا کہنا ھے :
“آپ اس مسئلہ کو قریش کے ذریعہ حل کریں انصار کا ذمہ وار میں هوں ”
انصار کے رئیس کل” سعد بن عبادہ” تھے ،وہ ابو بکر و عمر کے ساتھ ھم عھد بھی نھیں تھے لہٰذامعاذ بن جبل، بشیر بن سعید اور اسید بن حضیرجو آدھے انصار یعنی ان کے دو قبیلے” اوس” اور” خزرج”میں سے ایک کا حاکم تھا، کی تلاش میں نکلے اور ان کو خلافت غصب کر نے کےلئے اپنا ھم عھد بنالیا۔ پیغمبر اسلام(ص) کو قتل کر نے کی سازش[10]
پیغمبر اسلام (ص)کو قتل کر نے کی سازش ایک مرتبہ جنگ تبوک میں اور کئی مرتبہ زھر اور دوسرے حربوں سے کی گئی مگر ھر بار ناکامی هو ئی ۔
لیکن حجة الوداع کے موقع پر انھیں پانچ ھم پیمان منافقوں نے دوسرے نو افراد کے ساتھ مل کرآخری مرتبہ مکہ سے مدینہ واپس آنے کے راستہ میں پیغمبر اسلام (ص)کو قتل کرنے پر وگرام بنایا اور اس پروگرام کی ایک وجہ حضرت علی بن ابی طالب کے اعلان خلافت سے پھلے پیغمبر (ص)کو قتل کرکے آسانی سے اپنے مقاصد تک پہنچنا تھی لیکن محل سازش تک پہنچنے سے پھلے ھی حکم خدا نازل هوگیااور غدیر کے مراسم انجام پاگئے۔اگر چہ وہ اپنے منصوبے سے پیچھے نھیں ہٹے۔
ان کا پروگرام یہ تھاکہ کوہ ھرشیٰ کی چوٹی پر کمین میں بیٹھاجائے چونکہ اکثرلوگ ،پھاڑ کے دامن سے گذرجاتے ھیں اور چوٹی پر نھیں آتے لہٰذاجیسے ھی پیغمبر اکرم (ص)کا اونٹ پھاڑکی چوٹی سے گذر کر اترنے لگے گا تو بڑے بڑے پتھر آپ (ص) کے اونٹ کی طرف پھینک دئے جائےںجو آپ (ع) کے اونٹ کو جاکر لگیںجس سے آپ (ع) کااونٹ یا گر جائے یا اچھل کر پیغمبر اکرم (ص)کو گرادے اور وہ رات کی تاریکی میں آ پ (ع) پر حملہ کردیںاور یقینی طورپر پیغمبر (ص)کا خون هوجائے۔
اور اسکے بعد فرار هوکر دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جائیں تاکہ قاتل کا پتہ نہ چل سکے ۔ پیغمبر اسلام (ص)کے قتل کی سازش ناکام
خداوندعالم نے اپنے پیغمبر (ص)کو اس پرو گرام سے آگاہ کیا اور ان کی حفاظت کاوعدہ دیا۔چودہ افراد پر مشتمل منافقین کا گروہ “رات کی تاریکی میں اپنی وعدہ گاہ کو ہ ھرشی کی چوٹی کا اختتام اور اس کے نشیب کی ابتدا “پر پہنچا اور اپنے اونٹوں کو ایک کنارے پر بٹھادیااور سات سات آدمی پھاڑکے دائیں بائیںچھپ کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے اپنے پاس کے بڑے بڑے برتن ریت اور کنکریوں سے بھر کر رکھے هوئے تھے تاکہ پیغمبر (ص)کے اونٹ کی طرف ان کو پھینک کر اسکو دوڑادیں۔
جیسے ھی پیغمبر اسلام (ص)کی سواری پھاڑکی چوٹی پر پہنچی اور پھاڑسے نیچے اترنا چاہتی تھی منافقوںنے بڑے بڑے پتھر اور ریت اور کنکریوں سے بھرے برتنوں کو ان کی طرف چھوڑ دیا۔قریب تھاکہ اونٹ کو جاکے لگتے یا اونٹ دوڑنے بھاگنے لگتا۔پیغمبر اسلام (ص)نے اونٹ کو رک جانے کا حکم دیا۔یہ واقعہ اس وقت رونما هوا جب حذیفہ اورعمار میں سے ایک آنحضرت کی سواری کی لگام تھامے هوئے تھے اور دوسرا اسکو پیچھے سے ھانک رھا تھا۔
اونٹ کے رک جانے سے پتھرگذرکر پھاڑسے نیچے کی طرف چلے گئے اور آنحضرت (ص) صحیح وسالم بچ گئے۔منافقین کو جو اپنے اس دقیق پروگرام سے مطمئن تھے فوراً تلواریں لے کر کمینگاهوں سے باھر نکل آئے اور آنحضرت(ص) کی طرف حملہ کرنے کےلئے بڑھے۔
لیکن عمار اور حذیفہ نے بھی تلوار یں کھینچ لیں اور جوابی کاروائی شروع هوگئی۔آخر کار وہ بھاگنے پر مجبور هوگئے۔
منافقوں نے پھاڑوں کے پیچھے پناہ لی تاکہ پیغمبر کے تھوڑا آگے بڑھنے کے بعد رات کی تاریکی سے استفادہ کر تے هو ئے قافلہ کے ساتھ ملحق هو جا ئیں ۔
اس لئے کہ آنے والی نسلوں کو یہ معلوم هو جا ئے کہ اس زمانہ میں منافقین کے سردار کون لوگ تھے اور پیغمبر اسلام(ص) کے بعد هو نے والی سازشوں کی تحلیل آسانی سے هو سکے ،آپ (ص) نے اسی رات ان کے چھروں سے نقاب الٹ دی اور اچانک چند لمحوں کےلئے فضا میں نور چمکا جس سے عمار اور حذیفہ نے بھی ان چودہ افراد کے چھروں کو بخوبی پہچان لیاحتی ان کی سواریوں کو بھی دیکھ لیا جن کو انھوں نے ایک طرف بٹھا رکھا تھا اور وہ چودہ آدمی یہ تھے :
ابو بکر ،عمر ،عثمان ،معاویہ ،عمرو عاص ،طلحہ،سعد بن ابی وقاص ،عبد الرحمن بن عوف ،ابو عبیدہ بن جراح ،ابو موسیٰ اشعری ،ابو ھریرہ ،مغیرہ بن شعبہ ،معاذ بن جبل اور سالم مو لیٰ ابی حذیفہ۔
پیغمبر اسلام(ص) کو یہ حکم تھا کہ اس وقت آپ ان سے کو ئی بات نہ کریں اس لئے کہ ان حساس حالات میں فتنہ و فساد پھیلنے اور گزشتہ تمام زحمتوں کے بر باد هو نے کا خطرہ تھا ۔
دوسرے روز جب صبح کی نماز با جماعت قائم هو ئی تو یہ چودہ لوگ سب سے پھلی صف میں تھے!! اور آنحضرت (ص) نے ان کی طرف اشارہ کر تے هو ئے چند باتیں بیان کیں اور فرمایا :
“کچھ لوگوں کو کیا هو گیا ھے کہ انھوں نے کعبہ میں یہ قسم کھا ئی ھے کہ اگر محمد(ص) دنیا سے چلے گئے یا قتل هو گئے تو ھر گز خلافت ان کے اھل بیت علیھم السلام تک نھیں جانے دیں گے ۔مدینہ میں دوسری سازش[11]
وہ منافق جو پھلے شکست کھا چکے تھے انھوں نے ھی مدینہ پہنچتے ھی ایک میٹنگ کی جس میں وہ چو نتیس افراد شریک هو ئے جو پیغمبراکرم (ص) کی رحلت کے بعد اس طرح کے کا موں میں پیش پیش رہتے تھے ۔
اس میٹنگ میں آئندہ کے پروگرام کا منصوبہ بنایا گیااور سب نے اس پر دستخط کئے۔دستخط کرنے والوں میں گذشتہ چودہ افراد کے علاوہ بعض قبیلوں کے سردار تھے کہ جن میں سے ھر ایک کے ساتھ لوگوں کا ایک گروہ تھا۔منجملہ ان میں سے :ابوسفیان، ابوجھل کابیٹا عکرمہ،سعید بن عاص،خالد بن ولید، بشیر بن سعید، سھیل بن عمرو ،ابوا لاعور اسلمی،صھیب بن سنان اور حکیم بن حزام تھے۔
پیمان نامہ کا لکھنے والا سعید بن عاص اورمیٹنگ کی جگہ ابوبکر کا گھر تھا۔دستخط کے بعد پیمان نامہ کو بند کرکے ابو عبیدہ جراح کو بعنوان امانت دےدیا تاکہ اسکو مکہ لے جائے اور کعبہ کے اندر پھلے صحیفہ کے ساتھ دفن کردے تاکہ سند کے طور پر محفوظ رھے۔
اسکے دوسرے دن پیغمبر اسلام (ص)نے نماز صبح کے بعد منافقوں کے اس اقدام کی طرف اشارہ کرتے هوئے فرمایا:
میری امت کے بعض لوگوں نے ایک معاھدہ لکھا ھے جو زمان جاھلیت کے اس معاھدہ سے مشابہ ھے جو کعبہ میں لٹکایا هواتھا لیکن میںاس راز کو فاش نہ کرنے پر مامور هوں”
اسکے بعد ابو عبیدہ جراح کی طرف رخ کرکے فرمایا”اب تم اس امت کے امین بن گئے هو؟” اسامہ کا لشکر[12]
پیغمبر اکرم (ص)نے منافقین کے اقدامات کے ساتھ آخری مقابلہ کرنے اور اپنی وفات کے بعد مدینے کو ان کے وجود سے خالی کرنے کی غرض سے اسامہ بن زید کی حکمرانی میں ایک لشکرتشکیل دیااور منافقین میں سے چار ہزار افراد کو ان کے نام کے ساتھ معین کرکے حکم دیا کہ یہ گروہ حتماًاس لشکر میں حاضر هواور جلدازجلدسرزمین شام میں رومیوں کی طرف حرکت کریں۔اس گروہ میں سے ابوبکراور عمر کے لشکر میں حاضرهونے پر زیادہ زور دے رھے تھے آنحضرت (ص) کا اس میں شامل نہ هونے والوںپرلعنت کرنا اور لشکرکے جلدی حرکت کرنے والوں پر لعنت کرنے پر زیادہ زور دینا قابل دید تھا۔
لیکن آنحضرت کے اس اقدام کی منافقوں نے سخت مخالفت کی اور کسی نہ کسی بھانے سے مدینہ واپس لوٹ آنے اور لشکر کے حرکت کرنے میں اتنی تاخیر کی کہ پیغمبراسلام(ص) دنیا سے رحلت فرماگئے اور انھوں نے اپنے پروگراموںکو آسانی سے عمل میں لاناشروع کردیا۔ غدیر کا نور ولایت کا محافظ
یہ واقعہ غدیر کے زمانے میں منافقین کے اقدامات اور نیز ان کے مقابلے میں ان کی سازشوں کو ناکام کرنے ،تیئیس سالہ زحمات کی حفاظت کرنے، اور مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کی ھدایت کے لئے پیغمبر اکرم (ص)کے اقدامات کا خلاصہ تھا۔
لیکن منافقین نے اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنادیااور پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے بعدمسلمانوں کو پچھلے پاؤں پلٹنے پر مجبورکردیا اور مسلمان بھی پیغمبر (ص)کی زحمات اور واقعہٴ غدیر کو نظر انداز کرکے جاھلیت کی طرف پلٹ گئے۔اور اس کام میں انھوں نے اتنی جلدی کی کہ پیغمبر اکرم (ص) کے غسل ودفن هونے کا بھی انتظار نھیں کیا !!
امام صادق (ع) سے اس آیةشریفہ کے بارے میں سوال هوا “یعرفون نعمةاللهثم ینکرونھا ” تو آپ نے فرمایا:
“غدیر کے دن اسکو پہچانتے ھیں اور سقیفہ کے دن اسکا انکار کرتے ھیں “[13]
طول تاریخ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کے مقابلے میں منافقوں کے اقدامات کو مد نظر رکھ کر خداوند متعال کے اس کلام کی گھرائی کو معلوم کیا جاسکتاھے:
<لَوْاِجْتَمَعَ النَّاسُ کُلُّھُمْ عَلیٰ وِلَایَةِ عَلِیٍّ مَاخَلَقْتُ النَّارَ>
“اگر تمام لوگ ولایت علی پر متفق هو جا تے تو میں آتش جہنم کو پیدا نہ کر تا “[14]غدیر میں منافقین کے اقوال
منافقوں نے غدیر کے دن کینہ اور حسد کی وجہ سے جو الفاظ کھے ان میںسے بعض اس وقت سے مر بوط ھیں جب آنحضرت (ص) خطبہ ارشاد فر ما رھے تھے ،خاص طور سے جس وقت آ پ امیر المومنین (ع) کے ھاتھوں کو بلند کرکے ان کا تعارف کرا رھے تھے ،بعض الفاظ اس پروگرام کے ختم هوجانے کے بعد سے متعلق ھیںجب منافقین آپس میں جمع هوکر ایک دوسرے کو اپنا درد دل سنا رھے تھے خطبہ کے دوران ان کی گفتگوکے چندنمونے[15]
وہ اپنے چچا زاد بھائی کے گرویدہ هو گئے ھیں ۔
وہ اس جوان کے سلسلہ میںدھوکہ کھاگئے ھیں۔
وہ اپنے چچازاد بھائی کے معاملہ کوعجب محکم اور مضبوط کر رھے ھیں ۔
ھم راضی نھیں ھیں ،اور یہ ایک تعصب ھے !
ھم ھر گز ان کی بات ماننے کے لئے تیار نھیں هو ں گے ۔
یہ امر خدا نھیں ھے وہ اپنی طرف سے کہہ رھے ھیں !
ان کی آنکھوں کودیکھو(معاذاللہ)مثل دیوانوں کے گھوم رھی ھیں ۔
اگر اس میں طاقت و قدرت هو تی تو قیصر و کسریٰ کی طرح کام کر تا !خطبے کے بعد کی گفتگو کے چند نمونے[16]
ھمارے سب منصوبے خاک میں مل گئے!
ھم ھر گز محمد(ص) کی بات کی تصدیق نھیں کریں گے اور علی (ع) کی ولایت کا اقرار نھیں کریں گے۔
ھمیں بھی علی کی ولایت میں شریک کرے تاکہ ھمارا بھی کچھ حصہ رھے۔
وہ ابھی علی (ع) کو ھمارے اوپر مسلط کررھے ھیںلیکن خدا کی قسم بعد میں انکو معلوم هوگا(کہ ھم نے کیا منصوبے بنا رکھے ھیں۔)
۳ غدیر میںمنافقین کے عکس العمل کے واضح نمونے
منافقین کی مذکورہ گفتگو کے علاوہ ان کی رفتار وگفتار کے بعض دوسرے نمونہ درج ذیل ھیں
اب کہتاھے:میرے خدا نے ایسا کھا ھے !!
امام صادق (ع) نے فرمایا:پیغمبر اسلام (ص)نے جب امیر المومنین کو غدیر کے دن (عھدہ امامت پر)منصوب کیااور ان کا تعارف کرایا تو ان کے سامنے منافقوں کے یہ سات آدمی بیٹھے هوئے تھے : ابوبکر،عمر، عبدالرحمن بن عوف،سعد بن ابی وقاص، ابو عبیدہ بن جراح ،سالم مولی ابی حذیفہ اور مغیر ہ بن شعبہ۔
ان میں سے عمر نے کھا:
اسکو نھیں دیکھتے کہ اس کی آنکھیں مجنون کی طرح گھوم رھی ھیں؟!اب وہ کہتا ھے:
میرے خدا نے ایسا کھا ھے ![17]
ھم تصدیق نھیں کریںگے ۔۔۔اقرار نھیں کریں گے!
حذیفہ کا بیان ھے :معاویہ غدیر کے دن امیرالمومنین علی (ع) کے منصوب هونے کے بعد غضب و غصّہ کی حالت میں اٹھااور تکبر سے اپنادایاں ھاتھ ابوموسیٰ اشعری اور بایاں ھاتھ مغیرہ بن شعبہ کے کاندھے پر رکھ کر آگے بڑھتے هوئے کہنے لگا:
“ھم محمد کی اس بات کی تصدیق نھیں کرتے اورعلی کی ولایت کا اقرار نھیں کرتے۔۔۔”
خداوند متعال نے یہ آیت اسکے بارے میں نازل کی:
<فَلَاصَدَّقَ وَلَاصَلیّٰ وَلٰکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّیٰ ثُمَّ ذَھَبَ اِلیٰ اَھْلِہِ یَتَمَطّیٰ۔۔۔>[18]
“اس نے نہ کلام خدا کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔بلکہ تکذیب کی اور منھ پھیر لیا۔پھر اپنے اھل کی طرف اکڑتا هوا گیا۔
پیغمبر اکرم (ص)اسکو واپس بلا کر قتل کرنا چاہتے تھے کہ آیت نازل هوئی:
<لَاتُحَرِّکْ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ>[19]
“دیکھئے آپ قرآن کی تلا وت میںعجلت کے ساتھ زبان کو حرکت نہ دیں”
اور آپ(ص) صبر کرنے پر مامور هوئے۔[20]
کاش اس سوسمارکو۔۔۔؟
جب غدیر کا واقعہ رونماهوا تومنافقین لگے”ھماری ساری تدبیر ےںفیل هوگئیں”جب سب لوگ متفرق هوگئے تو منافقین جمع هوئے اور اس واقعہ پر افسوس کرنے لگے اتنے میں ایک (سوسمار) ان کے پاس سے گزرا تو آپس میں کہنے لگے:
کاش محمد نے اس سوسمار کو ۔۔۔ھماراامام بنادیا هوتا!!
ابوذر نے اس بات کو سن لیا انھوں نے پیغمبر کو بتایا ۔جب آپ (ص) نے ان منافقین کو حاضر کیا تو سب جھوٹی قسمیں کھانے لگے تو آپ نے فرمایا:
“جبرئیل نے مجھے خبر دی ھے کہ قیامت کے دن ایک ایسی قوم کو لایا جائے گا جس کا امام سوسمار هوگا:خبردار کہ وہ تم نہ هو!![21]
[1] بحا رالانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۲۱۔
[2] بحار الانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۲۰ ،۱۶۸۔عوالم :جلد۱۵/۳صفحہ ۱۲۵،۱۳۵۔
[3] روضہٴ کافی صفحہ ۳۴۴ حدیث ۵۴۲۔اس آخری حدیث کا عربی متن اس طرح ھے :لَا یُطَاعُ اللّٰہُ حتیّٰ یَقُوْمَ الْاِمَامُ”اس جملہ کے معنی میں دو احتمال پائے جا تے ھیں :
الف:جب تک امام حق امور کی باگ ڈور اپنے ھاتھ میں نہ لے خدا کی اطاعت نھیں هو سکتی ھے ۔
ب:جب تک امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف قیام نہ کریں خدا کی مکمل طور پر اطاعت نھیں هو سکتی ۔
[4] سوره سباآیت/۲۰۔
[5] سوره حجر آیت/۴۲۔
[6] بحارالانوار جلد ۳۷صفحہ۱۶۴،۱۶۵۔
[7] بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۳۵۔عوالم :جلد ۱۵/۳صفحہ ۳۰۳۔
[8] کتاب سلیم حدیث۵۷۹۔روضہ ٴ کافی صفحہ ۳۴۳حدیث ۵۴۱۔
[9] بحار الانوار جلد ۱۷صفحہ ۲۹،جلد ۲۸صفحہ ۱۸۶،جلد۳۶ صفحہ ۱۵۳،جلد ۳۷صفحہ ۱۱۴،۱۳۵۔کتاب سلیم: ۸۱۷ حدیث ۳۷۔ عوالم ۱۵/۳صفحہ ۱۶۴۔
[10] بحا رالانوار جلد ۲۸صفحہ ۹۹۔۱۰۰،جلد ۳۷ صفحہ ۱۱۵،۱۳۵۔عوالم:جلد ۱۵/۳صفحہ ۳۰۴۔اقبال الاعمال:صفحہ ۴۵۸ ۔ تبوک میں آنحضرت (ص)کے قتل کی سازش کے سلسلہ میں :بحارالانوار جلد ۲۱صفحہ ۱۸۵تا ۲۵۲۔
[11] بحار الانوارجلد ۲۸صفحہ۱۰۲۔۱۱۱
[12] بحار الانوارجلد ۲۸صفحہ۱۰۷۔ ۱۰۸
[13] اثبات الھدات جلد صفحہ ۱۶۴حدیث۷۳۶۔
[14] بحارالانوارجلد ۳۹صفحہ۲۴۷۔
[15] بحارالانوارجلد۳۷صفحہ ۱۱۱،۱۳۹،۱۵۴،۱۶۰،۱۷۲،۱۷۳۔
[16] بحارالانوارجلد ۳۷صفحہ۱۵۴،۱۶۰،۱۶۱،۱۶۲۔
[17] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۱۳۴۔
[18] سوره قیامت آیت /۳۱۔۳۴۔
[19] سوره قیامت آیت/ ۱۶۔
[20] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۹۶،۹۷،۱۲۵۔
[21] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۱۶۳۔بحارالانوارجلد ۳۷صفحہ۱۶۳۔