شھادت علي عليہ السلام

155

ابن ملجم ان نو (۹) آدميوں ميں سے ايك ھے جو خشك مقدس ھيں۔ يہ لوگ مكہ آتے ھيں اور آپس ميں عھد وپيمان كرتے ھيں كہ دنيائے اسلام ميں تين آدمي (علي عليہ السلام، معاويہ، عمر و عاص) خطرہ بنے ھوئے ھيں۔ ان كو قتل كرديا جائے۔ ابن ملجم حضرت علي عليہ السلام كے قتل كيلئے نامزد كيا جاتا ھے۔حملے كا وقت انيسويں ماہ رمضان كي رات طے پايا۔ آخر اس رات طے كرنے كي كيا وجہ ھے؟ ابن ابي الحديد كھتے ھيں كہ ناداني كي انتھا ديكھئے يہ رات انھوں نے اس لئے مقرر كي كہ چونكہ يہ عمل بہت بڑي عبادت ھے اسلئے اس رات كو انجام ديا جائے، تو اس كا ثواب بھي زيادہ ھوگا۔ ابن ملجم كوفہ آتا ھے اور كافي دنوں تك اسي رات كا انتظار كرتا رھا اس عرصہ ميں وہ “قطام”نامي خارجي عورت سے اس كي آشنائي ھو جاتي ھے۔ اس سے شادي كي پيشكش كرتا ھے، وہ كھتي ھے ميں شادي كيلئے حاضر ھوں ليكن اس كا حق مھر بہت مشكل ھے۔ اس نے كھا ميں دينے كو تيار ھوں وہ عورت بولي تين ھزار درھم” وہ بولا كوئي حرج نھيں۔ ايك غلام، وہ بھي ملے گا، ايك كنيز وہ بھي ملےگي۔ ميري چوتھي شرط يہ ھے كہ حضرت علي ابن ابي طالب كو قتل كيا جائے پہلے تو وہ كانپ اٹھا پھر بولي خوشحال زندگي گزارنے كيلئے آپ كو يہ كام تو كرنا پڑے گا اگر تو زندہ بچ گيا تو بھتر ھے نہ بچا تو پھر كوئي حرج نھيں ھے۔ وہ ايك عرصہ تك اس شش وپنج ميں مبتلا رھا اور اس نے دو شعر كھے۔
ثلاثہ آلاف وعبد وقينۃ
وقتل علي بالحسام المسمم
ولا مھر اعليٰ من دان علا
ولا فتك الا دون فتك ابن ملجم
وہ كھتا ھے كہ اس نے يہ چند چيزيں مجھ سے حق مھر ميں طلب كي ھيں۔ اس كے بعد وہ كھتا ھے كہ جتنا بھي حق مھر زيادہ ھو وہ علي عليہ السلام سے بھتر ھے۔ ميري بيوي كا حق مھر علي عليہ السلام كا خون ھے۔ پھر وہ كھتا ھے كہ پوري دنيا ميں تا قيام قيامت ايسا قتل نھيں ھے جو ابن ملجم كے ھاتھ سے علي عليہ السلام كا قتل ھوا ھے، سے بڑا ھو واقعتاً اس نے بالكل ٹھيك كھا ھے۔
پھر ايك ايسا وقت آتا ھے كہ جب علي عليہ السلام موت كے بستر پر وصيت كرتے ھيں۔ اس وقت ماحول ميں عجيب و غريب كشيدگي پائي جاتي تھي۔ لوگوں كے جذبات ميں شعلے لپك رھے رھے۔ ايك طرف معاويہ اور اس كے كارندے موجود تھے دوسري طرف خشك مقدس ملاؤں كا گروہ موجود تھا” ان دونوں گروپوں ميں تضاد پايا جاتا تھا۔ آپ نے اپنے اصحاب اور جانثاروں سے فرمايا كہ لا تقتلوالخوارج بعدي كہ ميرے بعد ان كو قتل نہ كرنا، انھوں نے مجھے تو مارڈالا ھے تم ان كو نہ مارنا۔ اگر آپ لوگوں نے خارجيوں كا قتل عام كيا تو يہ بات معاويہ كے فائدے ميں جائے گي۔ اس سے كسي لحاظ سے بھي حق كو كوئي فائدہ نھيں پھنچے گا۔ آپ نے نھج البلاغہ ميں ارشاد فرمايا:
“لا تقتلو الخوارج من بعدي فليس من طلب الحق فاخطاہ كمن الباطل فادركہ”
“يعني ميرے بعد خوارج كو قتل نہ كرنا اس لئے كہ جو حق كا طالب ھو اور اسے نہ پاسكے وہ ايسا نھيں ھے كہ جو باطل ھي كي طلب ميں ھو اور پھر اسے بھي پالے”
علامہ مفتي جعفر حسين مرحوم رقمطر از ھيں كہ قتل خوارج سے روكنے كي وجہ يہ تھي كہ چونكہ امير المو منيين عليہ السلام كي نگاھيں ديكھ رھي تھيں كہ آپ كے بعد تسلط واقتدار ان لوگوں كے ھاتھوں ميں ھوگا جو جھاد كے موقعہ و محل سے بے خبر ھوں گے اور صرف اپنے اقتدار كو برقرار ركھنے كيلئے تلواريں چلائيں گے اور يہ وھي لوگ تھے كہ جو امير المو منين عليہ السلام كو برا سمجھنے اور برا كھنے ميں خوارج سے بھي بڑھے چڑھے ھوئے تھے۔
لھذا جو خود گم كردہ راہ ھوں انھيں دوسرے گمراھوں سے جنگ وجدال كا كوئي حق نھيں پھنچتا اور نہ جان بوجھ كر گمراھيوں ميں پڑے رھنے والے اس كے مجاز ھوسكتے ھيں كہ بھولے سے بے راہ ھو جانے والوں كے خلاف صف آرائي كريں۔ چنانچہ امير المو منين عليہ السلام كا يہ ارشاد واضح طور سے اس حقيقت كو واشگاف كرتا ھے كہ خوارج كي گمراھي جان بوجھ كر نہ تھي بلكہ شيطان كے بھكاوے ميں آكر باطل كو حق سمجھنے لگے اور اس پر اڑگئے اور معاويہ اور اس كي جماعت كي گمراھي كي يہ صورت تھي كہ انھوں نے حق كو حق سمجھ كر ٹھكرايا اور باطل كو باطل سمجھ كر اپنا شعار بنائے ركھا اور دين كے معاملہ ميں ان كي بے باكياں اس حد تك بڑھ گئي تھيں كہ نہ انھيں غلط فھمي كا نتيجہ قرار ديا جاسكتا ھے اور نہ ان پر خطائے اجتھادي كا پردہ ڈالا جاسكتا ھے جبكہ وہ علانيہ دين كي حدود توڑديتے تھے اور اپني رائے كے سامنے پيغمبر (ص) كے ارشاد كو اھميت نہ ديتے تھے۔
چنانچہ ابن الحديد نے لكھا ھے كہ ميں نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو فرماتے ھوئے سنا ھے كہ چاندي اور سونے كے برتنوں ميں پينے والے پيٹ ميں دوزخ كي آگ كے لپكے اٹھيں گے تو معاويہ نے كھا كہ ميري رائے ميں تو اس ميں كوئي مضائقہ نھيں “اور كس طرح زياد ابن ابيہ كو اپنے سے ملا لينے كيلئے قول پيغمبر (ص) كو ٹھكرا كر اپنے اجتھاد كو كار فرما كرنا” منبر رسول (ص) پر اھل بيت رسول (ص) كو برا كھنا، حدود شرعيہ كو پامال كرنا، بے گناھوں كے خون سے ھاتھ رنگنا، اور ايك فاسق كو مسلمانوں كي گردنوں پر مسلط كركے زندقہ والحاد كي راھيں كھول دينا ايسے واقعات ھيں كہ انھيں كسي غلط فھمي پر محمول كرنا حقائق سے عمداًچشم پوشي كرناھے۔
علي عليہ السلام كو كسي سے كينہ نہ تھا وہ ھميشہ حق كي بات كھتے اور عدل و انصاف كے مطابق فيصلہ كرتے تھے۔ جب ابن ملجم كو قيد كركے مولا علي عليہ السلام كي خدمت ميں لايا گيا وہ شرم كي وجہ سے سر جھكائے ھوئے تھا۔ آپ نے اس سے فرمايا ابن ملجم بتايہ كام تو نے كيوں كيا؟كيا ميں تيرا اچھا امام نہ تھا؟ علي عليہ السلام كا يہ كھنا تھا كہ عرق ندامت اس كي پيشاني اور چھرے پر بہہ پڑا ۔ اس نے عرض كي علي عليہ السلام ميں بدبخت تھا اور يہ بہت بڑا گناہ كر بيٹہا۔ ليكن ايك بار اس نے كرخت لھجہ كے ساتھ گفتگو كي اور كھا كہ يا علي (ع) يہ تلوار خريدتے وقت اللہ تعالي سے عھد كيا تھا كہ ميں اس تلوار سے بدترين انسان كو قتل كروں گا (نعوذباللہ) اور ميں ھميشہ اپنے خدا سے يہ دعا كرتا رھا كہ اس تلوار سے اس انسان كا خاتمہ كر، آپ نے فرمايا ابن ملجم اللہ نے تيري دعا قبول كرلي ھے تو اپني اسي تلوار سے قتل ھوگا۔
علي عليہ السلام دنيا سے چلے گئے آپ كا جنازہ كوفے جيسے بڑے شھر ميں موجود ھے خارجيوں كے علاوہ شھر كے جتنے بھي لوگ تھے سب كي خواھش تھي كہ وہ حضرت علي عليہ السلام كے جنازہ ميں شركت كريں اور وہ علي عليہ السلام كے غم ميں گريہ وزاري كر رھے تھے۔ اكيسويں رمضان كي رات ھے امام حسن (ع) اور امام حسين (ع)، محمد بن حنفيہ (ع) جناب ابوالفضل عباس (ع) اور چند مومنين شايد چھ سات آدمي تھے، انھوں نے تاريكي شب ميں مولا كو غسل و كفن ديا۔ امام علي عليہ السلام كي معين كردہ جگہ ميں رات كي تاريكي وتنھائي اور خاموشي ميں آپ كو آھوں اور سسكيوں اور آنسوؤں كے ساتھ دفن كرديا گيا۔ اس جگہ پر كچھ انبياء كرام بھي مدفون تھے۔ جب دوسري صبح ھوئي تب لوگوں كو علم ھوا كہ جناب ابو تراب عليہ السلام دفنائے جاچكے ھيں ليكن آپ كي قبر اطھر كے بارے ميں كسي كو علم نہ تھا يہاں تك كہ بعض روايات ميں ھے كہ حضرت حسن عليہ السلام نے جنازہ تشكيل دے كر مدينہ روانہ كرديا تاكہ خوارج اور دشمنان علي عليہ السلام يہ سمجھيں كہ امام كو مدينہ ميں دفن كرديا ھے۔ اور وہ قبر علي عليہ السلام كي توھين نہ كريں۔ اس زمانے ميں خوارج كا قبضہ تھا۔ حضرت علي عليہ السلام كے فرزندان اور چند خواص كے علاوہ كسي كو خبر نہ تك تھي كہ مولا مشكل كشا عليہ السلام كي قبر كہاں ھے؟
يہ راز ايك سو سال تك مخفي رھا۔ بني اميہ چلے گئے اور بني عباس آگئے۔ اب يہ خطرہ ٹل گيا۔ امام جعفر صادق عليہ السلام نے سب سے پھلے امام علي عليہ السلام كي قبر مبارك كي نشاندھي كى” اور علانيہ طور پر لوگوں كو بتايا كہ ھمارے جد امجد امير المومنين عليہ السلام يھيں پر دفن ھيں۔ زيارت عاشورا كا راوي صفوان كھتا ھے كہ ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كي خدمت اقدس ميں كوفہ ميں تھا۔ آپ ھميں قبر علي عليہ السلام كے سراھنے لے آئے اور اشارہ كركے فرمايا يہ ھے داداعلي عليہ السلام كي قبر اطھر۔ آپ نے ھميں حكم ديا كہ ھم امام علي عليہ السلام كي قبر پر سايہ كا اھتمام كريں۔ بس اسي روز سے والي نجف كي آخري آرام گاہ مشھور ھوئي۔ كتنے بڑے دكھ كي بات ھے كہ علي عليہ السلام كے دشمن اس قدر كينہ پرور اور كمينہ صفت لوگ تھے كہ ايك صدي تك آپ كي قبر غير محفوظ تھي۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.