منازل الآخرت

319

مصحف ناطق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
“ان بین الدنیا والاخرة الف عقبة ،اھو نھا و ایسرھا الموت”۔[1]
“(موت کے بعد) دنیا اور آخرت کے درمیان ہزار خطرناک گھاٹیاں ھیں (جن سے گزرکر جانا ھے) اور ان میں سب سے آسان مرحلہ موت ھے”۔
قارئین کرام! ھم یہاں پر مختصر طور پر ان منزلوں کو پانچ بحثوں میں بیان کرتے ھیں جنھیںانسان طے کرے گا۔
موت اور اس کی سختیاں
روز قیامت تک پہنچنے کے لئے سب سے پہلی منزل ھے، اور یہ آخرت تک پہنچنے کے لئے پہلی نشانی ھے۔ حضرت رسول اکرم (ص)فرماتے ھیں:
“الموت القیامة ،اذا مات احدکم فقد قامت قیامتہ،یری ما لہ من خیر و شر”۔[2]
“موت ھی قیامت ھے، جب تم میںسے کوئی شخص مرتا ھے تو اس کی قیامت آجاتی ھے وہ اپنے کئے اعمال کی جزا یا سزا کو دیکھ لیتا ھے۔”
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
“الموت باب الاخرة”۔[3]
“موت آخرت کا دروازہ ھے”۔
موت سے مراد انسان کی روح قبض ھونا اور جسم و روح کے رابطہ کا خاتمہ ھے، یا دنیاوی زندگی سے اُخروی دنیا تک منتقل ھوجانے کا نام ھے، اور یہ “فعل اللہ” یعنی اللہ کا کام ھے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:
< ہُوَ الَّذِی یُحْیِي وَیُمِیتُ فَإِذَا قَضَی اٴَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ>[4]
“وہ وھی خدا ھے جو جلاتا اور مارتا ھے پھر جب وہ کسی کام کو کرنے کی ٹھان لیتا ھے تو بس اس سے کہہ دیتا ھے کہ ھوجا تو وہ فوراً ھوجاتا ھے”۔
بے شک خداوندعالم نے یہ ذمہ داری یعنی قبض روح کا کام ملک الموت کے حوالہ کررکھا ھے، ملک الموت ھی حکم خدا وندی سے انسان کی روح کو قبض کرتا ھے:
< قُلْ یَتَوَفَّاکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِی وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ إِلَی رَبِّکُمْ تُرْجَعُونَ >[5]
“(اے رسول ) کہدو کہ ملک الموت جو تمہارے اوپر تعینات ھے وھی تمہاری روحیں قبض کرے گا اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پرور دگار کی طرف لوٹا ئے جاوٴ گے ‘ ‘ ۔
اور خداوندعالم نے ملک الموت کے لئے دیگر فرشتوں کو اعوان و انصار مقرر فرمایا ھے جو اسی کے حکم سے روح قبض کرتے ھیں اور ان کا فعل خدا کا فعل ھوتا ھے، ارشاد ھوتا ھے:
< حَتَّی إِذَا جَاءَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَیُفَرِّطُونَ> [6]
“یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو ھمارے فرستادہ (فرشتے)اس کو( دنیا سے)اٹھا لیتے ھیں اور وہ( ھمارے حکم میں ذرا بھی)کوتاھی نھیںکرتے”۔
خداوندعالم ملک الموت کے ذریعہ انسان کو موت دیتا ھے:
<اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاٴَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا> [7]
“اللہ ھی ھے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلا لیتا ھے”۔
اسی مطلب کی طرف حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ حدیث اشارہ کرتی ھے، جیسا کہ امام علیہ السلام نے فرمایا ھے:
“ان اللہ جعل لملک الموت اعوانا من الملائکة ،یقبضون الارواح،بمنزلة صاحب الشرطة لہ اعوان من الانس ،یبعثھم فی حوائجہ، فتتوفاھم الملائکة ،و یتوفاھم ملک الموت من الملائکة مع ما یقبض ھو،و یتوفا ھا اللہ تعالیٰ من ملک الموت “۔[8]
“خداوندعالم نے ملک الموت کے لئے دیگر فرشتوں کو ناصر و مددگار بنایا ھے، جو انسانوں کی روحوں کو قبض کرتے ھیں جیسے انسانوں میںداروغہ کے ساتھ پولیس اور دیگر ناصرو مددگار ھوتے ھیں، اور انھیں اپنی حاجتیں پورا کرنے کے لئے ادھر اُدھر بھیجتا ھے اسی طرح ملک الموت دیگر فرشتوں کو روح قبض کرنے کے لئے بھجتا ھے اور ان فرشتوں کی روح خود ملک الموت قبض کریں گے اور ملک الموت کو خود خدا موت دے گا”۔
موت کی سختیاں
موت وہ حقیقت ھے جو عالم کائنات میں انسانی زندگی کی آخری منزل ھے، جس سے کوئی بھی فرار نھیں کرسکتا، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:
< قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِی تَفِرُّونَ مِنْہُ فَإِنَّہُ مُلَاقِیکُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ> [9]
“(اے رسول) تم کہدو کہ موت جس سے تم لوگ بھاگتے ھو وہ تو ضرور تمہارے سامنے آئے گی پھر تم پو شیدہ اور ظاہر کے جاننے والے (خدا ) کی طرف لوٹا دیئے جاوٴگے پھر جو کچھ بھی تم کرتے تھے وہ تمھیں بتا دے گا”۔
موت اور اس کی سختیوں کے بارے میں بہت سی آیات و روایات میں تفصیل بیان ھوئی ھے، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
“وان للموت لغمرات ھی افظع من ان تستغرق بصفة ،او تعتدل علی عقول اھل الدنیا”۔[10]
“بے شک موت کی سختیاں ایسی ھی ھیں جو اپنی شدت میں بیان کی حدووں میں نھیں آسکتی، اور اہل دنیا کی عقول کے اندازوں پر پوری نھیں اترسکتی ھیں”۔
ھم ذیل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں موت کی بعض سختیوں کے بارے میں بیان کرتے ھیں:
۱۔ حالت احتضار(جانکنی): حالت احتضار سے مراد ملک الموت یا اس کے اعوان و انصار کا حاضر ھونا ھے چاھے وہ ملائکہ رحمت ھوں یا ملائکہ عذاب، تاکہ مرنے والے کی روح کو قبض کریں، اور یہ سب سے مشکل ترین مرحلہ ھے کیونکہ ملائکہ کو دیکھ کر اس پر بہت زیادہ خوف و وحشت طاری ھوتی ھے، حضرت امام زین العابدین علیہ الصلاة و السلام فرماتے ھیں:
“اشد ساعات ابن آدم ثلاث ساعات :الساعة التی یعاین فیھا ملک الموت ،والساعة التی یقوم فیھا من قبرہ ،والساعة التی یقف فیھا بین یدی اللہ تبارک و تعالیٰ ،فاما الی الجنة ،واما الی النار”۔[11]
“انسان کے لئے تین موقع بڑے سخت ھوتے ھیں: ایک موقع وہ جب انسان ملک الموت کا مشاہدہ کرتا ھے، دوسرا وہ موقع جب انسان کو قبر میں اتارا جاتا ھے، تیسرا موقع وہ ھے جب انسان روز قیامت حساب و کتاب کے لئے پیش ھوگا، چاھے جنت میں جائے یا دوزخ میں”۔
حالت احتضار کا خوف و وحشت تمام مرنے والوں کے لئے برابر نھیں ھے بلکہ اگر انسان نیک کردار ھوتا ھے تو اس کی جاں کنی آسانی سے ھوتی ھے اور اگر مرنے والے دیندار نہ ھو تو اس کے لئے سختیاں اور پریشانیاں زیادہ ھوتی ھیں،لہٰذا اگر مرنے والا مومن اور متقی ھے تو فرشتے بہت آسانی سے اس کی روح قبض کرتے ھیں اور اس کو جنت الفردوس کی بشارت دیتے ھیں، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:
< الَّذِینَ تَتَوَفَّاہُمْ الْمَلاَئِکَةُ طَیِّبِینَ یَقُولُونَ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ > [12]
“(یہ) وہ لوگ ھیں جن کی روحیں فرشتے اس حالت میں قبض کرتے ھیں کہ وہ (نجاست کفر سے)پاک و پاکیزہ ھوتے ھیں تو فرشتے ان سے (نہایت تپاک سے) کہتے ھیں سلام علیکم، جو نیکیاں دنیا میں تم کرتے تھے اس کے صلہ میں جنت میں (بے تکلف) چلے جاوٴ”۔
لہٰذا ان کے مرنے اور بشارت میں کوئی فاصلہ نھیں ھوتا کیونکہ آیت کے دونوں جملوں میں کوئی حرف عطف بھی نھیں ھے ، پس موت کے ساتھ ساتھ بشارت ھوتی ھے۔
لیکن کفار و ظالموں کی موت کی سختیوں کے سلسلے بہت سی آیات قرآنی بہت زیادہ خوف و وحشت اور ھیبت کے بارے میں بیان کرتی ھیں کیونکہ ان کو دردناک اور سخت سے سخت عذاب کے بارے میں خبر دی جائے گی، خداوندعالم فرماتا ھے:
<وَلَوْتَرٰٓی اِذْیَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا الْمَلائِکَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ذَٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْکُمْ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیْدِ> [13]
“اور کاش (اے رسول) تم دیکھتے جب فرشتے کافروں کی جان نکال لیتے تھے اور ان کے رخ اور پشت پر (کوڑے )مارتے جاتے تھے اور (کہتے جاتے تھے کہ)عذاب جہنم کے مزے چکھو یہ سزا اس کی ھے جو تمہارے ہاتھوں نے پہلے کیا کرایا ھے اور خدا بندوں پر ہر گز ظلم نھیں کیا کرتا “۔
۲۔ سکرات موت: خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:
<وَجَاءَ تْ سَکْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیدُ> [14]
“اور موت کی بیھوشی یقینا طاری ھوگی یھی وہ بات ھے جس سے تو بھاگا کرتا تھا”۔
سکرات موت سے وہ کرب و پریشانی مراد ھے جسے دیکھ کر مرنے والا بے ھوش ھوجاتا ھے،مرگ بار مصیبتیں ٹوٹ پڑتی ھیں، وہ حیرت زدہ رہ جاتا ھے ،شدید قسم کے آلام اور طرح طرح کے امراض و اسقام ھوتے ھیں.
“انة موجعة ،و جذبة مکربة و سوقة متعبةٍ”۔[15]
انسان سکرات موت کی مدھوشیوں، شدید قسم کی بدحواسیوں، دردناک قسم کی فریادوں اور کرب انگیز قسم کی نزع کی کیفیتوں اور تھکادینے والی شدتوں میں مبتلا ھوجاتا ھے۔
حضرت رسول اکرم (ص)ارشاد فرماتے ھیں:
“ادنی جبذات الموت بمنزلہ مائة ضربة بالسیف”۔[16]
“موت کا معمولی سا درد تلوارکی سو ضربت کے برابر ھے”
ان سکرات موت اور غمرات موت کے آثار میں سے انسان کی زبان کا لڑکھڑانا ھے،یا مثلاً آنکھوں کی بینائی کم ھوجاتی ھے اور پہلو ہلنے لگتے ھیں، اس کے ھونٹ پپڑا جاتے ھیں، اس کی پسلیاں چڑھ جاتی ھیں، اس کا سانس پھول جاتا ھے، اس کا رنگ پیلا پڑجاتا ھے اور آہستہ آہستہ اس کے اعضاء و جوارح بے جان ھونے لگتے ھیں یہاں تک کہ اس کی رانیں، اس کا سینہ اور اوپری حصہ گلے تک ٹھنڈے پڑ جاتے ھیں، اس کے بعد دنیا سے رخصت ھوجاتا ھے اور اس کے بعد دنیا میں نھیں لوٹ سکتا:
< فَلَوْلاَإِذَا بَلَغَتْ الْحُلْقُومَ وَاٴَنْتُمْ حِینَئِذٍ تَنظُرُونَ وَنَحْنُ اٴَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلَکِنْ لاَتُبْصِرُونَ فَلَوْلاَإِنْ کُنتُمْ غَیْرَ مَدِینِینَ تَرْجِعُونَہَا إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ > [17]
“تو کیا جب جان گلے تک آپہنچی ھے اور تم اس وقت (کی حالت) پڑے ھوئے دیکھا کرتے ھو اور ھم (اس مر نے والے) سے تم سے بھی زیادہ نزدیک ھیں لیکن تم کو دکھائی نھیں دیتا تو اگر تم کسی کے دباوٴ میں نھیں ھوتو اگر (اپنے دعوے میں) تم سچے ھو تو روح کو پھیر کیوں نھیں دیتے”۔
یھی وہ موقع ھے جس کو حالت احتضار کہتے ھیں جو واقعاً ایک وحشت ناک موقع ھے۔
(خدا وندعالم اس وقت ھماری مدد کرے، آمین)
حضرت علی علیہ السلام حالت احتضار کے بارے میں ارشاد فرماتے ھیں:
“اجتمعت علیھم سکرة الموت ،وحسرة الفوت ،ففترت لھا اطرافھم وتغیرت لھا الوانھم ،ثم ازداد الموت فیھم ولوجا فحیل بین احدھم وبین منطقہ ،وانہ لبین اھلہ ،ینظر ببصرہ ،ویسمع باذنہ ،علی صحة من عقلہ ،وبقا ء من لبہ ،یفکر فیم افنی عمرہ ،فیم اذھب دھرہ۔۔۔فھو یعض یدہ ندامة علی ما اصحر لہ عند الموت من امرہ،ویزھد فیما کان یرغب فیہ اٴَیام عمرہ ۔۔۔فلم یزل الموت یبالغ فی جسدہ،حتی خالط لسانہ و سمعہ،فصار بین اھلہ لا ینطق بلسانہ ولا یسمع بسمعہ ،یردد طرفہ بالنظر فی وجوھم، یری حرکات اٴلسنتھم، ولا یسمع رجع کلامھم، ثم ازداد الموت التیاطاً بہ ،فقبض بصرہ کما قبض سمعہ ،و خرجت الروح من جسدہ ،فصار جیفة بین اھلہ ،قد او حشوا من جانبہ ،و تباعد وا من قربة ،لا یسعد باکیا ً ،ولا یجیب داعیاً ، ثم حملوہ الی مخط فی الارض ،فاسلموہ الی عملہ، وانقطعوا عن زورتہ”۔[18]
“(تو اب اس مصیبت کا بیان بھی ناممکن ھے) جہاں ایک طرف موت کے سکرات ھیں اور دوسری طرف فراق دنیا کی حسرت، حالت یہ ھے کہ ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑگئے ھیں اور رنگ اڑگیا ھے، اس کے بعد موت کی دخل اندازی اور بڑھی تو وہ گفتگو کی راہ میں بھی حائل ھوگئی کہ انسان گھروالوںکے درمیان ھے انھیں آنکھوں سے دیکھ رھاھے، کان سے ان کی آوازیں سن رھاھے، عقل بھی سلامت ھے اور ھوش بھی برقرار ھے، یہ سوچ رھاھے کہ عمر کو کہاں برباد کیا ھے اور زندگی کو کہاں گزارا ھے۔۔۔
ندامت سے اپنے ہاتھ کاٹ رھاھے اور اس چیز سے کنارہ کش ھونا چاہتا ھے جس کی طرف زندگی بھر راغب تھا اب یہ چاہتا ھے کہ کاش جو شخص اس سے اس مال کی بنا پر حسد کررھاتھا یہ مال اُس کے پاس ھوتا اور اس کے پاس نہ ھوتا۔ اس کے بعد موت اس کے جسم میں مزید دراندازی کرتی ھے اور زبان کے ساتھ کانوں کو بھی شامل کرلیتی ھے کہ انسان اپنے گھروالوں کے درمیان نہ بول سکتا ھے اور نہ سُن سکتا ھے، ہر ایک کے چہرہ کو حسرت سے دیکھ رھاھے ، ان کی زبان کی جنبش کو بھی دیکھ رھاھے لیکن الفاظ نھیں سن سکتا ۔
اس کے بعد موت اور چپک جاتی ھے، توکانوں کی طرح آنکھوں پر بھی قبضہ ھوجاتا ھے، اور روح جسم سے پرواز کرجاتی ھے اب وہ گھروالوں کے درمیان ایک مُردار ھوتا ھے، جس کے پہلو میں بیٹھنے سے بھی وحشت ھونے لگتی ھے اور لوگ دور بھاگنے لگتے ھیں، یہ اب نہ کسی رونے والے کو سہارا دے سکتا ھے اور نہ کسی پکارنے والے کی آواز پر آواز دے سکتا ھے، لوگ اسے زمین کے ایک گڑھے تک پہنچادیتے ھیں اور اسے اس کے اعمال کے حوالہ کردیتے ھیں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی ختم ھوجاتا ھے۔
لیکن بعض اعمال صالحہ جیسے صلہ رحم، والدین کے ساتھ نیکی کرنا وغیرہ حالت احتضار کے وقت مشکل آسان کرتے ھیں، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایاھے:
“من احب ان یخفف الله عز وجل عنہ سکرات الموت ،فلیکن لقرابتہ وصولاً،وبوالدیہ باراً۔۔۔”۔[19]
“جو شخص چاہتا ھے کہ خداوندعالم سکرات موت اور اس سختیوں کو آسان کردے تو اس کو چاہئے کہ صلہ رحم کرے اور اپنے والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرے”۔
۳۔ قبض روح : احادیث میں بیان ھوا ھے کہ انسان کی جان کنی اس کے اعمال کے لحاظ سے آسانی سے یا سختی کے ساتھ ھوگی، وہ مومنین جن کا ایمان راسخ ھے، جنھوں نے اپنے اعضاء و جوارح کو گناھوں سے روکا ھے، ان کو لقاء پروردگار کی آرزو رہتی ھے، تو ملائکہ رحمت ان کی روح بہت آسانی سے قبض کریں گے، لیکن کفار جن کو دنیا نے دھوکہ میں ڈال دیا ھے، اور فسق و فجور کے دلدل میں پھنس گئے ھیں، نیز لقاء پروردگار سے روگرانی کرتے ھیں تو عذاب و غضب کے فرشتے ان کی روح شدت اور سختی سے قبض کرتے ھیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:
“ان آیة الموٴمن اذا حضرہ الموت ان یبیض وجھہ اشد من بیاض لونہ ،و یرشح جبینہ ،و یسیل من عینیہ کھیئة الدموع ،فیکون ذلک آیة خروج روحہ ،وان الکافر تخرج روحہ سلاًمن شدقہ کزبد البعیر۔۔۔”۔[20]
“جان کنی کے عالم میںمومن کی نشانی یہ ھے کہ اس کے چہرے کا رنگ سفید ھوجاتا ھے، اس کی پیشانی سے پسینہ جاری ھوجاتا ھے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ھوجاتا ھے، پس روح نکلنے کی یھی نشانیاں ھیں، لیکن کافر کی روح بڑی سختی سے اس طرح نکالی جاتی ھے جیسے اونٹنی کے دودھ سے گھی نکالا جاتا ھے”۔
قارئین کرام! احادیث معصومین علیھم السلام سے یہ بات ظاہر ھوتی ھے کہ مذکورہ قاعدہ (جان کنی میں سختی اور آسانی سے کسی کے ایمان یا کفر کا پتہ لگانا)مسلم نھیں ھے ،کیونکہ اگر کسی شخص کی جان کنی سختی کے ساتھ ھورھی ھو تو وہ عذاب میں مبتلا ھے اور جس کی آسانی سے روح نکل جائے وہ ثواب اور اکرام کی حالت میں ھے، کیونکہ کبھی مومن کی روح سختی سے قبض کی جاتی ھے تاکہ یہ سختی اس کے گناھوں کا کفارہ بن جائے، اور وہ آخرت میں پاک ھوکر جائے، اور کبھی کبھی کافر کی روح آسانی سے نکل جاتی ھے تاکہ اس کی نیکیوں کی جزا دنیا ھی میں مل جائے[21]، جیسا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ ھم دیکھتے ھیں کہ کسی کافر کی روح آسانی سے اس حال میں نکل جاتی ھے کہ ، وہ باتیں کررھاتھا ہنس رھاتھا ، اور مومنین کے لئے بھی ایسا ھی ھوتا ھے، بہر حال ھم کس طرح مومنین اور کفار میں سکرات موت اور سختیوں کا اندازہ لگائیں؟ تب امام علیہ السلام نے فرمایا:
“ماکان من راحة للموٴمن ھناک فھو عاجل ثوابہ ،وماکان من شدة فھو تمحیصہ من ذنوبہ ،لیرد الاخرة نقیاً نظیفاً ،مستحقاً لثواب الابد، لامانع لہ دونہ ،وماکان من سھولة ھناک علی الکافر فلیوفی اجر حسناتہ فی الدنیا ،لیرد الاخرة ولیس لہ الا ما یوجب علی العذاب، وماکان من شدة علی الکافر ھناک فھو ابتداء عذاب اللہ لہ بعد نفاد حسناتہ ،ذلک بان اللہ عدل لایجور”۔[22]
“جس مومن کے لئے حالت احتضار میں راحت و سکون ھوتا ھے وہ اس بنا پر ھے کہ اس کو آخرت میں ثواب ملنے ولاھے اور اس کا ثواب اس قدر ھے کہ اس دنیا میں ھی وہ ثواب سے محظوظ ھونے لگتا ھے یعنی تعجیل ثواب میں اس کو یھیں سے راحت و سکون دیدیا جاتا ھے،او راگر اسے حالت احتضار میں سختیاں پیش آئیں تو وہ اس کو گناھوں سے پاک کرنے کے لئے ھیں تاکہ وہ آخرت میں گناھوں سے پاک و صاف ھوکر جائے، اور ھمیشہ کے لئے ثواب اور نعمتیں ملتی رھیں، اور اس کے ثواب میں کوئی مانع درپیش نہ آئے، لیکن کفار کے لئے موت کے وقت آسانی دنیا میں کی ھوئی نیکیوں کی وجہ سے ھے تاکہ آخرت میں اس کے لئے عذاب ھی عذاب رھے اور اگر کافر پر سختیاں ھیں تو یہ عذاب خدا کی ابتداء ھے کیونکہ اس کے پاس نیکیاں نھیں ھے، یہ سب اس وجہ سے ھے کہ خداوندعالم عادل ھے کسی پر ظلم نھیں کرتا”۔
۴۔ آخرت کی منزل میں داخل ھونا:جب انسان موت کو دیکھتا ھے تو اس کی پریشانیاں بڑھ جاتی ھیں، اس کی روح نکلنے کے لئے تیار ھوتی ھے اور موت کے ذریعہ اس کے سامنے سے زندگی میں موجود پردے ہٹ جاتے ھیں جیسے سوتا ھوا انسان کچھ نھیں دیکھتا اور جاگتے میں سب کچھ دیکھتا ھے کیونکہ جاگتے میں وہ پردہ ہٹ جاتا ھے گویا کہ انسان کی زندگی ایسی ھے جیسے کہ “لوگ سوئے ھوئے ھیں جب مرجاتے ھیں تو متوجہ ھوتے ھیں”،تووہ ان چیزوں کا مشاہدہ کریں گے جو زندگی میں نھیں کرسکے تھے، ارشاد خداوندی ھوتا ھے:
< لَقَدْ کُنْتَ فِی غَفْلَةٍ مِنْ ہَذَا فَکَشَفْنَاعَنْکَ غِطَاء کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیدٌ> [23]
“(اس سے کھاجائے گا )کہ اس (دن) سے تو غفلت میں پڑا تھا تو اب ھم نے تیرے سامنے سے پر دے کو ہٹا دیا تو آج تیری نگاہ بڑی تیز ھے”۔
انسان موت کے وقت کن چیزوں کا مشاہدہ کرتا ھے، احادیث کے مطابق ھم ان کا ذکرکرتے ھیں:
الف۔ جنت یا جہنم میں اپنا مقام: حضرت رسول اکرم (ص)ارشاد فرماتے ھیں:
“اذا مات احدکم عرض علیہ مقعد ہ بالغداة و العشي،ان کان من اھل الجنة فمن اھل الجنة، وان کان من اھل النار فمن اھل النار، ویقال: ھذا مقعدک حتی یبعثک اللہ الیہ یوم القیامة”۔[24]
“جب انسان مرجاتا ھے تو اس کواس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ھے ، اگر وہ اہل جنت سے ھے تو اس کو جنت میں اس کا مقام دکھایا جاتا ھے او راگر جہنمی ھے تو دوزخ میں اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ھے، اور اس سے کھاجاتا ھے: یہ تیرا ٹھکانا ھے یہاں تک کہ روز قیامت خدا سے ملاقات کرے”۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے جب محمد بن ابی بکر کو مصر کا والی بنایا تو آپ نے ایک تحریر لکھی:
“لیس احد من الناس تفارق روحہ جسدہ حتی یعلم ای المنزلتین یصل ؛الی الجنة ،ام الی النار، اعدو ھو لله ام ولی ،فان کان ولیاللہ فتحت لہ ابواب الجنہ ،و شرعت لہ طرقھا،ورای ما اعداللہ لہ فیھا ففرغ من کل شغل ،ووضع عنہ کل ثقل ،وان کان عدواً للہ فتحت لہ ابواب النار، و شرعت لہ طرقھا، و نظر الی ما اعدا للہ لہ فیھا ،فاستقبل کل مکروہ و ترک کل سرور، کل ھذا یکون عندالموت ،و عندہ یکون الیقین”۔[25]
“جب تک انسان کو جنت یا جہنم میں اس کا مقام نھیں دکھادیا جاتا اس وقت تک اس کی روح مفارقت نھیں کرتی، اور یہ کہ وہ دشمن خدا ھے یا دوست خدا، اگر وہ دوست خدا ھے تو اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ھیں اور اس کے راستے کھول دئے جاتے ھیں اور وہ خداوندعالم کی طرف سے تیار کردہ نعمتوں کو دیکھ لیتا ھے، وہ ہر کام سے فارغ ھوجاتا ھے او راس کی ہر مشکل دور ھوجاتی ھے، اگر وہ مرنے والا دشمن خدا ھے تو اس کے لئے جہنم کے دروازے کھول دئے جاتے ھیں اور اس کے راستے بتادئے جاتے ھیں، اور وہ خدا کی طرف سے تیار کردہ عذاب کو دیکھ لیتا ھے، تو اس کی پریشانیوں میں اضافہ ھوجاتا ھے اور ساری خوشیاں ختم ھوجاتی ھیں، یہ تمام چیزیں موت کے وقت ھوتی ھیں، اور وہ ان باتوں کا یقین کرلیتا ھے”۔
ب۔ مال و اولاد اور اعمال کا مجسم ھونا: حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
“ان العبد اذا کان فی آخر یوم من الدنیا ،واول یوم من آلاخرة،مثل لہ مالہ وولدہ وعملہ، فیلتفت الی مالہ ویقول :واللہ انی کنت علیک حریصا شحیحاً فما لی عندک ؟فیقول :خذ منی کفنک ۔قال فیلتفت الی ولدہ ،فیقول :واللہ انی کنت لکم محبا ،وانی کنت علیکم محامیا، فماذا لی عندکم؟ فیقولون :نوٴدیک الی حفرتک ونواریک فیھا۔ فیلتفت الی عملہ فیقول :واللہ انک کنت علي لثقیلا ،وانی کنت فیک لزاھد ا،فماذا عندک ؟فیقول :انا قرینک فی قبرک ویوم نشرک حتّیٰ اعرض انا وانت علی ربک”۔[26]
“جب انسان کی زندگی کا آخری روز اور آخرت کا پہلا دن ھوتا ھے تو اس کا مال ، اس کی اولاد اور اس کے اعمال مجسم ھوجاتے ھیں، چنانچہ اپنے مال کی طرف متوجہ ھوکرکہتا ھے: خدا کی قسم میں تیرے سلسلے میں بہت زیادہ حریص او رلالچی تھا، (تجھے حاصل کرنے کے لئے کتنی زحمتیں اٹھائیں ھیں؟) تو میری کیا مدد کرسکتا ھے؟ اس وقت مال کھے گا: میں تجھے کفن دے سکتا ھوں (اور بس) اس کے بعد اپنی اولاد کی طرف متوجہ ھوکر کہتا ھے: قسم خدا کی میں تم سے بہت محبت کیا کرتا تھامیں تمہاری حمایت او رمدد کیا کرتا تھا، آج تم میری کیا مدد کرسکتے ھو؟ تو اولاد کھے گی: ھم تجھے تیری قبر تک پہنچا سکتے ھیں اور تجھے قبر میں چھپا سکتے ھیں، اس کے بعد اپنے اعمال کی طرف متوجہ ھوکر کہتا ھے: قسم خدا کی، تم میرے لئے ثقیل اور گراں تھے اور میں تم سے دور رہتا تھا، آج تم کیا کروگے؟ اس وقت انسان کے اعمال کھیں گے کہ ھم تیرے ساتھ رھیں، قبر میں بھی اور روز محشر بھی، یہاں تک کہ ھم دونوں بارگاہ الٰھی میں پیش ھوں”۔
۴۔ نبی اکرم (ص)اور ائمہ علیھم السلام کا دیدار: شیخ صدوق علیہ الرحمہ فرماتے ھیں کہ اس سلسلے میں شیعہ امامیہ کا اتفاق ھے ، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھم السلام سے متواتر احادیث بیان ھوئی ھیں، نیز حضرت علی علیہ السلام نے حارث ھمدانیۺ سے مشھور اشعار میں فرمایا:
یا حارِ ھمدان من یمُت یرني
من موٴمن اٴو منافقٍ قبلا
یعرفني طرفہ و اٴعرفہ
بعینہ و اسمہ وما فعلا[27]
ابن ابی الحدید معتزلی نے حضرت علی علیہ السلام کے درج ذیل قول کے بعد چھ مصرعہ بیان کئے ھیں:
“فانکم لو قد عاینتم ما قد عاین من مات منکم،لجزعتم و وھلتم، وسمعتم واطعتم ولکن محجوب عنکم ما قد عاینوا ،و قریب ما یطرح الحجاب”۔[28]
اس کے بعد ابن ابی الحدید کہتے ھیں: ممکن ھے کہ اس کلام سے حضرت علی علیہ السلام نے اپنے نفس کا ارادہ کیا ھو کہ اس وقت تک کوئی انسان نھیں مرتا جب تک کہ علی (علیہ السلام) اس کے پاس حاضر نہ ھوجائے۔
اس کے بعد ابن ابی الحدید اس قول کے صحیح ھونے پر استدلال کرتے ھوئے کہتے ھیں: یہ کوئی عجیب چیز نھیں ھے اگر حضرت نے یہ بات اپنے بارے میں کھی ھو کیونکہ قرآن مجید کی آیت اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ اہل کتاب اس وقت تک نھیں مرتے جب تک وہ حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کی تصدیق نہ کردیں، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:
< وَإِنْ مِنْ اٴَہْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یَکُونُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا> [29]
چنانچہ بہت سے مفسرین کہتے ھیں کہ اس کا مطلب یہ ھے کہ یھود و نصاریٰ اور گزشتہ امت کے مرنے والے لوگ حالت احتضار میں حضرت عیسیٰ مسیح کو دیکھتے ھیں اور اس کی تصدیق کرتے ھیں جس نے فرائض اور تکالیف کے وقت جناب عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کی ھو۔[30]
لیکن دیدار کی کیفیت کے کا صحیح علم ھمارے پاس نھیں ھے بلکہ اس مسئلہ میں اور اس جیسے غیبی مسائل میں صرف اجمالی تصدیق کافی ھے، اور اسی چیز پر ایمان رکھنا کافی ھے کیونکہ اس سلسلے میں ائمہ معصومین علیھم السلام سے صحیح احادیث بیان ھوئی ھیں۔
حوالاجات
[1] من لا یحضرہ الفقیہ ،شیخ صدوقۺ،ج۱ص۸۰/۳۶۲۔دارالکتب الاسلامیہ ۔تہران ۔
[2] کنزل العمال / متقی ہندی ۱۵:۵۴۸/۴۲۱۲۳۔
[3] غررالحکم ۳ الامدی ۱:۲۳/ ۳۷۱۔
[4] سورہٴ غافر آیت۶۸۔
[5] سورہٴ سجدة آیت۱۱۔
[6] سورہٴ انعام آیت ۶۱۔
[7] سورہٴ زمر آیت ۴۲۔
[8] من لا یحضرہ الفقیہ ،شیخ صدوقۺ۱:۸۲/۳۷۱۔
[9] سورہٴ جمعہ آیت۸۔
[10] نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۳۴۱۔خطبہ نمبر (۲۲۱)۔
[11] خصال شیخ صدوق ، ص ۱۱۹، ۱۰۸، بحار الانوار ج ۶ص ۱۵۹ حدیث ۱۹۔
[12] سورہٴ نحل آیت۳۲۔
[13] سورہٴ انفال آیت ۵۰۔۵۱۔ اسی طرح درج ذیل آیات کو بھی ملاحظہ فرمائیں:
< الَّذِینَ تَتَوَفَّاہُمْ الْمَلاَئِکَةُ ظَالِمِی اٴَنفُسِہِمْ فَاٴَلْقَوْا السَّلَمَ مَا کُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوءٍ بَلَی إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ فَادْخُلُوا اٴَبْوَابَ جَہَنَّمَ خَالِدِینَ فِیہَا فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِینَ > (سورہٴ نحل آیت۲۸۔۲۹)
“یہ وہ لوگ ھیں کہ جب فرشتے ان کی روح قبض کرنے لگتے ھیں (اور یہ لوگ کفر کر کرکے)آپ اپنے اوپر ستم ڈھاتے رھے تو اطاعت پر آمادہ نظر آتے ھیں اور (کہتے ھیں کہ)ھم تو (اپنے خیال میں )کوئی برائی نھیں کرتے تھے (تو فرشتے کہتے ھیں)ہاں جو کچھ تمہاری کر تو تیں تھیں خدا اس سے خوب اچھی طرح واقف ھے (اچھا تو لو) جہنم کے دروازوں میں داخل ھو جاوٴاور اس میں ھمیشہ رھوگے غرض تکبر کرنے والوں کا بھی کیا برا ٹھکانا ھے”۔
< ذَلِکَ بِاٴَنَّہُمْ اتَّبَعُوا مَا اٴَسْخَطَ اللهَ وَکَرِہُوا رِضْوَانَہُ فَاٴَحْبَطَ اٴَعْمَالَہُمْ >(سورہٴ محمد آیت۲۸)
“یہ اس سبب سے کہ جس چیز سے خدا ناخوش ھوتا ھے اس کی تو یہ پیروی کرتے ھیں اور جس میں خدا کی خوشی ھے اس سے بیزار ھیں تو خدا نے ان کی کارستانیوں کو اکارت کر دیا “۔
[14] سورہ ٴ ق آیت ۱۹۔
[15] نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۱۱۳۔خطبہ نمبر (۸۳)۔ترجمہ علامہ جوادی ۺ ص ۱۴۵۔
[16] کنزل العمال ،متقی ہندی ۱۵:۵۶۹/۴۲۲۰۸۔
[17] سورہٴ واقعہ آیت ۸۳۔۸۷۔
[18] نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۱۶۰ ا۔خطبہ نمبر۱۰۹۔(ترجمہ علامہ جوادی، ص ۲۱۵)
[19] امالی شیخ طوسی ۺ :۴۳۲/۹۶۷۔
[20] من لایحضرہ الفقیہ ،شیخ صدوقۺ۱:۸۱/۳۶۶،الکافی ۳ الکلینی ۳:۱۳۴/۱۱۔
[21] رجوع فرمائیں :تصحیح الاعتقاد / الشیخ المفید :۹۵۔
[22] معانی الاخبار ،شیخ صدوقۺ،ج۱،ص۲۸۷،علل الشرائع ،شیخ صدوقۺ۱:۲۹۸۔باب (۲۳۵)/ ح۲، العقائد ،شیخ صدوق:۵۴۔
[23] سورہٴ ق آیت ۲۲۔
[24] مسند احمد ۲:۵۱۔دارالفکر ،بیروت ،احیاء التراث العلوم /الغزالی ۵:۳۱۶۔دار الوعی ۔حلب ،کنزل العمال ۳ المتقہ الہندی ۱۵:۶۴۱/ ۴۲۵۲۹۔ مسند احمد ۲:۵۱۔دارالفکر ،بیروت ،احیاء التراث العلوم /الغزالی ۵:۳۱۶۔دار الوعی ۔حلب ،کنزل العمال ۳ المتقہ الہندی ۱۵:۶۴۱/ ۴۲۵۲۹۔
[25] الامالی / المفید :۲۶۳۔۲۶۴۔
[26] من الایحضرہ الفقیہ ،شیخ صدوق۱:۸۲۔۸۳/۳۷۳،الکافی الکلینی ۳:۲۳۱/۱، یہ اس روایت اور اس کے مثل روایت کے لحاظ سے ھے، اس سلسلہ میں میں دوسری بحثیں بھی ھیں کہ جن کو ھم اختصار کی وجہ سے ذکر نھیں کرسکتے۔
[27] مزید احادیث کے سلسلہ میں رجوع فرمائیں: الکافی / الکلینی۳:۱۲۸۔۱۳۵۔باب مایعاین الموٴمن والکافر ،بحارالانوار /علامہ مجلسیۺ۶:۱۷۳۔۲۰۲باب(۷)۔
[28] اوائل المقالا ت / الشیخ المفید :۷۳۔۷۴۔نشر موٴتمر الشخ المفید ۔قم
[29] سورہٴ نساء آیت۱۵۹۔
[30] شرح ابن ابی الحدید ۱:۲۹۹۔۳۰۰(خطبہ نمبر ۲۰)۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.