کربلا پر وہابیوں کا حملہ

233

 کربلا پر وہابیوں کا حملہ

    ابتداسے ہی آل سعوداور عراقیوں میں جو اس زمانہ میں عثمانی بادشاہ کے تحت تھے ، لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے تھے اور وہابی لوگ عراق کے مختلف شہروں پر حملہ کرتے رہتے تھے، لیکن عراق کے دومشہور شہر نجف اور کربلا پر حملہ ایسا نہیں تھا جو مختلف شہروں پر ہوتا رہتا تھا، بلکہ اس حملہ کا انداز کچھ اور ہی تھا او ر اس حملہ میں مسلمانوں کا قتل عام اور حضرت امام حسین (ع) کے روضہئ مبارک کی توہین کے طریقہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مذکورہ کاموں کا بنیادی مقصد ان کے مذہبی عقائد تھے اور وہ بھی شدت اور تعصب کے ساتھ، کیونکہ انھوں نے تقریباً دس سال کی مدت میں کئی مرتبہ ان دونوں شہروں پر حملہ کیا ہے۔
     ابن تیمیہ اور اس کے مرید اس وجہ سے شیعوں سے مخالفت اور دشمنی رکھتے تھے کہ ان کو قبروں پر حج کرنے والے یا قبروں کی عبادت کرنے والے کہا کرتے تھے اور بغیر کسی تحقیق کے ان کا گمان یہ تھا کہ شیعہ حضرات اپنے بزرگوں کی قبروں کی پرستش کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کا حج کرنے کے بجائے قبور کا حج کرتے ہیں، اور اسی طرح کے دوسرے امور بھی ۔
    بہر حال چونکہ یہ دو شہر،( کربلا اور نجف اشرف) شیعوں کے نزدیک خاص اہمیت کے حامل تھے اور ہیں، اس بناپر ان دونوں زیارت گاہوں پر عالی شان ، اور عمدہ گنبدیں بنائی گئی ہیں او ربہت سا نذر کا سامان او ربہت سی چیزیں ان روضوں کے لئے وقف کرتے ہیں اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں دور اور نزدیک سے مومنین کرام زیارت کے لئے جاتے ہیں ، اور جیسا کہ پہلے بھی عرض کرچکے ہیںوہابی لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے بہت سے شبہات او راعتراضات کے شکار تھے جن کی بناپر شیعوں سے بہت زیادہ تعصب رکھتے تھے اور ہمیشہ ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتے تھے جن کے ذریعہ اپنے مقصد تک پہنچ سکیں۔
    دائرۃ المعارف اسلامی کی تحریر کے مطابق، ”خزائل نامی شیعہ قبیلہ” کی طرف سے نجدی قبیلہ پر ہوئی مار پیٹ کو انھوں نے کربلا اور نجف پر حملہ کرنے کا ایک بہانہ بنا لیا۔ (۱)
    کربلا او رنجف پر وہابیوں کے حملے ۱۲۱۶؁ھ میں عبد العزیز کے زمانہ سے شروع ہوچکے تھے جو ۱۲۲۵؁ھ سعود بن عبد العزیز کی حکومت کے زمانہ تک جاری رہے۔ان حملوں کی تفصیل وہابی اور غیر وہابی مؤلفوں نے لکھی ہے اور اس زمانہ کی فارسی کتابوں میں بھی یہ واقعات موجود ہیں، نجف اشرف کے بعض علمائے کرام جو ان حملوں کے خود چشم دید گواہ ہیں اور ان میں سے بعض اپنے شہر کے دفاع میں مشغول تھے انھوں نے ان تمام چیزوں کو اپنی کتابوں میں لکھاہے جن کو خود انھوں نے دیکھا ہے یا دوسروں سے سنا ہے، ہم یہاںپر ان کی کتابوں سے بعض چیزوں کو نقل کرتے ہیں:

• کربلا پر حملہ

    وہابی مؤلف صلاح الدین مختار اس سلسلہ میں کہتا ہے:
    ” ۱۲۱۶؁ھ میں امیر سعود (ابن عبد العزیز) نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ نجد اور عشایر کے لوگوں کے ساتھ او راسی طرح جنوب ،حجاز اور تہامہ وغیرہ کے لوگوں کی ہمراہی میں عراق کا رخ کیا اور ذیقعدہ کو شہر کربلا پہنچ کر اس شہر کو گھیر لیا، اور اس لشکر نے شہر کی دیوار کو گرادیا، اور زبردستی شہر میں داخل ہوگئے کافی لوگوں کو گلی کوچوں میں قتل کرڈالا اور ان کے تمام مال ودولت لوٹ لیا، اور ظہر کے وقت تک شہر سے باہر نکل آئے اور ” ماء الابیض ” نامی جگہ پر جمع ہوکر غنیمت کی تقسیم شروع ہوئی اور مال کا پانجواں حصہ (یعنی خمس) سعود نے لے لیا ،باقی مال کو اس طرح اپنے لشکر والوں میں تقسیم کیا کہ پیدل کو ایک اور سوار کو دوحصّے ملے”۔ (۲)
    پھر چند صفحہ بعد لکھتے ہیں کہ امیر عبد العزیز بن محمد بن سعود ایک عظیم لشکر کو اپنے بیٹے سعود کی سرداری میں عراق بھیجا جس نے ذیقعدہ ۱۲۱۶؁ھ میں کربلا پر حملہ کیا۔
    صلاح الدین مختار، ابن بشر (۳) کی باتوں کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ امیر سعود نے اس شہر پر حملہ کیا جس کا شیعوں کی نظر میں احترام کرنا ضروری ہے۔ (۴)
    شیخ عثمان بن بشر نجدی مورخ مذکور واقعہ کی تفصیل اس طرح بیان کرتا ہے کہ ذی قعدہ ۱۲۱۶؁ھ میں سعود بھاری لشکر کے ساتھ جس میں بہت سے شہری اور خانہ بدوش (نجد، جنوب، حجاز اور تہامہ وغیرہ کے) تھے حضرت امام حسین(ع) کی بارگاہ کربلا کا رخ کیا اور شہر کے باہر پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا۔
    مذکورہ لشکر نے شہر کی دیوار کوگرادیااور شہر میں داخل ہوگئے ، شہر میں پہنچنے کے بعد گھروں او ربازاروں میں موجود لوگوں کا قتل عام کردیا، اور حضرت امام حسین (ع) کی گنبد کو بھی گرادیا، اور آپ کی قبر پر موجود ہ صندوق (ضریح) جس پر یاقوت اور دیگر جواہر ات لگے ہوئے تھے اس پر قبضہ کرلیا، اور ان کے تمام مال ودولت، اسلحہ، لباس، فرش، سونا چاندی بہترین اور نفیس قرآن کو مال غنیمت میں لے لیا نیز اس کے علاوہ تمام چیزوں کو غارت کردیا، اور ظہر کے وقت شہر سے باہرنکل گئے، اس حملہ میں وہابیوں نے تقریباً دو ہزار لوگوں کو قتل کیا ۔ (۵)
    شیعوں کے عظیم عالم دین مرحوم علامہ سید جواد عاملی ،نجف اشرف پر وہابیوں کے حملہ کے چشم دید گواہ ہیں، وہ وہابی مذہب کی پیدائش کے ضمن میں اس طرح فرماتے ہیں کہ ۱۲۱۶؁ھ میں حضرت امام حسین (ع) کے روضہئ مبارک کو غارت کردیا چھوٹے بڑوں کو قتل کر ڈالا لوگوں کے مال ودولت کو لوٹ لیا خصوصاً حضرت امام حسین (ع) کے روضہ کی بہت زیادہ توہین و بے حرمتی کی اور اس کومسمار کر ڈالا۔ (۶)
    جن شیعہ مؤلفوں نے کربلا کے قتل عام کی تاریخ ۱۸ ذی الحجہ (عید غدیر) ۱۲۱۶ ؁ھ ق. بیان کی ہے ان میں سے ایک صاحب ”روضات الجنات”بھی ہیں جنھوں نے مولیٰ عبد الصمد ہمدانی حائری کے حالات زندگی کے ضمن میں فرمایاہے: بروز چہار شنبہ ۱۸/ ذی الحجہ (عید غدیر) ۱۲۱۶ ؁ھ ق. کا دن تھا کہ وہابیوں نے مرحوم ہمدانی کو اپنی مکاریوں کے ساتھ گھر سے نکالا اور شہید کردیا۔ (۷)
    لیکن اس واقعہ کی تفصیل ڈاکٹر عبد الجواد کلید دار (جو خود کربلا کے رہنے والے ہیں) اپنی کتاب تاریخ کربلا وحائر حسینی میں ”تاریخِ کربلائے معلی” ( ص ۲۰، ۲۲ )سے کچھ اس طرح نقل کرتے ہیں :
    ” ۱۲۱۶؁ھ میں وہابی امیر سعود نے اپنے بیس ہزار جنگجو ؤں کا لشکر تیار کیا اور کربلا شہر پر حملہ ور ہوا، اس زمانہ میں کربلا کی زیادہ شہرت اور عظمت تھی ۔ ایرانی ،ترکی اورعرب کے مختلف ممالک سے زائرین آیا کرتے تھے، سعود نے پہلے شہر کو گھیرا اور اس کے بعد شہر میں داخل ہوگیا، دفاع کرنے والوں کا قتل عام کیا، شہر کے اطراف میں خرمے کی لکڑیوں اور اس کے پیچھے مٹی کی دیوار بنی ہوئی تھی جس کو انھوں نے توڑ ڈالا۔
    وہابی لشکر نے ظلم اور بربریت کا ایسا منظر پیش کیا جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا ، یہاںتک کہ کہا یہ جاتا ہے کہ ایک ہی دن میں انھوں نے بیس ہزار لوگوں کا قتل عام کیا۔ (۸)
    اور جب امیر سعود کا جنگی کام ختم ہوگیا تو وہ حرم مطہر کے خزانہ کی طرف متوجہ ہوا، یہ خزانہ بہت سی نفیس اور قیمتی چیزوں سے بھرا ہوا تھا، وہ سب اس نے لوٹ لیا ، کہا یہ جاتا ہے کہ جب ایک خزانہ کے دروازہ کو کھولا تو وہاں پر کثیر تعداد میں سکّے دکھائی دئے اور ایک گوہر درخشان جس میں بیس تلواریں جو سونے سے مزین تھیں اور قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے اسی طرح سونے چاندی کے برتن اور فیروزہ اور الماس کے گرانبہا پتھر تھے ان سب کو لوٹ لیا، اسی طرح چار ہزار کشمیری شال، دوہزار سونے کی تلواریں اور بہت سی بندوقیں اور دیگر اسلحوں کو غارت اور قبضہ میں کرلیا۔
    اس حادثہ کے بعد شہر کربلا کی حالت یہ تھی کہ شاعر لوگ اس کے لئے مرثیہ کہتے تھے، اور جو لوگ اپنی جان بچا کر بھاگ نکلے تھے، شہر میں لوٹ آئے، اور بعض خراب شدہ چیزوں کے ٹھیک کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
     ”لونکریک” نے اپنی تاریخ (چہار قرن از عراق)میں لکھا ہے کہ اس واقعہ کو دیکھ کر اسلامی ممالک میں ایک خوف ووحشت پھیل گئی۔ (۹)
    مذکورہ مؤلف دوسری جگہ پر ”لونکریک” سے نقل کرتے ہوئے اس طرح لکھتا ہے: وہابیوں کے کربلا سے نزدیک ہونے کی خبر۲/نیسان( جولائی ) ۱۸۰۱؁ء کو شام کے وقت پہنچی اس وقت کربلا کے لوگوں کی کثیرتعداد زیارت کے لئے (عید غدیر کی مناسبت سے) نجف اشرف گئی ہوئی تھی، جو لوگ شہر میں باقی تھے انھوں نے جلدی سے شہر کے دروازے بند کردئے، وہابیوں کی تعداد ۶۰۰ / پیدل اور ۴۰۰ /سوار تھے، چنانچہ شہر سے باہر آکر جمع ہوگئے اور اپنے خیمہ لگادئے او راپنے کھانے پینے کی چیزوں کو تین حصوں میں تقسم کیا اور ”باب المخیم” نامی محلہ کی طرف سے دیوار توڑ کر ایک گھر میں داخل ہوگئے اوروہاں سے نزدیک کے دروازے پر حملہ کردیا اور پھر شہر میں داخل ہوگئے ۔
    اس موقع پر خوف ودہشت کی وجہ سے لوگوں نے ناگہانی طور پر بھاگنا شروع کردیا، وہابیوں نے حضرت امام حسین (ع) کے روضہ کا رخ کیا ، اور وہاں پر توڑ پھوڑ شروع کردی، اور وہاں پر موجود تمام نفیس اور قیمتی چیزوں کو جن میں سے بعض ایران کے بادشاہوں اور دیگر حکّام نے نذر کے طور پر بھیجی تھی ان تمام چیزوں کو غارت اور قبضہ کرلیا، اسی طرح دیوار کی زینت اور چھت میں لگے سونے کو بھی ویران کرڈالا، قیمتی قالینوں ،قندیلوں اور شمعدانوں وغیرہ کو بھی لوٹ لیا، اور دیواروں میںلگے جواہرات کو بھی نکال لیا۔
    ان کے علاوہ ضریح مبارک کے پاس تقریباً ۵۰ / لوگوں کو اور صحن میں ۵۰۰ / لوگوں کو قتل کردیا، وہ لوگ جس کو بھی پاتے تھے وحشیانہ طریقہ سے قتل کردیا کرتے تھے، یہاں تک کہ بوڑھوں اور بچوں پر بھی کوئی رحم نہیں کرتے ، اس حادثہ میں مرنے والوں کی تعداد بعض لوگوں نے ایک ہزار او ربعض لوگوں نے پانچ ہزار بتائی ہے۔ (۱۰)
    سید عبد الرزاق حسنی صاحب اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ ۱۲۱۶؁ھ میں وہابیوں کے لشکر نے جس میں ۶۰۰ /اونٹ سوار اور ۴۰۰/ گھوڑے سوار تھے کربلا پر حملہ کردیا اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب اکثر لوگ نجف اشرف کی زیارت کے لئے گئے ہوئے تھے۔
    حملہ آوروں نے حضرت امام حسین(ع) اور جناب عباس(ع) کے روضوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا، اور ان دونوں روضوں میں جوکچھ بھی تھا وہ سب غارت کردیا۔ ساری قیمتی چیزیں جیسے قیمتی پتھر ”ساج” کی لکڑی ، بڑے بڑے آئینے اور جن ہدیوں کو ایران کے وزیروں اور بادشاہوں نے بھیجا تھا ان سب کو لوٹ لیا، اور در ودیوار میں لگے قیمتی پتھروں کو ویران کردیا اور چھت میں لگے سونے کو بھی ننکال لے گئے ۔وہاں پر موجود تمام قیمتی اور نفیس قالینوں ، قندیلوں اور شمعدانوں کو بھی غارت کردیا۔ (۱۱)
    قارئین کرام ! جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ کیا کہ مختلف کتابوں نے وہابیوں کی تعداد اور مقتولین کی تعداد میں اختلاف کیا ہے ۔لیکن وہابی مؤلف کی تحریر کے مطابق جس کو ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اور دوسرے شواہد کی بناپر وہابیوں کی تعداد بیس ہزار او رمرنے والوں کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔

• حسینی خزانہ کے بارے میں

    حاج زین العابدین شیروانی صاحب جو تقریباً محمد بن عبد الوہاب کے ہم عصر تھے اور ایک طولانی مدت سے کربلا میں مقیم تھے ۔ کربلا پر وہابیوں کا حملہ ا نھیں کے زمانہ میں رونما ہوا ہے، موصوف اپنی کتاب ” حدائق السیاحہ” میں وہابیوں کے حملے کی تفصیل اس طرح لکھتے ہیں: ”روضہ امام حسین (ع) کا تمام زر وجواہرات ، قندیلیں ، سونے اور چاندی کے ظروف وغیرہ سب وہ (وہابی) ظالم لوٹ لے گئے اور باقی تمام دوسری چیزیں غارت کردیں، سوائے وہ سامان جو ان کے حملہ سے پہلے پہلے کاظمین پہنچادیا گیا تھا بچ گیا۔
    میر عالم صاحب جو دکھن (ہند وستان) کے نوابوںمیں سے تھے انھوں نے اس واقعہ کے بعد کربلا شہر کے چاروں طرف دیوار بنوائی اور اس کے قلعہ کو گچ (چونے) اور اینٹوں سے مضبوط کرایا ، اسی طرح آقا محمد خان شہریار ایران نے وہابیوں کے حملے سے پہلے حضرت امام حسین (ع) کے روضہ کو بنایا اور اس کے گنبد کو سونے کی اینٹوں سے بنوایا۔ (۱۲)
    وہابیوں کے نجف اشرف پر حملے کے ضمن میں یہ بات بیان کی جائے گی کہ جب نجف کے علماء اور اہم لوگوں کو یہ پتہ چلا کہ وہابی نجف پر بھی حملہ کرنے والے ہیں تو انھوں نے حضرت امیر المومنین(ع) کے خزانہ کو کاظمین پہنچادیا۔
    لیکن حضرت امام حسین (ع) کے خزانہ کو کاظمین لے جانے کے بارے میں صرف جناب شیروانی صاحب نے نقل کیا ہے اس کے علاوہ اگر کسی نے بیان کیا ہو، تومؤلف کی نظروں سے نہیں گزرا، جبکہ تمام لکھنے والوں نے یہی لکھا ہے کہ کربلائے معلی کا سب سامان غارت کردیا گیا،جیسا کہ ہم نے وہابیوں کے کربلا پر حملہ کے ضمن میں اشارہ بھی کیاہے ، اور یہی بات صحیح بھی لگتی ہے کیونکہ ساکنین کربلا کو اس حملہ کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی وہ بالکل بے خبر تھے تو کس طرح وہ سامان کاظمین لے جانا ممکن ہوسکتا ہے۔
     دوسری بات کربلا کے مومنین خصوصاً جوان اور کار آمد لوگ وہابیوں کے حملے سے ایک یا دو دن پہلے ہی عید غدیر کی مناسبت سے نجف اشرف زیارت کے لئے گئے ہوئے تھے ۔ اگر ان لوگوں کو وہابیوں کے اس حملہ کا ذرا بھی احتمال ہوتا تو یہ لوگ اپنے شہر، عورتوں، بچوں او ربوڑھوں کو دشمن کے مقابلے میں چھوڑ کرکبھی نہ جاتے۔
    ظاہر ہے کہ کاظمین اس خزانہ کا منتقل کرنا اسی صورت میں ممکن تھا جب ان کو اس حملہ کی خبر ہوتی یا اس کا احتمال ہوتا۔ (۱۳)

• کربلا ئے معلی پر وہابیوں کا حملہ ، عثمانی مؤلفوں کی نظر میں

    ”شیخ رسول کرکوکلی” تیرہویں صدی ہجری کی ابتداء کے عثمانی مؤلف نے ۱۱۳۲؁ھ سے ۱۲۳۷؁ھ تک کے عراق ، ایران اور عثمانی واقعات پر مشتمل ایک کتاب اسلامبولی ترکی میں لکھی ہے ، اور موسیٰ کاظم نورس نے مذکورہ کتاب کا عربی میں ترجمہ کیا ہے جو ”دوحۃ الوزرا” کے نام سے طبع ہوچکی ہے۔
    کتاب”دوحۃ الوزرا” میں ایسے واقعات موجود ہیں جو خود مؤلف کے زمانہ میں رونما ہوئے، اور شاید بہت سے واقعات کے وہ خود بھی شاہد ہوں، لہٰذا اس کتاب کے واقعات خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
    اس کتاب کے تفصیلی اور دقیق مطالب میں عراق پروہابیوں کے حملے بھی ہےں اور بغداد کے والیوں کی طرف سے ہونے والی تدبیروں اور عراق کے حکام کی طرف سے نجد کے علاقہ پر لشکر کشی کرنا بھی موجود ہے لہٰذا ہم یہاں پر کربلائے معلی پر وہابیوں کے حملہ کو اس کتاب سے نقل کرتے ہیں:
    ۱۲۱۴؁ھ میں قبیلہ خزائل اور وہابیوں کے درمیان نجف اشرف میں ہونے والی لڑائی اور اس میں وہابیوں کے تین سو کے قریب قتل ہونے والے افراد کو دےکھتے ہوئے عبد العزیز سعودی بادشاہ نے عراق کے حکام کو ایک خط لکھا کہ جب تک مقتولین کی دیت ادا نہ کی جائے اس وقت تک عراق اور نجد کے درمیان ہونے والی صلح باطل ہے۔ (۱۴)
    سلیمان پاشا والی ئبغداد نے صلح نامہ کو برقرار رکھنے کے لئے عبد العزیز کے پاس ”عبد العزیزبیک شاوی” (اپنے ایک اہم شخص ) کو بھیجا جو حج کا بھی قصد رکھتا تھا اس کو حکم دیا کہ اعمال حج کے بجالانے کے بعد وہابی امیر کے پاس جائےں اور اس سے صلح نامے کو باطل کرنے سے پرہیز کرنے کے بارے میں گفتگو کریں۔
    عبد العزیز بیک نے والی بغداد کے حکم کے مطابق عمل کیااور سعودی امیر عبد العزیز سے گفتگو کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، آخر میں عبد العزیز نے یہ پیشکش کی کہ وہابیوں کے خون کے بدلے میں نجد کے عشایر کو ”شامیہ” (عنّہ اور بصرہ کے درمیان) علاقہ میں اپنے چارپایوں کو چرانے دیا جائے، او راگر ان کو روکا گیا تو پھر صلح نامہ کے پیمان کو توڑنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
    جب عبد العزیز شاوی، عبد العزیز وہابی کو قانع کرنے سے ناامید ہوگئے تو انھوں نے ایک قاصد بغداد کے والی کے پاس بھیجا اور اس کو گفتگو کی تفصیل سے آگاہ کیا اور یہ بھی بتایاکہ وہابی لوگ اپنے مقتولین کا انتقام لینے کی غرض سے عراق کا رخ کرچکے ہیں ۔
    والی بغداد نے وہابیوں کے احتمالی حملہ کی وجہ سے کافی انتظامات کئے ، کئی مہینہ گزر جانے کے بعد بھی وہا بی حملہ کرنے کے لئے نہیں آئے۔
    ۱۲۱۶ ؁ھ میں شہر بغداد میں وباپھیل گئی اور آہستہ آہستہ یہ وبا شہر کے قرب وجوار میں بھی پھیلنے لگی، یہ دیکھ کر شہر کے لوگ بھاگ نکلے، اسی وقت شیخ حمود رئیس قبیلہ منتفق نے والی شہر کو خبر دار کیا کہ سعود بن عبد العزیز اپنے ایک عظیم لشکر کے ساتھ عراق پر حملہ کرنے کے لئے آرہا ہے۔
    بغداد کے والی نے علی پاشا کو حکم دیا کہ وہ وہابیوں کو روک دے اور قتل غارت نہ ہونے دے، علی پاشا ”دورہ” نامی علاقہ کی طرف چلے تاکہ دوسرے لشکر بھی اس سے ملحق ہوجائیں، راستہ میں بعض عشایر کا لشکر بھی اس سے ملحق ہوگیا۔
     جب علی پاشا اپنے لشکر کو وہابیوں سے مقابلے کے لئے تیار کررہے تھے تو ان کو یہ خبر ملی کہ وہابیوں نے کربلا پر حملہ کردیا ہے اور بہت زیادہ قتل وغارت کیاہے، جس میں تقریباً ایک ہزار لوگوں کو تہہ تیغ کردیا، اس وقت علی پاشا نے محمد بیک شاوی کو وزیر کے پاس بھیجا تاکہ اس کو مذکورہ واقعہ سے خبردار کرے اور یہ خبر پاتے ہی فوراً وہ کربلا کی طرف روانہ ہوگئے تاکہ حملہ آوروں پر کامیابی حاصل کرے اور ان سے اس قتل وغارت کا انتقام لے ، اور شہر کو دشمنوں کے پنجہ سے نجات دلائے، لیکن ابھی علی پاشا شہر حلہ میں ہی پہنچے تھے کہ اس کو خبر ملی کہ وہابی لوگ قتل وغارت کے بعد ”اخیضر” نامی علاقہ کی طرف چلے گئے ہیں ، یہ سننے کے بعد علی پاشا کچھ وجوہات کی وجہ سے حلّہ میں ہی رہ گئے ، کیونکہ جب انھوں نے یہ خبر سن لی کہ وہابی لشکر کربلا سے نکل چکا ہے تو ان کا کربلا جانا بے فائدہ تھا پھر بھی احتیاط کے طور پر مختصر سے لوگوں کو کربلا بھیج دیا۔
    چنانچہ وہابیوں کے حملہ کے خوف سے نجف اشرف کے خزانہ کو بغداد بھیج دیا اور مذکورہ خزانہ کو حضرت امام موسی کاظم (ع) کے روضہ میں رکھ دیا گیا، مذکورہ خزانہ کو لے جانے والے محمد سعید بیک تھے، اور یہ خبریں نیز وہابیوں کے حملہ کے سلسلہ میں ہوئی تدبیروں کو ایرانی حکومت کے پاس پہنچا دیا گیا۔ (۱۵)

• شہر کربلا پر وہابیوں کی کامیابی کے وجوہات

     وہابیوں نے نجف اشرف پر بھی حملہ کیا او رنجف کو فتح کرنے کی بہت کوششیں کی لیکن وہ لوگ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے، لیکن کربلا شہر میں انھوں نے جو کچھ کرنا چاہا وہ با آسانی کرڈالا، مؤلف کی نظر میں اس کی کچھ وجوہات ہیں جن کو چند چیزوں میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے:
    ۱۔ سلیمان پاشا والی بغداد ا ور عثمانی بادشاہ کی طرف سے معین شدہ کربلا کے حاکم عمر آقا نے شہر کی حفاظت کے لئے کوئی خاص کام انجام نہیں دیا، بلکہ کچھ بھی نہ کیا ، اسی وجہ سے سلیمان پاشا نے اس سے مواخذہ کیا، اور سرانجام اس کو قتل کردیا گیا۔ (۱۶)
    ۲۔ شہر کربلا کی دیوار اور اس کا برج زیادہ مضبوط نہیں تھا اور اس کے علاوہ اس کی حفاظت کرنے والوں کی تعداد بھی بہت کم تھی۔ (۱۷)
    ۳۔ سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اکثر مرد او رجوان عید غدیر کی مناسبت سے نجف اشرف زیارت کے لئے گئے ہوئے تھے ۔شہر کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں تھا دشمنوں کے مقابلہ میں فقط عورتیں بچے اور بوڑھے باقی رہ گئے تھے، جو کچھ نہیں کرسکتے تھے۔
    ۴۔ صاحب مفتاح الکرامۃ کے قول کے مطابق جس وقت وہابیوں نے شہر کربلا پر حملہ کیا بعض شیعہ قبیلوں میں اختلاف پایا جاتا تھا جیسے قبیلہ خزاعل وآل بعیج اور آل جشعم وغیرہ میں شدید اختلاف تھا اور آپس میں چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہتے تھے۔ (۱۸) جس کی بناپر ان میں وہابیوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں تھی۔
    ہم دیکھتے ہیں کہ انھیں وہابیوں نے جب دوسرے شہروں پر حملہ کرنا چاہا تو لاکھ کوشش کی لیکن پھر بھی کسی شہر میں داخل نہ ہوسکے کیونکہ وہاں پر یہ سب وجوہات نہیں تھیں ۔

• وہابیوں کا کربلا پر دوسرا حملہ

    وہابیوں نے تقریباً بارہ سال تک کربلا اور قرب وجوار کے علاقوں پر موقع موقع سے حملہ کیا ہے او رلوگوں کا قتل عام کیا نیز وہاں پر موجود مال و دولت غارت کی ہے جن میں سے سب سے پہلا حملہ ۱۲۱۶؁ ھ کا تھا جس کی تفصیل گزر چکی ۔
    صلاح الدین مختار، ان حملوں میں سے ایک حملہ کے بارے میں اس طرح بیان کرتے ہیں : ” ماہ جمادی الاوّل ۱۲۲۳؁ھ میں امیر سعود بن عبد العزیز نے دوبارہ اپنے عظیم لشکر کے ساتھ عراق کا رخ کیا جس میں بہت سے علاقے مثلاً نجد، حجاز، احسا، حبوب، وادی دواسر، بیشہ، رینہ، طائف اور تہامہ کے افراد شامل تھے، وہ سب سے پہلے کربلا پہنچا اس وقت کربلا شہر کی باہر کی دیوار او ربرجِ مستحکم ہوچکی تھی ،کیونکہ کربلا پر ہوئے پہلے حملہ نے اہل کربلا کو اپنے دفاع کی خاطر شہر کی دیوار کو مضبوط اور مستحکم بنانے پر مجبور کردیا۔
    وہابیوں کے لشکر نے شہر پر گولیاں چلائیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا، اور چونکہ اہل شہر نے ایسے وقت کے لئے اپنے دفاع کی بہت سی چیزوں کو جمع کر رکھا تھا لہٰذا انھوں نے اپنے شہر کا دفاع کیا ، امیر نے یہ دیکھ کر اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اپنے ساتھ لائی ہوئی سیڑھیوں کا استعمال کریں چنانچہ انھوں نے سیڑھیاں لگا کر دیوار پر چڑھنا شروع کیا۔
وہابی لشکر کربلا میں داخل ہونا ہی چاہتا تھا لیکن اس طرف سے اہل کربلا اپنے دفاع میں لگے ہوئے تھے، انھوں نے ان پر حملہ کیا ، جس کی وجہ سے وہ لوگ کربلا پر حملہ کی فکر چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ (۱۹)
    ابن بشر نے (گویا صلاح الدین مختار نے اس واقعہ کی تفصیل انھیں سے نقل کی ہے) مذکورہ واقعہ کو ۱۲۲۲؁ھ میں نقل کیا ہے اور اس طرح کہتے ہیں کہ گولیوں سے حملہ کی وجہ سے بہت سے (سپاہ سعود کے) سپاہی قتل ہوئے اور جب سعود نے دیکھا کہ کربلا شہر کی دیوار مضبوط اور مستحکم بنی ہوئی ہے اس نے ان کو کربلا پر حملہ کرنے سے روکا اور عراق کے دوسرے علاقوں کا رخ کیا ۔ (۲۰)
    مرحوم علامہ سید محمد جواد عاملی صاحب نے بھی مفتاح الکرامہ کی ساتویں جلد کے آخر میں اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ کتاب رمضان المبارک ۱۲۲۵؁ھ کی نویں تاریخ کی آدھی رات میں ختم ہوئی جبکہ ہمارا دل بہت پریشان تھا کیونکہ ”عُنَیْزَہ” کے عربوں نے جو وہابی خارجیوں کے عقائد سے متاثر تھے ، نجف اشرف کے اطراف اور قرب وجوار نیز حضرت امام حسین(ع) کے روضہ پر حملہ کیا اور وہاں پر قتل وغارت کا کھیل کھیلا، اس وقت کے مقتولین کی تعداد ۱۵۰ / افراد بتائی جاتی ہے اگرچہ بعض لوگ اس تعداد کو اس سے بھی کم بتاتے ہیں۔ (۲۱)
    ”عبد اللہ فیلبی” صاحب کہتے ہیں کہ کربلا پر وہابیوں کے اس حملہ نے شیعوں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کو تعجب اور حیرانی میں ڈال دیا ، لیکن اس حملہ کے انتقام میں ایک بہترین محاذبن گیا جس کی بنا پر سعودی حکومت کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ (۲۲)

• وہابیوں کے کربلا پر حملے کاذکر ایرانی کتابوں میں

    بعض ان ایرانی علماء نے اس حادثہ کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے جو وہابیوں کے حملہ کے وقت یا اس کے نزدیک زندگی بسر کرتے تھے ،یہاںان کی بعض تحریروں کو ہوبہو یا خلاصہ کے طور پر نقل کرنا زیادہ مناسب ہے۔ (۲۳)
    (مؤلف کی اطلاع کے مطابق) ایرانی مؤلفوں میں سب سے قدیمی کتاب جس میں اس حادثہ کے بارے میں تحریر ہے وہ میرزا ابو طالب اصفہانی کی کتاب ہے ، موصوف وہابیوں کے کربلا میں قتل عام کے گیارہ ماہ کے بعد کربلا پہنچے ہیں ، او رجس وقت وہاں پہنچے ہیں صرف یہی واقعہ زبانزد خاص وعام تھا چنانچہ موصوف اس سلسلہ میں یوں رقمطراز ہیں:
    ” ۱۸ ذی الحجہ (عید غدیر) کو کربلا کے اکثر اور معتبر افراد نجف اشرف میں حضرت امیر المومنین علی (ع) کی مخصوص زیارت کے لئے گئے ہوئے تھے ، ادھر ۲۵۰۰۰ کا وہابی لشکر (عربی گھوڑوں اور بہترین اونٹوں پر سوار) شہر کربلا میں داخل ہوا ، جس میں سے بعض لوگ زائرین کے لباس میں پہلے ہی سے شہر میں داخل ہوچکے تھے اور شہر کا حاکم عمر آقا ان کے ساتھ ملا ہوا تھا(یعنی ان سے سانٹھ گانٹھ کئے ہوئے تھا ”یہ بات حاشیہ سے نقل ہوئی ہے”) جس کی وجہ سے وہابی لوگ پہلے ہی حملے میں شہر میں داخل ہوگئے اور یہ نعرے بلند کئے، ”اقتلوا المشرکین” و ” اذبحوا الکافرین”، یہ سن کر عمر آقا ایک دیہات کی طرف بھاگ نکلا ، لیکن بعد میں اپنی کوتاہیوں کی بناپر سلیمان پاشا کے ہاتھوں قتل کیا گیا۔
    وہ لوگ قتل وغارت کے بعد گنبد کی سونے کی اینٹوں کو اکھاڑنا چاہتے تھے لیکن چونکہ یہ اینٹیں بہت مضبوطی سے لگائی گئی تھیں، لہٰذا جب ان کو اکھاڑ نہ سکے تو گنبد کے اندر کا حصہ کلہاڑیوںوغیرہ سے توڑ ڈالا اور عصر کے وقت بے خوف وخطر اپنے وطن کو لوٹ گئے، تقریباً پانچ ہزار لوگوں کو قتل کیا او ر زخمیوں کی تعداد تو بے شمار تھی منجملہ میرزا حسن ایرانی شاہزادہ، میرزا محمد طبیب لکھنوی وعلی نقی لاہوری اور ان کے ساتھ میرزا قنبر علی وکنیز وغلام وغیرہ،اور حضرت امام حسین (ع) کے روضہ مبارک اور شہر کا جتنا بھی قیمتی سامان تھا سب غارت کردیا۔
     اس قتل وغارت میں حضرت امام حسین (ع) کے صحن میں مقتولین کا خون بہہ رہا تھا اور صحن مبارک کے تمام حجرے مقتولین کی لاشوں سے بھرے پڑے تھے ، حضرت عباس (ع) کے روضہ اور گنبد کے علاوہ، اور کسی کو بھی اس حادثہ سے نجات نہیں ملی ، اس حادثہ کی وجہ سے لوگوں میں اس قدر خوف ووحشت تھی کہ میں اس حادثہ کے گیارہ مہینہ بعد کربلائے معلی گیا ہوں لیکن پھر بھی اس حادثہ میں اتنی تازگی تھی کہ صرف یہی حادثہ لوگوں کی زبان پر تھا، اور جو لوگ اس حادثہ کو بیان کرتے تھے وہ حادثہ کو بیان کرتے کرتے رونے لگتے تھے اور اس حادثہ کی وہ درد بھری داستان تھی کہ سننے والوں کا بھی رُواں کھڑا ہوجاتا تھا۔
لیکن اس حادثہ کے مقتولین کو بڑی بے غیرتی سے قتل کیا گیا تھا بلکہ جس طرح گوسفند کاہاتھ پیر باندھنے کے بعد بے رحم قصّاب کے حوالے کردیاجاتا ہے اس طرح سے ان لوگوں کو ذبح کیا گیا۔
    اور جس وقت وہابی لشکر شہر سے باہر نکل گیا اس وقت اطراف کے اعراب نے ان کے پلٹنے کا شور مچایا اور جب شہر کے لوگ دفاع کے لئے شہر سے باہر باغات کی طرف پہونچے تو خود وہ اعراب گروہ گروہ کرکے شہر میں داخل ہوئے اور وہابیوںسے بچا ہوا تمام سامان غارت کردیا، اس طرح شب وروز لوٹ مار ہوتی رہی، اور اس وقت جو شخص بھی شہر میں داخل ہوتا تھا وہ قتل ہوجاتا تھا، اور جب ہم نے وہابی مذہب کے اصول وفروع اور اس کے ایجاد کرنے والے کا حسب ونسب معلوم کیا تو کسی نے نہیں بتایا، کیونکہ اس شہر کے رہنے والے افراد عثمانی بادشاہوں کے تحت تاثیر اور نسبتاً کم عقلی کی وجہ سے ان کے بارے میں نہیں جانتے تھے اور اس کے معلوم کرنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے تھے۔ (۲۴)
     سید عبد اللطیف شوشتری نے کتاب ”تحفۃ المعالم” میں شہر کربلا پر وہابیوں کے حملے کا ذکر کیا ہے اور وہابیوں کے بعض عقائد کو لکھا ہے جس کو ہم نے باب پنجم میں ذکر کیا ہے ، یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ کتاب ”تحفۃ المعالم” ۱۲۱۶؁ھ کی تالیف ہے یعنی جس سال کربلائے معلی پر وہابیوں کا حملہ ہوا ہے اور اس کتاب کا ضمیمہ دوسال بعد بنام ”ذیل التحفۃ” کے نام سے لکھا گیا ہے۔
     مرحوم میرزائے قمی کا وہ خط جس میں وہابیوں کے بارے میں ان کے کربلا کے حملہ کے ضمن میں ذکر ہوا ہے جس کو ہم نے عبد الرزاق دنبلی کی تفصیل کے ساتھ باب پنجم میں بیان کیا ہے۔
    اس سلسلہ میں رضا خان ہدایت صاحب یوں رقمطراز ہیں کہ ۱۲۱۶؁ھ کے آخری حصے میں ۱۸ ذی الحجہ عید غدیر صبح کے وقت سعود اور اس کے لشکر نے حضرت امام حسین (ع) ے روضہئ مبارک پر حملہ کردیا اور بے خبری کے عالم میں شہر پر قبضہ کرلیا ، اس وقت شہر کے بہت سے افراد زیارت امام علی ؑکے لئے نجف اشرف گئے ہوئے تھے اور صرف کمزور او ربوڑھے زاہد و عابد حضرات موجود تھے وہ لوگ روضہ امام حسین (ع) میں نماز اور عبادت میں مشغول تھے وہابیوں نے تجّار اور حرم میں ساکن افرادکے کئی لاکھ تومان غارت کردلئے اور بہت زیادہ کفر اور الحاد کا مظاہرہ کیا او رتقریباً چھ گھنٹوں میں سات ہزار علماء او رمحققین کو قتل کرڈالا، اور عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں پر وہ ظلم کیا کہ ان کے خون سے سیلاب جاری تھا ، حق پرست اور متقی لوگ جو حضرت امام حسین (ع) کے ساتھ رہکر شہادت کے درجہ پر فائز ہونا چاہتے تھے لیکن اس زمانہ میں نہیں تھے انھیں حضرت کی بارگاہ میں جام شہادت مل گیا اور شہدائے کربلا کے ساتھ ملحق ہوگئے۔ (۲۵)
    ”میرزا محمد تقی سپہر ”رقمطراز ہیں : ”عبد العزیز نے جس وقت نجف اشرف کا رخ کیا اور حضرت کے روضہئ مبارک پر حملہ کرنا چاہا او رنجف اشرف کے گنبد کو گرانا چاہا اور وہاں پر زیارت کرنے والوں کو جنھیں وہ اپنے خیال میں بت پرست جانتا تھا ان سب کو قتل کرنا چاہا تو اس نے سعود کی سرداری میں ایک لشکر تیار کیا اور نجف کی طرف روانہ کیا اس لشکر نے نجف اشرف کا محاصرہ کرلیا، قلعہ پر کئی حملے بھی کئے لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ، مجبوراً اس نے واپسی کا ارادہ کیا اور وہاں سے کربلا ئے معلی کا رخ کیا بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ طوفان کی طرح کربلائے معلی پر حملہ کردیا وہ دن عید غدیر کا دن تھا۔
    شہر میں داخل ہونے کے بعد انھوں نے پانچ ہزار لوگوں کا خون بہایا حضرت امام حسین ؑ کی ضریح مقدس کو بھی توڑ ڈالا، وہاں موجود قیمتی سامان جومختلف ممالک کے شیعوں کے ذریعہ بطور نذر وہاں آیا تھا سب غارت کردیا بہترین قندیلوں کو توڑ ڈالا سونے کی اینٹوں کو حرم مطہر کے دالان سے نکال لیا حرم مطہر میں ہر ممکن توڑ پھوڑ کی، اور چھ گھنٹے کی اس قتل وغارت کے بعد شہر سے باہر نکل گئے اورنفیس اور قیمتی سامان کو اپنے اونٹوں پر لاد کر درعیہ شہر کی طرف نکل گئے۔ (۲۶)
    قارئین کرام ! جناب سپہر صاحب کی یہ عبارت دوسرے مؤلفوں سے فرق کرتی ہے، اسلئے کہ وہابیوں نے پہلے کربلا ئے معلی پر حملہ کیا اس کے بعد نجف اشرف پر حملہ کیا ہے مگر یہ احتمال دیا جائے کہ ان کی مراد قبیلہ خزاعل کے ذریعہ دفع شدہ حملہ ہو ۔
۱)۔ دائرۃ المعارف اسلامی جلد اول ص ۱۹۲، مذکورہ شیعہ قبیلہ کا واقعہ نجف کے حملہ کے تحت بیان ہوگا وہابیوں کے کربلا پر حملہ کرنے سے اس واقعہ کا کوئی خاص ربط نہیں ہے ، یہ بات معلوم رہے کہ ۱۲۱۴؁ھ میں وہابیوں نے نجف پر حملہ کیا تھا لیکن خزائل نامی قبیلہ نے ان کا مقابلہ کیا اور وہابیوں کے تین سو افراد کو قتل کرڈالا تھا۔ (دوحۃ الوزرا، ص۲۱۲)
۲)۔ تاریخ المملکۃ العربیۃ السعودیہ جلد اول ص ۷۳.
۳)۔ تیرہویں صدی ہجری کے وہابی مورخ ومؤلف .
۴)۔ تاریخ المملکہ العربیۃ السعودیہ جلد اول ص ۷۷، ۷۸.
۵)۔ عنوان المجد فی تاریخ نجد جلد اول ص ۱۲۱، ۱۲۲.
۶)۔ مفتاح الکرامۃ ، خاتمہئ جلد پنجم ص ۵۱۲، طبع مصر.
۷)۔ روضات الجنات ج۴ ص ۱۹۸.
۸)۔ کتاب ”نزہۃ الغری” کے مؤلف شیخ خضر ثانی سے نقل کرتے ہیں کہ وہابیوں نے حبیب ابن مظاہر کی قبر کی ضریح جو لکڑی سے بنی ہوئی تھی توڑ کر اس میں آگ لگادی، اور اس سے حرم مطہر کے قبلہ کی طرف دالان میں قہوہ (چائے) بنایا، اس کے بعد حضرت امام حسینں کی قبر کی ضریح کو بھی توڑنا چاہتے تھے لیکن چونکہ اس میں لوہا لگا ہوا تھا جس کی بناپر اس کو نہ توڑ سکے.(ص۵۲)
۹)۔ تاریخ کربلا وحائر حسین ص ۱۷۴.
۱۰)۔ تاریخ کربلا وحائر حسین ص ۱۷۲.
۱۱)۔ العراق قدیماً وحدیثاً ص ۱۲۷.
۱۲)۔ حدائق السیاحہ ص ۴۲۷.
۱۳)۔ حضرت امام حسین ں کے خزانہ کے غارت ہونے پر دوسری دلیل یہ ہے کہ شیخ خضر نے بہت سی ان چیزوں کو وہابیوں کے پاس دیکھا ہے جو غارت کرنے کربلا میں آئے تھے ، جیسے ایک بڑا قرآن بہت خوبصورت تحریر میںجس پر سونے سے جدول بنے ہوئے تھے، اور حضرت امام حسین ؑ کے خزانہ سے متعلق ہیرے وجواہرات سے مزین تلواریںوغیرہ بھی تھیں.(نزہۃ الغریٰ ص۵۲)
۱۴)۔ ۱۲۱۳ھ میں علی پاشا والی بغدادکے حکم سے نجد پر حملہ کیا گیا اور اس کے بعد ہوئے واقعات کو دوحۃ الوزرا میں تفصیل کے ساتھ نقل کیا گیا ہے (ص ۲۰۴ سے) اس کے بعد علی پاشا اور سعود بن عبد العزیز کے درمیان ایک صلح ہوئی جس میں ایک بات یہ تھی کہ عراق سے جانے والے حجاج کو وہابی حضرات کچھ نہ کہیں اور دوسری بات یہ تھی کہ عراق پر حملہ کرنے سے باز رہیں، چنانچہ عبد العزیز نے اپنے خط میں اسی صلح کی طرف اشارہ کیا ہے.
۱۵)۔ دوحۃ الوزرا ، ص ۲۱۳ سے ۲۱۷ تک کا خلاصہ.
۱۶)۔ میرزا ابو طالب اپنے سفر نامے میں(جس کے بعض حصہ کو بعد میں ذکرکیا جائے گا) اس طرح لکھتے ہیںکہ عمر آقا کربلا کا حاکم وہابیوں کا ہم زبان او رہم قول تھا جب وہابیوں نے حملہ شروع کیا اور یہ نعرہ ”اقتلوا المشرکین” و”اذبحوا الکافرین” بلند کیا اس وقت عمر آقا ایک دیہات میں جا چھپا ، اور آخر کار سلیمان پاشا کے ہاتھوں قتل ہوا۔ (ص۴۰۸)
۱۷)۔ میرزا ابو طالب صاحب وہابیوں کے حملہ کے گیارہ مہینہ بعد کربلا پہنچے ،وہ فرماتے ہیں کہ شہر کربلا کی دیوار مٹی کی تھی جس کا عرض بھی کم تھا اور مضبوط بھی نہیں تھی جس کی بناپر وہابی لوگ اس کو گراکر شہر میں داخل ہوگئے تھے۔ (سفر نامہ ص ۴۰۸)
۱۸)۔ مفتا ح الکرامۃ جلد ۷ ص ۶۵۳، گزشتہ چار وجوہات کے علاوہ ایک دوسری وجہ یہ بھی بیان کی جاسکتی ہے کہ بغداد اور اس کے قرب وجوار میں طاعون کی بیماری پھیل چکی تھی ، (دوحۃ الوزرا ص ۲۱۶) جس کی بنا پر شہر کے ذمہ دار افراد اپنی جان بچانے کی فکر میں تھے لہٰذا وہ شہر کربلا سے دفاع نہ کرسکے.
۱۹)۔ تاریخ المملکۃ العربیۃ السعودیہ جلد اول ص ۹۷، ۹۸.
۲۰)۔ عنوان المجد جلد اول ص ۱۴۲.
۲۱)۔ مفتاح الکرامۃ ج ۷ ص ۶۵۳.
۲۲)۔ تاریخ نجد ص ۹۹.
۲۳)۔ ان تحریروں میں اگرچہ بعض غلطیاں بھی ہیں لیکن اس کے ساتھ بہت سے دقیق اور باریک نکات بھی ملتے ہیں.
۲۴)۔ مسیر طالبی ص ۴۰۸، ۴۰۹.
۲۵)۔ روضۃ الصفائ، ناصری ج ۹ ص ۳۸۱.
۲۶)۔ ناسخ التواریخ جلد اول ص ۱۱۹، ۱۲۰.

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.