تیرہویں معصوم امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت
شوق وصال اور نماز شبآٹھ ربیع الاول سنہ 260 ہجری کی صبح وعدہ دیدار آن پہنچا، دکھ و مشقت کے سال اختتام پذیر ہوئے۔ قلعہ بندیوں، نظربندیاں اور قید و بند کے ایام ختم ہوئے۔ ناقدریاں، بےحرمتیاں اور جبر و تشدد کا سلسلہ اختتام پذیر ہوئے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام ایک طرف سے قربِ وصالِ معبود سے شادماں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت اور آپ (ص) کی دو امانتوں [قرآن و عترت) کے انجام سے فکرمند، غریب الوطنی میں دشمن کے زہر جفا کی وجہ سے بستر شہادت پر درد کی شدت سے کروٹیں بدل رہے ہیں لیکن معبود سے ہم کلام ہونے کو پھر بھی نہ بھولے اور نماز تہجد ابن الرسول (ص) لیٹ کر ادا کی وہ بھی شب جمعہ کو؛ جو رحمت رب العالمین کی شب ہے؛ وہی شب جو آپ (ع) کی پرواز کی شب ہے۔ نماز میں بہت روئے تھے شوق وصال کے اشک۔آسمان و زمین کا سوگآپ (ع) نے نماز فجر بھی اپنے بستر پر لیٹ کر ہی ادا فرمائی وہ بھی اٹھائیس سال کی عمر اور عین شباب میں؛ آپ (ع) کی آنکھیں قبلہ کی طرف لگی ہوئی تھیں جبکہ زہر کی شدت سے آپ (ع) کے جسم مبارک پر ہلکا سا رعشہ بھی طاری تھا۔ آپ (ع) کے لبوں سے بمشکل “مہدی” کا نام دہراتے رہے اور پھر مہدی آہی گئے اور چند لمحے بعد آپ (ع) اور آپ (ع) کے فرزند مہدی کے سوا کوئی بھی کمرے میں نہ تھا اور راز و نیاز اور امانتوں اور وصیتوں کے لمحات تیزی سے گذر رہے تھے اور ابھی آفتاب طلوع نہيں ہوا تھا کہ گیارہویں امام معصوم کی عمر مبارک کا آفتاب غروب ہوا اور آسمان و زمین پر سوگ و عزا کی کیفیت طاری ہوئی۔ اَلسَّلامُ عَلَيكَ يا مَولايَ يا اَبامُحَمَّدِ الحَسَنِ بنِ عَليٍّ الهادي الْمَهْدي وَ رَحْمَةُ اللّهِ وَ بَرَکاتُهُ. اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا وَليَّ اللّهِ وَابنَ اَولِيائِه. اَلسَّلامُ عَليكَ يا حُجَّة اللّهِ وَ ابنَ حُجَّتِهِ. اَشْهَدُ يا مَولايَ اِنَّكَ اَقَمْتَ الصَّلوةَ وَ آتَيْتَ الزَّکوةَ وَ اَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَيْتَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ دَعَوْتَ اِلی سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِکْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ عَبَدتَ اللّهَ مُخْلِصا حَتّي آتیک اليَقينُ۔سلام ہو آپ پر اے میرے مولا اے ابا محمد حسن بن علی الہادی المہدی اور اللہ کی رحمت اور برکتیں۔ سلام ہو آپ پر اے اللہ کے ولی اور اللہ کے اولیاء کے فرزند۔ سلام ہو آپ پر اے حجت خدا اور اے حجت خدا کے فرزند۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز بپا رکھی اور زکواة ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور ‘اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دی اور اخلاص کے ساتھ تا دم شہادت اللہ کی عبادت اور بندگی کی۔ کنیت اور القاب امام حسن عسکری علیہ السلام کی کنیت “ابومحمد” ہے جبکہ مختلف کتب میں آپ (ع) کے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں جن میں مشہورترین “عسکری” ہے جس کا سبب شہر سامرا کے محلہ “عسکر” میں آپ (ع) کی رہائش یا بالفاظ دیگر “قلعہ بندی” ہے۔ “زکی” یعنی پاک و تزکیہ یافتہ، آپ (ع) کا دوسرا مشہور لقب ہے۔ علم و عبادتبےشک ہر امام معصوم (ع) کا علم منبع وحی سے ماخوذ ہوا کرتا تھا اور حتی دشمنوں اور مخالفین نے تصدیق کی ہے کہ ائمہ علیہم السلام کا علم اس قدر وسیع تھا کہ بیان کے دائرے میں نہیں سماتا۔ امام علیہ السلام کے احکامات، فرامین، اقوال اور دروس و پیغامات اور آپ (ع) سے منقولہ احادیث و روایات سے آپ (ع) کی دانش کا اظہار ہوتا ہے۔ بزرگ عیسائی عالم بختیشوع اپنے شاگرد بطریق سے کہتا ہے: “ابن الرضا ابومحمد عسکری کی طرف چلے جاؤ اور جان لو کو ہمارے زمانے میں آسمان تلے ان سے بڑا کوئی عالم نہيں ہے اور خبردار! اگر وہ تمہیں کوئی حکم دے تو ہرگز اعتراض مت کرنا”۔آپ (ع) کی حیات طیبہ خدائے مہربان سے انس و محبت اور صبر و شکر کا اعلی نمونہ تھی۔ محمد شاکری نے روایت کی ہے کہ “میرے مولا اور استاد امام حسن عسکری علیہ السلام محراب عبادت میں سجدے میں چلے جاتے تھے اور آپ (ع) کا سجدہ اور ذکر و دعا کا یہ سلسلہ اس قدر طویل ہوجاتا تھا کہ میں سوجاتا اور جاگ جاتا اور دیکھتا تھا کہ آپ (ع) ابھی سجدے کی حالت میں ہیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے سجدے رات کو فجر سے متصل کردیتے تھے اور آپ (ع) کی عارفانہ مناجات ہر مردہ اور دنیا زدہ دل کو آسمانی حیات بخش دیتی تھی۔ آپ (ع) نے اپنے جد امجد امیرالمؤمنین علیہ السلام کی مانند دنیا کو تین طلاقیں دی تھیں اور دنیا کی نعمتوں سے اپنی ضرورت سے زیادہ اٹھانا پسند نہیں فرمایا کرتے تھے اور اپنی پوری زندگی صرف آخرت کا خانہ تعمیر کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ زندگی دشمن کے محاصرے میںمامون کی موت کے بعد معتصم عباسی بغداد میں داخل ہوا اور لوگوں سے اپنے لئے بیعت لی اور اس کے بعد حکومت میں اعلی مناصب پر براجماں ترکوں کی مدد سے بغداد کے شمال مشرق میں شہر “سامرا” کی بنیاد رکھی۔ اس شہر میں اس نے ایک محلہ فوجیوں کو مختص کیا جس کو عسکر کہا جانے لگا۔ عباسی حکمران اپنے عباسی اور اموی اسلاف کی مانند شیعیان آل محمد (ص) اور بطور خاص فرزندان رسول (ص) ائمہ طاہرین (ع) سے خائف رہتے تھے چنانچہ سامرا کی تعمیر کے بعد دسویں امام حضرت امام علی النقی الہادی علیہ السلام اور آپ (ع) کے فرزندوں ـ بالخصوص امام حسن عسکری علیہ السلام ـ کو عسکر کے محلے میں نظر بند رکھا گیا اور یہ محلہ آل محمد (ص) کے جبری مسکن میں تبدیل ہوا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کا محاصرہ اس قدر شدید تھا کہ اہل خاندان اور دوستوں کا آپ آپ (ع) سے رابطہ تقریبا ناممکن تھا۔ فیض دیدار سے محرومیامام حسن عسکری علیہ السلام چھ سال کے مختصر عرصے تک منصب امامت الہیہ پر فائز رہے اور آپ (ع) کی امامت کا پورا دور محلہ عسکر میں گذرا۔ شیعیان غالبا آپ (ع) کے فیض دیدار سے محروم تھے اور شیعیان و پیروان اہل بیت (ع) کی خبریں اور معلومات چند ہی افراد کے ذریعے امام (ع) کو پہنچتی تھیں اور آپ (ع) کے فرامین اور احکامات بھی ان ہی افراد کے ذریعے شیعیان عالم کو پہنچا کرتے تھے۔ یہ لوگ خفیہ طور پر محلے کی نگرانی کرنے والے فوجی دستوں میں نفوذ کرچکے تھے یا مختلف طریقوں سے محلے میں آمد و رفت کیا کرتے تھے۔ امام علیہ السلام پر شدید دباؤعباسی ملوک ائمہ پر مسلسل دباؤ بڑھا رہے تھے اور امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کے بعد اس دباؤ میں شدت آئی تھی اور دباؤ امام جواد، امام ہادی اور امام عسکری علیہم السلام کے زمانے میں عروج کو پہنچا تھا۔ گیارہویں امام (ع) کے زمانے میں اس دباؤ میں بہت زيادہ شدت لائی گئی تھی کیونکہ امام رضا علیہ السلام کے زمانے میں شیعیان اہل بیت (ع) نے بہت زیادہ پیشرفت کی تھی اور ائمہ (ع) پر دباؤ کا سبب بھی یہی پیشرفت تھی۔ امام عسکری علیہ السلام کے زمانے میں پیروان آل محمد (ص) ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہوئے تھے چنانچہ دباؤ میں بھی اسی تناسب سے شدت آئی تھی۔ شیعیان آل محمد (ص) عباسی ملوکیت کو جائز حکومت نہيں سمجھتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ حکومت کا شرعی اور قانونی حق صرف آل محمد کے ائمہ کو ہی پہنچتا ہے۔ اس زمانے میں خاندان آل محمد (ص) میں ممتاز ترین شخصیت، امام حسن عسکری علیہ السلام کی تھی۔ اور پھر متعدد روایات و احادیث سے ثابت تھا کہ ظالم اور استبدادی حکومتوں کو منہدم کردینے والے بارہویں امام، امام حسن عسکری علیہ السلام کی ذریت سے ہونگے چنانچہ عباسی خلیفہ نے موسی کی پیدائش کا راستہ روکنے کے لئے فرعون کے تمام کرتوتوں کی تقلید کی اور ہر جہت سے امام علیہ السلام کو زیر نگرانی رکھا۔ دشمن کا کردارامام علیہ السلام اسی وقت سے محاصرے میں تھے جب امام ہادی علیہ السلام کو عسکر میں نظربند کیا گیا یوں آپ (ع) کی عمر کے 20 سال محاصرے میں گذرے۔ لیکن خبیث بادشاہت کے منحوس عزائم محض محاصرے اور ناکہ بندی سے پورے نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ قرآن کی طرح عترت یعنی خاندان محمد (ص) بھی کسی صورت میں دشمنوں کے ساتھ ساز باز نہیں کرسکتا تھا اور ان کی شمع ہدایت شیعیان عالم کے درمیان بجھنا محال تھا چنانچہ انھوں نے ائمہ سلف کی مانند امام حسن عسکری علیہ السلام کو کمزور کرنے کے نت نئے منصوبوں میں مصروف رہتے تھے اور آپ (ع) کو آزار و اذیت پہنچانے اور دشواریاں پیدا کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے اور یوں امام و پیشوا سے فیض حاصل کرنے کے سلسلے میں پیروان آل محمد (ص) کو بھی دشواریوں سے دوچار کرتے تھے۔ دشمن کی سازشیںامام حسن عسکری علیہ السلام کے ایک بھائی کا نام جعفر تھا جس کو دشمن نے امام علیہ السلام کے خلاف استعمال کیا۔ جعفر امام ہادی علیہ السلام کے بڑے بھائی ہونے کے ناطے امامت کا دعویدار تھا اور امام عسکری علیہ السلام کی شہادت تک اسی دعوے پر قائم تھا۔ بنی عباس بھی ـ جو اصولا آل محمد (ص) اور ان کی امامت کے خونی دشمن تھے ۔ اس کو اپنے دعوے پر قائم رہنے کی ترغیب دلاتے رہتے تھے۔ چنانچہ اس شخص کا عباسی بادشاہ کے دربار میں آنا جانا تھا اور بادشاہ اور اس کے درباریوں کے کان بھرنے اور امام علیہ السلام کو اذيت پہنچانے میں مصروف رہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس شخص نے بعد میں توبہ کی اور تواب کہلایا۔ امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد عباسی بادشاہ “معتمد” نے آپ (ع) کا ترکہ آپ (ع) کی والدہ اور بھائی جعفر کے درمیان تقسیم کیا اور یوں لوگوں کو یہ جتانے کی کوشش کی کہ گویا آپ (ع) کی کوئی اولاد نہيں تھی اور آپ لاولد دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اور یوں وہ مسلمانوں کو بارہویں امام (ع) کے وجود سے مایوس کرنا چاہتا تھا لیکن اس کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ شیعیان آل محمد (ص) کا عقیدہ تھا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا ایک بیٹے آپ (ع) کے بعد امام مسلمین ہیں اور کئی نمایاں شیعہ علماء اور شخصیات نے ان سے ملاقات بھی کی ہے اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اپنے والد کی شہادت کے بعد پردہ غیبت میں جانے والے ہیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے بھی اس سلسلے میں اپنے پیروکاروں کو پہلے ہی سے تیار کررکھا تھا۔ نماز جنازہآپ (ع) کے جنازہ اطہر کو غسل و تکفین کے بعد آپ (ع) کے گھر کے صحن میں رکھا گیا تھا۔ آپ کے بھائی جعفر ۔۔۔ آگے بڑھا اور آپ (ع) کے جنازے کی نماز پڑھانے کی کوشش کی۔ ابھی اس نے تکبیر کہنا ہی چاہی تھی کہ ایک گندمی رنگ اور سیاہ بالوں کے کمسن بچے نے باہر آکر جعفر کا لباس پکڑ لیا اور اس کو پیچھے دھکیل کر فرمایا: چچا! ہٹ جاؤ، مجھ کو ہی اپنے والد کے جنازے کی نماز پڑھانی چاہئے” جعفر ایسی حالت میں پیچھے ہٹ گیا کہ اس کے چـہرے کی حالت بگڑ گئی تھی لیکن وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ فرزند امام (ع) نے آپ (ع) کے جنازہ اطہر کی نماز پڑھائی اور وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام تھے وہی جن کے آنے کا انتظار ہے اور آج ہی بعد از ظہر ان ہی کے زمانۂ امامت کا آغاز ہورہا ہے۔ وہی جو اس زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے۔ بہرحال سازش ناکام ہوچکی تھی اور نماز جنازہ کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کو آپ کے والد ماجد حضرت امام ہادی علیہ السلام کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ غیبت امام زمانہ (ع) کے لئے ماحول سازیامام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے نہایت دشوار ایام حیات میں مسلمانوں کو امام زمانہ (عج) کی غیبت کے لئے تیار کیا اور اس امر کو اپنی اہم ترین ذمہ داری کی حیثیت سے انجام دیتے رہے؛ اسی بنا پر آپ (ع) کم ہی عوام سے رابطے میں رہتے تھے اور کم ہی لوگوں سے ملاقات کرتے تھے اور پھر ملاقات کا امکان بھی کم ہی تھا جو ممکن ہے کہ اللہ کی حکمت کا تقاضا بھی رہا ہو۔ آپ اپنے خاص نائبین کے ذریعے عوام سے رابطے میں رہتے تھے اور لوگوں کے دینی مسائل بھی ان کے توسط سے حل کیا کرتے تھے اور علماء کے خطوط و مکاتیب بھیج کر ضروری ہدایات دیا کرتے تھے۔ امام علیہ السلام نے اس روش سے اپنے فرزند کی غیبت کے لئے ماحول تیار کیا اور لوگوں کو امام (ع) سے دور رہ کر فیضیاب ہونے کا عادی بنایا تاکہ امام زمانہ (ع) کی غیبت ان کے لئے غیرمعمول اور نامانوس نہ ہو۔ امام زمانہ کا تعارف امام حسن عسکری علیہ السلام علی ابن حسین بن بابویہ قمی کے نام تحریر فرماتے ہیں: “ہمیشہ کے لئے صبر و استقامت کا دامن تھامنے رکھنا اور اپنے امام غائب (ع) کا انتظار کرتے رہنا۔ ہمارے شیعہ مسلسل غم و اندوہ میں زندگی بسر کرتے ہیں جب تک کہ میرے فرزند کا ظہور نہیں ہوتا۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بشارت دی ہے، وہ وہی ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ یہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی ہوگی”۔ زمین حجت الہی سے سے کبھی خالی نہیں ہوگی۔احمد بن اسحق کہتے ہیں: “میں امام علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا۔ میں امام علیہ السلام سے آپ (ع) کے بعد کے امام کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا۔ امام علیہ السلام نے میرے سوال پوچھنے سے قبل ہی فرمایا: “اے احمد! جس دن خدائے عزّ و جلّ نے جب سے حضرت آدم علیہ السلام کو خلق فرمایا ہے، ایک لمحے کے لئے بھی زمین کو حجت سے خالی نہيں چھوڑا اور قیامت تک بھی اس کو حجت سے خالی نہيں چھوڑے گا؛ خداوند متعال حجت و امام کے توسط سے زمین والوں سے بلائیں ٹالتا ہے اور اس کی برکت سے بارشیں برستی ہیں”۔ اس کے بعد فرمایا: “خدا کی قسم! وہ غائب ہونگے اور اس غیبت کے دوران کوئی بھی گمراہی اور ہلاکت سے چھٹکارا نہ پاسکے گا سوائے ان لوگوں کے جو ان کی امامت پر ّّثابت قدم رہتے ہیں”۔ میں نے پوچھا: اے فرزند رسول خدا (ص)! آپ کے بعد ہمارا امام کون ہے؟ چنانچہ امام علیہ السلام عجلت سے اٹھے اور گھر کی اندرونی میں تشریف لے گئے اور ایک تین سالہ فرزند کے ہمراہ واپس آئے جن کا چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند چمک رہاتھا اور فرمایا: اے احمد ابن اسحق! اگر تم خدا اور اس کے اولیاء اور حُجَج کے ہاں عزیز نہ ہوتے تو میں یہ فرزند تمہیں نہ دکھاتا”۔