صحیح احادیث کو جعلی اور تحریف شدہ احادیث سے تشخیص
حدیث جعل کرنا اور حدیث میں “دس” (کمی بیشی اور متن میں تغییر ایجاد کرنا) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ سے ہی دشمنوں اور منافقین کے ذریعہ انجام پاتا رہا ہے اور یہ خود غرض اور فرصت طلب افراد کے مسلمانوں کی صفوں میں نفوذ کرنے کی نشانی ہی ـ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اس ریشہ دوانی کے برے اثرات کو روکنے کے لئے٬ اپنی حیات کے دوارن اقدام کیا ہے اور عقلمند اور انصاف پسند لوگوں کو اس خطرہ سے آگاہ کیا ہے ـ ائمہ اطہار علیہم السلام اور ان کی تبعیت میں علمائے اعلام بھی ہمیشہ اس عظیم خطرہ کے بارے میں متوجہ تھے اور انہوں نے بھی اس کے ساتھـ مقابلہ کرنے کے طریقہے بیان کئے ہیں ـ
مسلمانوں کی فکری تاریخ٬ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دینی پیشواؤں کی رہنمائیوں سے تمام علوم میں٬ من جملہ٬ صحیح احادیث کی تشخیص کے سلسلہ میں استفادہ کیا گیا ہے ـ حدیث کے صحیح ہونے کو معلوم کرنے کے مختلف طریقوں کا موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس سلسلہ میں وسیع پیمانہ پر کوششیں کی گئی ہیں٬ ہم اس مقالہ کے ضمن میں ان طریقوں میں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے ـ
اولاً: شیعوں کی اکثر روایات حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے زمانہ سے ہم تک پہنچی ہیں٬ اگر چہ اس سے پہلے بھی حدیث کے سلسلہ میں کجھـ کتابیں تالیف کی گئی ہیں٬ لیکن اکثر یہ کتابیں اسی زمانہ سے مربوط ہیں ـ شیخ مفید نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے حالات کے ضمن میں اپنی کتاب “ارشاد” میں٬ ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب “مناقب” میں اور طبرسی نے “اعلام الوری” میں لکھا ہے: جن موثق راویوں نے مذہبی اختلاف کے باوجود امام صادق (ع) سے روایتیں نقل کی ہیں٬ ان کی تعداد چار ہزار افراد پر مشتمل تھی[1] ـ ان میں سے بعض افراد کتابیں تالیف کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ بعد میں ان کی یہ کتابیں٬ “اصول اربعہ مائة” کے نام سے مشہور ہوئیں٬ یہ چارسو اصول٬ شیعوں کی اولین تالیفات ہیں ـ اگر چہ ان اصولوں میں سے چند ایک کے علاوہ باقی نہیں بچے ہیں لیکن ان اصولوں (تالیف) میں نقل کی گئی روایتیں کتب اربعہ (کافی٬ من لا یحضرہ الفقیہ٬ تہذیب اور استبصار) میں آئی ہیں[2] ـ
“اصل” کی تعریف کے سلسلہ میں کہا گیا ہے کہ٬ جو کچھـ راوی نے بلاواسطہ امام (معصوم) کی زبانی سنا ہے اور اسے درج کیا ہے٬ اسے “اصل” کہتے ہیں٬ لیکن اگر امام سے اخذ کی گئی کسی دوسری کتاب سے حدیثوں کا ایک مجموعہ جمع کیا جائے تو اسے “فرع” کہتے ہیں [3]ـ اس لحاظ سے ان نصوص میں کمی بیشی کا احتمال بہت کم ہے ـ
پس٬ ابتدائی مصادر کافی حد تک نقائص سے پاک ہیں٬ اگر چہ دوسرے احتمالات٬ یعنی روایات میں تقیہ اور اصول٬ تالیف کرنے والوں کے نام پر کسی کتاب کے وضع کرنے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ـ لیکن حدیث کو قبول کرنے کے طریقوں کے پیش نظر٬ من جملہ صاحب کتاب سے سننے٬ یا کتاب کو اس کے پاس پڑھنے یا شیخ (استاد) کی طرف سے شاگرد کو حدیث نقل کرنے کی اجازت دینے کی وجہ سے کتاب وضع کرنے کا احتمال عقلاء کی طرف سے قبول کرنے کی حد تک ختم ہوتا ہےـ یہ شیعوں کے حدیثی مصادر کے اصول کے بارے میں دقت اور انھیں جعل کرنے یا ہر قسم کی ریشہ دوانی سے محفوظ رکھنے کا طریقہ کا رہے ـ لیکن ان تمام دقتوں کے باوجود٬ شیعوں کی کتابوں میں ایسی حدیثیں بھی درج ہوئی ہیں٬ جو امام (ع) سے صادر نہیں ہوئی ہیں٬ کہ ان کو تصفیہ کرنے کے لئے مندرجہ ذیل امور شیعوں کی احادیث کی تاریخ میں واقع ہوئے ہیں ـ اس کے علاوہ مذکورہ دعوی کرنے والا اعتراف کرتا ہے کہ غلات اور مفوضہ نے بہت سی احادیث جعل کی ہیں٬ لیکن ایسا نہیں ہے کہ آج ہمارے پاس موجود احادیث کی کتابیں اس قسم کی روایتوں سے بھری ہوں اور ان کے سلسلہ میں تصفیہ کا کوئی بھی کام انجام نہیں پایا ہو٬ بلکہ بر عکس یہ کام چند مرحلوں میں انجام پایا ہے اور یہ تصفیہ صرف رجال شناسی سے مخصوص نہیں ہے ـ
1ـ حدیث کی سند اور متن کا ایک ساتھـ جعل کرنا
2ـ متن حدیث کو جعل کرنا لیکن سند بظاہر صحیح ہو ( سند صحیح ہے لیکن کسی دوسری روایت سے متعلق ہے )
حدیث کا تصفیہ دو قسم کا ہوتا ہے:
الف ـ متن اور سند کا تصفیہ
ب ـ متن کا تصفیہ
الف ـ متن اور سند کا تصفیہ:
1ـ شیعوں کی کتابوں میں جعلی احادیث داخل ہونے کے سلسلہ میں خود ائمہ معصومین (ع) نے سب سے پہلے آگاہی دیدی ہے٬ وہ افراد کو حدیث وضع اور جعل کرنے والوں کے بارے میں اشارہ فرماتے تھے اور اس کے ضمن میں احادیث میں جعل کئے گئے افکار و معانی کی قسموں کے بارے میں بھی اشارہ فرماتے تھے ـ عبداللہ بن مسکان٬ بعض صحابیوں کے زبانی امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت (ع) نے فرمایا: “خداوند متعال مغیرہ بن سعید کو لعنت بھیجے٬ وہ ہمیشہ میرے والد بزرگوار امام باقر (ع) کے بارے میں جھوٹ گھڑ تا تھا٬ خد اسے آگ کی گرمی چکھا دے٬ خدا ان پر لعنت کرے جو ہمارے بارے میں ایسی چیز کہیں٬ جس کا ہم اعتقاد نہیں رکھتے ہیں٬ خدا لعنت کرے ان لوگوں پر جو ہمیں خداوند متعال کی بندگی سے معزول کریں[4]” اس قسم کی آگاہی٬ ان متون اور سندوں کو مسترد کرنے کی سبب بنی٬ جن میں اس قسم کے گمراہ افراد کے افکار اور نام تھے ـ ائمہ اطہار (ع) کے صحابیوں اور شیعہ محدثین نے دقت نظر اور دور اندیشی سے اس قسم کے انحرافات کو کافی حد تک حذف کیا ہےـ
2ـ تصفیہ کا یہ کام٬ کتب اربعہ ( کافی٬ من لایحضرہ الفقیہ٬ استبصار اور تہذیب) لکھنے والوں کے زمانہ میں بھی انجام پایا ہے٬ جو لوگ ماہر اور متعہد تھے٬ جیسا کہ انہوں نے خود بیان کیا ہے٬ انھوں نے ایسی احادیث کو جمع کیا ہے جو ان کے اور ان کے خدا کے درمیان حجت ہوں[5]ـ یعنی وہ احادیث جو ان کی نظر میں صحیح تھیں ـ ایک طرف سے ہم جاننے ہیں٬ کہ قدما کے ہاں٬ صحیح کے معنی یہ تھے کہ ایک ایسی روایت جس کے صدور کے بارے میں اطمینان رکھتے ہوں[6]٬ کہ ایک حدیث کی سند اور متن کی تحقیق کا نتیجہ اس کے امام معصوم (ع) سے صادر ہونے پر اطمینان پیدا ہونا ہے ـ
بہر حال کتب رجالی فہرستی چارگانہ ( رجال کشی٬ فہرست نجاشی٬ رجال طوسی٬ فہرست طوسی) سے پہلے اصحاب کے پاس بہت سی رجالی کتابیں موجود تھیں ـ یعنی احادیث کا تصفیہ٬ معصومین (ع) کے زمانہ سے شروع ہوا ہے اور ہمارے محدثین احادیث کے رجال کے بارے میں آگاہی کے ساتھـ احادیث کو لکھنے کا اقدام کرتے تھے نہ آنکھیں بند کرکے اور تنقید و جرح و بحث کے بغیر یہ کام انجام دیتے تھے ـ مثال کے طور پر عبداللہ بن جبلہ کناتی ( وفات 210ھ )٬ محمد بن عیسی یقطینی٬ حسن بن محبوب ( وفات 224ھ)٬ حسن بن علی بن فضال (وفات 224ھ) اور دوسرے اصحاب کی کتب رجال قابل ذکر ہیں[7] ـ
اس کے بعد٬ کتب رجال فہرست کی چار کتابیں تالیف کی گئیں٬ جن میں روایات٬ کتب روایات اور مؤلفین کے استناد کا صحیح ہونے کی شناخت کے سلسلہ میں کافی کوششیں کی گئی ہیں ـ
ب ـ متن کا تصفیہ:
احادیث کے متن میں ہر قسم کی عمدی یا غیر عمدی تحریف کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل طریقوں سے استفادہ کیا گیا ہے:
1ـ حدیث کو ائمہ اطہار (ع) اور علماء کے سامنے پیش کرنا:
احادیث کے متن کے تصفیہ کے طریقوں میں سے ایک طریقہ٬ جسے ائمہ اطہار (ع) کے اصحاب٬ خاص کر متاخر ائمہ (ع) کے اصحاب٬ جیسے امام رضا (ع) سے امام عسکری (ع) تک کے اصحاب انجام دیتے تھے٬ ائمہ اطہار (ع) کی خدمت میں احادیث پیش کرنا تھا تا کہ روایات کے صحیح ہونے کے بارے میں اطمینان پیدا ہو سکے ـ
یہ طریقہ٬ جسے روایات میں “عرض الحدیث” کہا جا تا ہے٬ اکثر حدیث تدوین کرنے کے ابتدائی دور٬ یعنی “دورہ حضور” میں رونما ہوا ہے ـ اس روش میں حدیث کو معصوم امام (ع) یا بزرگ و قابل اعتماد اصحاب کی خدمت میں پیش کیا جا تا تھا اور حدیث کے بارے میں امام (ع) کی تائید یا انکار کو حاصل کیا جا تا تھا ـ
حدیث کو ائمہ اطہار کی خدمت میں پیش کرنے کا کام حدیث نقل کئے جانے کے زمانہ سے شروع ہوا ہے ـ قدیم کتابوں میں حضرت امام علی[8] (ع) امام حسن[9] (ع)٬ امام حسین[10] (ع)٬ امام سجاد[11] (ع) امام باقر[12] (ع) اور امام صادق (ع) و غیرہ کی خدمت میں پیش کرنے کے نمونے ملتے ہیں ـ
روایات کے متعدد مجموعوں کو امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سلسلہ اس امام معصوم کے زمانہ میں زور و شور سے جاری تھا ـ یہ وہ دور ہے٬ کہ جس میں تشیع کی ہویت مستحکم ہوئی اور شیعیان جعفری٬ زیدی شیعوں اور دوسرے فرقوں سے جدا اور مشخص ہوئے ـ
اس مکتب میں تربیت یافتہ اصحاب اور راویوں نے اس زمانہ میں شہرت٬ اور انھیں شیعوں اور ائمہ اطہار (ع) سے منسوب کئے جانے والے مطالب کی تحقیق کرکے ان کی حقیقت معلوم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی٬ اور انہوں نے بھی احادیث کے مجموعوں کو تحریر میں لاکر یانقل کرکے٬ شیعوں کی احادیث کی میراث کو تحفظ بخشنا ـ اس دور کے اہم ترین نامناسب جریان٬ غلوّ کا خط تھا ـ غالی٬ اقتدار کی بھوکے افراد تھے٬ کہ ائمہ اطہار علیہم السلام کی لئے ان کے حقیقی مقام سے بالاتر مقام معین کرکے اپنے آپ کو ان کے جانشین کے طور پر پیش کرتے تھے تا کہ اس راہ سے اپنے ناپاک عزائم تک پہنچ سکیں ـ ائمہ اطہار (علیہم السلام) بھی ابتداء سے اس گروہ اور ان کی گمراہی اور خطرات کے بارے میں آگاہ تھے اور دوسروں کو ان کے خطرات سے آگاہ کرتے تھے٬ کہ ان کے متعدد نمونے کتب رجال میں٬ خاص کر رجال کشی میں “ابوالخطاب” اور ” یونس بن ظبیان” نامی جیسے غالیوں کے حالات میں پائے جاتے ہیں[13] ـ
اس کے علاوہ یونس بن عبدالرحمن نے شیعوں کی بہت سی کتابیں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی ہیں٬ جن میں درج بہت سی احادیث سے حضرت (ع) نے انکار فرمایا ہے[14] ـ اس کے مانند بنی فضّال کی کتابوں کے بارے میں بھی آیا ہے٬ کہ امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے ان کتابوں کی روایتوں کی تائید فرمائی ہے[15] ـ
حدیث کو ائمہ کی خدمت میں پیش کرنے کا طریقہ٬ اس امر کا سبب بنا کہ شیعوں کی احادیث میں سادہ اندیشی حذف ہوئی اور حدیث جعل کرنے والوں پر روک لگ گئی٬ جن کی تعداد کم نہیں تھی ـ کسی حدیث کو امام (ع) کے توسط سے مسترد کرنے کا خطرناک احساس کافی تھا کہ٬ بہت سے منافقین کے لئے حدیث جعل کرنے میں رکاوٹ بن جائے٬ جو شیعوں کے صفوف میں نفوذ کر چکے تھے اگر چہ وہ بالکل ہی ختم نہیں ہوئے ـ
2ـ نسخوں کی مقابلہ خوانی:
یہ طریقہ کار٬ قدیم الایام سے علمائے اسلام٬ اصحاب پیغمبر (ص) اور ائمہ اطہار (ع) میں مرسوم تھا کہ ایک مدت کے بعد مؤلفین اپنی حدیث اور نصوص کے قلمی نسخوں کی با وثوق افراد کی صحیح٬ اصلی کتابوں سے مقابلہ اور تطبیق کرتے تھے ـ یہ طریقہ٬ تحریفوں اور عمدی یا سہوی کمی و بیشی کو دور کرنے کی ایک کوشش تھی ـ
3ـ حدیث نقل کرنے کی اجازت:
علمائے حدیث٬ حدیث نقل کرنے کی اجازت کو٬ حدیث کو منتقل کرنے کا اہم ترین طریقہ جانتے تھے٬ اور حدیث کو صحیح صورت میں منقل کرنے میں بڑی ہمت کی ہے ـ اس طرح کے علم حدیث کے اساتید اپنے شاگردوں کو تحریری یا زبانی طور پر حدیث نقل کرنے کی اجات دیتے تھے اور عام طور پر وہ ان اجازت ناموں میں اساتید٬ مشایخ اور اپنی تالیفات کا ذکر کرتے تھے ـ مثال کے طور پر٬ ایک نامور فقیہ٬ احمد بن ادریس اشعری قمی٬ شہر مقدس قم کے عالیقدر محدث اور تیسری صدی ہجری کی ایک نامور شخصیت تھے٬ کہ انھیں گیارہویں حضرت امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کی توفیق حاصل ہوئی ہے انہوں نے اپنے زمانہ کے امامیہ علماء اور دسیوں درخشاں چہروں سے مختلف علوم حاصل کئے اور انھیں فقہی حدیثی کتابیں تالیف کرنے کی توفیق حاصل ہوئی تھی ـ انہوں نے ائمہ اطہار (ع) سے متعدد روایتیں نقل کی ہیں ـ ان کی تربیت میں کئی شاگرد دانشور بن گئے ہیں اور انہوں نے ان کو روایت نقل کرنے کی اجازت دی ہے ـ ان کے سب سے اہم اور مشہورترین شاگردوں میں ثقہ الاسلام٬ محمد بن یعقوب کلینی قابل ذکر ہیں کہ وہ شیعوں کی قابل اعتمادترین حدیثی کتاب “کافی” کے مؤلف ہیں اور کلینی نے اس میں ابن ادریس کی روایتوں کو بلاواسطہ نقل کیا ہے ـ
روایت کی اجازت کے اہم فوائد میں سے٬ حدیث کی سند کا ائمہ معصومین (ع) سے اتصال ہے اور عام طور پر اساتید روایت کی اجازت میں سند کے سلسلہ کو بڑے مشائخ ملا محمد تقی مجلسی٬ شہید اول٬ علامہ حلی اور یا شیخ طوسی تک پہنچاتے ہیں اور وہاں پر توقف کرتے ہیں کیونکہ بڑے مشائخ کے طریقے معلوم ہیں ـ
4ـ فہرست کی روش:
ان طریقوں میں سے ایک فہرست کی روش ہے٬ قدما میں یہ روش رائج تھی٬ یعنی روایات کو ایک قسم کے قرائن سے جانچ پڑتال کرتے تھے اور اس کے بعد اسے قبول یا مسترد کرتے تھے ـ مثال کے طور پر غلو کے سلسلہ میں قمیوں کا مسلک سخت گیرانہ تھا٬ جیسا کہ ابن ولید صفاد کی تمام کتابوں کو بجز بصائر الدرجات نقل کرتے ہیں[16] ـ با وجودیکہ تمام کتابوں کے مؤلف محمد بن الحسن الصفار ہیں ـ یا ابن ولید کتاب نوادر الحکمة کے تمام رجال کی تائید کرتے ہیں٬ لیکن ان میں سے کچھـ افراد کو استثناء قرار دیتے ہیں[17] ـ اس لئے نہیں کہ یہ افراد ضعیف ہوں بلکہ جو روایت اس سند کے ساتھـ اس کتاب میں درج کی گئی ہے قابل قبول نہیں ہے ـ
یہ روش اگر چہ ایک ذاتی اور اجتہادی کام ہے لیکن ایک صورت میں متن کو تصفیہ کرنے کا طریقہ ہے ـ
5ـ روایتوں کے متن کا قرآن مجید کی صریح تعلیمات کے موافق ہونا
ان طریقوں میں سے ایک روایتوں کو قرآن مجید سے تطبیق کرنا ہےـ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ائمہ اطہار ( علیہم السلام) سے روایت ہے کہ انھوں نے مکرر فرمایا ہے: “اگر ہم سے کوئی حدیث آپ کے سامنے نقل کی جائے اسے قرآن مجید کے ساتھـ تطبیق کرنا٬ اگر وہ قرآن مجید کے موافق ہو تو اسے قبول کرنا ( اس پر عمل کرنا) اور اگر قرآن کے مخالف ہو تو اسے چھوڑنا٬ یا اسے ہمارے طرف پلٹانا (یعنی اس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں ہم سے پوچھنا)[18]”
اس کے علاوہ خداوند متعال نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی گراں قیمت میراث کو خود غرضوں اور مفادپرستوں سے بچانے اور تحفظ کے لئے نگہبان اور پاسدار مقرر کئے تھے٬ جن کی طرف حق کے متلاشی مسلمان رجوع کرتے تھے ـ ان حق کے متلاشی افراد کا واضح نمونہ “سلیم بن قیس الہلانی” ہیں کہ وہ پیغمبر (ص) سے جھوٹ کی نسبت دینے کی ریشہ دوانیوں٬ اختلاط اور روایتوں میں اختلافات کے راز سے واقف ہو چکے تھے اور انھیں معلوم ہوچکا تھا کہ پیغمبر (ص) کی احادیث کو منتقل کرنے کی تنہا راہ کو حاصل کرنا اہل بیت (ع) کے صحیح علم سے ہی ممکن ہے [19]ـ
خلاصہ یہ کہ٬ آج ائمہ اطہار علیہم السلام اور ان کے اصحاب و پیروکاروں کی انتھک کوشش اور طاقت فرسا جانچ پڑتال کے نتیجہ میں صحیح احادیث کی ایک گران قدر میراث ہم تک پہنچی ہے ـ لیکن علماء اور مجتہدین ان تمام کوششوں سے استفادہ کرنے کے باوجود سند اور متن کے بارے میں تحقیق و جانچ پڑتال کرنے میں اپنے آپ کو مستثنی نہیں جانتے ہیں اور صحیح اور حقیقی روایات کی تشخیص کے سلسلہ میں قرائن و شواہد کو حاصل کرنے میں اپنے آپ کو بے نیاز نہیں جانتے ہیں٬ علماء و مجتہدین٬ روایتوں کی سندوں کی تحقیق کرکے ممکن ہے بعض صحیح السند و صحیح متن والی روایتوں کو بعض قرائن کی وجہ سے قبول نہ کریں ـ مثلاً: 1) روایت قرآن مجید سے ٹکراتی ہو 2) روایت اصول مذہب کے مخالف ہو 3) روایت کی پوری تاریخ میں امامیہ علماء نے اس کی مخالفت کی ہو 4) روایت تقیہ کے طور پر صادر ہوئی ہو 5) روایت میں جعل کی نشانیآن پائی جاتی ہوں و غیرہ
یہ اور اس قسم کے بہت سی دقیق اور فنّی طریقے ہیں کہ آج علماء و مجتہدین٬ ایک روایت کو قبول کرنے یا مسترد کرنے کے لئے ان سے استفادہ کرتے ہیں ـ
[1] مدیر شانه چی، کاظم، تاریخ حدیث، ص 91
2] ایضاً
[3] حریری، محمد یوسف، فرهنگ اصطلاحات، حدیث، ص 11.
[4] مامقانی، تلخیص مقباس الهدایة، ص 156.
[5] صدوق، مقدمة، من لا یحضره الفقیه، ج 1، ص 3، ناشر جامعه مدرسین.
[6] سیفی مازندارانی، علی اکبر، مقیاس الرّوایة فی علم الدرایة، ص 44.
[7] مدیرشانه چی، کاظم، تاریخ حدیث، ص 56 ـ 57.
[8] رجال الکشی، ج2، ص692 ـ 700؛ کتاب سلیم بن قیس الهلالی، ج2، ص562 ، 558.
[9] طبقات ابن سعد، ج3، ص 26، به نقل از مسند امام مجتبی(ع( ، ص 535، ح 36 .
[10] کتاب سلیم بن قیس الهلالی، ج2، ص 628؛ المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص187، ح 4798؛ دعائم الاسلام، ج 1، ص142؛ الجعفریات، ص 5، ح42؛ تفسیر عیاشی، ج 1، ص 157، ح530.
[11] الکافی، ج 8، ص 15، ح2 . کتاب سلیم بن قیس الهلالی، ج2، ص559 . رجال الکشی، ص104، شماره167
[12] الفهرست، شیخ طوسی، ص176، معانی الاخبار، ص382، ح12.
[13] رجال الکشی، ص364 ، 546،.363، 292، 291؛ معانی الاخبار، ص 181، ح 1، بحارالانوار، ج 26، ص140، ح12.
[14] رجال کشی، ص 224.
[15] سبحانی، جعفر ، کلیات فی علم الرجال، ص 278.
[16] رجال کشی، ص 251، ترجمه، محمد بن الحسن الصفّارف چاپ داوری.
[17] رجال نجاشی، ص 245، ترجمه، محمد بن احمد بن یحیحی، چاپ داوری.
[18] تهذيبالأحكام ج : 7 ص : 275 رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ص وَ عَنِ الْأَئِمَّةِ ع أَنَّهُمْ قَالُوا إِذَا جَاءَكُمْ مِنَّا حَدِيثٌ فَاعْرِضُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ فَمَا وَافَقَ كِتَابَ اللَّهِ فَخُذُوهُ وَ مَا خَالَفَهُ فَاطْرَحُوهُ أَوْ رُدُّوهُ عَلَيْنَا
[19] مجله علوم حدیث، شماره 6، عبدالهادی مسعودی.