غدیر خم کے تین روز کی رسومات

234

ابتدا میںخطبہ سے پھلے کے واقعات جوخطبہ کےلئے ماحول کوسازگار بنانے کے لئے رونماهوئے ، اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص)کے خطبہ کی کیفیت اور وہ عملی اقدامات جو آپ نے منبر پر انجام دئے ،اور تیسرے حصہ میں وہ چیزیں بیان کی جا ئینگی جو خطبہ ٴ غدیر کے بعد انجام دی گئیں۔
۱ خطبہ سے پھلے کے پروگرام حجة الوداع کی اھمیت[1]
پیغمبر اسلام (ص)کی ھجرت اور آپ کا مکہ معظمہ سے تشریف لیجانا تاریخ اسلام کا ایک حساس موڑ شمار کیا جا تا ھے اور ھجرت کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے مکہ معظمہ کے تین سفر فر ما ئے ۔
پھلی مر تبہ آٹھویں ھجری میں صلح حدیبیہ کے بعدعمرہ کے عنوان سے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور مشرکین کے ساتھ معاھدہ کے مطابق فوراً واپس پلٹ آئے ۔
دوسری مر تبہ نویں ھجری میں فتح مکہ کے عنوان سے اس شھر میں داخل هو ئے ،اور تمام امور کی تکمیل اور کفر و شرک اور بت پرستی کا جا ئزہ لینے کے بعد آپ طائف تشریف لے گئے لوٹتے وقت مکہ تشریف لا ئے اور عمرہ بجالانے کے بعد مدینہ واپس لوٹ آئے ۔
تیسری اور آخری مرتبہ پیغمبر اسلام(ص) ھجرت کے بعد دس ھجری میں حجة الوداع کے عنوان سے مکہ تشریف لا ئے آنحضرت (ص) نے پھلی مر تبہ رسمی طور پر حج کا اعلان فر مایا تاکہ جھاں تک ممکن هوسب لوگ اپنے تئیں حا ضر هوں۔
اس سفر میں آنحضرت (ص) کے دو بنیادی مقصد اسلام کے دو اھم احکام بیان کرنا تھا جن کو آ نحضرت(ص) نے ابھی تک لوگوں کے لئے مکمل اور رسمی طور پر بیان نھیں فر مایا تھا :ایک حج اور دوسرے پیغمبر اسلام(ص) کے بعد خلافت و ولایت اور جا نشینی کا مسئلہ تھا ۔ سفر حج کا اعلان[2]
خدا وند عالم کے حکم کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے مدینہ اور اس کے اطراف میں منا دی دینے والوں کو روانہ فر مایا تاکہ آنحضرت (ص) کے اس سفر کی اطلاع سب تک پہنچا دیںاور یہ اعلان کردیںکہ جو چا ھے وہ آپ(ع) کے ساتھ سفر کر سکتا ھے ۔
عام اعلان کے بعد مدینہ کے اطراف سے متعدد افراد آنحضرت (ص)،مھا جرین اور انصار کے ساتھ مکہ جا نے کےلئے شھر مدینہ آئے ۔مدینہ سے مکہ کے درمیان راستہ میں مختلف قبیلوں کے متعدد افراد آ نحضرت(ص) کے ساتھ شامل هوتے گئے دور دراز علاقوں میں بھی اس اھم خبر کے پہنچتے ھی مکہ کے اطراف اور یمن وغیرہ شھر وںکے متعدد افراد نے بھی مکہ کےلئے رخت سفر باندھا تاکہ حج کے جز ئی احکام ذاتی طور پر خود پیغمبر اکر م(ص) سے سیکھیں اور آنحضرت (ص)کے ساتھ اس پھلے رسمی سفر حج میں شریک هوسکیں ۔مزید یہ کہ آنحضرت (ص) نے یہ اشارہ فر ما دیا تھا کہ یہ میری زندگی کا آخری سفر ھے جس کے نتیجہ میں چا روں طرف سے لوگوں کے اضافہ هو نے کابا عث بنا ۔
تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار افراد[3]حج میںشریک هو ئے جن میں سے صرف ستّرہزار افراد مدینہ سے آنحضرت(ع) کے ساتھ آئے تھے یوں لبیک کہنے والوں کا سلسلہ مکہ سے مدینہ تک جڑاهوا تھا ۔ مدینہ سے مکہ تک سفر کا راستہ
آنحضرت (ص) نے ھفتہ کے دن ۲۵ ذیقعدہ کو غسل انجام دیااور احرام کے دو لباس اپنے ھمراہ لیکر مدینہ سے با ھر تشریف لا ئے ، آپ(ع) کے اھل بیت جن میں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اما م حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام شامل تھے نیز آ پ کی ازواج سب کے سب اونٹوں کے کجا ووں اور محملوں میں سوار تھے “مسجد شجرہ ” “جو مدینہ کے نزدیک ھے “سے احرام با ندھنے کے بعد آپ نے مکہ کی راہ لی اور سوار و پیادہ لوگ آ پ کے ھمراہ چل رھے تھے ۔
اگلے دن صبح ” عِرْق ُ الظَّبْیَہ ” پہنچے اور اس کے بعدمقام ” روحا ء ” پر کچھ دیر کےلئے توقف فر مایا
وھاں سے نماز عصر کےلئے مقام “مُنصرَف “پہنچے ۔نماز مغرب و عشا ء کے وقت مقام “مُتَعَشّیٰ” پر قیام فر مایارات کا کھانا وھیں نوش فرمایا ، نماز صبح کے لئے مقام “اٴ ثَا یَةً” ،پهونچے منگل کی صبح مقام “عرج ” پر تھے اور بدھ کے روز ” سقیاء ” کی منزل پر قدم رکھا ۔
 
راستے کے دوران پیدل چلنے والوںنے راستہ کی مشکلات کا تذکرہ کیاآنحضرت (ص)سے سواری کی درخواست کی گئی تو آپ(ع) نے فر مایا ابھی سواری مھیانھیں ھے آپ نے حکم دیا کہ آسانی کےلئے سب اپنی کمریں باندھ لیں اورتیز رفتاراور دوڑ دوڑ کر سفر طے کریں ۔اس حکم پر عمل پیرا هو ئے تو کچھ راحت و آرام ملا ۔
جمعرات کے دن مقام” ابواء”پهونچے ،جھاں پر آنحضرت (ص)کی مادر گرامی جناب آمنہ کی قبر ھے ،آپ(ع) نے اپنی والدہ گرامی کی قبر کی زیارت فر ما ئی ۔ جمعہ کے دن مقام ” جحفہ ” اور” غدیر خم “سے گذر نے کے بعد مقام ” قُدَیْد ” کےلئے عا زم هو ئے اور ھفتہ کے دن وھاں پہنچے۔اتوار کے دن مقام ” عسفان ” پہنچے اور “پیر کے دن مقام ” مرّالظھران “پر پہنچے اور رات تک وھیں پر قیام فر مایا ۔رات کے وقت مقام ” سیرف ” کی طرف حرکت کی اور وھاں پهونچے اوراس کے بعد کی منزل مکہ ٴ معظمہ تھی ۔دس دن کا سفر طے کر نے کے بعد منگل کے روز پانچ ذی الحجہ کو مکہ پہنچے ۔ حضرت امیر المو منین علیہ السلام کا مدینہ سے یمن اور یمن سے مکہ کا سفر
دو سری طرف حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کی طرف سے ایک لشکر کے ھمراہ نجران اور اس کے بعد یمن تشریف لے گئے اس سفر میں آپ کا مقصد خمس زکوٰة اور جزیہ وصول کرنا اور نیز اسلام کی دعوت دینا تھا ۔
پیغمبر اسلام(ص) نے مدینہ سے چلتے وقت حضرت علی علیہ السلام کےلئے ایک خط تحریر فر مایا اورآپ (ع) کو حکم دیا کہ وہ بھی یمن سے مکہ چلے آئیں ۔نجران اور یمن کے امور انجام دینے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا لشکر نیز اھل یمن کے کچھ افراد (جن کی تعداد بارہ ہزار تھی) کے ساتھ میقات سے احرام با ندھنے کے بعد عازم مکہ هو ئے ۔پیغمبر اسلام (ص)مدینہ کی طرف سے مکہ کے نز دیک پہنچے توادھرسے حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام بھی یمن سے مکہ کے نزدیک پہنچے ۔آپ (ع) نے لشکرمیںاپنا جا نشین مقرر فر مایا اور خود آنحضرت (ص) کی ملا قات کےلئے تشریف لے گئے اور مکہ کے نزدیک آنحضرت (ص) کی خد مت میں پہنچے اور روداد سفر سنا ئی ۔
پیغمبر اکرم(ص) مسرور هوئے اور حکم دیا کہ جتنا جلدی ممکن هو آپ(ع) کے لشکر کو مکہ لا یا جا ئے ۔
حضرت علی علیہ السلام پھر اپنے لشکر کے پاس آئے اور آنحضرت (ص) کے قافلہ کے ساتھ منگل کے دن پا نچ ذی الحجہ کو مکہ پہنچے ۔
ایام حج آنے کے بعد آنحضرت (ص) نویں ذی الحجہ کے دن عرفات تشریف لے گئے اس کے بعد مشعر اور منٰی پہنچے ۔اس کے بعدیکے بعد دیگرے اعمال حج انجام دئے اورحج کے واجب و مستحب اعمال لو گوں کےلئے بیان فر مائے۔ غدیر سے پھلے خطبے[4]
آنحضرت (ص) نے مقام غدیر سے پھلے دو حساس مقامات پر دو خطبے دئے جن کا مقصد حقیقت میں خطبہٴ غدیر کےلئے ماحول فراھم کر نا تھا ۔
آپ (ص)نے پھلا خطبہ منیٰ میں دیا تھا ۔ اس خطبہ کے آغاز میںآپ(ع) نے معاشرہ میں مسلمانوں اور عوام الناس کی جان ،مال ،عزت اور آبرو کی حفاظت ،اس کے بعددور جا ھلیت میں نا حق خون ریزی اور نا حق لئے گئے اموال کو رسمی طور پر معاف فرمایا تاکہ لوگوں کے مابین ایک دوسرے سے کینہ ختم هو جائے تاکہ معاشرے میں پوری طرح امنیت کا ماحول پیدا هو جا ئے اور اس کے بعد لوگوں کو اپنے بعد اختلاف کر نے اور ایک دوسرے پر تلواراٹھانے سے خوف دلایا ۔
اس مقام پر آ پ نے واضح طورپر فر مایا:
“اگر میں نہ رهوں تو علی ابن ابی طالب (ع) خلاف ورزی کر نے والوں کے سا منے اٹھ کھڑے هو ں گے ”
اس کے بعد آپ(ع) نے اپنی زبان مبارک سے حدیث ثقلین بیان کی اور فرمایا:
“میں تمھا رے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑکر جا رھا هوں اگر ان دونوں سے متمسک رهوگے تو ھر گز گمراہ نہ هو گے :کتاب خدا اور میری عترت یعنی میرے اھل بیت (ع) ”
آپ(ص) نے اس بات کی طرف بھی اشارہ فر مایا کہ میرے ان اصحاب میں سے بعض کوقیامت کے دن جہنم کی آگ میں جھونک دیا جا ئیگا ۔
اھم بات یہ ھے کہ اس خطبہ میں حضرت امیر المو منین (ع) آنحضرت (ص)کے کلام کی لوگوں کےلئے تکرار فر ما رھے تھے تا کہ دور بیٹھنے والے افراد بھی سن لیں۔ منیٰ کی مسجد خیف میںدوسرا خطبہ[5]
آنحضرت (ص) نے دوسرا خطبہ منیٰ کی مسجد خیف میں ارشاد فر مایا ۔منیٰ میں قیام کے تیسر ے روز آپ(ع) نے لوگوں کے مسجد خیف میں جمع هو نے کا حکم صادر فر مایا۔وھاں پر بھی آپ نے خطبہ دیا جس میں صاف صاف یہ اعلان فر مایاکہ اس خطبہ کو یاد رکھیں اور حا ضرین غا ئبین تک پہنچائیں۔
اس خطبہ میں آ پ(ع) نے اخلاص عمل ،مسلمانوں کے امام سے متعلق ھمدردی اور تفرقہ نہ ڈالنے پر زور دیااور تمام مسلمانوں کے حقوق اور قوانین الٰھی میں برابرهو نے کا اعلان فر مایا اس کے بعد مسئلہٴ خلافت بیان فر مایا پھرآپ(ع) کی زبان مبارک پر حدیث ثقلین جا ری هو ئی اور دوسری مرتبہ غدیر کے لئے زمینہ فراھم کیا ۔
اس موقع پر منافقوں نے مکمل طور پر خطرہ کا احساس کیا اور واقعہ کوسنجیدگی سے لیا انھوں نے عھد نا مہ لکھا اور قسمیں کھا ئیں اور اپنے پروگرا موں کا آغاز کیا ۔[6] غدیر سے پھلے انبیاء علیھم السلام کی میراث کا حوالہ کرنا[7]
مکہ میں پیغمبر اکرم (ص)پر الٰھی قانون اس طرح نا زل هوا :”آپ کی نبوت مکمل هو گئی اورآپ کا زمانہ ختم هو کیا ۔اسم اعظم اور آثار علم و میراث انبیاء علیھم السلام، علی ابن ابی طالب (ع) کے حوالہ کر دیجئے جو سب سے پھلے ایمان لا ئے ھیں ۔میں زمین کو اس عالم کے بغیر ایسے ھی نھیں چھوڑ دوں گا کہ جس کے ذریعہ میری اطاعت اور ولایت سے لوگ متعارف هوں اور وہ میرے پیغمبر کے بعد لوگوں کےلئے حجت هو ”
انبیاء علیھم السلام کی یا دگاریں حضرت آدم و نوح و ابراھیم علیھم السلام کے صحیفے،توریت و انجیل، حضرت مو سیٰ علیہ السلام کا عصا ،حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگشتری اور دوسری تمام میراث صرف اور صرف حجج الٰھی کے ھا تھوں میںرہتی ھیں ۔اس دن خاتم الانبیاء (ص) اس پوری میراث کے محافظ تھے اور اب حکم الٰھی حضرت امیر المومنین کےلئے آگیا ۔یہ تمام چیزیں حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب سے یکے بعد دیگرے ائمہ علیھم السلام تک منتقل هو تی رھیںاور اب یہ تمام چیزیں خدا وند عالم کی آخری حجت پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو طلب فر مایا اور ایک مخصوص میٹینگ کی جس میں خداوند عالم کی اما نتیں حضرت علی علیہ السلام کے حوالہ کر نے میں ایک رات دن لگ گیا ۔ لقب امیر المو منین(ع) [8]
مکہ میں جبرئیل (ع) خدا وند عالم کی طرف سے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کےلئے خاص طور سے لقب ( امیر المو منین )لیکر نا زل هو ئے اگر چہ اس سے پھلے بھی یہ لقب آپ ھی کےلئے معین هو چکاتھا ۔
پیغمبر اکرم (ص)نے تمام اصحاب کو حکم دیا کہ ایک ایک صحابی حضرت علی علیہ السلام کے پاس جا ئے اور آپ (ع) کو “السلام علیک یا امیر المومنین ” کھکر سلام کرے ۔اس طرح پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے دور حیات میں ھی اصحاب سے حضرت علی علیہ السلام کے امیر هو نے کا اقرار کرا لیا تھا ۔
اس مقام پر ابو بکر اور عمر نے پیغمبر اکرم(ص) پر اعتراض کرتے هوئے کھا: کیا یہ حق خدا وند عالم اور ان کے رسول کی طرف سے ھے ؟آنحضرت (ص) غضبناک هو ئے اور فرمایا:”یہ حق خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ھے ،خدا وند عالم نے مجھ کو یہ حکم دیا ھے ” غدیرمیں حاضرهونے کےلئے قانونی اعلان[9]
لوگ اس چیز کے منتظر تھے کہ پیغمبر اکرم(ص) ا پنے اس آخری سفرحج میں کچھ ایام مکہ میں قیا م فر ما ئیں،لیکن اعمال حج تمام هو نے کے فوراً بعد آپ نے اپنے منادی بلال کولوگوں کے لئے اس بات کا اعلان کر نے کا حکم دیا :کل محتاجو ں کے علاوہ سب کو چلنا ھے کو ئی بھی مکہ میں نہ رہنے پائے تاکہ وقت معین پر “غدیر خم “میں حا ضر هو سکیں ۔
“غدیر ” کے علاقہ کا انتخاب جو خاص حکم الٰھی کی وجہ سے تھا کئی اعتبار سے قابل غور ھے :
ایک یہ کہ مکہ سے واپس آتے وقت غدیراس جگہ سے پھلے ھے جھاں پر لوگوں کے راستے ایک دو سرے سے جدا هو تے ھیں۔
دوسرے یہ کہ مستقبل میں مسلمانوں کے حج کرنے والے قافلے مکہ آتے اور جا تے وقت جب اس مقام سے گذریں تووادی غدیر اور مسجد النبی(ص) میں نماز پڑھیں اور اپنے عقیدہ کے مطابق تجدید بیعت کریں تاکہ اس واقعہ کی یاد دلوں میں دوبارہ زندہ هو جائے ۔[10]
تیسرے یہ کہ “غدیر ” جحفہ سے پھلے وہ وسیع و عریض میدان تھا جھاں پر سیلاب اور شمال مغرب کی طرف سے بہنے والے چشمہ کا پانی آکرجمع هوتا تھا اور اس میدان میںکچھ پرانے اور مضبوط درخت بھی تھے لہٰذا یہ میدان پیغمبر اسلام(ص) کے تین دن کے پرو گرام اورخطبہ ارشاد فرمانے کےلئے بہت ھی منا سب تھا لوگوں کےلئے بھی یہ بڑے تعجب کی بات تھی کہ پیغمبر (دس سال مکہ سے دور رہنے کے با وجود ) مکہ میں قیام نھیں فر ماتے تاکہ ان کی خدمت با برکت میں لوگ حا ضر هوں اور ان سے اپنے مسائل بیان کر یںبلکہ اعمال حج تمام هو نے کے بعد فور اً وھاں سے رخت سفر با ندھ لیتے ھیںاور لوگوں کو بھی مکہ سے چلنے اور ” غدیر خم “میں حاضر هو نے کا حکم فر ما تے ھیں۔
جس صبح کو آنحضرت (ص) نے مکہ سے کوچ فرمایا آپ کے ساتھ ایک لاکھ بیس ہزار[11]سے زیادہ افراد تھے یھاں تک کہ مکہ کے پانچ ہزارافراد اور یمن کے تقریبابارہ ہزار افراد”جن کا ادھر سے راستہ بھی نھیں تھا “بھی غدیر کے پروگرام میں شریک هونے کےلئے آنحضرت (ص) کے ساتھ آئے تھے ۔
۲ خطبہ کی کیفیت اور اس کے جزئیات غدیر میں لوگوں کا اجتماع [12]
پیر [13]کے دن ظھر کے وقت جیسے ھی “کراع الغُمَیم “[14](وہ علاقہ جھاں پر “غدیر خم ” واقع ھے )پر پہنچے ،آنحضرت (ص) نے اپنا راستہ دائیں طرف اور غدیر کی جانب بدلتے هو ئے فرمایا :
“اَیُّھاالنَّاس،اجیبواداعیَ اللہ ،اناَرسُول اللہ ”
“ایھا الناس خدا کی طرف دعوت دینے والے کی دعوت پر لبیک کهو ،میں خدا کا پیغام لانے والا هوں ” یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اھم پیغام کے پہنچا نے کا وقت آگیا ھے ۔
اس کے آنحضرت (ص) نے منادی کو یہ ندا لگا نے کا حکم دیا :”تمام لوگ ٹھھر جا ئیں جو لوگ آگے بڑھ گئے ھیںوہ پیچھے پلٹ آئیں اور جوپیچھے رہ گئے ھیں وہ ٹھھر جا ئیں “تاکہ تمام لوگ پھلے سے معین شدہ مقام پر جمع هو جا ئیں ۔اسی طرح یہ حکم بھی صادر فر مایا :کوئی شخص قدیم درختوں کے نیچے نہ جا ئے اور وہ جگھیں اسی طرح خالی رھیں ۔
اس حکم کے صادر هو نے کے بعد تمام مرکب رک گئے ،اور جو لوگ بڑھ گئے تھے وہ واپس پلٹ آئے ، تمام لوگ غدیر خم کے مقام پر اترگئے ھر ایک نے اپنی اپنی جگہ تلاش کی ،اور آھستہ آھستہ سکون و اطمینان کاسانس لیایہ صحرا پھلی مرتبہ ایسے عظیم انسانی مجمع کا شاھد تھا ۔
گرمی کی شدت اور گرم زمین اتنی تکلیف دہ تھی کہ لوگ یھاں تک کہ آنحضرت (ص) نے بھی اپنی عبا کا ایک حصہ اپنے سر اقدس پر اور دوسرا حصہ اپنے پیروں کے نیچے بچھا رکھا تھا اور کچھ لوگ گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنی عبا اپنے پیروں پر لپیٹے هو ئے تھے ! خطبہ اور منبر کی جگہ کی تیاری[15]
دوسری طرف پیغمبر اسلام (ص)نے مقداد ،سلمان ،ابوذر اور عمار کو بلاکر یہ حکم صادر فر مایا کہ ان پانچ پرانے درختوں (جوتالاب غدیر کے کنا رے ایک لائن میں کھڑے هو ئے تھے )کے نیچے جگہ تیار کریں انھوں نے درختوں کے نیچے سے کا نٹوں کو صاف کیا ،پتھروں کو جمع کیا ،درختوں کے نیچے صفائی کی اور پا نی کا چھڑکا وٴ کیا ۔اس کے بعد درختوں کی زمین تک لٹکنے والی شاخوں کو کا ٹا ۔پھر دھوپ سے بچنے کی غرض سے دو نزدیک کھڑے هو ئے درختوںکی شاخوں پر کپڑا ڈال کرسائبان بنایا،اوراس طرح وہ جگہ تین دن کے پروگرام کیلئے بالکل تیارهوگئی۔
اس شا میانہ کے نیچے پتھروں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھا اور پالان شتر کاآنحضرت(ع) کے قد کے برابر منبر تیار کیا اور اس پر کپڑا ڈالا منبر کو مجمع کے درمیان بنایا تھا تاکہ پیغمبر اکرم(ص) خطبہ ارشاد فرما تے وقت سب کو دیکھ سکیں، اور آپ(ع) کی آواز سب تک پہنچ سکے اور سب لوگ آپ کا دیدار کرسکیں ،اور جیساکہ غدیر کے واقعہ میں آیا ھے کہ:غدیر خم میں کو ئی ایسا شخص نھیں تھا جس نے آپ(ع) کا دیدار نہ کیا هو اور اپنے کا نوں سے آنحضرت (ص) کی آواز نہ سنی هو ۔
البتہ ربیعہ بن امیہ بن خلف لوگوں کےلئے آپ(ع) کے کلام کی تکرار کر رھے تھے تاکہ دور بیٹھنے والے افراد بہتر طریقہ سے مطالب سمجھ سکیں ۔ پیغمبراکرم(ص) اور امیر المومنین علیہ السلام منبر پر [16]
ظھر کے وقت انتظار کی گھڑیاں تمام هوئی یھاں تک کہ منادی نے نماز جما عت کےلئے آواز لگا ئی لوگوں کے اپنے اپنے خیموں سے باھر آنے اور نماز کی صفیں مرتب کر نے کے بعد پیغمبر اکرم(ص) اپنے خیمہ سے با ھر تشریف لائے اور نماز با جما عت بجالائے ۔
اس کے بعد مجمع مشاھدہ کر رھا تھا کہ پیغمبر اکرم(ص) منبر پر کھڑے هو ئے اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو بلایا اور حکم دیا کہ آپ منبر پر آئیں اور میرے پاس دائیں طرف کھڑے هو جائیں ،خطبہ شروع هو نے سے پھلے امیر المومنین علیہ السلام آپ(ع) سے ایک زینہ نیچے کھڑے هو ئے تھے اور آنحضرت(ع) اپنادست مبارک آپ (ع) کے دوش پر رکھے هو ئے تھے ۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم(ص) نے مجمع پر دائیں اور با ئیں طرف نظر ڈالی اور مجمع کا پوری طرح جمع هو نے کا انتظار کیاجلسہ میں ایک طرف عورتیں بھی بیٹھی هو ئیں تھیں جو پیغمبر کو اچھی طرح دیکھ رھیں تھیں۔مجمع کے تیار هو جا نے کے بعد پیغمبر اکرم(ص) نے دنیائے اسلام کے لئے اپنے آخری اور تا ریخی خطاب کا آغاز فر مایا ۔
منبر اور خطبہ کے اس دلچسپ انداز کو مد نظر رکھ کرکہ دو آدمی منبر پر ھیں اور ایک لاکھ بیس ہزار افراد اس انو کھے منظر کا نظارہ کر رھے ھیں آنحضرت (ص)کے خطبہ پر توجہ مرکوز کئے هوئے ھیں ۔
ھم یہ بات بیان کر تے چلیں کہ ایک تقریر کےلئے ایک لاکھ بیس ہزار افراد کا مجمع اس عالم میں کہ ایک خطیب کو تمام لوگ دیکھ رھے هوں آج کی دنیا میںبھی یہ ایک غیر معمولی مسئلہ ھے چہ جائیکہ عصر بعثت میں گذشتہ انبیاء علیھم السلام کے چھ ہزار سالہ دور میں کسی تقریر کےلئے اتنابڑا مجمع جمع هوا هو ۔ پیغمبر اسلام (ص)کاخطبہ[17]
پیغمبر اسلام(ص) کاغدیر خم میں تاریخ ساز خطبہ جو تقریباً ایک گھنٹہ جاری رھا اس کو گیارہ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ھے ۔
آنحضرت (ص) نے سب سے پھلے خدا وند عالم کی حمد و ثنا اور اس کی قدرت و رحمت کا تذکرہ فر مایا اور اس کے بعد خدا وند عالم کے سامنے اپنی بندگی کا اقرار فر مایا ۔
دوسرے حصہ میں آپ نے مجمع کو اصل مطلب کی طرف متوجہ کرتے هو ئے فر مایا کہ مجھے علی بن ابی طالب (ع) کے سلسلہ میں ایک اھم پیغام پہنچا ناھے اگر میں نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گو یا رسالت الٰھی کا کوئی کام انجام نھیں دیا اور میں خدا کے عذاب سے ڈرتا هوں ۔
تیسرے حصہ میں آپ نے اپنے بعدقیامت تک کےلئے بارہ اماموں کا اعلان فر مایاتاکہ اقتدار کی تمام امیدیں ایک دم قطع هو جا ئیں ۔ آنحضرت (ص) کی تقریر میںسب سے اھم بات یہ تھی کہ ائمہ معصومین علیھم السلام قیامت تک کےلئے تمام انسانوں پر ولایت رکھتے ھیںاور ھر زمانہ میں اور ھر جگہ ھر معاملہ میں ان ھی کے کلمات و ارشادات کا بول بالا هوگا اور خداو رسول کی جا نب سے حلال و حرام میں حضرات ائمہ علیھم السلام کی مکمل نیابت اور ان کے تام الاختیار هو نے کا اعلان فر مایا ۔
خطبہ کے چو تھے حصہ میں پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے ھا تھوں کو بلند کر کے فر مایا :<مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَہَذَاعَلِیٌّ مَوْ لَاہُ،اَللَّہُمّّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ>
“جس کا میں مو لا هوں اس کے یہ علی مو لا ھیں پر ور دگارا جو علی کو دوست رکھے اس کو تو دوست رکھ اور جو علی سے دشمنی کرے اس کو دشمن رکھ اور جو ان کی مد د کرے اس کی تو مدد کراور جو ان کو رسوا کرے اس کو تو رسوا و ذلیل کر”
اور اس کے بعد ائمہ علیھم السلام کی ولایت کے ذریعہ اکمال دین اور نعمتوں کے تمام هو نے کا اعلان فر مایا اور اس کے بعد خدا ،ملائکہ اور لوگوں کو اپنے اس پیغام کے پهونچا نے پر شاھد قرار دیا ۔
پا نچویں حصہ میں آپ(ع) نے صاف صاف یہ اعلان فر مایا :جو ائمہ علیھم السلام کی ولایت سے سر پیچی کر ے گا اس کے تمام نیک اعمال حبط هو جا ئیں گے اور اس کا ٹھکانا جہنم ھے “اس کے بعد امیر المو منین علیہ السلام کے کچھ فضا ئل بیا ن فر ما ئے ۔
پیغمبر اسلام(ص) نے چھٹے حصہ میں غضب الٰھی کے کچھ گو شوں پر رو شنی ڈالی ،آنحضرت (ص) نے عذاب اور لعنت کے متعلق آیات کی تلاوت کرتے هوئے فرمایا :” ان آیات سے مراد میرے بعض اصحاب ھیں کہ جن سے میں اغماض نظر کرنے پر ما مور هوں ،لیکن جان لو! خدا وند عالم نے مجھے دشمنوں ، مخا لفین ،خائنین اور مقصرین پر حجت قرار دیا ھے اور دنیا میں اغماض نظر کرنا آخرت میں ان کے عذاب سے مانع نھیں ھے ”
اس کے بعد جہنم کی طرف لے جانے والے گمراہ راہنماوٴںکے با رے میں اشارہ کرتے هو ئے فر مایا”میں ان سب سے بیزار هوں ” رمزی طورپر”اصحاب صحیفہٴ ملعونہ ” کی طرف اشارہ کیا اور صاف طور پر فر مایا کہ میرے بعد کچھ لوگ مقام امامت کو غصب کریں گے اور اس کے غاصبین پر لعنت فرمائی ۔
ساتویں حصہ کو آنحضرت (ص) نے اھل بیت علیھم السلام کی محبت و ولایت اور ان کے اثرات کاذکر کرتے هو ئے فر مایا : سوره حمدمیں صراط مستقیم والوںسے مراد اھل بیت علیھم السلام کے شیعہ ھیں۔
اس کے بعد اھل بھشت کے با رے میں کچھ آیات کی تلاوت فر مائی اور ان کی تفسیر شیعہ اور آل محمد علیھم السلام کی اتباع کر نے والوں سے فر ما ئی ۔اھل جہنم سے متعلق بھی کچھ آیات کی تلا وت فر ما ئی اور ان کی تفسیر میں دشمنان آل محمد علیھم السلام کا تذکر ہ فر مایا ۔
آٹھویں حصہ میں” حضر ت بقیة اللہ الاعظم حجة بن الحسن المھدی ارواحنا فداہ “کا تذکرہ فر مایا اور ان کے مخصوص اوصاف بیان فر مائے اور مستقبل میں آپ کے وجود مبارک کے ذریعہ دنیا کے عدل و انصاف سے پرُهونے کی خوشخبری سنائی ۔
نویں حصہ میں فرمایا:خطبہ تمام هو جا نے کے بعد میں تمھیں اپنی بیعت اور اس کے بعدعلی بن ابی طالب (ع) کی بیعت کی دعوت دیتا هوں ۔اس بیعت کاسرچشمہ یہ ھے کہ میں نے خدا وند عالم کی بیعت کی ھے اور علی (ع) نے میری بیعت کی ھے ،نتیجتاً یہ بیعت جو میں تم سے لے رھا هوں یہ خداوند عالم کی جانب سے ھے اور خدا وند تبارک و تعالیٰ کے ساتھ بیعت ھے۔
دسویں حصہ میں آنحضرت (ص) نے احکام الٰھی کے سلسلہ میں گفتگو فر مائی جس کا مقصد چند بنیادی عقائد اور اھم مسائل بیان کرنا تھا :منجملہ یہ کہ چونکہ تمام حلال و حرام بیان کرنا میرے امکان میں نھیں ھے لہٰذا میں نے تم سے ائمہ علیھم السلام کی بیعت لے کرقیامت تک کےلئے تمام حلال و حرام کو بیان فر ما دیاھے چونکہ ان کا علم و عمل حجت ھے ،دوسرے یہ کہ امر با لمعروف و نھی عن المنکر کا سب سے اھم مر حلہ ائمہ علیھم السلام کے سلسلہ میں پیام غدیر کی تبلیغ ،انکی اطاعت کا حکم اور ان کی مخا لفت سے روکنا ھے ۔
اپنے خطبہ کے آخری حصہ میںزبانی بیعت انجام پا ئی اور آپ (ص) نے فرمایا: “خدا وند عالم کا یہ حکم ھے کہ ھاتھ کے ذریعہ بیعت لینے سے پھلے تم سے زبانوں کے ذریعہ اقرار لوں “اس کے بعد جس مطلب کی تمام لوگوں کو تا ئید کرنا تھی وہ معین فر مایا جس کا خلاصہ بارہ اماموں کی اطاعت دین میں تبدیلی نہ کرنے کاعھد و پیمان ،آئندہ نسلوں اور غائبین تک پیغام غدیر پہنچا نا تھا ۔ضمناً یہ بیعت ھاتھ کی بیعت بھی شمارهو تی تھی چونکہ آنحضرت (ص) نے فر مایا :کهو کہ ھم اپنی جان و زبان اور ھاتھوں سے بیعت کر تے ھیں ”
پیغمبر اکرم(ص) کے خطبہ کے آخری کلمات آپ کے فرامین کی اطاعت کرنے والوں کے حق میں دعا اور آپ کے فرامین کا انکار کر نے والوںپر لعنت تھی اور خداوند عالم کی حمد و ثنا پر آپ نے خطبہ تمام فر مایا ۔ منبر پر دو عملی اقدام
پیغمبر اکرم(ص) نے خطبہ کے دوران منبرپر دو عملی اقدام انجام فر ما ئے جو اب تک بے نظیر اور بہت ھی جا ذب نظر تھے :
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام منبرپرپیغمبر اکرم(ص) کے ھا تھوں پر[18] پیغمبر اکرم(ص) نے تمام مقدمات فراھم کرنے اور امیر المو منین علیہ السلام کی خلافت و ولایت کا تذکرہ کرنے کے بعد اس غرض سے کہ قیامت تک ھر طرح کا شک و شبہ ختم هو جائے اور اس سلسلہ میں ھر طرح کا مکر و فریب غیرموٴثر هو جا ئے ابتدا میں آپ نے زبانی طور پر اشارہ فرمایا اور اس کے بعد لوگوں کے لئے عملی طور پر بیان کرتے هوئے ابتدا میں اس ترتیب کے ساتھ بیان فر مایا :
“قرآن کا باطن اور تفسیر تمھارے لئے کو ئی بیان نھیں کر سکتا مگر یہ شخص جس کا ھاتھ میرے ھاتھ میں ھے اور اس کو بلند کر رھا هوں ”
اس کے بعد آنحضر ت(ص) نے اپنے قول کو عملی صورت میں انجام فر مایا اور امیر المو منین علیہ السلام سے جو منبر پر آپ کے پاس کھڑے هوئے تھے فرمایا :”میرے اور قریب آوٴ “حضرت علی علیہ السلام اور قریب آئے ،اور آنحضرت (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے دونوں بازوٴوںکو پکڑا اس وقع پرحضرت علی علیہ السلام نے اپنے دونوں ھا تھوں کو آنحضرت (ص)کے چھرہ ٴ اقدس کی طرف بڑھا دیا یھاں تک کہ دونوں کے دست مبارک آسمان کی طرف بلند هو گئے ۔اس کے بعد آنحضرت (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو “جوآپ سے ایک زینہ نیچے کھڑے هو ئے تھے “ان کی جگہ سے اتنا بلند کیا کہ ان کے پا ئے اقدس آنحضرت (ص) کے زانو کے بالمقابل آگئے اورسب نے آپ (ص) کی سفیدیٴ بغل کا مشاھدہ کیا جو اس دن تک کبھی نھیں دیکھی گئی تھی اس حالت میں آپ نے فر مایا :
“مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا عَلِیٌّ مَوْلَاہُ””جس کا میں مولا هوں اس کے یہ علی مو لا ھیں ” ۲۔دلوں اور زبانوں کے ذریعہ بیعت[19]
آنحضرت (ص) کا دوسرا اقدام یہ فرمایا کہ چونکہ اس انبوہ کثیر کے ایک ایک فرد سے بیعت لینا غیر ممکن تھا اور دوسری جانب ممکن تھا لوگ بیعت کر نے کےلئے مختلف قسم کے بھانے کریں اور بیعت کرنے کےلئے حاضر نہ هوں ،جس کے نتیجہ میں ان سے عملی طور پر پابند رہنے کا عھد اور قا نونی گواھی نہ لی جا سکے ،لہٰذا آنحضرت (ص) نے اپنے خطبہ کے آخر میں فر مایا :ایھا الناس !ایک ھاتھ پر ،اتنے کم وقت میںاس انبوہ کثیرکابیعت کر نا سب کےلئے ممکن نھیں ھے لہٰذا جو کچھ میں کہنے جا رھا هوں سب اس کی تکرار کر تے هو ئے کھیں :ھم آپ کے اس فر مان کی جو آپ نے حضرت علی بن ابی طالب اور ان کی اولا د سے هونے والے اماموں کے متعلق فرمایا اس کو قبول کر تے ھیں اور اس پر راضی ھیں ،ھم اپنے دل ،جان ،زبان اور ھاتھوں سے اس مدعاپر بیعت کر تے ھیں ۔۔۔ان کےلئے ھم سے اس بارے میں ھما رے دل و جان ،زبانوں، ضمیروں اور ھاتھوں سے عھد و پیمان لے لیا گیاھے جو شخص ھاتھ سے بیعت کر سکا ھاتھ سے اور جو ھاتھ سے بیعت نہ کر سکا وہ زبان سے اس کا اقرار کر چکا ھے ”
ظاھر ھے کہ آنحضرت (ص)جس کلام کی بعینہ تکر ار کرانا چا ہتے تھے وہ آپ نے ان کے سامنے بیان کیااوراس کی عبارت معین فرمادی تاکہ ھر انسان اپنے مخصوص طریقہ سے اس کا اقرار نہ کرے بلکہ جو کچھ آپ نے بیان فرمایاھے سب اسی طرح اسی کی تکر ار کریں اور بیعت کریں ۔
جب آنحضرت (ص) کا کلام تمام هوا سب نے اس کو اپنی زبانوں پر دھرایا اس طرح عمومی بیعت انجام پائی ۔
۳ خطبہ کے بعد کے مراسم مبارکباد ی[20]
خطبہ تمام هو نے کے بعد ،لوگ ھر طرف سے منبر کی طرف بڑھے اور حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی ،آنحضر ت (ص)اور حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام کو مبارک باد پیش کی اور آنحضر ت(ص) فر ما رھے تھے :”اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَاعَلیٰ جَمِیْعِ الْعٰا لَمِیْن”َ
تاریخ میں عبارت اس طرح درج ھے :خطبہ تمام هو جا نے کے بعد لوگوں کی صدائیں بلند هوئیں کہ: ھاں ،ھم نے سنا ھے اور خدا و رسول کے فر مان کے مطابق اپنے دل و جان ، زبان اور ھا تھوں سے اطاعت کر تے ھیں “اس کے بعد مجمع پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت علی علیہ السلام کی طرف بڑھا اور بیعت کےلئے ایک دوسرے پر سبقت کر تے هو ئے ان کی بیعت کی ۔
مجمع سے اٹھنے والے اس احساساتی اور دیوانہ وار شورسے اس بڑے اجتماع کی شان و شو کت دوبالا هو رھی تھی۔
جس اھم اور قابل توجہ مطلب کا پیغمبر اسلام(ص) کی کسی بھی فتح و پیروزی (چا ھے جنگوں میں هو یادوسرے مقامات پرهوحتی ٰکہ فتح مکہ بھی )میں مشاھدہ نہ کیا گیا وہ یہ ھے کہ آپ (ص) نے غدیر خم میں فر مایا :مجھے مبارکباد دو مجھے تہنیت کهو اس لئے کہ خدا نے مجھ سے نبوت اور میرے اھل بیت علیھم السلام سے سے امامت مخصوص کی ھے ”
یہ بڑی فتح و پیروزی اور کفرو نفاق کی تمام آرزووٴں کا قلع و قمع کر دینے کی علامت تھی ۔
دوسری طرف پیغمبر اسلام(ص) نے منادی کو حکم دیا کہ وہ مجمع کے درمیان گھوم گھوم کر غدیر کے خلاصہ کی تکرار کرے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَاعَلِیٌ مَوْلَاہُ اَللَّھُمَّ وٰالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ”تا کہ غدیر کا مرقع لوگوں کے ذہن میں منقش هو جا ئے ۔ لوگوں سےبیعت[21]
مسئلہ کو رسمی طور پر مستحکم کرنے کیلئے اوراس لئے کہ پورا مجمع منظم و مرتب طریقہ سے بیعت کر سکے لہٰذا پیغمبر اکرم (ص)نے خطبہ تمام کر نے کے بعد دو خیمے لگا نے کا حکم صادر فرمایا ۔ایک خیمہ اپنے لئے مخصوص قرار دیا اور آپ اس میں تشریف فر ما هو ئے اور حضرت علی (ع) کو حکم دیا کہ آپ دوسرے خیمہ کے دروازہ پر تشریف فر ماهوں اور لوگوں کو جمع هو نے کا حکم دیا ۔
اس کے بعد لوگ گروہ گروہ کر کے آنحضرت (ص) کے خیمہ میں آتے اورپ کی بیعت کرتے اور آپ کو مبارکباد پیش کر تے ،اس کے بعدحضرت امیر المو منین (ع) کے خیمہ میں آتے اور آپ کو پیغمبر اکرم(ص) کے خلیفہ اور امام هو نے کے عنوان سے آپ کی بیعت کر تے اور آپ پر (امیر المو منین )کے عنوان سے سلام کرتے اور اس عظیم منصب پر فائز هونے کی مبارکباد پیش کرتے تھے۔
بیعت کا یہ سلسلہ تین دن تک چلتا رھا ،اور تین دن تک آنحضرت (ص) نے غدیر خم میں قیام فرمایا ۔یہ پروگرام اس طرح منظم و مرتب تھا کہ تمام لوگ اس میں شریک هو ئے ۔
یھاں پراس بیعت کے سلسلہ میں تاریخ کے ایک دلچسپ مطلب کی طرف اشارہ کرنا منا سب هو گا: سب سے غدیر میں جن لوگوں نے امیر المو منین علیہ السلام کی بیعت کی وہ وھی لوگ تھے جنھوںنے سب سے پھلے یہ بیعت توڑی اور اپنا عھد و پیمان خود ھی اپنے پیروں تلے روند ڈالا ۔وہ افراد :ابو بکر، عمر،عثمان ، طلحہ ا ور زبیر تھے جو آنحضرت (ص) کے بعدیکے بعد دیگرے آپ (ع) کے مد مقابل آئے ۔
تعجب خیز بات یہ ھے کہ عمر نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کے بعد اپنی زبان سے یہ کلمات ادا کئے :
“مبارک هو مبارک اے ابو طالب(ع) کے بیٹے ،مبارک اے ابو الحسن آج آپ میرے اور ھر مو من مرد اور ھر مو منہ عورت کے مو لا هو گئے “!
دو سری بات جس نے ان دورخے چھروں کو اجاگرکیا یہ تھی کہ پیغمبر اسلام(ص) کے حکم صادر هو جا نے کے بعد تمام لو گوں نے چون و چرا کے بغیر حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی ،لیکن ابو بکر اور عمر (جنھوں نے سب سے پھلے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی تھی )نے بیعت کر نے سے پھلے اعتراض کر تے هو ئے سوال کیا : کیا یہ حکم خدا وند عالم کی جا نب سے ھے یا اس کے رسول کی جانب سے ھے (یعنی آپ یہ اپنی طرف سے کہہ رھے ھیں )؟آنحضرت (ص) نے فرمایا :خدا اوراس کے رسول کی طرف سے ھے ۔کیا اتنا بڑا مسئلہ خدا وند عالم کے حکم کے بغیر هو سکتا ھے ؟نیز فرمایا :”ھاں یہ حق ھے کہ حضرت علی علیہ السلام خدا اور اس کے رسول کی طرف سے امیر المو منین ھیں ” عورتوں کی بیعت [22]
پیغمبر اسلام(ص) نے عورتوں کو بھی حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کر نے کا حکم دیا اوران کوامیر المو منین کہہ کر سلام کریں اور ان کو مبارکباد پیش کریں اور اس حکم کی اپنی ازواج کےلئے تا کید فر مائی ۔
اس عمل کو انجام دینے کےلئے آنحضرت (ص) نے پانی کا ایک برتن منگایااوراسکے اوپر ایک پردہ لگایا اس طرح کہ عورتیں پردہ کے ایک طرف پانی کے اندر ھاتھ ڈالیں پردہ کے ادھر سے مولائے کائنات کا ھاتھ پانی کے اندر رھے اور اس طرح عورتوں کی بیعت انجام پائے۔
یہ بات بھی بیان کر دیں کہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا بھی غدیر خم میں حا ضر تھیں ۔ اسی طرح پیغمبر اکرم(ص) کی ازواج ،حضرت علی علیہ السلام کی بہن ام ھانی ،حضرت حمزہ علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ اور اسماء بنت عمیس بھی اس پرو گرام میں مو جود تھیں ۔ عما مہ ٴ ” سحاب”[23]
عرب جب کسی کو کسی قوم کا رئیس بنا تے تھے تواُن کے یھاں اس کے سر پرعمامہ با ندھنے کی رسم تھی ۔عربوں کے یھاں اس بات پر بڑا فخرهوتا تھا کہ ایک بڑی شخصیت اپنا عمامہ کسی شخص کے سر پر باند ھ دے کیونکہ اس کامطلب ا س پر سب سے زیادہ اعتماد هو تا تھا۔[24]
پیغمبر اکرم(ص) نے اس رسم و رواج کے مو قع پر اپنا عمامہ جس ک “سحاب ” کھا جاتا تھا تاج افتخار کے عنوان سے حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے سر اقدس پر با ندھا اور تحت الحنک کو آپ کے دوش پر رکھ کر فرمایا :”عمامہ تاجِ عرب ھے ”
خود امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں یوں فر ما تے ھیں :
“پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم کے دن میرے سر پر عمامہ باندھا اور اس کا ایک کنا رہ میرے دوش پر رکھتے هو ئے فر مایا :خدا وند عالم نے بدر و حنین کے دن اس طرح کا عمامہ باندھنے والے ملا ئکہ کے ذریعہ میری مدد فر ما ئی “۔ غدیر کے موقع پر اشعار[25]
غدیر کے پروگرام کا دوسرا حصہ حسان بن ثابت کا اشعار پڑھنے کی درخواست تھی ۔اس نے پیغمبر
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی :یا رسول اللہ اجازت مر حمت فرمائیے میں نے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے سلسلہ میں جو شعر اس عظیم واقعہ کی مناسبت سے کھے ھیں ان کو پڑھوں ؟
آنحضرت (ص) نے فرمایا :پروردگار عالم کے نام اور اس کی بر کت سے پڑھو۔
حسان ایک بلند جگہ پر کھڑے هو ئے اور اس کا کلام سننے کےلئے جم غفیر اکٹھا هوگیا ۔حسان نے کھا: “اے قریش کے بزر گو! میری بات رسول اکرم (ص)کی گواھی اور اجازت سے سنو”
اس کے بعد اس نے اسی مقام پر کھے هوئے اشعار کوپڑھنا شروع کیا جو غدیر کی تا ریخی سند کے اعتبار سے ثبت هو ئے اور یادگاری کے طور پر باقی رھے ۔ھم ذیل میں حسان کے عربی اشعار کا متن اور ان کا تر جمہ پیش کر تے ھیں :
اَلَمْ تَعْلَمُوْا اٴَ نَّ النَّبِیَّ مُحَمَّداً لَدیٰ دَوْحِ خُمٍّ حِیْنَ قَا مَ مُنَا دِیاً
کیا تم نھیں جا نتے کہ محمد پیغمبر خدا(ص) نے غدیر خم کے درختوں کے پاس منادی کی حیثیت کھڑے هوئے:
وَقَدْ جَا ءَ ہُ جِبْرِیْلُ مِنْ عِنْدِ رَبِّہِ بِاَ نَّکَ مَعْصُوْمٌ فَلَا تَکُ وَا نِیاً
اور ان کے پاس جبرئیل (ع) خدا وند عالم کی طرف سے یہ پیغام لے کر آئے کہ اے رسول اس پیغام کو پہنچا نے میں سستی نہ کیجئے آپ محفوظ رھیں گے ۔
وَبَلِّغْھُمْ مَااَنْزَلَ اللہُ رَبُّھُمْ وَاِنْ اَنْتَ لَمْ تَفْعَلْ وَحَاذَرْتَ بَا غِیاً
جو کچھ آپ پر خداوند عالم کی طرف سے نا زل هوا ھے اس کو پہنچا دیجئے اگر آپ نے ایسا نہ کیا اور سر کشوں سے خوف کھا گئے ”
عَلَیْکَ فَمَا بَلَّغْتَھُمْ عَنْ اِلٰھِھِمْ رِسَا لَتَہُ اِنْ کُنْتَ تَخْشیٰ اِلَّا عَا دِیٰا
“اگر آپ ظالموں سے خوف ڈرگئے اور دشمنوں سے ڈر گئے تو گو یا آپ نے اپنے پروردگار کی رسالت کا کوئی کام ھی انجام نھیں دیا ”
فَقَامَ بِہِ اِذْ ذَاکَ رَافِعُ کَفِّہِ بِیُمْنیٰ یَدَیْہِ مُعْلِنُ الصَّوْتِ عَا لِیاً
“اس وقت پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک کو بلند کیا اور بلند آوازمیں فر مایا :
فَقَالَ لَھُمْ :مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاہُ مِنْکُمْ وَکَانَ لِقَوْ لِیْ حَا فِظاً لَیْسَ نَا سِیاً ”
میں تم میں سے جن لوگوں کا مو لا هوں اور جو میری بات یاد رکھے گا اور فراموش نھیں کرے گا
فَمَوْ لَاہُ مِنْ بَعْدِیْ عَلِیٌّ وَاِنَّنِیْ بِہِ لَکُمْ دُوْ نَ الْبَرِ یَّةِ رٰا ضِیاً
“میرے بعد علی (ع) اس کے مو لا ھیں اور میںصرف علی کےلئے ،کسی اور کےلئے نھیں،اپنے جا نشین کے عنوان سے راضی هو ں ”
فَیَا رَبِّ مَنْ وَالیٰ عَلِیّاً فَوَالِہِ وَکُنْ لِلَّذِیْ عَا دیٰ عَلِیَّاً مُعَادِیاً
“پروردگار ا!جو علی (ع) کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو علی سے دشمنی رکھے تو اس کو دشمن رکھ”
وَ یَارَبِّ فَا نْصُرْنَاصِرِیْہِ لِنَصْرِھِمْ اِمَامَ الْھُدیٰ کَالْبَدْرِیَجْلُو الدَّیَاجِیَا
“پروردگارااس کی مدد کرنے والوں کی مدد کر اس لئے کہ وہ اس ھدایت کر نے والے امام کی مدد کر تے ھیں جو شب کی تاریکیوں میں چو دهویں رات کے چاند کی مانندروشنی بخشتا ھے ”
وَیَارَبِّ فَاخْذُلْ خَا ذِلِیْہِ وَکُنْ لَھُمْ اِذَا وَقَفُوْایَوْ مَ الْحِسَا بِ مُکَافِیاً
“اس کو رسوا کرنے والے کو رسوا کر اور قیامت کے دن جب وہ حساب کےلئے کھڑا هو تو خود اس کو جزا دینا”
حسان کے اشعار ختم هو نے کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے فر مایا :جب تک اپنی زبان سے ھمارا دفاع کر تے رهو گے روح القدس کی طرف سے تمھاری تائید هو تی رھے گی ۔ غدیر میں جبرئیل کا ظا ھر هو نا [26]
پیغمبر اسلام(ص) کے خطبہ کے بعد ایک اور یہ مسئلہ پیش آیا اور دوسری مرتبہ لوگوں پر حجت تمام هو ئی کہ ایک خوبصورت شخص لوگوں کے پاس کھڑا هوا کہہ رھا تھا :
“خدا کی قسم آج کے دن کے مانندمیںنے کوئی دن نھیں دیکھا ۔کس طرح پیغمبر نے اپنے چچا زاد بھا ئی کے سلسلہ میں تاکید فر ما ئی ،اس کے لئے یوں عھد لیا کہ خداوند عالم اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی اس کا کچھ نھیں بگاڑسکتا وائے هو اس پر جو اپنا باندھا هوا پیمان و عھد توڑے”
اس وقت عمر نے پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت اقدس میں حاضر هوکر عرض کیا :آپ نے اس مرد کی باتیں سنیں؟آنحضرت (ص) نے فر مایا :کیا تم نے اس شخص کو پہچان لیا ھے ؟عمرنے کھا :نھیں آپ(ص) نے فرمایا :
“وہ روح الامین جبرئیل ھے ۔تم اپنے ایمان کی حفاظت کرنا کہ کھیں عھد شکنی نہ کر بیٹھو،اگر تم نے ایسا کیا تو خدا ،رسول ،ملائکہ اور مو منین تجھ سے بیزار هو جا ئیں گے ” معجزئہ غدیر،تائید الٰھی[27]
معجزہ کے عنوان سے ایک واقعہ جو غدیر کے پروگرام کے اختتام پر پیش آیا وہ “حارث فھری ‘ ‘ کا ما جرا تھایہ شخص تیسرے دن پروگرام کی آخری گھڑیوں میں اپنے بارہ ساتھیوں کو لیکر آیا اور پیغمبر اکرم(ص) سے عرض کیا :
“اے محمد(ص) میں آپ سے تین سوال پوچھنا چا ہتا هوں :خدا وند عالم کی وحدانیت کی گواھی اور اپنی رسالت کا اعلان آپ نے پرور دگار عالم کی جانب سے یا اپنی طرف سے کیا ھے؟ کیا نماز و زکات و حج اورجھادکا حکم پروردگار عالم کی جا نب سے آیا ھے یا آپ نے اپنی طرف سے ان کا حکم دیا ھے؟ آپ نے جو حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے با رے میں یہ فرمایا ھے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَا ہُ فَعَلِیٌ مَوْلَاہُ۔۔۔” یہ آپ نے پر وردگار عالم کی جا نب سے فر مایا ھے یا آپ کی طرف سے ھے ؟
تو آپ نے تینوں سوالوں کے جواب میں فرمایا :
خدا وند عالم نے مجھ پر وحی کی ھے میرے اور خدا کے درمیان جبرئیل واسطہ ھیں ،میں خدا وند عالم کے پیغام کا اعلان کر نے والاهوں اور خداوند عالم کی اجازت کے بغیر میں کو ئی اعلان نھیں کرتا ”
حارث نے کھا :
“پروردگارا محمد(ص) نے جو کچھ بیان فرمایاھے اگر وہ حق ھے اور تیری جانب سے ھے تو مجھ پر آسمان سے پتھر یا دردناک عذاب نازل فرما ”
حارث کی بات تمام هو گئی اور اس نے اپنی راہ لی تو خداوند عالم نے اس پرآسمان سے ایک پتھر بھیجا جو اس کے سر پر گرا اور اس کے پاخانہ کے مقام سے نکل گیا اور اس کا وھیں پر کام تمام هو گیا ۔
اس واقعہ کے بعد آیت:
<ساٴَلَ سَائلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِلْکَافِرِیْنَ لَیْسَ لَہُ دَافِعٌ ۔۔۔>[28] نازل هوئی پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے اصحاب سے فر مایا :کیا تم نے دیکھا اور سنا ھے؟ انھوں نے کھا: ھاں ۔
اس معجزہ کے ذریعہ سب کویہ معلوم هو گیا کہ “غدیر ” منبع وحی سے معرض وجود میں آیا اور ایک الٰھی فر مان ھے ۔
دوسری جانب ،اس دن کے تمام منافقین اور طول تاریخ میں حارث فھری کے مانند فکر رکھنے والے افراد کےلئے جو اپنی دانست میںخدا و رسول کو تو قبول کر تے ھیں اور یہ جانتے هوئے علی بن ابی طالب (ع) کی ولایت خداوند عالم کی جانب سے ھے صاف طور پر کہتے ھیں کہ ھمیں یہ برداشت نھیں ھے !!خدا کے اس دندانشکن اور فوری جواب نے یہ ثابت کردیا کہ جس نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کو قبول نھیں کیا اس نے خدا و رسول کا انکار کیا اور وہ کافر ھے ۔ تین دن کے پروگرام میں پیغمبر اسلام(ص) کے دیگر فرامین[29]
تین دن تک بیعت کا سلسلہ چلتا رھا ،اور مختلف طبقوں کے افراد گروہ گروہ میں آنحضرت (ص) کی خد مت میں حا ضر هو تے رھے ۔ان چھوٹے چھوٹے اجتماعات میں(خطبہ اور مسئلہ بیعت کی اھمیت کے پیش نظر کچھ سوالات ابھر کر سامنے آئے جن کی وضاحت کی ضرورت تھی ۔آنحضرت (ص) نے بھی خطبہ کے مطالب مختصر اور مختلف عبارتوںمیں بیان فر ما تے اور بعض موارد میں وضاحت کے طور پر دیگر مطالب کا بھی اضافہ فر ماتے اور کبھی سوال و جواب کی صورت میں بیان فر ماتے ۔ان میں سے بعض مطالب آپ(ص) مفصل خطبے سے پھلے بیان فر ما ئے جو لوگوں کے آمادہ هو نے کےلئے تھے ھم نمونہ کے طور پر ذیل میں چند فرامین کا تذکرہ کر رھے ھیں : اپنے انتقال کی خبر
ایھاالناس !مجھ سے پھلے آنے والے تمام انبیا ء نے اس دنیا میںزندگی بسر کی اور جب خدا نے ان کی اجل بھیجی تو انھو ں نے اس پر لبیک کھی ۔میں بھی عنقریب داعی اجل کو لبیک کہنے والا هوں خدوند لطیف و خبیر نے مجھ کو خبر دی ھے کہ <اِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِنَّھُمْ مَیِّتُوْنَ>گویا مجھ کو بھی دعوت اجل دی گئی ھے اور میں اس پر لبیک کہہ چکاهو ں ۔اے لوگو !ھر پیغمبر اپنی قوم میںاپنے سے پھلے پیغمبر کی نسبت آدھی مدت رہتا ھے ۔
حضرت عیسیٰ بن مریم اپنی قوم کے درمیان چالیس سال رھے اور میں بیس سال کے بعد اس دنیا سے جا نے کےلئے تیار هوں اور نزدیک ھے کہ تم سے مفارقت کر جا وٴں ۔ رسالت کے پہنچا نے پر اقرا ر
آگاہ هو جا وٴ کہ مجھ سے بھی سوال هو گا اور تم سے بھی باز پُرس هو گی ۔میں جو کچھ رسالت کے عنوان سے تمھارے لئے لیکر آیا هوں ،کتاب خدا اور اس کی حجت جس کو میں نے یاد گاری کے طور پر تمھارے درمیان چھوڑا ھے اس کا مسئول هوں اور تم بھی (ان کے سلسلہ میں) مسئول هو ۔کیا میں نے پہنچا دیاھے ؟تم اپنے پروردگار کے سامنے کیا کهوگے ؟
ھر طرف سے آوازیں بلند هو ئیں : ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ خدا کے بندے اور اس کے رسول ھیں ۔آپ نے اس کی رسالت کو پہنچایا اور اس کی راہ میں جھاد کیا آپ(ص) نے اس کا امر پهونچا دیا،آپ خیر خواہ تھے اور جو کچھ آپ (ص) کے ذمہ تھا آپ (ص) نے وہ پهونچا دیا ،خدا وند عالم آپ کو ھماری طرف سے وہ بہترین جزا دے جو کسی پیغمبر کو اس کی امت کی طرف سے دی جا تی ھے ۔
آنحضرت (ص) نے فر مایا :خدا یا گواہ رہنا ۔ دوسرے انداز سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا بیان
ایھا الناس میرا شجرئہ طیبہ بیان کرو ۔لوگوں نے کھا :آپ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ھاشم بن عبد مناف ھیں ۔
آپ(ص) نے فرمایا :خدا وند عالم جب مجھ کو معراج پر لے گیا تو اس نے مجھ پر اس طرح وحی نازل کی: اے محمد ،میں محمود هوں اور تو محمد ھے !میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے مشتق کیا جو شخص تیرے ساتھ نیکی کرے گا میں اس کے ساتھ نیکی کروں گا اور جو شخص تجھ سے دور رھے گا میں اس سے دور رهوں گا ، میرے بندوں کے پاس جانا اور اپنی نسبت میری کرامت کی ان کو خبر دینا ۔میں نے کوئی پیغمبر نھیں بھیجا مگر یہ کہ اس کا وزیر قرار دیا ۔تم میرے پیغمبر هو اور علی (ع) تمھارے وزیر ھیں !
آگاہ هو جاوٴ : میں تم کو اس چیز کا گواہ بناتا هوں کہ میں گواھی دیتا هوں: خدا وند عالم میرا صاحب اختیار ھے اور میں ھر مومن کا صاحب اختیار هوں کیا تم اس بات کا اقرار کر تے هو اوراس کی گواھی دیتے هو؟ انھوں نے کھا: ھاں ،ھم اس بات کی آپ کےلئے گواھی دیتے ھیں ۔آنحضرت (ص) نے فر مایا :”آگاہ هو جاوٴ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْ لَاہُ ،جس کا میں مو لا هوں یہ علی اس کے مو لا ھیں “اور امیر المو منین کی طرف اشارہ فرمایا ۔
اے مسلمانو!حاضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچا دیں :جو لوگ مجھ پر ایمان لائے اور انھوں نے میری تصدیق کی ھے میں ان کو ولایت علی (ع) کی وصیت کر تا هوں ۔ جان لو کہ علی کی ولایت میری ولایت،اور میری ولایت خدا کی ولایت ھے ۔یہ وہ عھد و پیمان ھے جوخدا وند عالم نے مجھ سے لیاھے اور مجھے تم تک پہنچا نے کا حکم دیا ھے اس کے بعد تین مر تبہ فر مایا :کیا تم نے سنا ؟ انھوں نے کھا : یا رسول اللہ ھم نے سن لیا ۔
ایھا الناس کس چیز کی گواھی دو گے ؟انھوں نے کھا :ھم گواھی دیتے ھیں کہ خدا کے علاوہ اور کو ئی خدا نھیں ھے ۔آنحضرت (ص) نے فرمایا: اس کے بعد کس چیز کی گو اھی دیتے هو ؟انھوں نے کھا :محمد اللہ کے بندے اوراسکے رسول ھیں ۔آنحضرت (ص) نے فرمایا :تمھارا صاحب اختیار کون ھے : انھوں نے کھا: خدا اور اس کا رسول ھمارے صاحب اختیار ھیں ۔آنحضرت (ص) نے فر مایا: جس شخص کے خدا اور رسول صاحب اختیار ھیں یہ شخص(علی علیہ السلام ) اس کے صاحب اختیار ھیں
کیا میں ھر مو من پر ا س کے نفس سے زیادہ حق نھیں رکھتا ؟
انھوں نے کھا :ھاں یا رسول اللہ ۔
آپ (ص) نے آسمان کی طرف نظریں اٹھا کرتین مرتبہ فرمایا:اے خدا گواہ رہنا! اس کے بعد فرمایا : آگاہ هو جا وٴ !جس شخص کا میں صاحب اختیار هوں اور اس کے نفس پر اس سے زیادہ حق رکھتا هوں یہ علی (ع) اس کے صاحب اختیار اور اس کے نفس پر اس سے زیادہ حق رکھتے ھیں ۔
سلمان نے سوال کیا :حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کس طرح ھے اور اسکا نمونہ کیا ھے ؟
آنحضرت (ص) نے فرمایا :علی علیہ السلام کی ولایت میری ولایت کے مانند ھے ۔جس شخص پر میں اس کے نفس سے زیادہ حق رکھتا هوں علی (ع) بھی اس کے نفس پر اس سے زیادہ حق رکھتے ھیں ۔
دوسرے شخص نے سوال کیا :حضرت علی علیہ السلام کی ولایت سے کیا مراد ھے ؟
آنحضرت (ص) نے فرمایا:جس شخص کا میں پیغمبر هوں اس شخص کے یہ علی علیہ السلام امیر ھیں ۔ قیامت کے دن ولایت کا سوال
کیا تم اس بات کو تسلیم کرتے هو کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے اور میں تمھاری طرف اس کا رسول هوں ،جنت و جہنم اور مرنے کے بعد زندہ هو نا حق ھے ؟
انھوں نے کھا :ھم ان باتوں کی گواھی دیتے ھیں ۔
آپ (ص) نے فرمایا :خدایا یہ جو کچھ کہہ رھے ھیں اس پرگواہ رہنا ۔
آگاہ هو جاوٴ کہ تم لوگوں نے مجھ کو دیکھا ھے اورمیرا کلام سنا ھے ۔ جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ با ندھے گا اس کا ٹھکانا جہنم ھے ۔آگاہ هوجاوٴ کہ میں حوض کوثر پر تمھارا منتظر هوںگااور قیامت کے دن دوسری امتوں کے مقابلہ میں تمھاری کثرت پر فخر کروں گا ۔تم وھاں پر آنا لیکن دوسری امتوں کے مقابل میں مجھ کو شرمندہ نہ کرنا !!
آگاہ هو جاوٴ میں تمھارا انتظار کروں گا اور تم قیامت کے دن میرے پاس حوض کوثر پر آوٴ گے وہ حوض جس کی چوڑائی بُصریٰ سے لیکر صنعا تک[30] ھے ،اس میں آسمان کے ستاروں کی تعدادسے برابر پیالے ھیں۔
آگاہ هو جاوٴ کہ قیامت کے دن جب تم میرے پاس حوض کوثر پر حا ضر هو گے تو میں نے جس چیز پر آج تم سے شھادت لی ھے اس کے سلسلہ میں اور ثقلین سے متعلق سوال کروں گا کہ تم نے ان کے ساتھ کیسا برتاوٴ کیا ؟دیکھو جس دن مجھ سے ملاقات کروگے دیکھوں گا کہ تم نے میری عدم مو جود گی میں ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔
سوال کیا گیا : یا رسول اللہ ثقلین کون ھیں ؟آپ (ص) نے فرمایا :ثقل اکبر خدا وند عز و جل کی کتاب ھے جو خدا اور مجھ سے تمھارے ھاتھوں میں ایک متصل واسطہ ھے اس کا ایک طرف خداوند عالم کے ھاتھ میں ھے اور دوسری طرف تمھارے ھاتھوں میں ھے اس میں ماضی میںاورروز قیامت تک مستقبل کے علوم موجودھیں ۔
ثقل اصغر قرآن کا ھمتا ھے اور وہ علی بن ابی طالب اور ان کی عترت ھے اور یہ ایک دوسرے سے جدا نھیں هو ںگے یھاں تک کہ قیامت کے دن حو ض کوثر پر میرے پاس حا ضر هوں ۔
ان سے سوال کر نا اور ان کے علاوہ کسی اور سے سوال نہ کرنا ورنہ گمراہ هو جا وٴ گے ۔میں نے ان دونوں کے لئے خدا وند عالم سے درخواستیں کیں وہ خدا وند لطیف و خبیر نے مجھے عطا کی ھیں ،ان کی مدد کرنے والا میری مدد کرنے والااور ان کو رسوا کرنے والا مجھے رسوا کرنے والا ھے ،ان دونوں کا دوست میرا دوست اور ان کا دشمن میرا دشمن ھے ۔تم سے پھلے کو ئی امت ھلاک نھیں هو ئی مگراس وقت جب انھوں نے اپنے دین کو اپنی خواھشات نفسانی کے تحت قرار دے لیا، ایک زبان هو کر اپنے پیغمبر کی مخالفت کی اور اپنے درمیان عدالت سے فیصلہ کر نے والوں کو قتل کر ڈالا۔
آگاہ هو جا وٴکہ میں بہت سے لوگوں کوآتش جہنم سے نجات دلاوٴ ں گا اور لیکن بعض کو مجھ سے لے لیا جا ئے گا میں خدا سے عرض کروں گا پروردگارا یہ میرے اصحاب ھیں ؟!مجھ کو جواب ملے گا :آپ کو نھیں معلوم کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا کیا کارنامے انجام د ئے ھیں !! غدیر کے پروگرام کا اختتام[31]
اس طرح غدیر کا تین دن کا پروگرام اپنے اختتام کو پہنچااور وہ روز “ایام الولایة”کے نام سے ذہنوں میں بیٹھ گئے،مختلف گروہ اور عرب کے قبیلوںمیں سے ھرایک نے دنیائے معارف اسلام ،اپنے پیغمبرسے الوداع کہنے اور آنحضرت (ص) کے جا نشین کی کامل معرفت کے ساتھ اپنے اپنے شھر و دیار کی راہ لی ۔مکہ اور یمن کے رہنے والے جنوب کی طرف جس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے واپس پلٹ گئے ،اور مختلف قبیلے راستے میں اپنے اپنے وطنوں کی طرف چلے گئے آپ(ص) نے بھی مدینہ کا رخ کیادر حا لیکہ کاروان بعثت کو اس کے منزل مقصود تک پہنچا دیا تھا۔
واقعہٴ غدیر کی خبر شھروں میں منتشر هو ئی، بہت جلدی شائع هو ئی اور سب کے کانوں تک پہنچ گئی، اور بیشک مسافروں ،ساربانوں اور تاجروں کے ذریعہ اس وقت کے سب سے دور ممالک یعنی ایران، روم اور چین تک پھیل گئی ،اور غیر مسلم بھی اس سے با خبر هو ئے ۔دوسری جانب ،ملکوں کے بادشاہ جو اسلام کی نئی قدرت و طاقت کے مخالف تھے اور آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد کے ایام کے متظرتھے ان کے ارادے و منصوبے بھی حضرت علی علیہ السلام کے آپ(ص) کے جا نشین هو نے کی خبر سن کر پاش پاش هو گئے ۔ اسلامی معا شرہ دوبارہ نئی طاقت بن کر سامنے آیا ،اور اغیار کے احتمالی حملوںسے محفوظ هو گیا ،اس طرح خدا وند عالم نے لوگوں پر اپنی حجت تمام کی: حضرت امیر المو منین علیہ السلام فر ما تے ھیں :
“مَاعَلِمْتُ اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ص)تَرَکَ یَوْمَ الْغَدِیْرِلِاَحَدٍ حُجَّةً وَلَالِقَائِلٍ مَقَا لاً”[32]
“پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر کے دن کسی کےلئے کوئی حجت اور کوئی بھانہ باقی نھیں چھوڑا ‘ ‘
یھیں سے خدا وند تبارک و تعالیٰ کے کلام کے عمیق و دقیق هو نے کو پہچانا جا سکتا ھے جو یہ فر ماتا ھے :
“لَوْ اِجْتَمَعَ النَّاسُ کُلُّھُمْ عَلیٰ وِلَایَةِ عَلِیٍّ مَاخَلَقْتُ النَّارَ “[33]
“اگر تمام لوگ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت پر متفق هو جاتے تو میں جہنم کو پیدا نہ کر تا ”
 
[1] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ۲۰۱۔
[2] عوالم العلوم جلد۱۵/۳صفحہ۱۶۷،۲۹۷۔الغدیرجلد۱صفحہ۹،۱۰۔بحارالانوارجلد ۱صفحہ۳۶۰،۳ ۳۸،۳۸۴ ، ۳۹۰ جلد ۲۸ صفحہ ۹۵ ۔
[3] بعض روایات میں ایک لاکھ اسّی ہزار افراد نقل هوئے ھیں ۔
[4] بحارالانواتر جلد ۳۷ صفحہ ۱۱۳،جلد ۲۱صفحہ ۳۸۰۔
[5] بحارالانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۱۴۔
[6] منافقین کے اقدامات کی تفصیل کااس کتاب کے تیسرے حصہ میں تذکرہ هو گا ۔
[7] بحار الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۹۶،جلد ۳۷ صفحہ ۱۱۳،جلد ۴۰ صفحہ ۲۱۶۔
حضرت بقیة اللہ الاعظم علیہ السلام کے پاس ھیں ۔
[8] بحارالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۱۱،۱۲۰جلد ۳۷صفحہ۱۱۳،جلد ۴۰ صفحہ ۲۱۶۔عوالم ۱۵/۳صفحہ ۳۹،کتاب سلیم بن قیس صفحہ۷۳۰۔
[9] بحارالانوارجلد۲۱صفحہ۳۸۵،جلد۳۷صفحہ ۱۱۱۔۱۵۸۔اثبات الھدات:جلد ۲ صفحہ ۱۳۶حدیث ۵۹۳۔الغدیر جلد ۱ صفحہ ۱۰،۲۶۸۔
[10] غدیر میں مسجد نبی (ع) “جو اس تاریخی واقعہ کی یادگار ھے “نے دوست و دشمن کی طرف سے عجیب دن دیکھے ھیںھم اس کتاب میں اس بات کی طرف اشارہ کریں گے ۔
[11] ایک قول کے مطابق ایک لاکھ چالیس ہزار اور دوسرے قول کے مطابق ایک لاکھ اسّی ہزارافراد تھے ۔
[12] بحار الانوارجلد ۲۱ صفحہ ۳۸۷ ،جلد ۳۷ صفحہ ۱۷۳،۲۰۳،۲۰۴،جلد ۹۸ صفحہ ۲۹۸،عوالم :جلد ۱۵/۳ صفحہ۵۰،۶۰،۷۵، ۷۹،۸۰،۳۰۱۔ جلد ۱ صفحہ ۱۰ ،۲۲ ۔مدینة المعا جز صفحہ ۱۲۸۔الفصول المھمة صفحہ ۲۴،۲۵۔
[13] گذشتہ حصہ میں بیان شدہ روایتوں کے مطابق آنحضرت (ص) مدینہ سے ۲۵ ذیقعدہ ھفتہ کے روز چلے اور ۵ /ذی الحجہ منگل کے روز مکہ پہنچے ۔اس بنا پر ۱۸ ذی الحجہ پیرکے روزهو تی ھے ۔اور پندرہ سو سالہ ھجری قمری اور عیسوی (تحقیق:حکیم قریشی ) ڈائری کے مطابق دس ھجری میں ۱۸ ذی الحجہ دس ھجری مطابق ۱۵ مارچ ۶۳۲ ء پیر کے روز تھی ۔
[14] کُرا ع : اس جگہ کو کھا جاتا ھے جھاں پر جا کر پانی کاراستہ ختم هو جاتا ھے ۔” غمیم ” اس علاقہ کا نام ھے غدیراس تالاب کو کہتے ھیںجس میںسیلاب کے بعدپانی باقی رہ جا ئے ۔”خم “اس آبگیر کو کہتے ھیں ۔”غدیر خم” کا علاقہ وادی جحفہ میں ھے اور اسی نام سے مشهور ھے ‘
[15] بحارالانوار جلد۱ ۲صفحہ ۳۸۷،جلد ۳۷صفحہ۱۷۳،۲۰۳،۲۰۴،جلد۹۸صفحہ۲۹۸۔عوالم:جلد ۱۵/۳ صفحہ۵۰، ۶۰، ۷۵، ۷۹،۸۰،۳۰۱۔احقاق الحق جلد ۲۱ صفحہ ۴۶۔
[16] بحا رالانوار جلد ۱ ۲صفحہ ۳۸۷ ،جلد ۳۷ صفحہ ۲۰۹۔عوالم :جلد ۱۵/۳صفحہ ۴۴،۹۷،۳۰۱۔اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ۷ ۲۶حدیث ۳۸۷ ،۳۹۱۔احقاق الحق جلد ۲۱صفحہ ۵۳۔۵۷۔
[17] بحار الانوار جلد ۳۷ صفحہ ۲۰۱ ۔۲۰۷۔اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۱۴ ،جلد ۳ صفحہ ۵۵۸۔
[18] بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ /۱۱۱،۲۰۹۔عوالم :جلد ۱۵/۳صفحہ ۴۷۔کتاب سلیم :صفحہ ۸۸۸حدیث/۵۵۔
[19] ۱۔بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ /۲۱۵،۲۱۹۔بیعت غدیر کے سلسلہ میں اس کتاب کے آٹھویں حصہ کی چوتھی فصل میں رجوع فرمائیں ۔
[20] بحار الانوار:جلد ۲۱صفحہ ۳۸۷۔امالی شیخ مفید:صفحہ ۵۷۔
[21]بحار الانوار جلد۲۱ صفحہ ۳۸۷، جلد ۲۸ صفحہ ۹۰، جلد ۳۷ صفحہ۱۲۷ ۔۱۶۶۔ا لغدیر جلد ۱ صفحہ ۵۸،۲۷۱،۲۷۴۔ عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۴۲،۶۰،۶۵،۱۳۴،۱۳۶،۱۹۴،۱۹۵،۲۰۳،۲۰۵۔
[22] بحارالانوار جلد ۲۱صفحہ/ ۳۸۸۔عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۳۰۹۔
[23] الغدیر جلد ۱صفحہ/ ۲۹۱۔عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۱۹۹۔اثبات الھداة جلد۲صفحہ۲۱۹حدیث ۱۰۲۔
[24] تاج العروس جلد ۸ صفحہ ۴۱۰۔
[25] بحا رالانوار :جلد ۲۱ صفحہ ۳۸۸،جلد ۳۷ صفحہ ۱۱۲،۱۶۶،۱۹۵۔عوالم :جلد۱۵/۳ صفحہ ۴۱،۹۸،۱۴۴،۲۰۱۔کفا یة الطّالب صفحہ ۴۔اشعار کاعربی متن کتاب سلیم بن قیس صفحہ۲۸۲ سے نقل کیا گیا ھے جوتھوڑے فرق کے ساتھ دوسروں کتابوں میں بھی موجود ھے۔
[26] بحارالانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۲۰،۱۶۱۔عوالم جلد ۱۵/۳ صفحہ ۸۵ ،۱۳۶۔
[27] بحار الانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۳۶ ،۱۶۲،۱۶۷۔عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۵۶،۵۷،۱۲۹،۱۴۴۔الغدیر:جلد ۱ صفحہ ۱۹۳۔یہ بات بیان کر دینا ضروری ھے کہ روایات میں “حارث فھری “کا نام مختلف ناموں سے ذکر هوا ھے، احتمال ھے کہ بعض نام اس کے بارہ ساتھیوں کے هوں ۔
[28] سوره معارج آیت /۲۱۔
[29] عوالم العلوم جلد ۱۵/۳صفحہ ۴۳،۴۴،۴۶،۴۹،۵۴،۷۵،۹۷،۱۹۶،۱۹۹،۲۳۹،۲۶۱۔
[30] “بصری “ملک شام کا ایک شھر ھے اور”صنعا “ملک یمن کا ایک شھر ھے ،لیکن یھاں پر اس سے حوض کوثرکا وسیع هونا مراد ھے ”
[31] بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۳۶،جلد ۳۹صفحہ ۳۳۶،جلد ۴۱صفحہ۲۲۸۔عوالم :جلد۱۵/۳صفحہ ۶۸۔کشف المھم :صفحہ ۱۰۹۔بصا ئرالدرجات صفحہ۲۰۱۔
[32] اثبات الھُداة :جلد ۲ صفحہ ۱۵۵حدیث۴۷۶۔
[33] بحارالانوار جلد ۳۹صفحہ۲۴۷۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.