ہدايت کے سلسلہ ميں کرامات
لوگوں کي ہدايت و رہنمائي ہميشہ عام طريقہ سے نہيں تھي؛ بلکہ ضرورت کے پیش نظر اورناحیہ مقدسہ کے امر و عنايت کي صورت ميں کبھي کبھي ناحيہ مقدسہ کي جانب سے منصوب نواب اور سفراء کے ذريعہ بھي خارق العادۃ اور کرامات امور پیش آتے تھے۔ ابو جعفر عمري ايک واقعہ ميں خرق عادت کے ذريعہ کپڑوں کی ایک جگہ سے ایک گم ہونے والے کپڑے کی کسي شيعہ کو خبر ديتے ہيں۔[1] اسي طرح حسين بن روح نوبختي سادہ کا غذ کی صورت میں خط بھیجنے والے کے ذہن ميں موجود سوال کا جواب تحرير فرما تے تھے۔[2] علي بن محمد سمري بھي بغد اد ميں علي بن بابويہ قمي کي قم ميں وفات کي خبر ديتے ہيں[3] کہ بعد ميں ثابت ہوتا کہ بابويہ قمي نے اسي تاريخ ميں دار فاني سے دار جاويداني کي طرف رحلت کي ہے کہ جس تاريخ ميں چوتھے سفير نے خبر دي تھي۔ اس طرح کے دسيوں خارق العادات اور کرامات کی مثالیں تاريخي متون کے درميان تلاش کی جاسکتی ہيں۔عصرغيبت صغري ميں شيعہ رہبري کے قالب پر تقیہ اور رازداری کا حاکم ہونا:
عصر غيبت صغري ميں گزشتہ ادوار کي طرح اصل تقيہ اور رازداری شيعہ رہبری کے قالب پر حا کم تھي۔اسي لئے بعض محققين نے اس تنظيم کانام (خفيہ تنظيم)يا (التنظيم السري)انتخاب کيا ہے۔[4] اس اصول کي عصر غيبت صغري ميں سختی کے ساتھ پوري پوري رعايت کي گئي۔ مجموعی طور پر ٬ ناحيہ مقدسہ کي جانب سے باب يا سفير کے انتخاب کي ايک شرط٬ پردہ پوشي اور رازداري کي مکمل توانائي کا حامل ہونا تھي اوریہ رازداری ان بعض ادوار ميں مزید بڑھ گئی کہ جس ميں شديد گھٹن اورزبردست خطرہ محسوس ہورہاتھا ۔مثال کے طورپر دوسرے سفير کي راز داري اس طرح تھي کہ وہ ناحيہ مقدسہ کي توقيع کا مضمون اپنے ايک معادن يعني(جعفر بن محمد بن متيل قمي) تک پہنچانے کے لئے اسے بغداد ميں عباسيوں کے ايک کھنڈر ميں لے گئے، انہیں توقيع مبارک دکھائي اوراس ميں موجوداحکامات سے جعفر کو باخبر کيا٬ اس کے بعد توقيع کو پارہ پارہ کرديا تاکہ اس کا کوئي اثر باقي نہ رہ جائے![5]
اسی طرح حضرت کے تيسرے سفير کي انتہائي رازداري اور تقيہ شيعہ معاشرے ميں زبان زد تھي۔[6] ايک دن ايک شيعہ ابوسہل نوبختي سے سوال کرتاہے: تمہارے بلندو بالا اور عظیم علمي اورسماجي حيثيت اورمقام کے ہوتے ہوئے ناحيہ مقدسہ نے تمہاری بجائے ابن روح کو کيوں انتخاب کياہے؟ وہ جواب ديتے ہيں: ابن روح کي راز داري اس مرتبہ پرہے کہ اگر خود انہوں نے حضرت حجت عج اللہ فرجہ الشريف کو چھپا رکھا ہو اور لوگ ان کا اُن سے پتہ لگانے کے لئے انہيں ٹکڑے ٹکڑے يا قينچي سے کاٹ ڈاليں تو بھي يہ حضرت کانام و نشان بتانے والے نہيں ہيں۔[7]
اس خفيہ تنظيم کي فعاليت بڑھانے ميں کبھي حضرت حجت عليہ السلام کي معجزہ نما امداد بھي کافي مشکل کشارہي ہے۔ مثال کے طور پر محمد بن عثمان عمري کي مدت سفارت کے دوران حکومت اس تنظيم کي بعض پوشيدہ سرگرمیوں سے باخبر ہوگئي٬ لہذا حکومت نے کسي کو شيعہ کے عنوان سے شرعي رقومات دينے کے لئے ايسے افراد کے پاس بھيجا جن پر وکالت کا گمان تھا۔ ان جاسوسوں سے ايک وکيل بنام محمد بن احمد بن جعفر قطان قمي کا سامناہوا، البتہ اس سازش کے آغاز ہي ميں ناحيہ مقدسہ نے ايک توقيع ميں تمام وکلاء کو نامعلوم مدت تک کے لئے شرعي رقومات لينے سے منع کرديا تھا ۔ مذکورہ وکيل نے بھي اپني وکالت کا انکار کرديا اور اس جاسوس سے کوئي رقم نہيں لي! اور يہي صورتحال مکمل خطرہ برطرف ہونے تک باقي رہي۔[8]
[1] ۔کمال الدين و تمام النعمۃ ٬ ص٥٠۲. الغيبہ٬ ص١۷۹.
[2] ۔الغيبہ٬ ص١٩٢.
[3] ۔کمال الدين و تمام النعمۃ٬ ص٥٠٣.
[4] ۔تاريخ سياسي غيبت اما م دوازدھم ٬ ص١٣٤.
[5] ۔کما ل الدين و تمام النعمہ ٬ ص٥٠٣.
[6] ۔الغيبہ ٬ ص٢٣٦.
[7] ۔سابقہ ماخذ ٬ ص٢٤٠.
[8] ۔بحارالانوار٬ ج٥١ ٬ ص٣١٠.