نيابت کے جھوٹے دعوے

142

جن لوگوں نے عصر غيبت صغري ميں سفارت اور بابيت کا جھوٹا دعوي کياہے وہ درج ذيل افراد ہيں: اسحاق احمر ٬[1] با قطاني٬ [2] ابو محمد شريعتي ٬ [3] محمد بن نصير نميري٬ [4] احمد بن ھلال کرخي عبرتائي٬ [5] محمد بن علي بن بلال٬ [6] ابوبکر بغدادي٬ [7] ابودلف مجنون٬ [8] حسین بن منصور حلاج [9] اور ابوجعفر شلمغاني٬ [10]
البتہ امام اور آپ کے سچے سفراءنے بھي ان جھوٹے دعويداروں کا مقابلہ کرنے کے لئے مناسب روشوں کا انتخاب کيا٬ کبھي جھوٹے دعويداروں کي ظاہري صورتحال کا حضرت کے سچے سفيروں سے موازنہ باعث ہوا کہ لوگوں پر ان کے جھوٹے دعووں کي قلعی کھل گئی ۔ مثال کے طور پر جب احمد دينوري بغداد ميں داخل ہوئے تو تين افراد کي طر ف سے نيابت کے دعوی کا سامنا کیا کہ ان تين افراد ميں سے ايک ابوجعفر بن محمد بن عثمان بن سعيد عمري اوردو ديگر افراد اسحاق احمر اور باقطاني تھے۔وہ ان تينوں افراد کے گھر گئے ۔ابوجعفر عمري٬ ايک منکسر مزاج انسان تھے اور آپ کا گھر چھوٹا تھا، نيز آپ کي زندگي آئمہ عليھم السلام کي زندگی سے مشابہہ تھي۔ ليکن ديگر دو افراد بے شمار خدمتگزار اور قيمتي سے قيمتي گھررکھتے تھے۔ دينوري ان دونوں کے دعوی سے شک ميں پڑگئے ،ليکن ناحيہ مقدسہ کي رہنمائی سے ابوجعفر عمري کي نیابت کے سچے ہونے کا انہیں يقين ہوگيا۔[11]
کچھ موارد ميں ناحيہ مقدسہ کے سفير ٬ سفارت کے مدعي کي بزم ميں بھي حاضر ہوئے اور کسي طرح سے اس کےدعوے کے جھوٹے ہونے کا اس سے اقرار ليا۔مثا ل کے طور پر ابوطاہر محمد بن علي بن بلال بھي ان ميں سے ايک تھا جس نے بابيت جھوٹادعوي کيا تھا۔[12]
ايک دن ابوجعفر عمري ايک ايسي بزم ميں گئے کہ جس ميں ابوطاہر اپنے پيروکاروں کے ساتھ موجود تھا ٬ اور اس سے مخاطب ہوکر بولے: کيا صاحب الزمان نے تمہيں اموال ميرے حوالے کرنے کا حکم نہيں ديا ہے؟وہ حواس باختہ ہوگيا اور اقرارکرنے کے سوا اس کے پاس کوئي چارہ نہيں رہااور يہي مسئلہ باعث بنا اس کے بعض ماننے والوں نے اس کي پيروي چھوڑ دی۔[13]
عصر غيبت صغري ميں بابيت او رنيابت کے جھوٹے دعویداروں کے ساتھ ناحيہ مقدسہ کے مقابلہ کا ايک دوسراطريقہ یہ تھا کہ توقيعات کے ذريعہ جھوٹے دعويداروں پر لعن کا اعلان ہوتا، جو حضرت کے سچے نواب اور سفراء کے ذ ريعہ شيعوں تک پہنچيں ۔ کبھي حضرت مدعي شخص کي خاص حيثيت اور مقام کي وجہ سے لعن کے دو يا تين بار اعلان کرنے اور جھوٹے مدعي کي حقيقت فاش کرنے پر مجبور ہوئے؛ اس سلسلہ ميں احمد بن ھلال کرخي عبرتائي کي طرف اشارہ کياجاسکتاہے ٬ کيونکہ وہ پہلے امام ہادي عليہ السلام اور امام حسن عسکري عليہ السلام کا وکیل رہا تھا اور ايک صوفي مسلک اورعلي الظاہر ديندار انسان تھا، نيز اس نے ٥٤حج کے سفر کئے تھے کہ ان ميں سے ٢٠بار پيادہ حج کئے تھے۔
[1] ۔بحارالانوار ٬ علامہ محمد باقر مجلسي٬ تہران ٬ ١٣٧٦ ھ ق کے بعد٬ ج٥١ ٬ ص٣٠٠.
[2] ۔ سابقہ ماخذ.
[3] ۔الغيبۃ ٬ ص٢٤٤.
[4] ۔ سابقہ ماخذ ٬ ص٢٤٥ رجال کشي ٬ ص٤٣٨؛ بحارالانوار٬ ج٥١ ٬ ص٣٦٧.
[5] ۔الغيبۃ ٬ ص٢١٤؛ مکتب در فر آيند تکامل ٬ ص٩٦.
[6] ۔الغيبۃ ٬ ص٢٤٥.
[7] ۔ سابقہ ماخذ ٬ ص٢٥٦.
[8] ۔ سابقہ ماخذ ٬ ص٢٥٥.
[9] ۔ سابقہ ماخذ ٬ صص ٢٤٦۔٢٤٧.
[10] ۔ سابقہ ماخذ ٬ صص١٨٧ و ٢٥١۔٢٥٢.
[11] ۔بحارالانوار٬ ج٥١ ٬ ص٣٠٠.
[12] ۔الغيبۃ ٬ ص٢٤٥.
[13] ۔ سابقہ ماخذ ٬ صص ٢١٤ ٬ ٢١٧ ٬ ٢٢٨ ٬ ٢٤٥؛ کمال الدين و تمام النعمۃ ٬ ص٤٨٩.

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.