انتظار کے مختلف پہلو

166

(الف)فکری صلاحیتیں:
مضبوط عمارتوں اور عظیم ذمہ داریوں کے لئے مضبوط بنیادوں کی ضرورت ہوتی ہے جو احساس اور شعور میں گھر کرچکی ہوں اس لئے پیغمبر اسلام (ص) نے ارشاد فرمایا لکل شی دعامۃ و دعامۃ ھذا الدین الفقہ والفقیہ الواحد اشد علی الشیطان من الف عابد[1]
ترجمہ: ہر چیز کے لئے کوئی نہ کوئی بنیاد ہوتی ہے اور دین اسلام کی اساس گہرا فہم و ادراک ہے شیطان کے مقابلے میں ایک فقیہ کی حیثیت ھزار عبادت گزاروں سے (جو بغیر معرفت کے عبادت کرتے ہیں) کہیں زیادہ اور موثر ہے۔
لہذا زمانہ انتظار میں ہمیں اپنی فکری بنیادیں مضبوط کرنا ہوں گی تاکہ مختلف افکار و نظریات کے سامنے سرتسلیم خم نہ ہوں لیکن اسے کیسے عملی جامہ پہنایا جائے؟ بعض کا خیال ہے کہ صحیح نظریہ اپنانے کے لئے تمام نظریات کی شناخت ضروری ہے لیکن یہ تجزیہ و تحلیل صحیح نظریہ کے انتخاب میں کافی نہیں ہے کیونکہ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ تمام اچھی باتوں کو سنو اور پھر ان میں سے بہترین کا انتخاب کرلو(فبشر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ)[2]
لیکن بہترین کو کس اصول پر پرکھنا ضروری ہے یہ اصول کیا ہیں؟
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : کفی بالمرء جھلا ان لا یعرف قدرہ [3]
انسان کی نادانی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنی معلومات کے لئے کوئی اصول اور ضابطہ نہ رکھتا ہو اور اپنی اہمیت کو نہ پہچانتا ہو۔
فکری اعتبار سے ایک منتظر شخص کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ معرفت، ادراک اور اپنی قدرومنزلت کی پہچان ہے اور یہی مختلف مذاہب کے انتخاب کا معیار بھی ہے جو انسان کو مختلف نظریات کے مقابلے میں صحیح راہنمائی کرکے اچھے نظریہ کو انتخاب کرنے کی صلاحیت دیتا ہے کیونکہ بہترین نظریہ کو جن نعروں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے جب اس نعرے اور اپنے وجود کے درمیان تقابل کیا جائے تو اس وقت انتخاب کا مرحلہ سامنے آتا ہے اسی معیار کی بنا پر آپ مختلف گروہوں اور مذاہب کے نظریات پر بھی تبصرہ کرسکتے ہیں ضروری نہیں کہ ان تمام مذاہب کا مطالعہ کیا جائے بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ ان مذاہب کے بارے میں یہ جان لیا جائے کہ انہوں نے انسان کی آخرت اور سرانجام کے لئے کیا نظریہ پیش کیا ہے مثلا جب آپ اپنے لئے جوتا خریدنا چاہتے ہیں تو کسی بھی جوتوں کی دکان میں موجود تمام جوتوں کو پہن کر نہیں دیکھتے بلکہ آپ کے پاؤں کا سائز اور نمبر آپ کو بہترین جوتے کے انتخاب میں مدد کرتے ہیں۔
مذاہب کے بارے میں بھی یہی طریقہ کار رائج ہے جب میں اپنی انسانی حقیقت کو سمجھ لیتا ہوں اور اس کو پہچانتا ہوں تو پھر اس چیز کے درپے ہوجاتا ہوں کہ مختلف مذاہب ایسے انسان کے لئے کس طرح کا لباس بناتے ہیں تو اس سے میں سمجھ جاتا ہوں کہ وہ مختلف لباس جو انہوں نے میرے لئے بنائے ہیں وہ میرے پاؤں کی ایک انگلی تک کو نہیں ڈھانپ سکتے صرف ایک مذہب ایسا ہے جسے مذہب شیعہ کہتے ہیں جس کے اہداف اور مقاصد انسان کی حقیقی اہمیت اور اس کے وجودی تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔
یہ راستہ ہمارے لئے بہت ساری مشکلات کو حل کردیتا ہے اور اس آغاز سے ہم ان واقعات کو ایجاد کرسکتے ہیں جن کے ذریعہ دوسروں کے افکار اور نظریات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے اور یہ وہ حقیقت اور ایسا فکری رجحان ہے جو مختلف افکار کے سامنے استقامت کرسکتا ہے انسان لامتناہی استعداد کا حامل ہے أتزعم انک جرم صغیر وفیک انطوی العالم الاکبر[4]
اگر ہم اس پر یقین کرلیں تو پھر ہم ایک ایسے مقام پر ہیں کہ جس کا آخر معلوم نہیں اور ہم مجبور ہیں کہ ہمیشہ متحرک رہیں۔
(ب)روحانی صلاحیتیں:
ایک منتظر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اعلی درجے کی روحانی صلاحیت کا مالک ہو تاکہ حادثات اور مصیبتوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح استوار رہے اور اپنی ذمہ داریوں کو روشن بینی کے ساتھ سنبھال سکے حقیقت میں میرے وجود کی وسعت ہی مجھے حوادث زمانہ کے سامنے مضبوط بنا سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ جب ایک منتظر دعا کرتا ہے تو وہ خدا سے معرفت کو طلب کرتا ہے(اللھم عرفنی نفسک اے خدا مجھے اپنی معرفت عطا کردے)
اسی طرح پائے ثبات کا طلبگار ہوتا ہے ‘ثبتنی علی دینک’ اور وہ صبر و شکیبائی کا متمنی رہتا ہے (صبرنی علی ذلک) [5]
ایک منتظر کو چاہیئے کہ وہ اس قدر مضبوط ارادے کا حامل ہو کہ دنیاوی رنج و الم کے سامنے آسائش و آرام کا احساس کرسکے کیونکہ زمانہ غیبت میں لوگوں کو سخت امتحانات میں ڈالا جائے گا جس سے ان کے پائےثبات میں لغزش آسکتی ہے جیسا کہ امام باقر علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی کے جواب میں فرمایا جس نے پوچھا تھاکہ آپ کے فرج کا کونسا وقت ہے؟ آپ نے فرمایا: (ھیھات ھیھات لاتکون فرجنا حتی تغربلوا ثم تغربلوا یقولوا ثلاثا حتی یذھب الکدروا یبقی الصفو )
ترجمہ: ھرگز نہیں ھرگز نہیں ہمارا فرج اتنا جلدی نہی ہوگا حتی کہ تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوجاؤ امام نے تین مرتبہ یہ جملہ فرمایا حتی کہ کدورتیں چھٹ جائیں اور صدق و صفا باقی رہ جائے
روحانی صلاحیت کا ہونا بہت ہی اہم ہے جو زمانہ انتظار میں حاصل ہونی چاہئے لیکن جو چیز اس سے بھی اہم ہے وہ روحانی صلاحیت کو ایجاد کرنے کے راستے ہیں کہ کس طرح ایک منتظر شخص کے اندر کس راہ و روش کے ساتھ اس روحانی صلاحیت کو ایجاد کیا جائے اس کے لئے کچھ نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔
۱۔ خوداعتمادی:
وہ شخص جو اپنی اہمیت کو پہچان لیتا ہے وہ اپنے سے نادان افراد کے ذریعہ منحرف نہیں ہوسکتا ہماری روحانی وسعت اور ظرفیت کہ جس سے ہم بہت متاثر ہوتے ہیں اور اس کی اہمیت کے قائل ہیں وہ اسی چیز سے متعین ہوتی ہے کیونکہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں “قیمۃ کل امرءٍ ما یحسنہ”[6]
قدرا رجل علی قدر ھمتہ[7]
ترجمہ: انسان کی اہمیت اسی چیز کے برابر ہے جو اس پر موثر واقع ہوتی ہے اور اس کے لئے قابل اہمیت ہے پس ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے وجود کی اہمیت کو اس حد تک پہچان سکیں کہ وہ چیزیں جو ہمارے لئے اہمیت رکھتی ہیں اور ھم پر موثر واقع ہوتی ہیں ہمارا وجود ان سے اعلی و ارفع ہے ان سے ہمارے ارادے مضبوط ہوں گے جن کے باعث ہم متحرک اور فعال ہوں گے اور اس حرکت کے دوران جن مسائل سے ہمارا سامنا ہوگا ہم وقت سے پہلے ان کے لئے آمادہ و تیار ہوں گے۔
(۲)ذکر کی عظمت:
ذکر کی عظمت سے انسان کے اندر شرح صدر پیدا ہوتا ہے اور قرآن نے اس بارے میں کیا ہی خوب فرمایا(الم نشرح لک صدرک و وضعنا عنک وزرک و رفعنالک ذکرک)[8]
وہ مقام کہ جہاں ذکر اور تمہاری یاد کو عظمت دی گئی ہے نہ تمہارے نام کو اسی لئے نہیں فرمایا ورفعنا لک اسمک تمہارے اندر وسعت کو ایجاد کیا اور تمہارے سنگین اور کمرشکن وزن کو تم سے لے لیا یہاں تک کہ تم نے ہر رنج کے ساتھ دو قسم کی آسائشیں دیکھیں (فان مع العسر یسرا ان مع العسر یسرا)[9]
یسر کے لفظ کو الف لام کے بغیر لاکر اور اس کا نکرہ کی صورت میں تکرار کرکے یہ بتایا گیا کہ ہر رنج و غم کے بدلے دو قسم کے آرام و سکون ہیں ایک تو تمہیں مستحکم ارادہ اور دوسرا رفعت ذکر عطا کیا گیا جس کے ذریعہ تم شرح صدر تک رسائی حاصل کرپائے۔
(۳)راستے کی کامل شناخت:۔
جو تمام راستے کودیکھ لیتا ہے وہ موانع کو بھی پہچان لیتا ہے یہ منتظر شخص بامعرفت وجود ہی ہے جو حوادث زمانہ اور مصائب کےسامنے سرتسلیم خم نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلے سے تیار اور متنظر ہوتا ہے لیکن وہ لوگ جو خیالات کی دنیا اور بے جا توقعات کے ساتھ راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور ان کے گمان میں وہ جوں ہی راستے پر چلیں گے سارے کے سارے دشمن تسخیر ہوجائیں یہ وہی افراد ہیں جن کے قدموں میں لغزش آجاتی ہے لیکن وہ لوگ جنہوں نے موانع کو دیکھا اور ان کا مقابلہ کیا اور روحانی کمال تک رسائی حاصل کی وہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنے راستے پر گامزن رہتے ہیں ۔
(۴)تقوی اور اطاعت:
جو بھی اپنی حدود کو پہنچانتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہے اور پھر ان ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہتا ہے تو ایسے شخص کے لئے کسی قسم کا دباؤ نہیں بلکہ وہ وادی امن میں براجمان ہے ‘ان المتقین فی مقام امین'[10]
ایسا شخص جو اپنی ذمہ داری کو پہچانے وہ وحی کو بھی سمجھتا ہے اور آئندہ سے بھی اسے کوئی خوف نہیں اور جو کچھ ہورہا ہے وہ اس سے بھی لاتعلق ہے رسول اکرم نے فرمایا: ‘ماکنت بدعا من الرسل’ رسولوں میں سے میں کوئی بدعت اور نئی چیز نہیں لے کر آیا ‘وماادری مایفعل بی ولابکم’ میں بھی نہیں جانتا کہ میرے اور تمہارے لئے کیا پیش آنے والا ہے’ان اتبع الا ما یوحی الیہ'[11]
میں صرف وحی کے مطابق حرکت کرتا ہوں کیونکہ یہی اطاعت، تقوی اور ذمہ داریوں پر عمل پیرا ہونا ہی امن لاتا ہے اور انسان کو حیرت سے خارج کرتا ہے،ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً [12]
(۵)خدا سے گہرا تعلق:
انسان کا رزق صرف کتاب کی تلاوت میں ہی مضمر نہیں بلکہ آفاق اور انفس میں بھی اس کی آیات اور نشانیوں کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے جس سے انسان کی فکری اور روحانی بنیادیں مستحکم ہوتی ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ لوگ جو دن کو مخلوق خدا کے ساتھ گذارتے ہیں اور رات کو یاد خدا میں رہتے ہیں اور اسی کے قرب سے رزق حاصل کرتے ہیں تاکہ روزمرہ زندگی کی مصروفیات اور لین دین کے ذریعہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے نبھا سکیں اسی بنا پر رسول خدا کے لئے بھی ضروری تھا کہ وہ دن کی عبادت سے بڑھ کر رات کو بھی اٹھ کر عبادت کریں اور قرآن کی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کریں کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ قول ثقیل اور رسالت کی عظیم ذمہ داری کو اپنے کندھوں پہ لیں (یاایھا المزمل قم اللیل الا قلیلا نصفہ او نقص منہ قلیلا او زد علیہ ورتل القرآن ترتیلا)[13]
یہ رات کا قیام، دعا، قرأت۔ یہ سب منتظر مومن کے لئے روزانہ کا رزق فراھم کرتے ہیں جو اس کی روز مرہ مشکلات کے لئے ایندھن کا کام دیتا ہے ۔
(۶)مشق اور تمرین:
اگر انسان اس معرفت کے ذریعہ جو وہ حاصل کرچکا ہے زندگی گزارے یعنی جو کچھ اس نے سمجھا اسی کے مطابق حرکت کرے اور اسی پر مشق کرے تو پھر بڑی بڑی ذمہ داریوں کو نبھا سکتا ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو ثابت قدمی تک رسائی حاصل کرتے ہیں (مثل کلمۃ طیبہ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء)[14]
پاکیزہ انسان کی مثال پاکیزہ درخت جیسی ہے جس کی جڑیں گہری اور جس کے شاخ و برگ وسیع ہیں
(یثبت اللہ الذین امنوا بالقول الثابت)[15]
وہ لوگ جو ایمان لائے وہ اپنی ثابت اور مضبوط باتوں سے مستحکم ہیں انسان کے وہ کمالات کہ جن سے اس کی شخصیت تشکیل پائی اور وہ اس راہ میں رچ بس گئے ہیں انہی کے ساتھ وہ ثابت قدمی تک پہنچتا ہے اور توانائی حاصل کرتا ہے ۔
ج:امور میں نظم:
ایک منتظر کو چاہئے کہ وہ ایک منصوبے کے تحت حرکت کرے اور ایک بہترین نقشہ کے ذریعہ مصالح اور بھلائی کے درپے رہے جس کی پہلے سے اس نے پروگرامنگ کررکھی تھی اس حوالے سے جن نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہیں:
۱۔نصب العین:
یہ منصوبہ کسی ھدف اور مقصد پر استوار ہو اور وہ مقصد اپنی اہمیت اور حیثیت کو پہچاننا ہو مقصد کو سامنے رکھ کر ہی اس منصوبے کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے ۔
۲۔ نصب العین کی اہمیت:
وہ انسان جو اپنے آپ کو کائنات کا محصول سمجھتا ہے اور جس میں عظیم ہمت اور توانائی پائی جاتی ہے اور وہ بڑی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے وہ فقر، جہالت فسق، شرک اور کفر کو تحمل نہیں کرسکتا وہ اپنے اور سماج کے اندر اس چیز کے درپے رہتا ہے کہ ان عظیم اقدارکو پروان چڑھائے اور ان مقدس اقدار کے لئے منصوبہ بندی کرے۔
۳۔نصب العین کا تجزیہ:
مقصد تک رسائی کے حصول کا بہترین ذریعہ موانع ختم کرنا اور انہیں منقسم کرنا ہے یعنی ضروری ہے کہ مسائل، ضروریات، مراحل اور موانع کی صحیح شناخت حاصل کی جائے اور اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنے کی بجائے حرکت کرے تاکہ مقصد تک رسائی حاصل کرنے کی راہ میں جتنے بھی مراحل ہیں ان تک پہنچ کر موانع کو ہٹانے کا سامان کیا جاسکے جب بھی عظیم مقاصد کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو وہ سھل اور آسان ہوجاتے ہیں اور چھوٹے اھداف جب تک مزید چھوٹے نہ کئے جائیں ناممکن اور محال نظر آتے ہیں ۔
۴۔آگاھی پر بھروسہ کرنا :
اب یہ منصوبہ اور تقدیر منتظر انسان کو تکرار اور غلط کاری سے بچا لیتا ہے کیونکہ پراکندہ افعال کو ایک منصوبے کی تسبیح میں پرو دیا گیا ہے اور انہیں مقصد کی راہ پر گامزن کردیا گیا ہے اب آگاہی پر بھروسہ کرتے ہوئے اس میں مزید برکت آسکتی ہے۔ قرآن مجید نے کچھ عوامل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جنہیں اپنا کر منتظر انسان دشمن کے مقابلے میں نہ صرف مستحکم ہوجاتا ہے بلکہ فتح بھی اسی کا مقدر بن جاتی ہے اگرچہ یہ دشمن دس برابر ہی کیوں نہ ہو قرآن نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ کچھ عناصر کی بدولت دشمن پر غلبہ پایا جاسکتا ہے اور پھر اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا :
‘بانھم قوم لایفقھون’ [16]
کیونکہ ان کے پاس آگاھی اور سمجھ بوجھ نہیں ہے پس آشنائی کاعنصر اتحاد اور ایمان کے ہمراہ منتظر مومن کو دس برابر دشمنوں کے مقابلے میں قدرت مند کردیتا ہے۔
۷۔عمل کی صلاحیت:
عملی میدان میں دو عوامل کی ضرورت ہے جن کا ذکر انبیاء کے اسلوب تربیت میں بھی آیا ہے “لقد ارسلنا بالبینات و انزلنا معھم الکتاب والمیزان” [17]
تمام انبیاء کو بینات (روشن نشانیاں) کے علاوہ کتاب اور میزان بھی دیا گیا دینی نظریات میں افراد صرف عمل کے ذریعہ نہیں بلکہ عمل کس نظریے کےساتھ انجام دیا جارہا ہے اس سے ان کی اہمیت پتہ چلتی ہے اسلامی نظریہ میں سب کے سب جواب دہ ہیں (مسئول ہیں) ((کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ)) اس اہم کام کو انجام دینے کے لئے دو اور عوامل کی ضرورت ہے اور وہ کتاب اور میزان ہیں کتاب کے ذریعہ آئین اور دستور کی پہچان کی جاتی ہے اور جب دو حکم آپس میں ٹکرا رہے ہوں تو میزان اور معیار کے ذریعہ اس کا راہ حل نکالا جاسکتا ہے۔
۱:کتاب:
کتاب سے مراد قرآن، توریت اور انجیل نہیں ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ تمام انبیاء توریت انجیل، زبور اور قرآن جیسی کتابیں نہیں رکھتے تھے لہذا اس کتاب سے مراد وہی قوانین اور مکتوب ضوابط ہیں ‘کتب علیکم الصیام'[18]
‘کتب علیکم القتال'[19]
ایک منتظر مومن شخص جو اپنے آپ کو روابط اور تعلقات کی دنیا میں گم دیکھتا ہے اور اس نظام کو اسباب و مسببات پر مشتمل اور علمی سمجھتا ہے وہ یونہی اقدام نہیں کرسکتا بلکہ اس کے ہر رابطہ اور تعلق کے لئے ایک ضابطہ اور قانون کی ضرورت ہے کیونکہ انسان سے صرف ‘عباد اللہ اور بلاداللہ بلکہ بیابانوں اور چارپایوں سے بھی بازپرس ہوگی ‘اتقوا اللہ فی عبادہ و بلادہ فانکم مسئولون حتی عن البقاع والبھائم [20]
۲۔معیار:
تمام موجودات کی بابت ذمہ داری اور حکم موجود ہے ان ذمہ داریوں کا آپس میں کوئی تضاد نہیں لیکن جہاں پر چند ذمہ داریاں ایک ہی وقت میں تمہارے اوپر عائد ہوجائیں تو وہاں مشکل پیش آسکتی ہے اگر ایک محدود وقت میں ان تمام قوانین کا سامنا کرنا پڑ جائے تو تم کیا کرو گے کیا ایک کو انجام دے کر باقی کو چھوڑ دو گے یا باقی کی نسبت پریشانی کو گلے لگاؤ گے یا تضاد اور ٹکراؤ کی صورت میں کسی معیار اور میزان کی تلاش میں نکلو گے یہ معیار مندرجہ ذیل ہیں:
الف:۔سبب، اور عمل کی تاثیر پر توجہ کرنا:
حکم اور اس کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے سابقہ بیان کیے گئے امور کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے لہذا ایک منتظر مومن جب کسی حکم کا سامنا کرتا ہے یا کسی عمل کو انجام دینا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس معیار کی طرف توجہ کرے کہ کونسا عامل ہے جو اسے مجبورکر رہا ہے کہ وہ اس عمل کو انجام دے اور کیا اس کا یہ کام انجام دینا بہتر ہے یا کوئی دوسرا کام۔
(ب):اہمیت، مشکل اور ہوا وہوس کی مخالفت:
جب بھی تمہارے سامنے دو کام اور فعل آتے ہیں تو دیکھو کہ ان میں سے خدا کسے زیادہ پسند کرتا ہے اور کس کی اہمیت دوسرے سے زیادہ ہے اگر خدا کی نگاہ میں دونوں برابر ہیں تو پھر دیکھو کونسا تمہارے لئے مشکل ہے جو مشکل ہوگا وہی تمہارے لئے بہتر ہے افضل الاعمال احمزھا[21]
جہاں پردونوں افعال مشکل ہونے کے لحاظ سے برابر ہوں وہاں معیار ہوا و ہوس کی مخالفت ہوگا امام علی علیہ السلام اپنے بھائی کی خصوصیات کو گنتے ہوئے فرماتے ہیں وکان اذا بدھہ امران ینظر ایھما اقرب الی الھوی فیخالفہ[22]
وہ جہاں بھی اچانک دو کاموں کا سامنا کرتا تھا اسے اس بات پر عبور حاصل تھا کہ جو کام ھواوھوس کے قریب ہوتا اس کی مخالفت کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا کہا جاتا ہے کہ یہ معیار بہت معتبر ہے کیونکہ جو کام تمہیں زیادہ مشکل سے دوچار کرے وہ تمہیں زیادہ طاقت بھی دے گا اور تمہیں اعلی اقدار کی طرف لے جائے گا۔
(ج): عملی اصول(برأت ، ا استصحاب، احتیاط ، تخییر)
مومن کسی وقت بھی مایوس نہیں ہوتاکیونکہ اگر وہ مقام عمل میں متردد ہوجائے تو ایسی صورت میں اصول عملیہ اس کی راہنمائی کرتی ہیں اور یہ اسلامی اصولوں کی عظیم ترین نعمتیں ہیں جن سے ہم واقف ہیں کیونکہ ان کی عظمت کو نہیں سمجھتے اور صرف ان کا احکام میں ہی استفادہ کرتے ہیں۔
۳۔عملی مشکلات:
کتاب اور میزان کے بعد عمل کے میدان میں عملی مشکلات کی طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ ایک منتظر مومن کے لئے ممکن ہے کہ اسے عملی میدان میں کچھ مشکلات کا سامنا کرناپڑے اور وہ تمام کمالات جو اس نے کمائے ہیں شیطان کی طرح ایک ہی دفعہ ہاتھ سے کھو بیٹھے لہذا اس لئے کہ منتظر اس مرحلے میں مشکلات اور آفات سے محفوظ رہے کچھ نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے۔
۱۔اس کے عمل کی بنیاد دیکھا دیکھی اور ماحول کے اثرات کے تابع نہ ہو بلکہ اس کے عمل کی بنیاد یہ ہو کہ گویا وہ جنت و دوزخ کو دیکھ رہا ہے (مومن شغل من الجنۃ والنار امامہ)[23]
اس کا ہر لفظ اور ہر حرکت اسے جنت یا جہنم لے جاسکتی ہے اس معرفت کے ساتھ جب وہ مرحلہ عمل میں قدم رکھے گا تو پھر کسی آفت سے بھلائی کی توقع اور دوسروں کی خوشنودی سے آزاد ہوکر ایثار کی بنیاد پر حرکت کرے گا اور ہمیشہ اپنے آپ کو مدیون بھی سمجھے گا۔
۲۔منتظر مومن اپنے عمل کے حجم اور مقدار کو نہ دیکھے بلکہ اپنی توانائی کو دیکھے اور توانائی کے ترازو میں اسے تولے نہ اپنی کمائی کے ترازو میں،کیونکہ (لیس للانسان الا ماسعی)[24]
عمل کی خصوصیات سے آگاہی کی ذریعہ (یعنی اچھے کاموں کو زیادہ کرنا اور برے کاموں کو کم دیکھنا)خلاصی حاصل کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ بھلائی جسے تم زیادہ دیکھ رہے ہو وہ عقیم اور بانجھ کی طرح ہے اور وہ برائی جسے تم تھوڑا سمجھتے ہو وہ بڑھ سکتی ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کے برعکس سوچا جائے تاکہ بھلائیاں زیادہ کی جاسکیں اور برائیوں کو عقیم اور بانجھ کیا جاسکے ۔
(واستقلال الخیر وان کثر من قولی و فعلی و استکثار الشر وان قل من قولی و فعلی)[25]
۳۔منتظر شخص کا عمل زمانہ اور مقام سے تناسب رکھتا ہو کیونکہ یہ بات ٹھیک ہے کہ توابین نے اپنے خون کو امام حسین(ع) کی راہ میں بہایا لیکن اگر یہی خون تاسوعا (نویں محرم) کے دن امام حسین تک پہنچ جاتا تو شاید عاشورہ کا واقعہ پیش ہی نہ آتا(سارعوا الی مغفرۃ من ربکم)[26]
۴۔منتظر افراط و تفریط سے باز رہے اور اسے سنت سے علیحدہ نہیں ہونا چاہئے (لانیت الا باصابۃ السنۃ )[27]
۵۔منتطر شخص کے عمل کا مقصد اور جھت معین ہونی چاہئے (من ابدی صفحتہ للحق ھلک)[28]
جو بھی حق کے مقابلے میں حرکت کرے گا وہ برباد ہوجائے گا ۔
۶۔منتظر شخص کو اپنے ظاہری اعمال پر مغرور نہیں ہونا چاہئے کیونکہ عمل کی اہمیت اس کی نیت کے مطابق ہے(حاسبوا قبل ان تحاسبوا)[29]
یعنی تم اپنا محاسبہ کرلو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے یہ نہیں کہا کہ حاسبوا اعمالکم مراد یہ ہے کہ اپنی نیتوں کا محاسبہ کرو۔
[1] ۔نہج الفصاحۃ ج۹۰
[2] ۔زمر ۱۸
[3] ۔نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۶
[4] ۔ریاض السالکین ج۷ ص۲۱۹ تفسیر صافی ج۱ ص ۶۷
[5] ۔مفاتیح الجنان دعائے غیبت امام زمانہ عج
[6] ۔نہج البلاغہ قصار الحکم ۱۸
[7] ۔نہج البلاغہ کلمات قصار ۴۷
[8] ۔سورہ الشرح آیت۱
[9] ۔الشرح آیت ۵۔۶
[10] ۔دخان۵۵
[11] ۔احقاف ۹۔۱۰
[12] ۔سورہ طلاق آیت۲۔
[13] ۔مزمل ۱۔۵
[14] ۔ابراھیم ۲۴
[15] ۔ابراھیم ۲۷
[16] ۔انفال ۶۵
[17] ۔حدید ۲۵
[18] ۔بقرہ ۱۸۲
[19] ۔نساء ۷۷
[20] ۔نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۷
[21] ۔بحارالانوار ج۷۰ص۱۹۱ مجمع البحرین ج۴ ص ۱۶
[22] ۔نہج البلاغہ کلمات حکمت ۲۸۹
[23] ۔نہج البلاغہخ۱۶
[24] ۔نجم ۳۲
[25] ۔مفاتیح الجنان دعائے مکارم اخلاق
[26] ۔آل عمران ۱۲۳
[27] ۔تحف العقول ص ۴۳
[28] ۔نہج البلاغہ خ۱۶سطر۶
[29] ۔نہج البلاغہ خ۹۰ سطر۸
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.