قدس شریف کی اہمیت قرآن و سنت کی روشنی میں
قدس:ایشیا کا مغرب اور مشرق وسطیٰ کے جنوب کی جانب فلسطین کا مرکز قدیم تاریخی شہر “قدس” کا محل وقوع ہے جسے “بیت المقدس” یا “قدس شریف” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں اسکی قدامت ٤٥ صدیوں سے زیادہ بیان ہوئی ہے۔ یہ مقدس شہر اُن شہروں میں سے ایک ہے جو تمام انسانوں کے نزدیک مقدس ہیں۔ اکثر انبیاء اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی زمین کے کسان آج بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں۔ یہ شہر مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کیلئے یکساں متبرک ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول، مسجد الحرام اور مسجدِ نبوی کے بعد تیسرا حرم ہے۔ سرور کائنات (ص) ہجرت کے بعد بھی سترہ مہینوں تک اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ معراج کے سفر میں بھی یہی شہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی منزل تھا۔ اِسی جگہ حضرت داؤد علیہ السلام کا مدفن اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے ولادت ہے۔
بیت المقدس کے نام:بیت المقدس کو مختلف قوموں نے اپنے اپنے عقیدے کے اعتبار سے مختلف ناموں سے نوازا ہے۔ یہودی اور عیسائی آج بھی اسے “یروشلم” کہتے ہیں۔ یہ دو عبرانی الفاظ “یرو” اور “شلم” کا مجموعہ ہے جس کے معنی “امن کا ورثہ” (Inheritence of Peace) ہیں جو کنعانیوں کے صلح کے خدا “شلم” کی نسبت سے معروف ہے۔بیت المقدس یا القدس فلسطین کے وسط میں واقع ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک انتہائی مقدس ہے یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصی اور قبة الصخرہ واقع ہیں، اسے یورپی زبانوں میں یروشلم کہتے ہیں، ‘یروشلم کا عام عربی نام القدس ہے جسے قدیم مصنفین عام طور پر بیت المقدس لکھتے ہیں، دراصل اس سے مراد ہیکل (سلیمانی) تھا جو عبرانی بیت ہمدقش کا ترجمہ ہے لیکن بعد میں اس لفظ کا اطلاق تمام شہر پر ہونے لگاـ یہ مصنفین ایلیا کا لفظ بھی جوAelia سے لیا گیا، بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ انہیں اس کا قدیم نام Jerusalem بھی معلوم تھا جسے وہ اوریشلم اور یسلم اور یشلم بھی لکھتے ہیں ـ1))'(اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 16/1 ) کتاب مقدس (بائبل سوسائٹی) میں اسے یروشلم لکھا گیا ہےـ ‘بیت المقدس’ سے مراد مبارک گھر’ یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے سے گناہوں سے پاک ہوا جانا ہےـ اقصی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بہت دور کے ہیں۔ ایک صدی قم میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھاـ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً تیرہ سو کلو میٹر ہےـ بیت لحم اور الخلیل بیت المقدس کے جنوب جبکہ رام اللہ شمال میں واقع ہےـ بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہےـ انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صہیون جس پر مسجد اقصی اور قبة الصخرة واقع ہیں ـ کوہ صہیون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صہیونیت قائم کی گئی۔ اس کا سب سے قدیمی نام جو تقریباً ٤٥٠٠ سال پہلے تھا۔ “یوبس” (Jebus) ہے۔ اسے “سنہری شہر” (Golden City) بھی کہا جاتا ہے۔ جو اب تک رائج ہے۔ اسے امن کا شہر (City of Peace) بھی کہا جاتا ہے۔ اس مقدس شہر کے ناموں میں بعض مقام پر “ایلیا” اور “کابتولینا” بھی ملتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجداقصی) کی بنیاد ڈالی اور اسکی وجہ سے بیت المقدس آباد ہواـ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام (961 قم) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیراورتجدیدکیگئیـاسیلیےیہودیمسجدبیتالمقدسکوہیکلسلیمانیکہتےتھےـ” کے نام سے موسوم ہوا اور پھر خلافت عثمانی کے زمانے سے یہ مقدّس شہر “قدس شریف” کے نام سے مشہور ہوا۔البتہ مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصی یا الحرم القدس الشریف کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہےـ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔
بیت المقدس قرآن مجید کی روشنی میں:قرآن مجید میں “بیت المقدس” یا “یروشلم” وغیرہ کا لفظ تو ذکر نہیں ہوا البتہ اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے: “سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہ ھوَ السَّمِیعُ الْبَصِیر”۔ (2)(سورہ اسراء، آیہ١)۔ ہر عیب سے پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں، بےشک وہ پروردگار سب کچھ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے”۔ مسجد اقصیٰ سے مراد بیت المقدس ہے اور مندرجہ بالا آیت میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ وہی واقعہ معراج ہے جس سے ہر مسلمان واقف ہے۔ مسجدِ اقصیٰ، حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا قبلہ رہ چکی ہے اور اس کے گرد و پیش اللہ نے برکتیں نازل فر مائیں۔ یہ برکتیں دینی بھی ہیں اور دنیوی بھی۔ یہ ارضِ مقدس فلسطین کا علاقہ ہے
بیت المقدس سنت کی روشنی میں:روایات میں اس مقدس مقام کے تقدس اور منزلت کے تذکرے بہت زیادہ درج ہیں۔حضرت ابوذرر ضی اللہ تعالی عنہ سےمروی ہے: ‘میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلےکونسی مسجد بنائی گئی؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد حرام (بیت اللہ) تو میں نےکہا کہ اسکے بعد کونسی ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے: مسجد اقصی، میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس سال، پھر جہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آ جائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہےـ (3) (صحیح بخاری،صحیح مسلم)احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد اقصی اور مسجد نبوی شامل ہیں۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم اور ان کے بھتیجے لوط نے عراق سے برکت والی سرزمین یعنی بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ 620 میں نبی کریم جبریل کی راہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس بہنچنے اور پھر معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئےـ مسجد اقصی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیرما مقدس ترین مقام ہےـ احادیث کے مطابق اس مسجد میں ایک نماز پچیس ہزار نمازوں اور بعض روایات کے مطابق پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ ابن عباس سے نقل ہے کہ “ان الارض المقدسہ ھی الفلسطین و انما قدسھا اللہ لا ن یعقوب و لد بھا و کانت مسکن ابیہ اسحاق و یوسف ، بنا بیت المقدس علی یدی داود و سلیمان”۔”سرزمین فلسطین مقدس زمین ہے اور اسے اللہ نے تقدس بخشا ہے کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام یہاں پیدا ہوئے اور یہیں جناب اسحاق علیہ السلام اور جناب یوسف علیہ السلام کا گھر تھا، بیت المقدس جناب داؤد و سلیمان علیھم السلام کے ہاتھوں سے تعمیر ہوا”۔مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں:”اربعۃ من قصور الجنۃ فی الدنیا: المسجد الحرام و معبد الرسول و مسجد بیت المقدس و مسجد الکوم”(۴) (سفینۃ البحار ج ٧ ص٢٤٤)۔دنیا میں چار جنتی قصر پائے جاتے ہیں جن میں ایک بیت المقدس بھی ہے۔ تاریخ اس کے فضائل و کمالات سے پُر ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا اسے انبیاء کا شہر شمار کیا جا تا ہے کیونکہ اس کی تعمیر میں انبیاء کا ہاتھ ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام یہاں کبھی حکومت کیا کرتے تھے اور اللہ نے یہیں پر حضرت زکریا علیہ السلام کو یحییٰ علیہ السلام جیسے فرزند کی بشارت دی تھی۔ حضرت موسی علیہ السلام اسی سرزمین پر نور پروردگار کا جلوہ دیکھ کر گر گئے اور پھر آپ کو اپنے خدا سے بات کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حضرت مسیح ع نے یہیں پر اِس دنیا میں آنکھیں کھولیں اور یہیں سے چرخ چہارم پر بلائے گئے۔ آپکی مادر گرامی نے اِسی سرزمین پر وفات پائی۔ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آۤلہ وسلم اسی مسجد کی طرف مدّتوں نماز ادا کرتے رہے، یہی مقام مسلمانوں کا قبلہ اوّل قرار پایا۔ آنحضرت ص کو یہیں پر معراج ملی اور آپ کو راتوں رات مدینہ سے مسجد اقصیٰ کا سفر کرایا گیا۔ لہٰذا یہ سرزمین ادیانِ ابراہیمی (یہودیت، مسیحیت اور اسلام) کے تمام پیروکاروں کے نزدیک عزّت و احترام کی حامل ہے۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آۤلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”حضرت امام مہدی علیہ السلام کعبہ سے ظہور کرنے کے بعد بیت المقدس کی طرف ہجرت کریں گے اور وہ اسے اپنی منزل قرار دیں گے”۔
مسلمانوں کے نزدیک قدس کا تقدس و اہمیت:1۔ قدس، ادیان ابراہیمی کی جائے پیدائش:بیت المقدس وہ مقام ہے جہاں ابراہیمی ادیان ظاہر ہوئے اور لوگوں تک پہنچے۔ بیت المقدس کی فضا میں آج بھی توحید کے علمبرداروں کی مقدّس اور پاکیزہ سانسوں کی ٹھنڈک محسوس کی جا سکتی ہے۔2۔ قدس، انبیاء الٰہی اور صالحان کا مدفن:حضرت مریم س، حضرت داؤد ع، حضرت ابراہیم ع اور دوسرے انبیاءالٰہی کی قبریں اس مقدس شہر کی پاکیزگی میں اضافہ کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے مسلمانوں کی تو جہ کا سبب بھی ہے۔3۔ قدس، رسول اکرم ص کے معراج کی ابتدا:رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج ایک مُسَلَّم حقیقت ہے جسے ہر مسلمان مانتا ہے اور قدس وہ مقام ہے جو اس عظیم دینی اور تاریخی واقعہ کی یاد دلاتا ہے جسکی طرف قرآن نے سورہ اسراء میں اشارہ کیا ہے: “سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی”۔4۔ قدس، مسلمانوں کا قبلہ اول:مسجد اقصی کئی سالوں تک مسلمانوں کیلئے قبلہ کی حیثیت رکھتا تھا اور وہ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔5۔ قدس شرق وغرب (اسلام و مسیحیّت) کے اتّحاد کی وعدہ گاہ:جب حضرت مہدی موعود (عج) کا ظہور ہو گا تو اس وقت حضرت عیسیٰ مسیح (ع) بھی آسمان سے نازل ہوں گے اور امام (ع) کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے۔ یعنی قدس فکر اسلام و مسیحیت کے اتّحاد کی وعدہ گاہ ہے جو معبود کی بارگاہ میں عاشقانہ راز و نیاز اور انسانِ کامل کی اقتداء سے تحقّق پذیر ہو گا۔6۔ قدس وہ مکان ہے جہاں یہودیوں اور عیسائیوں پر پیغمبروں کی میراث کے ذریعے حجت تمام ہو گی۔ایک روایت میں ہے کہ تابوت سکینہ، تورات و انجیل کا اصلی نسخہ امام مہدی (ع) کے ذریعے اپنے اصلی مقام سے بیت المقدس تک منتقل ہوگا اور اسے وہیں رکھا جائے گا تاکہ تمام لوگوں پر اتمام ِحجت ہو سکے۔ ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوا ہے کہ “دریائے طبریہ سے مقدّس صندوق اس (امام مہدی عج) کے ہاتھوں سے ظاہر ہو گا اور اسے اسکے (امام مہدی عج) سامنے بیت المقدس میں رکھا جائے گا”۔(5) (الملاحم والفتن ص٥٧)۔
اسلامی عہد میں مسجد اقصی کی تعمیر:137ق م میں رومی شہنشہاہ ہیڈرین نے یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کر دیاـ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیےـ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے اس وقت یہاں کوئی ہیکل نہ تھا، چنانچہ قرآن میں مسجد کی جگہ ہی کو مسجد اقصی کہا گیاـ 2ھ /624 تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیاـ 17ھ میں عہد فاروقی میں بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیاـ بیت المقدس کے عیسائیوں سے معاہدہ صلح طے پانے اور مقدس شہر پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد حضرت عمرؓ نے بیت المقدس سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی (کیونکہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصی ہی کہا گیا ہے)ـجب حضرت عمرؓ نے اس علاقے کو فتح کیا تو یہاں کا دورہ کیاـ عین اس جگہ پہنچنے کے بعد آپ نے کعب الاحبار سے پوچھا کہ ہمیں کس جگہ مسجد تعمیر کرنی چاہیئے تو انہوں نے کہا کہ اس پہاڑ کے پیچھے تعمیر ہونی چاہیئے مگر خلیفہ دوم نے جواب دیا کہ تعمیر اس پہاڑ کے سامنے ہوگی کیونکہ مسلمان ہمیشہ مساجد کے سامنے نماز ادا کرتے ہیںـ تاریخ میں ہے کہ جب حضرت عمر ؓنے کعب الاحبار سے دریافت کیا کہ مسجد کہاں تعمیر ہونی چاہیئے تو انہوں نے کہا کہ پہاڑ کے پیچھے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں مسجد کی تعمیر اس پہاڑ کے عین سامنے کروں گا جیسا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے اسے مسلمانوں کی تمام مساجد کیلئے قبلہ بنا دیا تھاـ
آج یہ مسجد ‘مسجد عمر’ کے نام سے بھی جانی جاتی ہےـ جب یروشلم فتح ہوا تو حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ مجھے مسجد داؤد اور محراب داؤد دکھاؤ کیونکہ اس کا ذکر قرآن میں ہےـ انہیں اس مقدس جگہ کے دروازے پر لے جایا گیا جس کا ذکر قرآن پاک میں ہےـ وہاں عرصہ دراز سے صفائی نہ ہونے کے باعث گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے جس کی وجہ سے داخلی دروازے کا راستہ بند ہو چکا تھاـ حضرت عمر ؓ نے دائیں اور بائیں دیکھا اور فرمایا کہ ‘میں قسم کھاتا ہوں اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ یہی وہ مسجد داؤد ہے جس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہم سے کیا تھاـ’ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے اپنے بدن کے کپڑوں سے اس جگہ کی صفائی شروع کردی، یہ دیکھ کر وہاں پر موجود مسلمان بھی آپ کی پیروی کرنے لگےـ اس کے بعد آپ مسجد میں داخل ہوئےـ وہاں پر نماز ادا کی اور تلاوت قرآن کی۔ اس طرح سے وہ عمارت ایک مسجد کے روپ میں آج بھی موجود ہےـ اس دور میں بہت سے اصحاب نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کرلی۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبة الصخرہ بنایا گیاـ 1099 (492ھ) میں یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے ستر ہزار مسلمان شہید کر دیئےـ 1087 (583ھ) میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو آزاد کرا لیاـ خلیفہ عبد الملک نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک ( 705ئ تا 715) نے مسجد اقصی کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین کی اور ابو جعفر منصور نے اس کی مرمت کرائی۔
صلیبیوں نے جب بیت المقدس پر قبضہ کیا تو مسجد اقصٰی میں بہت ردوبدل کیا گیاـ انہوں نے مسجد میں رہنے کے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ئ میں شہر بیت المقدس فتح کر کے مسجد اقصٰی کو دوبارہ تعمیر کیاـ مسجد اقصٰی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبة الصخرہ ہے جو اسلامی طرز تعمیر کے شاندار نمونوں میں شامل ہےـ وہ مسجد جو نماز کی جگہ ہے وہ قبة الصخر نہیں لیکن آج کل قبہ کی تصاویر پھیلنے کی بناء پر اکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصٰی خیال کرتے ہیں حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر واقع ہےـ زمانہ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پر ہوتا تھا امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ ‘مسجد اقصٰی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصٰی کا نام دینے لگے ہیں، اس جگہ میں جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہےـ’
قدس میں موجود اسلامی آثار:1۔ حرم شریف کا علاقہ جو تقریباً ١٤ ایکڑ کی جگہ میں ہے،2۔ مسجد صخرہ (قبۃ الصخرہ)3۔ مسجد الاقصیٰ4۔ دیوار براق: روایت میں ہے کہ یہاں پیغمبر اکرم ص اپنے گھوڑے کو باندھا کرتے تھے۔ یہودی اس دیوار کو “دیوار ندبہ” کہتے ہیں۔5۔ قدس کی دیواریں،6۔ کوہ طور۔
بیت المقدّس اور مسجد اقصیٰ یہودیوں کے قبضے میں:یہ نہایت شرمناک بات ہے کہ جس مسجد کی اتنی زیادہ فضیلت ہے کہ اس میں ایک نماز پچیس ہزار یا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور جس بیت المقدس کو سبھی مسلمان متفقہ طور پر اپنا قبلہ اوّل مانتے ہیں اِسی پر اُنکا قبضہ نہیں اور وہ آزادانہ طور پر اِس میں مذہبی رسومات اور عبادتِ الٰہی انجام نہیں دے سکتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہودیوں کا وہ انتہا پسند گروہ ہے جسے “صیہونی” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جس کے بیشتر افراد دنیا کے ہر ملک میں کلیدی عہدوں پر فائز ہیں اور مسلمانوں سے انکی دشمنی کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ صدیوں سے یہ مسلمانوں کے جانی دشمن رہے ہیں اور ساری دنیا پر حکومت کرنا اِنکے مذہبی آئین میں شامل ہے جس کیلئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ چاہے وہ مسلمان مردوں کا قتل ہو یا بچوں کا بےرحمی سے ذبح کر نا یا عورتوں سے بے رحمانہ سلوک۔ انہیں فضائل اور خصوصیات کو دیکھ کر اور مظلومین کی حمایت کے لئے رہبرِ کبیرِ انقلابِ اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) نے ماہِ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے نام سے موسوم کیا۔
یوم القدس کا مقصد:روز قدس سے رہبر انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی (رہ) کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کے سامنے اسرائیل کے گھناؤنے اور بدنما چہرے کو بےنقاب کیا جائے اور دنیائے اسلام کا رشتہ فلسطین کی مظلوم قوم سے جوڑ کر ہر سال اس رشتے کو مزید مستحکم کیا جائے۔ روز قدس ملّتِ فلسطین کی حمایت اور اس ملّت کیلئے خصوصی دعا کا دن ہے اور اس کی بہبود کے لئے ہر ممکنہ کوشش کرنے اور سال بھر اس کوشش کو جاری و ساری رکھنے کے لئے عہد کرنے کا دن ہے، یہ دن مسلمانوں کو اپنی غیرت میں آنے کا دن ہے۔ مسلمانو! جاگو، اس سر زمین کو جو تمہارا قبلہ اوّل ہے، جہاں فضیلتوں کی ندیاں بہتی ہے، اسے ان ناپاک ہاتھوں سے چھین لو ۔معصوم ” مسلمانو! جاگو، اس سرزمین کو جو تمہارا قبلہ اوّل ہے، جہاں فضیلتوں کی ندیاں بہتی ہے، اسے ان ناپاک ہاتھوں سے چھین لو جو معصوم بچوں اور عورتوں کے خون سے آلودہ ہیں۔ حضرت امام خمینی نے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم ِقدس قرار دیا تھا اور سارے مسلمانوں کو متّحد ہو کر اِس کی آزادی کی طرف دعوت دی تھی۔ البتہ اُن کی زندگی میں مسلمان اُنکی اِس آواز پر نہ چونکے لیکن آج حزب اللہ کی استقامت و پایداری اس نعرہ کو عملی جامہ پہنانے کا پھر مطالبہ کر رہی ہے۔ امام خمینی نے فر مایا تھا: “اگر دنیا بھر کے مسلمان مل کر اسرائیل کی طرف ایک ایک بالٹی پانی پھینک دیں تو وہ اسکے سیلاب میں بہہ جائے گا”۔ یہ بیان حقیقت سے کس قدر نزدیک تھا جسے حزب اللہ کے قائد سید حسن نصر اللہ نے اپنے مرجع تقلید (حضرت امام خمینی ) کی بات کو سچ ثابت کیا۔ جولائی ٢٠٠٦ء کے اسرائیلی حملے کو ناکام بنا کر خود بھی للکار کر کہا:”خدا کی قسم، اسرائیل مکڑی کے جال سے بھی زیادہ کمزور ہے”۔ آخرکار دنیا نے اس نعرے کی سچائی بھی دیکھ لی اور حال ہی میں اس عظیم قائد کے ایک سال پہلے کئے ہوئے وعدے (لبنانی اسیروں کی رہائی) کے تحقّق نے واضح کر دیا کہ دیکھو تم اللہ کیلئے کھڑے ہو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ یہ اسرائیل بیتِ عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی یوم القدس کے بارے میں فرماتے ہیں:برسوں سے کوشش کی جارہی ہے کہ قدس فراموش ہوجائے لیکن عالمی یوم القدس نے اس سازش کو ناکام بنادیا ہے۔یوم قدس ایران سے مخصوص نہیں ہے بلکہ عالم اسلام سے متعلق ہے۔
یوم قدس حضرت امام خمینی کی کبھی نہ فراموش ہونے والی یادگار ہے۔
یوم قدس مسلمانوں کے اہم ترین اہداف و مقاصد پرتاکید کرنے کا دن ہے۔
یوم قدس عالم اسلام کے اہم ترین مسئلے پر تاکید کرنےکا دن ہے۔
یوم قدس مسلمان قوموں کی آزمائش کا دن ہے۔
یوم قدس ایسی عظیم تحریک ہے جس نے یقینا” سامراج سے مقابلے میں گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور چھوڑتی رہے گي۔
یوم قدس صہیونی ریاست کے نحس چہرے پر زناٹے دار طمانچہ ہے۔
یوم قدس کے اثرات:1۔ اس بات کی نشاندہی ہے کہ پوری دنیا اسرائیل کے وجود کے خلاف ہے۔2۔ مسئلہ فلسطین و مسئلہ قدس ملکی حدود سے نکل کر عالمی مسئلہ قرار پایا۔ دشمن کی کو شش یہ تھی کہ اس مسئلے کو ایک قومی مسئلہ قرار دے اور اس مسئلہ کو عرب و اسرائیل کی جنگ میں تبدیل کر دے لیکن امام خمینی (رہ) کے اعلان سے دشمن کی آدھی جان نکل گئی۔3۔ مسلمانوں میں ایک معنوی اثر پیدا ہوا، عمومی سطح پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا جذ بہ بیدار ہوا اور انہیں یہ یقین ہو گیا کہ اگر ہم مسلمان متّحد ہو جائیں تو قدس کو دوبارہ ان غاصبوں سے واپس لے سکتے ہیں۔
انفرادی اور اجتماعی معاشرے پر اثرات:دانشمند افراد جو معاشرہ کی شناخت کے ماہر اور اس فن کے استاد ہیں اگر معاشرہ کے آثار و خواص کے بارے میں غور و فکر سے کام لیں تو ان پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو جائے گی کہ اصولی طور پر معاشرہ کا وجود میں آنا اور انسانی طبیعتوں کے اختلاف کی وجہ سے معاشرہ کا مختلف قسموں میں تقسیم ہونا، صرف اور صرف ایک عامل کی وجہ سے ہے، جس کا نام »ادراک« ہے۔ جسے خدا نے انسان کی طبیعت میں الہام کے طور پر ودیعت فرمایا ہے۔ ادراک اس معنی کے اعتبار سے کہ ان کی ضروریات، جو اتفاق سے ساری کی ساری انسانوں کی بقا اور ان کے کمال تک رسائی کے لئے موثر ہیں، ایک دو نہیں ہیں کہ ان ایک دو ضروریات کو وہ خود ہی پورا کر لیں۔ بلکہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اس معاشرہ کے پابند رہ کر اس کی آغوش تربیت میں پروان چڑھ کے اور اس کی امداد کے ساتھ اپنے تمام افعال و حرکات و سکنات میں کامیاب ہوں، یا باالفاظ دیگر کسی نتیجہ تک پہنچ سکیں کیونکہ تالی ہمیشہ ایک ہاتھ سے تو نہیں بجتی۔
اس ادراک کے بعد اسے دوسرے ادراکات، یا دوسرے لفظوں میں انہیں کچھ ذہنی صورتوں کا الہام ہوا کہ وہ ادراکات اور ذہنی صورتیں مادی امور و ضروریات کے پورا کرنے کے لئے ایک معیار و کسوٹی قرار پائیں۔ حقیقت میں وہ ادراکات و معیارات انسانی طبیعت اور اس کے افعال و ضروریات کے درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ بن گئے، مثلاً اس بات کا ادراک کہ کونسی چیز اچھی ہے، کونسی چیز بری ہے، کونسا کام کرنا چاہیئے، کونسا نہیں کرنا چاہیئے، کس کام کا کرنا اس کے نہ کرنے سے بہتر ہے؟ نیز اس چیز کا ادراک کہ انسان اجتماع و معاشرہ کے مرتب و منظم کرنے کے لئے سربراہ و عوام، ملک، ملکیت، خصوصی امور، مشترک و مخصوص معاملات اور قوموں کے دیگر آداب و رسوم (جو اقوام، علاقہ و زمانہ کے تبدیل ہونے سے بدلتے رہتے ہیں) کو معتبر سمجھے اور ان کا احترام کرے۔ یہ تمام معانی و قواعد ایسے امور ہیں کہ اگر انسانی طبیعتوں نے انہیں بنایا ہے تو یہ بھی قدرت کی طرف سے انسان کو ایک الہام تھا اللہ تعالیٰ نے جس کے ذریعہ انسانی طبیعت کو لطیف بنایا تاکہ دوسرے ہر کام سے پہلے جس چیز پر انسان کا ایمان و عقیدہ ہے اور وہ اسے خارج میں وجود میں لانا چاہتا ہے تو اسے تصور میں لا کر ذہنی نقشوں کو جامہ عمل پہنائے, یا اگر مناسب نہ سمجھے تو اسے ترک کر دے۔ اس طرح وہ اپنے لائحہ عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
(جب یہ بات واضح ہو گئی تو اب ہم کہتے ہیں کہ) کسی عبادت میں خداوند سبحان کی طرف توجہ اور رخ کرنا، (البتہ یہ بات پیش نظر رکھتے ہوئے کہ خداوندِ متعال مکان، سمت اور دوسرے تمام مادی امور سے منزہ و مبرا ہے، حتیٰ کہ اس بات سے بھی پاک و پاکیزہ ہے کہ کسی مادی حس کا اس سے کوئی تعلق ہے) اگر ہم چاہتے ہیں کہ قلب و ضمیر کی چار دیواری سے نکل کر افعال میں سے کسی فعل کی صورت اختیار کر لیں جبکہ فعل کا تعلق ہوتا ہی مادیات سے ہے تو مجبوراً یہی کہنا پڑے گا کہ یہ توجہ اور رخ کرنا بصورتِ تمثیل یا تمثل ہو گا۔ آسان و سادہ لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک طرف تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ عبادت کے ذریعہ ہم خدا کی طرف توجہ کریں اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ خدا کسی ایک طرف، جہت یا سمت میں موجود نہیں (بلکہ ہر طرف اور ہر جہت و سمت میں ہے) تو ضروری ہو جاتا ہے کہ ہماری عبادت تمثیل و تجسم کی صورت میں ہو، وہ یوں کہ پہلے مرحلہ میں ہماری قلبی توجہات ان اختلافات کے باوجود، جو ان کی خصوصیات (مثلاً خضوع و خشوع اور خوف و رجا اور عشق و جذبہ) میں پائے جاتے ہیں، پیشِ نظر ہوں، دوسرے مرحلہ میں انہی خصوصیات کو ان کی مناسب شکل و صورت میں اپنے افعال میں منعکس کریں۔ مثلاً اپنے قلبی خضوع و خشوع اور اپنی ذات کی حقارت و ذلت کے اظہار کے لئے اس کی بارگاهِ اقدس میں سجدہ ریز ہو جائیں اور اس بیرونی عمل کے ذریعہ اپنے اندرون کی کیفیت کا اظہار کریں۔ یا اگر چاہیں کہ اپنا اندرونی احترام اور اس کی بارگاہ میں اپنی تعظیم کا اظہار کریں تو رکوع میں چلے جائیں، نیز اگر چاہتے ہیں کہ اپنی جان کا نذرانہ اس کے حضور پیش کریں تو اس کے گھر) (قبلہ) کے اطراف میں طواف کریں، اگر چاہیں کہ اس کی بزرگی کو بیان کریں تو سیدھے کھڑے ہو کر قیام کو بجا لائیں۔ اگر چاہیں کہ اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے لئے خود کو پاک و پاکیزہ کریں تو غسل و وضو کریں اور اس طرح کی دوسری تمثیلات ہیں۔
اس بات میں بھی ذرہ برابر شک نہیں کہ بندہ کی عبادت کی روح، اس کی وہی اندرونی و قلبی بندگی اور قلبی کیفیت ہے جو وہ اپنے معبود کے لئے ظاہر کرتا ہے، اگر یہ نہ ہو تو اس کی عبادت »بےروح« ہو گی بلکہ عبادت ہی شمار نہیں ہو گی، لیکن اسکے باوجود یہ قلبی توجہ کسی نہ کسی صورت میں مجسم ہونی چاہیئے۔ غرض عبادت کو اپنے کمال، ثبات اور استقرار میں متحقق ہونے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ کسی قالب میں ڈھالی جائے۔ جو کچھ اوپر بیان ہوا ہے اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ مشرکین اپنی عبادت میں کیا کرتے تھے اور اسلام نے کیا کیا ہے؟ پس وثینوں، ستارہ پرستوں اور تمام دوسرے جسم پرستوں کا معبود یا تو کوئی انسان ہوتا یا کوئی اور جسم رکھنے والی چیز ہوتی، وہ اپنے لئے ضروری سمجھتے کہ عبادت کی حالت میں ان کا معبود ان کے نزدیک اور سامنے ہو، لہٰذا وہ اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی عبادت کیا کرتے تھے۔ لیکن انبیاء کا دین، خصوصاً دینِ اسلام کہ فی الحال ہم اسی کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں، (اور اس کے بارے میں گفتگو درحقیقت دوسرے ادیان کے بارے میں گفتگو بھی ہے کیونکہ اسلام نے تمام انبیاء کی تصدیق کی ہے) جس طرح کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ دین اسلام نے عبادت کی روح انسان کی اندرونی کیفیت اور قلبی توجہ کو قرار دیا ہے, اس کے علاوہ ان حالات کو مثالی صورت دینے کے لئے بھی ایک نقشہ پیش کیا ہے، وہ یہ کہ اس نے بیت المقدس (آج کل خانہ کعبہ)کو قبلہ قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ تمام لوگ نماز کی حالت میں قبلہ رو کھڑے ہوں، کسی مسلمان کو خواہ وہ روئے زمین کے کسی خطہ پر ہی کیوں نہ ہو، اس کے ترک کرنے کی اجازت نہیں ہے، اسی طرح بعض حالات (مثلاً بیت الخلا میں) اس کی طرف منہ کرکے یا پشت کرکے بیٹھنے سے منع کیا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے کئی ایسے حالات ہیں جن میں قبلہ رو ہونا بہتر ہے۔
انفرادی فائدہ:پس اس طرح سے اسلام نے دلوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرکے طرہ پر ضبط کیا کہ جلوت و خلوت میں، قیام و قعود میں، خواب و بیداری میں، عبادت و مراسم میں، حتیٰ کہ پست ترین اور ناپسندیدہ ترین حالات میں بھی انسان اپنے پروردگار کو فراموش نہ کرے۔ یہ تو تھی انفرادی صورت میں قبلہ کو شرعی حیثیت دینے کا فائدہ۔
اجتماعی فوائد:اب آتے ہیں اس کے اجتماعی فوائد کی طرف پس غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے فوائد تو انفرادی فائدہ سے بھی زیادہ عجیب، اس کے آثار زیادہ روشن اور زیادہ دلنشین ہیں، اسی لئے کہ تمام لوگوں کو ان کے زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود ایک نقطہ کی طرف متوجہ کیا اور ایک مرکزی نقطہ پر اکٹھا کرکے ان کے درمیان فکری وحدت پیدا کر دی، ان کے معاشرتی رشتوں کو یکجا کر دیا اور ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا۔ یہ ایک ایسی لطیف ترین روح ہے جو بشریت کے ڈھانچے میں پھونک دی گئی ہے، ایک ایسی روح جو اپنی لطافت کی وجہ سے افراد کے تمام مادی و معنوی امور میں نفوذ کر سکتی ہے جس سے ایک ترقی پذیر معاشرہ، زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہونے والا اتحاد اور طاقت ور ترین اجتماعی صورت وجود میں آ جاتی ہے۔ یہ ایک احسان ہے جو خداوندِ متعال نے اسلامی امہ کے لئے مخصوص فرما دیا ہے۔ اسی کے ذریعہ اس نے دینی وحدت اور اجتماعی شوکت کو محفوظ رکھا ہے, جبکہ اس سے پہلے کئی قسم کے احزاب، گروہ، ٹولے اور جماعتیں تھیں جن کے رسوم و رواج جداگانہ اور طریقہ ہائے کار مختلف تھے، حتیٰ کہ دو انسان بھی ایسے نہیں تھے جو کسی ایک نظریہ پر متفق ہوں۔ یہ اللہ کا اسلامی امہ پر بہت بڑا احسان ہے جس کے لئے ہم کمال عاجزی کے ساتھ اس کے سپاس گزار ہیں۔یوم قدس اور ہماری ذمہ داریاں:1۔ قبلہ اوّل بیت المقدّس کی اہمیت و فضیلت کو سمجھیں۔2۔ ہر سال ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ میں ملّتِ فلسطین کی بھرپور حمایت اور صہیونی مملکت کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کریں اور اس بات کی طرف بھی متوجّہ رہیں کہ صہیونیسم جوانوں میں اخلاقی برائیاں پھیلانے کی مکمل کوشش کر رہا ہے اور اس کیلئے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے۔3۔ صہیونی کمپنیوں کی پروڈکٹس کو پہچانیں اور دوسروں کو اسکی طرف متوجّہ کریں اور ہمیشہ اِن اشیاء کا بائیکاٹ کریں۔ولی اعظمی کے بقول :جو پتھروں میں بھی کھلتے ہیں وہ گلاب ہیں ہمجو سرخرو ہے بہرحال وہ شباب ہیں ہمہمارے خون کی موجیں انہیں ڈبو دیں گیسمجھ رہے ہیں جو بس وقت کا حباب ہیں ہماجڑ کے بسنے نہ دیں گے کسی بھی غاصب کوجو ان حسرتوں کی مانگ کا خضاب ہیں ہمہمارے دم سے ہے باقی حرارت اسلامنگاہ جس پہ ہے سب کی وہ آفتاب ہیں ہمکریں گے قدس کو صہیونیوں کے شرک سے پاکخلیل وقت خمینی کا سچا خواب ہیں ہمآخر میں ہم دعا کرتے ہیں کہ خدایا ہمیں یہ توفیق عنایت فرما کہ ہم اپنے حق کے مطالبے کیلئے متحد ہو کر آگے بڑھیں اور اپنے حق کو غاصبوں سے حاصل کریں۔ روز قدس ملّتِ فلسطین کی حمایت اور اس ملّت کیلئے خصوصی دعا کا دن ہے اور اس کی بہبود کے لئے ہر ممکنہ کوشش کرنے اور سال بھر اس کوشش کو جاری و ساری رکھنے کے لئے عہد کرنے کا دن ہے۔ 1۔اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 16/1.2قرآن مجید سورہ اسراء.3صحیحبخاری،صحیحمسلم4۔سفینۃ البحار ج ٧ ص٢٤٤5۔الملاحم والفتن ص٥٧