عید مبارک

187

ماہ مبارک رمصان اپنی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹے ہوئے آخری دنوں کی طرف رواں ہے، اس مہینے میں اللہ نے اپنی رحمت کے مخصوص دستر خوان پر اپنے نیک بندوں کو دعوت دی۔ ہر کسی کے لئے دعوت میسر نہیں، یعنی دعوت عام نہیں بلکہ یہ دعوت خاص ہے، صرف متقین کیلئے۔ رحمت کا سب سے بڑا دستر خوان شبہائے قدر میں بچھایا گیا تھا۔ ان راتوں میں اللہ کے خوش قسمت بندوں نے آئندہ شبہائے قدر تک اپنے لئے زاد راہ جمع کیا۔ ان راتوں کے اعمال و عبادت سے متقین کے قلوب میں زندگی کی نئی حرارت دوڑ جاتی ہے۔ شب قدر میں انسان کے رزق کی تقسیم اور اجل کا تعین عمل میں آتا ہے۔ اب رزق اور اجل کو لکھ دیا گیا ہے تو کیا اس میں کوئی رد و بدل ممکن ہے؟ باقی ماندہ چند دنوں میں ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں؟ انسان ان آخری چند دنوں میں توبہ و استغفار کے ذریعے سے تبدیلی لاسکتا ہے۔؟ یہاں جب توبہ کا ذکر آیا ہے تو کیوں نہ ہم اس پر بھی مختصر بات کریں۔
سوال یہ ہے کہ توبہ کیا ہے؟ توبہ ایک انقلاب کا نام ہے۔ ایک تبدیلی کا نام ہے۔ ہم جو زبان سے استغفار کرتے ہیں یہ حقیقی توبہ نہیں، یہ تو ایک لقلقہ زبان ہے، حقیقی توبہ یہ ہے کہ اولاً انسان دل کی گہرائیوں سے اپنے کیے ہوئے گناہوں پر پشیمان ہو، ثانیاً ان گناہوں پر استغفار کرے، ثالثاً آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے، خیر شبہائے قدر گزر گئے۔ تقدیر لکھ دی گئی، شقی و سعید کی سند بھی تقسیم کی گئی، پتہ نہیں ہمیں کونسی سند ملی ہے۔ اب کیا ہم اپنی سند کو تبدیل کر سکتے ہیں؟ کیا اب بھی کچھ وقت ہے؟ ہاں ہم اب بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ احادیث کی روشنی میں رمضان کی آخری رات بھی شب قدر ہے یعنی رمضان کی آخری رات تک تقدیر کو تبدیل کرنے کی گنجائش ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنے روزوں، نمازوں اور شب بیداریوں سے خوش فہمی میں نہ رہیں بلکہ جتنا ہوسکے توبہ و استغفار کے ذریعے اپنی تقدیر میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔
اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ ہمارا موضوع ہے عید مبارک، عیدالفطر یقیناً بڑی عید ہے۔ اس دن ہمیں خوشی منانی چاہئے اور ہم مناتے بھی ہیں لیکن کس طرح؟ اس طرح کہ ہم عید کے اصل اہداف و مقاصد کو چھوڑ کر عید مناتے ہیں۔ جب انسان پورے ماہ رمضان میں اپنی نفسانی خواہشات جہاد میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے تو اس کامیابی پر عید منائی جاتی ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا ہم یقیناً اپنی خواہشات پر فتح حاصل کرچکے ہیں؟ اگر ہم غور کریں تو ہمیں ہمیشہ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ ہم نفس اور خواہشات پر کامیاب نہیں ہو رہے، کیونکہ جب ماہ رمضان ختم ہوتا ہے تو ہم اپنی پرانی روش اور بے راہ روی اور گناہوں کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
گویا رمضان میں گناہ کی جو گاڑی رکی ہوئی تھی، وہ عید کے بعد دوبارہ سٹارٹ ہو جاتی ہے۔ اگر ہم نفس پر فتح حاصل کرچکے ہوتے تو دوبارہ گناہوں کے نزدیک نہ جاتے، اور ایسا لگتا ہے جونہی عید کا چاند نظر آیا، آئندہ رمضان تک ہر چیز کی کھلی چھٹی مل گئی، مطلب یہ کہ رمضان میں ہم اپنے نفس اور خواہشات پر فتح نہیں پاسکے۔ کیا اس صورت میں بھی ہمیں اس طرح عید منانے کا حق پہنچتا ہے؟ پس ہمیں چاہئے کہ اس دن بھی ہم اپنے گناہوں کی بخشش کیلئے دعا کریں چونکہ دعا قبول ہونے کے اوقات میں سے ایک وقت عید کا دن ہے۔ احادیث کی روشنی میں اگر کوئی شخص ماہ مبارک رمضان میں اپنے گناہوں کو نہ بخشوا سکا تو وہ شقی ترین انسان ہے اور اسے چاہیے کہ روز عرفہ اپنے گناہوں کو بخشوائے وہ بھی عرفات میں، جبکہ عرفات میں حاضری دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ لہٰذا جب تک رمضان باقی ہے اپنے گناہوں کو بخشوانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔
اب ہم عید منانے کے طرز پر کچھ عرض کریں گے، اگر ہم غور کریں اور اپنے انداز عید کو دیکھیں تو ہمارے بہت سے مراسم اسلامی اصولوں کے تحت نہیں۔ مثال کے طور پر اس عید کارڈ کو لیں جو آپ کا دوست آپ کے لئے ارسال کرتا ہے اور آپ اپنے دوست کے لئے۔ کیا یہ کارڈ آپ اور آپ کے دوستوں کو معنویت کی طرف لے جانے میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے؟ اکثر کارڈوں پر غیر اسلامی تصویریں اور غیر اسلامی اشعار لکھے ہوئے ہوتے ہیں، جو آپ کو شیطنت اور مادیت کی طرف لے جانے میں مدد دے سکتا ہے، اللہ کی طرف لے جانے میں نہیں۔ کیا یہ طریقہ اسلامی ہے؟ یقیناً نہیں۔ اسی طرح عید کے روز ایک دوسرے کے گھر مبارکبادی کیلئے جانا ضروری سمجھتے ہیں، اس حوالے سے ہم اسلامی نقطہ نظر سے نہیں کہہ سکتے کہ عید کے ایسا کرنا واجب یا سنت ہو۔ کچھ لوگ اس عمل کو عید کے واجب اور مستحب و مسنون اعمال سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو خود ایک قسم کی غلط ترجیح ہے۔ بسا اوقات یہ عمل تضیع وقت اور اسراف کا باعث بنتا ہے۔ گاہے کئی کئی دن ضائع ہو جاتے ہیں جبکہ واجبات کی ادائیگی کے لئے اکثر لوگوں کے پاس وقت نہیں ہوتا اور اسراف بھی اس طرح ہوتا ہے کہ دستر خوان مختلف قسم کے ماکولات و مشروبات سے لبریز ہوتا ہے درحالیکہ بہت سے غریب ایسے ہیں جن کے ہاں ایک وقت کا کھانا نہیں ہوتا، جن کی ہمیں کوئی فکر اور پرواہی نہیں ہوتی، حالانکہ قرآن نے اطعام مساکین کی ترغیب نہ دینے والوں کا ذکر منکرین آخرت کے ساتھ کیا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئیے کہ ہم اس دن بھی توبہ استغفار کریں اور اپنے دسترخوان پر دو تین چیزوں کو کم کرکے غریبوں کی مدد کریں اور اپنے وقت کی یعنی زندگی کی قدر کریں۔ کسی کو عیدی دیتے وقت ان چیزوں کو ترجیح دی جائے جو اسے معنویت کی طرف لے جانے میں موثر اور مفید ہو۔ مثلاً اسلامی اصولوں پر مبنی ایک بہترین کتاب، جس طرح رمضان میں ہم عبادات اور دیگر اچھے اچھے امور انجام دیتے ہیں، اس طرح ضروری ہے کہ عید کے بعد بھی اس کو جاری رکھیں۔ آخر میں ہم تمام قارئین کو عید مبارک پیش کرتے ہیں، مگر ان کے لئے جنہوں نے اس مہینے میں اپنے گناہوں کو بخشوایا ہو اور نفس پر کامیابی حاصل کی ہو ان کے لئے عید مبارک۔ باقیوں کے لئے آخر میں ہم بطور عیدی یہ حدیث ہدیہ قارئیں کرتے ہیں ‘کل یومٍ لایعصی اللہ فیہ فہو عید‘‘ ( جس دن گناہ سرزد نہ ہو وہ دن عید کا دن ہے)۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.