روزے کے چند اجتماعی و معاشرتی فائدے اور حکمتیں

973

مرجع عالی قدر شیعیان جہان آیت اللہ العظمی صافی گلپائگانی روزے کے اجتماعی اور معاشرتی فوائد اور حکمتوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
جیسا کہ ہم جانتے ہیں روزہ بے نہایت فوائد، حکمتوں، اخلاقی، معاشرتی، اقتصادی، جسمانی اور نفسیاتی مصلحتوں اور حتی سیاسی فوائد کا حامل ہے۔ یہ فوائد اور حکمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کے بارے میں الگ سے گفتگو کی ضرورت ہے۔ ان فوائد اور مصلحتوں کی یادآوری مسلمان شخص کے دل میں دین مبین اسلام پر ایمان میں اضافے اور خداوند حکیم کی حکمت اور اس کے احکام کا مصلحت آمیز ہونے پر یقین اور اطمینان بڑھنے کا باعث بنتی ہے۔
اس گفتگو میں ہم روزے کے چند معاشرتی اور اجتماعی فوائد اور حکمتوں پر روشنی ڈالیں گے تاکہ ان کی روشنی میں موجودہ معاشرتی صورتحال کا بھی جائزہ لے سکیں اور ماہ مبارک رمضان اور روزے داری جیسی بابرکت رسم سے اپنے معاشرے کی اصلاح میں مدد حاصل کر سکیں۔ روزے کے معاشرتی و اجتماعی فوائد اور حکمتیں مندرجہ ذیل ہیں۔
1. روزے کا ایک معاشرتی فائدہ یہ ہے کہ اس سے اجتماعی ارادہ مضبوط اور ہمت بلند ہوتی ہے جو افراد کو اپنی نفسانی خواہشات اور ہوس پرستی پر کنٹرول حاصل کرنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ایسا شخص جو روزے کی خاطر 14 گھنٹے یا کم یا زیادہ شدید گرمی میں کھانا پینا ترک کر سکتا ہے اور اس راستے میں مشقت، سختی اور بھوک پیاس کو برداشت کرتے ہوئے جنسی لذت سے بھی پرہیز کر سکتا ہے تو وہ بڑی اجتماعی مصلحتوں کی خاطر اور اپنی اور معاشرے کی عزت و آبرو کی حفاظت کیلئے بھی بعض سختیاں اور مشکلات برداشت کرتے ہوئے عظیم اجتماعی مقاصد کے حصول میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ظاہر ہے ہر وہ معاشرہ جو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے اور پیشرفت کے عظیم مراحل طے کرنے کا خواہش مند ہو اسے عظیم ارادی قوت، راسخ عزم اور اونچی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی طاقت اور ہمت جو اسے بڑے قدم اٹھانے اور عظیم تحریک وجود میں لانے پر اکسائے اور اسے شکست کے تصور، کمزوری اور منفی قوتوں کے مقابلے میں عقب نشینی کرنے سے محفوظ رکھے۔ مختلف افراد اور معاشروں کا ایک دوسرے سے مختلف ہونے اور درپیش مشکلات پر غلبہ اور فتح پانے کا واحد سبب قوت ارادہ اور عزم راسخ ہے۔ ہر وہ قوم جو زیادہ ارادی طاقت اور عزم راسخ کی حامل ہو گی درپیش مشکلات اور مسائل پر اتنی ہی زیادہ کامیابی سے غلبہ پا سکے گی۔ صرف اس قوم کے افراد جو مضبوط ارادے اور عظیم ہمت کی مالک ہو گی اپنی اجتماعی اور معاشرتی مصلحتوں کی خاطر اپنی ذاتی اور نفسانی خواہشات کو قربان کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔
ارادے کی مضبوطی اور تقویت میں روزہ انتہائی موثر ہے اور اہم کردار کا حامل ہے۔ کیونکہ روزہ درحقیقت صبر، پرہیز اور ارادی قوت کی تمرین کا نام ہے جو حلال لذتوں کو ترک کرنے کے ذریعے انسان میں عزم کو راسخ کرتا ہے اور اسے حرام لذتوں کو مزید آسانی سے ترک کرنے کیلئے تیار کرتا ہے۔
2. روزہ کا ایک اور معاشرتی فائدہ فقراء، مساکین اور محروم افراد کی حالت زار کو سمجھنا اور اس کی یاددہانی کروانا ہے۔ اس کے علاوہ صبر پیشہ فقیر افراد کے شریف النفس اور اعلی مزاج ہونے کی جانب بھی توجہ دلاتا ہے۔ اگر ایک امیر اور پیسے والا شخص صرف ماہ مبارک رمضان میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے لذیذ کھانوں اور جنسی لذتوں سے پرہیز کرتا ہے تو ایک فقیر، صابر اور باایمان شخص ماہ مبارک رمضان کے علاوہ پورا سال اپنی محرومیتوں پر صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے شرعی حدود سے تجاوز نہیں کرتا اور خداوند کریم سے شکایت میں اپنی زبان نہیں کھولتا اور کسی دوسرے کے مال کی جانب لالچ سے نہیں دیکھتا اور امیر اور غنی افراد سے حسد کا شکار نہیں ہوتا۔
لہذا ایک فہیم اور سمجھ دار امیر روزہ دار اس حقیقت کو درک کر لیتا ہے کہ ممکن ہے اس قسم کے باایمان فقیر اور محروم افراد اپنی ناداری اور محرومیتوں پر صبر کے ذریعے قوت ارادہ اور بلند ہمتی اور شرافت میں اس سے کہیں زیادہ بافضیلت ہوں۔ کیونکہ جس قدر نفسانی خواہشات کی پیروی، ہوا و ہوس کو پورا کرنے کی عادت اور جسمانی لذتوں میں مشغولیت زیادہ ہو گی اسی قدر ان سے مقابلہ زیادہ مشکل اور انسان کا ارادہ زیادہ کمزور اور مشکلات اور سختیاں برداشت کرنے کی قوت زیادہ کم اور نیک اور عظیم اعمال انجام دینے کی صلاحیت مزید کم ہو جائے گی۔ لہذا ہم تاریخ میں بھی دیکھتے ہیں کہ ایسے خاندانوں کے افراد جو ناز و نعمت میں پلے ہوں میں عظیم، باہمت، شجاع اور باارادہ انسان کم نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف ایسے خاندانوں میں جو چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے مادی لذتوں کو ترک کرنے پر مجبور ہوں اور دنیوی امور سے لاتعلق ہوں، باشخصیت، باارادہ اور باصلاحیت افراد زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔
چنانچہ روزہ دار شخص بافضیلت فقیر افراد کی عزت نفس اور شرافت سے بھی آگاہی حاصل کر لیتا ہے اور معاشرے کے محروم طبقے کو درپیش سختیوں اور مشکلات سے بھی آگاہ ہو جاتا ہے اور ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جناب حمزہ بن محمد نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو لکھا: خداوند کریم نے روزہ کیوں واجب کیا ہے؟
امام حسن عسکری علیہ السلام نے جواب میں لکھا: لِیَجِدَ الغَنِی مضَضَ الجُوعِ فَیَحنُو عَلَی الفَقِیر یعنی “تاکہ غنی بھوک کے درد کا احساس کرتے ہوئے فقراء کے ساتھ ہمدردی کرنے لگے”۔
اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے: اِنما فَرَضَ اللهُ الصیامَ لِیَستَوِی بِه الغُنِی وَالفَقِیر یعنی “خداوند کریم نے روزے کو اس لئے واجب کیا ہے کہ اس کی برکت سے غنی اور فقیر ایک جیسے ہو جائیں”۔
3. روزے کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ روزہ دار شخص آزادی اور حریت کی حقیقت کو درک کرتا ہے اور روزہ اسے روزمرہ عادات، نفسانی خواہشات اور نفس کی پیروی سے آزاد کرتے ہوئے اس کی روح کو ترقی دیتا ہے اور اس کی سوچ کو نورانی کر دیتا ہے۔ روزہ اسی طرح ایک معاشرے میں آزادی کی روح پیدا ہونے کا باعث بنتا ہے اور اس معاشرے کے افراد کو خداوند عالم کے حضور خضوع و خشوع کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ وہ خدا جس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں اور کوئی بھی مخلوق اس کی بندگی سے باہر نہیں۔ روزہ انسان کو دوسرے انسانوں کی اطاعت اور ظالم و جابر قوتوں کے سامنے جھکنے سے روکتا ہے۔
روزہ دار مومن خداشناس اور حقیقی آزاد شخص ہے۔ ایسا آزاد شخص جو آزادی کو حقیقی معنا میں کامل طور پر درک کر چکا ہے۔ وہ افراد جو خیال کرتے ہیں کہ آزادی شرعی و عقلی وظائف کو ترک کرنے اور ہوس پرستی اور نفسانی خواہشات کی پیروی میں مضمر ہے درحقیقت نفسانی خواہشات کے غلام اور ہوا و ہوس کی قید میں ہیں۔ یہی افراد مومنین کا تمسخر کرتے ہیں جبکہ خود ہوا و ہوس، نفسانی خواہشات اور پست لذتوں کا طوق اپنی گردن میں ڈالے ہوئے ہیں اور قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیہ کا مصداق ٹھہرتے ہیں کہ
اَفَرَأَیتَ مَنِ اتَخَذَ اِلهَهُ هَواهُ
یعنی کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا خدا بنا رکھا ہے؟
جب کسی شخص کا معبود اس کی نفسانی خواہشات بن جاتی ہیں تو ان کی آمریت ہر مستبد اور ظالم حکمران سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے اور اگر نفسانی خواہشات کی آمریت کی پیروی بھی عمل میں لائی جائے تو اس کا خطرناک نتیجہ انسان کی شخصیت، شرافت اور حیثیت کے زوال کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ وہ افراد جو نفسانی پلیدیوں کی پیروی اور ہوس رانی اور شرعی احکام سے روگردانی کو آزادی کا نام دیتے ہیں نہ صرف آزادی کے معنا سے ناواقف ہیں بلکہ خود پلیدترین قید اور اسارت میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ یہ افراد جب تک اس اسارت سے آزاد نہیں ہو جاتے اور خود سے لالچ، حرص، حب دنیا، تجملات اور جاہ طلبی جیسی رذائل اخلاقی کو دور نہیں کر لیتے خداپرستی کی آزاد دنیا میں وارد نہیں ہو سکتے اور توحید پرست آزاد افراد کی صف میں شامل نہیں ہو سکتے۔ یہ افراد جب تک اسلامی تعلیمات میں موجود انسانی آزادی کے پیغام کو درک نہیں کر لیتے آزادی جیسی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہو سکتے۔
ابن خضرویہ کہتے ہیں: فِی الُحریَةِ تَمامُ العُبُودِیة، وَفِی تَحقِیقِ العُبُودِیةِ تَمامُ الحُریَة
یعنی “حقیقی آزادی میں خدا کی تمام عبادت اور پرستش اور خدا کی عبادت میں تمام آزادی شامل ہے”۔
آزادی درحقیقت تمام غیرالہی قوتوں کی پرستش، برے اخلاق اور ناپسندیدہ عادات کی قیدوبند سے آزاد ہونے اور ذات خداوند پر بھروسہ کرنے اور خلوص نیت سے اس کی بندگی اور عبادت کرنے اور دوسروں کی بندگی کی قید سے آزاد ہونے کا نام ہے۔
4. روزہ درحقیقت خلوص نیت، نیت کی پاکیزگی، ریا سے بچنے اور شہرت طلبی اور مخلوق خداوند کی جانب سے اپنی تعریف و تمجید سے اجتناب کرنے کی بہترین تمرین ہے۔ یہ عیوب اور آفتیں دوسرے نیک افعال میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن روزہ دار شخص ریاکاری کرنے کیلئے بھوکا پیاسا رہنے پر مجبور نہیں بلکہ اس کیلئے عین ممکن ہے کہ وہ چوری چھپے کھاتا پیتا رہے لیکن سب کے سامنے خود کو روزہ دار ظاہر کرے۔ پس جب ایک شخص پورے دن کے دوران، سب کے سامنے بھی اور خلوت میں بھی روزہ داری کا ثبوت دے تو یہ عمل اس کی پاک نیتی اور اس کے باطن کی سچائی اور اس کے خلوص نیت کی علامت ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ خلوص نیت، ہدف کی پاکیزگی، حب شہرت اور دوسروں کو فریب دینے سے بچنے اور جاہ طلبی اور لوگوں کے درمیان مقام پیدا کرنے کی خواہش سے پرہیز کیلئے نفس کی تمرین ہے۔
ایک انسانی معاشرہ جس قدر عوام فریبی، حب شہرت اور جاہ طلبی جیسی آفات سے عاری ہو گا اسی قدر حقائق اور واقعیات واضح اور روشن ہوں گے اور لوگوں کے عمل کی کسوٹی بھی سب کیلئے واضح ہو گی جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ خطاکار افراد میں کمی آ جائے گی۔ رھبران ملت، زعماء اور حتی حکماء اور دانشمند حضرات کو درپیش سب سے بڑا خطرہ یہی عوام فریبی اور شہرت طلبی اور جاہ طلبی ہے۔ یہ آفات انسانی اعمال کا حقیقت پرستی اور واقع بینی پر مبنی اپنے صحیح راستے سے منحرف ہونے کا سبب بنتی ہیں جس کی وجہ سے پورے کا پورا انسانی معاشرہ انحراف کا شکار ہو جاتا ہے۔ تاریخ میں بڑی بڑی تحریکوں اور انقلابات اور اصلاحی عمل کا شکست سے دوچار ہو جانے کی اصلی وجہ یا ابتدا سے ہی خلوص نیت کا نہ ہونا تھا اور یا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان آفات کا شکار ہو جانا تھا۔ ایک انسانی معاشرہ جس قدر ان آفات اور رذائل اخلاقی سے پاک اور مبرا ہو گا اور اس معاشرے کے لیڈران جس قدر اپنی تعریف اور چاپلوسی سے پرہیز کرتے ہوں اور چاپلوسی ان سے دوستی کا بہترین ذریعہ ثابت نہ ہوتا ہو، وہ معاشرہ اسی قدر حقیقی اور واقعی ترقی کی جانب گامزن ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ دین مبین اسلام میں نیت میں اخلاص اور عبادت میں توحید پر خاص تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَمَآ اُمِرُوا إِلا لِیَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِینَ لَهُ الدین
یعنی انہیں اسکے علاوہ کوئی دستور نہیں دیا گیا تھا کہ توحید اور اخلاص کامل کے ساتھ خدا کی عبادت کریں۔
دین کو خدا کیلئے خالص قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ انسان تمام ایسے افعال جو معنوی حیثیت کے حامل ہیں اور ان میں ربوبی پہلو پایا جاتا ہے اور وہ پرستش کی علامت جانے جاتے ہیں اور باطن اور ضمیر کی زیبایی اور پاکیزگی کا مظہر جانے جاتے ہیں، صرف اور صرف خدا کی خاطر انجام دے۔ اسی طرح انسان اپنے تجارتی، اجتماعی، سیاسی اور فوجی تعلقات و روابط میں بھی فقط اور فقط احکام خداوند کی اطاعت کرے اور غرور، جاہ طلبی اور شخصی مفادات کی پیروی سے پرہیز کرے اور شرعی حدود کو پار کرنے سے اجتناب کرے اور اس کا ہر عمل اور فعل صرف اور صرف رضای خداوند کیلئے ہو۔
روزہ اور ماہ مبارک رمضان میں ان اعلی معانی کا درس اور ان عالیرتبہ حقائق اور عظیم حکمتوں کی تعلیم پوشیدہ ہے۔ ماہ مبارک رمضان میں انجام پانے والی عبادات اس قدر ریاکاری سے دور ہیں کہ خداوند متعال نے انہیں اپنے ساتھ مخصوص کیا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ہر عبادت خدا ہی کیلئے انجام پانی چاہئے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ خداوند تبارک و تعالی فرماتا ہے: اَلصومُ لِی وَاَنا اجزِی عَلَیه یعنی روزہ میرے ساتھ مخصوص ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا۔
5. روزہ داری کا ایک اور اجتماعی فائدہ انسان میں حسن خلق اور عفو و درگذشت کا جذبہ پیدا ہونا ہے جس کے نتیجے میں کینہ توزی، بدرفتاری، بدزبانی، دشمنی، غیبت اور گالی گلوچ جیسے رذائل اخلاقی انسان سے دور ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ روزہ دار شخص کو ہمیشہ یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ روزے کی حالت میں اپنی آنکھوں، زبان اور کانوں کا بھی خیال رکھنا اور کوئی دوسرا شخص تم سے بے ادبی سے پیش آئے اور تمہیں دشنام دے تو تم جواب میں اس کو ایسا نہ کہنا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: اِذا صُمتَ فَلیَصُم سَمعُکَ وَبَصَرُکَ وَشَعرُکَ وَعَددَ اَشیاءَ غَیرَ هذا” وَقَال: “لا یَکُونَن یَومُ صَومِکَ کَیَوْمِ فطرِکَ۔
یعنی جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کان، آنکھیں، بال بھی روزے سے ہونی چاہئیں۔ آپ علیہ السلام نے باقی اعضاء کا بھی نام لیا اور فرمایا: تمہارا روزے کا دن عام دنوں جیسا نہیں ہونا چاہئے۔
اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے: ما مِن عَبد صائِم یَشتِمُ فَیَقُولُ: اِنی صائِمٌ سَلامٌ علَیکَ لااَشتِمُکَ کَما تَشتِمُنِی الا قالَ الرب تَعالی: اِستجارَ عَبدِی بِالصومِ مِن شَر عَبدِی قَد اَجرتُهُ النارَ۔
یعنی اگر روزہ دار شخص کو کوئی دوسرا شخص گالی دے تو وہ اس کے جواب میں یوں کہے: میں روزے سے ہوں، تم پر سلام ہو، میں تمہاری طرح گالی نہیں دے سکتا کیونکہ خداوند متعال کا ارشاد ہے: میرے بندے نے روزے کے ذریعے میرے دوسرے بندے کے شر سے میری پناہ مانگی ہے، میں یقینا اسے آگ کے شر سے محفوظ رکھوں گا۔
روزے کے اجتماعی و معاشرتی فوائد اور حکمتوں کے ذکر سے ظاہر ہوتا ہے کہ روزہ درحقیقت ایک تربیتی، اجتماعی اور عملی کلاس اور انسانوں کے درمیان زیادہ بہتر، پاکیزہ اور انسانیت پر مبنی معاشرت کی تعلیم کا نام ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ عصر اسلام میں اسلامی معاشرہ افراد کے درمیان اجتماعی رویوں اور ایک دوسرے کے ساتھ برتاو کے لحاظ سے بہترین معاشرہ تھا۔ اسلامی عبادات کے مدرسے اور خاص طور پر روزے کی کلاس نے مسلمانوں میں یہ صلاحیت پیدا کر دی تھی کہ وہ اسلامی تعلیمات کو دنیا بھر میں پھیلانے کے قابل ہو جائیں اور اپنے اخلاق کے ذریعے دنیا والوں کو اسلام کی حقیقت کی جانب متوجہ کر سکیں۔
عصر اسلام کے مسلمانوں نے یہ اعلی معانی نماز، روزہ، حج وغیرہ جیسی اسلامی عبادات انجام دینے کے ذریعے حاصل کئے تھے۔ آج بھی ماہ مبارک رمضان کے یہ فوائد اور برکتیں موجود ہیں۔ مختلف اداروں کی جانب سے شائع کئے جانے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں جرائم کی تعداد میں خاطرخواہ کمی ہوتی ہے۔ آج مسلمان ہر دور سے زیادہ ماہ مبارک رمضان میں روزہ داری جیسے عظیم مدرسے سے بہرہ مند ہونے کے محتاج ہیں۔ دوسری طرف روزہ خواری کے ذریعے ماہ مبارک رمضان کی توہین اس اسلامی تربیتی مدرسے کے ساتھ مقابلہ اور تہذیب نفوس، تزکیہ اخلاق اور معاشرے کی ترقی کی مخالفت اور خدا کے ساتھ دشمنی اور خالق کائنات کے حکم سے سرپیچی کے مترادف ہے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.