عزاداری امام حسین علیہ السلام، ائمہ معصومین علیھم السلام کی نظر میں
شہادت امام حسین ع یقیناً اتنی دردناک اور کربناک ہے کہ جس پر جن و انس ہی کیا، عالم میں ہر موجود نے گریہ کیا اور آپکا ماتم انسانوں کے علاوہ حیوانوں اور پرندوں نے بھی کیا، مگر یہ سچ ہے کہ حسین بن علی ع نے اپنے خون کی گرمی سے انسانیت کی رگ و پے میں ایسی حرارت پیدا کر دی جو انسانیت کو ہر قدم پر جینے کا سلیقہ سکھاتی رہے گی۔ ذیل میں اس عظیم شہادت کے بارے میں آئمہ معصومین ع کے کچھ نورانی کلمات قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہیں جو یقیناً ہمارے لئے حسینیت اور مقصد حسین ع اور انکی عظیم شہادت کی معرفت کے سلسلے میں مشعل راہ ہیں:۱۔ رسول معظم اسلام ص: ان لقتل الحسین حرارۃ فی قلوب المؤمنین لا تبرد ابداً۔”بے شک امام حسین ع کی شہادت سے مؤمنین کے دلوں میں وہ آگ (حرارت) بھڑک اٹھے گی جو کبھی سرد نہ ہوسکے گی”۔ (مستدرک الوسائل، ص ٣١٨، باب ٤٩/ازابواب المزار،ج١٣)۔۲۔ امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب ع: نظر الیٰ الحسین فقال: یا عبرۃ کل مؤمن فقال: انا یا ابتاہ، قال نعم یابنیّ۔حضرت علی ع نے اپنے فرزند حسین ع کی طرف دیکھا اور فرمایا :اے (وہ جسکے نام اور یاد و ذکر) کی وجہ سے ہر مومن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں، امام حسین ع نے فرمایا: آپ کی مراد میں ہوں؟ امام علی ع نے امام حسین ع کے جواب میں فرمایا: ہاں! اے میرے فرزند”۔ (بحارالانوار، ج٤٤، ص ۲۸۰، و فضل زیارت حسین ع ص٣٨)۔۳۔ حضرت فاطمہ زھرا س: فلما صارت الستۃ کنت لا احتاج فی اللیلۃ الظلماء الیٰ مصباح و جعلت اسمع اذا خلوت فی مصلیٰ التسبیح والتقدیس فی بطنی۔”جب امام حسین ع (دوران حمل) ٦ماہ کے ہوئے تو اندھیری رات میں مجھے کسی چراغ کی ضرورت نہ ہوتی تھی اور خداکی عبادت کے دوران، تسبیح اور ذکر خدا کی آواز مجھے سنائی دیتی تھی”۔ (بحارالانوار، ج٤٣، ص٢٧٣، عوائج١٧ ص١١، الدمعۃ السا کبۃ ص٢٥٩، خصائص الحسینیۃ، ص٣١)۔۴۔ امام حسن مجتبیٰ ع: ان الذی یؤتی الی فاقتل بہ و لکن لایوم کیومک یا اباعبداﷲ۔”وہ چیز جو میری شہادت کا باعث بنے گی زہر ہے جسکے ذریعے مجھے قتل کیا جائے گا، لیکن اے ابا عبداﷲ کوئی بھی دن (عزاومصیبت کا) آپ کے دن جیسا نہ ہو گا”۔ (امالی، شیخ الصدوق، ص١١٦؛ بحارالانوار، ج٤٥، ص٢١٨؛ مشیرالاحزان، ص٩، عوالم، ج١٧، ص١٥٤؛ لھوف، ص٥ ٢)۔۵۔ سیدالشھداء حسین بن علی ع: انا قتیل العبرۃ لا یذکرالمومن الا استعبر۔”میں وہ شہید ہوں جسے رلا رلا کر مارا گیا ہے، کوئی بھی مومن مجھے یاد نہیں کرتا مگر یہ کہ اسکی آنکھوں سے اشک غم جاری ہوتے ہیں”۔ (امالی، صدوق، ص١٣٧؛ کامل الزیارات، ص١٠٨؛ بحارالانوار، ج٤٤، ص٢٨٤؛ عوالم، ج١٧، ص٥٣٦؛ اثبات الھداۃ، ج٢، ص٥٨٤)۔۶۔ امام سید الساجدین علی ابن الحسین زین العابدین ع: انا ابن من بکت علیہ ملائکۃ السماء انا ابن من ناحت علیہ الجن فی الأرض و الطیر فی الھواء۔”میں اسکا بیٹا ہوں جس پر آسمانی فرشتوں نے گریہ کیا اور جس پر زمین پر جن اور ہوا میں پرندگان نے بھی نوحہ خوانی کی”۔ (بحارلانوار، ج٤٥، ص١٧٤؛ عوالم، ج١٧، ص٤٨٥)۔۷۔ امام محمد باقر ع: ما بکت علی احد بعد یحیٰ بن زکریا الا علی الحسین بن علی فانھا بکت علیہ اربعین یوماً۔”حضرت یحیٰ بن زکریا ع کی شہادت کے بعد آسمان نے کسی پر گریہ نہیں کیا مگرامام حسین ع کی شہادت پر آسمان نے چالیس دن گریہ کیا”۔ (کامل الزیارات، ص٩٠؛ بحارالانوار، ج٤٥، ص٢١١؛ عوالم، ج١٧، ص٤٦٩)۔۸۔ امام جعفر صادق ع: ان البکاء والجزع مکروہ للعبد فی کل ما جزع ماخلا البکاء و الجزع علی الحسین بن علی ع فانہ فیہ ماجور۔”ہر قسم کی مشکلات و مصائب پر گریہ و زاری کرنا ناپسندیدہ ہے مگر انسان اگر امام حسین ع کی مصیبت پر گریہ و زاری کرے تو ثواب کا بھی مستحق ہوتا ہے”۔ (کامل الزیارات، ص١٠٠؛ بحارالانوار، ج٤٤، ص٢٩١؛ عوالم، ج١٧، ص٥٣٣)۔۹۔ امام موسیٰ کاظم ع کی روز عاشورا کیفیت، امام رضا ع کی زبانی: کان ابی اذا دخل شھرالمحرم لا یریٰ ضاحکا ًوکانت البکاۃ تغلب علیہ حتیٰ یمضیٰ منہ عشر ۃایام فاذا کان یوم العاشر کان ذالک الیوم یوم مصیبتہ وحزنہ وبکائہ و یقول ھو الیوم الذی قتل فیہ الحسین۔ “جب ماہ محرم شروع ہوتا تو میرے والد بزرگوار کے چہرے پر خوشی کے آثار نظر نہیں آتے تھے اور آپ ع حزن و ملال میں رہتے یہاں تک کہ روز عاشورا آ جاتا۔ وہ دن انکی عزاداری اور گریہ کا دن ہوتا تھا۔ آپ فرمایا کرتے کہ اس دن حضرت امام حسین ع کو شہید کیا گیا۔ (امالی، صدوق، ص١٢٨؛ بحارالانوار، ج٤٤، ص٢٨٤؛ عوالم، ج١٧، ص٥٣٨)۔۱۰۔ امام علی بن موسیٰ الرضا ع: ان یوم الحسین ع اقرح جفوننا و اسبل دموعنا و اذل عزیزنا بارض کرب و بلا و اورثتنا الکرب والبلاء الی یوم الانقضاء۔”بے شک امام حسین ع کی مصیبت کے دن نے ہماری آنکھوں کو خستہ اور مجروح کر دیا ہے اور ہمارے آنسووں کو رواں کر دیا اور ہمارے عزیزوں کو خفت (ظاہری) اٹھانی پڑی۔ اس دن کے مصائب نے ہمیں ہمیشہ کے لئے غمگین اور داغدار کر دیا ہے”۔ (امالی، صدوق، ص١٢٨؛ بحارالانوار، ج٤٤، ص٢٨٤؛ عوالم، ج١٧، ص٥٣٨)۔۱۱۔ اما م محمد تقی ع: من زار الحسین لیلۃ ثلاث عشرین من شھر رمضان و ھی لیلۃ اللتی رجیٰ ان تکون لیلۃالقدر وفیھا یفرق کل امرحکیم صافحہ اربعۃ وعشرون الف ملکٍ و نبیٍ کلھم یستاذن اﷲ فی زیارۃ الحسین فی تلک اللیلۃ۔”جو شخص بھی ماہ مبارک رمضان کی ٢٣ ویں رات کو (جو کہ شب قدر ہے اور خداوند متعال کے تمام امور اسی دن تنظیم پاتے ہیں) امام حسین ع کی زیارت کرے، چار ہزار فرشتے اور پیامبران اسکے ساتھ مصافحہ کریں گے اور سب کے سب خداوند سے اس رات کو امام حسین ع کی زیارت کے لئے اذن طلب کریں گے”۔ (وسائل الشیعۃ، ج١٠، ص٣٧٠، باب ٥٣، از ابواب المزار، ج٥)۔۱۲۔ امام علی ابن محمد النقی ع: من خرج من بیتہ یرید زیارۃ الحسین بن علی فصار الی الفرات فاغتسل منہ کتبہ اﷲ من المفلحین فاذا سلم علیٰ ابی عبداﷲ کتب من الفائزین فاذا فرغ من صلاتہ اتاہ ملک فقال: ان رسول اﷲ یقرؤک السلام و یقول لک: اما ذنوبک فقد غفر لک فاستأنف العمل۔”جو شخص بھی امام حسین ع کی زیارت کے قصد سے اپنے گھر سے نکلے اور نہر فرات پر جا کر غسل کرے تو خدا وند عالم اس کا نام فلاح پانے والوں میں لکھتا ہے اور جب وہ آپ پر سلام کرے تو وہ مقام زیارت تک پہنچنے والوں میں شمار ہوتا ہے اور پھر جب وہ نماز سے فارغ ہوتا ہے تو فرشتہ اس سے کہتا ہے کہ رسول خدا تجھ پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور تجھ سے فرماتے ہیں: تیرے سارے گناہ معاف ہو گئے ہیں، لہٰذا نئے سرے سے اپنے اعمال انجام دو”۔ (وسائل الشیعۃ، ج١٠، ص٣٨٠، باب ٥٩، از ابواب المزار، ج١٠)۔۱۳۔ امام حسن عسکری ع: اللھم انی اسئلک بحق المولود فی ھذا الیوم الموعود بشھادتہ قبل استھلالہ و ولادتہ بکتہ السماء و من فیھا و الارض و من علیھا و لما یطأ لا بتیھا قتیل العبرۃ و سیدالأسرۃ الممدود بالنصرۃ یوم الکرۃ المعوض من قتلہ ان الائمۃ من نسلہ والشفاء فی تربتہ۔”پروردگار میں تجھے اس مولود کا واسطہ دیتا ہوں جو اس دن (٣شعبان) کو پیدا ہوا ہے۔ وہ جس کی ولادت سے پہلے اسکی شہادت کا وعدہ ہوا تھا۔ وہ جسکی مصیبت میں آسمان پر اہل آسمان نے اور زمین پراہل زمین نے گریہ کیا، حالانکہ اس نے ابھی زمین پر قدم بھی نہیں رکھا تھا۔ وہ جسکی شہادت گریہ و زاری کا باعث ہے۔ وہ بزرگ خاندان ہے جو رجعت کے وقت خدا کی نصرت کے ذریعہ کامیاب ہو گا، جسکو شہادت کی جزا کے طور پر نسل میں امامت اور تربت میں شفا ملی”۔ (مصباح المتہجد، ص ٧٥٨؛ بحارالانوار، ج٩٨، ص٣٤٧؛ مفاتیح الجنان، اعمال روز سوم شعبان)۔۱۴۔ حضرت بقیۃ اﷲ المنتظر حجۃ بن الحسن المھدی ع ارواحنا لہ الفداء: فلئن اخرتنی الدھور و عاقنی عن نصرک المقدور و لم اکن لمن حاربک محاربا ًو لمن نصب لک العداوۃ مناصباً فلا ندبنّک صباحاً ومساءاً و لابکین علیک بدل الدموع دما۔ً”اگرچہ میں آپ کے زمانے سے بچھڑ گیا اور تقدیر نے مجھے آپکی نصرت کرنے سے مجبور کر دیا اور آپکے دشمنوں سے جہاد نہ کر سکا اور آپ پر اٹھتی ہوئی عداوت کی تلوار کو نہ روک سکا لیکن شب و روز آپ پر آنسو بہاتا ہوں اور اشک کے بدلے خون کے آنسو روتا ہوں”۔ (بحارالانوار، ج ٩٨، ص٣٢٠)۔