ماہ برکت و رحمت و مغفرت

204

 
خدا کا لاکھ احسان کہ اس نے اس سال بھی ماہِ مبارکِ رمضان کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے لئے مہلتِ حیات عنایت فرمائی۔ روزوں کے ایام سارا سال انتظار کے بعد آتے ہیں اور ساون کے بادلوں کی طرح سیراب کرتے ہوئے آناً فاناً اڑ جاتے ہیں۔ ماہِ مبارک رمضان دراصل ان رحمتوں اور برکتوں کا عروج ہے جو سارا سال خدا اپنے محبوب بندوں پر نازل کرتا رہتا ہے۔ رجب سے ان برکات و حسنات میں تیزی واقع ہونا شروع ہوتی ہے جو شعبان کے ذریعے اس مہینے سے مربوط ہوجاتی ہے۔ دراصل یہ مہینہ خدا کا اپنے بندوں پر احسانات کا سالانہ احیاء ہے۔ تراسی سالوں کی برکات پر بھاری ایک اشرف رات بھی اسی مہینے کا شرف ہے۔ قرآن قلوب کی بہار ہے اور قرآن کی بہار ہونا رمضان کا نصیب ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا، اسکے مصطفٰے اور بندوں کا واحد دشمن شیطان اس ماہ میں مقید کر دیا جاتا ہے۔ ہم کج فہموں کو ادراک ہی نہیں کہ کیونکر اس ماہِ مبارک کا استقبال کیا جائے، کیسے اسکی تواضع کی جائے اور کس طرح اسکو الوداع کریں۔ آئیے چلتے ہیں شہرِ علم کی جانب اور اس کے در پر دستک دے کر معلوم کرتے ہیں کہ آخر اس مہینے میں ایسے کونسے گوہر ہائے نایاب پنہاں ہیں جو خدا نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:”رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا (جو) لوگوں کے واسطے ہدایت ہے اور (جس میں) ہدایت کی واضح دلیلیں ہیں اور (جو حق کو باطل سے) جدا کرنے والا ہے۔ پس تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس میں روزے رکھے، اور جو شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی کرلے۔ الله تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور وہ تمھارے لیے تنگی نہیں چاہتا۔ تاکہ تم گنتی پوری کرو اور الله کى بڑائی (بیان) کرو۔ اس لیے کہ اس نے تمھیں ہدایت دی، تاکہ تم شکرگزار بن جاؤ۔”
رسولِ اکرم (ص) نے رمضان المبارک کی آمد کے موقع پرلوگوں کو رمضان المبارک کے استقبال کے لئے تیار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:”اے لوگو! خدا کا مہینہ برکت، رحمت اور مغفرت کے ساتھ آن پہنچا ہے۔یہ ایسا مہینہ ہے جو خدا کے نزدیک افضل ترین ہے۔اس کے دن اور اس کی راتیں تمام دنوں اور راتوں سے بہتر ہیں۔اس کی گھڑیاں اور لمحات سب گھڑیوں اور لمحات سے بہتر ہیں۔یہ ایسا مہینہ ہے جس میں تم خدا کے مہمان ہو اور وہ تم پر اپنی رحمت اور فضل و کرم نازل کرتا ہے۔اس مہینے میں تم جب بھی خدا کی بارگاہ کا رخ کرو گے، وہ تمہاری دعا قبول کرے گا۔لوگو! اس مہینے میں غریبوں اور ناداروں کی مدد کرو اور بوڑھوں کا احترام کرو۔ بچوں سے مہربانی سے پیش آؤ اور اپنے رشتے داروں سے میل جول رکھو۔اے لوگو! اس مہینے میں جو شخص اپنا اخلاق اچھا بنا لے گا وہ اس دن پلِ صراط پر سے باآسانی سے گزر جائے گا جس دن اس پر قدم لڑکھڑائيں گے۔اس لئے سچے دل کے ساتھ تم خدا سے دعا کرو کہ وہ تم کو روزہ رکھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،کیونکہ بدنصیب ہے وہ شخص جو اس بابرکت مہینے میں خدا تعالٰی کی رحمت سے محروم رہے۔”
جبکہ صائم النہار وصیء رسول (ع) حضرت علی علیہ السلام کا ارشادِ گرامی ہے کہ جب رمضان کا چاند نمودار ہو تو کہو :”پروردگار! میں تجھ سے اس ماہ میں خیرو خوبی کا سوال کرتا ہوں اور شیطان پر فتح حاصل کرنے کی توفیق چاہتا ہوں۔الہٰی! میں تجھ سے اس ماہ میں برکت، پاکیزگی اور روزی کا خواستگار ہوں۔بارِ الٰہا! میں تجھ سے اس ماہ کی اور اسکے بعد کی برکتوں اور خیرات کا سوال کرتا ہوں۔رب العزت! اس مبارک مہینے میں مجھے برکت و تقویٰ کے ساتھ ساتھ سلامت نفس اور ایمان عطا فرما۔ ان اعمال کی بجا آوری کی توفیق عطا فرما کہ جن کی بجاآوری پر تو راضی ہوتا ہے۔ مجھے اس مہینے کے دنوں میں روزہ رکھنے اور راتوں میں عبادت کرنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کی توفیق عطا کرنا۔”
رسولِ گرامیء قدر (ص) اور امام علی (ع) کے تعلیم کردہ یہ دروس پورا مہینہ بسر کرنے اور اسکی برکات کے تسلسل کو باقی ماندہ زندگی سے مربوط کرنے کا وہ سنہری نسخہ ہیں کہ جن پر عمل کرکے انسان اپنے مقصدِ تخلیق تک پہنچ سکتا ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ کبھی ایسا وقت ہو جب خدا اور اسکے برگذیدہ بندوں کا دشمن تو قید کی سزا بھگت رہا ہو اور خدا کی جانب سے رحمتوں، برکتوں اور بخششوں کا ہُن برس رہا ہو تو کوئی بدنصیب ہی ہوگا جو اس موقع سے فائدہ نہ اٹھائے۔
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے ماہ رمضان المبارک کے ایک خطبہ میں روزہ داروں کو اپنے روز و شب سے صحیح فائدہ اٹھانے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا تھا:”اے روزہ دارو! خبردار اپنی راتیں سوکر اور اپنے دن خدا سے غافل رہ کر بسر نہ کرنا۔ اگر خدا کی بارگاہ سے ٹھکرا دیئے گئے تو کس کا در کھٹکھٹاؤگے؟؟؟اگر وہ اپنی بندگی سے نکال دے تو کس کی بندگی قبول کروگے؟؟؟اس نے تمہاری خطائیں معاف نہ کیں تو کون تمہارے گناہ معاف کرے گا؟؟؟روزہ دارو! قرآن کی تلاوت کے ذریعے خود کو خدا سے قریب کرو، کیونکہ خدا کی کتاب وہ شفیع ہے کہ جس کی شفاعت قیامت میں خدا کے سامنے قابل ِقبول قرار دی گئی ہے۔”
آپ(ع) نے مزید فرمایا:”میں نے خدا کے رسول (ص) سے سنا ہے کہ خدا ماہِ مبارک میں وقتِ افطار بہت سے بندوں کو دوزخ کی آگ سے نجات عطا کر دیتا ہے، اور ان کی تعداد خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔”جنابِ امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) نے اسی خطبہ میں ماہِ مبارک کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا تھا:”خدا نے اس مہینہ کو دوسرے تمام مہینوں پر فضیلت و برتری دی ہے اور اس کو اسی طرح بلند کیا ہے جیسے اپنے اہلبیت (ع) کو دوسرے تمام مسلمانوں پر عظمت و رفعت عطا کی ہے۔اس مہینہ میں الہٰی رحمتوں کے آسمانی دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے۔ فریادیں سنی جاتی ہیں اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔خدا اپنے بندوں کے گریے کو رحم کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ زمین پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ روزہ داروں کو سلام کرتے ہیں۔اسی مہینہ میں لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر و برتر رات ہے اور اسی رات میں میری ولایت لوگوں کے لئے مقدر کی گئی ہے۔اس ماہ کے روزے ہزار مہینوں کے روزوں سے بہتر ہیں اور اس مہینے میں کی گئی نیکیاں ہزار مہینوں میں کئے گئے نیک کاموں کے ثواب کے برابر ہیں۔لوگو ! اس مہینے میں آفتاب کی شعاعیں مرد ہو یا عورت، تمام روزہ داروں کو ایمان کی حرارت عطا کرتی ہیں اور راتوں کو ان کے سروں پر رحمتوں کی بارشیں برستی ہیں۔
جبکہ امام رضا (ع) روزے کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ:”بلاشبہ روزہ ایک حجاب ہے جس کے اندر اللہ نے تمہاری زبانوں تمہاری آنکھوں، تمہارے کانوں اور تمہارے تمام اعضا و جوارح کو ڈھک کر محفوظ کر دیا ہے۔” (یعنی کہیں سے بھی شیطان کے حملے کا کوئی تصور نہیں۔)لیکن یہ ایک عجیب اور بمشکل قابلِ فہم المیہ ہے کہ تعلیماتِ محمد وآلِ محمد (ع) کے برعکس ہمارے ملک میں رمضان المبارک ماہِ رحمت کی بجائے ماہِ زحمت بن کر رہ گیا ہے۔ اس مہینے میں شیطان جتنا آزاد دکھائی دیتا ہے، شاید دوسرے مہینوں میں اتنا آزاد نظر نہ آتا ہو۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ رمضان کی آمد سے قبل ہی ہمارے ملک میں ایک ایسا مصنوعی ماحول ایجاد کر دیا جاتا ہے جو ایک سفید پوش اور شریف انسان کے لئے خوف کا سامان پیدا کر دیتا ہے۔ اس مہینے کی آمد کے ساتھ ہی بازاروں سے اشیائے خورد و نوش یا تو غائب کر دی جاتی ہیں یا عام صارف کی پہنچ سے دور رکھ دی جاتی ہیں۔ ذخیرہ اندوزی اور ناقص اموال کی فروخت اس مہینے میں عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ عموماً روزہ دار حضرات کا پیمانہء صبر لبریز بلکہ چھلکتا ہی نظر آتا ہے۔ ہر شخص جلد بازی اور پریشانی کا شکار نظر آتا ہے۔ جگہ جگہ جھگڑے اور گالم گلوچ کے مناظر وافر نظر آتے ہیں۔ اسی مہینے میں ٹریفک کی بے ہنگمی بھی اک عجب ہنگام کا شکار رہتی ہے۔ خدا کی نظر میں روزے کا ایک مقصد ہمیں کسی غریب کی بھوک یا بے آرامی کا اندازہ لگوانا بھی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ماہِ رمضان میں عام طور پر کھانا پینا سال کے دیگر مہینوں کے مقابلے میں دگنا تگنا ہوجاتا ہے۔ فجر سے مغرب تک بھوک برداشت کرنے کا صلہ ایک روزہ دار مغرب سے فجر تک کھاتے رہنے کو سمجھتا ہے اور وہ بھی وہ غذائیں، جو سارا سال کم کم ہی نصیب ہوتی ہیں۔ یعنی شکم سیری جیسی لعنت سے چھٹکارا دلوانے والے مہینے میں ہی ایک نحیف انسان عید کے روز پہلوان بن کر گھر سے نکلتا ہے، جبکہ نفسانی پہلوانی کے جوہر دکھانے کا میدان اسکے برعکس تقاضے کرتا رہا۔
چند سالوں سے میڈیا نے بھی رمضان المبارک کو کمرشلائز کرکے بیچنا شروع کر دیا ہے۔ یہاں رمضان کا چاند نظر آیا، وہاں چینلوں کی دکانیں سج گئیں، جہاں ایسے ایسے مداری دین فروشی شروع کر دیتے ہیں کہ گویا اسلام ان کا ذاتی ترکہ ہو۔ سحر و افطار کے اوقات میں روزہ داروں کو ٹی وی سے چپکائے رکھنا ہو یا شب ہائے قدر میں روح القدس کو اپنے ہی وجودِ مقدس پر نازل کروانا ہو، یہ کھلاڑی کوئی بھی حربہ آزمانے سے نہیں چوکتے۔ اس مہینے میں ڈاکٹر حضرات بھی روزے کی اہمیت پر اپنی عمر بھر کی تحقیقات و کاوشات کا نچوڑ پیش کر دیتے ہیں، جسکی ُرو سے روزہ محض وزن کم کرنے کی ایک ایکسرسائز سے زیادہ کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ (نعوذباللہ) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کے بقول روزہ حصولِ تقویٰ کا ایک مستحسن ذریعہ ہے اور تعلیماتِ معصومین (ع) کی روشنی میں روزہ خدا تک پہنچنے کا آسان ترین راستہ ہے، اور جب کوئی بہکانے والا بھی موجود نہیں تو پھر حقائق اسکے برعکس کیوں ہیں۔ اس سوال کا جواب تلاش کریں تو سمجھ میں آتی ہے کہ بے شک شیطان کو تو خدا نے قید کر دیا لیکن اپنے آپ کو مسلمان اور روزہ دار کہنے والوں نے روزہ رکھنے کا ڈھنگ تعلیماتِ محمد وآلِ محمد (ع) سے نہ سیکھا بلکہ محض بھوکا پیاسا رہنے اور صرف اسی مہینے میں نماز کے نام پر چند ارکان کی ادائیگی کو ہی سب کچھ سمجھ لیا۔ رمضان سے قبل اور اسکے بعد سارا سال اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کرکے اپنے اندر شیطانیت کو ودیعت کرنے کا عمل جاری رکھا۔ نتیجتاً اب وہ خود نمائیندگانِ شیطان بن گئے۔ اب چونکہ انسان، بلکہ مسلمان، بلکہ روزہ دار خود شیطان کی نمائندگی کر رہا ہے تو لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ، ذخیرہ اندوزی، گرانفروشی، بد نظری، بے صبری، دھوکہ دہی اور ایسے ہی دیگر شیطانی امور کا مشاہدہ کوئی بڑی بات نہیں۔
ایسے ہی روزہ داروں کے بارے میں امام علی (ع) نے ارشاد فرمایا تھا کہ اکثر روزہ دار ایسے ہیں جنہیں سوائے بھوک و پیاس کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جبکہ حقیقتاً چند گھنٹوں کی یہ بھوک و پیاس خدا کے مومنین کے لئے اسکی جانب سے عنایات کا ایک نرالا ڈھنگ ہے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہے کہ جو روزے میں بھوک کی سختی برداشت کرے گا، اس کا ذہن (قلب) پاک و صاف ہوجائے گا۔ جبکہ فرزندِ رسول حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ (روزے کی حالت میں ) بھوک، مومن کے دل کا نور ہے۔
صد افسوس کہ روزہ ہمارے معاشرے میں ایک ہؤوا بن کر رہ گیا ہے، جسے لوگوں نے محض دن بھر کی بھوک و پیاس سے تعبیر کر لیا ہے۔ اس بھوک اور پیاس کا خوف اس معاشرے میں اس حد تک پھیل چکا ہے کہ رمضان کی آمد سے قبل ہی مختلف ذرائع ابلاغ سے روزے کے دوران بھوک اور پیاس سے چھٹکارا پانے کے عجیب و غریب ٹوٹکے موضوعِ گفتگو بن کر زیرِ گردش آجاتے ہیں۔ مثلاً سحری میں دہی کھائی جائے تو بھوک نہیں لگتی، سبز الائچی کا قہوہ پی لیا جائے تو پیاس نہیں لگتی۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔کاش اپنے آپ کو روزہ دار کہنے والے تاریخ میں رکھے گئے ان تین روزوں کو پیشِ نظر رکھتے جو قلتِ غذا کے باعث بغیر سحری کے رکھے گئے۔ افطار کے وقت بمشکل چند روٹیاں ہی بن سکیں، جنکو ملائکِ مقرب (جو بھوک و پیاس کے احساسات اور خورد و نوش کی لذات سے مبرا ہیں) بھوکوں کا بھیس بدل کر تبرکاً لے گئے۔ اس پر بھی ان روزہ داروں کا صبر و شکر دیدنی تھا۔ بھوک و پیاس سے پریشان حال روزہ داروں کے لئے محض روزہ ہی نہیں، تمام زندگی گزارنے کے لئے ایک اور میدانِ عمل سامنے پیش ہے۔ اگر آپکو روزہ کے دوران بھوک یا پیاس محسوس ہو تو یاد کیجیے ایک ششماہ شیر خوار کو جو نہ جانے کتنے دنوں کا بھوکا اور پیاسا تھا۔ اس عالم میں اسکی پیاس کو ایک زہر آلود ترشول سے بجھایا گیا۔ جواباً وہ پیاسا شکرِ خدا کے اظہار میں مسکراتا رہا۔اگر آپکو بھوک اور پیاس ستائے تو یاد کیجئے ایک چار سالہ بچی کی پیاس کو جو ٹوٹا ہوا کوزہ لئے پانی کا انتظار کرتی رہی، لیکن جواب میں آگ کا الاؤ پھینک کر اسکی سیرابی کا سامان کیا گیا۔اگر دورانِ روزہ آپکو بھوک یا پیاس تنگ کرنے لگے تو یاد کیجئے ان بوڑھے مجاہدین کو کہ جن کی ریش ہائے مبارک کے سفید بال خون کی دھاروں سے سرخ ہوچکے تھے، لیکن وہ کہہ رہے تھے کہ یاخدا! اگر یہ تیری رضا تو ہم بھی راضی۔
اگر آپ کو چند گھنٹوں میں ہی پیاس کی شدت ستانے لگے تو یاد کیجئے ایک علمدار (ع) کو جو خود کئی دنوں کا پیاسا ہے۔ دریا کے بیچ کھڑا اپنی فتح کا اعلان کر رہا ہے۔ چلو میں پانی بھر کر اسے اسکی اوقات یاد دلا کر واپس دریا کے منہ پر مار دیتا ہے اور اپنے امام (ع) کی اطاعت میں پیاسا ہی لوٹ جاتا ہے۔ وہ عبدِ مطیع (ع) کہ جسکی شان میں امامِ معصومِ چہارم سیدا لساجدین (ع) نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اپنے امام (ع) کی اطاعت کا اسلوب سیکھنا چاہے تو اسکے لئے میرے محترم چچا عباس (ع) کی ذاتِ گرامی نمونہء عمل ہے۔
اگر آپ بھوکے اور پیاسے ہیں تو یاد کیجئے ایک ستاون سالہ محافظِ شریعت کی بھوک اور پیاس کو جو خود کئی دنوں کا بھوکا اور پیاسا ہے۔ جسم ِ نازنین کا کوئی حصہ زخم سے خالی نہیں۔ صبح سے اب تک ستر سے زائد اپنے پیارے جانثاروں کے لاشے اٹھا چکا ہے۔ اب چلا ہے اپنے پروردگار سے ملاقات کو۔ قاتل اس گلوئے خشک پر خنجر چلا رہا ہے اور یہ پیاسا کہہ رہا ہے کہ یااللہ! حسین (ع) قربانی کا حق ادا نہ کرسکا، تو قبول کرنے والا ہے۔ میری اس قربانی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔ بیشک تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ اگر بھوک و پیاس کی قیمت کا اندازہ کرنا ہے تو اس شیردل خاتون سے پوچھئے کہ جسکے سامنے شامِ غریباں غذا اور پانی پیش کیا گیا۔ اگر کربلا کے اس خورشیدِ عمل کے نور کی روشنی میں بھوک و پیاس کے مطالب سمجھ میں آگئے تو خدا کی قسم! فقط ایک ہی روزہ ہم گناہگاروں کی نیا پار لگانے کو کافی ہوگا۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.