امام حسین (ع) مولانا مودودی کی نظر میں
مولانا مودودی کو جہاں اللہ تعالٰی نے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے قلم سے اپنا مافی الضمیر بیان کر سکیں وہیں انہیں قوت گویائی بخشی جس سے انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ یوں ان کا علمی ذخیرہ تقریری صورت میں موجود ہے۔ انہوں نے جہاں دیگر موضوعات پر اظہار خیال فرمایا وہاں اپنے جد امام حسین (ع) اور ان کی تحریک کے بارے میں بھی کئی مقامات پر اظہار خیال کیا۔ جنہیں اس مضمون میں جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گو یہ اس حوالے سے مولانا کے خیالات کا مکمل احاطہ تو نہیں کرتا مگر اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ تحریک حسینی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام:حقیقی دینداری:’تصوف‘‘ کی بحث کو سمیٹتے ہوئے اور احسان کی منزل کی نشاندہی کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں: احسان کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد آپ خود ہی اندازہ کرلیں جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں، جن کے سامنے حدوداللہ پامال ہی نہیں بلکہ کالعدم کر دی جائیں، خدا کا قانون عملاً ہی نہیں بلکہ باضابطہ منسوخ کر دیا جائے، خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ اس کے باغیوں کا بول بالا ہو رہا ہو، نظام کفر کے تسلط سے نہ صرف عام انسانی سوسائٹی میں اخلاقی و تمدنی فساد برپا ہو بلکہ خود امت مسلمہ بھی نہایت سرعت کے ساتھ اخلاقی و عملی گمراہیوں میں مبتلا ہو رہی ہو اور یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بےچینی پیدا ہو، نہ اس حالت کو بدلنے کے لیے کوئی جذبہ بھڑکے بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبہ پر اصولاً و عملاً مطمئن کر دیں۔ ان کا شمار محسنین میں کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس جرم عظیم کے ساتھ محض یہ بات انھیں احسان کے مقام عالی پر کیسے سرفراز کر سکتی ہے کہ وہ چاشت، اشراق اور تہجد کے نوافل پڑھتے رہے، جزئیات فقہ کی پابندی اور چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اتباع کا سخت اہتمام فرماتے رہے اور تزکیہ نفس کی خانقاہوں میں دینداری کا وہ فن سکھاتے رہے جس میں حدیث و فقہ اور تصوف کی باریکیاں تو ساری موجود تھیں مگر ایک نہ تھی وہ حقیقی دینداری جو ‘سر داد نہ داد دست در دست یزید‘‘ کی کیفیت پیدا کرے اور بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا‘‘ کے مقام وفاداری پر پہنچا دے۔(۱) یزید کی حکومت:امام حسین (ع) جن قوتوں کے خلاف برسرپیکار تھے امت کا ان کے بارے میں کیا خیال تھا اور کتنے بڑے انحراف کے خلاف امام کا قیام تھا اس کے بارے میں مولانا مودودی کے خیالات ملاخطہ فرمائیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ ‘اموری خلفاء صحیح معنوں میں خلفاء کہلائے جانے کے مستحق ہیں؟‘‘ مولانا مودودی وضاحت کرتے ہیں، اموی فرمانرواؤں کی حکومت حقیقت میں خلافت نہ تھی۔ اگرچہ ان کی حکومت میں قانون اسلام ہی کا تھا لیکن دستور (consititution) کے بہت سے اسلامی اصولوں کو انہوں نے توڑ دیا تھا، نیز ان کی حکومت اپنی روح میں اسلام کی روح سے بہت ہٹی ہوئی تھی۔ اس فرق کو ان کی حکومت کے آغاز ہی میں محسوس کر لیا تھا۔ چنانچہ اس حکومت کے بانی امیر معاویہ کا اپنا قول یہ تھا کہ ‘انا اول الملوک‘‘ (میں سب سے پہلا بادشاہ ہوں) اور جس وقت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کیا تو اس وقت حضرت ابوبکر کے صاحبزادے عبدالرحمن نے اٹھ کر برملا کہا کہ ‘ یہ تو قیصریت ہے کہ جب قیصر مرا تو اس کا بیٹا قیصر ہو گیا۔(۲) امام حسین کی حیثیت:اُس دور کے مسلمان معاشرے میں اگر آزادانہ رائے کا موقع ملتا تو یقیناً امام حسین (ع) کا کوئی مدمقابل نہ تھا۔ یزید کا برسراقتدار آ جانا اس دور کے جبر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس معاشرہ میں امام عالی مقام کا قیام کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ دین کا وارث موجود ہے اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کسی خوف کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا مودودی یوں بیان کرتے ہیں، “جس دور کے متعلق یہ سوال کیا گیا ہے وہ حقیقت میں فتنے کا دور تھا۔ مسلمان اس وقت سخت انتشار ذہنی میں مبتلا ہو گئے تھے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس وقت عملاً مسلمانوں کا حقیقی لیڈر کون تھا یہ بات بالکل واضح ہے کہ یزید کا سیاسی اثر جو کچھ بھی تھا صرف اس بناء پر تھا کہ اس کے پاس طاقت تھی اور اس کے والد نے ایک مضبوط سلطنت قائم کرنے کے بعد اسے اپنا ولی عہد بنا دیا تھا۔ یہ بات نہ ہوتی اور یزید عام مسلمانوں کی صف میں شامل ہوتا تو شاید آخری شخص ہوتا جس پر لیڈر شپ کے لیے مسلمانوں کی نگاہ انتخاب پڑ سکتی۔ اس کے برعکس حسین ابن علی (رض) اس وقت امت کے نمایاں آدمی تھے اور ایک آزادانہ انتخاب میں اغلب یہ ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ ان کے حق ہی میں پڑتے”۔(۳) غالباً مولانا مودودی نے ‘اغلب‘‘ کا لفظ استعمال کرکے احتیاط سے کام لیا ہے۔ واحد نمونہ:امام حسین (ع) کے اقدام اور قیام منفرد آفاقی حیثیت پر مولانا مودودی کی گہری نظر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں، “اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور غیر اسلامی طریقے سے چلائی جا رہی ہو تو مسلمانوں کو سخت الجھن پیش آتی ہے۔ قوم مسلمان ہے حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے مگر چلائی جا رہی ہے غیراسلامی طریقے پر تو اس حالت میں ایک مسلمان کیا کرے۔ اگر حضرت حسین (رض) نمونہ پیش نہ کرتے تو کوئی صورت رونمائی کی نہ تھی۔ حضرت حسن (رض) اور حضرت معاویہ میں صلح ہو گئی تھی اور حکومت حضرت معاویہ کو حاصل ہو گئی تھی۔ بعد میں کتنی ہی باتیں ایسی سرزد ہوئیں جو حضرت حسین (رض) کے نزدیک نامناسب تھیں، مگر انہوں نے حضرت معاویہ کو ہٹانے کی کوشش نہ کی، اس وجہ سے کہ ایک خلیفہ وقت سے ان کا معاہدہ ہو چکا تھا۔ دوسرے تلوار اٹھانا ناگزیر نہیں تھا۔ اگر کسی مسلمان حکومت کا بگاڑ جزئیات میں ہے تو نظم و نسق درہم برہم کرنے کی کوشش روا، نہ ہو گی مگر جب بادشاہ یا خلیفہ نے اس حکومت کو موروثی بنانے کی کوشش کی تو اصولی تغیر واقع ہو گیا۔ ایک خاندان نے حکومت کو اپنی جائیداد بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ خواہ اس میں ان کی جان جائے اور ان کا بچہ بچہ کٹ جائے۔۔۔۔۔۔۔حضرت امیر معاویہ بغیر رضامندی عوام کے حکومت پر قابض ہو گئے تھے۔ ان کی حکومت میں مسلمانوں کی رضامندی کو کوئی دخل نہ رہا تھا اور ملک کے مال میں بھی تصرف ہونا شروع ہو گیا تھا۔ تاہم حضرت حسین (رض) نے برداشت کیا مگر جب اس میں تغیر کیا گیا کہ حکومت کو موروثی بنا دیا جائے تو حضرت حسین (رض) نے ولی عہدی اور ولی عہد کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت حسین (رض) نے کہا تھا کہ مجھے یزید کے پاس لے جاؤ میں اس کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا تو یہ درست نہیں بلکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دو اور پھر اس سے فیصلہ کرنے دو خواہ میرے قتل کا فیصلہ کردے۔ حضرت حسین (رض) نے یہ نمونہ پیش کیا کہ اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور وہ غلط راہ پر جا رہی ہو تو اس کے خلاف جدوجہد درست ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ نے تو بیعت کرلی تھی، حضرت حسین(رض) نے کیوں نہ کی اور وہ ان کو مطعون کرتے ہیں حالانکہ جب مسلمان حکومت پوری طاقت سے قائم ہو اور اس کے خلاف اٹھنا ہما شما کا کام نہیں۔ صرف وہ اٹھ سکتا ہے جو فیصلہ کر چکا ہو کہ وہ اٹھے گا خواہ کچھ ہو جائے۔ جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں ان کو صحابہ(رض) کی طرف سے صفائی پیش کرنی چاہیے نہ کہ حضرت حسین (رض) کو مطعون کرنا۔ اٹھنے والے سے صفائی پیش کرنے کا کیا موقع ہے۔ صحابہ کرام (رض) کی پوزیشن صاف کی جاسکتی ہے کہ ہر شخص کا یہ کام نہیں تھا۔
یہ حضرت حسین (رض) ہی کا نمونہ تو ہے کہ جو مسلمان حکومت کے بگاڑ کے وقت مسلمانوں کی راہنمائی کرتا ہے اگر اس نمونے کو بھی بگاڑ دیا جائے تو نمونہ کہاں سے آئے گا معاملہ صرف یہ نہیں کہ جگر گوشہ رسول (ص) کو قتل کر دیا گیا اور ہم نوحہ خوانی کے لیے بیٹھے ہیں بلکہ نمونہ حاصل کرنے کا ہے۔ حضرت علی (رض) کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف ہو تو کیا کرنا چاہیے اور حضرت حسین (رض) کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمان حکومت بگڑ رہی ہو تو مسلمانوں کا کام تماشبین بن کر بیٹھنا نہیں بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ اصلاح کے لیے کھڑا ہو جائے خواہ وہ اکیلا ہی ہو اور خواہ کچھ نتیجہ ہو۔(۴) یہ دور ہے کہ ان دونوں نمونوں کی سیرت کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ ان شخصیات کو فرقوں کے تسلط میں دینے سے ان کے پیغام کو محدود کر دیا گیا ہے حالانکہ ان کا پیغام امت کے لیے مشعل راہ ہے جسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض نے فقط ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کو یاد رکھا، ان کی تعلیمات اورکردار کو بھول گئے۔ بعض نے سب ٹھیک ہے کہ پالیسی اپنائی۔ بعض تعصب کے اندھیروں میں کھو گئے لیکن یہ روشن مینار آج بھی بھٹکے ہوئے راہی کو منزل تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔انسان کو بیدار تو ہو لینے دوہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین (ع) مولانا مودودی نے محرم الحرام کے حوالے سے ایک مشترکہ شیعہ سنی نشست میں خطاب کیا جو جولائی 1960ء کے ماہنامہ ترجمان القرآن میں شائع ہوا۔ اس میں مولانا نے امام حسین (رض) کی پوری تحریک کا جائزہ لیا۔ اس کا ماحصل پیش ہے۔ مقصد شہادت:ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی امام حسین (رض) کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لیے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہل خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہار غم کرنا تو ایک فطری بات ہے ایسا رنج و غم دنیا کے ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدروقیمت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کا ایک فطری نتیجہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسین (رض) کی وہ خصوصیت کہ جس کی وجہ سے ۱۳۲۰ برس گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہوتا رہے؟ اگر یہ شہادت کسی مقصد عظیم کے لیے نہ تھی تو محض ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر صدیوں اس کا غم جاری رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں اور خود امام کی اپنی نگاہ میں اس محض ذاتی و شخصی محبت کی کیا قدروقیمت ہو سکتی ہے؟ انہیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟ ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس مقصد کے لیے کچھ نہ کریں بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں تو محض ان کی ذات کے لیے گریہ و زاری کرکے اور ان کے قاتلوں پر لعن طعن کرکے قیامت کے روز نہ تو ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔
اب دیکھنا چاہیے کہ وہ مقصد کیا تھا؟ کیا امام تخت و تاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی؟ کوئی شخص بھی جو امام حسین (رض) کے گھرانے کی بلند اخلاقی سیرت کو جانتا ہے، یہ بدگمانی نہیں کرسکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خون ریزی کر سکتے تھے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے ان لوگوں کا نظریہ ہی صحیح مان لیا جائے جن کی رائے میں یہ خاندان حکومت پر اپنے ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتا تھا تب بھی حضرت ابو بکر (رض) سے لے کر امیر معاویہ تک پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑنا اور کشت و خون کرنا ہرگز ان کا مسلک نہ تھا۔ اس لیے لامحالہ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ امام عالی مقام کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آجائے تو نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔ ریاست کے مزاج، مقصد اور دستور میں تبدیلی:تاریخ کے غائر مطالعہ سے جو چیز واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ہو رہی تھی وہ اسلامی ریاست کے دستور اور اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی کے پورے نتائج اگرچہ اس وقت سامنے نہ آئے تھے لیکن ایک صاحب نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہا ہے اور جس راہ پر یہ مڑ رہی ہے وہ آخر اسے کہاں لے جائے گا۔۔۔ ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدہ فاطمہ (رض) اور حضرت علی (رض) کی آغوش میں تربیت پائی تھی اور اس نے صحابہ (رض)کی بہترین سوسائٹی میں بچپن سے بڑھاپے تک کی منزلیں طے کی تھیں وہ کیوں اس نقطہ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کو اس نئی لائن پر جانے سے روکنے کے لیے کھڑا ہو گیا اور کیوں اس نے اس بات کی پرواہ نہ کی اس کے آگے کھڑے ہو جانے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ انسانی بادشاہی کا آغاز:یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا، اس میں خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کر لیا جو ہمیشہ ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے۔
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا تعطل:اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا تھا جو خدا کو محبوب ہیں اور ان برائیوں کو دبانا اور مٹانا تھا جو خدا کو ناپسند ہیں۔ مگر انسانی بادشاہت کا راستہ اختیار کرنے کے بعد حکومت کا مقصد فتح ممالک اور تسخیر خلائق اور باج و خراج اور عیش دنیا کے سوا کچھ نہ رہا۔ مولانا مودودی کے مطابق اسلامی دستور کے یہ بنیادی اصول ہیں جن میں سے ہر ایک کو بدل دیا گیا۔۱۔ آزادانہ انتخاب۲۔ شورائی نظام۳۔ اظہار رائے کی آزادی۴۔ خدا اور خلق کے سامنے جواب۵۔ بیت المال۔۔۔ایک امانت۶۔ قانون کی حکومت۷۔ حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساواتامام حسین کا مومنانہ کرداران اصولوں کے بیان کرنے کے بعد مولانا مودودی لکھتے ہیں، کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یزید کی ولی عہدی ان تغیرات کا نقطہ آغاز تھی اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہو گئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا، اس وقت یہ خرابیاں اگرچہ بتمام و کمال سامنے نہ آئی تھیں، مگر یہ صاحب بصیرت آدمی جان سکتا ہے کہ اس اقدام کے لازمی یہی کچھ ہیں اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانے والا ہے جو اسلام نے سیاست و ریاست کے نظام میں کی ہیں۔ اس لیے امام حسین (رض) اس پر صبر نہ کر سکے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انہیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں۔ ان کا خطرہ مول لے کر بھی انھیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کوشش کا جو انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ مگر امام نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کرکے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جسے بچانے کے لیے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنہیں اوپر نمبروار گنوایا گیا ہے۔ دین اور ملت کے لیے وہ آفت عظمٰی ہیں جسے روکنے کے لیے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کر دینا پڑے تو اس سے دریغ نہ کرنا چاہیے۔ کسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے مگر حسین ابن علی (رض) کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا، اسی لیے انہوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی۔(۵)
حوالہ جات:۱۔ اسلامی زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ص۔۱۵۷۔۱۵۶، ناشر: اسلامک پبلیکیشنز لاہور۔۱۹۶۲۲۔ رسائل و مسائل جلد چھارم ص۔ ۲۳۳ناشر: اسلامک پبلیکیشنز لاہور۔ ۱۹۶۵۳۔ رسائل و مسائل جلد چھارم ص۔ ۲۳۳ناشر: اسلامک پبلیکیشنز لاہور۔ ۱۹۶۵۴۔ تفہیمات جلد پنجم ص۶۰۔۵۹ ناشر، ادارہ ترجمان القران لمیٹڈ لاہور۔۵۔ ماہنامہ ترجمان القران جولائی ۱۹۶۰