مسئلہ قدس
قدس کا مسئلہ کوئی شخصی مسئلہ نہیں ہے، قدس کسی ایک ملک سے مخصوص نہیں ہے، قدس کا مسئلہ ان مسائل میں سے نہیں ہے جو کسی خاص زمانے کے مسلمانوں سے مخصوص ہو بلکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر زمانے کے موحّدین اور مومنین سے متعلق ہے۔ ایشیا کا مغرب اور مشرق وسطیٰ کے جنوب کی جانب فلسطین کا مرکز قدیم تاریخی شہر “قدس” کا محل وقوع ہے جسے “بیت المقدس” یا “قدس شریف” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں اسکی قدامت ٤٥ صدیوں سے زیادہ بیان ہو ئی ہے۔ یہ مقدس شہر اُن شہروں میں سے ایک ہے جو تمام انسانوں کے نزدیک مقدس ہیں۔ اکثر انبیاء اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی زمین کے کسان آج بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں۔ یہ شہر مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کیلئے یکساں متبرک ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول، مسجد الحرام اور مسجدِ نبوی کے بعد تیسرا حرم ہے۔ سرور کائنات ص ہجرت کے بعد بھی سترہ مہینوں تک اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ معراج کے سفر میں بھی یہی شہر آنحضرت ص کی پہلی منزل تھا۔ اِسی جگہ حضرت داؤد علیہ السلام کا مدفن اور حضرت عیسیٰ ع کی جای ولادت ہے۔ روایات میں اس مقدس مقام کے تقدس اور منزلت کے تذکرے درج ہیں۔ مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں: “اربعۃ من قصور الجنۃ فی الدنیا: المسجد الحرام و معبد الرسول و مسجد بیت المقدس و مسجد الکوم” (سفینۃ البحار ج ٧ ص٢٤٤)۔ دنیا میں چار جنتی قصر پائے جاتے ہیں جن میں ایک بیت المقدس بھی ہے۔ ابن عباس سے نقل ہے کہ “ان الارض المقدسہ ھی الفلسطین و انما قدسھا اللہ لا ن یعقوب و لد بھا و کانت مسکن ابیہ اسحاق و یوسف ، بنا بیت المقدس علی یدی داود و سلیمان”۔ “سرزمین فلسطین مقدس زمین ہے اوراسے اللہ نے تقدس بخشا ہے کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام یہاں پیدا ہوئے اور یہیں جناب اسحاق علیہ السلام اور جناب یوسف علیہ السلام کا گھر تھا، بیت المقدس جناب داؤد و سلیمان علیھما السلام کے ہاتھوں سے تعمیر ہوا”۔ بیت المقدس کے نام: بیت المقدس کو مختلف قوموں نے اپنے اپنے عقیدے کے اعتبار سے مختلف ناموں سے نوازا ہے۔ یہودی اور عیسائی
” روز قدس ملّتِ فلسطین کی حمایت اور اس ملّت کیلئے خصوصی دعا کا دن ہے اور اس کی بہبود کے لئے ہر ممکنہ کو شش کرنے اور سال بھر اس کوشش کو جاری و ساری رکھنے کے لئے عہد کرنے کا دن ہے۔ ”
آج بھی اسے “یروشلم” کہتے ہیں۔ یہ دو عبرانی الفاظ “یرو” اور “شلم” کا مجموعہ ہے جس کے معنی “امن کا ورثہ” (Inheritence of Peace) ہیں جو کنعانیوں کے صلح کے خدا “شلم” کی نسبت سے معروف ہے۔ اس کا سب سے قدیمی نام جو تقریباً ٤٥٠٠ سال پہلے تھا “یوبس” (Jebus) ہے۔ اسے “سنہری شہر” (Golden City) بھی کہا جاتا ہے جو اب تک رائج ہے۔ اسے امن کا شہر (City of Peace) بھی کہا جاتا ہے۔ اس مقدس شہر کے ناموں میں بعض مقام پر “ایلیا” اور “کابتولینا” بھی ملتا ہے۔ یہ مقدس شہر فتح عمری کے زمانے سے ٢١٧ھ تک ایلیاء اور بیت المقدس کے ناموں سے مشہور تھا لیکن خلیفہ عباسی مامون کے زمانے سے یہ شہر “قدس” کے نام سے موسوم ہوا اور پھر خلافت عثمانی کے زمانے سے یہ مقدّس شہر “قدس شریف” کے نام سے مشہور ہوا۔ فضائل و کمالات: تاریخ اس کے فضائل و کمالات سے پر ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا اسے انبیاء کا شہر شمار کیا جا تا ہے کیونکہ اس کی تعمیر میں انبیاء کا ہاتھ ہے۔ حضرت داؤد ع اور حضرت سلیمان ع یہاں کبھی حکومت کیا کرتے تھے اور اللہ نے یہیں پر حضرت زکریا ع کو یحییٰ ع جیسے فرزند کی بشارت دی تھی۔ حضرت موسی ع اسی سرزمین پر نور پروردگار کا جلوہ دیکھ کر گر گئے اور پھر آپ کو اپنے خدا سے بات کرنے کا شرف بھی حا صل ہوا۔ حضرت مسیح ع نے یہیں پر اِس دنیا میں آنکھیں کھولیں اور یہیں سے چرخ چہارم پر بلائے گئے۔ آپکی مادر گرامی نے اِسی سرزمین پر وفات پائی۔ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آۤلہ وسلم اسی مسجد کی طرف مدّتوں نماز ادا کرتے رہے، یہی مقام مسلمانو ں کا قبلہ اوّل قرار پایا۔ آنحضرت ص کو یہیں پر معراج ملی اور آپ کو راتوں رات مدینہ سے مسجد اقصیٰ کا سفر کرایا گیا۔ لہٰذا یہ سرزمین ادیانِ ابراہیمی (یہودیت، مسیحیت اور اسلام) کے تمام پیروکاروں کے نزدیک عزّت و احترام کی حامل ہے۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آۤلہ وسلم نے ارشاد فر مایا: “حضرت امام مہدی علیہ السلام کعبہ سے ظہور کرنے کے بعد بیت المقدس کی طرف ہجرت کریں گے اور وہ اسے اپنی منزل قرار دیں گے”۔ بیت المقدس کی دینی حیثیت: قرآن مجید میں “بیت المقدس” یا “یروشلم” وغیرہ کا لفظ تو ذکر نہیں ہوا البتہ اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے: “سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہ ھوَ السَّمِیعُ الْبَصِیر”۔ (سورہ اسراء، آیہ١)۔ “(ہر عیب سے) پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار جو اپنے بندے کو راتوں
” امام خمینی رح نے فر ما یا تھا: “اگر دنیا بھر کے مسلمان مل کر اسرائیل کی طرف ایک ایک بالٹی پانی پھینک دیں تو وہ اسکے سیلاب میں بہہ جائے گا”۔ ”
رات مسجدِ حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں، بے شک وہ پروردگار سب کچھ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے”۔ مسجد اقصیٰ سے مراد بیت المقدس ہے اور مندرجہ بالا آیت میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ وہی واقعہ معراج ہے جس سے ہر مسلمان واقف ہے۔ مسجدِ اقصیٰ، حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا قبلہ رہ چکی ہے اور اس کے گرد و پیش اللہ نے برکتیں نازل فر مائیں۔ یہ برکتیں دینی بھی ہیں اور دنیوی بھی۔ یہ ارضِ مقدس فلسطین کا علاقہ ہے۔ روایات کے مطابق اس مسجد میں ایک نماز پچیس ہزار نمازوں اور بعض روایات کے مطابق پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک قدس کا تقدس و اہمیت: 1۔ قدس، ادیان ابراہیمی کی جای پیدائش: بیت المقدس وہ مقام ہے جہاں ابراہیمی ادیان ظاہر ہوئے اور لوگوں تک پہنچے۔ بیت المقدس کی فضا میں آج بھی توحید کے علمبرداروں کی مقدّس اور پاکیزہ سانسوں کی ٹھنڈک محسوس کی جا سکتی ہے۔ 2۔ قدس، انبیای الٰہی اور صالحان کا مدفن: حضرت مریم س، حضرت داؤد ع، حضرت ابراہیم ع اور دوسرے انبیای الٰہی کی قبریں اس مقدس شہر کی پاکیزگی میں اضافہ کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے مسلمانوں کی تو جہ کا سبب بھی ہے۔ 3۔ قدس، رسول اکرم ص کے معراج کی ابتدا: رسولِ اسلام ص کی معراج ایک مُسَلَّم حقیقت ہے جسے ہر مسلمان مانتا ہے اور قدس وہ مقام ہے جواس عظیم دینی اور تاریخی واقعہ کی یاد دلا تا ہے جسکی طرف قرآن نے سورہ اسراء میں اشارہ کیا ہے: “سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی”۔ 4۔ قدس، مسلمانوں کا قبلہ اول: مسجد اقصی کئی سالوں تک مسلمانوں کیلئے قبلہ کی حیثیت رکھتا تھا اور وہ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ 5۔ قدس شرق وغرب (اسلام و مسیحیّت) کے اتّحاد کی وعدہ گاہ: جب حضرت مہدی موعود عج کا ظہور ہو گا تو اس وقت حضرت عیسیٰ مسیح ع بھی آسمان سے نازل ہوں گے اور امام ع کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے۔ یعنی قدس فکر اسلام و مسیحیت کے اتّحا د کی وعدہ گاہ ہے جو معبود کی بارگاہ میں عاشقانہ رازو نیاز اور انسانِ کامل کی اقتداء سے تحقّق پذیر ہو گا۔ 6۔ قدس وہ مکان ہے جہاں یہودیوں اور عیسائیوں پر پیغمبروں کی میراث کے ذریعے حجت تمام ہو گی: ایک روایت میں ہے کہ تابوت سکینہ، تورات و انجیل کا اصلی نسخہ امام مہدی ع کے ذریعے اپنے اصلی مقام سے بیت المقدس تک منتقل ہو
” سید حسن نصراللہ نے جولائی ٢٠٠٦ کے اسرائیلی حملے کو ناکام بنا کر خود بھی للکار کر کہا: “خدا کی قسم، اسرائیل مکڑی کے جال سے بھی زیادہ کمزور ہے”۔ ”
گا اور اسے وہیں رکھا جائے گا تاکہ تمام لو گوں پر اتمام ِحجت ہو سکے۔ ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم ص سے نقل ہوا ہے کہ “دریائے طبریہ سے مقدّس صندوق اس (امام مہدی عج) کے ہاتھوں سے ظاہر ہو گا اور اسے اسکے (امام مہدی عج) سامنے بیت المقدس میں رکھا جائے گا”۔ (الملاحم والفتن ص٥٧)۔ قدس میں موجود اسلامی آثار: 1۔ حرم شریف کا علاقہ جو تقریباً ١٤ ایکڑ کی جگہ میں ہے، 2۔ مسجد صخرہ [قبۃ الصخرہ]، 3۔ مسجد الاقصیٰ، 4۔ دیوار براق: روایت میں ہے کہ یہاں پیغمبر اکرم ص اپنے گھوڑے کو باندھا کرتے تھے۔ یہودی اس دیوار کو “دیوار ندبہ” کہتے ہیں، 5۔ قدس کی دیواریں، 6۔ کوہ طور۔ بیت المقدّس اور مسجد اقصیٰ یہودیوں کے قبضے میں: یہ نہایت شرمناک بات ہے کہ جس مسجد کی اتنی زیادہ فضیلت ہے کہ اس میں ایک نماز پچیس ہزار یا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور جس بیت المقدس کو سبھی مسلمان متفقہ طور پر اپنا قبلہ اوّل مانتے ہیں اِسی پر اُنکا قبضہ نہیں اور وہ آزادانہ طور پر اِس میں مذہبی رسومات اور عبادتِ الٰہی انجام نہیں دے سکتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہودیوں کا وہ انتہا پسند گروہ ہے جسے “صیہونی” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جس کے بیشتر افراد دنیا کے ہر ملک میں کلیدی عہدوں پر فائز ہیں اور مسلمانوں سے انکی دشمنی کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ صدیوں سے یہ مسلمانوں کے جانی دشمن رہے ہیں اور ساری دنیا پر حکومت کرنا اِنکے مذہبی آئین میں شامل ہے جس کیلئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ چاہے وہ مسلمان مردوں کا قتل ہو یا بچوں کا بے رحمی سے ذبح کر نا یا عورتوں سے بے رحمانہ سلوک۔ انہیں فضائل اور خصوصیات کو دیکھ کر اور مظلومین کی حمایت کے لئے رہبرِ کبیرِ انقلابِ اسلامی حضرت امام خمینی رح نے ماہِ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کے نام سے موسوم کیا۔ یوم قدس کا مقصد: روز قدس سے رہبر انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی رح کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کے سامنے اسرائیل کے گھناؤنے اور بدنما چہرے کو بے نقاب کیا جائے اور دنیائے اسلام کا رشتہ فلسطین کی مظلوم قوم سے جو ڑ کر ہر سال اس رشتے کو مزید مستحکم کیا جائے۔ روز قدس ملّتِ فلسطین کی حمایت اور اس ملّت کیلئے خصوصی دعا کا دن ہے اور اس کی بہبود کے لئے ہر ممکنہ کو شش کرنے اور سال بھر اس کوشش کو جاری و ساری رکھنے کے لئے عہد کرنے کا دن ہے، یہ دن مسلمانو ں کو اپنی غیرت میں آنے کا دن ہے۔ مسلمانو! جاگو، اس سر زمین کو جو تمہارا قبلہ اوّل ہے، جہاں فضیلتوں کی ندیاں بہتی ہے، اسے ان ناپاک ہاتھوں سے چھین لو جو معصوم
” مسلمانو! جاگو، اس سر زمین کو جو تمہارا قبلہ اوّل ہے، جہاں فضیلتوں کی ندیاں بہتی ہے، اسے ان ناپاک ہاتھوں سے چھین لو جو معصوم بچوں اور عورتوں کے خون سے آلودہ ہیں۔ ”
بچوں اور عورتوں کے خون سے آلودہ ہیں۔ حضرت امام خمینی رح نے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم ِقدس قرار دیا تھا اور سارے مسلمانوں کو متّحد ہو کر اِس کی آزادی کی طرف دعوت دی تھی۔ البتہ اُن کی زندگی میں مسلمان اُنکی اِس آواز پر نہ چو نکے لیکن آج حزب اللہ کی استقامت و پایداری اس نعرہ کو عملی جامہ پہنانے کا پھر مطالبہ کر رہی ہے۔ امام خمینی رح نے فر ما یا تھا: “اگر دنیا بھر کے مسلمان مل کر اسرائیل کی طرف ایک ایک بالٹی پانی پھینک دیں تو وہ اسکے سیلاب میں بہہ جائے گا”۔ یہ بیان حقیقت سے کس قدر نزدیک تھا جسے حزب اللہ کے قائد سید حسن نصر اللہ نے اپنے مرجع تقلید (حضرت امام خمینی رح) کی بات کو سچ ثابت کیا۔ جولائی ٢٠٠٦ کے اسرائیلی حملے کو ناکام بنا کر خود بھی للکار کر کہا: “خدا کی قسم، اسرائیل مکڑی کے جال سے بھی زیادہ کمزور ہے”۔ آخرکار دنیا نے اس نعرے کی سچائی بھی دیکھ لی۔ اورحال ہی میں اس عظیم قائد کے ایک سال پہلے کئے ہوئے وعدے (لبنانی اسیروں کی رہائی) کے تحقّق نے واضح کر دیا کہ دیکھو تم اللہ کیلئے کھڑے ہو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ یہ اسرائیل بیتِ عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ یوم قدس کے اثرات: 1۔ اس بات کی نشاندہی ہے کہ پوری دنیا اسرائیل کے وجود کے خلاف ہے۔ 2۔ مسئلہ فلسطین و مسئلہ قدس ملکی حدود سے نکل کر عالمی مسئلہ قرار پایا۔ دشمن کی کو شش یہ تھی کہ اس مسئلے کو ایک قومی مسئلہ قرار دے اور اس مسئلہ کو عرب و اسرائیل کی جنگ میں تبدیل کر دے لیکن امام خمینی رح کے اعلان سے دشمن کی آدھی جان نکل گئی۔ 3۔ مسلمانوں میں ایک معنوی اثر پیدا ہوا، عمومی سطح پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا جذ بہ بیدار ہوا اور انہیں یہ یقین ہو گیا کہ اگر ہم مسلمان متّحد ہو جائیں تو قدس کو دوبارہ ان غاصبوں سے واپس لے سکتے ہیں۔ یوم قدس اور ہماری ذمہ داریاں: 1۔ قبلہ اوّل بیت المقدّس کی اہمیت و فضیلت کو سمجھیں، 2۔ ہر سال ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ میں ملّتِ فلسطین کی بھر پور حمایت اور صہیونی مملکت کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کریں اور اس بات کی طرف بھی متوجّہ رہیں کہ صہیونیسم جوانوں میں اخلاقی برائیاں پھیلانے کی مکمل کو شش کر رہا ہے اور اس کیلئے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے۔ 3۔ صہیونی کمپنیوں کی پروڈکٹس کو پہچانیں اور دوسروں کو اسکی طرف متوجّہ کریں اور ہمیشہ اِن اشیاء کا بائیکاٹ کریں۔ آخر میں ہم دعا کرتے ہیں کہ خدایا ہمیں یہ توفیق عنایت فرما کہ ہم اپنے حق کے مطالبے کیلئے متحد ہو کر آگے بڑھیں اور اپنے حق کو غاصبوں سے چھین لیں۔ خدایا! سرزمین قدس کو ناپاک ہا تھوں سے رہائی عنا یت فرما (آمین)۔