علامہ محمد اقبال (رہ) کی دور اندیشی و مستقبل شناسی
حکیم الامت علامہ اقبال (رہ) کی پیدائش 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں ہوئی۔ علامہ اقبال (رہ) کو معمولا صرف مفکر پاکستان کے طور پر پہچانا جاتا ہے، جو اقبال (رہ) کے لئے ایک اعزاز ضرور ہے ،کہ دو قومی نظریے کے پیش کرنے والوں میں ان کا نام سرفہرست ہے لیکن علامہ اقبال (رہ) ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ آپ نے قرآنی تعلیمات کا بھرپور مطالعہ کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے آپکی فکر بھی قرآنی تعلیمات کی طرح فلاح انسانیت پر مبنی تھی، عالمی فلاحی معاشرے کے قیام کا خواب اسی فکر کا نتیجہ تھا۔ آپکے افکار کا واضح اظہار آپکی اردو اور اسکا زیادہ حصہ فارسی شاعری میں ملتا ہے۔ اقبال (رہ) ایک دور اندیش اور مستقبل شناس شخصیت تھے، یہ مستقبل شناسی محض انکے اپنے تخیل کی حد تک نہیں تھی بلکہ یہ دور اندیشی اور مستقبل شناسی تعلیمات قرآنی اور احادیث و روایات کے عین مطابق تھی، یہی وجہ ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد آج بھی علامہ اقبال (رہ) کے نظریات بالکل صحیح ثابت ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں عرب ممالک میں عوامی بیداری کی تحریکوں کے بعد امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کے مرکز وال اسٹریٹ سے شروع ہونے والے عوامی مظاہرے اب امریکہ کے شہروں سے نکل کر رفتہ رفتہ دیگر یورپی ممالک میں پھیل رہے ہیں۔ یہ احتجاج لاوا کی شکل اختیار کر کے عوامی سونامی میں تبدیل ہو رہا ہے۔ علامہ اقبال (رہ) نے اس کی پیشنگوئی بہت پہلے کی تھی جس کی نشاندھی ان کا یہ شعر کرتا نظر آتا ہے۔ جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو عرب ممالک میں ظالم و جابر ڈکٹیٹروں کے خلاف جاری بھرپور عوامی تحریک کے بعد اب یورپ میں پھیلنی والی عوامی بیداری کی تحریک، انسانوں پر مطلق العنانی اور چودھراہٹ کے دعوایدار امریکہ اور سرمایہ دارانہ نظام سے منسلک ممالک کے لئے شدید ترین خطرے کی گھنٹی ہے۔ انسانوں کی فلاح و بہبود کے نام پر انسانوں کی تباہی کے لئے بنائے جانے والے مصنوعی نظام کیمونزم کی تباہی اور روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد کیپٹلزم یا سرمایہ دارانہ نظام میں دراڑیں اور تباہی کے آثار نظر آ رہے ہیں، یہ آثار انسانوں کو اپنے معبود حقیقی اور کائنات کے مالک اللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت اور اتمام حجت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کیونکہ اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لئے روس یا امریکہ کی پشت پناہی سے بننے والی نام نہاد مشرقی و مغربی سپر پاورز کے کیپٹلزم و کیمونزم کا جنازہ نکلنے کو ہے اور ایسا کیوں نہ ہو! اللہ کا وعدہ ہر حال میں پورا ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام یا کیپٹلزم کا سارا دارومدار سود پر ہے، اسی لئے سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ ممالک اور ان کا نظام معشیت، بینکنگ اور انڈسٹری وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس ظلم پر مبنی نظام کی وجہ سے مالدار لوگ امیر سے امیر تر اور غریب و مفلس انسان غریب سے غریب تر ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں فساد اور جرائم کے علاوہ عوام الناس میں بیزاری اور عدم برداشت پر مبنی تشدد کا ماحول پروان چڑہتا ہے۔ علامہ اقبال (رہ) نے اس زمانے میں اس سرمایہ دارانہ نظام اور سود کی خرابی کا ذکر کچھ یوں کیا تھا۔ جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ وہ شے متاعِ ہنر کے سوا کچھ اور نہیں یا پھر مشرق کے خداوند سفیرانِ فرنگی مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے مرگ مفاجات ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات عوامی بیداری اور تحریکوں کی بھینٹ چڑھ کر مصر کے سابق صدر حسنی مبارک (جس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ کا چار سال تک محاصرہ کر رکھا تھا) جیسا ظالم و جابر حکمران اور ڈکٹیٹر بھی عوامی نفرت کا نشانہ بن کر عدالت میں آ جاتا ہے اور رفاہ کراسنگ کھول کر مظلوموں کی داد رسی ہو جاتی ہے، یمن کا عبداللہ صالح ایک دوسرے ڈکیٹر شاہ عبداللہ کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے، لیبیا کا معمر قزافی جس نے چالیس سال تک عوام کو بے وقوف بنا کر ان کے چار سو بلین ڈالرز کے اثاثے (دنیا کے مختلف یورپی بینکوں میں اپنے بیٹوں اور وفاداروں کے نام پر جمع کرائے) لوٹ لئے، بحرین کے ڈکٹیٹر خاندان آل خلیفہ، امریکہ، شاہ عبداللہ اور اس کے ہم خیال ٹولے کے کرائے کے فوجیوں کی مدد سے عوامی تحریک کو دبانے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے لیکن شاید ان لوگوں کو امیرالمومنین و خلیفتہ المسلمین علیہ السلام کا یہ قول یاد نہیں رہا کہ “حکومت کفر سے تو چل سکتی ہے لیکن ظلم سے نہیں”۔ علامہ اقبال (رہ) نے عرب ممالک کے انہی مطلق العنان ڈکٹیٹروں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے، ترکیب میں قوم رسول ہاشمی اقبال (رہ) نے شاید عرب عوام بالخصوص حزب اللہ و حماس جیسی حریت پسند تحریکوں کے لئے کہا تھا کہ نکل کرخانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری یا مٹایا قیصر و قصری کے استبداد کو جس نے وہ کیا تھا زور حیدر، فقر بوزر، صدقِ سلمانی انشااللہ وہ وقت دور نہیں جب عوام کے ہاتھ موجودہ امریکی صدر اوباما یا پھر آنے والے امریکی صدور کے علاوہ یورپ اور سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ دیگر ممالک کے حکمرانوں کے گریبانوں میں ہونگے اور کیونکر نہ ہوں مظلوم فلسطینی،کشمیری ،عراقی و افغانی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرمایہ دارانہ نطام سے وابستہ قابض قوتوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے ظلم و جبر کا نشانہ بننے والے عوام کی آہیں اور ظالموں کے خلاف صدائیں آخرکار عرش الہی تک پہنچنی تھیں۔ اقبال نے مظلوم فلسطینی، کشمیری، عرب اور افغانی عوامی تحریکوں کی حمایت کے بارے میں کہا تھا، ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا توڑ اس دست جفا کش کو یارب جس نے روح آزدایٔ کشمیر کو پامال کیا حتی کہ اقبال (رہ) نے اغیار کے اشاروں پر اسلام کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے ان نام نہاد مجاہدین و مذہبی جنونیوں کا بھی تذکرہ کر رکھا تھا کہ جنہوں نے عراق افغانستان اور پاکستان میں اپنے کلمہ گو بھائیوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے۔ ملاحظہ کیجئے اقبال (رہ) کی اس حوالے سے دشمن شناسی سے بھرپور پیشن گوئی۔ اﷲ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ اسی طرح اقبال (رہ) نے افغانستان اور اس سے متصل قبائلی علاقوں پر قابضین کے تسلط کی بھی پیشن گوئی کی تھی اور اپنے فارسی اشعار میں اس کا برملا اظہار کرکے اس کا حل بھی تجویز کیا تھا کہ براعظم ایشیا یا اس خطے میں امن و امان اس وقت قائم ہو سکتا ہے جب افغانستان میں امن ہو گا کیونکہ اگر ایشیا یا اس خطے کو ایک بدن سے تشبیہ دی جائے تو افغانستان اس بدن کا دل ہے اور جب تک دل صحیح نہیں ہو گا تو پورا بدن خراب ہے یعنی ناامنی و دہشتگردی۔ آسیا یک پیکر آب و گل است ملتِ افغان در آن پیکر دل است از فسادِ اُو فسادِ آسیا در گشادِ اُو گشادِ آسیا کا ئنات کے خالق و مالک اور معبود برحق کا قرآن مجید میں یہ واضح فیصلہ کہ ۔۔۔سود اللہ کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ہے۔۔۔۔ اس کے باوجود دنیا کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر انہیں سود پر مبنی سرمایہ دارانہ نطام یا کیپٹلزم کے سحر و لالچ میں مبتلا کرنے کا انجام تو آخر کار یہی ہونا تھا۔ اس حوالے سے اگر علامہ محمد اقبال (رہ) کی طرف سے انقلاب اسلامی ایران اور اسلامی جمہوریت پر مبنی نطام ولایت فقیہہ امام خمینی (رہ) اور ان کے نائب سید علی خامنہ ای (رہ) کی دور اندیشی اور دشمن شناسی کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ بھی خیانت کے مترادف ہو گا۔ امام خمینی (رہ) نے جو شعار بلند کیا تھا کہ لا شرقیہ لا غربیہ۔۔۔اسلامیہ اسلامیہ ۔۔۔۔علامہ اقبال (رہ) نے اس کی بھی پیشن گوئی کی تھی۔ اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے یعنی نہ ہی کیمونزم چل سکتا ہے اور نہ ہی کیپٹلزم یا سرمایہ دارانہ نطام بلکہ انسانوں کو اپنے معبود حقیقی کے نظام کی طرف آنا ہو گا۔ جب کیمونزم اور روس اپنے عروج کے نشے میں مبتلا ہو کر دنیا پر حکمرانی اور کیپٹلزم کی شکست کے دعوؤں میں مبتلا تھا اس وقت امام خمینی (رہ) نے روس کے صدر گورباچوف کو مکتوب لکھ کر اس بات کا واضح اشارہ دیا تھا کہ بہت جلد کیمونزم کا خاتمہ ہو جائے گا اور پھر امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد دنیا نے کیمونزم کی بربادی اور نام نہاد سپرپاور روس کے ٹکرے ٹکڑے ہونے کا مشاھدہ کیا۔ اسی طرح امام خمینی (رہ) کے نائب سید علی خامنہ ای (رہ)نے دو سا ل پہلے امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام ہی کو امریکہ کی تباہی سے تعبیر کرتے ہوئے روس کی طرح امریکہ کی تباہی و عدم استحکام کی پیشنگوئی کی اور اس نظام سے وابستہ ممالک کے لئے بھی خطرہ قرار دیا تھا، جس کا آغاز ہو گیا ہے۔ علامہ اقبال (رہ) نے بھی امام خمینی (رہ) کے انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوریت پر مبنی نظریہ ولایت فقیہہ کی بھرپور نشاندہی و تائید کرکے اس کا برملا اظہار کیا تھا۔ پہلے مغربی نظام جمہوریت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے پھر اس کا حل اسلامی جمہوریت پر مبنی نظریہ ولایت فقیہہ کی بھرپور نشاندہی و تائید کرکے یوں گویا ہوئے تھے۔ دیکھا تھا افرنگ نے اک خواب جینیوا ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے تہران ہو گر عالم مشرق کا جینوا شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے عرب ممالک کے بعد یورپی ممالک میں پائی جانے والی تبدیلی اور عوامی بیداری کی لہریں اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ دنیا فریب و فتنہ دجال پر مبنی انسانوں کی تباہی کے سرمایہ دارانہ نظام بیزار ہیں، حقیقت و معنویت پر مبنی انسانوں کی فلاح و بہبود عالمی نجات دہندہ کے انقلاب اور فلاحی معاشرے کے قیام کی طرف رواں دواں ہیں۔ عرب ممالک و یورپ میں پھیلنے والی عوامی بیداری اور تحریک حریت اس بات کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہیں کہ دنیا کے عوام اب سفیانی و دجال (۱،۲)کے باطل فتنوں سے نجات پا کر عالمی نجات دہندہ امام مہدی (ع) اور حضرت عیسی علیہ السلام (۳)کے ظہور کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔کیونکہ یہ بھی وعدہ الہی ہے اور اللہ کا وعدہ ہر حال میں پورا ہو کر رہتا ہے، بقول شاعر بتا رہی ہیں یہ تبدیلیاں زمانے کی کسی ولی کا یقینا ظہور ہونا ہے عالمی نجات دہندہ امام مہدی (ع) اور حضرت عیسی (ع) کے ظہور اور فلاحی اسلامی معاشرے کے قیام کے حوالے سے چالیس بین الاقوامی زبانوں بشمول اردو میں معلومات سے بھرپور یہ ویب سائٹ اس موضوع کے بارے میں جاننے والے قارئین کے لئے معاون ثابت ہو گی۔ www.imamalmahdi.com حکیم الامت علامہ اقبال(رہ) نے دنیا بھر کے انسانوں کے لئے عالمی فلاحی معاشرے اور عالمی نجات دہندہ کے اس نظریے کے بارے میں کئی دہائیاں پہلے اشارہ کر کے انسانوں کو اس حوالے سے تیاری کرنے کا سبق اپنے اشعار میں دیا اور اسکی پیشینگوئی کی، عالمی نجات دہندہ امام مہدی (ع) کے حوالے سے دو اشعار پیش خدمت ہیں۔ کھبی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبیں نیاز میں یا دنیا کو ہے اس مہدیء برحق کی ضرورت ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار عرب ممالک کے بعد یورپ میں پھیلنی والی عوامی بیداری و تحریکیں انشا اللہ حکیم الامت علامہ اقبال(رہ) کے ایک اور خواب کی تکمیل یعنی عالمی فلاحی معاشرے کے قیام کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔ (انشاءاللہ) 1:(سفیانی) یاد رہے کہ سفیانی کو سفیانی اسلئے کہتے ہیں کہ وہ اسلام کی اولین دشمنی کرنے والے ابوسفیان کی اولاد سے ہو گا۔ 2:(دجّال) دجّال صیہونیوں اور بعض صیہونیت کے زیر اثر شدت پسند عیسائیوں کا نجات دہندہ ہے، جبکہ بعض عیسائی حضرت عیسی (ع) کو ہی نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔ 3:(عیسی) مسلمانان عالم کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسی (ع) امام مہدی (ع) کی نصرت کے لئے تشریف لائیں گے اور امام مہدی (ع) کی امامت میں بطور مقتدی نماز جماعت میں بھی حصہ لیں گے۔