اٹھو وقت کے ابراہیم ع بنو!

234

انسانیت کی ناﺅ استبداد و استحصال کے بھنور میں گھری نہ جانے کس کے انتظار میں ہے، محرومیت و ظلم کے سائے میں پروان چڑھنے والا انسان، غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ذہن اور مردہ دلوں کے ساتھ کس سے آس لگائے بیٹھا ہے، سماجی و معاشی بدحالی کے دلدل میں دھنسا آخری سانسیں لیتا معاشرہ کس کا منتظر ہے، توحید و واحدانیت کا سودا اپنے غلامانہ ذہن کے پیداوار انگنت بتوں سے کر کے ان لاتعداد بتوں کی پرستش میں مشغول بیچارے انسان کی آنکھوں میں انتظار کی چمک کیوں باقی ہے، آزادی، انقلاب، استقلال اور حقوق کے نعرے تو سنائی دیتے ہیں، لیکن ان میں اثر دکھائی نہیں دیتا، جدوجہد کے آثار بھی نظر آتے ہیں، لیکن منزل واضح نہیں دکھائی دیتی، صدائے احتجاج کی آوازیں تو بلند ہوتی ہیں لیکن ان کا نتیجہ نہیں نکلتا۔۔۔۔۔بلند و بالا مساجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تو نظر آتی ہیں لیکن جذبہ ایمانی سے خالی، لاکھوں مرد و زن کعبہ کا طواف کرتے ہوئے لبیک الھم لبیک کی صدا تو لگاتے ہیں لیکن فرضی خداﺅں کے بت بغل میں دبئے ہوتے ہیں، سنت ابرہیمی ع پر عمل بڑے جوش و خروش سے کرتے ہیں، شیطان کو دشمن بھی مانتے ہیں اور انکو پتھر مار کر اپنی نفرت کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں، لیکن وقت کے فرعون و شداد کے سامنے سجدہ ریز بھی دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔۔آخر کیوں؟
بے جان اور کھوکھلے الفاظ میں اثر پیدا کرنے کیلئے، فلک شگاف نعروں اور صدائے احتجاج کا نتیجہ حاصل کرنے کیلئے، اپنی عبادات میں روح ِتوحید اور انکساری کی شمولیت کے لئے۔۔۔۔۔سنت ابراہیمی ع کے ساتھ ساتھ عمل ابراہیمی ع کی بھی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اپنے مقصد خلقت کو پہچانے اور فطرت کی طرف پلٹ آئے۔۔۔۔۔انسان کی فطرت میں توحید ہے۔۔۔۔۔جس دن انسان نے اپنے ہی ہاتھو ں تراشے گئے بتوں کو توڑ دیا، اس دن ہی انسان اپنی منزل کو پا لے گا۔۔۔۔۔ایثار و قربانی کے الفاظ کو اپنا کھویا ہوا مفہوم مل جائے گا۔۔۔۔۔۔استقلال و آزادی کی مبہم تصویر نمایاں ہو جائے گی۔
فرضی خداوں کے بتوں کو توڑ ڈالنا، راہ خداواندی میں قربانی و ایثار کے جذبہ کی پاسداری، ظالم و مستکبرین سے اظہار بیزاری ہی سنت ابراہیمی ع ہے۔ سنت ابراہیمی ع پر اسکی روح کے ساتھ عمل پیرا ہونے کا ثمر انقلاب اسلامی کی شکل میں ملتا ہے، ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جو ایمان، قربانی و ایثار کے جذبہ سے سرشار ہوتا ہے، جہاں کی مساجد سے اٹھنے والی اللہ اکبر کی صدائیں ُپر اثر ہوتی ہیں، جہاں پر استعمار اور استکبار کے خلاف لگنے والے شعار طاغوت پر لرزہ طاری کر دیتے ہیں، جہاں سے مظلومین اور مستضعفین کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے۔ وہ معاشرہ جو مردہ دلوں کو زندہ کرنے کا گُر جانتا ہے۔ وہ معاشرہ جو نہ صرف اپنی پیاس بھجاتا ہے بلکہ ایک ایسے دھارے کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جس سے ہر کوئی سیراب ہو سکتا ہے۔
ضرورت فقط اس امر کی ہے کہ سنت ابراہیمی ع کا اس کی اصل روح کے ساتھ احیاء کیا جائے۔۔۔۔اٹھو وقت کے ابراہیم ع بنو۔۔۔۔۔ ظلم و استبداد کی زنجیریں توڑ ڈالو، اپنی آزادی و استقلال کے حصول کی راہ میں حائل ہر قسم کے بتوں کو ریزہ ریزہ کردو۔۔۔۔۔اٹھو وقت کے ابراہیم ع بنو۔ بیداری و آزادی کی یہ تحریکیں جو استقامت و جذبہ ایمانی کی قوت سے سرشار ہیں، یقیناً کامیابی سے ہمکنار ہونگی، دشمن کی شناخت اور اس کی سازشوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، شیطان کے بہکاوں میں آنے کے بجائے اپنے رب کی رضامندی کے حصول کے لئے ابراہیم ع جیسی استقامت و یقین کی ضرورت ہے، منزل کو حاصل کرنے میں آنے والی روکاوٹوں اور صعوبتوں کی برداشت کے لئے صبر ابراہیمی ع پر اکتفا کرنا ہو گا اور جب منزل کو حاصل کر لیں تو شکر ابراہیمی ع کی ضرورت ہو گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای نے حاجیوں کے لئے اپنے پیغام میں جس بات پر زور دیا اس کا لب لباب بھی یہی ہے، رہبر معظم نے فرمایا:”اللہ تعالٰی کی روشن نشانیاں اور گراں قدر حقایق جو گذشتہ ایک سال کے عرصے میں اس خطے میں رونما ہوئے ہیں، اس سے کہیں زیادہ ہیں اور صاحبان تدبر و بصیرت کے لئے ان کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود تمام امت مسلمہ اور خصوصاً قیام کرنے والی اقوام کو دو بنیادی عوامل کی ضرورت ہے:اول:استقامت کا تسلسل اور محکم ارادوں میں کسی طرح کی بھی اضمحلال سے سخت اجتناب۔ قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے اللہ کا فرمان ہے “فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا” اور ” فلذلک فادع و استقم کما امرت” اور حضرت موسٰی علیہ السلام کی زبانی” و قال موسی لقومہ استعینوا باللہ و اصبروا، ان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ و العاقبتہ للمتقین” قیام کرنے والی اقوام کے لئے موجودہ زمانے میں تقویٰ کا سب سے بڑا مصداق یہ ہے کہ اپنی مبارک تحریک کو رکنے نہ دیں اور خود کو اس وقت ملنے والی (وقتی) کامیابیوں پر مطمئن نہ ہونے دیں۔ یہ اس تقویٰ کا وہ اہم حصہ ہے جسے اپنانے والوں کو نیک انجام کے وعدے سے سرفراز کیا گیا ہے۔
دوم:بین الاقوامی مستکبرین اور ان طاقتوں کے حربوں سے ہوشیار رہنا، جن پر ان عوامی انقلابوں سے ضرب پڑی ہے۔ وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جائیں گے بلکہ اپنے تمام تر سیاسی، مالی اور سکیورٹی سے متعلق وسایل کے ساتھ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کو بحال کرنے کے لئے میدان میں اتریں گے۔ ان کا ہتھیار لالچ، دھمکی، فریب اور دھوکہ ہے۔ تجربے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ خواص کے طبقے میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جن پر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتے ہیں اور خوف، لالچ اور غفلت انہیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کی خدمت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ نوجوانوں، روشنفکر دانشوروں اور علمائے دین کی بیدار آنکھیں پوری توجہ سے اس کا خیال رکھیں۔
اہم ترین خطرہ ان ممالک کے جدید سیاسی نظاموں کی ساخت اور تشکیل میں کفر و استکبار کے محاذ کی مداخلت اور اس کا اثر انداز ہونا ہے۔ وہ اپنی تمام توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ کوشش کریں گے کہ نو تشکیل شدہ نظام، اسلامی اور عوامی تشخص سے عاری رہیں۔ ان ممالک کے تمام مخلص افراد اور وہ تمام لوگ جو اپنے ملک کی عزت و وقار اور پیشرفت و ارتقاء کی آس میں بیٹھے ہیں، اس بات کی کوشش کریں کہ نئے نظام کی عوامی اور اسلامی پہچان پوری طرح یقینی ہو جائے۔ اس پورے مسئلے میں آئین کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ قومی اتحاد اور مذہبی، قبایلی و نسلی تنوع کو تسلیم کرنا، آیندہ کامیابیوں کی اہم شرط ہے۔”
یقیناً مسلم امہ استعمار کی تمام تر ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے باوجود رہبر معظم کی مدبرانہ اور دور اندیشانہ قیادت اور فہم و فراست سے لبریز نصیحتوں کے سہارے اپنی منزل کی طرف استقامت کے ساتھ سفر جاری رکھیں گی۔ یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ استقامت ابراہیمی ع کے ساتھ قیادت نہ صرف قوموں میں جاں ڈال دیتی ہے، بلکہ عبادات اسلامی کے اصل ثمرات بھی اجاگر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ان کا روح اسلامی کے ساتھ احیاء قوموں کو جراءت، شجاعت، صبر، استقامت اور مبارزہ کی بے مثال قوتیں عطا کرتا ہے، جیسا کہ خدا وندے کریم کا وعدہ ہے شرط صرف ایک ہے کہ اٹھو وقت کے ابراھیم ع بنو۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.