کرسمس اور جناب مسیح (ع)
25 دسمبر کو دنیا بھر کے مسیحی حضرت عیسیٰ (ع) جنھیں قرآن حکیم نے مسیح بھی کہا ہے، کا یوم ولادت مناتے ہیں۔ کرسمس منانے کی باقاعدہ ابتدا چوتھی صدی عیسوی میں ہوئی جب رومی سلطنت نے باقاعدہ مسیحیت کو سرکاری دین کے طور پر اختیار کر لیا۔ یہیں سے عالم مغرب میں عیسائیت یا مسیحیت کا پیغام پہنچا۔ یورپی اقوام امریکہ میں داخل ہوئیں تو ان کے ذریعے سے وہاں بھی عیسائیت جا پہنچی۔ مسیحی مذہبی راہنماﺅں میں اگرچہ کرسمس کی تاریخ پر شدید اختلاف رہے ہیں تاہم موجودہ دنیا میں 25 دسمبر کو کرسمس کے طور پر عملاً قبول کر لیا گیا ہے۔ جہاں تک حضرت عیسیٰ ابن مریم (ع) کے روز ولادت کے تعین کا تعلق ہے اس پر تو شاید آئندہ بھی محققین ایک رائے اختیار نہ کر سکیں لیکن حضرت عیسیٰ کی معجزانہ ولادت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ان کی استثنائی ولادت ہی سے ظاہر ہو گیا تھا کہ وہ ایک غیر معمولی انسان ہیں اور انھوں نے خصوصی کردار ادا کرنے کے لیے عرصہ ہستی میں قدم رکھا ہے۔ حضرت عیسیٰ (ع) کی والدہ ماجدہ جناب مریم (ع) بھی ایک غیر معمولی خاتون تھیں۔ دونوں نے معنویت و روحانیت کے نئے آفاق انسانیت کے سامنے کھولے۔ دونوں نے انسانی عظمتوں اور رفعتوں کے نئے پہلوﺅں سے بشریت کو آشنا کیا۔ دونوں نے عشق الٰہی اور اللہ کی عبادت کا پیغام دیا۔ انسانیت کو دونوں عظیم ہستیوں پر ہمیشہ فخر رہے گا اور عظیم روحیں ان کی منزلتوں کا ہمیشہ اعتراف کرتی رہیں گی۔
اسلام ہی وہ واحد عالمی دین ہے جس نے باقاعدہ حضرت مسیح (ع) اور جناب مریم (ع) کے مقام رفعت اور پاکبازی کا اعتراف کیا اور ان کی صداقت اور پاکیزگی پر ایمان کو اپنی دعوت کا حصہ قرار دیا۔ اسلام کے نزدیک یہ امر اتنا اہم ہے کہ جو اس ایمان کا حامل نہ ہو اسے مسلمان ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ مسلمان ہونے کے لیے حضرت عیسیٰ (ع) کی نبوت اور آپ کی والدہ گرامی کی پاکبازی و خدا پرستی کا اعتراف و اقرار ضروری ہے۔
ان دونوں ہستیوں کے مقام رفیع کا ذکر قرآن حکیم کی ابتدائی طور پر نازل ہونے والی آیات میں موجود ہے۔ یہی وہ آیات ہیں جن کی تلاوت حضرت جعفر طیار (ع) نے ہجرت حبشہ کے دوران میں بادشاہ حبشہ نجاشی کے سامنے کی تھی تاکہ قریش کے مشرکین کے وفد کے الزامات کی حقیقت کا پردہ چاک کر سکیں۔ انہی آیات کی تلاوت نے نجاشی کے دل کو مسخر کر لیا اور اس کے تمام درباری بھی مبہوت ہو کر رہ گئے۔ یہیں سے دو عالمی ادیان کی ایک دوسرے سے قربت کا آغاز ہوا۔ اس سے یہ امر ظاہر ہو گیا کہ حضرت محمد ابن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو دین لے کر آئے ہیں وہ وہی ہے جس کے نقیب ابراہیم (ع)، موسیٰ (ع) اور عیسیٰ (ع) رہے ہیں۔ قرآن حکیم کی بعض آیات میں مسیحیوں کو مسلمانوں سے نسبتاً قریب قرار دیا گیا ہے اور ان میں موجود خدا پرستوں اور عبادت گذاروں کی تعریف کی گئی ہے۔
ایک طرف حضرت عیسیٰ (ع) کی غیر معمولی شخصیت اور ان کے ہاتھوں ظاہر ہونے والے معجزات اور دوسری طرف انسان کی کوتاہ اندیشی نے توحید پرستی کے اس عظیم علم بردار کو مقام الوہیت پر فائز کر دیا اور نتیجے کے طور پر جسے اسوہ اور نمونہ قرار پانا چاہیئے تھا وہ ایک ماورائی اور طلسماتی شخصیت بن کر رہ گیا۔ ایسا کرنے کا ثمرہ انسانی معاشرے کے زوال ہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ مسیحیوں میں موجود اس انحراف کی طرف قرآن حکیم نے بھی اشارہ کیا ہے۔حضرت مسیح (ع) کے اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندہ ہونے اور اللہ کی توحید پر زوردار دلائل کے ساتھ ساتھ مباہلے کا واقعہ مسیحیوں کے مذہبی راہنماﺅں کے اسی فکری انحراف کے پس منظر میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم نے اہل کتاب سے ہم آہنگی ایجاد کرنے اور پرامن بقائے باہم کی راہ کھولنے کی کوشش بھی کی ہے۔ آج کی دنیا میں مکالمہ بین الادیان کی بات بہت کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی بنیاد قرآن حکیم ہی نے رکھی ہے۔ قرآن نے اہل کتاب کو دعوت دی ہے کہ آﺅ اُس ایک “کلمہ” پر اکٹھے ہو جاتے ہیں جو ہمارے اور تمھارے درمیان مساوی ہے۔
مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین مشترکات دیگر تمام ادیان کی نسبت زیادہ ہیں۔ ان اشتراکات میں سے خود حضرت عیسیٰ (ع) بھی ہیں۔ اگر ان کی ولادت مسیحیوں کے نزدیک خوشی و انبساط کا عنوان ہے تو مسلمانوں کے نزدیک بھی ایسا ہی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اس موقع پر مسلمان بھی بعض تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ادیان کے راہنما اس موقع پر ملنے جلنے اور مشترکہ تقریبات کا زیادہ اہتمام کریں۔ جس ملک اور علاقے میں جس دین کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہے انہی کو اس سلسلے میں پہل کرنا چاہیئے۔
حضرت عیسیٰ (ع) کی انسان دوستی، زہد و عبادت، سادہ زیستی، ایثار و قربانی اور والدہ کے احترام پر مبنی زندگی ساری انسانیت کے لئے سرمائے اور نمونہ عمل کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت عیسیٰ (ع) کی یاد سے وابستہ چند مزید امور ایسے ہیں جن کا ذکر ہم ضروری سمجھتے ہیں:
1۔ اس میں شک نہیں کہ ہم آہنگی کے مندرجہ بالا پہلوﺅں کے باوجود مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین صدیوں خونریز معرکے رہے ہیں۔ آج بھی دنیا کے طاقتور ترین ممالک جہاں بظاہر مسیحی دین رکھنے والوں کی حکومتیں قائم ہیں اور حکمران وہاں انجیل مقدس پر حلف اٹھا کر مسیحیت سے اپنی وابستگی کا اظہار بھی کرتے ہیں، مسلمان ملکوں پر حملہ آور ہیں۔ اگرچہ گذشتہ جنگوں کو مذہبی جنگیں کہا جاتا تھا اور موجودہ جنگوں کو مذہبی نہیں کہا جاتا لیکن اصطلاحوں کے بدلنے سے حقیقتیں نہیں بدل جاتیں۔ گذشتہ چند دہائیوں میں ان عیسائی افواج نے کئی ایک مسلمان ملکوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اس سلسلے کا جاری رہنا حضرت مسیح (ع) کی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ مسیحی مذہبی راہنماﺅں کو ظلم و استعمار کے خلاف بھرپور آواز اٹھانا چاہیئے۔ ان کے ایسے طرزعمل سے دین کی آفاقی اقدار کا فروغ ہو گا اور مادی تہذیب کی تباہ کاریوں سے انسانیت کی نجات کا راستہ ہموار ہو گا۔
2۔ مسلمانوں کو حضرت عیسیٰ (ع) اور جناب مریم (ع) کی یاد منانے کا بڑھ چڑھ کر اہتمام کرنا چاہیئے۔ افسوس حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آنجناب کے بعد کی بزرگ شخصیات ہم نے اختیار کر لی ہیں اور ماقبل کی عظیم شخصیات کا تذکرہ اور ان سے محبت کا اظہار ہم نے دوسروں کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں اس طرز عمل پر نظر ثانی کرنا چاہیئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآ ن حکیم نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو ماقبل کے انبیاء کے تسلسل میں بیان کیا ہے اور ماقبل کے انبیاء کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ 3۔ مغرب میں کلیسا کے اقتدار کے زوال کے ساتھ ہی معنویت اور روحانیت کا بھی زوال ہو گیا۔ حیات مابعد ممات کا عقیدہ کمزور پڑ گیا۔ دینی اقدار مضمحل ہو گئیں۔ خدا پرستی کی روایت کمزور پڑ گئی۔ بےریا اخلاقیات کہنہ ہو گئیں اور معاشرے کا اقتدار بےخدا گروہوں اور افراد کے ہاتھ آ گیا۔ اس کے بعد سے آج تک دنیا نے جو تباہی دیکھی ہے اور انسانیت نے جو چرکے سہے ہیں اس کا عشرعشیر بھی ماقبل کی دنیا نے نہیں دیکھا۔ اگر ہماری یہ بات درست ہے تو کلیسا کے ایسے ہمہ گیر زوال پر کسی خدا پرست کو خوش نہیں ہونا چاہیئے لیکن دوسری طرف اس زوال کی وجوہات کا بھی دیانت داری سے جائزہ لیا جانا چاہیئے۔ اس کا جائزہ خود اہل کلیسا کو بھی غیر جانبداری سے لینا چاہیئے، مسلمانوں اور دیگر ادیان کے ماننے والوں کو بھی مغرب کی مذہبی تاریخ سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے اور پھر مل کر گذشتہ تجربات کو سامنے رکھ کر ایک ہمہ گیر الٰہی اور انسانی تہذیب کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اٹھنا چاہیئے، ایک دوسرے کی مدد کے خالصانہ جذبے سے یہ کام کیا جائے تو انسان کے بہتر مستقبل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ 4۔ کرسمس کے ہنگاموں کو جو شکل آج تاجرانہ ذہنیت نے دے رکھی ہے اس کا کوئی تعلق حضرت مسیح عیسیٰ ابن مریم (ع) کی تعلیمات اور کردار سے دکھائی نہیں دیتا۔ افسوس انسانیت کے عظیم دینی کرداروں سے ہماری محبت کا خراج بھی انسانی خون پینے والے تاجر وصول کر لیتے ہیں۔یہ موقع تو حضرت مسیح (ع) کے عظیم کردار کے تذکروں سے معمور ہونا چاہیئے۔ اس موقع پر ان کی پاکبازی، ایثار، انسان دوستی، غریب پروری اور سادہ زندگی کے چرچے ہونے چاہیئیں۔ ایسے عظیم انبیاء کی یادوں کو بھی انبیاء کی تعلیمات کے دشمنوں نے ہم سے چرا لیا ہے۔ آئیے انسانیت کی عظمت کے ان مناروں سے مادیت کے طاغوت کا قبضہ چھڑوانے کا عہد کریں اور پھر عملی طور پر “کرسمس” جیسے مواقع پر ایک دوسرے کو دلی مبارکباد پیش کریں۔