ندبہ

202

 آج پندرہ شعبان کا دن اپنی تمام تر سعادتوں، خوش بختیوں اور رحمتوں کے ساتھ سولہ شعبان کی غم انگیز شام میں ڈھل گیا۔ ولادت ولی عصر (عج) کی خوشی اور ان کے فراق کا غم عجیب کربناک کیفیت ہے۔ مگر کیا یہ کیفیت یکطرفہ ہے؟ ہرگز نہیں! یہ کیفیت اس ربط کے دونوں سروں پر پائی جاتی ہے، بلکہ غم کی شدت روح کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جہاں ماموم کو یہ غم ستاتا ہے کہ اس کا وارث نظروں سے اوجھل ہے، وہیں امام بھی اس غم میں مبتلا ہوں گے کہ آج کے دن اور گزشتہ رات مجھے یاد کرنے والے، میرا نام لے لے کر دعائیں اور استغاثہ کرنے والے سال کے بقیہ تین و چونسٹھ دن مجھے یوں فراموش کر دیں گے جیسے میں ایک قصہ پارینہ تھا ۔۔۔۔ امام وقت ضرور اس بات پر نالاں ہوتے ہوں گے کہ میں تو زندہ و موجود ہوں، تمھارے مابین زندگی گزارتا ہوں، تمھارے اعمال سے آگاہ ہوں، پھر بھی تم مجھے یوں یاد کرتے ہو جیسے کوئی خوشگوار تحریر دل و دماغ پر وقتی طور پر اثر انداز ہو اور پھر ہمیشہ کے لیے اسے فراموش کر دیا جائے۔
کتنی ستم ظریفی ہے کہ حجت دوراں جو آدم سے لے کر خاتم تک تمام انبیاء اور اپنے جد علی (ع) سے لے کر اپنے بابا حسن عسکری (ع) تک تمام اولیائے خدا کی محنتوں کے وارث ہیں، وہ امام جو توحید کے حسین چمن کا گل سرسبد ہے، وہ جو کہ مستضعفین جہان کی آرزوں اور امیدوں کا محور اور انسانی ہدایت کا آخری چراغ ہے، ہمارے مابین روز و شب کرنے کے باوجود ہماری نظروں اور افکار سے اوجھل ہے۔
ہم یوسف زھراء سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، چونکہ یہ ہمارے عقیدے کا تقاضا ہے۔ ہم ان کا بے حد احترام کرتے ہیں، جس کی ہمیں ہمارے والدین نے تربیت دی ہے۔ ہم ان کے انتظار میں دعائیں پڑھتے ہیں، جو کہ ہمارے آئمہ نے ہمیں تعلیم کیں ہیں، مگر کیا کبھی ہم نے اس دور کے حسین (ع) کی قلبی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش کی؟ کیا کبھی ہم نے سوچا کے کربلا کا وہ سپاہی، جو اس میدان میں تو موجود نہ تھا، آج بھی خانوادہ رسالت پر ہونے والے مظالم پر نوحہ کناں ہے؟ اس کا پاکیزہ لہو آج بھی مقصد حسین (ع) جو دراصل پرچم توحید کی سربلندی ہے، کے لیے کھولتا ہے؟ کیا ہم نے کبھی اس چیز کو محسوس کیا کہ سید سجاد (ع) کو خون رلانے والی”شام” فرزند زھراء حجت دوراں کے دل نازنیں پر کیا اثرات مرتب کرتی ہوگی؟
حجت دوراں سے ہمارا کاغذی اور روایتی رشتہ انہیں کس قدر رنجیدہ کرتا ہوگا؟ ہم ان کے منتظر کیسے ہوسکتے ہیں؟ نہ تو ہم برما، کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی مانند بے وطن اور مظلوم ہیں کہ کسی نجات دہندہ کے متلاشی ہوں اور نہ ہی افریقہ، ایشیا، امریکہ اور دنیا بھر کے لاچار اور بھوک سے جاں بہ لب انسانوں کی مانند درماندہ ہیں کہ کسی منجی کا انتظار کریں، جو ہمیں موت سے بدتر زندگی سے نجات بخشے۔ ہماری آسودہ زندگی جو کبھی کبھار دہشتگردی کی زد پر آجاتی ہے، ہی وہ واحد سبب ہے جو ہمیں اپنے آقا کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ دین خدا کی سربلندی جس کا اصل ہدف عدل اجتماعی کا قیام اور انسانی معاشرے کو دیگر صاحب اقتدار انسانوں کے تسلط سے نجات دلا کر ایک خدا کی اطاعت و پیروی کی جانب لے جانا ہے بھی ہمارے روزمرہ امور میں مقام اولیت نہیں رکھتا۔
ہم جب گناہوں کی طرف بڑھتے ہیں تو کبھی نہیں سوچتے کہ اگر ہمارے یہ اعمال فرزند مصطفٰی (ص) کی خدمت میں پیش کیے گئے تو ان پر کیا گزرے گی؟ جبکہ ہم روایات کی روشنی میں جانتے ہیں کہ انسانوں کے بعض اعمال خدا کی بارگاہ میں پیش کیے جانے سے قبل زمین پر خلیفۃ اللہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔
ہم کس حیثیت میں اپنے آپ کو منجی بشریت کا پیرو کہتے ہیں جبکہ ہمارا ہدف، ہمارے ادارے، ہمارا عمل اور ہمارے نعرے فرقہ وارانہ رنگ و بو کے حامل ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ ہم اپنی مسلکی شناخت کو بھلا بیٹھیں، تاہم اس کا تعلق فرد کی انفرادی و عبادی زندگی سے ہونا چاہیے۔ جب ہم اجتماعی سطح پر کوئی بھی اقدام کریں تو اسے اس نوعیت کا ہونا چاہیے کہ وہ آفاقی کہلا سکے۔ عبدالستار ایدھی اور ان جیسے لوگ شاید منجی بشریت کی پیروی کا دعوی نہ کرتے ہوں، تاہم ان کا عمل اس بات کا غماز ہے کہ وہ ہدف دین اور مقصد انبیاء جو کہ مظلوم انسانوں کی حمایت و نصرت ہے، کے امین ہیں۔ ان کا عمل معاشرتی سطح پر فلاح انسانیت ہے اور یہی روش اس عمل کو آفاقی بناتی ہے۔
حجت دوران جو تمام انسانوں کے نجات دہندہ ہیں، پورے عالم انسانیت کے لیے پیغام فلاح و خوش بختی ہیں۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ دین اسلام ہی وہ واحد راہ ہے جو انسانی فلاح کی ضامن ہے، تاہم ہر انسان تک اس فلاحی پیغام کی مدبرانہ ترسیل اور اس کے نتیجے میں ایک عادلانہ معاشرے کا قیام ولی عصر کی ہی ذمہ داری ہے۔ ہم جو کہ اس خانوادے کے درد کو محسوس کرنے کا دعوی کرتے ہیں اور ان کے پیروکار ہونے کے مدعی ہیں، کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اعمال اور عادات و اطوار کو ان کے حقیقی مقاصد سے ہم آہنگ کریں۔ اپنے عمل کے ذریعے معاشرے کو امید کا وہ چہرہ دکھائیں، جس کے آئینہ میں وہ حجت دوراں کی حقیقی شناخت حاصل کرکے ان کے ظہور کا متمنی ہو۔ عین ممکن ہے کہ خدا ہمارے اس عمل کے طفیل انسانیت کی سختیوں اور مصیبتوں کو کم فرمائے اور زمانے کے امام کو اذن ظہور عطا فرمائے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.