استقبال رمضان
کسی کے آنے کی آمد عام طور پر خوشگوار ہوتی ہے اور اس کے استقبال کی تیاریاں بھی بڑے پیمانے پر کی جاتی ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ آنے والا کون ہے اور اس کی تیاریاں کیسے کی جائیں۔ فی الوقت ہم رمضان المبارک کی بات کررہے ہیں اور اس کی آمد نہ صرف ایک مسلمان کے لیے بلکہ امت مسلمہ کے علاوہ دنیا کے ہر فرد کے لیے عالمی پیمانے پر خیر و برکت والی خبر ہوا کرتی ہے۔ ماہ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے، تقویٰ، پرہیزگاری، ہمدردی، غمگساری، محبت و الفت، خیر خواہی، خدمتِ خلق، راہ خدا میں استقامت، جذبۂحمیت اور جذبۂ اتحاد، اللہ اور رسولؐ سے بےانتہا لَو لگانے کا مہینہ ہے، لہذا اس کے استقبال کے لیے ہمیں اپنے اندر ان ہی صفات کو پیدا کرنے کی تیاری کرنا ہوںگی، جن صفات کی طرف ماہِ رمضان ہماری توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں قرآن نازل ہوا، روزے فرض ہوئے، جنگ بدر پیش آئی، شبِ قدر رکھی گئی، فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا، اس کے عشروں کو مخصوص اہمیت دی گئی، پھر اس ماہ میں زکوٰۃ، انفاق اور فطرے کا اہتمام کیا گیا نتیجتاً ماہِ رمضان المبارک کی عبادات کے درجات بہت زیادہ بلند کر دیے گئے۔ لہذااس ماہ کی حیثیت کے شایانِ شان ہی اس کا استقبال بھی کیا جائے گا۔ قبل اس سے کہ رمضان کی آمد آمد ہو ہم اپنے باطن و ظاہر کو اس کے لیے تیار کر لیں۔ ظاہر و باطن کو پاک کرنے اور تیار کرنے میں نیز تقویٰ کی روش اختیار کرنے میں سب سے زیادہ جو مددگار عمل ہے وہ “روزہ”ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہِ رمضان کے بعد سب سے زیادہ روزے ماہِ شعبان میں رکھے۔ یہی اس کے استقبال کا بہترین ذریعہ ہے! رمضان المبارک کے یہ تین واقعات: رمضان المبارک کے یہ تین واقعات وہ ہیں جس نے دنیا کی صورتحال بالکل تبدیل کردی۔ یہ صحیح ہے کہ امت کی کامیابی مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں بنائی جانے والی حکمت عملی، پالیسی، لائحہ عمل اور تدابیر وضع کرنے کے نتیجہ میں ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ابتدائی تین واقعات وہ مینارۂ نور ہیں جن کی روشنی میں یہ کام اس طرح ہو سکتا ہے کہ امت بحیثیت پوری امتِ مسلمہ اور مسلمان بحیثیت فرد، کامیابی سے ہمکنار ہوں۔ اور یہ کامیابی بھی اسی طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے ہوگی جو پہلے کے لوگوں نے اختیار کی ہے اور اس میں یہ واقعات ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔ پہلا واقعہ نزولِ قرآن ہے: واقعہ یہ ہے کہ قرآن نے حیاتِ انسانی کو جلا بخشی اور دنیا کو تاریکی،گمراہی اور شرک کی جڑوں سے نجات دلائی۔ لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کو اپنی عملی زندگی کے شب و روز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں۔ اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں۔ اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔ اس کے قیام کی سعی و جہد کریں اور اس کو وہ اہمیت دیں جو اس کا حق ادا کردے۔ دوسرا واقعہ جنگ بدر ہے: یہ واقعہ اس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علمبردار اس سعی و جہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کردیتے ہیں، جو اس نے عطا کی ہیں۔ اللہ نے عقل دی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ جس کے ذریعہ انسان اور حیوان میں فرق نمایاں ہوتا ہے۔ اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں جن کے ذریعہ خیر و فلاح کے کام انجام دیے جاتے ہیں۔ اللہ نے علم عطا کیا ہے جس کے ذریعہ جہالت، گمراہی اور نظریۂ ہائے افکار و نظریاتِ باطل سے چھٹکارا پایا اور دلایا جا سکتا ہے۔ اللہ نے مال دیا ہے جو خدمتِ خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اللہ نے جان دی ہے جس کے ذریعہ نظامِ باطل کو زیر کیا جا سکتا ہے اور یہ آخری انتہا ہے لیکن یہ آخری انتہا سے قبل بہت سے وہ کام ہیں جن کا آغاز ہرشخص فرداً فرداً کر سکتا ہے لیکن اللہ کی راہ میں جان دینے کا کام اجتماعی ہوگا اور یہ اُسی وقت ہوگا جب اس کا تقاضا ہو، فی الوقت اس کی ضرورت نہیں ہے۔ حاملِ قرآن جب قرآن پر عمل کرنے والے ہو جائیں گے تو ان کو وہی کامیابی میسر ہوگی جو ہمیشہ اور ہر دور میں مخالفین و معاندین کے مقابلے ہوتی رہی ہے۔ تیسرا واقعہ فتحِ مبین ہے: یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علمبردار دنیا میں بھی سرخروئی حاصل کریں گے اور آخرت کی کامیابی تو ابدی ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کر لیا گیا ہو وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔ یہ زمین اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے لہذا اس میں باطل سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔یہ زمین وہ ہے جہاں اللہ کے نام لینے والے اللہ کے آگے سربجود ہوتے ہیں، اس کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہیں، اس سے اپنی تمام توقعات وابستہ کرتے ہیں، اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں، اور اسلامی نظام میں اجتماعیت کی روح پھونکتے ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں کسی بھی مرحلے میں کامیابی حاصل کریں تو وہ مزید اللہ کی بڑائی بیان کرنے والے بن جاتے ہیں، اس کی کمر غرور و تکبرکے محرکات سے اکڑتی نہیں ہے بلکہ مزید وہ اللہ کے آگے جھک جانے والا بن جاتا ہے، اور اس میں انسانوں سے مزید خیرخواہی کے جذبات ابھرتے ہیں۔ یہ تین واقعات بھی ہمیں اسی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ قرآن کے استقبال میں اپنے باطن و ظاہر میں وہ محرکات پیدا کر لیے جائیں اور ان چیزوں پر ہم عمل پیرا ہو جائیں جن کے اختیار کے نتیجہ میں ہمیں کامیابی لازمی حاصل ہوگی، انشااللہ۔ یکسو ہو جائیے: آج اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی بقا و تحفظ کے لیے ان اقدامات کی ضرورت ہے جو دنیا میں رواج پا چکے ہیں تو یہ نہ صرف ہماری کم عقلی ہوگی بلکہ دین کی تعلیمات سے دوری بھی نمایاں کرے گی۔ علمی میدان میں ترقی، معاشی میدان میں ترقی، عورتوں کی آزادی اور بالا دستی، صنعت و حرفت میں پیش قدمی، سائنس و ٹیکنالوجی میں دریافتیں، چاند اور مریخ پر قلابیں، یہ اور ان جیسے تمام نعروں میں اس وقت تک کوئی دم نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے سانچے میں نہ ڈھلے ہوئے ہوں۔ ہم دینی مدارس کھولتے ہیں، کلمہ اور نماز کی تبلیغ کرتے ہیں، فسق و فجور کے خلاف وعظ و تلقین کرتے ہیں، اور گمراہ فرقوں کے خلاف مورچے لگاتے ہیں، حاصل؟۔ حاصل یہ کہ بس جس رفتار سے دین مٹ رہا ہے اور مسلمانوں کی عملی زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہے اس کے مٹنے میں ذرا سستی آجائے اور زندگی کو سانس لینے کے لیے ذرا کچھ دن اور مل جائیں لیکن یہ امید کبھی نہیں کی جا سکتی کہ اللہ کا دین غالب آجائے یا اللہ کا کلمہ عوام الناس کے دلوں کی دھڑکن بن جائے۔ پھر یہ خیال کہ موجودہ نظام تو ان ہی بنیادوں پر قائم رہے، مگر اخلاق،معاشرت، معیشیت، نظم و نسق یا سیاست کی موجودہ خرابیوں میں سے کسی کی اصلاح ہو جائے گی، تو یہ بھی کسی تدبیر سے ممکن نہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظامِ زندگی کی بنیادی خرابیوں کی آفریدہ اور پروردہ ہیں اور ہر خرابی کو دوسری بہت سی خرابیوں کا سہارا مل رہا ہے۔ ایسے حالات میں ایک جامع فساد کو رفع کرنے کے لیے جامع پروگرام ناگزیر ہے، جو جڑ سے لے کر شاخوں تک پورے توازن کے ساتھ اصلاح کا عمل جاری کرے۔ وہ کامل پروگرام کیا ہے؟ اس سے قبل یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ آپ فی الواقع چاہتے کیا ہیں؟ اس موقع پر ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ اسلام اور جاہلیت کا ملا جلا مرکب، جو اب تک ہمارا نظام حیات بنا ہوا ہے، زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں بھی!اب رہا یہ سوال کہ یکسو کیسے ہوا جائے؟ اس کے لیے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اسلام کو حقیقی معنوں میں اختیار کرنے کے قائل ہیں اور کون ہیں جو فکرِاسلامی کو “مغربی اجتہاد” کی روشنی میں پسند کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ ایک گروہ، وہ ہو گا جو اسلام کو عالم انسانیت کی کامیابی، خیر و فلاح اور امن و سکون کا ذریعہ سمجھتے ہوئے فکرِ اسلامی کو زندگی کے ہر مرحلے میں قائم کرنے کا قائل ہے اور دوسرا گروہ، وہ جو اسلام کو موجودہ زمانے میں قابلِ عمل نہیں سمجھتا اور چاہتا ہے کہ کچھ ترمیمات کے ساتھ اس کو اختیار کیا جائے تاکہ ا نسانوں کی خوشنودی حاصل کی جا سکے۔ جس کے نتیجے میں دنیا کی وہ ساری ترقیات حاصل ہو جائیں جو ایک مادہ پرست ذہن اور ایک مادہ پرست معاشرے کی چاہت ہیں۔ وہ لوگ جو اسلام کو اسلامی نظامِ حیات کی شکل میں نہ صرف اختیار کرتے ہیں بلکہ قائم بھی کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے لازم ہوگا کہ اسلام اور غیر اسلام کی اس آمیزش کو، جسے صدیوں کی روایات نے پختہ کر رکھا ہے، تحلیل کریں اور قدامت کے اجزاء کو الگ کرکے خالص اسلام کے اس جوہر کو لے لیں، جو قرآن و سنت کے معیار پر جوہر اسلام ثابت ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ہمارے ان گروہوں کی مزاحمت، اور سخت مزاحمت کے بغیر نہیں ہو سکتا جو قدامت کے کسی نہ کسی جز کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم مغرب کی حقیقی تمدنی و علمی ترقیات کو اسکے فلسفۂ حیات اور انداز فکر اور اخلاق و معاشرت کی گمراہیوں سے الگ کر دیں اور پہلی چیز کو لے کر دوسری چیز کے بالکلیّہ اپنے ہاں سے خارج کر دیں۔ ظاہر ہے کہ اسے ہمارے وہ گروہ برداشت نہیں کر سکتے، جنہوں نے خالص مغربیت کو، اسلام کے کسی نہ کسی مغربی ایڈیشن کو اپنا دین بنا رکھا ہے۔ پھر اسی کے ساتھ یہ کام ایک انتہائی منظم قوت کی شکل میں ابھرے۔ اپنے گروہی و مسلکی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے لوگ اس میں جوق درجوق شامل ہوں، اور ایک ہمہ گیر سیلاب کی مانند زندگی کے ہر شعبہ پر چھا جائیں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح مغربی تہذیب اٹھی اور چہار جانب چھاتی چلی گئی۔ اس سب کے لیے نہ صرف بلند حوصلوں کی ضرورت ہوگی بلکہ مضبوط سیرت اور صالح اخلاق اور مستحکم ارادے کے انسان درکار ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا آپ خود کو اس کے لیے تیار پاتے ہیں یا پھر یہ کہ تیار کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں!! یہ وہ کام ہے جو بنا یکسوئی کے ہو ہی نہیں سکتا اور یہی رمضان المبارک کا پیغام ہے جس کا ہم استقبال کرنا چاہتے ہیں! ڈی کنڈیشنگ کا عمل: انسان جب کسی کا غلام ہو جائے تو اس کے لیے لازم آتا ہے کہ اس کی غلامی کو دور کر دیا جائے۔ انسان جسمانی اور عقلی بنیادوں پر آزاد پیدا کیا گیا ہے اور ساتھ ہی وہ اللہ کا بندہ بھی ہے۔ لہذا اس کے جسم اور اس کی فکر کو ہر اس غلامی سے نجات دلانا اولین فرض ہے جس کی غلامی میں وہ رہ کر غورو فکر اور عمل کرتا ہے۔ ڈی کنڈیشنگ جسے عرفِ عام میں تطہیرِ قلب و فکر کہہ سکتے ہیں،یہ عمل انسان کے لیے ہر طرح کی نفسیاتی غلامی کے خاتمے کا عمل ہے۔ یہ عمل انہی افراد کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کر سکتا ہے جس میں آزادی کی خواہش پائی جاتی ہو۔ جس شخص میں یہ پوٹینشل نہ ہو اسے آزاد کروانا بہت مشکل ہے۔ آزاد ہونے کے پوٹینشل کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایسے شخص میں، جو عارضی طور پر نفسیاتی غلامی کا شکار ہو چکا ہو، کچھ خصوصیات پائی جاتی ہوں: ۱۔ اس شخص میں حق پرستی کے لیے ایک خاص حمیت اور غیرت پائی جاتی ہو۔وہ حق سے وابستہ رہنا چاہتا ہو۔ وہ کسی فکر سے وابستہ صرف اس لیے ہوا ہوکہ یہ فکر اس کے خیال میں “حق” ہو۔ ۲۔وہ شخص اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنا چاہتا ہو۔ اس کے برعکس وہ شخص جو مکمل طور پر ذہنی غلام ہے، اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ وہ بیک وقت متضاد باتوں کو مانتا رہتا ہے اور اپنے ذہن کو مختلف خانوں میں بانٹ کر رکھتا ہے۔ اگر اس کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہو تو اسے شیطان کا وسوسہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے۔ ۳۔ اس شخص کے لیے اپنے افکار میں تضاد قابل برداشت نہ ہو۔ مثال کے طور پر وہ یہ نہ مان سکتا ہو کہ کوئی چیز ایک ہی وقت میں بالکل سیاہ اور بالکل سفید بھی ہو سکتی ہے۔ عملی زندگی میں اس کی مثال یہ ہے کہ اس کے لیے یہ ماننا بہت مشکل ہو کہ اس کے راہنما میں کوئی اخلاقی خرابی بھی پائی جاتی ہے۔ اور اس کے باوجود اسے اپنے راہنما کی پیروی کرنا چاہیے۔ جس شخص میں آزاد ہونے کا یہ پوٹینشل پایا جائے، اس کا نفسیاتی غلامی سے آزاد ہونا ممکن ہے۔ اس کی عملی صورت عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ اس شخص کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ یا حادثہ پیش آجاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ذہن میں کئی ایک تضاد پیدا ہوئے۔ تضاد کی یہ کیفیت اس کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ وہ اس تضاد کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب اس میں ناکام رہتا ہے تو وہ فکری غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس بات کی مثال اس طرح سمجھیں کہ ایک عقیدت میں مبتلا انسان اپنے ہی جیسے انسان کو جس کا وہ مرید ہے ہر برائی سے پاک سمجھنے لگتا ہے لیکن جب کوئی ایسا واقعہ مرید اور پیر کے درمیان رونما ہو جائے جس کی زد میں مرید کی ذات خود نقصان کا ذریعہ بنے۔ اُس مرحلے میں راہنما یا پیر جس پر اب تک اعتماد قائم تھا وہ باقی نہیں رہتا ۔پھر جب وہ اپنے پیر کی ایک غلطی کو پہچان لیتا ہے اور تقابلی عمل سے گزرتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ جس شخص، فکر اور نظریہ کا اس پر اب تک غلبہ تھا وہ بےشمار غلطیوں میں ملوث ہے۔ بس یہ واقفیت ہی وہ نقطۂ آغاز ہوتا ہے ایسے شخص کی گرہیں کھولنے کے لیے جس کے نتیجہ میں پرانے تصورات کی شکست و ریخت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً پرانے تصورات کی جگہ نئے تصورات پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعہ ایسا شخص کچھ ہی عرصے میں نفسیاتی غلامی سے آزادی حاصل کرلیتا ہے۔ ڈی کنڈیشنگ کے عمل کے اختتام پر انسان اپنے بہت سے سابقہ تصورات سے دست بردار ہو جاتا ہے۔ اس کی جگہ نئے تصورات قائم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پرانے دوستوں سے رشتے ٹوٹنے لگتے ہیں اور نئے دوستوں کے ساتھ رشتے استوار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پرانی اقدار ایک ایک کرکے بکھر تی چلی جاتی ہیں اور نئی اقدار جنم لینے لگتی ہیں۔ مختلف واقعات کی توجیہ کرنے کا پرانا طریقہ ختم ہوتا چلا جاتا ہے اور اب واقعات کو نئے تناظر میں دیکھا جانے لگتا ہے۔ آج امت مسلمہ کے نام نہاد مفکرین کو بھی نفسیاتی آزادی کے اِس ڈی کنڈیشنگ کے عمل سے گزارنے کی ضرورت ہے کہ جس کے نتیجہ میں خصوصاً مغربی اور عموماً تمام باطل عقائد اور افکار و نظریات سے نجات کی ضرورت ہے کہ جس کے بعد اسلام کے حقیقی نظریۂ حیات کو سمجھ سکیں۔ وہ خود بھی یہ جان سکیں اور اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں اور نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے بتا سکیں کہ اسلام امن و محبت، ہمدردی و خیر خواہی اور دنیا و آخرت میں نجات دلانے والا ہے ساتھ ہی مذہبِ اسلام عالمِ انسانیت کی کامیابی و سرخروئی کا پیش خیمہ ہے۔ اس مہینہ میں اسی ڈی کنڈیشنگ کے عمل سے امت کے ہرفرد کو گزارا جاتا ہے۔ لہذا ماہِ رمضان کا استقبال کرتے ہوئے اپنی ذات کو اس عمل سے گزارنے کے لیے بھی تیار کرلینا چاہیے، اور یہی وہ بہترین استقبال ہوگا جو رمضان کے گذارنے کے بعد ہماری سابقہ زندگیوں کے شب و روز کو مکمل طور پر تبدیل کردے گا۔ پھر یہی تبدیلی ہماری نجات کا ذریعہ ثابت ہوگی، انشااللہ۔ داعئ حق بن جائیے: ڈی کنڈیشنگ کا عمل، نفسیاتی آزادی کا عمل اور تطہیرِ فکر و قلب کا عمل ان لوگوں کے بس میں ہے جو داعئ الخیر کی ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔ لہذا وقت کا تقاضا بھی ہے اور ہم پرلازم بھی ہے کہ ہم اور آپ داعئ حق بن جائیں، لیکن داعی حق کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر ضروری بحث و مناظرے سے بچے۔ دین کے بہت سے پرجوش داعی، خواہش رکھتے ہیں کہ مخاطب چند گھنٹوں میں تبدیل ہو کر ان کا نقطۂ نظر قبول کر لے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔ داعی حق کے لیے اپنی نیت میں اخلاص پیدا کرنا لازمی امر ہے۔ اس کی دعوت کا مقصد کسی شخص کو گھیر گھار کر اپنے نقطۂ نظر پر قائل یا لاجواب کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا کام ہے کہ جس کو وہ درست سمجھتا ہے، اسے احسن انداز سے اپنے دوسرے بھائی تک پہنچا دے۔ داعی کو کبھی بھی جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، اور نہ ہی اپنے مخاطب یا اس کے راہنما کو ڈائریکٹ تنقید کا نشانہ بنانا چاہیے جس کے نتیجہ میں ضد پیدا ہونے کا امکان ہو،کیونکہ ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی، کبھی سیدھے راستے کی راہنمائی نہیں کر سکتے۔ لہذا رمضان المبارک کا استقبال ہمیں اس طرح کرنا چاہیے کہ ہم پر یہ واضح ہو جائے کہ “حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی کے لیے ہے”(بنی اسرائیل:۸۱)اور ساتھ ہی یہ بھی کہ :”اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ”(البقرہ:۴۲)۔ استقبالِ رمضان: ماہِ رمضان کااستقبال کریں اپنے قول سے، اپنے عمل سے، اسلامی نظریۂ حیات کو عام کر کے اور ان طریقوں کو اختیار کرکے جو ہم پر لازم آتے ہیں۔ استقبال کریں ماہِ رمضان کا اس عہد و پیمان کے ساتھ جس کے نتیجہ میں ہماری زندگیاں نہ صرف ہمارے متعلقین کے لیے بلکہ عوام الناس کے لیے بھی سودمند ثابت ہوں۔ استقبال کریں رمضان المبارک کا اس طرح کہ یہ استقبال امت مسلمہ کے عروج کا ذریعہ بن جائے کیونکہ اللہ کے رسول نے خود یہ مژدہ سنایا تھا کہ اگر تم نے میری دعوت مان لی تو تم عرب و عجم دونوں کے مالک بن جاؤ گے اور استقبال کریں ہر اس عبادت پر عمل کر کے جس کے ذریعہ ہمیں اللہ کی محبت اور قرب حاصل ہوجائے۔ سلمان فارسیؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی کریم ؐ نے خطبہ دیا جس میں فرمایا:”اے لوگو! ایک بڑی عظمت والا، بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے۔ وہ ایسا مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس مہینہ کی راتوں میں تراویح پڑھنا نفل قرار دیا ہے (یعنی فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے، جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے)۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خوشی سے بطور خود کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے کہ رمضان کے سوا اور مہینوں میں فرض ادا کیا ہو، اور جو اس مہینہ میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینہ میں کسی نے ستّر (70) فرض ادا کیے، اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، اور یہ مہینہ معاشرے کے غریب اور حاجتمندوں کے ساتھ مالی ہمدردی کا مہینہ ہے”(بیہقی فی شعبان الایمان)۔ یہ وہ عبادات ہیں جن کو اختیار کرنا ہر مسلم کے لیے لازم ہے۔ لہذا یہ عبادات ہمارے ظاہر و باطن کو تبدیل کردیں، اسی کے لیے اپنے فکر و قلب کو تیار کرلینا ہے ۔پس یہی ہے استقبال، یہی ہے استفادہ اور یہی ہے منزلِ مقصود!!