ماہ رمضان، ماہ فضیلت و تربیت

216

روزے کے کئی جہات سے گوناگوں مادی، روحانی، طبی اور معاشرتی آثار ہیں، جو اس کی ذریعے وجود انسانی میں پیدا ہوتے ہیں، روزہ رکھنا اگرچہ ظاہراً سختی و پابندی ہے لیکن انجام کار انسان کے لئے راحت و آسائش اور آرام و سلامتی کا باعث ہے، یہ بات طے ہے کہ اللہ تعالٰی ہمارے لئے راحت و آسانی چاہتا ہے نہ کہ تکلیف و تنگی، روزہ بھی دوسری عبادات کی طرح خدا کے جاہ و جلال میں کوئی اضافہ نہیں کرتا بلکہ اس کے تمام تر فوائد خود انسانوں کیلئے ہیں، ذٰلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔
روزے کے نتیجے میں جو اثرات روزہ دار پر مرتب ہوتے ہیں، ان میں سے اہم ترین اخلاقی و تربیتی پہلو ہے، روزے روح انسانی کو لطیف تر، ارادے کو قوی تر اور مزاج انسانی کو معتدل تر بنا دیتے ہیں، روزہ دار حالت روزہ میں آب و غذا کی دستیابی کے باوجود اس کے قریب نہیں جاتا، اسی طرح وہ تمام جنسی لذات سے دوری و اجتناب اختیار کر لیتا ہے اور عملی طور یہ ثابت کر دیتا ہے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کی قید میں نہیں ہے، سرکش نفس کی لگام اس کے قبضے اور اختیار میں ہے، ہوس و شہوت و خواہشات نفسانی اس کے کنٹرول میں ہیں نہ کہ اس کے برعکس۔
حقیقت میں روزے کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی و معنوی اثر ہے، وہ انسان کہ جس کے قبضے میں طرح طرح کی غذائیں اور مشروبات ہوتی ہیں، جب اسے بھوک و پیاس محسوس ہوتی ہے تو فوراً ان کے پیچھے دوڑ نکلتا ہے، لیکن یہی روزہ وقتی پابندی کے ذریعے انسان میں قوت مدافعت اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اس انسان کو سخت سے سخت حوادث کے مقابلے کی طاقت بخشتا ہے، غرض کہ روزہ انسان کو حیوانیت سے بلند کرکے فرشتوں کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔
حضرت امام علی (ع) سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) سے پوچھا گیا کہ ہم کون سا کام کریں کہ جس کی وجہ سے شیطان ہم سے دور رہے، آپ (ص) نے فرمایا: الصوم یسود وجھہ، روزہ شیطان کا منہ کالا کر دیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ الصوم جنۃ من النار، روزہ جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے ڈھال ہے۔ امام علی (ع) روزے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے روزے کو شریعت میں اس لئے شامل کیا تاکہ لوگوں میں روح اخلاص کی پرورش ہو، پیغمبر اکرم (ص) نے ایک اور مقام پر فرمایا ہے کہ بہشت کا ایک دروازہ ہے، جس کا نام ریان (سیراب کرنے والا) ہے، اس میں سے صرف روزہ دار داخل جنت ہونگے، روایت میں ہے کہ روزے دار کو چونکہ زیادہ تکلیف پیاس کی وجہ سے ہوتی ہے جب روزہ درار اس دروازے سے داخل ہوگا تو وہ ایسا سیراب ہوگا کہ اسے پھر کبھی بھی پیاس و تشنگی کا احساس نہ ہوگا۔
حمزہ بن محمد نے امام حسن عسکری (ع) کو خط لکھا اور پوچھا کہ اللہ تعالٰی نے روزے کو کیوں فرض کیا ہے؟ تو آپ (ع) نے جواب میں فرمایا: تاکہ غنی اور دولتمند شخص کو بھی بھوک کی تکلیف کا علم ہوجائے اور وہ فقیروں پر ترس کھائے (من لا یحضر الفقیہ جلد ۲ ص ۵۵) ایک اور مشہور حدیث میں امام صادق (ع) سے منقول ہے کہ ہشام بن حکم نے روزے کی علت اور سبب کے بارے میں پوچھا تو آپ (ع) نے فرمایا: روزہ اس لئے واجب ہوا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہوجائے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ غنی و مالدار بھی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے، کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں ان کے لئے فراہم ہوتا ہے، خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے درمیان مساوات قائم ہو اور دولتمند کو بھی بھوک، اور رنج کا ذائقہ چکھائے، تاکہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔ غرض کہ روزے کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں و معاشرے کے محروم افراد کی کیفیت کا احساس کرسکتے ہیں اور اپنے شب و روز کی غذا میں بچت کرکے ان کی مدد کرسکتے ہیں۔
روزے تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی پر طبی لحاظ سے بہترین اثرات مرتب کرتے ہیں، طب کی جدید تحقیقات کی روشنی میں روزہ بہت سی بیماریوں کے علاج کے لئے معجزانہ اثر رکھتا ہے، روزے سے انسانی معدے کو ایک نمایاں آرام ملتا ہے اور اس فعال ترین مشینری (معدے) کو آرام کی بہت ضرورت ہوتی ہے، یہ بھی واضح ہے کہ حکم اسلامی کی رو سے روزہ دار کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سحری و افطاری کے کھانے میں افراط و اضافہ سے کام لے، تاکہ روزہ سے مکمل طبی نتیجہ حاصل کیا جاسکے، روزے کے بارے میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ ‘روزہ رکھو تاکہ صحت مند رہو‘‘، ایک اور حدیث آپ سے مروی ہے کہ ‘معدہ ہر بیماری کا گھر ہے اور امساک و فاقہ اعلٰی ترین دوا ہے‘‘ (بحار الانوار جلد ۱۴ ص ۳۴) ماہ مبارک رمضان آسمانی کتب کے نزول اور تعلیم و تدریس کا مہینہ ہے، اس ماہ اللہ کی یاد میں قلوب نیکی کی جانب مائل ہوتے ہیں، اس لئے روح انسانی کی تربیت آسانی سے ہو جاتی ہے، سانسیں تسبیح کی مانند ہوتی ہیں اور سونا عبادت ہوتا ہے، اعمال و دعائیں قبول ہوتی ہیں، پیغمبر اسلام (ص) نے ماہ مبارک رمضان کی فضائل و برکات کے حوالے سے اپنے خطبہ میں کہا ہے کہ اے لوگو! یہ مہینہ تمام مہینوں سے بہتر ہے، اس کے دن دوسرے ایام سے بہتر، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں خدا نے مہمان بننے کی دعوت دی ہے اور تمہیں ان لوگوں میں سے قرار دیا گیا ہے جو خدا کے اکرام و احترام کے زیر نظر ہیں، اس میں تمہاری سانسیں تسبیح کی مانند ہیں، تمہاری نیند عبادت ہے اور تمہارے اعمال و دعائیں مستجاب ہیں۔ لہذا خالص نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ خدا سے دعائیں مانگو، تاکہ وہ تمہیں روزہ رکھنے اور تلاوت قرآن کرنے کی توفیق عطا فرمائے، کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس مہینے خدا کی بخشش سے محروم رہ جائے، اپنے فقراء و مساکین پر احسان کرو، اپنے بڑے بوڑھوں کا احترام کرو، اور چھوٹوں پر مہربان ہو جاو، رشتہ داروں کے روابط کو جوڑ دو، اپنی زبانیں گناہوں سے پاک رکھو، اپنی آنکھیں ان چیزوں کو دیکھنے سے باز رکھو، جن کا دیکھنا حلال نہیں، اپنے کانوں کو ان چیزوں کے سننے سے روکو جن کا سننا حرام ہے اور لوگوں کے یتیموں سے شفقت و مہربانی سے پیش آجاو، تاکہ وہ بھی تمہارے یتیموں سے یہی سلوک کریں۔ ( وسائل الشیعہ جلد ۸ باب احکام شہر رمضان)

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.