رمضان المبارک کا وہ تاریخ ساز معرکہ
انسانی تاریخ میں آج تک جتنے معرکے ہوئے ہیں اس کی واحد وجہ ایک گروہ کا دوسرے گروہ پر حصولِ اقتدار رہا ہے۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کا جھوٹا دعویٰ پیش کرنے والے اقتدار حاصل کرنے کے بعد زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور انسانوں کے لیے عذاب بن کر نازل ہوتے ہیں، لیکن یہ واقعہ ذرا مختلف ٹھہرا۔ یہاں ہوا یہ کہ انسانوں کے گروہ یا ایک قوم سے تعلق رکھنے والوں کو فتح نہیں ملی بلکہ یہ فتح اعلان تھی اس عقیدہ اور تہذیب کی جس کو خود اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے۔ یہ وہ تاریخ ساز دن تھا جب تین سو تیرہ لوگوں نے جن کی فوجی تیاری ظاہری طور پر برائے نام تھی، ایک ہزار لوگوں کو شکتِ فاش دے دی۔ یہ وہ دن تھا جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب رہتی دنیا تک روئے زمین پر اللہ کی عبادت ہوتی رہے گی اور نبوت محمدی (ص) کی اس خصوصیت کا اظہار ہوتا رہے گا کہ “میرے لیے پوری زمین مسجد بنا دی گئی ہے”۔یہ وہ دن تھا جب کہ حق کو حق ثابت کردیا گیا اور کافروں کی جڑ کاٹ دی گئی، تاکہ حق واضح ہو جائے اور باطل تو مٹنے ہی کے لیے ہے۔ یہ وہ دلیلِ روشن تھی جہاں یہ حقیقت واضح کردی گئی کہ عقیدوں، تہذیبوں اور قوموں کے درمیان معرکوں میں فتح و شکست کا انحصار تعداد اور مادی وسائل پر نہیں، بلکہ اپنے مقاصد سے وابستگی، وفاداری، جاں نثاری، قربانی اور استقامت پر ہے۔ یہ وہ دن تھا جب کہ بتایا گیا کہ امت کا مقصود و ہدف اللہ تعالیٰ ہے، اسی لیے قرآن کی زبان میں ایمان، تقویٰ اور صبر ہی وہ کنجیاں ہیں جن سے فتح و نصرت کے دروازے کھلتے ہیں، دشمنوں کے مکر و قوت کے تاروپود بکھر جاتے ہیں، فرشتے ہزاروں کی تعدا د میں پشت پناہی کرتے ہیں، قلت سامان و تعداد کے باوجود غلبہ نصیب ہوتا ہے اور آسمان و زمین سے برکتوں کے دہانے کھل جاتے ہیں۔ جنگ کے اسباب : ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ عمل جتنا شدید ہوگا رد عمل بھی اتنا ہی شدید ہوگا۔ قانون فطرت ہے کہ جو چیز جتنی دبائی جاتی ہے اتنی ہی وہ ابھر کر سامنے آتی ہے اور پھر ہر عمل کے چند محرکات ہوتے ہیں۔ کچھ اسباب ظاہری ہوتے ہیں اور کچھ خفیہ۔ جنگ کی وجہ بھی فوری نہیں ہوتی بلکہ ایک طویل عرصہ پر محیط ہوتی ہے۔ ایک عرصہ سے پس پردہ بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں، فوری وجہ تو ایک بہانہ بنتی ہے۔ غزوہ بدر بھی کسی فوری اور اضطراری سوچ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ حق و باطل کے اس معرکہ کی وجوہات حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اعلان نبوت سے ہجرتِ مدینہ تک ان گنت واقعات کے دامن میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اگرچہ چند واقعات کو فوری وجوہات میں شمار کیا جاسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تصادم اسی روز ناگزیر ہو گیا تھا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کفر و شرک کی آگ میں جلتے ہوئے سماج میں اعلائے کلمتہ الحق کا پرچم بلند کیا تھا اور جس روز آپ (ص) نے لوگوں کو پتھر کے بتوں کی پرستش کو ترک کرکے خدائے وحدہ لا شریک کی بارگاہ میں سر بسجود ہونے کی دعوت دی تھی۔ آفتاب ہدایت کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی اندھیروں نے اپنی بقا کی جنگ کے لیے صف بندی کا آغاز کر دیا تھا۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف سازشوں اور شر انگیزیوں کا سلسلہ اصل میں غزوہ بدر کا دیباچہ تھا۔ ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمان منظم ہونے لگے اور کفار کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ مسلمان ایک قوت بن کر ابھریں گے اور ان کا اقتدار ہی نہیں بلکہ پورا نظام باطلِ خطرے میں پڑ جائے گا۔ جب یہ اندیشے حقیقت میں تبدیل ہونے لگے تو مشرکین مکہ کے لیے مسلمانانِ مدینہ کے ساتھ مسلح تصادم کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اعلان نبوت کے ساتھ ہی اسلام کے خلاف اعلان جنگ ہو گیا تھا۔ گو اس تصادم کا موقع پندرہ سال بعد پیش آیا لیکن ایک عرصے سے کفار و مشرکین نفرت کا لاوا اپنے سینوں میں ابال رہے تھے نیز وحشت و بربریت کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ اس وحشت و بربریت کا مظاہرہ اس طرح کیا جاتا کہ کبھی مسلمانون کو انگاروں پر لٹایا جاتا، کبھی انہیں تپتی ریت پر گھسیٹنے کا غیر انسانی فعل انجام دیا جاتا، کبھی رسول اللہ (ص) پر سجدے کی حالت میں اونٹ کی اوجڑی ڈال کر خوشیاں منائی جاتیں تو کبھی آپ (ص) کے قتل کی سازش کرکے قریش اپنے خبیث باطن کا مظاہرہ کرتے، کبھی شعب ابی طالب میں خاندان رسول (ص) کا معاشرتی بائیکاٹ کرکے انتقام کی آگ کو سرد کیا جاتا، اور اس طرح کے بے شمار ظلم و ستم کہ جب بنی (ص) کو یہ کہنا پڑتا کہ صبر کرو، کیونکہ صبر ہی تمہیں کامیابی سے ہمکنار کرے گا نیز وہ وقت بھی یاد کرو جب کہ ایک اللہ وحدہ لاشریک کا اعلان کرنے والوں کو زمین میں گاڑا جاتا اور ان کے سروں کو آروں سے چیر دیا جاتا۔ پھر یہ آگ جو مکہ کے کفار و مشرکین کے درمیان بھڑکائی گئی تو سرد ہونے کی بجائے مزید بھڑکتی رہی، سینوں میں نفرت کا لاوا کھولتا رہا اور آخرکار وہ وقت آگیا جبکہ اللہ کے اٹل فیصلہ کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ کفار و مشرکین ذلیل و خوار ہوئے اور پیغمبر اسلام (ص) کی قیادت میں اللہ کے بندے فتح و کامیابی سے ہمکنار ۔ تجارتی قافلہ : اہل مکہ کا سب سے بڑا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ بڑے بڑے تجارتی قافلے گرد و پیش کی منڈیوں میں رواں دواں رہتے۔ مدینہ میں مسلمانوں کی مرکزی حیثیت ہو جانے کا انھیں بڑا قلق تھا چنانچہ مشرکین مکہ کے سردار عوام الناس کو خصوصاً نوجوانوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے اور نبی کریم (ص) اور ان کے پیروکاروں کے لیے نفرت پیدا کرتے رہتے۔ کفار مکہ اسلام دشمنی میں بوکھلائے ہوئے تھے اسی لیے انھوں نے تجارت کے نفع سے ایک مخصوص حصہ لازمی طور پر جنگی تیاریوں کے لیے بھی مختص کرنا شروع کردیا تھا۔ دشمن کی عسکری قوت پر کاری ضرب لگانے کے لیے اور ان کی اقتصادی ناکہ بندی سے آخر مسلمان ہی کیوں دستبردار رہتے، انھیں بھی اپنے دفاع کا حق حاصل تھا۔ کفار کی جنگی تیاریوں کے پیش نظر مسلمانان مدینہ بھی چوکنے تھے اور مدینہ منورہ پر کفار کے متوقع حملہ کا جواب دینے کے لیے دفاعی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اپنے دفاع سے غفلت بہت ہی برا فعل ہے۔ اسی لیے حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دفاعی حکمت عملی اپنائی۔ آپ (ص) نے روایتی انداز کی بجائے نئے زاویہ نگاہ سے دفاع کے جملہ پہلوؤں کا جائزہ لیا اور گشتی دستوں کی تشکیل کرکے دشمن کی نقل و حرکت خصوصاً اس کی اقتصادی ناکہ بندی پر اپنی توجہ مرکوز کی اور بہت جلد اس کے حوصلہ افزا نتائج بھی حاصل ہونے شروع ہو گئے۔ آپ(ص) نے اہل یثرب، عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے “میثاق مدینہ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک مشرک کا قتل: رجب ۲ ہجری میں حضرت عبداللہ بن حجشؓ کو آٹھ آدمیوں کے ہمراہ دشمن کی نقل و حرکت معلوم کرنے کی غرض سے مکہ اور طائف کے درمیان گھات لگا کر بیٹھنے کے لیے روانہ کیا۔ مقام نخلہ پر مشرکین کے ایک قافلے کے ساتھ تصادم کے نتیجہ میں ایک مشرک عمرو بن حضرمی مارا گیا اور دو آدمی قیدی بنا لیے گئے نیز قافلے کے سامان پر قبضہ کر لیا گیا۔ جب اس واقعہ کی اطلاع آپ (ص) کو ملی تو آپ (ص) سخت ناراض ہوئے کیونکہ اس دستے کو آپ (ص) نے لڑنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ ابن حضرمی کا قتل حرمت والے مہینے میں ہوا تھا اس لیے مشرکین نے اس واقعہ کو مسلمانوں کے خلاف خوب اچھالا کہ مسلمانوں نے حرمت والے مہینوں کو بھی حلال کر لیا ہے۔ عرب قبائل کے لیے حرمت والے مہینوں کا احترام ایک جذباتی مسلہ تھا۔ ان کے مخالفانہ پروپیگنڈے کا مقصد بھی یہی تھا کہ رائے عامہ ہموار کی جائے اور مسلمانون کے خلاف ایسا ماحول تیار کر دیا جائے کہ کفار و مشرکینِ مکہ مسلمانون پر حملہ آور ہوں۔ مجاہدین اسلام سے حرمت والے مہینے میں یہ کارروائی محض ایک غلط فہمی کی بنا پر ہوئی تھی، کیونکہ وہ درست اندازہ نہیں لگا سکے کہ آیا حرمت والے مہینہ کا آغاز ہو چکا ہے یا نہیں۔ لیکن ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ سنایا، کہا کہ:”لوگ آپ (ص) سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں، فرما دیں اس میں جنگ بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام(خانہ کعبہ) سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک (اس سے بھی) بڑا گناہ ہے اور یہ فتنہ انگیزی قتل و خون سے بھی بڑھ کر ہے”(البقرہ:۲۱۷)۔ اس آیت کریمہ کے نزول نے گشتی دستے کے اراکین کا ذہنی بوجھ کم کردیا۔ ساتھ ہی عالم کفر کو اسلام پر وار کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ نہیں لگ سکا اور اسلام کی تصویر مسخ کرنے والوں کو بھی خاموش ہو جانا پڑا۔ ابوسفیان کا قافلہ اور جنگی تیاریاں: قریش مکہ نے اسلامی ریاست مدینہ کو مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور جنگ کی بھرپور تیاریاں شروع کردیں۔ افرادی قوت کو مضبوط بنانے کے لیے انھوں نے مکہ کے گرد و نواح کے قبائل سے معاہدات کیے اور معاشی وسائل کو مضبوط کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مرتبہ جو تجارتی قافلہ شام بھیجا جائے اس کا تمام منافع اسی غرض کے لیے وقف ہو۔ چنانچہ ابوسفیان کو اس قافلے کا قائد مقرر کیا گیا اور مکہ کی عورتوں نے اپنے زیور تک کاروبار میں لگائے۔ اسلامی ریاست کے خاتمے کے اس منصوبے نے مکہ اور مدینہ کے درمیان کشیدگی میں بہت اضافہ کردیا۔ جب ابوسفیان کا مذکورہ بالا قافلہ واپس آرہا تھا تو ابوسفیان کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ قافلہ راستے ہی میں نہ لوٹ لیا جائے۔ چنانچہ اس نے ایک ایلچی کو بھیج کر مکہ سے امداد منگوائی۔ قاصد نے عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیر دی اور رنگ دار رومال ہلا کر شور کردیا کہ ابو سفیان کے قافلے پر حملہ کرنے کے لیے محمد (ص) بڑھے چلے آرہے ہیں۔ اہل مکہ سمجھے کہ قریش کا قافلہ لوٹ لیا گیا۔ سب لوگ انتقام کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں معلوم ہوا کہ یہ قافلہ صحیح سلامت واپس آرہا ہے تو ان کے درمیان اختلاف رائے قائم ہو گیا کہ آیا یہ حملہ کیا جائے یا نہیں لیکن قریش کا طاغوتِ اکبر ابوجہل کھڑا ہو گیا اور نہایت کبر و غرور سے بولا:”خدا کی قسم ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ بدر جا کر وہاں تین روز قیام کریں گے اور اس دوران اونٹ ذبح کریں گے۔ لوگوں کو کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے۔ لونڈیاں ہمارے لیے گانے گائیں گی اور سارا عرب ہمارا اور ہمارے سفر و اجتماع کا حال سنے گا اور اس طرح ہمیشہ کے لیے ان پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی”۔لیکن ابو جہل کے علی الرغم اخنس بن شریق نے یہی مشورہ دیا کہ واپس چلے چلو مگر لوگوں نے اس کی بات نہ مانی اس لیے وہ بنو زہرہ کے لوگوں کو ساتھ لے کر واپس ہوگیا۔ بنو زہرہ کے علاوہ بنو ہاشم نے بھی چاہا کہ واپس چلے جائیں لیکن ابوجہل نے بڑی سختی کی اور کہا کہ جب تک ہم واپس نہ ہوں گے یہ گروہ ہم سے الگ نہ ہونے پائے۔ رسول اللہ (ص) کی مجلس مشاورت: مدینہ میں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپ (ص) نے مجلس مشاورت قائم کی اور خطرے سے نپٹنے کے لیے تجاویز طلب فرمائیں۔ مہاجرین نے جانثاری کا یقین دلایا۔ پھر حضرت مقداد بن عمروؓ اٹھے اور عرض کیا “اے اللہ کے رسول (ص)! اللہ نے آپ (ص) کو جو راہ دکھلائی ہے اس پر رواں دواں رہیے، ہم آپ (ص) کے ساتھ ہیں۔ خدا کی قسم ہم آپ (ص) سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنو اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں، بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ آپ اور آپ (ص) کے پروردگار چلیں اور لڑیں اور ہم بھی آپ (ص) کے ساتھ ساتھ لڑیں گے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ (ص) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپ (ص) ہم کو بَرک غماد تک لے چلیں تو ہم راستے والوں سے لڑتے بھڑتے آپ (ص) کے ساتھ وہاں ابھی چلیں گے”۔ آپ (ص) نے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سے سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ بخدا! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اے اللہ کے رسول (ص) آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ (ص) نے فرمایا، ہاں! انھوں نے کہا:”ہم تو آپ (ص) پر ایمان لائے ہیں، آپ (ص) کی تصدیق کی ہے اور یہ گواہی دی ہے کہ آپ (ص) جو کچھ لے کر آئے ہیں سب حق ہے اور اس پر ہم نے آپ سے سمع و طاعت کا عہد کیا ہے، لہذا اے اللہ کے رسول آپ کا جو ارادہ ہے اس کے لیے پیش قدمی فرمائیے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ (ص) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپ (ص) ہمیں ساتھ لے کر سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اسمیں بھی آپ (ص) کے ساتھ کود پڑیں گے۔ ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہمیں قطعاً کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ کل آپ (ص) ہمارے ساتھ دشمن سے ٹکرا جائیں۔ ہم جنگ میں پامرد اور لڑنے میں جوانمرد ہیں اور ممکن ہے اللہ آپ (ص) کو ہمارا وہ جوہر دکھلائے جس سے آپ (ص)کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔ پس آپ (ص) ہمیں ہمراہ لے کر چلیں۔ اللہ برکت دے”۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعدؓ بن معاذ نے رسول اللہ (ص) سے عرض کیا کہ :”غالباً آپ (ص) کو اندیشہ ہے کہ انصار اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ وہ آپ (ص) کی مدد محض اپنے دیار میں کریں اس لیے میں انصار کی طرف سے بول رہا ہوں اور ان کی طرف سے جواب دے رہا ہوں کہ آپ (ص) جہاں چاہیں تشریف لے چلیں، جس سے چاہیں تعلق استوار کریں اور جس سے چاہیں تعلق کاٹ لیں۔ ہمارے مال میں سے جو چاہیں لے لیں اور جو چاہیں دے دیں اور جو آپ لے لیں گے وہ ہمارے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ ہوگا جسے آپ (ص)چھوڑ دیں گے۔ اور اس معاملے میں آپ (ص) کا جو بھی فیصلہ ہوگا ہمارا فیصلہ بہرحال اس کے تابع ہوگا۔ خدا کی قسم اگر آپ (ص) ہمیں لے کر سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی کود جائیں گے”۔ حضرت سعدؓ کی یہ بات سن کر رسول اللہ (ص) پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آپ (ص) پر نشاط طاری ہوگئی۔ آپ (ص) نے فرمایا “چلو اور خوشی خوشی چلو، اللہ نے مجھ سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا ہے۔ واللہ اس وقت گویا میں قوم کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں”۔ مشاوت کے بعد مجاہدین کو تیاری کا حکم ہوا۔ مسلمانوں کے ذوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نوعمر صحابی حضرت عمیر بن ابی وقاص اس خیال سے چھپتے پھرتے تھے کہ کہیں کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس نہ بھیج دیے جائیں۔ اس کے باوجود مجاہدین کی کل ۳۱۳ تعداد سے زیادہ نہ ہوسکی۔ یہ لشکر بڑی شان سے میدان کارزار کی طرف بڑھ رہا تھا جبکہ کسی کے پاس لڑنے کے لیے پورے ہتھیار بھی نہ تھے۔ پورے لشکر کے پاس صرف ۷۰ اونٹ اور ۲ گھوڑے تھے جن پر باری باری سواری کرتے تھے۔ مقام بدر پر پہنچ کر ایک چشمہ کے قریب یہ مختصر سا لشکر خیمہ زن ہوا۔ مقابلے پر تین گناہ سے زیادہ لشکر تھا۔ ایک ہزار قریشی جوان جن میں سے اکثر سر سے پاؤں تک آہنی لباس میں ملبوس تھے وہ اس خیال سے بدمست تھے کہ وہ صبح ہوتے ہی ان مٹھی بھر فاقہ کشوں کا خاتمہ کردیں گے لیکن قدرت کاملہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ رات بھر قریشی لشکر عیاشی و بد مستی کا شکار رہا۔ خدا کے نبی (ص) نے خدا کے حضور دعائیں کیں اور اللہ نے فتح کی بشارت دے دی۔ جس طرف مسلمانوں کا پڑاؤ تھا وہاں پانی کی کمی تھی اور ریت مسلمانوں کے گھوڑوں کے لیے مضر ثابت ہو سکتی تھی۔ لیکن اللہ نے باران رحمت سے مسلمانوں کی یہ دونوں دقتیں دور کردیں۔ ریت جم گئی اور قریشی لشکر مقبوضہ چکنی مٹی کی زمین پر کیچڑ پیدا ہوگئی۔ کامیابی کے اسباب: کہا کہ:”اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بےخوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا، اور آسمانوں سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جمادے”(الانفال:۱۱)۔ مزید اسی سورۃ میں بتایا گیا کہ اس فتح کے پیچھے اللہ کی مشیت کارفرما تھی۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ حق حق ہوجائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دی جائے، یعنی یہ محض اتفاقی جنگ نہیں تھی۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ جنگ بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لیے اللہ نے فرشتوں کو بھیجا اس لیے کہ مسلمانوں کے قلوب مطمئن ہو جائیں۔ ایک حدیث قدسی کے مطابق مومن فرائض اور نوافل (اپنی مرضی سے زائد عبادت اور اطاعت گزاری، یعنی مستحبات) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی سماعت اور بصارت اور ہاتھ بن جاتے ہیں۔ یعنی اس کا فعل اللہ تعالیٰ کا فعل ہو جاتا ہے۔ اصحابؓ بدر کا یہ مقام ہے کہ اللہ نے ان کے قتال کو اپنی طرف نسبت دی اور رسول اللہ (ص) کی یہ شان ہے کہ ان کا مٹھی بھر ریت پھینکنا اپنا فعل قرار دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شہادت کا شوق بیدار ہوا۔ مشہور قریشی سردار موت کے گھاٹ اتارے گئے، ان میں عتبہ، ولید اور شبیہ قریش کے بہت ہی بہادر سردار سمجھے جاتے تھے۔ ان کے قتل سے قریش کے حوصلے پست ہو گئے۔ بعد میں ابو جہل کی ہلاکت نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ قریش کی صفوں میں انتشار برپا ہو گیا۔ کفار و مشرکین کے درمیان بد دلی اور اختلاف پیدا ہوا اور ان کی اجتماعیت منتشر ہو گئی۔ یہی وہ جنگ تھی جس میں حق و باطل کا فرق مکمل طور پر واضح ہو گیا۔ قریش کے غرور کا سرنیچا ہوا اور مدینہ میں اسلام کی مزید اشاعت تیزی کے ساتھ شروع ہوگئی۔ مدینہ میں بنو اوس اور بنو خزرج قبائل کے بہت سے لوگوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ اور وہ ہوا کے رخ کو دیکھ رہے تھے۔ ۳۱۳ کے ہاتھوں ایک ہزار قریشی سرداروں کی شکست نے ان پر لات و منات و عزیٰ و ہبل کی قوت کا کھوکھلا پن واضح کردیا۔ منافقین بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور عبداللہ بن ابی”رئیس المنافقین”نے بھی جنگ بدر کے بعد مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔ اس کے علاوہ بےشمار واقعات رونما ہوئے جن کے آخر میں مثبت نتائج اخذ ہوئے۔ پیغام ربانی: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی۔ اور اللہ اور اس کے رسول (ص) کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور ان لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھر سے اِتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، جو کچھ وہ کررہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے”(الانفال:۴۵-۴۷)۔ اور کہا کہ:”اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہوگا۔اور اے نبیؐ، اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے”(الانفال:۶۰-۶۱)۔ یہ ہے وہ پیغام کہ جس پر چل کر آج ایک بار پھر امت مسلمہ سربلند ہو سکتی ہے۔ اس میں پہلی چیز اللہ کو مکمل طور پر اپنا رب اور رسول اللہ (ص) کو اپنا قائد و رہنما تسلیم کرنا۔ لیکن یہ تو ہم کرتے رہے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں یعنی اللہ کو رب کہتے ہیں اور رسول اللہ (ص) کو آخری رسول (ص)۔ لیکن پھر بھی معاملہ اس کے برخلاف ہے اور ہماری ذلت و رسوائی میں ہر روزاضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ غور کرنا چاہیے اور سوچنے کا مقام ہے کہ کیا زبان سے اللہ کو رب اور نبی کو نبی ؐ(ص) تسلیم کر لینا کافی ہے؟ کرنے کا کام: یہ حقیقت ہے کہ اخلاقی قوت کے ساتھ ساتھ حسب استطاعت ہر قسم کی مادی قوت کا حصول اور دل کھول کر خرچ کرنا بھی ضروری ہے۔ وہیں دشمن کے خلاف معرکہ میں ثبات اور ذکر الہٰی جتنا ضروری ہے اتنا ہی یہ بھی ضروری ہے کہ افتراق و انتشار اور جھگڑوں سے پاک رہا جائے اور اتحاد و اتفاق ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے۔ یہی وہ راہ ہے جس کو اختیار کرنا، اس پر عمل پیرا ہونا، اس کی تشہیر و تفسیر بیان کرنا ہرخاص و عام مسلمان کے لیے لازم آتا ہے۔ رمضان المبارک کے دوسرے عشرہ کایہ پیغام ہمیں اپنی طرز زندگی کو بدلنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ہمیں اس مہینے میں اپنے اندر اور مسلمان ملت میں ان حقائق کی روح پھونکنے کا عزم کرلینا چاہیے۔ یہی وہ راہ ہے جو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کامیابی سے ہمکنار کرنے والی ہے۔ خداوند عالم کا فرمان ہے کہ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو!