شہادتِ علی (ع) کے چند سبق آموز گوشے
تمہید:۔ شہادتِ علی (ع) کی تمام جہتیں سبق آموز ہیں، تمام کی تمام جہات کا احاطہ مجھ کم ظرف کے بس کی بات نہیں۔ علاوہ ازیں اس مختصر مضمون کی تنگ دامنی تمام پہلوؤں کو سمیٹنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا مشتے از خروارے کا طرز عمل اپنا کر اجمالاً چند پہلوؤں کا تذکرہ کررہا ہوں۔ ا۔ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن: وہ جس کی بہادری و شجاعت کے کارنامے سن کر آج بھی جبینِ باطل سے خجالت و شرمساری کا پسینہ ٹپکے، جسکی شجاعت کے آگے رستمان دہر کی زور آزمائی بازیچۂ اطفال دکھائی دے۔ جس کے قدموں کی آہٹ سے دل رزمگاہ دہل اٹھے۔ کوہ احد کا جلال و ثبات جس کی ثابت قدمی کے سامنے ہیچ نظر آئے۔ وہ خیبر شکن جس نے ہزاروں انسانوں کے قلوب بھی مسخر کئے۔ جس نے بےلگام طاقت و قوت کو شجاعت کے زرّیں اصولوں سے آشنا کیا۔ جس کی تلوار دشمنان اسلام پر بجلی کی مانند کچھ اس انداز سے کوندی کہ کفر و شرک کے خرمن خس و خاشاک کو خاکستر بنا ڈالا۔ مرحب و عنتر اور عمر ابن عبدود جیسے سورماؤں کو جس نے ریت پر بنی بےجان تصویروں کی مانند صفحہ ہستی سے مٹا دیا، بقول علامہ اقبال (رہ) ‘جسکے زورِ حق نواز سے قیصر و کسریٰ کے استبداد کا خاتمہ ہوا۔’ جس طرح حضرت موسٰی (ع) نے دریائے نیل کو ضرب عصاء سے دو حصوں میں تقسیم کرکے دریا کے بیچوں بیچ اپنی قوم کی خاطر راہ سلامتی فراہم کی تھی، اُسی طرح کفار قریش کے دریائے لشکر کو جنگ احد میں جس نے ذوالفقار کے وار سے دو نیم کیا اور اپنے آقا رسول خدا (ص) کو نرغہ اعداء سے صحیح و سلامت باہر لایا۔ باطل کے ایوانوں میں پرچمِ اسلام بلند کرنا جسکے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ جس نے کلِ ایمان کی تجسیم ہو کر جنگِ
” حضرت علی ع مطمئن تو ہوگئے لیکن جام شہادت کی طلب روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ماہ رمضان کی انیسویں تاریخ کی رات کا آغاز ہوا جس کا پیغمبر صادق ص نے حضرت علی ع سے وعدہ فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے حضرت علی ع اس شب کو بار بار یہ کلمات دہرا رہے تھے ‘خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ مجھے غلط بتایا گیا ہے یہی وہ رات ہے جس کا مجھ سے وعدہ کیا گیا ہے’۔ ”
احزاب میں کلِ کفر کا سر قلم کیا۔ فرمانِ پیغمبرِ صادق (ص) کے مطابق جس کی یومِ خندق کی ضربت جن و انس کی عبادت پر بھاری قرار پائی (مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۳۲)، جس کے زور بازو کی بدولت دین اسلام نے اپنے سخت ترین مخالفوں کی ناک زمین پر رگڑ دی۔ جس کے سائے کی بھنک پاکر مغلوبیت اور ناکامی اپنا رُخ بدل دیتی تھی۔ ایسا غازی جسکے جلال کے آگے پیچھے فتح و ظفر ایک ادنیٰ باندی کی طرح دست بستہ کھڑی رہتی تھی۔۔۔ وہی شیرِ جبار ع حیدرِ کرار ع صاحبِ ذوالفقار موت کی تمنا کرے، اپنے شجاعانہ کارناموں پر شہادت کو ترجیح دے۔ راہ خدا میں مرنے کو مارنے سے بالاتر سمجھے۔ شہادت کو باعث افتخار اور منزل مقصود سمجھے تو عقلِ نارسا انگشت بدنداں ہوکر رہ جاتی ہے اور ناقص سوچ کے پیمانوں کو بروئے کار لاکر کچھ اس طرح کے خیال میں غرق ہوجاتی ہے کہ موت کی تمنا تو اسے کرنی چاہیئے جو میدان جنگ سے مغلوب و مقہور ہوکر لوٹ آئے۔ آج تک کسی بھی کامیاب غازی نے مرنے کی تمنا نہیں کی ہے۔ فاتح سپہ سالار تو دوسرو ں کو مارتے مارتے یہ بھی بھلا دیتا ہے کہ ایک دن اُسے بھی موت کے گھاٹ اُترنا ہے۔ وہ بزعمِ خود اپنے آپ کو ماورائے موت سمجھنے لگتا ہے۔ یاالہٰی! یہ کیسا پر اسرار مجاہد ہے۔ جس کی ‘تمنائے شہادت’، ‘ثمرہائے شجاعت’ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتی۔ جہاد میں نمایاں کارکردگی کے باوجود محزون اور فکرمند واپس لوٹتے۔ رسول مختار ص اپنے جانباز کے چہرے پر خوشی کے آثار نہ پاکر خود بھی فکر میں ڈوب جاتے۔ ایک مرتبہ اپنے عزیز کی غمگینی دیکھ کر آپ ص سے رہا نہ گیا۔ پوچھا: اے علی! تیری جانفشانی ،بہادری، اور بیباکی کے سبب قلوبِ مومنین مسرتِ فتحمندی سے لبریز ہیں اور تمہارے چہرے پر غم کے آثار؟ علی ع نے عرض کیا: میرے آقا! کیا میرے نصیب میں شہادت نہیں ہے؟ فرمایا ہاں اے علی ع ‘تجھے شہادت کا رتبۂبلند نصیب ہوگا۔ پچھلے لوگوں میں شقی ترین شخص وہ گزرا ہے جس نے ناقہ صالح کی کوچین کاٹ دیں اور بعد والوں میں شقی ترین انسان تمہارا قاتل ہوگا، (تاریخ خطیب بغدادی)۔ حضرت علی ع مطمئن تو ہوگئے لیکن جام شہادت کی طلب روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ماہ رمضان کی انیسویں تاریخ کی رات کا آغاز ہوا جس کا پیغمبر صادق ص نے حضرت علی ع سے وعدہ فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے حضرت علی ع اس شب کو بار بار یہ کلمات دہرا رہے تھے ‘خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ مجھے غلط بتایا گیا ہے یہی وہ رات ہے جس کا مجھ سے وعدہ
” حضرت علی ع نے شکم پروری سے نہ صرف آخری دم تک اجتناب کیا بلکہ اوروں کو بھی شکم پرستی سے بچنے کی ہدایت اس خوبصورت پیرائے میں کی کہ ‘اپنے شکموں کو جانوروں کا قبرستان مت بناؤ’ قوت و کمزوری کا دارو مدار شکم سیری پر نہیں ہے فاقہ کش بوریا نشین کے زیرنگین بھی روحانی سلطنت آسکتی ہے بشرطیکہ مٹی کے پیکر میں شعلۂ ایمانی روشن ہو۔ یہی درس ہمیں امام علی ع کی زندگی سے ملتا ہے ”
کیا گیا ہے’۔ (صواعق محترمہ ۱۲۴)۔ رات بھر مولا علی ع کی کیفیت اس پیاسے کی سی تھی جو برسوں بےآب و گیا صحرا میں پانی کی تلاش میں پھرتا رہا ہو اور اچانک اسے پانی کا ایک صاف و شفاف چشمہ نظر آئے۔ اسی انیسویں ماہ رمضان کی سحر نمودار ہونے کو آئی تو امیر المومنین محراب عبادت میں کھڑے ہوگئے اور جب نافلہ صبح کی پہلی رکعت سے سر مبارک اُٹھایا تو ابن ملجم نے زہر آلود تلوار سے وار کیا جس سے فرق مبارک شگافتہ ہوگیا۔ شیریزداں نے بیساختہ عجیب و غریب جملہ فرمایا ‘فزتُ ورب الکعبہ’ رب کعبہ کی قسم آج میں کامیاب ہوگیا۔ یہ دنیا کا واحد مجاہد ہے جو اپنی شہادت پر کامیابی کا اعلان کررہا ہے۔ اس طرح کا کلمۂ افتخار زندگی بھر کسی معرکے کو سر کرتے وقت علی ع نے نہیں دہرایا۔ ایسا لگتا ہے کہ امیر المومنین ع کے ہاتھ وہ گوہرِ مقصود آگیا جس کی اُن کو زندگی بھر تلاش تھی۔ خیبر شکن مولا علی ع نے شہادت کا عظیم مرتبہ پاکر ہی اطمینان کی سانس لی یعنی وہ اپنی مطلوبہ منزل پاگئے۔ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمٹ نہ کشور کشائی حضرت امیر ع کی فقیرانہ غذاء: قوت حیدری ع کے حیرت انگریز مظاہرے بظاہر یہی عندیہ دیتے ہیں کہ شاید حیدر کرار ع مقوی غذا نوش فرماتے رہے ہوں گے۔ لیکن ظاہر پرستوں اور محض مادی اسباب پر بھروسہ کرنے والوں کی کنجکاوی اس حوالے سے دھری کی دھری رہ جاتی ہے، جب وہ اس بات سے واقف ہوجاتے ہیں کہ آپ ع کی غذا کیسی ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت علی ع کی غذا فقیرانہ تھی۔ ایک طرف نہایت قلیل اور پھیکی غذا اور دوسری طرف بڑے بڑے بہادروں کو پچھاڑنے والی طاقت اس راز کو فاش کرتی ہے کہ حقیقی مجاہد کی حرارت کا منبع غذا نہیں بلکہ جذبۂ ایمانی ہوا کرتا ہے۔ ایمان جتنا قوی ہو مجاہد بھی اتنا ہی توانا ہوتا ہے۔ آپ نے خود فر مایا ہے کہ میں نے جنگ خیبر میں ،درِخیبر اپنی جسمانی قوت سے نہیں اکھاڑا بلکہ ربّانی قوت سے اکھاڑا ہے۔ (تاریخِ خمیس جلد ۲ صفحہ ۵۱) حضرت علی ع ‘جَو’ کی سوکھی روٹی بہ مشقت توڑ کر تناول کرتے تھے۔ معمولی غذا اور غیر معمولی طاقت کے امتزاج کو شاعر نے یوں بیان کیا ہے۔ نفس اتنا مضمحل، ایمان اس قدر قوی نان جو توڑے نہ ٹوٹے در خیبر توڑدے چنانچہ ماہ رمضان کی انیسویں شب تھی کہ حضرت علی ع اپنی دختر ام کلثوم ع کے یہاں تشریف فرما تھے۔ افطار کے وقت ام کلثوم ع نے کہ دو روٹیاں، ایک پیالہ دودھ کا اور تھوڑا سا نمک جو پیش کیا تو آپ ع نے غذا پر نظر دوڑائی اور ام کلثوم
” خلافتِ علوی ع کے مخالفوں کی فتنہ پردازیوں سے صرف نظر کرکے اگر صرف حضرت علی ع کے تصور حاکمیت، طرز حکومت، زرّیں اصول و قوانین لافانی منشور و ہدایات، اور حر کی بنیادوں (Dynamic Base)پر نئے اداروں کی تشکیل وغیرہ پر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو محسوس ہوگاجیسے آپ ع کو حکومت کرنے کے لئے نہایت ہی پُرسکون ماحول نصیب ہوا تھا۔ ”
سے فرمایا کہ میری بیٹی! تم تو جانتی ہو کہ میں نے اپنے آقا رسول اللہ ص کی پیروی میں زندگی بھر کب گوارا کیا کہ بیک وقت دو دو نعمتیں میری خاطر دسترخوان پر ہوں؟ ام کلثوم ع نے دسترخواں سے دودھ اٹھایا اور قناعت شعار امام نے جو کی روٹی نمک کے ساتھ تناول فرمائی۔ حضرت علی ع نے شکم پروری سے نہ صرف آخری دم تک اجتناب کیا بلکہ اوروں کو بھی شکم پرستی سے بچنے کی ہدایت اس خوبصورت پیرائے میں کی کہ ‘اپنے شکموں کو جانوروں کا قبرستان مت بناؤ’ قوت و کمزوری کا دارو مدار شکم سیری پر نہیں ہے فاقہ کش بوریا نشین کے زیرنگین بھی روحانی سلطنت آسکتی ہے بشرطیکہ مٹی کے پیکر میں شعلۂ ایمانی روشن ہو۔ یہی درس ہمیں امام علی ع کی زندگی سے ملتا ہے جسے علامہ اقبال رہ نے اپنے خاص اندار میں یوں کہا ہے۔ تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر کہ جہاں میں نانِ جو یں پر ہے مدارِ قوت حیدری امام اولیٰ ہوکر ادنیٰ جانوروں کا خیال: جس وقت حضرت علی ع نے خلافت کا منصب سنبھالا اُس وقت سلطنتِ اسلامیہ دنیا کے ایک وسیع و عریض حصے پر قائم ہوچکی تھی۔ ایک طرف اس وسیع و عریض حکومت کی دیکھ ریکھ اور بیرونی دشمنوں سے اس کی طویل سرحدوں کی حفاظت۔ دوسری جانب پیہم سیاسی انتشار، داخلی بغاوتیں اور ان بغاوتوں کو کچلنے کیلئے پے درپے جنگیں۔ یہ صورت حال اس امر کی متقاضی تھی کہ حضرت امیر ع اپنی پوری کی پوری توجہ ان شورشوں کو کچلنے پر صرف کردیتے۔ اپنی تمام ترصلاحیتیں ایک ماہر جرّاح کی طرح فاسد عناصر سے جسدِ مملکت کو پاک کرنے پر لگادیتے۔ ایسے میں اگر نظامِ حکومت محض خامیوں اور کمیوں کا مجموعہ ہوکر رہ جاتا، تو غیرمتوقع نہ تھا۔ لیکن حضرت علی ؑع کی وسعتِ فکر و نگاہ اور بےپناہ قوتِ دافع نہ صرف داخلی انتشار کا مقابلہ کرنے کیلئے کافی تھی بلکہ امور مملکت کے مثبت پہلوؤں اور اساسی لوازمات کو جاری و ساری رکھنے کی بھی صلاحیت رکھتی تھی۔ خلافتِ علوی ع کے مخالفوں کی فتنہ پردازیوں سے صرف نظر کرکے اگر صرف حضرت علی ع کے تصور حاکمیت، طرز حکومت، زرّیں اصول و قوانین لافانی منشور و ہدایات، اور حر کی بنیادوں (Dynamic Base)پر نئے اداروں کی تشکیل وغیرہ پر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو محسوس ہوگاجیسے آپ ع کو حکومت کرنے کے لئے نہایت ہی پُرسکون ماحول نصیب ہوا تھا۔ المختصر اندرونی خلفشار اور امن و سکون کی عدم موجودگی میں بھی حضرت علی ع نے اسلامی
” ۴۰ہجری ماہ صیام کی انیسویں شب خراماں خراماں اختتام کی طرف گذررہی تھی۔ امیر المومنین ع مسجد جانے کے ارادے سے خانہ ام کلثوم ع کے صحن میں آگئے۔ نہ جانے کیوں گھر میں پلی ہوئی بطخیں پر پھڑپھڑاتے ہوئے حضرت ع کی قدم بوسی کیلئے اردگرد جمع ہوگئیں؟ جب کسی نے ان بطخوں کو ہٹانا چاہا تو فرمایا: انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو۔ اور جناب ام کلثوم ع سے مخاطب ہوکر فرمایا بیٹی! ان بےزبان جانوروں کے آب و دانہ کا خیال رکھنا اور اگر ایسا نہ کرسکو تو انہیں رہا کردینا تاکہ یہ خود ہی اپنے آب و دانہ تلاش کرسکیں۔ ”
مملکت کو فکری، عملی، قانونی اور ادارتی اساس فراہم کی۔ نہ صرف امور مملکت کے حوالے سے بنیادی اصول وضع فرمائے بلکہ معمولی سی معمولی جزئیات کو بھی نظر انداز نہیں کیا ۔ ہر طبقے کے معاشرتی، معاشی، فردی، اجتماعی، قانونی، مذہبی، اور بنیادی حقوق کی مساویانہ آبیاری کی۔ آپ ع کی طرزِجہاں بانی پر سعید فطرت لوگوں کو اس قدر اعتماد تھا کہ نہ صرف داد خواہ عدالتِ علوی سے مطمئن ہو کر نکلتا تھا بلکہ سزا یافتہ مجرم بھی علی ع کی انصاف نوازی اور اصول پرستی کے گن گاتا تھا، انسان تو انسان جانوروں کے حقوق پر بھی شب خون مارنے کی حماقت کوئی اس امید پر نہیں کر سکتا تھا کہ بےزبانوں کا دادرس یعنی علی ع اس کا کوئی مواخذہ نہیں کرے گا کیونکہ حضرتِ علی ع نے نہ فقط جانوروں کے ساتھ خود بھی رحیمانہ اور کریمانہ سلوک روا رکھا بلکہ اپنے ماتحتوں کے نام بھی اس سلسلے میں خصوصی ہدایت نامے رقم کئے جن کو تاریخ نے بصداحترام اپنے سینے میں محفوظ رکھا۔ ایسے ہی ایک ہدایت نامے سے یہاں پر اقتباس نقل کیا جاتا ہے تاکہ بخوبی اندازہ ہوجائے اتنا بڑا حاکم جانوروں کے متعلق بھی کس قدر متفکر رہا کرتا تھا۔ زکوٰۃ جمع کرنے والے کارندوں کے نام ایک ہدایت نامے میں تحریر فرماتے ہیں۔ ‘جب تمہارا امین اس مال کو تحویل میں لے لے تو اُس سے فرمائش کرنا کہ وہ اونٹنی اور اُس کے دودھ سے بچے کو الگ الگ نہ رکھے اور نہ سارا دودھ لیا کرے کہ بچے کیلئے ضرر رسانی کا باعث بن جائے اور اُس پر سواری کرکے اُسے ہلکان نہ کر ڈالے۔ اس میں اور اس کے ساتھ کی دوسری اونٹنیوں میں (سواری اور دوہنے میں) انصاف و مساوات سے کام لے۔ تھکے ماندے اونٹ کو سستانے کا موقع دے اور جس کے کُھر گھس گئے ہوں یا پیر لنگڑانے لگے ہوں اُسے آہستگی اور نرمی سے لے چلے اور اُنکی گزر گاہوں میں جو تالاب پڑیں وہاں ان کے پانی پینے کے لئے اُترے اور زمین کی ہریالی سے اُن کا رُخ موڑ کر (بےآب و گیاہ) راستوں پر نہ لے چلے’ (نہج البلاغہ، وصیت ۲۵ ۔ترجمہ مفتی جعفر حسین) زندگی کے آخری لمحوں میں بھی شہادت گاہ کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے انسانیت کے نام یہ پیغام چھوڑ گئے کہ ‘کوئی ذی روح، انسان کے ہاتھوں بغیر مقصد تکلیف میں مبتلا نہ ہو۔ صاحب ایمان کو باریک بین ہونا چاہیئے۔” وہ معمولی سی زیادتی کو بھی سبک نہ سمجھے۔ چنانچہ ۴۰ہجری ماہ صیام کی انیسویں شب خراماں خراماں اختتام کی طرف گذررہی تھی۔ امیر المومنین ع مسجد جانے کے ارادے سے خانہ ام کلثوم ع کے صحن میں آگئے۔ نہ جانے کیوں گھر میں پلی ہوئی بطخیں پر پھڑپھڑاتے ہوئے حضرت ع کی قدم بوسی کیلئے اردگرد جمع ہوگئیں؟ جب کسی نے ان بطخوں کو ہٹانا چاہا تو فرمایا: انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو۔ اور جناب ام کلثوم ع سے مخاطب ہوکر فرمایا بیٹی! ان بےزبان جانوروں کے آب و دانہ کا خیال رکھنا اور اگر ایسا نہ کرسکو تو انہیں رہا کردینا تاکہ یہ خود ہی اپنے آب و دانہ تلاش کرسکیں۔