وداع ماہ رمضان اور ہماری عید

394

اللہ کے اس بابرکت مہینے میں داخل ہونے والوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں، اس طرح اس ماہِ مبارک کو رخصت کرنے والوں کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔ اس مہینے کے استقبال کرنے والوں کے کئی گروہ ہیں۔
1۔ پہلا گروہ وہ تھا جو عاشقانہ اور مشتاقانہ اس رحمت کے مہینے کے انتظار میں تھے، اس کے لیے انہوں نے اپنے خانہ دل کو سجا کر رکھا ہوا تھا، شرعی اور اخلاقی طور پر اللہ کی مہمانی کا حق ادا کیا، عبادات و اخلاقیات کے ذریعے فیوضاتِ الٰہی کو کماتے رہے، اس ماہ میں آنے والے ظاہری اور سرسری مشکلات پر نہ صرف صبر کیا بلکہ شاکرانہ سوچ اور فکر کے ساتھ راضیۃً مرضیہ کی صورت میں اس ماہ کو الوداع کیا۔ 2۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو کبھی ماہ رمضان کے ساتھ ماہ رمضان والا سلوک کرتے تھے اور کبھی عام دوسرے مہینوں والا سلوک کرتے تھے، کبھی مادیات کے پیچھے اور کبھی معنویات کی تلاش میں تھے، کبھی صبر سے کام لیتے تھے اور کبھی شکر سے، اس ماہ کے رخصت ہونے پہ خوشحال بھی ہوتے تھے اور غمگین بھی۔ 3۔ تیسرا گروہ وہ تھا جن کے لیے ماہ رحمت و برکت و مغفرت کے نہ آنے کے بارے میں نہ جانے کے بارے میں کوئی فرق نہیں پڑا، اس مہینے کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو دوسرے مہینے کے ساتھ کرتے تھے، حیوانات کی طرح ہوس پرستی اور شکم سیری کی فکر میں رہے، نہ اس ماہ کی عبادات سے بہرہ مند ہوسکے نہ معنویات کی بو سونگھ سکے، اس گروہ نے اس ماہ کے آنے پر نہیں بلکہ رخصت ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا، گویا زندان سے آزاد ہوگئے ہیں۔ میدان عمل میں مسلمانوں کے یہ تین گروہ ان کی ماہ قیام و صیام کی معرفت و عدم معرفت کی وجہ سے ہوگئے، یقیناً جس شے کی قدردانی اور عزت و احترام وہ کرتا ہے، جس کی معرفت رکھتا ہے۔ اگر اس کی صحیح معرفت حاصل نہ ہو، صحیح شناخت نہ ہو تو اس کا دشمن بن جاتا ہے۔ اس ضیافتِ الٰہی سے رخصت ہوتے وقت ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم نے اس خزانہ الٰہی سے کیا کیا کمایا۔ کتنے گناہ ہمارے معاف ہوگئے، تلاوت قرآن کا کتنا حق ادا ہوا، انسانی ہمدردی کا کتنا سبق ہمیں ملا، اللہ سے ہم اس ماہ میں کتنا قریب ہوگئے اور کتنا دور ہوگئے، کتنا ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑا، کتنی ہماری اصلاح ہوگئی۔ اس ماہ کے رخصت ہونے پر دو قسم کے لوگوں کو افسوس ہوا ہے: ایک وہ گروہ جو واقعاً اللہ کے مہمان تھے، مقامات معنوی اور عرفانی کے حصول کے در پے تھے، حیوانی اور شہوانی خواہشات سے دور ہو کر ملکوتی اور حقیقی انسان جاویدانی لذتوں کی تلاش میں تھے، وہ لوگ شوال کا چاند دیکھ کر گڑگڑا کے اور رشکِ حسرت کے ساتھ اس ماہ کو رخصت کرتے ہیں۔ دوسرا گروہ جن کو اس ماہ کے رخصت ہونے پر بڑا دکھ اور افسوس ہوتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کو اس ماہ عظمت و فضیلت کا ذرا احساس نہیں، یہ لوگ اپنی مارکیٹ، منڈی، دکان، انبار، بازار، مہنگائی، دو نمبری، سود خوری، چرب زبانی کے ذریعے اپنی انواع و اقسام کی اشیاء کو گردش دینے می مصروف تھے، ان کی زبان پر ماہ رمضان کے بجائے کمائی کا سیزن، گولڈن چانس، سنہرا موقع، فرصت سے فائدہ جیسے الفاظ استعمال کرتے تھے، اس ماہ کے رخصت ہونے پر ان لوگوں کو بھی بڑا دکھ اور افسوس ہوتا ہے۔ پیامبر اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام اصحاب کرام کو اس ماہ کو الوداع کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے تھے: یوں دعا مانگو: ‘اے اللہ! اس ماہ کو ہماری زندگی کا آخری مہینہ قرار نہ دینا، اگر یہ ہماری زندگی کا آخری مہینہ ہے تو اس کی رحمت سے محروم نہ کیجئے‘‘ اور فرماتے تھے: جو اس طرح دعا کرے گا وہ دو میں سے ایک فائدہ ضرور حاصل کرے گا یا سال آئندہ بھی اس ماہ سے شرفیاب ہوگا یا اس ماہ بابرکت سے فیضیاب ہوگا۔ عید کی فضیلت جتنی عظیم ہے، اس کی تاریخ بھی اتنی قدیم ہے۔ انسانی تاریخ میں تاریخ انبیاء (ع) میں کسی نہ کسی مناسبت سے کوئی ایسا دن ضرور آجاتا تھا جس کو وہ عید کے دن کے طور پر مناتے تھے، خوشیاں مناتے اور خود کو زینت دیتے تھے۔ ہم مسلمانوں کے لیے اگرچہ بہت سی مناسبات سال میں عید کی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن خاص دو عیدیں ہیں، عیدالفطر اور عید الاضحٰی زیادہ نمایاں اور عظمت و شرافت کے حامل ہیں، ان دونوں عیدوں کے لیے عالم اسلام کے مسلمانوں کو شدت سے انتظار رہتا ہے۔ مسلمانوں، نماز گزاروں اور روزہ داروں کے لیے عید کا دن اللہ سے اپنی عبادات کی قبولیت کی عیدی لینے کا دن ہے، عید کا دن عبادات کے اختتام کا دن نہیں، بلکہ یہ خود ایک عبادت کی رات اور عبادت کا دن ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح ماہ رمضان کی فضیلت کو نہ جاننے کی وجہ سے بعض لوگ اس کو صرف کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں، اسی طرح عید کے دن کی صحیح پہچان اور معرفت نہ ہونے کہ وجہ سے بعض لوگ اس عبادت کے دن کو بھی معصیت کا رنگ اپناتے ہیں، عید کا دن انسانی ہمدردی، صلۂ رحمی، اللہ کی رضامندی کی خوشی کا دن ہے۔ عید کی نماز بصیرت رکھنے والے مسلمانوں کے لیے قیامت کا منظر پیش کرتی ہے، لوگ ایک ہی رنگ کے لباس میں منظم طور پر گھروں سے عیدگاہ کی طرف یوں نکلتے ہیں جیسے قبروں سے کفن پوش، انسانوں کا سیلاب، میدان محشر کی طرف رواں دواں ہو۔ عید کے دن عید کی نماز میں پڑھی جانے والی تکبیرات کے معنی و مفہوم پر ذرا غور کرنا چاہیے۔ خاص کر اللہ اکبر کا نعرہ مسلمانوں کی وحدت، قدرت، عظمت اور عزت کا نعرہ ہے، یہ وہ نعرہ ہے، نعرہ تکبیر، جس سے دوستوں کا حوصلہ بلند اور اسلام کے دشمنوں کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے۔ عید کی نماز اور عید کی تکبیریں مسلمانوں میں اپنے دل سے کدورت کے کانٹے ہٹا کر محبت کے پھول کھلانے کا پیغام دیتا ہے، عید کی نماز انفرادی عبادت بھی ہے اور اجتماعی عبادت بھی، بدنی عبادت بھی ہے اور مالی عبادت بھی، زکوٰۃ اور زکوٰۃ فطرہ Suoper power of the islamic world اگر ہم اس کے فلسفہ اور حکمت کو سمجھ سکیں اور عمل کر سکیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہم پوری دنیا کو یہ بتا سکیں کہ ہماری انہی عبادات کے اندر حقوق بشر (Human Rights)کا عظیم درس ہے۔ جو انسان بشر اور حقوق بشر کی عظمت اور حکمت کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتا ہے وہ اسلام اور اسلامی عبادات پر دل کے آنکھوں کو کھول کر غور و فکر سے کام لے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.