یہ تبدیلی برقرار رہے

320

اگر ہم ماہ رمضان سے پہلے اور ماہ رمضان والی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا مشاہدہ کریں تو ہم دونوں میں واضح فرق محسوس کریں گے۔ عام مسلمان ماہ رمضان سے پہلے نماز کو وقت پر پڑھنے کا اس قدر پابند نہیں ہوتا، مگر ماہ رمضان میں جیسے ہی اذان کی صورت میں دعوت پروردگار ملتی ہے فوراً تمام کام چھوڑ کر نماز کے لیے مسجد روانہ ہو جاتے ہیں۔ ماہ رمضان سے پہلے قرآن کو اچھے غلاف میں لپیٹ کر اونچی جگہ الماری میں احترام سے رکھا ہوا تھا، اب جیسے ہی ماہ مبارک رمضان آیا قرآن کو الماری سے نکال کر اس پر پڑی گرد کو صاف کرتے ہیں اور تلاوت قرآن میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اگر خدا نے توفیق دی ہے تو تلاوت قرآن کے ساتھ ساتھ ترجمہ قرآن پڑھ کر اس سے ہدایت بھی حاصل کرتے ہیں۔ ماہ رمضان سے پہلے شام کے کھانے کے بعد ٹی وی کے سامنے ڈھیر ہو جاتے تھے یا فضول گفتگو میں وقت ضائع کرتے تھے، مگر اب ایسا نہیں، اب کھانے کے فوراً بعد مسجد کا رخ کرتے ہیں، ٹی وی پر فضول وقت ضائع کرنے کی بجائے نمازیں ادا کی جاتی ہیں، بے فائدہ گفتگو کی بجائے علمائے دین سے علمی محفلیں کی جاتی ہیں، ان سے علمی سوالات دریافت کیے جاتے ہیں۔ درس قرآن کی محفلوں میں شرکت کی جاتی ہے، اگر خدا توفیق دے تو قرآن و دعا، درس اخلاق کی محفلوں کا خود سے انعقاد کیا جاتا ہے۔ ماہ رمضان سے پہلے اگر کوئی فقیر راہ خدا میں مانگتا تھا تو معاف کرو بابا کہہ کر چلے جاتے تھے، اب صورت حال مختلف ہے، فقیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی مدد کرتے ہیں، بلکہ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں میں غریب کو تلاش کرتے ہیں اور ان کی حسب توفیق مدد کرتے ہیں۔ ماہ رمضان سے پہلے گھر میں خدا کے نام پر ہونے والی محفلوں کا وجود نہ تھا، ماہ رمضان کی برکت سے گھروں میں افطار پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ماہ رمضان سے پہلے بچوں کی اسلامی تربیت کا کوئی خیال نہ تھا، وہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں، وہ تلاوت قرآن کر رہے ہیں یا نہیں، مگر ماہ رمضان کے شروع ہوتے ہی بچوں کو باقاعدہ نماز کے لیے مسجد لے کر جاتے ہیں، انکے قرآن پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں، اگر قرآن نہیں آتا تو بچوں کو قرآن سکھانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اگر ماہ رمضان سے پہلے گھر سے گانوں کی آواز بلند ہوتی تھی تو اب تلاوت قرآن کی آواز بلند ہوتی ہے۔ پہلے حقوق والدین کو فراموش کرچکے تھے تو اب انہیں ادا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اگر اجتماعی طور پر دیکھا جائے تو بھی ماہ رمضان سے قبل اور بعد کے معاشرے میں واضح فرق محسوس ہوگا۔ رمضان سے پہلے جو مسجدیں وسیع معلوم ہوتی تھیں، اب ان کی وسعتیں اہل ایمان کے لیے کم پڑنے لگتی ہیں۔ ٹی چینلز پر اسلام کے حوالے سے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں، جس لوگوں میں اسلامی شعور بیدار ہوتا ہے۔ ماہ رمضان سے پہلے معاشرے میں غریبوں اور بھوکے سونے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، اس ماہ کی برکت سے گلیوں محلوں میں مفت سحری و افطاری کے انتظامات ہونے لگتے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر راشن تقسیم کیے جاتے ہیں، زکوٰۃ جو امیروں کے مال میں غریبوں کا حق ہے، اسے ادا کیا جاتا ہے۔ اس ماہ کی برکت سے معاشرے کا یہ محروم طبقہ خوشحال ہوتا نظر آتا ہے، حکومتی سطح پر بھی عوام کے لیے سستے بازاروں کا اہتمام کرکے مستحقین کو کچھ ریلیف دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ محترم قارئین، ماہ رمضان خدا کی طرف سے تربیت کا مہینہ ہے، ایک ماڈل مہینہ ہے، مسلمانوں کے شب و روز درست کرنے کا مہینہ ہے، ہم نے اس ماہ میں سیکھے ہوئے امور پر پورا سال عمل کرنا ہے۔ خدا کا لطف و کرم ہے کہ اس نے امت مسلمہ کے لیے ہر سال اس تربیت کا اہتمام فرمایا ہے۔ ہمیں انفرادی و اجتماعی طور پر زندگی میں ان مثبت تبدیلیوں کو پیدا کرنا ہے، کیونکہ ماہ رمضان کا مقصد فقط بھوک اور پیاس نہیں ہے بلکہ تمام اسلامی احکامات پر عمل کرنے کے لیے مسلمانوں کی تربیت کرنا ہے۔ اگر ہم نے اپنے اندر یہ تبدیلیاں کرلی ہیں تو اس صورت میں تو ہم نے ماہ رمضان سے فائدہ اٹھایا ہے، اور اگر ہماری ماہ رمضان سے پہلے اور ماہ رمضان کی زندگی میں کوئی فرق نہیں ہے تو ہم نے ماہ رمضان سے کچھ فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب اللہ کا یہ مہمان مہینہ ہم سے رخصت ہو رہا ہے، ہم نے جو کچھ اس ماہ میں سیکھا ہے اس پر پورا سال عمل کرنا ہے، کیونکہ غریب لوگوں کو ماہ رمضان کے بعد بھی مدد کی ضرورت ہے، نماز خدا نے اس مبارک ماہ کے بعد بھی فرض کی ہے، تلاوت قرآن پورا سال مومن کی شان ہے، تاکہ کل قیامت کے دن قرآن ہمارا شفیع ہوگا۔ شراب پینا، گانابجانا، والدین کی نافرمانی کرنا، ماہ رمضان کے بعد بھی حرام ہے۔ پڑوسیوں، رشتہ داروں کے حقوق کا پورا سال خیال رکھنا چاہیے۔ اسی طرح بچوں کی تعلیم و تربیت ماہ رمضان کے بعد بھی ضروری ہے۔ اجتماعی طور بھی ماہ رمضان میں معاشرے میں آنے والی ان مثبت تبدیلیوں کو اس مبارک ماہ کے بعد بھی برقرار رہنا چاہیے۔ گلیوں اور محلوں سے تلاوت قرآن کی آواز کا آنا مسلم معاشرے کی علامت ہے، سخاوت اور غریب پروری مسلم معاشرے کے امتیازات میں سے ہے۔ اگر ہم نے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرلی ہیں تو اس صورت میں ہم نے اس ماہ برکت و مغفرت وعبادت سے صحیح فائدہ اٹھایا ہے اور خدا کی طرف سے سجنے والے دسترخواں رحمت سے استفادہ کیا ہے، اب ان تبدیلیوں کو ماہ رمضان کے بعد کا پورا سال بھی برقرار رکھنا ہے، اس سے ہمارا معاشرہ ایک ماڈل اسلامی فلاحی معاشرہ بن جائے گا۔ جہاں زکوۃ دینے والا تو ہوگا مگر لینے والا نہیں ہوگا۔ خدا سے دعا ہے کہ ہمیں اس زندگی ساز ماہ سے صحیح استفادہ کرنے کی توفیق دے۔ آمین
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.