حج رہبر معظم کی نگاہ میں
کسی بھی فرد کے لیے حج کا موقع، معنویت کی لامتناہی فضا میں کسی انسان کے داخل ہونے کا موقع ہوتا ہے، وہ اپنی تمام آلودگیوں اور تمام کمیوں کے ساتھ اپنی معمولی زندگی سے اپنے آپ کو باہر نکالتا ہے اور پاکیزگی، معنویت اور خدا سے تقرب نیز اپنی اختیار کردہ ریاضت کی فضا میں چلا جاتا ہے۔ جیسے ہی آپ حج کے مناسک ادا کرنا شروع کرتے ہیں، ویسے ہی ایک معمول کی عام سی زندگی میں کچھ چیزیں جو مباح ہوتی ہیں، انہیں اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں؛ احرام کا مطلب ان چیزوں کو اپنے لیے حرام کر لینا ہے جو معمول کی اور عام زندگی میں مباح، رائج اور جائز ہوتی ہیں۔ ان میں سے بہت سی چیزیں غفلت کا سبب ہوتی ہیں، جبکہ بعض انحطاط کی وجہ بنتی ہیں۔
مادی آلودگیوں سے اپنے آپ کو پاکیزہ کرنا، مسلسل، ہر جگہ اور ہر کام میں خدا کو دیکھنا؛ چاہے وہ کچھ دنوں کی تھوڑی سی مدت ہی کے لیے کیوں نہ ہو، انسان کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے۔ حج کے تمام آداب و مناسک اس لیے ہیں کہ حاجی اس معنوی تجربے کو حاصل کرے اور اس لذت کو اپنے دل و جان میں محسوس کرے۔ حج کی معنویت، ذکر خدا ہے، جسے روح کی مانند حج کے ہر عمل میں پھونک دیا گيا ہے۔ اس مبارک سرچشمے کو حج کے بعد بھی اسی طرح سے ابلتے رہنا چاہیے اور یہ کامیابی جاری رہنی چاہیے۔ ہم یہاں اس عظیم عبادت کو اس نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں گے، جیسے ہمیں رہبر معظم سید علی خامنہ ای دکھانا چاہتے ہیں۔
حج کا پہلا سبق توحید اور خدا کے لئے ہر قسم کے شرک کی نفی کرنا ہے، حج کے جس نقطہ پر بھی نگاہ ڈالیں اس میں توحید کی نشانیاں نظر آئیں گی، چاہے وہ موقع ہو جب انسان ایک بے پایاں دائرے میں خدائی مظہر اور الہٰی حاکمیت کے محور پر اپنا سارا وجود حرکت میں لا کر پروانہ کی مانند شمع کے گرد چکر لگاتا ہے اور چاہے وہ وقت تمام دنیاوی تعلقات سے آزاد ہوکر دنیاوی تعلق کے ہر رنگ سے خالی ایک لق و دق و سنسان صحرا میں خدای یاد میں مشغول ہوکر ایک مومن و متقی انسان کی نشانی بن جاتا ہے اور یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اس کی زندگی کے آنگن میں اس کی حیات کے منظر میں خدا کے سوا کچھ بھی نہیں۔
رہبر معظم فرماتے ہیں کہ:لا الہ الا اللہ اور نہ شرقی نہ غربی کے نعروں اور قرآن خواہی اور اسلام پسندی کی آواز کے ذریعہ انسان پر انسان کے تسلط کے تمام محرکات اور جلووں کی نفی کرتے ہیں اور یہی توحید کا حقیقی مفہوم ہے کہ انسان، انسان کی بندگی نہ کرے ۔۔۔۔۔یہ جو استکبار کے حامی سیاستوں کے سرغنہ ہم پر الزامات لگاتے ہیں کہ ہم حج سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں ۔۔۔اس کا مفہوم یہی ہے۔۔۔ ان کی بھول ہے کہ وہ لاالہ الا اللہ کو اس کے عظیم ترین، وسیع ترین اور موثر ترین میدان سے جدا کر دیتے ہیں ۔۔۔۔ اگر لا الہ الا اللہ صرف بے جان بتوں کے خلاف ہوتا اور ظالموں، طاغوت، خود سروں، توسیع پسندوں، آمروں اور انسانوں کے عرصہ حیات پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے خلاف نہ ہوتا تو تاریخ میں اتنے معرکے نظر نہ آتے۔ ۔۔۔
آج بھی دنیا میں بت سجے ہیں، آج بھی اپنے آپ کو خدا کا شریک سمجھنے والے ۔۔۔انسانوں کی حیات اپنی مٹھی میں دبائے ہوئے، انکی سعادت و مصلحت، انکے ارتقاء اور انکی خواہش و ارادہ کے خلاف انہیں ادھر سے ادھر ہانک رہے ہیں ۔۔۔ لہٰذا لال الہ الا اللہ، لبیک اللھم لبیک اور امریکہ مردہ باد کی ہماری آواز مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے عوام سے ہماری معاشرت اور عالمی استکبار و توسیع پسند طاقتوں کے خلاف ہمارا نعرہ ایک حقیقت ہے اور وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔۔ انکے بغیر حج مکمل نہیں۔
رہبر معظم فرماتے ہیں کہ:اس مقام پر مسلمان مرد و زن، فلاح و نجات کی دعوت الہی پر صدائے لبیک بلند کرتے ہیں۔ یہاں ہر ایک کو برابری، یگانگت اور پرہیزگاری کی مشق کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔ یہ تعلیم و تربیت کا مرکز، امت اسلامیہ کے اتحاد و عظمت و تنوع کی جلوہ گاہ اور شیطان و طاغوت سے پیکار کا میدان ہے۔ خدائے حکیم و قدیر نے اسے وہ مقام قرار دیا ہے جہاں مومنین اپنے مفادات کا مشاہدہ کریں گے۔ جب ہم چشم بصیرت اور نگاہ عبرت کو وا کرتے ہیں تو یہ وعدہ ملکوتی ہماری انفرادی و سماجی زندگی کی تمام وسعتوں کا احاطہ کر لیتا ہے۔ مناسک حج کی انفرادی خصوصیت دنیا و آخرت کی آمیزش اور انفرادیت و اجتماعیت کا آپس میں ضم ہو جانا ہے۔ ہر طرح کی آرائش سے عاری پرشکوہ خانہ کعبہ، ایک ابدی و استوار محور کے گرد دلوں اور جسموں کا طواف، نقطہ آغاز سے نقطہ اختتام کے درمیان منظم اور پیہم سعی و جستجو، عرفات و مشعر کے نجات بخش میدانوں کی سمت عمومی روانگی، اس محشر عظیم میں پیدا ہونے والی خضوع کی کیفیت جو دلوں کو صفا و شادابی عطا کرتی ہے، شیطان کے مظہر پر عمومی یلغار، اس موقعہ پر ہر جگہ، ہر رنگ اور ہر قسم کے لوگوں کا ان تمام اسرار آمیز اور معانی و علامات ہدایت سے لبریز مناسک میں ایک دوسرے کے قدم سے قدم ملا کے چلنا، اس پرمعنی و پرمغز عبادت کی انفرادی خصوصیات ہیں۔
رہبر معظم نے اپنے ایک پیغام میں فرمایا:کعبہ شریف کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی قدم گاہ آپ کے مقام و مرتبے کی ایک چھوٹی سی مثال ہے، مقام ابراہیم در حقیقت مقام اخلاص ہے، مقام ایثار ہے، آپ کا مقام تو خواہشات نفسانی، پدرانہ جذبات اور اسی طرح شرک و کفر اور زمانے کے نمرود کے تسلط کے مقابل استقامت و پائيداری کا مقام ہے۔ نجات کے یہ دونوں راستے امت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ہم سب افراد کے سامنے کھلے ہوئے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی جرائت، بہادری اور محکم ارادہ اسے ان منزلوں کی طرف گامزن کر سکتا ہے جن کی طرف آدم سے لیکر خاتم تک تمام انبیائے الہی نے ہمیں بلایا ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کے لئے دنیا و آخرت میں عزت و سعادت کا وعدہ کیا ہے۔ امت مسلمہ کی اس عظیم جلوہ گاہ میں، مناسب ہے کہ حجاج کرام عالم اسلام کے اہم ترین مسائل پر توجہ دیں۔ اس وقت تمام امور میں سرفہرست بعض اہم اسلامی ممالک میں برپا ہونے والا انقلاب اور عوامی قیام ہے۔
رہبر معظم فرماتے ہیں کہ تعلقات اور اجتماع میں فرق ہے ۔۔۔ ارتباط اور تعلق کا خود اپنا فائدہ ہے اور اسکی بڑی اہمیت ہے ۔۔۔۔ حج اسلامی معاشروں کے باہمی ارتباط و تعلقات کا آئینہ دار ہے، یہاں معاشرے اپنے حالات سے ایک دوسرے کو باخبر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مشکلات سے آگاہ ہوتے ہیں ۔۔۔ جبکہ آج دنیا کی پروپیگنڈا مشنریاں عوام اور مسلمانوں کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہیں اور انہیں ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوششوں میں ہیں۔۔۔۔
رہبر معظم حج کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ برابری و برادری کا معاشرہ ہے، بے جا امتیازات، اجارہ داری، اور خصوصی علاقوں کی نفی کا معاشرہ ہے۔ اسلامی معاشرہ نسلی برتری اور حسب نسب کی بنیاد پر ایک دوسرے پر تفوق سے پاک معاشرہ ہے۔ اسلامی معاشرہ تقویٰ کے سوا برتری و فضیلت کے دوسرے تمام معیاروں کو ٹھکراتا ہے اور حج میں یہ حقیقت بخوبی نمایاں ہے۔
رہبر معظم حج کو نعمت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے حج کو امت خالدہ کے لئے، کبھی ختم نہ ہونے والا ذخیرہ، ہمیشہ جاری رہنے والا چشمہ اور دریائے زلال قرار دیا کہ اس کی شناخت رکھنے والا اور اس کی قدر جاننے والا ہر حال میں اس سے استفادہ کرسکے گا اور اس کو مذکورہ مہلک بیماریوں کی دوا قرار دے گا۔
حج اور برائت مشرکین کے بارے میں رہبر معظم فرماتے ہیں کہ:’اخلاقی برائیاں اور فحاشی جو سامراجی کارندوں کے ذریعے اقوام میں پھیلائی جا رہی ہے، فضول خرچی کرنے کا رواج، جو ہماری اقوام کی زندگی کو روز بروز اپنی دلدل میں غرق کرتا جا رہا ہے، تاکہ مغربی کمپنیاں جو سامراجی کیمپ کا دل و دماغ ہیں، زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں، مغربی سامراج کا سیاسی تسلط جس کے ستون عوام مخالف زرخرید حکومتوں نے کھڑے کئے ہیں اور فوجی موجودگی جو مختلف بہانوں سے روز بروز آشکار تر ہو رہی ہے، یہ سب اور اس جیسی دوسری چیزیں، شرک اور بت پرستی کے مظاہر ہیں، جو توحیدی زندگی اور توحیدی نظام کے بالکل خلاف ہیں، جو اسلام نے مسلمانوں کے لئے مقرر کیا ہے۔
حج اور خانہ توحید کے اس عظیم اجتماع میں شرک کے ان مظاہر کی نفی ہونی چاہئے اور مسلمانوں کو ان سے خبردار کرنا چاہئے۔ اسی واضح اور روشن مفہوم کے پیش نظر حج کو مشرکین سے اعلان برائت کی بہترین جگہ سمجھا گیا اور خداوند عالم نے خود اپنی زبان میں، اپنے نبی (ص) کے ذریعے مشرکین سے اعلان برائت کو حج اکبر کے دن پر موقوف کیا ہے۔ آج مسلمین حج میں جو برائت کے نعرے لگاتے ہیں، وہ سامراج اور اس کے زرخریدوں سے برائت کی فریاد ہے جن کا نفوذ، افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی ملکوں میں زیادہ ہے اور انہوں نے اسلامی معاشروں پر شرک آلود نظام زندگی، مشرکانہ سیاست اور ثقافت مسلط کرکے، مسلمانوں کی زندگی میں توحید عملی کی بنیادیں منہدم کر دی ہیں اور انہیں غیر خدا کی عبادت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کی توحید صرف زبانی ہے، توحید کا صرف نام ہے، ان کی زندگی میں معنوی توحید کا کوئی اثر باقی نہیں رہا۔