خطبہ حجۃ الوداع

432

احادیث رسول (ص) بھی اللہ کی وحی ہیں، اس کو سورہ النجم ۳،۴ آیات میں اللہ تعالٰی نے یوں بیان کیا ‘وما ینطق عن الھوی ٰ ان ھو الاّ وحی یوحی‘‘ یعنی اللہ تعالٰی کی وحی کے علاوہ رسول اکرم گفتگو نہیں فرماتے، فرق اتنا ہے کہ اصطلاحی طور پر قران مجید کو وحی متلو اور حدیث رسول (ص) کو وحی غیر متلو قرار دیا ہے اور حدیث کی تشریحات میں جمہور محدثین نے جو بیان کیا وہ یہ ہے کہ اصطلاح میں لفظ حدیث آنحضرت (ص) کے قول و فعل و تقریر پر بولا جاتا ہے۔ تقریر کے معنی یہ ہے کہ کسی نے آنحضرت (ص) کے سامنے کوئی کام کیا یا کوئی بات کہی اور آپ (ص) نے نہ تو اس بات پر برا مانا نہ اس سے منع کیا بلکہ اس پر خاموش رہے اور اسے برقرار رکھا، یہ سب حدیث ہی میں داخل ہیں۔
نبی اکرم (ص) کے فیصلہ جات کو وحی قرار دیتے ہوئے اللہ تعالٰی نے فرمایا “انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما ارک اللہ” (النساء ۱۰۵) ‘(اے نبی ) بے شک ہم نے یہ کتاب قرآن مجید آپکی طرف حق کے ساتھ اتاری ہے، تاکہ آپ (ص) لوگوں میں اس کے موافق فیصلہ کریں، جس سے آپ کو اللہ تعالٰی نے شناسا کیا ہے‘‘ اس آیت کے بارے میں امام رازی تفسیر کبیر جلد ۳صفحہ ۳۲۷میں فرماتے ہے کہ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت (ص) سوائے وحی اور نص کے فیصلہ نہیں کرتے تھے، اس لئے آیت ‘فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم” (النساء ۶۵)قسم ہے تیرے رب کی یہ ایماندار نہیں ہوسکتے جب تک آپس کے تمام اختلافات میں آپ (ص) کو حکم نہ مان لیں‘‘ کے تحت آپکا فیصلہ آخری اور قطعی ہے، جس کی کہیں بھی اپیل ہو سکتی ہے اور نہ ہی نظرثانی۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ آپ کے اقوال و افعال کی پوری اقتداء کی جائے، انہی کے افعال اور اقوال کا نام حدیث ہے، یعنی علم حدیث وہ علم ہے جس کے ذریعے سے نبی کریم (ص) کے اقوال، آپ کے افعال اور احوال معلوم کئے جاتے ہیں، علم حدیث رسول اللہ (ص) کا علم ہے، آپکی شان یہ ہے کہ دین الہی کے متعلق آپ جو کچھ بولتے تھے، وہ وحی الہی سے بولتے تھے۔ لہذا حدیث وحی الہی ہے، سنت مطہرہ یا حدیث نبوی کا تشریع احکام میں حجت ہونا دین کا ایک ضروری مسئلہ ہے۔ اس کا انکار وہ شخص کرسکتا ہے، جس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں، بلکہ جب تم کسی کے سامنے حدیث رسول بیان کرو اور وہ جواب میں حدیث کو رد کرکے صرف قرآن سے جواب مانگے تو جان لو کہ یہ شخص گمراہ ہے۔ امام جلال الدین سیوطی مفتاح الجنۃ میں لکھتے ہیں کہ جان لو جو شخص نبی کریم (ص) کی حدیث خواہ قولی ہو یا فعلی اور شرائط مقررہ کے تحت وہ حدیث صحیح ثابت ہو، کا انکار کریں تو وہ کافر ہے اور اسلام کے دائرہ سے خارج ہے۔
تاریخ اسلام میں 10 ھ کو بانی اسلام (ص) نے پہلا اور آخری حج انجام دینے کے بعد واپسی کا سفر اختیار کیا، چلتے چلتے راہ میں ایک مقام “خم” پر پہنچے، جو جحفہ سے تین میل پر ہے، یہاں ایک تالاب ہے، عربی میں تالاب کو غدیر کہتے ہیں۔ اس مقام کا نام عام روایتوں میں غدیر خم آتا ہے، یہاں سے مختلف ممالک میں جانے والے راستے بھی نکلتے تھے۔ آپ (ص) نے یہاں تمام صحابہ (ر) کو جمع کرکے ایک خطبہ ارشاد فرمایا ‘اے لوگو! ممکن ہے کہ خدا کا فرشتہ جلد آجائے اور مجھے قبول کرنا پڑے، میں تمہارے درمیان دو بھاری (گراں قدر) چیزیں چھوڑتا ہوں، ایک خدا کی کتاب جس کے اندر ھدایت اور روشنی ہے، خدا کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑو اور دوسری چیز میری اہل بیت (ع) ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں خدا کو یاد دلاتا ہوں۔ (آخری جملے کو آپ (ص) نے تین دفعہ مکرر فرمایا، یہ صحیح مسلم کی روایت ہے، نسائی، مسند امام احمد، ترمذی، طبرانی، حاکم وغیرہ نے کچھ فقرے زیادہ درج کیے ہیں۔ جن میں حضرت علی (ع) کی منقبت کی گئی، ان روایتوں میں ایک فقرہ مشترک ہے) ‘من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ‘‘ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی (ع) مولا ہے، اور اے اللہ جو علی سے محبت رکھے، اس سے تو بھی محبت رکھ اور جو علی سے عداوت رکھے، اس سے تو بھی عداوت رکھ۔ (سیرۃ النبی (ص)، علامہ شبلی نعمانی، الفصیل، ناشران و تاجران کتب غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور، صفحہ ۱۰۱، ج ۲)
اسی طرح دیگر کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے، جیسا کہ حضرت میمون ابو عبداللہ بیان کرتے ہے کہ میں نے زید بن ارقم کو یہ کہتے ہوئے سنا :۔ ہم حضور نبی اکرم (ص) کے ساتھ ایک وادی، جس کو خم کہا جاتا تھا، میں اترے۔ پس آپ (ص) نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں جماعت کروائی، پھر ہمیں خطبہ فرمایا درآنحالیکہ حضور نبی اکرم (ص) کو سورج کی گرمی سے بچانے کے لئے درخت پر کپڑا لٹکا کر سایہ کیا گیا۔ آپ (ص) نے فرمایا کیا، تم نہیں جانتے یا (اس بات کی ) گواہی نہیں دیتے کہ میں مومن کی جان سے قریب تر ہوں؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں! آپ (ص) نے فرمایا، پس جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی (ع) مولا ہے، اے اللہ تو اس سے عداوت رکھ جو اس سے عداوت رکھے، اور اس کو دوست رکھ، جو اس کو دوست رکھے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جس نے اٹھارہ ذالحج کو روزہ رکھا، اس کے لئے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جائیگا اور یہ غدیر خم کا دن تھا، جب حضور نبی اکرم (ص) نے حضرت علی (ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا، کیا میں مومنین کا ولی نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ! آپ (ص) نے فرمایا، جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے، حضرت عمر ابن خطاب نے فرمایا مبارک اے ابن ابی طالب! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ٹھہرے۔ (اس موقع) پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی “آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا” (غایۃ الاجابۃ فی مناقب الالقرابۃ، ڈاکٹر محمد طاہر القادری، ص۱۴۶) پس یہ خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے۔
یہ متواتر احادیث، متواتر اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کا کوئی انکار نہ کرسکے، میں سے ایک حدیث رسول ہے، جس کی رو سے اٹھارہ ذالحجہ کو عید سعید غدیر منانا سنت خدا اور رسول ہے، اس وجہ سے تمام مسلمانوں کو اس عید کو ضرور منانا چاہیے۔ تاکہ سنت نبوی (ص) پر اور سنت صحابہ (ر) پر عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت میں کامیاب قرار پائیں۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.