محرم اور مسلمان
1433ھ کا سال تاریخ کا حصہ بن کر اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے، جسکے ساتھ ہی 1434 ھ کا سال ہر سال کی مانند محرم الحرام کی سرخی لئے وقت کے افق پر نمودار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ وقت کا وہ سفر جو کبھی رکا نہیں، ہنوز بھی جاری ہے اور تاوقتِ نامعلوم چلتا رہے گا۔ دنیا میں رائج دیگر تقاویم میں نئے سال کا آغاز ایک نئی زندگی کی علامت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں مختلف خطوں میں لوگ اپنے اپنے نئے سال کے آغاز کو ایک جشن کی صورت میں مناتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ جتنی دھوم دھام سے آغازِ سالِ نو کو منایا جاتا ہے، شاید اتنے زور و شور اور دھوم دھام سے مذہبی تہوار بھی نہیں منائے جاتے۔ لیکن اسی دنیا کی سوا ارب سے زائد آبادی پر مشتمل عالمِ اسلام کے سالِ نو کا آغاز اپنی تقویم کے رائج ہونے کے اکسٹھویں سال سے غم و اندوہ اور اضطراب و بے چینی کی کیفیات کے ساتھ منایا جاتا رہا ہے اور تاوقتِ قیامت اس میں خوشی اور انبساط کی کیفیت کو تلاش کرنا ایک سعیء لاحاصل ہی رہے گی۔ جہاں دوسری اقوام اپنی نئی زندگی کا جشن مناتی ہیں، وہیں ایک قوم اپنی نئی زندگی کا آغاز بھی فطری انداز یعنی رونے سے کرتی ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ کر جانے کے محض پچاس سال کے اندر اندر آپکے خون پسینے سے سینچے گئے دینِ خدا کے نوزائیدہ گلشن پر وحشیانہ حملے ہوئے اور تدریجاً دینِ اسلام پر ایسا برا وقت پڑا کہ اس کی ڈوبتی نبضوں کو سنبھالا دینے کے لئے نواسہء رسول علیہ السلام کو حتمی اور آخری اقدام کے طور پر اپنا، اپنے اہل و عیال اور اپنے رفقاء کا خون عطیہ کرنا پڑا۔ 61ھ کے محرم میں کربلا کی زمین میں خانوادہء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جذب ہونے والا پاکیزہ لہو دراصل شفق پر سرخی بن کر چھا گیا اور اس معطر لہو کی مہک نے دو جہانوں کا احصاء کر لیا۔ تیرہ سو تہتر برس بیت گئے۔ نہ آسمان نے لہو رونا بند کیا او نہ ہی ہوا نے نوحہ خوانی۔ اور انہی آسمان و زمین اور آب و ہوا سے متعلق ہر ذی شرف مخلوق نے اپنے اپنے انداز میں عزاداری کی عبادت کو انجام دے کر ایک طرف تو اسلام اور رسولِ اسلام (ص) سے اپنے تعلق کو ثابت کیا تو دوسری جانب باطل قوتوں اور حزب الشیطان سے اپنی براءت کا اظہار کرکے اپنی عاقبت کو چار چاند لگائے۔ گو کہ یہ سب کرنا اتنا آسان نہیں کہ دنیاوی اختیار اور قوت ہمیشہ سے طاغوت کا سرمایہء افتخار رہا ہے، جسکا بیہمانہ استعمال حق اور اہلِ حق کے خلاف ہی ہوا۔ بقول علامہ اقبالیہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہےلوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
یہ دراصل تسلسل ہے اس جنگ کا جو روزِ ازل رحمٰن و شیطان کے درمیان شروع ہوئی اور لمحہء آخر تک جاری رہے گی۔ اس جنگ کا عروج 10 محرم الحرام 61ھ کو ہوا، جب حق اور باطل ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکر یوں جدا ہوئے جیسے دن اور رات کا فرق عیاں ہے۔ یہاں فتح و شکست کے معنٰی بھی بدل گئے۔ ایسا عجب معرکہ ہوا کہ ہر قسم کا اسلحہ اپنی بھرپور قوت دکھا کر بھی شکستہ رہا اور بہتا ہوا لہو شمشیر پر غالب آگیا۔ یہ ایسی جنگ تھی جس کے بظاہر فاتحین اپنے مفتوحین کے سروں سے سجے پرچم اٹھا کر اپنی فتح کا اعلان کرنے چلے، لیکن انہی مقدس سروں سے متعلق کچھ بے ردا سروں والی عفت مآب ہستیوں نے فتح کا اصل معنٰی سارے جہان کو کچھ اس انداز میں سمجھانا شروع کیا کہ دیگر مخلوقات کی مانند اب انسان بھی حقیقت سے آشنا ہوتا گیا۔ اور جسکی قسمت یاور رہی، وہ حسین (ع) کا عزادار بنتا گیا۔
جس کو کربلا سمجھ آتی گئی، اسکی زندگی میں آنے والے تمام سال آغاز سے انجام تک غمِ حسین (ع) کے سمندر سے متصل ہوتے گئے۔ جیسے حسین (ع) و لشکرِ حسین (ع) کا وجود اہلِ یزید کی آنکھ کا کانٹا تھا، بالکل ویسے ہی الٰہی و حسینی (ع) سمندر سے اہلِ دل کا یہ اتصال یزیدِ وقت کو کبھی نہ بھایا۔ چنانچہ ہمیشہ سے دولت اور طاقت کے بل بوتے پر جہاں اہلِ حق سے حق کا ناطہ توڑنے کے لئے تمام حربے استعمال کئے گئے، وہیں سادہ لوح مسلمانوں کے خام اذہان میں جھوٹ کے قلعے تعمیر کرکے نہ صرف انکو حق سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی، بلکہ انکے عقائد پر کاری ضربیں لگا کر انکی عاقبت کو بھی خطرے میں ڈالا گیا۔ یوں ان مسلمانوں کے درمیان نفرت اور علیحدگی کی دیواریں چنی گئیں، جو کم از کم نواسہء رسول (ع) کے نام پر شیر و شکر تھے۔ انداز چاہے جدا تھے، لیکن مقصد ایک تھا اور وہ تھا حسین (ع) سے محبت اور یزید سے نفرت۔
طاغوت کی تخریب کاریوں نے جہاں فرقہ واریت اور نفاق کو پروان چڑھا کر مسلمانوں کو گمراہ کیا ہے، وہیں پچھلے چند سالوں سے چند ایسی خطرناک روایات کو جنم دیا ہے کہ جنکی پیروی میں سادہ لوح مسلمان اپنے آپ کو تباہی کی دلدل میں خود ہی پھینک کر شفاعتِ رسولِ گرامی قدر سے اپنے نفوس کو محروم کرنے چلے ہیں۔ مثال کے طور پر اب محرم الحرام کے آغاز پر تہنیتی پیغامات کے ساتھ ایک دوسرے کو اچھا سال گزرنے کی دعائیں دینا معمول کی بات بنتا جا رہا ہے۔ عیدِ قربان کے بعد ہی سے بے سروپا افسانے زبانِ زدِ عام ہو جاتے ہیں جن میں غم منانے کی مذمت میں جھوٹی احادیث پیش کی جاتی ہیں۔
امام حسین (ع) کے اپنی خواہر کے نام کئے گئے وصیت نامے کو مسخ کرکے غلط مطالب کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور عزاداری سے متعلق جھوٹا اور شیطانی پروپیگینڈا اس مہارت سے کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی شریف انسان اپنے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ تو بھروا سکتا ہے لیکن ذکرِ کربلا نہیں سن سکتا۔ کبھی عاشورہ سے متعلق ان واقعات کا ڈنکا پیٹا جاتا ہے جن سے اس تاریخ کا دور کا بھی واسطہ نہیں اور کبھی شہادتِ نواسہء رسول (ع) کی افادیت کو پسِ پشت کرنے کے چکر میں اصحابِِ رسول کا تذکرہ چھیڑ دیا جاتا ہے۔ جبکہ اصحابِ رسول رضوان اللہ علیہم (ہماری نسلیں قربان) نے اپنی زندگیوں میں بھی حسین (ع) کا دم بھرا اور یقیناً جنت میں بھی خانوادہء رسول پر پڑنے والی مصیبتوں پر گریہ کناں ہوں گے اور نواسہءرسول (ع) کے ذکر پر اپنے ذکر کو فوقیت دینا سوئے ادب سمجھتے ہوں گے۔
کبھی ماتم کی مذمت میں بے تکی شاعری کا سہارا لیا جاتا ہے اور پھر جوابی شاعری کے ذریعے سے دوسرے گروہ کی جانب سے اس سے بھی بے تکا جواب دیا جاتا ہے۔ جہان جھوٹ، فریب اور فتنہ مقصد ہو، وہاں غالب، اقبال اور محسن جیسے شعراء کا نام بھی باآسانی استعمال کر لیا جاتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حسین (ع) پر کسی کا اجارہ نہیں۔ حسین (ع) انسان اور انسانیت کے ہیرو کا نام ہے۔ یہ بات 10 محرم 61ھ کو واضح ہوگئی تھی کہ جہاں جھوٹ، فریب، فتنہ، فساد اور لوٹ مار ہوگی وہاں یزید ہوگا اور جہان حق ہی حق ہو، وہ حسین (ع) کی سلطنت ہوتی ہے۔ خانوادہء رسول پر پڑنے والے مصائب کی یاد منانا اور اپنے اپنے انداز میں اسکا اظہار کرنا ہر شخص کا ذاتی فعل، اسکی معرفت کے معیار کا عکاس اور اسکے احساس کا ترجمان ہے۔ اگر کوئی سینہ پیٹ کر حسین (ع) سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے تو یہ اسکا وہ عمل ہے جو وہ اپنی آخرت کے لئے بھیج رہا ہے۔ کوئی دس محرم کو خود بھوکا رہے یا دیگ پکا کر بھوکوں کو کھلائے، اپنا گریبان چاک کرکے گریہ کناں رہے یا محض خاموش بیٹھا قلبی آنسو بہائے ۔۔۔۔ یہ اسکے اس دنیا میں انجام دیئے گئے وہ اعمال ہیں، جنکی اصل صورت وہ جہانِ آئندہ میں خود ملاحظہ کرے گا۔ یہ اسکا اپنا مقدر کہ وہ ان اعمال کو گل و گلزار کی صورت میں پائے یا نارِ حامیہ کی صورت میں! کسی دوسرے کے ایمان، مال یا عزت پر اسکے افعال کا کیا زور؟ لیکن شیطان کا یہی تو حربہ چلتا ہے کہ اپنے اعمال سے کوتاہ نظر کرکے دوسروں پر انگشت نمائی کروائی جائے اور دوسرے کے نیک عمل کو بھی بدعت اور گناہ کے انداز میں پیش کرکے عام مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا جائے۔
دوستو! آپکا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو یا آپ کوئی بھی نقطہء نظر رکھتے ہوں، کربلا وہ واحد نقطہء اشتراک ہے جہاں تمام مسلمان صدیوں سے متفق ہیں۔ لیکن ان طاغوتی سازشوں نے عقائد پر حملہ کرکے مسلمانوں سے انکی وحدت چھیننے کی کوشش کی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے دشمن کو پہچانیں اور اپنے اتحاد کے ذریعے سے اسکی سازشوں کو ناکام بنائیں۔ انداز ِ عزاداری جو بھی ہو، یہ اتنا اہم نہیں۔ اہم ہے تو تعلق۔ روحانی وابستگی! اگر تو قلب و روح حسین (ع) سے متصل ہیں تو خاموش گفتگو بھی بہت ہے۔ اور خدانخواستہ جن سینوں میں یزید ہے، وہ دل نہیں، گوشت کے سیاہ لوتھڑے ہیں۔ ان لوتھڑوں کو لئے کوئی تمام عمر بھی سجدوں میں پڑا رہے تو خدا کی نظر میں ملعون ہے، بالکل ویسے ہی جیسے لاکھوں سال محوِ سجدہ رہنے والا ابلیس۔
ہمیں ان موسمی بٹیروں سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو ہماری ہی کوتاہیوں کے نتیجے میں منبروں تک جا پہنچے ہیں۔ ہمیں حوصلہ شکنی کرنی ہے ان یزیدی نمائندوں کی جو حسینی روپ دھار کر ہم سے عزاداری جیسی نعمت کو چھیننا چاہتے ہیں، کیونکہ ہمارا مشترکہ مقصد روزِ جزا شفاعتِ رسول (ص) سے بہرہ مند ہونا ہے اور رسول اللہ (ص) کی شفاعت کسی ایسے کا مقدر نہیں ہوسکتی جو نفاق کا دلدادہ ہو، نواسہءرسول (ع) اور انکے ذکر سے عناد رکھے اور یزید کو نعوذ باللہ رضی اللہ کا تاج پہنائے۔