اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

158

 
واقعہ کربلا بلاشک و شبہ ایک ایسا عظیم سانحہ ہے کہ جس نے تاریخِ بشری میں ایک نیا و تابناک باب پیدا کردیا اور اہل دنیا کو زندگی کے عظیم اقدار سے آشنا کرایا، اور ساتھ ہی ساتھ انسانی فضائل کی حفاظت اور ظلم و استبداد کو نیست و نابود کرنے کے لئے لوگوں کے اندر ظلم و ستم سے ٹکرانے کا حوصلہ و جذبہ پیدا کردیا اور اب اس قربانی کا اثر پورے عالم انسانیت پر چھا گیا ہے، اب کوئی جگہ اور دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں ہے جہاں اس انقلاب کی شعاعیں نہ پہنچی ہوں۔ بقول صابر زمین، چاند، ستاروں پہ، آسمانوں پر کہاں کہاں نظر آتا ہے کربلا کا اثر بکھر ہی جاتا یہ انسانیت کا شیرازہ نہ ہوتا دہر میں گر شاہ دوسَرا کا اثر
آج دنیا کا ہر باشعور انسان کربلا کے بہادروں سے سبق سیکھتا ہے اور شجاعت کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرتا ہے اور اپنے وجود کو ڈوبنے سے محفوظ رکھتا ہے، کربلا کے عظیم واقعہ کا احساس آج بھی لاکھوں دلوں کو خون کے آنسو رُلاتا ہے، صدیاں گذرنے کے بعد بھی اس کا اثر آفرین و دلخراش ہے، جس نے بھی اس عظیم واقعہ کو پہچان لیا اس نے سر تسلیم خم کردیا، ہمیں بھی اگر اپنے وجود کو سنورانا ہوگا تو امام حسین (ع) کے نقش پا پر چلنا ہوگا۔
صرف اور صرف واقعہ کربلا ایسا واقعہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت و اہمیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، کتابیں لکھی جارہی ہیں، واقعات بیان کئے جارہے ہیں لیکن اصل ہیئت ابھی تک قائم و دائم ہے، لیل و نہار کی ہزار گردشیں بھی اس حقیقت کو متاثر نہیں کر پا رہیں، عزاداری پر قدغن لگائی جارہی ہیں، مبلغین و ذاکرین کو ہراساں کیا جارہا ہے، جلوسوں پر بم گرائے جاتے ہیں، ماتمی جلسوں پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور مظلوم عوام کو ظلم و ستم کے شکنجے کا شکار بنایا جاتا ہے لیکن دشمن کی تمام تر سازشیں ناکام ہوتی جارہی ہیں، اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا، چنانچہ اس سلسلہ میں امام زین العابدین (ع) کا فرمان ہے کہ ذکر مصائب سے ہر سننے والے کو امام حسین (ع) سے ایک قلبی لگاو پیدا ہوتا ہے اور آپ (ع) سے عشق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور آپ (ع) کے ذکر کو مٹانے کی سازشیں ناکام نظر آتی ہیں۔
کیوں نہ ہو جو کام خالص اللہ کے لئے ہوا کرتا ہے، اللہ اسے لافانی قرار دیتا ہے، اسی طرح واقعہ کربلا تحریک میں بدل کر آج بھی قائم و دائم، تر و تازہ اور زندہ و جاوید ہے۔ اور اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے، امام حسین (ع) فرماتے ہیں کہ میں عام لوگوں کی مانند نہیں ہوں کہ میرا قیام اور میرا انقلاب اس مقصد سے ہو کہ میں خود کوئی فائدہ حاصل کرسکوں یا مال و دولت جمع کر لوں یا سلطنت کرلوں بلکہ میرا قیام خالص اللہ کے دین کے لئے ہے آج سے دنیا کے لوگوں کو یہ بات جان لینی چاہیئے۔
امام (ع) دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ میرا خروج نہ تو کسی خود پسندی، نہ تو اکڑ، نہ فساد اور نہ ہی ظلم کے لئے ہے، میں تو صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کےلئے خروج کرتا ہوں، میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے جد محمد رسول اللہ (ص) اور اپنے بابا علی ابن طالب (ع) کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں، اے اللہ میں تیرے مظلوم بندوں کےلئے امن و امان قائم کرنا چاہتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ تیرے فرائض و سنن اور احکام پر عمل کیا جائے، اے اللہ جس نے تجھے کھو دیا اسکو کیا ملا؟ اور جس نے تجھ کو پا لیا کون سی چیز ہے جس کو اس نے نہیں حاصل کیا؟ جو بھی تیرے بدلے میں جس پر بھی راضی ہوا، وہ تمام چیزوں سے محروم ہوگیا۔ (دعائے معرفت)
امام حسین (ع) اور ایک جگہ پر فرماتے ہیں کہ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہورہا ہے اور باطل سے دوری اختیار کی جارہی ہے بلکہ باطل کی پشتیبانی کی جارہی ہے، ایسی صورت میں مومن کے لئے لازم ہے کہ رضائے الہیٰ کے لئے قیام کرے اور اس کی جانب رغبت کرے، اس لئے میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت، ننگ و عار سمجھتا ہوں۔ اے کربلا کی خاک تو اس احسان کو نہ بھول
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.