انصار اور مھاجرین کی منطق کیا تھی؟

220

سقیفہ کے واقعہ کے بغور مطالعہ کے بعد اب مناسب ھے کہ اس کے قابل توجہ نکات اور اسے وجود میں لانے والوں کی منطق پر غور کیا جائے ۔ اس ”جلسہ “ کے قابل توجہ نکات کا خلاصہ ذیل کے چند امور میں کیا جا سکتا ھے :
1۔ قرآن مجید کا حکم ھے کہ مؤمن آپس میں جمع ھو کر اپنے مشکلات کی گتھیوں کو تبادلہ خیال کے ذریعہ سلجھائیں۔ اس کے اس گراں بھا حکم کا مقصد یہ ھے کہ عقلمند اور حق پسند لوگوں کی ایک جماعت ایک پر سکون جگہ پر جمع ھوں اور حقیقت پسندانہ نیز تعصب سے عاری غور و فکر کے ذریعہ زندگی کی راہ کو روشن کریں اور مسائل کو حل کریں۔
کیا سقیفہ کے جلسہ میں ایسا رنگ ڈھنگ پایا جاتا تھا؟ اور کیا حقیقت میں اسلامی معاشرے کے عقلا وھاں پر جمع ھوئے تھے کہ خلافت کی گتھی کو گفتگو کے ذریعہ حل کریں؟ یا مطلب اس کے بالکل بر عکس تھا؟
اس جلسہ میں مھاجرین میں سے صرف تین افراد حاضر تھے اور ان تین افراد نے دیگر مھاجرین کو اس امر سے مطلع نھیں کیا تھا کہ وہ یہ کام انجام دینے جارھے ھیں ۔ کیا ایسے جلسہ کو جس میں عالم اسلام کی عظیم شخصیتیں ، جیسے علی (ع)ابن ابیطالب ، سلمان فارسی ، ابوذر غفاری ، مقداد ، حذیفہ ، ابی بن کعب ، طلحہ و زبیر اور ان جیسی دسیوں شخصیتیں موجود نہ ھوں عالم اسلام کےلئے صلاح و مشورہ اور تبادلہ خیا کا جلسہ کھا جاسکتا ھے ؟
کیا یہ صحیح تھا کہ ایک ایسے اھم موضوع کے لئے ایک چھوٹی سی میٹینگ پر اکتفا کی جاتی جس میں چیخ و پکار اور داد و فریاد بلند کی گئی اور انصار کے امیدوار کو قدموں تلے کچل ڈالا گیا ؟! یا یہ کہ ایسے اھم موضوع کے بارے میںکئی جلسے منعقد کرنا ضروری تھا جن میں عالم اسلام کی اھم مدبر اور شائستہ شخصیتیں بیٹہ کر اس اھم مسئلہ پر صلاح مشورہ کریں اور بالآخر اتفاق نظر یا اکثریت آراء سے مسلمانوں کا خلیفہ منتخب کیا جاتا ؟
اس جلد بازی کے ساتھ حضرت ابو بکر کو خلافت کےلئے منتخب کرنا اس قدر ناپختہ اور خلاف اصول تھا کہ ، بعد میں خود حضرت عمر اس سلسلے میں کھتے تھے:
”کانت بیعة ابی فلتة وقی الله شرّھا فمن دعاکم الی مثلھا فاقتلوہ“ (1)
”یعنی خلافت کےلئے ابو بکر کا انتخاب ایک اتفاق سے زیادہ نھیں تھا او یہ کام صلاح ومشورہ اور تبادلہ خیال کی بنیاد پر انجام نھیں پایا ، اب جو کوئی بھی تم لوگوں کو ایسے کام کی دعوت دے، اسے قتل کرڈالو“
2۔دوسرا قابل توجہ نکتہ خود اھل سقیفہ کی منطق ھے ۔
گروہ مھاجر کا استدلال غالباً دو چیزوں کے گرد گھوم رھا تھا : ایک ان کا خدا و پیغمبر اسلا م پر ایمان لانے میں پیش قدم ھونا اور دوسرا پیغمبر اسلام سے ان کی قرابت و رشتہ داری! اگر ان کی برتری کا معیار یھی دو چیزیں تھیں تو خلافت کےلئے حضرت ابو بکر کو حضرت عمر و ابو عبیدہ کا ھی سھارا نھیں لینا چاھئے تھا، کیونکہ مدینہ میں اس وقت ایسے افراد بھی موجود تھے جو ان دو افراد سے بھت پھلے دین اور توحید پر ایمان لا چکے تھے اور پیغمبر اسلام سے نزدیکی قرابت بھی رکھتے تھے۔
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے پھلے شخص تھے اور پیدائش کے دن سے ھی آپ کے دامن مبارک میں تربیت پائے ھوئے تھے اور رشتہ داری کے لحاظ سے بھی آپ کے چچیرے بھائی اور داماد تھے ۔ اس کے باوجود کس طرح ان تین افراد نے خلافت کی گیند کو ایک دوسرے کی طرف پاس دیتے ھوئے بالآخر اسے حضرت ابو بکر کے حوالے کر دیا؟! عمر نے ابو بکر کی برتری کی توجیہ ان کی دولت مندی ،غار ثور میں رسول اللہ کی ھمراھی ، اور پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھنے کے ذریعھکی۔
دولت مند ھونے کے بارے میں کیا کھا جائے ، یہ وھی ایام جاھلیت کی منطق ھے جب دولت اور ثروت کو برتی و فضیلت کا سبب جانتے تھے ۔ مشرکین کا ایک اعتراض یھی تھا کہ یہ قرآن مجید کیوں ایک دولتمند فرد پر نازل نھیں ھوا (2)
اگر رسول خدا کے ساتھ غار ثور میں ھمسفر ھونا خلافت کےلئے شائستگی اور معیار ھوسکتا ھے تو امیرالمؤمنین(ع)کو خلافت کےلئے اس سے بھی زیادہ شائستہ و حقدار ھونا چاھئے۔کیونکہ آپ(ع)شب ھجرت اپنی جان پر کھیل کر پیغمبر اسلام کے بسترہ پر سوئے تھے مفسرین کا اتفاق ھے کہ درج ذیل آیت آپ(ع)کے بارے میں نازل ھوئی ھے :
(وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَہ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰہ وَاللهُرَءُ وفٌ بِالْعِباَدِ)
اور لوگوں میں وہ بھی ھیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ھیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مھربان ھے ۔ (3)
آنحضرت کی بیماری کے دوران پیغمبر کی جگہ حضرت ابو بکر کا نماز پڑھانا ، بذات خود ایک نامشخص اور مبھم داستان ھے اور یہ بات ثابت ھی نھیں کہ وہ نماز پڑھانے میں کامیاب بھی ھوئے کہ نھیں؟اور یہ کام پیغمبر کی اجازت سے انجام پایا تھا یا ایک من مانی حرکت تھی اور پیغمبر کی بعض بیویوں کے اشارہ پر نماز میں پیغمبر کی جانشینی پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی ؟! ( اس بحث کی تفصیل آیندہ فصلوں میں ملاحظہ فرمائیں)
بھر حال اگر یھی امر امت اسلامیہ کی خلافت کی شائستگی کےلئے دلیل ھو ، تو پیغمبر بارھا مسافرت کے وقت اپنی جانشینی کی ذمہ داری من جملہ نماز کی امامت بعض افراد کو سونپتے رھے ھیں ۔ ایسے افراد کا سراغ حیات پیغمبر کی تاریخ میں ملتا ھے ، یہ کیسے ممکن ھے کہ ان سب جانشینوں میں سے صرف ایک آدمی ، وہ بھی صرف ایک نماز پڑھانے کی وجہ سے باقی لوگوں پر پیغمبر کی جانشینی کا حقدار بن جائے ؟
3۔ شریعت کے اصول و فروع کا علم رکھنا ، اسلامی معاشرے کی تمام ضرورتوں سے باخبر ھونا اور گناہ و خطا سے پاک ھونا ، امامت و رسول خدا کی جانشینی کی دو بنیادی شرطیں ھیں ، جبکہ سقیفہ کے جلسہ میں اگر کسی چیز پر گفتگو نھیں ھوئی تو وہ یھی دو موضوع تھے۔
کیا یہ مناسب نھیں تھا کہ یہ لوگ قومیت ، رشتہ داری اور دیگر بیھودہ معیاروں پر انحصار کرنے کے بجائے علم و دانش اور عصمت اور پاک دامنی کے موضوع کو معیار قرار دے کر اصحاب پیغمبر میں سے امت کی زعامت کےلئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کرتے جو دین کے اصول و فروع سے بخوبی واقف ھو اور ابتدائے زندگی سے اس لمحہ تک اس سے کوئی غلطی سرزد نہ ھوئی ھو ؟ اس طرح خود خواھی کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کو مد نظر رکھا جاتا ؟
4۔ ان دونوں گروھوں کے استدال کے طریقے سے معلوم ھوتا ھے کہ یہ لوگ پیغمبر کی خلافت و جانشینی سے ظاھری حکومت اور لوگوں پر فرماں روائی کے علاوہ کوئی اور مقصد نھیں رکھتے تھے۔ انھوں نے پیغمبر اسلام کے دیگر منصبوں سے چشم پوشی کر رکھی تھی اور ان کی طرف کوئی توجہ نھیں رکھتے تھے ۔ یھی وجہ تھی کہ انصار ، افراد کی کثرت اوراپنے قبیلہ کی طاقت پر ناز کرتے ھوئے اپنے کو دوسروں پر فضیلت دیتے اور حقدار سمجھتے تھے۔
یہ صحیح ھے کہ پیغمبر اسلام مسلمانوں کے حاکم اور فرماں روا تھے ، لیکن آپ اس مقام و منزلت کے علاوہ کچھ دوسرے فضائل اور منصبوں کے بھی مالک تھے کہ مھاجر و انصار کے امیدوارں میں ان کا شائبہ تک نھیں ملتا تھا ۔ پیغمبر اسلام شریعت کی تشریح کرنے والے ، اصو ل و فروع کو بیان کرنے والے ، اور گناہ و لغزش کے مقابلے میںمعصوم تھے۔ ان افراد نے پیغمبر کی جانشینی کا انتخاب کرتے وقت پیغمبر اسلام کی ان معنوی فضیلتوں کو کیسے نظر انداز کردیا جن کی وجہ سے آپ اسلامی معاشرہ میں برتر اور حکمراں قرار پائے تھے بلکہ اسے ظاھری و سیاسی حکومت کے زاویہ سے دیکھا جو عموماً دولت ، قدرت اور قبائلی قرابت کی بنیادوں پر قائم ھوتی ھے ۔
اس غفلت یا تغافل کی وجہ واضح ھے ، کیونکہ اگر اسلامی خلافت کو اس زاویہ سے دیکھتے تو انھیں اپنے آپ کو خلافت سے محروم کرنے کے سوا کوئی نتیجہ نھیں ملتا۔ اس لئے کہ دین کے اصول و فروع سے ان کی آگاھی بھت محدود تھی، حتی حضرت ابو بکر کا مجوزہ امیدوار (حضرت عمر) سقیفہ کی میٹینگ سے تھوڑی ھی دیر پھلے پیغمبر اسلام کی وفات کا منکر ھوچکا تھا اور اپنے ایک دوست کی زبانی قرآن مجید کی آیت 1# سننے کے بعد خاموش ھوا تھا ۔ اس کے علاوہ حکمرانی کے دوران اور اس سے پھلے بھی ان لوگوں کی بے شمار غلطیاں اور خطائیں کسی سے پوشیدہ نھیں ھیں ۔ ان حالات کے پیش نظر کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک ایسی حکومت کی داغ بیل ڈال سکیں جس کی بنیاد علم و دانش ، تقویٰ و پرھیزگاری ، معنوی کمالات اور عصمت پر مستحکم ھو؟!
اصحاب سقیفہ کی منطق پر امیر المؤمنین کا تجزیہ
امیر المؤمنین علیہ السلام نے سقیفہ میں موجود مھاجرین و انصار کی منطق پر یوں تنقید فرمائی :
جب ایک شخص نے امام(ع)کی خدمت میں آکر سقیفہ کا ماجرا بیان کیا کہ : مھاجر و انصار کے دو گروہ اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھ رھے تھے تو علی علیہ السلام نے فرمایا:
1۔( وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہ الرُّسُلُ اٴَفَإِنْ مَاتَ اٴَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَٰی اٴَعْقَٰبِکُمْ)( آل عمران 144)
”تم نے انصارکوجواب کیوںنہ دیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ھم سے کھا ھے کہ ھم ان کے نیک افراد کے ساتھ نیکی کریںاور ان کے خطاکاروں کی تقصیر معاف کردیں“۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے پوچھا : قریش کس اصول پر اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھتے تھے ؟ اس شخص نے جواب دیا : وہ کھتے تھے ھمارا تعلق رسول خدا کے خاندان سے ھے اور ھمارا اور آپ کا قبیلہ ایک ھی ھے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: انھوں نے درخت سے اپنے لئے استدلال کیا اور اس کے پھل اور میوہ کو ضایع و برباد کردیا ۔ اگر وہ اسی لحاظ سے خلافت کے حقدار ھیں تو وہ ایک درخت کی ٹھنیاں ھیں اور میں اس درخت کا پھل اور آنحضرت کا چچیرا بھائی ھوں ، پھرخلا فت کا حقدار میں کیوں نھیں ھوں (4)
امیر المؤمنین کی خلافت کےلئے خود شائستہ ھونے کی منطق
سقیفہ کا ماجر انتھائی ناگفتہ بہ حالت میں اختتام کو پھنچا اور حضرت ابو بکر ایک فاتح کی حیثیت سے جلسہ سے باھر نکلے ، کچھ لوگ انھیں اپنے گھیرے میں لئے ھوئے تھے اور لوگوں سے کھتے تھے : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ کی بیعت کرواور بیعت کو عمومی بنانے کےلئے لوگوں کے ھاتہ پکڑ پکڑ کر حضرت ابو بکر کے ھاتہ پر رکھتے تھے۔
ان ناگفتہ بہ حوادث کے تحت کہ یھاں پرھم ان کی وضاحت کرنے سے قاصر ھیں ، حضرت علی کو مسجدمیں لایا گیا تا کہ وہ بھی بیعت کریں ۔
امام علیہ السلام نے خلافت کےلئے اپنی شائستگی اور سنت رسول سے متعلق اپنے وسیع علم اور عدالت کی بنیادوں پر حکومت کرنے کی اپنی روحی توانائی و صلاحیت کے ذریعہ خلافت کےلئے اپنی لیاقت و شائستگی پر استدلال کرتے ھوئے فرمایا:
” اے گروہ مھاجر ! جس حکومت کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بنیاد ڈالی ھے ، اسے آنحضرت کے خاندان سے خارج کرکے اپنے گھروں میں نہ لے جاؤ ۔ خدا کی قسم ھم اھل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ھیں ۔ ھمارے درمیان ایسے افراد موجود ھیں جو قرآن مجید کے مفاھیم کا مکمل علم رکھتے ھیں ۔ دین کے اصول اور فروع کو اچھی طرح جانتے ھیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت سے اچھی طرح آگاہ ھیں ، اور اسلامی سماج کو بخوبی ادارہ کرسکتے ھیں ۔ برائیوں کی روک تھام کرسکتے ھیں اور غنائم کو عادلانہ تقسیم کرسکتے ھیں ۔
جب تک معاشرے میں ایسے افراد موجود ھیں دوسروں کی باری نھیں آتی ، ایسا شخص خاندان نبوت سے باھر کھیں نھیں مل سکتا ۔ خبردار ! ھویٰ و ھوس کے غلام نہ بنو کیونکہ اس طرح راہ خدا سے بھٹک جاؤ گے اور حق و حقیقت سے دور ھوجاؤ گے ! (5)
شیعہ روایات کے مطابق ، امیر المؤمنین بنی ھاشم کے ایک گروہ کے ھمراہ حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور خلافت کے لئے مذکورہ صورت میں قرآن و سنت سے متعلق اپنے علم ، اسلام میں سبقت اور جھاد میں ثابت قدمی ، بیان میں فصاحت و بلاغت ، شھامت اور شجاعت کو دلائل کے طور پر پیش کرکے اپنی شائستگی کو ثابت کیا اور فرمایا :
” میں پیغمبر اسلام کی حیات اور آپ کی وفات کے بعد منصب خلافت کا مستحق اور سزاوار ھوں ، میں اسرار کا خزانہ اور علوم کا مخزن ھوں ۔ میں صدیق اکبر اور فاروق اعظم ھوں ۔
میں پھلا شخص ھوں جو پیغمبر پر ایمان لایا اس راہ میں آپ کی تصدیق کی ۔ میں مشرکین کے ساتھ جنگ و جھاد کے دوران سب سے زیادہ ثابت قدم ، کتاب و سنت کےعلم سے سب سے زیادہ آگاہ ، دین کے اصول و فروع سے سب سے زیادہ واقف ، بیان میں سب سے زیادہ فصیح اور ناخوشگوار حالات میں سب سے زیادقوی اور بھادر فرد ھوں ، تم لوگ اس وراثت میں میرے ساتھ جنگ و جدال پر کیوں اتر آئے ھو ۔ (6)
اسی طرح امیر المؤمنین اپنے ایک خطبہ میں خلافت کا حقدار ایسے شخص کو سمجھتے ھیں جو امت میں حکومت چلانے کےلئے سب سے بھادر حکم الٰھی کو سب سے زیادہ جاننے والا ھو :
”ایھا الناس انّ احق الناس بھذا الامر اقواھم علیہ و اعلمھم بامر الله فیہ فان شغب شاغب استعتب فان بی قوتل “ (7)
یعنی اے لوگو! حکومت کےلئے سب سے شائستہ فرد وہ ھے جو ، سماج کا نظام چلانے میں سب سے زیادہ طاقت ور اور حکم الھی کو جاننے میں سب سے زیادہ عالم ھو۔ اگر کوئی شخص فساد کو ھوا دے اور وہ حق کے سامنے تسلیم نہ ھو تو اس کی تنبیہ کی جائے گی اور اگر اپنی غلطی کو جاری رکھے تو قتل کیا جائے گا- ۔
یہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی منطق نھیں ھے بلکہ آپ(ع)کے بعض مخالفین بھی جب بیدار ضمیر کے ساتھ بات کرتے ھیں تو خلافت کےلئے حضرت علی(ع)کی شائستگی کا اعتراف کرتے ھیں کہ آپ کا حق چھین لیا گیا ۔
جب ابو عبیدہ جراح حضرت ابو بکر کی بیعت سے حضرت علی علیہ السلام کے انکار کے بارے میں آگاہ ھوئے تو امام علیہ السلام کی طرف رخ کرکے بولے :
” حکمرانی کو ابو بکر کےلئے چھوڑ دیجئے ، اگر آپ زندہ رھے اور طولانی عمر آپ کو نصیب ھوئی تو آپ حکمرانی کےلئے سب سے شائستہ ھیں کیونکہ آپ کی فضیلت ، قوی ایمان ، وسیع علم ، حقیقت پسندی ، اسلام قبول کرنے میں پیش قدمی اور پیغمبر اسلام کے ساتھ آپ کی قرابت کسی سے پوشیدہ نھیں ھے( 8)
حوالہ جات
1۔سیرہ ابن ھشام ، ج4، 308۔ ارشاد شیخ مفید ، ص 260
2۔( لَوْ لَا نُزِّلَ ھٰذَا القُرْء انُ عَلٰی رَجُلٍ مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ) ( زخرف / 31) و نیز رجوع کریں اسراء /90 ۔91)
3۔ بقرہ / 207۔
4۔ ”احتجوا بالشجرة و اضاعوا الثمرة “( نھج البلاغہ خطبہ 64)
5۔الله الله یا معشر المھاجرین لا تخربوا سلطان محمّد فی العرب عن دارہ و قعر بیتہ الی دورکم و قعور بیوتکم و لا تدعوا اٴھلہ عن مقامہ فی الناس و حقّہ ، فو الله یا معشر المھاجرین لنحن اٴحق الناس بہ ، لاٴنا اٴھل البیت و نحن اٴحقّ بھذا الاٴمر منکم ما کان فینا القاری لکتاب الله، الفقیہ فی دین الله ، العالم بسنن الله، المضطلع باٴمر الرعیة ، المدافع عنھم الاٴُمور السیئّة ․ القسم بینھم با لسویة، و الله انّہ لفینا ، فلا تتبعو الھوی فتضلوا عن سبیل الله فتزدادوا من الحقّ بعداً “ ( الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ، ج1 ، ص 12 ، احتجاج طبرسی ، ج1 ، ص 96)
6۔ اٴنا اٴولی برسول الله حیاً و میّتاً و اٴنا وصیّہ و وزیرہ و مستودع سرّہ و علمہ ، و اٴنا الصّدیق الاٴکبر و الفاروق الاٴعظم، اٴوّل من آمن بہ و صدّقہ ، واٴحسنکم بلاءً فی جھاد المشرکین، و اٴعرفکم بالکتاب و السنة ، اٴفقھکم فی الدین و اعلمکم بعواقب الاٴمور و اٴذر بکم لساناً و اٴثبتکم جناناً فعلام تنازعو فی ھذا الاٴمر ( احتجاج طبرسی ، ج 12 ، ص 95)
7۔ نھج البلاغہ، عبدہ ، خطبہ 168۔
8۔لامامة و السیاسة، ج 1 ص 12

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.