حضرت امام مہدی علیہ السلام اہل سنت کی نظر میں
تمہید:ساری زمین امن کے قیام کے واسطے ایک عالمی مصلح کا ظہور حتمی ہے،اور ایک عادلانہ حکومت روئے زمین پرضرور قائم ہونی ہے اس عقیدہ کا تعلق فقط آسمانی ادیان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا میں جتنے فلسفی، اور اجتماعی مکاتب ہیں جو غیر دینی ہیں، وہ بھی اس بات کے قائل ہیں جیسے مادہ پرستوں کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کو لے لیں جو تاریخ کا تجزیہ و تحلیل تناضات اورتفادات کے ٹکراﺅ سے کرتے ہیں،وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ایک یوم موعود ہے جس میں ہر قسم کے تنافضات اورتضادات کا انسانی طبقات میں خاتمہ ہوجائے گا اور پوری انسانیت پر محبت، ہم آہنگی اور امن و سکون غالب آجائے گا۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں ….امام مہدی علیہ السلام شہید باقر الصدر)اسی طرح ہم بہت سارے علماءدین، مفکرین اور دانشوروں کے متعلق جانتے ہیں کہ وہ بھی اس بات کو یقینی سمجھتے ہیں کہ اس زمین پر ایک دن عدالت کا نفاذ ہوگا، امن کا راج ہو گا، ظلم کا اختتام ہوگا، زمین پر خوشحالی کا دور ہو گا۔مشہور برطانوی دانشور برٹرنڈ راسیل کا قول ہے کہ”پورا عالم ایک ایسے اصلاح کنندہ کا منتظر ہے جو سب کو ایک پرچم تلے جمع کر دے اور سب پر ایک ہی آواز موثر ہو، اورسب کا نعرہ ایک ہو”۔فزکس کے معروف ماہر البرٹ السٹائن کہتے ہیںکہ” وہ دن جس میں پورے عالم پر امن اور سلامتی کا راج ہو، سب ایک دوسرے سے محبت کریں، آپس میں بھائی بھائی ہوں، تو ایسا ضرور ہوگا، اس میں کوئی عجب نہیں ہے”۔(بحوالہ: المہدی الموعود و دفع الشبہات عنہ)آئر لینڈ کے مشہور دانشور برنارڈ شرا، ان دونوں بیانات سے زیادہ واضح انداز میں اسی نظریہ کو بیان کیا ہے اور زیادہ باریک بینی سے اس موضوع کو پیش کیا ہے، وہ عالم مصالح کے وجود اور اس کی طولانی عمر کو اس طرح بیان کرتا ہے۔” بلا شک وہ مصلح ایک زندہ انسان، صحت مند جسمانی ہیکل رکھتا ہے اور حیرت انگیز ، غیر معمولی عقلی طاقت کامالک ہے، انتہائی بلند اور اعلیٰ صفات کا مالک انسان ہے، جس تک یہ عام اور معمولی صلاحیتوں والا انسان بڑی جدوجہد اور طویل تگ و دو کے بعد پہنچنے کے قابل ہو سکے، اور یہ کہ اس کی عمر طولانی ہو،تین سو سال سے بھی زائد ہو اور وہ اپنی اس طویل زندگی کے مختلف حالات کو یکجا کرکے ان صلاحیتوںسے استفادہ کر سکے”۔غرض ان کے نزدیک مصلح انسان تمام انسانوں میں ہر حوالے سے ممتاز ہو اور اپنی طولانی عمر کی وجہ سے تمام انسانوں کی صلاحیتوں کا احاطہ رکھتا ہو”۔(برنارڈ شوے (عباس محمودالعقاد ص۴۲۱،۵۲۱)آسمانی ادیان میں حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کا تذکرہالبتہ آسمانی ادیان میں عالمی مصلح کے ظہور کو ایک حتمی اور یقینی امر قرار دیا گیا ہے اور آسمانی ادیان کی کتابوں میں جو بھی غوطہ ور ہوتا ہے اور ان میں مستقبل کے بارے درج شدہ بشارتوں کا پوری دقت کے ساتھ مطالعہ کرتا ہے تو اس کے واسطے اس نتیجہ تک پہنچنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ ان تمام کتابوں میں حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے وجود مقدس کے اشارات ملتے ہیں اور یہ کہ وہ آخری انسان ہیں جس نے پورے عالم کو امن و سکون دینا ہے عدالت کا نفاذ کرنا ہے، ظلم ختم کرنا ہے، وہ ہی حضرت امام مہدی(علیہ السلام) ہیںاور ان کا اشارہ اسی مہدی(علیہ السلام)کی طرف ہے جس کا اظہار مذہب اہل البیت علیہ السلام میں موجود ہے۔آسمانی ادیان کی کتب میں موجود بشارتوں کے بارے تحقیق کرنے والے اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں۔(ملاحظہ کریں بشارات عہدین للشیخ ڈاکٹر صادقی)الکتاب المقدس سے العہد القدیم سے متعلق شعیا کی کتاب میں جو بشارتیں ذکر ہوئی ہیں۔قاضی الساباطی نے ان بشارتوں میں سے ایک بشارت کو لیا ہے اور اس کے بارے بیان کیا ہے کہ یہ بشارت حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے متعلق واضح اور روشن بیان ہے وہ کہتے ہیں ” امامیہ فرقہ والے کہتے ہیں “بلکہ وہ (مہدی علیہ السلام)محمد بن الحسن علیہ السلام العسکری علیہ السلام ہیں جو ۵۵۲ھ میں پیدا ہوئے امام حسن(علیہ السلام) کے اس حرم سے جن کا نام “نرجس (سلام اللہ علیہا)”تھا اور سرزمین سرمن رای (سامرہ) شہر میں آپ کی ولادت ہوئی، خلیفہ المعتمد العباسی کا زمانہ تھا، پھر وہ ایک سال (جوبات مکتب اہل البیت علیہ السلام سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپعلیہ السلام کی غیبت امام حسن عسکری (علیہ السلام)کی وفات کے بعدشروع ہوئی جو تقریباً ستر سال رہی یہ پہلی غیبت تھی جسے غیبت صغریٰ کہا جاتا ہے اس کے بعد دوسری غیبت شروع ہوگی جسے غیبت کبریٰ کہا جاتا ہے جو ابھی تک جاری ہے) پھر آپ ظاہر ہوئے، پھر غائب ہو گئے اور یہ ان کی غیبت کبریٰ ہے، اس غیبت سے وہ واپس نہیں آئے مگر یہ کہ جب اللہ چاہے گا تو وہ واپس آئیں گے”۔ساباطی اس بیان کے بعد لکھتے ہیں: اس لحاظ سے کہ امامیہ فرقہ کا نظریہ کتاب مقدس میں درج شدہ بشارت کے زیادہ قریب تھا اور میرا ہدف اور امت محمدیہ کے نظریات کا دفاع ہے مذہبی تعصب سے جداتھا اس لئے میں نے اس بات کا ذکر کر دیا ہے جس کے امامیہ فرقہ والے قائل ہیں، جو کچھ وہ کہتے ہیں کتاب مقدس میں درج شدہ بعض اشارات اسی کے ساتھ ہم آہنگ ہےں اسی طرح جب “فخر الاسلام جو کہ نصرانی تھا”علامہ محمد رضا المظفرؒ سے ملتے ہیں اور اسلام قبول کر لیتے ہیں، وہ مذہب اہل بیت علیہ السلام سے خود کو وابستہ کر لیتے ہیں وہ بھی اسی نتیجہ پر پہنچے، جس پر علامہ ساباطی اہل سنت کے عالم پہنچے، تو انہوں نے اسلام لانے کے بعد “انیس الاسلام” کتاب لکھی، جس میں یہود و نصاریٰ کے نظریات کو رد کیا گیا ہے اس کتاب میں اس نے کتاب مقدس میں بیان شدہ بشارتوں کو بیان کیا اور اس نتیجہ کو لیا کہ یہ سب بشارتیں حضرت امام مہدی (علیہ السلام)بن الامام الحسن العسکری(علیہ السلام ) پر صادق آتی ہیں ۔جوبات قابل غور ہے ان بشارتوں کے حوالے سے، وہ یہ کہ ان میں عالمی مصلح کے لئے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں وہ مہدی(علیہ السلام) کے علاوہ کسی اور شخصیت پر صادق نہیں آتے اور وہ بھی مذہب اہل البیت علیہ السلام کے نظریہ پرکے علاوہ ان بشارتوں کو کسی بھی اور نظریہ و خیال پر لاگو نہیں کیا جا سکتا ۔انجیل کے مفسرین کا بیانانجیل کے مفسرین نے”سفرالرﺅیا” کے فقرہ نمبر1تا17فصل نمبر12 (یو حنا لاہوتی کے مکاشقات) کی تفسیر میں بیان کیا ہے، وہ سب تصریح کرتے ہیں کہ جس شخص کے متعلق ان بشارات میں بیان ہوا ہے اور یہ فقرات جس شخصیت کا بتا رہی ہیں وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے اس لئے ان فقرات کی واضح اور روشن تفسیر،نامعلوم زمانہ کے سپرد ہے جس کا معنی اور مصداق اسی وقت ظاہر ہوگا۔ (بشارت عہدین ص۴۶۲)علماءاہل سنت کا نظریہعلماءاہل سنت کی ایک بہت بڑی تعداد نے بھی اپنی تحقیق ابحاث کے نتیجہ میں مذہب اہل البیت علیہ السلام کے نظریہ کو اختیار کیا ہے ۔مشہور عالم دین پروفیسر سعید ایوب کا خیال ہے کہ کتاب مقدس کی “سفر الرویا” کے فقرات میں جس شخصیت کی طرف اشارہ ملتا ہے، وہ مذہب اہل البیت علیہ السلام کے نظریہ پر صادق آتا ہے۔وہ اس بارے کہتے ہیں کہ”انبیاءعلیہ السلام ماسلف کے اسفار میں جو کچھ درج ہے اس سے مراد مہدی (علیہ السلام) ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے”۔اس تحریر پر انہوں نے اس طرح مزید تبصرہ کیا ہے ۔ایک خاتون کا تذکرہ جس کی اولاد سے بارہ مرد ہوں گے”میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ میں نے اہل کتاب کی (آسمانی) کتابوں میں اسی طرح سے موجود پایا ہے، اہل کتاب نے حضرت مہدی(علیہ السلام) سے متعلق خبروں کا بھی اسی طرح دقت سے جائزہ لیا ہے جس طرح انہوں نے آپ علیہ السلام کے جد امجد حضرت محمد مصطفی(صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اپنی کتابوں میں موجود خبروں کے بارے کیا تھا ان خبروں میں ایک باعظمت خاتون کا تذکرہ موجود ہے کہ جس کی اولاد سے بارہ مرد ہوں گے ،اس کے بعد ایک اور خاتون کا تذکرہ ہے جس سے آخری مرد کی ولادت ہوگی اور وہ آخری مرد پہلی باعظمت خاتون کی صلب سے ہوگا”السفر” میں اس طرح ذکر ہوا ہے “بتحقیق یہ خاتون جو انہیں ہر قسمی خطرات گھیر لیں گے، ان خطرات کی طرف فقط “التنسین” سے اشارہ کیا گیا ہے (اورالتنسین (خطرات)اس باعظمت خاتون کے سامنے آکھڑے ہوں گے، وہ اپنے بچے کی خیرچاہے گی یہاں تک کہ وہ اس بچے کو جنم دے دے گی) ۔اس سے مراد یہ ہے کہ حکمران اس پیدا ہونے والے بچے کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں گے، جس وقت اس خاتون پر ہر طرف سے خطرات آن پڑیں گے تو اللہ تعالیٰ اس کے بیٹے کو اٹھالے گا اور اس کی حفاظت فرمائے گا۔بارکلے “دواختطف اللہ ولدھا” کی تفسیر میں لکھتے ہیں “ان اللہ غیب ھذالطفل” بتحقیق اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو غائب کرلیا”۔حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی بارہ سو دو ماہ عمر کا تذکرہ”السفر” میں آیا ہے “بتحقیق اس بچے کی غیبت ایک ہزاردوسو ساٹھ دن ہوگی” عبرانی میں اس مدت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے” وہ عنقریب التنسین (خطرات) کی وجہ سے ایک زمانہ، دو زمانے اور آدھا زمانہ غائب ہوں گے۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں بشارات العہدین ص۳۶۲)اس مدت کے بارے اہل کتاب کے اپنے رموز اور بشارات ہیں…. پہلی خاتون کی نسل بارے، بارکلے لکھتے ہیں “بتحقیق انتہائی سخت اور جھگڑالو دشمن جنگ چھیڑے گاجیسا کہ “سفر الرﺅیا” 13/12میں ہے “التنسین(خطرات) اس عورت پر غضبناک ہوں گے اور وہ خطرات سبب ہوں گے کہ اس خاتون کی باقی نسل کے ساتھ جنگ ہوگی جو اللہ کی وصیتوں (فرامین) کے محافظ ہوں گے”۔استاد سعید ایوب نے گذشتہ ابحاث پر اس طرح تبصرہ کیا ہے”یہ ہیں مہدی(علیہ السلام) کے اوصاف جن کا ذکر کتاب مقدس میں ملتا ہے یہ بالکل وہی اوصاف ہیں جنہیں شیعہ امامیہ اثناءعشریہ بیان کرتے ہیں “۔(المسیح الدجال تالیف سعید ایوب ص۹۷۳،۰۸۳)استاد سعید ایوب نے اپنی بات کو مزیداس بیان سے مستحکم کیا ہے کہ”کتاب مقدس میں جو کچھ ذکر ہوا ہے وہ شیعہ امامیہ کے نظریہ کے مطابق ہے”۔(بحوالہ اعلام الہدایة قسم الامام المہدی(علیہ السلام))سابقہ انبیاءعلیہ السلام کی کتابوں سے نتیجہسابقہ انبیاءعلیہ السلام کی کتابوں میں بشارتیں جو بیان ہوئی ہیں یہ سب واضح اشارے اس نظریہ کی جانب ہیں کہ جو نظریہ مذہب اہل بیت علیہ السلام کا ہے ۔علماءاہل سنت کی روایاتاسکے بعدہم ان روایات کی طرف پلٹتے ہیں جو علماءاہل سنت نے اس موعود شخصیت کی ہویت اور خصوصیات کے بارے بیان کی ہیں ہم اس بارے دیکھیں کہ ان روایات میں ایسی عظیم مصلح شخصیت کے ظہور کے حتمی اور یقینی امر ہونے کے بعد اس شخصیت کے متعلق وہ روایات کیا راہنمائی دیتی ہیں، کیا فقط مہدیعلیہ السلام کے عنوان پر اکتفاءکیا گیا ہے یا بعینہ اس شخصیت کے بارے بھی بیان کیا گیا جس نے آکر پورے عالم میں عادلانہ حکومت قائم کرنی ہے۔جواب : یہ بات واضح ہے کہ جو شخص بھی ایک مصلح کے ظہور کا عقیدہ رکھتاہے اور اس کو اس پر یقین کامل ہے لیکن اس کے واسطے یہ بات واضح اور متعین نہیں ہو سکتی کہ وہ مہدی (علیہ السلام) کون ہیں جو آخری زمانہ میں آئیں گے اور ایک خارجی اور حقیقی شخصیت کا روپ دھاریں گے ،تو حقیقت میں ایسا خیال اس مہدی (علیہ السلام)کے بارے عقیدہ نہیں کہلاتا جس کے بارے اسلام کہتا ہے کیونکہ وہ مہدی (علیہ السلام) کے عنوان پر ایمان لایا ہے اس کے مضمون اور اس کی خارجی اور حقیقی شخصیت پرایمان نہیں لایایہ بات اسی طرح ہے کہ کوئی شخص نماز کے وجود کا معتقد ہو لیکن اس کے ارکان سے واقف نہ ہو۔ہم یہ جاننے کےلئے کہ امام مہدیعلیہ السلام ایک عنوان نہیں بلکہ ایک حقیقی اور حقوقی شخصیت بھی ہیں اور اس بارے اہل سنت کی روایات کیا کہتی ہیں اور انکے بیانات سے کیا مطلب نکلتا ہے تو ہم ان روایات کوآنے والے صفحات میں چند عناوین کے تحت بیان کریں گے ۔حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کی ولادت بارےاس بارے کثیر تعداد میں اعتراضات موجود ہیں جنہیں علماءاہل سنت نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور بعض محققین نے ان اعتراضات کو یکجا اکٹھا کیا ہے ترتیب وار زمانی مراحل کو اس سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے غیبت صغریٰ ۰۶۲ھ سے غیبت کبریٰ ۹۲۳ھ کے آغاز تک کے زمانہ اور پھر آج تک اس بارے جو اعتراضات کیے گئے ہیں انہیں زمانی ترتیب کے ساتھ درج کیا گیا ہے، ہم اس جگہ نمونہ کے چند حوالے دیتے ہیں، تفصیل کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی تحقیقی اور تفصیلی کتابوں میں رجوع کیا جائے ۔(حوالہ کے لئے دیکھیں کتاب الایما الصیحح، تالیف سید قزوینی۲۔ کتاب الامام المہدی علیہ السلام فی نہج البلاغہ تالیف شیخ مہدی فقیہ ایمانی ۳۔الزام الناصب تالیف شیخ علی حائری ۴۔ کتاب الامام المہدی علیہ السلام تالیف الاستاد علی محمد دخیل ۵۔کتاب دفاع عن الکافی تالیف الثامرالعبیدی اس آخری کتاب میں اہل سنت کی ۸۲۱ شخصیات کا ذکر کیا گیا جنہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کا اعتراف کیا ہے، ان شخصیات کے ناموں کوسالوں کی ترتیب سے لکھا گیا ہے۔پہلی شخصیت جناب ابوبکربن ہارون الرویانی تاریخ وفات۷۰۳ھ ہیں جنہوں نے اپنی مخطوطہ”المسند ” میں اس بات کا اعتراف کیا ہے۔آخری شخصیت معاصر (ہم عصر) محقق یونس احمد سامرائی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب سامراءفی ادب القرن الثالث الہجری” میں اس بات کو بیان کیا ہے اور یہ کتاب ۸۶۹۱ میں بغداد یونیورسٹی کی مدد سے شائع ہوئی ہے ۔(ملاحظہ کریں دفاع عن الکافی ج۱ ص۸۶۵، ۲۹۵ چھٹی دلیل علماءاہل سنت کے اعتراضات)حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی ولادت بارےاہل سنت کی کتابوں سے حوالہ جاتحوالہ نمبر۱:علامہ ابن الاثیر الجزری عزالدین (تاریخ وفات ۰۳۶) انہوں نے اپنی کتاب الکامل فی التاریح ص۴۷۲،ج۷ پر، ۰۶۲ھ ق کے واقعات میں لکھا ہے، اس سال میں ابو محمد العلوی العسکری کی وفات ہوئی، مذہب امامیہ کے تحت وہ گیارہویں امام ہیں اور وہ ہی محمد کے والد ہیں جن کے بارے مذہب امامیہ والوں کا عقیدہ ہے کہ وہ منتظرہیں۔حوالہ نمبر ۲:ابن خلکان (تاریخ وفات ۱۸۶) نے اپنی کتاب وفیات الاعیان ج۴ ص۶۷۱، ۲۶۵،ج۴ میں تحریر کیا ہے، ابو القاسم محمد بن الحسن العسکری علیہ السلام بن علی الہادی علیہ السلام بن محمد الجوادعلیہ السلام (جن کاذکر پہلے ہو چکا) بارہویں امام علیہ السلام ہیں، امامیہ عقیدہ کے مطابق…. جو بارہ آئمہ علیہ السلام کے قائل ہیں۔” الحجة” کے نام سے مشہور ہیں، ان کی ولادت جمعہ کے دن ۵۱ شعبان ۰۵۵۲ھ میں ہوئی اسکے بعد انہوں نے مشہور مورخ سیاح ابن الازرق الفارقی (تاریخ وفات ۷۷۵ھ ق) کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے اپنی تاریخ “میا فارقین” میں لکھا ہے کہ مذکورہ” حجت ” 9ربیع الاول ۸۵۲ھ کو پیداہوئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت ۸ شعبان ۶۵۲ھ کو ہوئی ہے اور یہ دوسری روایت زیادہ صحیح ہے ۔ابن الازرق کے قول پر تبصرہآپ کی ولادت کے بارے صحیح قول وہی ہے جسے ابن خلکان نے بیان کیا ہے (۵۱ شعبان بروز جمعہ ۵۵۲)اسی تاریخ پر شیعوں کا اتفاق ہے اس بارے انہوں نے صحیح روایات کو بنیاد بنایا ہے اور اس کے ساتھ قدیم علماءکے بیانات کو بطور سند بھی پیش کیا ہے الشیخ الکلینیؒ جو غیبت صغریٰ کے زمانہ میں موجود تھے انہوں نے بغیر کسی اختلافی حوالے کے اسی تاریخ کو بیان کیا ہے، اس تاریخ کے مخالف جو روایات ہیں ان سب پر اس تاریخ کو مقدم کیا ہے آپ نے تحریر کیا ہے آپ علیہ السلام ۵۱شعبان ۵۵۲ھ کو پیدا ہوئے (اصول الکافی ج۱ ص۴۱۵ باب ۵۲۱)شیخ صدوق ؒ (تاریخ وفات ۱۸۳ھ) نے اپنے استاد محمد بن محمد بن عصام الکلینی سے اور انہوں نے محمد بن یعقوب الکلینی سے، انہوں نے علی بن محمد بن بندارسے نقل کیا ہے کہ الصاحب علیہ السلام ۵۱ شعبان ۵۵۲ھ کو پیدا ہوئے ۔شیخ الکلینی نے اپنے قول کی نسبت علی بن محمد بن بندار سے نہیں دی، اسکی وجہ اس بارے شہرت تھی اور یہ کہ اس تاریخ پرسب کا اتفاق تھا (بہرحال شیعہ امامیہ اثناءعشریہ کے ہاں ۵۱ شعبان ۵۵۲ھ میں آپعلیہ السلام کی ولادت باسعادت کا ہونا حتمی اور یقینی امر ہے اس پر سب کا اتفاق ہے)حوالہ نمبر ۳:الذہبی (تاریخ وفات ۸۴۷ھ ق)نے اپنی تین کتابوں میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کا اعتراف کیا ہے، انہوں نے اپنی کتاب”العبر فی خبر من غیر ج۳ص۱۳” میں لکھا ہے ۶۵۲ھ محمد بن الحسن بن علی الہادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق العلوی الحسینی پیدا ہوئے وہ ہی ابوالقاسم ہیں، رافضہ انہیں الخلف، الحجة، المہدی، المنتظر، صاحب الزمان کا لقب دیتے ہیں اور وہ ہی بارہ اماموں سے آخری ہیں، اس سال میں ان کی ولادت ہوئی ۔الذہبی نے تاریخ دول الاسلام میں امام حسن العسکری علیہ السلام کے حالات میں تحریر کیا ہے، وہ الحسن بن علی بن محمد بن علی الرضا بن موسیٰ بن جعفر الصادق ہیں، وہ ابو محمد الہاشمی الحسینی ہیں، شیعوں کے آئمہ سے ایک ہیں، شیعہ ان کی عصمت کا دعویٰ کرتے ہیں، انہیں الحسن العسکری علیہ السلام کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے سامرہ میں زندگی گذاری اور سامرہ کو”عسکر” کہا جاتاتھا، وہ رافضیوں کے منتظر کے والد ہیں، وہ اللہ کے رضوان میں چلے گئے، ان کی وفات ۸ ربیع الاول ۰۶۲ھ کو ہوئی، اس وقت ان کی عمر ۹۲سال تھی، آپعلیہ السلام اپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے ۔بہر حال آپ کے بیٹے محمد بن الحسن جنہیں رافضی القائم ، الخلف سے پکارتے ہیں تو وہ ۸۵۲ھ میں پیدا ہوئے اور بعض نے کہا ہے ۶۵۲ھ میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے اپنی کتاب سیراعلام النبلاءمیں لکھا ہے۔المنتظر، الشریف، ابوالقاسمعلیہ السلام محمد بن الحسن العسکریعلیہ السلام بن علی الہادیعلیہ السلام بن محمد الجواد علیہ السلام بن علی الرضعلیہ السلام بن موسیٰ الکاظمعلیہ السلام بن جعفر الصادق علیہ السلام بن محمد الباقر علیہ السلامبن زین العابدین علی علیہ السلام بن الحسین علیہ السلامالشہید بن الامام علی علیہ السلام بن ابیطالب علیہ السلام، الحسینی ،ہیں بارہ سرداروں کے خاتم ہیں ۔ذہبی کی بات پر تبصرہالذہبی کی رائے حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی ولادت کے متعلق جو تھی اسے ہم نے ان کی کتابوں کے حوالہ سے بیان کر دیا، البتہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے متعلق اس کا عقیدہ اس کے باقی نظریات کی طرح سراب مانند ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ وہ بھی دوسرے افراد کی طرح مہدی (علیہ السلام)کے بارے قائل ہے کہ وہ محمد بن عبد اللہ ہوں گے وہ اپنے اس نظریہ پر اشتباہ اور غلطی پر ہیں کہ مہدی محمد بن عبداللہ ہوں گے لیکن یہ بات ثابت ہوگئی ان کے بیانات سے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلامکے فرزند محمد تھے جیسے شیعہ بارہواں مانتے ہیں۔حوالہ نمبر ۴:ابن الوردی (تاریخ وفات ۹۴۷ھ) نے المختصر المشہور تاریخ ابن الوردی میں لکھا ہے۔ محمد بن الحسن الخالص ۵۵۲ھ میں پیدا ہوئے۔ (نور الابصار ص۶۸۱)حوالہ نمبر۵:احمد بن حجرالحیثمی الشافعی (تاریخ وفات۴۷۹ھ) نے اپنی کتاب” الصواعق المحرقہ” کی آخری فصل کے باب ۱۱ میں اس طرح تحریر کیا ہے “ابو محمد الحسن الخالص،کو ابن خلکان نے عسکری ہی قرار دیا ہے وہ ۲۳۲ھ میں پیدا ہوئے…. اور سامراءمیں وفات پائی، وہ اپنے بابا اور چچا کے پہلو میں دفن ہوئے ،ان کی عمربوقت وفات۸۲ سال تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں زہر دیا گیا، وہ اپنے پیچھے سوائے ابوالقاسم محمد الحجة کے سوا کسی کو نہیں چھوڑ گئے، والد کی وفات کے وقت ان کی عمر پانچ سال تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں حکمت و دانائی کو رکھ دیا آپ علیہ السلام کو القائمعلیہ السلام المنتظرکہا جاتا ہے…. کہا جاتا ہے وہ مدینہ میں مستور اورپوشیدہ اور غائب ہوگئے اور کسی کو معلوم نہیں ہو سکا کہ کہاں چلے گئےحوالہ نمبر۶:الشبراوی الشافعی ( تاریخ وفات۱۷۱۱ھ) نے اپنی کتاب “الاتحاف” میں حضرت امام مہدی (علیہ السلام) محمد بن الحسن العسکری (علیہ السلام)کی ولادت ،شب ۵۱ شعبان ۵۵۲ھ لکھا ہے (الاتحاف بحب الاشراف ص۸۶)حوالہ نمبر ۷:مومن بن حسن الشبلنجی (تاریخ وفات ۸۰۳۱ھ) نے اپنی کتاب نورالابصار میں حضرت امام المہدی (علیہ السلام)کے نام کا اعتراف کیا ہے اور آپ کے شریف و طاہر نسب کو بیان کیا ہے، آپ کی کنیت اور آپ کے القاب بھی لکھے ہیں، ایک طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں، امامیہ کے مذہب میں وہی بارہویں امام ہیں اور آخری امام ہیں ۔حوالہ نمبر۸:خیر الدین الزرکلی (تاریخ وفات ۶۹۳۱ھ) نے اپنی کتاب” الاعلام” میں امام المہدی المنتظر (علیہ السلام) کے حالات میں لکھا ہے وہ “محمد بن الحسن العسکری علیہ السلام الخالص بن علی الہادی، ابو القاسم علیہ السلام ہیں، بارہ آئمہ میں آخری ہیں، یہ امامیہ کا مذہب ہے، وہ سامراءمیں پیدا ہوئے جس وقت ان کے والد کی وفات ہوئی تو اس وقت ان کی عمر پانچ سال تھی، ان کی ولادت کی تاریخ بارے کہا گیا ہے کہ وہ ۵۱شعبان کی رات ۵۵۲ھ میں پیدا ہوئے اور آپ کی غیبت ۵۶۲ھ میں ہوئی۔خیر الدین کے بیان پر تبصرہغیبت صغریٰ کی ابتداء۰۶۲ھ سے ہے، اس پر تمام شیعہ امامیہ کا اتفاق ہے اور جس کسی نے غیبت کی تاریخ لکھی ہے جہاں تک ہماری معلومات ہیں، سب نے اسی تاریخ کا بتایا ہے شاید جو کچھ” الاعلام” میں غیبت کے شروع ہونے بارے بیان کیا گیا ہے یہ چھاپنے یا کتابت میں غلطی ہوگئی کیونکہ الزرکلی نے غیبت کی تاریخ درج نہیں کی، عدد کے غلط لکھے جانے کا امکان موجود ہے ۰۶۲ کو ۵۶۲ لکھ دیا ہو۔ہم نے یہ علماءاہل سنت کے اعترافات سے نمونہ کے چند اقوال اس جگہ بیان کئے ہیں ، ان کے سب اقوال کو اس مختصر کتابچہ میں بیان کرنے کی گنجائش نہ ہے، تفصیلات کےلئے دیکھیں “المہدی المنتظر فی الفکر الاسلامی”۔۲۔ بارہویں امام(علیہ السلام) کے نسب اور آپ(علیہ السلام) کےنام بارےجو بھی اہل سنت کی کتابوں میں موجود احادیث کا غور سے جائزہ لے گا وہ اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے نسب اور نام بارے سب کا اتفاق ہے ایسی احادیث کثرت کے ساتھ ساتھ جس حقیقت کو تاکید کے ساتھ بیان کر رہی ہیں یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کا نسب رسول اللہ سے جا ملتا ہے اور یہ کہ آپ اہل البیت علیہ السلام سے ہیں، بارہ اماموں سے ہیں، بارہ معصوم آئمہ علیہ السلام کے آخری ہیں اور وہ حضرت محمد بن الحسن العسکری علیہ السلامبن علی الہادی علیہ السلام بن محمد الجواد علیہ السلام بن علی الرضعلیہ السلام، بن موسیٰ الکاظم علیہ السلام بن جعفر الصادق علیہ السلامبن محمد الباقرعلیہ السلام بن علی زین العابدین علیہ السلام بن الحسین علیہ السلام بن فاطمہ علیہ السلام بنت رسول اللہ و بن علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔اور ان کا لقب المہدی علیہ السلام ، المنتظر ہے اور یہ بات اس عقیدہ سے ملتی ہے جو شیعہ امامیہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے بارے لکھتے ہیں، اس بارے نمونہ کے طورپر چند روایات ملاحظہ ہوں۔المہدی (علیہ السلام) کنانی ہیں ،ہاشمی ہیںجناب قتادہ سے روایت ہے، وہ کہتاہے میں نے سعید بن المسےب سے سوال کیا کیا المہدی (علیہ السلام) برحق ہیں ؟۔سعید: جی ہاں!برحق ہیں۔قنادہ: وہ کن کی نسل سے ہیں؟۔سعید: کنانہ قبیلہ سے ہیں۔قنادہ: کنانہ قبیلہ کی کون سی شاخ سے ان کا تعلق ہے؟سعید: قریش سے۔قنادہ: قریش کی کون سی شاخ سے ہیں؟سعید: بنی ہاشم سے ہیں(بحوالہ عقد الداردالباب الاول ص۲۴،۴۴، مستدرک الحاکم ج۴ص۳۵۵، مجمع الزوائد ج۷ص۵۱۱)اس روایت کے مطابق المہدی، کنانی، قرشی، ہاشمی ہیں اور ان کے القاب میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ہر ہاشمی قرشی ہوتا ہے اور ہر قرشی کنانہ سے ہے،کیونکہ قریش سے مراد النضر بن کنانہ ہیں، اس پر تمام علماءانساب کا اتفاق ہے۔المہدی (علیہ السلام) عبدالمطلب (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیںابن ماجہ نے انس بن مالک سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا “ہم عبدالمطلب علیہ السلام کی اولاد جنتیوں کے سردار ہیں، میں، حمزہعلیہ السلام، علی علیہ السلام، جعفر علیہ السلام ، حسن علیہ السلام ، حسین علیہ السلام اور مہدی علیہ السلام”۔(بحوالہ السنن ابن ماجہ ج۲ص۸۶۳۱،حدیث نمبر۷۸۰۴، باب خروج المہدی علیہ السلام ، مستدرک الحاکم ج۳ص۱۱۲، جمع الجوامع للسیوطی ج۱ ص۱۵۸)اس روایت کے مطابق حضرت امام مہدی (علیہ السلام) ، حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں ۔
المہدی (علیہ السلام) ابوطالب (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیںسیف بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتا ہے، میں، ابو جعفر المنصور کے پاس تھا اس نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے مجھ سے کہا اے سیف بن عمیرہ “یہ بات حتمی ہے کہ آسمان سے ابو طالب علیہ السلام کی اولاد سے ایک مرد کے نام کی نداءآئے گی۔سیف: میں آپ پر قربان جاﺅں اے امیرالمومنین !کیا آپ اس بات کی روایت کرتے ہیں؟ابو جعفر منصور:جی ہاں! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کیونکہ میرے ان کانوں نے یہ خبر سنی ہے۔سیف: اے امیرالمومنین !میں نے تو اس سے پہلے اس قسم کی حدیث کہیں نہیں سنی ۔ابو جعفر منصور: اے سیف! یہ بات برحق ہے اور سچ ہے اور جب یہ نداءآئے گی تو ہم سب سے پہلے ہوں گے جو اس پر لبیک کہیں گے، بہر حال یہ نداءہمارے چچا کی اولاد سے ایک مرد کے نام کی ہوگی۔سیف: وہ مرد، اولاد فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے ہوگا؟منصور: جی ہاں!اے سیف، اگر میں نے یہ بات ابوجعفر محمد بن علی علیہ السلام سے نہ سنی ہوتی اور انہوں نے میرے لئے یہ بیان نہ کیا ہوتا، تو ان کے علاوہ اگر روئے زمین کے سارے لوگ مل کربھی اس حدیث کی روایت کرتے تو میں اسے قبول نہ کرتا لیکن اس حدیث کو بیان کرنے والے محمد بن علی علیہ السلام ہیں (اسے قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے)(بحوالہ عقد الدررللمقدسی الشافعی الباب نمبر۴ ص۹۴۱، ۰۵۱)یہ روایت تاکید کررہی ہے کہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) حضرت ابو طالب (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں ۔حضرت مہدی (علیہ السلام) اہل البیتعلیہ السلام سے ہیںابو سعید الخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا “قیامت بپا نہیں ہوگی مگر یہ کہ زمین ظلم و جور سے بھر جائے ” اس کے بعد آپ نے فرمایا “اس حال میں میری عترت اور میرے اہل بیت علیہ السلام سے ایک مرد خروج کرے گا وہ زمین کو عدالت اور انصاف سے بھر دے گا جس طرح زمین ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی “۔(بحوالہ مسند احمد: ج۳ص۴۲۴ حدیث ۰۲۹۰۱، مسند ابی یعلی ج۲ص۴۷۲حدیث نمبر ۷۸۹، المستدرک ج۴ص۷۷۵، عقد الدرر باب ۱ موارد الظمان ۴۶۴ حدیث نمبر۹۷۸۱، ۰۸۸۱، مقدمہ ابن خلدون ص۰۵۲فصل ۳۵، جمع الجوامع ج۱ص۲۰۹، کنزالعمال ج۴۱ ص۱۷۲ حدیث ۱۹۶۸۳، ینابیع المودة ۳۳۴باب۳۷)اسی طرح کی روایت عبداللہ ابن عباس نے حضرت نبی اکرم سے نقل کی ہے ، “قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میرے اہل بیت علیہ السلام سے ایک مرد حکومت کرے گا اس کا نام میرے نام جیسا ہوگا”۔(حوالہ جات: مسند البزاز ج۱ص۱۸۲، مسند احمد: ۱۶۷۳، سنن الترمذی ج۴ص۵۰۵ باب نمبر۲۵، حدیث نمبر۰۳۲۲، المعجم الکبیر ج۰۱ ص۵۳۱ حدیث ۱۲۲۰۱، تاریخ بغداد ج۴ ص۸۸۳، عقد الدرر: ۹۳باب۳، مطالب السﺅول :ج۲ص۱۸، السیان فی اخبار صاحب الزمان ص۱۹ تالیف محمد النوفلی القرشی الکنجی الشافعی، فرائد السمطین ج۲ص۷۲۳ حدیث نمبر۶۷۵ الدرالمنشور ج۶ص۸۵، جمع الجوامع ج۱ص۳۰۹، کنزالعمال ج۴۱ص۱۷۴، حدیث نمبر ۲۹۶۸۳، برہان المتقی ج۰۹ باب نمبر۲ حدیث ۴)حضرت علی (علیہ السلام) نے نبی اکرم سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا”مہدی (علیہ السلام) ہم اہل البیت علیہ السلام سے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے واسطے تمام معاملات کو ایک رات میںدرست کر دے گا”۔(حوالہ جات کے لئے دیکھیں ابن ابی شیبہ ج۸ص۸۷۶ حدیث نمبر۰۹۱ وفتن ابن حماد: ومسند احمد:ج۱ص۴۸ وتاریخ البخاری ج۱ص۱۷۳، حدیث ۴۹۹، وسنن ابن ماجة:ج۲ ص۷۶۳۱، باب ۴۳حدیث ۵۸۰۴، و مسند ابو یعلی: ج۱ ص۹۵۳حدیث ۵۶۴ وحلیة الاولیائ: ج۳ ص۷۷۱ والکامل لابن عدی:ج۷ ص۳۴۶۲، والفردوس: ج۴ ص۲۲۲ حدیث نمبر۹۱۶۶ والبیان فی اخبار صاحب الزمان ۰۱۱ للکنجی الشافعی وعقد الدرر: ۳۸۱باب ۶ والعلل المتناہیة ج۲ ص۶۵۸۲ حدیث ۲۳۴۱ وفرائد السمطین: ج۲ ص۱۳۳ حدیث ۳۸۵، ومیزان الاعتدال ج۴ ص۹۵۳ حدیث ۴۴۴۹، ومقدمة ابن خلدون ج۱ ص۶۹۳باب ۳۵ وتہذیب التہذیب ج۱۱ ص۲۵۱حدیث ۴۹۲، وعرف السیوطی الحاوی: ج۲ ص۳۱۲ والدر المنثورج۶ ص۸۵ وجمع الجوامع ج۱ ص۹۴۴ والجامع الصغیر ج۲ص۲۷۶، حدیث نمبر ۳۴۲۹ وصواعق ابن حجر ص۳۶۱ باب ۱۱۵ فصل ۱ وکنزالعمال ج۴۱ ص۴۶۲، حدیث ۴۶۶۸۳، وبرہان المتقی ج۷۸ باب ۱ حدیث ۳۴ ومن ص۹۸، باب ۲، حدیث ۱، ومرقاة المفاتیح ج۹ ص۹۴۳، مع اختلاف یسیر وفیض القدیر ج۶ ص۸۷۲، حدیث ۳۴۲۹)مہدی (علیہ السلام) رسول اللہ کی اولاد سےعبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا” زمانہ کے آخر میں میری اولادسے ایک مرد خروج کرے گا اس کا نام میرے نام جیسا ہو گا اور اس کی کنیت میری کنیت جیسی ہو گی، وہ زمین کو عدالت سے بھر دے گا(آباد کر دے گا) جس طرح زمین ظلم سے بھر چکی ہوگی (ویران ہو چکی ہوگی) بس وہی شخص ہی مہدی (علیہ السلام)ہیں”۔(حوالہ کے لئے دیکھیں تذکرة الخواص ،ص۳۶۳،عقدالدرر ۳۴باب امنہاج السنہ: ابن تیمیہ ج۴ ص۶۸،۷۸)مہدی (علیہ السلام) فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی اولاد سےنبی اکرم کی زوجہ جناب ام سلمہعلیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ!”مہدی (علیہ السلام) کا وجود برحق ہے اور وہ فاطمہ علیہ السلام کی اولاد سے ہو گا”۔(حوالہ: تاریخ البخاری ج۳ص۴۶۳، المعجم الکبیر ج۳۲ص۷۶۲، حدیث۶۶۵، مستدرک الحاکم ج۴ص۷۷۵)۲۔جناب ام سلمہ علیہ السلام نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایاکہ”مہدی علیہ السلام میری عترت سے ہوگا اور وہ فاطمہ علیہ السلامکی اولاد سے ہی ہوگا”۔(حوالہ کے لئے دیکھیں: سنن ابی داﺅد ۴/۴۰۱،ح ۴۸۲۴ وسنن ابن ماجة:۲/۸۶۳۱، باب۴۳ح۶۸۰۴،والفردوس: ۴/۷۹۴حدیث نمبر۳۴۹۶ومصابیح البغوی:۳/۲۹۴ باب۳حدیث نمبر۱۱۲۴وجامع الاصول:۵/۳۴۳،ومطالب السﺅل: ۸وعقد الدرر: ۶۳ باب۱ ومیزان الاعتدال: ۲/۷۸ومشکاة المصابیح:۳/۴۲فصل ۲حدیث ۳۵۴۵، وتحفة الاشراف: ۳۱/۸حدیث ۳۵۱۸۱ والجامع الصغیر:۲/۲۸۶حدیث ۱۴۲۹والدر المنشور:۶/۸۵ وجمع الجوامع: ۱/۹۴۴وصواعق ابن حجر:۱۴۱باب۱۱،فصل ۱و،کنزالعمال:۴۱/۳۶۲ حدیث ۲۶۶۸۳ ومرقاة المفاتیح:۹/۰۵۳ واسعاف الراغبین:۵۴۱وفیض القدیر:۶/۷۷۲حدیث ۱۴۲۹، والتاج الجامع للاصول: ۵/۳۴۳)حضرت امام مہدی (علیہ السلام) حضرت حسین (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیںجناب حذیفہ بن الیمانی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ نے ہم سے خطاب فرمایا اور رسول اللہ نے ہمارے لئے ان حالات کو بیان کیا جو مستقبل میں ہونے والے تھے پھر آپ نے فرمایا “اگر دنیا کے خاتمہ سے فقط ایک دن باقی رہ گیا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو طولانی کر دے گا یہاں تک کہ اس دن میں میری اولاد سے ایک مردکو مبعوث کرے گا جس کا نام میرانام ہوگا” بس سلمان الفارسی نے عرض کیا: یارسول اللہ !آپ کی کونسی اولاد سے ہوگا ؟۔رسول اللہ: میرے اس فرزند سے ہوگا،اور آپ نے قریب بیٹھے اپنے بیٹے حسین علیہ السلام پر ہاتھ مار کر فرمایا: کہ میرے اس بیٹے سے ہوگا ۔حوالہ:المنار المنیف لابن القیم :۸۴۱،۹۲۳ فصل۰۵، عن الطبرانی فی الاوسط، عقد الدرر:۵۴ من الباب الاول وفیہ: اخرجہ الحافظ ابونعیم فی صفة المہدی ،ذخائر العقبیٰ، المحب الطبری: ۶۳۱ وفیہ :فیحمل ماورد مطلقاً فیما تقدم علی ہذاالمقید، فرائد السمطین ۲/۵۲۳،۵۷۵ باب ۱۶، القول المختصر لاابن حجر۷/۷۳باب ۱،فرائد فوائد الفکر:۲باب۱، السیرة الحلیبة: ۱/۳۹۱، ینابیع المودة: ۳/۳۶باب ۴۹، وہناک احادیث اخری بہذا الخصوص فی مقتل الامام الحسین علیہ السلام للخوارزمی الحنفی: ۱/۶۹۱،وفرائدالسمطین :۲/۰۱۳-۵۱۳الاحادیث ۱۶۵،۹۶۵، وینابیع المودة: ۳/۰۷۱/۲۱۲باب ۳۹وباب ۴۹)اللہ کا انتخابابی سعید الخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ مریض ہو گئے اور اس بیماری میں آپ پر نقاہت طاری ہوگئی آپ کے پاس جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا) عیادت کے لئے تشریف لے آئیں، تو اس وقت میں رسول اللہکی دائیں جانب بیٹھا ہوا تھا پس جب جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا)نے رسول اللہ کی حالت دیکھی اور آپ کی کمزوری کا آپ کو احساس ہوا ،تو جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) بے اختیار رو دیں اور آپعلیہ السلام کے آنسو جاری ہو گئے، تو اس وقت رسول اللہ نے فرمایا” اے فاطمہ علیہ السلام ! آپعلیہ السلام کو کون سی بات رلا رہی ہے؟ کیا آپعلیہ السلام کو معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے زمین پر آگہی کے لئے نظر ڈالی اور اس پوری زمین سے آپ کے بابا کو چن لیا اور انہیں نبی مبعوث کیا، پھر زمین پر نظر ڈالی اور اس سے تیرے شوہر کا انتخاب کرلیا، پھر مجھے وحی کردی اور میں نے تیرا نکاح ان سے کردیا اور انہیں میںنے اپنا وصی بنا دیا،کیا آپ علیہ السلام اس بات سے باخبر نہیں کہ اللہ کی کرامت آپ علیہ السلام پر ہے، یہ کہ تیرے بابا نے ایسے شخص سے تیرا رشتہ جوڑدیا جو ان سب میں علم کے لحاظ سے زیادہ ہیں، حلم و حوصلہ مندی میں سب سے زیادہ ہیں اور صلح و سلامتی قائم کرنے میں سب سے آگے، ہیں فاطمہ(سلام اللہ علیہا)یہ بات سن کر مسکرائیں اور خوش ہو گئیں۔رسول اللہ نے آپ کو مزید خیر اور فضیلت کی خبردی، تمام وہ فضیلتیں جو اللہ تعالیٰ نے محمدوآل محمد کو عطا فرمائیںہیں۔رسول اللہ :اے فاطمہ(سلام اللہ علیہا)! علی(علیہ السلام) کے لئے آٹھ منقبتیں ہیں، اللہ پر ایمان، اللہ کے رسولوں پر ایمان، حکمت و دانائی، تیری جیسی زوجہ ان کے واسطے، دو سبطین حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام ان کے واسطے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ان کی خاصیت۔اے فاطمہ(سلام اللہ علیہا) : ہم اہل بیت علیہ السلام جو ہیں ہمیں چھ فضیلتیں عطاءہوئی ہیں اولین اور آخرین میں یہ فضیلتیں اور خوبیاں کسی کو نصیب نہ ہوئیں۔ نہ پہلے والوں نے ان کو پایا نہ بعد میں کوئی ایک بھی فضیلت ان میں سے پائے گا ہمارا نبی خیر الانبیاءاور وہ آپ علیہ السلام کے باپ ہیں ، ہمارا وصی خیر الاوصیاءعلیہ السلام اور وہ آپ علیہ السلام کے شوہر ہیں، ہمارا شہید خیر الشہداءعلیہ السلام اوروہ تیرے باپ کے چچا حمزہ(علیہ السلام) ہیں، اس امت کے سبطین ہم سے ہیں اور وہ دونوں تیرے بیٹے ہیں اور اس امت کے مہدی(علیہ السلام) ہم سے ہیں جن کے پیچھے عیسیٰ(علیہ السلام) نماز ادا کریں گے، پھرحضرت امام حسین(علیہ السلام) کے کاندھوں پر ہاتھ مار کر فرمایا! اس کی اولاد سے اس امت کے مہدی (علیہ السلام)ہوں گے ۔(حوالہ کے لئے: البیان ص۰۲۱، باب الفصول المہمہ ص۶۸۲، دارالاضواء،فصل نمبر ۲۱ ینابیع المودة ص۰۹۴، ۳۹۴، باب نمبر۴۹ تھوڑے سے اختلاف سے )حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی والدہ کا ناماور آپ(علیہ السلام) کا حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)کی اولاد سے ہونامشہور اہل لغت مفسر ابن خشاب سے بیان ہوا ہے، وہ کہتا ہے: مجھے ابوالقاسم طاہر بن ہارون بن موسیٰ الکاظم نے اپنے باباسے یہ بات نقل فرمائی اور اپنے دادا سے بھی اسی بات کو نقل کیا کہ میرے سردار جعفر بن محمد(علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا”الخلف الصالح میری اولادسے ہیں اور وہ ہی مہدی(علیہ السلام) ہیں، ان کا نام محمد ہے، ان کی کنیت ابوالقاسم علیہ السلام ہے ،وہ آخری زمانہ میں خروج فرمائیںگے “۔ انکی والدہ کو نرجس(سلام اللہ علیہا) کہا جاتا ہوگا، انکے سر پر ایک بادل ہوگا جو انہیں سورج کی گرمی سے محفوظ رکھے گا، وہ بادل اس جانب جائےگا جس طرف وہ تشریف لے جائیں گے اور اس بادل سے مسلسل یہ اعلان ہوتا جائے گا اور وہ فصیح اور واضح زبان میں کہہ رہا ہو گا لوگو!یہ مہدی(علیہ السلام) ہیں تم سب لوگ ان کی پیروی کرو”۔(بحوالہ ینابیع المودة ص۱۹۴ حافظ ابونعیم الاصفہانی کی کتاب الاربعین سے اس بات کو نقل کیاہے)حضرت امام مہدی (علیہ السلام) حضرت امام رضا (علیہ السلام)کی اولاد سےجناب حسن بن خالد سے روایت ہے، وہ کہتا ہے مجھ سے حضرت علی بن موسیٰ الرضا(علیہ السلام) نے فرمایا! “اس کا کوئی دین نہیں ہے جو گناہوں سے خود کونہیں بچاتا تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ کرامت والا وہی ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہوگا”۔یعنی تم میں سے جو سب سے زیادہ تقویٰ کے بارے آگاہ ہو اور تقویٰ پر عمل کرتا ہو پھر آپعلیہ السلام نے فرمایا “میری اولاد سے چوتھے جو کہ سیدة الاماء(کنیزوں کی سردار)کے سردار کے بیٹے ہوں گے ان ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ زمین کو ظلم اور جور سے پاک و طاہر کردے گا( حوالہ :ینابیع المودة ص۸۴۴،۹۸۴کتاب فرائدالسمطین سے نقل کیاہے)حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے والد کانام اور ان کا حلیہ مبارکالرویانی، الطبرانی اور ان کے علاوہ دوسرے مورخین اور محدثین نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ رسول اللہ کا فرمان ہے”مہدی(علیہ السلام) میری اولاد سے ہیں ،ان کا چہرہ دمکتے چمکتے ستارے کی مانند ہوگا، ان کا رنگ عربی ہوگا، ان کا قدوقامت اسرائیلی مردوں جیسا طویل ہوگا، وہ زمین کو عدالت کے نفاذ سے آباد کردیں گے جس طرح زمین ظلم وجور کے نظام سے ویران و برباد ہو چکی ہوگی، زمین اور آسمان والے ان کی زمین پر قائم خلافت اور حکومت سے خوش ہوں گے ۔حلیہ مبارک بارے مزید بیانآپعلیہ السلام کے حلیہ مبارک کے متعلق مزید اس طرح بیان ہوا ہے، آپ جوان ہوں گے، آپ علیہ السلام کی دونوں آنکھیں سرمئی رنگ کی ہوں گی، آپ علیہ السلام کے دونوں جاحب باریک ہوں گے، آپ علیہ السلام کی ناک مبارک اوپر اٹھی طویل ہوگی گھنی داڑھی ہوگی، آپ علیہ السلام کے دائیں رخسار پر خال (تل)ہوگا۔شیخ قطب الغوث، میرے سردار جناب مح ¸ الدین ابن العزبی نے اپنی کتاب الفتوحات میں لکھا ہے یہ بات جان لو کہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کا خروج یقینی ہے لیکن وہ خروج نہیں کریں گے یہاں تک کہ زمین ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی، تب وہ آئیں گے اور زمین کو عدالت اور انصاف کے نفاذ سے بھر دیں گے، وہ رسول اللہ کی عترت سے ہیں فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی اولاد سے ہیں، ان کے جد امجد حسین بن علی بن ابی طالب(علیہ السلام) ہیں اوران کے والد امام الحسن العسکری علیہ السلام بن الامام علی النقی علیہ السلام ہیں، وہ الامام محمد التقی بن الامام علی رضعلیہ السلام بن الامام موسیٰ الکاظم علیہ السلام ابن الامام جعفر الصادقعلیہ السلام ابن الامام محمد الباقرعلیہ السلامبن الامام زین العابدین علی بن الحسین علیہ السلام بن علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں، ان کانام رسول اللہ کا نام ہے، رکن اور مقام کے درمیان مسلمان ان کے ہاتھ پربیعت کریں گے، خلقت میں رسول اللہ سے شباہت رکھتے ہوں گے اخلاق بھی رسول اللہوالا ہوگا، تمام انسانوں میں کوفہ والے زیادہ سعادت مند اور خوش قسمت ہوں گے ،مال کو مساوی تقسیم کریں گے،خضر آپ علیہ السلام کے آگے آگے چلیں گے۔حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے اوصافحضرت ولی العصر(علیہ السلام) حجت علیہ السلامخدا صاحب الزمان علیہ السلام کا حلیہ مبارکہمارے اس مقالے کا عنوان ہے “جمال یار” یہ مقالہ جوادجعفری نے تحریر کیا ہے یہ سہ ماہ جریدے “انتظار” کے دوسرے سال کے پانچویں شمارے میں قم المقدسہ ایران سے شائع ہوا ہے یہ مضمون حضرت امام زمانہ(علیہ السلام)کی معرفت کے حوالے سے ہے اور ہر زمانے کے امام علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنا اس زمانے کے لوگوں پر واجب ہے یہ معرفت امام زمانہ(علیہ السلام) کا مسئلہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت نبی کریم نے اپنی آغاز رسالت ہی میں اپنی امت سے کہہ دیاتھا کہ “جس شخص نے اپنے زمانے کے امام علیہ السلامکی معرفت حاصل نہ کی وہ جہالت اور کفر کی موت مر گیا”۔حضرت پیغمبر اور ان کے بعد ان کے جانشین آئمہ طاہرین علیہ السلام نے لوگوں کے عقل و فہم اور شعور کو سامنے رکھ کر امام زمانہ(علیہ السلام) کی شناخت اور معرفت کے حوالے سے مختلف احادیث ارشاد فرمائیں جو مختلف کتب میں موجود ہیں ان میں عقلی دلائل بھی موجود ہیں، قرآنی استدلال بھی ہیں اور روایات بھی ہیں…. سابقہ انبیاءعلیہ السلام کے حوالے بھی ہیں…. البتہ ان میں سے ہر شخص اپنے علم اور شعور و آگاہی کے ذریعے ہی اپنے ظرف کے مطابق اخذ کرتا ہے…. بہر حال امام زمانہ(علیہ السلام) کی معرفت ہر حال میں معاشرے کے تمام طبقات پر لازم اور واجب ہے، حضرت نبی اکرم اور آئمہ معصومین علیہ السلام نے معاشرے کے تمام طبقوں کو مدنظر رکھ کر احادیث بیان فرمائی ہیں اور یہ سادہ سے سادہ اور دقیق سے دقیق نہج پر ہر طبقہ کے لئے موجود ہیں۔زیر نظر مقالہ حضرت امام زمانہ(علیہ السلام) کے حوالے سے ہے اور ظاہر ہے ان کی معرفت اور پہچان ایک خاص اہمیت کی حامل ہے…. اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے جتنے امام علیہ السلامرہے، ہر زندہ امام علیہ السلامنے اپنے بعد میں آنے والے امام علیہ السلام کی معرفت کروائی…. اور امام علیہ السلام کی زندگی میں ہی آئندہ امام علیہ السلام کا تعارف ہو جاتا تھا…. لیکن اس وقت جس امام علیہ السلام کی ہم رعیت ہیں، امام زمانہ(علیہ السلام) کی ولادت ہی سے آپعلیہ السلام کا سلسلہ مخفی تھا، کیونکہ یہ آپعلیہ السلام کی حفاظت کے حوالے سے ساراالٰہی انتظام تھا، لہٰذا ان کی پہچان اور معرفت کروانے کے لئے عہدرسالت ہی سے اس کا اہتمام کیا گیا اور حضوراکرم نے نہ فقط یہ بتایا کہ فلاں میرے بارہویں جانشین ہیںم بلکہ اپنے بارہ جانشینوں کے اسماءمبارکہ، ان کے حلیہ ہائے مبارکہ، ان کے خدوخال اور خصوصیات تک کو ذکرکیااور موجودہ امام علیہ السلام کی غیبت کے بارے میں بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا اور یہ تذکرے فقط شیعہ کتب میں ہی نہیں غیر شیعہ کتب میں بھی یہ سب کچھ موجود ہے جیسا کہ آپ اس کتابچہ میں ملاحظہ فرما رہے ہیں…. بلکہ یہ کہنے میں بھی سو فیصدہم حق بجانب ہیں کہ آخری پیغمبراکرم کے آخری وصی علیہ السلامکا تعارف سابقہ آسمانی کتابوں میں اور سابقہ انبیاءعلیہ السلام سے، جو ان کے اوصیاءکے کلمات نقل ہوئے ہیں یا سابقہ امتوں کے جوواقعات نقل ہوئے ہیں، ان میں بھی یہ تذکرے موجود ہیں…. اور ابھی بہت سارے ادیان جو انحرافی شکل میں اس دنیا میں موجود ہیں حتیٰ کہ ہندو ازم ،بدھ مت کو بھی لے لیں، تو ان کے ہاں بھی اےک عالمی مصلح کا تصور موجود ہے اور ہر جہت میں ےہ واضح ہے ….اس مقالے میں ہم حضرت ولی العصر(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف )کے وجود مبارک اور آپ کے خدوخال کے بارے میں جان سکےں گے اور ہم ےہ سب کچھ اس لےے کتابچہ میں دے رہے ہیںتاکہ جو مومنےن انتہائی سادہ قسم کے ہیں اور علمی بحثوں سے ان کا سروکار نہیں ہے وہ بھی اپنے وقت کے امام علیہ السلام کی شخصےت اور وجود مبارک کے متعلق آگاہی حاصل کر سکیں، حضرت امام زمانہ(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف )کی ظاہری پانچ صفات ہمارے مدنظر ہیں جو عام لوگوں کے لےے ہیں، جن کےلئے اپنے زمانے کے امام علیہ السلام کی پہچان کا بہترےن راستہ یہی ہے دوسری بات ےہ ہے کہ جو عقلی اور نقلی رواےات اور قرآنی دلائل سے کسی بات تک نہیںپہنچ سکتے ان کے لےے ےہ حتمی اور دو ٹوک رائے بھی ہے ۔اور اہل علم کے لےے بھی اےک جمالےاتی تذکرہ موجود ہے، نیز جو امامت علیہ السلام کے جھوٹے دعوےدار ہیں کہ ان کے دعوﺅں کو جھٹلانے کے لےے بھی ےہ دلائل موثر ہیں ۔مہدوےت اےک عنوان و نظرےہ ہی نہیں بلکہ اےک مخصوص شخصےت ہیںکچھ لوگ کہتے ہیں کہ مہدوےت علیہ السلام اےک نظرےہ اور عنوان ہے اور ےہ کسی اےک خاص شخص کے حوالے سے نہیں ہے ….ےہ بیان ان کی بات کی بھی رد ہے کہ مہدی(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف ) صرف اےک نظرےہ اور عنوان ہی نہیں ہے بلکہ وہ اےک حقیقی وواقعی شخصےت ہیں ….وہ ایک معنوی اور تصوراتی چےز نہیں بلکہ اےک حقےقی اور واقعی شخصےت کا نام مہدیعلیہ السلام ہے ….نےز عاشقان امام علیہ السلام کے لےے اپنے امام علیہ السلام کے مقدس وجود کو محسوس اور مشاہدہ کرنے کے لےے ےہ اوصاف موثرترےن ذرےعہ ہیں ۔اس مقالے میں بحث کی جو روش اختیار کی گئی ہے کہ مختلف افراد جو حضرت نبی اکرم اور آئمہ طاہرین (علیہم السلام)کے تشریف لائے تو آپ(علیہم السلام) حضرات نے اپنے اس فرزند کی ایک ہی صفت کو مختلف پیرائے اور لفظوں میں بیان کیا ہے۔ہم نے اس بحث میں اس حوالے سے ملنے والی تمام روایات کو نقل کیا ہے اگر چہ وہ روایات ایک دوسرے سے مشابہت بھی رکھتی ہیں، مگر تھوڑی سی لفظی تبدیلی کے ساتھ راوی مختلف ہیں…. مفہوم ایک ہی ہے، ایک اور بات یہ ہے کہ بنیادی طورپر مصادر و مدارک و اسفاءکے تمام تفصیلی حوالے مہیا کئے گئے ہیں بالخصوص دوکتب اکمال الدین اور غیبت نعمانی…. ان کے فارسی تراجم کو سامنے رکھ کر اس کا سادہ اور سلیس اردو ترجمہ کیا ہے ، حضرت ولی العصر(علیہ السلام)کے وجود مبارک کے اعضائے مقدسہ کی تعریف و توصیف میں جوچیز کلی طورپر بیان ہوئی ہے وہ پانچ عناوین کے تحت ہے۔۱۔ حضرت امام زمانہ (عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف ) کن کی شبیہ ہیں۔۲۔ حضرت حجت(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف ) خدا کا حسن و جمال ۔۳۔ حضرت صاحب الزمان (عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف )کا سن مبارک۔۴۔ حضرت ولی العصر(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف )کاقدو قامت ۔۵۔ حضرت بقیة اللہ(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف ) کے رخسار مبارک۔اب ہم ان تمام عناوین پر فرداًفرداً روایات پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔عربی میں تو ایک بات کئی کئی پیرائے سے بیان ہوئی ہے اس کے مقابلے میں اردو زبان کا دامن تنگ نظر آنے لگتا ہے کیونکہ عربی ادب کی فصاحب کے سامنے…. اردو ادب میں ہمیں محدود الفاظ ہی ملیں گے، یہاں ہم وہ مشترکہ باتیں بیان کریں گے جو تمام روایات میں ذکرہوئی ہیں اور اپنے معزز قارئین کے استفادہ کے لئے تمام حوالوں کو تحریر کررہے ہیں تاکہ وہ حسب ضرورت ان کتابوں سے رجوع کرکے مزید تفصیلات جان سکیںحضرت امام زمانہ(عج) کن کی شبیہ ہیںسب سے زیادہ روایات میں یہ تحریر ہے کہ حضرت قائم آل محمد(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف ) گفتارو کردار، شکل و صورت میں حسن و جمال میں حضرت نبی کریم سے شباہت رکھتے ہیں اور خود پیغمبراکرم نے بارہا فرمایا کہ “مہدی(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف ) سب سے زیادہ میرے مشابہ ہوں گے” اور آپعلیہ السلام کی گفتگو کرنے کا انداز…. آپعلیہ السلام کے چلنے کا انداز…. آپعلیہ السلام کی نشست و برخاست کا پیرایہ…. لوگوں سے رابطہ رکھنے کے اطوار…. آپعلیہ السلام کے لباس پہننے کا طریقہ…. سب باتوں میں آپ علیہ السلام آنحضرت کی مشابہت لئے ہوئے ہیں۔بعض روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت نبی اکرم نے فرمایا کہ مہدی(علیہ السلام)میری اور موسیٰعلیہ السلام بن عمران علیہ السلامکی شباہت ہیں اور بعض روایات میں یہ فرمایا گیا کہ آپعلیہ السلام حضرت امام حسن عسکری(علیہ السلام)کے ساتھ زیادہ شباہت رکھتے ہیں اور بعض روایات میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ حضرت حجت حق…. اخلاق، ہیبت، رعب و دبدبہ میں حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) کے مشابہ ہیں۔بہرحال اس سلسلے میں روایات بہت ساری ہیں ان میں سب سے زیادہ آپعلیہ السلام کی حضرت رسول اللہ سے شباہت کا تذکرہ ہے باقی تمام انبیاءعلیہ السلام کی مختلف صفات کی جھلک بھی آپ علیہ السلام میں موجود ہوگی۔اس جگہ ہم یہ بات بھی کہہ سکتے ہیں کہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے بارے میں جو یہ ملتا ہے کہ آپ علیہ السلام مختلف ہستیوں سے شباہت رکھتے ہوں گے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ ساری ہستیاں کسی نہ کسی حوالے سے حضور اکرم سے مشابہت رکھتی تھیں اور حضرت امام مہدیعلیہ السلام کلی طور پر رسول اللہسے مشابہت رکھتے ہوں گے تو اس حوالے سے ہر وہ پیغمبر یا امام جن کی رسول اللہ سے شباہت ہے آپ ان کے بھی مشابہ ہوئے۔حضرت صاحب الزمان(علیہ السلام)کا حسن و جمالحسن و جمال کے حوالے سے روایات میں بہت زیادہ ذکر اور مختلف پہلوﺅں سے بیان ہوا ہے، اس کو ہم ترتیب وار بیان کررہے ہیں، جب حسن محبوب کا تذکرہ چھڑ جائے تو اس کے قرب، وصل میں تمام تر تفصیلات بھی کوتاہ نظرآتی ہیں اور چاہنے والے کی تشنگی بدستور رہتی ہے، روایات میں لفظی تذکرہ کچھ یوں ہے کہحضرت ولی العصر(علیہ السلام) کا چہرہ اقدس انتہائی خوبصورت ہے…. اب تشبیہ واستعارات کی کمند تو انسانی فکر وہاں ڈالے گی جو حدعقل میں سما سکے اور جہاں ذہن و شعور پر حسن امام علیہ السلامکے جلوہ سے سکتہ چھا جائے، سکوت دم توڑ دے وہاں لفظوں کی تلاش میں سرگرداں ہو کر قلم بھی اس حسن حقیقی میں محو ہو جائے گا….آپ علیہ السلام کا چہرہ اقدس نور کی مانندہے…. اب اس نور کی مانند کا مفہوم تو وہی سمجھے جو نور آشنا ہو اور اسکی نورانی ماحول پر نظر ہو…. تو جہاں تشبیہ و استعارہ سمجھنے سے بھی عقل انسانی قاصر ہو تو وہاں حسن امام علیہ السلامکےلئے کون سا کلیہ اختیار کیاجائے، اب اس میں آپ یقینا ایک تصور ہی میں گھوم پھر کر واپس لوٹ آئیں گے، روایات میں “نورس جوان” کا لفظ لکھا گیا ہے، نیز یہ کہ آپعلیہ السلام کے وجود اقدس سے خوشبو پھوٹ پھوٹ کر بکھرتی ہے، اب موسم بہار جس کے وجود کی خیرات بن کر چار سو پھیل جائے، اسکے لئے خوشبو کا تصور ہمارے اپنے ہاں پائی جانے والی خوشبو ہی تصور کی جائے گی، جو کُن ±تُ کنزاًکے راز کے مظہر ہوں ان کی خوشبو کیا ہو گی ؟۔آپ علیہ السلام کے پر ہیبت چہرہ اقدس کے بارے میں ہے کہ رعب ودبدبہ والا حسین چہرہ رکھتے ہیں جو جلال و جمال الٰہی کے رکھنے کے باوجود لوگوں کو مسخر کئے ہوئے ہے اور دیکھنے والے اس جلالت نواز حسن الٰہی میں محوہوجاتے ہیں کیونکہ اس پیکر حسن کے علاوہ اتنادلنواز حسن کہیں ہے ہی نہیں!!!۔اب روایات میں ہے کہ آپعلیہ السلام چاند کے ٹکڑے ہیں، یہ تو صرف ہمیں سمجھانے اور بتانے کے لئے چاند کی تشبیہ دی گئی ہے، ورنہ چاند جن کے بہلانے کے لئے خلق ہوا ہو، چاند کو اگر ان کی زکوٰة نہیں بلکہ خیرات کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔روایات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلامخود چاند ہیں، اس سے ہمیں یہی تصور مل سکتا ہے کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جس طرح چودہویں کے چاند کی نورانی کرنوں کی بارش سے اندھیرا کافور ہوجاتا ہے آپ علیہ السلام کے وجود مقدس کی برکت سے باطل کے تمام تر اندھیرے بے بس ہیں۔آپ علیہ السلام کوروشن کوکب دری بھی کہا گیاہے …. اور مثل مشتری کہہ کر پکارا گیا ہے کسی نے کہا کہ شاخ صندل کی مانند حسن کے مالک ہیں، آپ علیہ السلام کو ریحان سے تشبیہ دی گئی ہے، آپ علیہ السلام کے وجود مقدس کے بارے میں ہے کہ حسن کے حوالے سے کوئی ایسا جسم ہے ہی نہیں۔روایات میں لکھاہے کہ آپعلیہ السلام خوش پوش، پاکیزہ لباس زیب تن کرنے والے ہیں ، آپعلیہ السلام کی شکل وصورت سے بزرگانہ ہیئت ٹپکتی ہے…. آپ علیہ السلامہر ایک پر احسان کرنے والی پاکیزہ ذات ہیں۔نیز ملتا ہے کہ آپ علیہ السلام بہشت والوں کے لئے طاﺅس ہیں یہاں اس مقالہ کے مولف نے فارسی کے اشعار موقع کی مناسبت سے خوب تحریر کئے ہیں کہاگرچہ حُسن فروشاں بہ جلوہ آمدہ اندکسی بہ حسن و ملاحت ہ یار مانرسدہزار نقش برآید ز فلک صنع ویکیبہ دل پذیری نقش نگار ما نرسدیعنی اگر سارے حسن فروش جمع ہو جائیں اور اپنا حسن دکھانے کے لئے آجائیں تو ہمارے محبوب کے حسن و جمال کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، ہزار نقوش اپنی صنعت کو میدان میں لے آئیں لیکن جو ہمارے محبوب میں دلپذیری ہے وہ کسی میں نہیں۔معزز قارئین! یہ تمام تر حوالے ہمارے اپنے معاشرے میں موجود لوگوں کو سمجھانے کے لئے دیئے گئے ہیں، چونکہ ہماری ذہنی رسائی انہی تک ہے، ورنہ ان کے حسن و جمال کی تعریف انسانی بس میں ہے ہی نہیں، اس دیئے گئے حلیہ مبارک سے ہم اچھی سی اچھی شئے کو آپ علیہ السلام کی بارگاہ میں صرف اور صرف نسبت ہی کے طورپر پیش کر سکتے ہیں، ورنہ پردہ غیبت میں…. جلالت کانقاب اوڑھ کے (عج)…. اک شخص نہیں بلکہ نور کا ایک طور کھڑا ہے۔حضرت بقیة (علیہ السلام) کا سن مبارکروایات میں ہے کہ آپعلیہ السلام ایک جوان رعنا نظرآتے ہیں، دیکھنے والا آپعلیہ السلام کو دیکھ کر مبہوت…. محویت میں غرق ہو جاتا ہے، آپ علیہ السلام کی حیات اقدس اگرچہ اس وقت ۰۸۱،۱ برس ہو چکی ہے مگر آپ علیہ السلام ایک مکمل وجیہ جوان لگتے ہیں۔ انشاءاللہ ہم جلد منظر دیکھیں گے جب آپ علیہ السلامکا ظہور پر نور ہوگا اور آپ کے وجود مقدس کی زیارت سے مشرف ہو سکیں گے” انشاءاللہ” بہت ساری روایات میں آپ کی حیات اقدس کی مدت بھی تحریر ہے، بعض نے تیس سال لکھی ہے، بعض نے بتیس سال اور بعض نے چالیس سال سے کم تحریر کی ہے، آپ اپنی حیات مقدس کے آخری وقت تک اسی سن میں لگیں گے، آپ علیہ السلام کے وجود مقدس پر قطعاً بڑھاپے کے آثار نہیں ہیں یعنی آپ علیہ السلام کا ظاہری سراپا مندرجہ بالا روایات کے تحت یہی ہوگا۔حضرت امام عصر(علیہ السلام) کی قدو قامتروایات میں ہے کہ آپ علیہ السلام ایک متوسط قد کے جوان ہیں…. نہ دراز ہیں…. نہ کوتاہ قد…. بلکہ معتدل اور درمیانہ قد کے ہیں، آپ(عج) کے وجود مبارک کے بارے میں انبیاءعلیہ السلام کے اجساد مبارکہ کی مثالیں بھی دی گئی ہیں، یہ بہت ساری روایات ملتی ہیں آپ علیہ السلام طاقتور لطیف اندام ہیں، آپ علیہ السلام کی رنگت کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ آپ علیہ السلام کا رنگ واضح اور درخشاں ہے، آپ علیہ السلام کے رخسارکا رنگ چمکتے ہوئے ستارے کی مثل ہے، آپ علیہ السلام کے ارغوانی چہرے کے حسن کی ملاحت پہ دنیا انگشت بدنداں ہو جائے گی، آپ علیہ السلام کا رنگ عربوں کی روایتی مثل ہوگا اور مائل بہ سرخی ہے، گندم گوں رنگ پہ سرخ پن حاوی ہے…. سنہرہ پن ظاہر ہو رہا ہے،شب زندہ داری کی وجہ سے چہرہ مبارک پہ زردی ظاہر ہے، آپ علیہ السلام کا سر اقدس خوبصورت اور گول ہے اور اس میں ایک خاص نشانی ہے جس سے وہی آگاہ ہیں جو زیارت سے بہرہ ور ہیں…. باقی لغت کے قیافوں میں سرگرداں ہیں، آپ علیہ السلام کے سراقدس حضرت نبی اکرم کے سر اقدس جیسا ہے یعنی بڑا اور گول ہے۔آپ(علیہ السلام) کے سر اقدس کے موئے مبارکیہ کاکل مشکیں کہ شب قدر ہو قرباںزلفوں کے خم و پیچ کے معراج کی راہیں(صفدرحسین ڈوگر)آپ علیہ السلام کے موئے مبارکہ انتہائی جاذت نظر اور خوب صورت ہیں، نیز شانوں تک ہیں اور آپ علیہ السلام کے موئے مبارکہ، سیاہ رنگ، مگر سرخی مائل ہیں اور آپ (عج) کی زلفیں کندھوں کی طرف کانوں تک ہیں، نیز یہ بھی روایات میں ملتا ہے کہ آپ علیہ السلام کے موئے مبارکہ کچھ کچھ گھنگھریالے بھی ہیں، آپ علیہ السلام کے سرمقدس میں گیسو ہیں، ایک روایت میں دوگیسوﺅں کا تذکرہ ہے، سرائیگی زبان میں جنہیں “لٹیں” کہا جاتا ہے…. یہ دو گیسوﺅں والی روایات بہت زیادہ ہیں…. نیز آپ علیہ السلام کے سرمقدس میں مانگ ہے اور ایسی مانگ ہے جیسی دو “واﺅ” کے درمیان الف ہوتی ہے، چونکہ آپ علیہ السلام کی شباہت حضرت رسول اکرم سے ہے، اس لئے آنحضرت کے گیسو مبارک بھی اسی طرح ذکر ہوئے ہیں۔حضرت امام زمانہ (علیہ السلام) کا چہرہ مبارکآپ علیہ السلام کے رخساروں پر گوشت گم ہے اور بڑے لطیف و گداز ہیں، آپ علیہ السلام کے رخسار مبارک پہ خال ایسے ہیں جیسے مشک کا دانہ عنبر پر موجود ہو…. سبحان اللہ…. مولا علیہ السلاماپنے ظہور کے وقت ہمیں زیارت سے نوازیں اور اس قابل بنا دیں کہ دیدار کے قابل ہو سکیں، اس خال کے سلسلے میں بہت ساری روایات ہیں اور ہر راوی نے خال اقدس کی مثال اپنی شعوری انتہاءکے مطابق بیان کی ہے، بعض راویوں نے اسے کوکب دری کہا ہے، بعضوں نے مشک کا دانہ جیسے چاندی پر نظر آئے، ہر شخص نے اپنی معرفت کے مطابق ذہنی رسائی تک تشبیہ دی ہے، آپ علیہ السلام کی پیشانی مبارک پر دونوں آنکھوں کے درمیان سجدوں کا نشان نمایاں ہے۔آپ علیہ السلام کے خال مبارک کی درخشندگی دلکش واضح اور دیدہ زیب ہے۔اے آفتاب آئینہ دار جمال تومشک سیاہ مجمرہ گردان خال توآپ علیہ السلام کی پیشانی واضح، کھلی بلند اور روشن ہے، لطیف اور چمکتی ہوئی پیشانی اور کنپٹیاں مبارک واضح اور درخشندہ ہیں، آپ علیہ السلام کی پیشانی کے اوپر کچھ بال عنقا ہیں، پیشانی کے موئے مبارکہ کودائیں بائیں کر رکھا ہے اور وہ گیسو بن کر کانوں تک آویزاں ہیں۔حضرت حجت خدا علیہ السلام کے ابرو مبارکابروہیں کہ قوسین شب قدر کھلے ہیںآپ علیہ السلام کے ابرومبارک، بلند اور کمان دار ہیں اتنے ہوئے کشادہ اور برجستہ ہیں دونوں ابرومبارک ایک دوسرے کے قریب ہیں، درمیانی فاصلہ زیادہ نہیں ہے۔حضرت صاحب الزمان(علیہ السلام)کی چشم ہائے مبارکہآپ علیہ السلام کی چشمہائے مبارکہ سیاہ ہیں، چمکدار ہیں، اٹھی ہوئی کشادہ اور شفاف ہیں، جذابیت رکھنے والی ہیں، ان میں درخشندگی ہے، آپ علیہ السلام کی چشمہائے مبارکہ باہر کی طرف اٹھی ہوئی نہیں ہیں، بلکہ معمولی سی اندر کی طرف ہیں، یہی کیفیت حضرت نبی اکرم کی چشمہائے مبارکہ کی بھی کتب میں درج ہیں ۔حضرت ولی العصر(علیہ السلام)کی بینی مبارکآپ علیہ السلام کی بینی مبارک لمبی باریک و لطیف اور بلند ہے۔حضرت صاحب العصر(علیہ السلام) کا دہن اقدس اور لب ہائے مبارکہآپ علیہ السلام کا دہن مبارک نہ چھوٹا ہے اور نہ بڑا ہے بلکہ بڑاموزوں اور متوازن ہے اور لب ہائے مبارکہ سرخ عقیق کی مانند ہیں۔حضرت خلیفة اللہ (علیہ السلام)کے دندان مبارکیہ دانت یہ شیرازہ شبنم کے تراشےیاقوت کی وادی میں دمکتے ہوئے ہیرےآپ علیہ السلام کے اگلے دانت کھلے اور درخشندہ ہیں اور دانتوں میں معمولی سا فاصلہ بھی ہے چمکدار اور روشن ہیں، دہن مبارک سے دندان مبارک کے ذریعے نور پھوٹ پھوٹ کر واضح ہورہا ہے اور حضرت جعفر طیار علیہ السلام کی اولاد کے بارے میں بھی یہی ہے کہ ان کے دندان مبارک اسی طرح تھے جس طرح کہ حضرت حجت خدا علیہ السلام کی ہےں۔حضرت امام العصر(علیہ السلام) کی ریش مبارکآپ علیہ السلامکی ریش مبارک بھری ہوئی ہے زیادہ لمبی نہیں ہے۔حضرت ولی العصر(علیہ السلام) کی گردن مبارکگردن ہے کہ برفرق ز میں اوج ثریاآپ علیہ السلام کی گردن مبارک لمبی خوبصورت اور موزوں ہے اور اللہ کی اعلیٰ ترین صنعت ہے ، بہت ہی سفیداور درخشاں آپ علیہ السلامکی گردن کے نیچے ہنسلی پر سونے کی تاریں رواں دواں ہیں۔حضرت امام عصر(علیہ السلام) کے دوش مبارکآپ علیہ السلام کے دوش مبارک کی استخوان مقدس بڑی ہیں اور کندھے کشادہ ہیں اور آپ علیہ السلام کے دوش مبارک پر خال ہے، دونوں کندھوں کے درمیان نیچے کی طرف خاتم الاوصیاءعلیہ السلام کی مہر لگی ہوئی ہے…. روایات میں اس علامت کو “درخت آس” (یہ درخت انار کے درخت جتنا ہوتا ہے اس کے پتے سبز اور خوشبودار ہوتے ہیں) کے پتے کی مانند بتایا گیا ہے اور یہی تعبیر مبارک حضرت نبی اکرم کے بارے میں بھی بیان کی گئی ہے۔حضرت صاحب الزمان(علیہ السلام)کا سینہ مبارکآپ علیہ السلام کا سینہ کھلا اور کشادہ ہے۔حضرت وارث زمانہ(علیہ السلام) کی کمر مبارکآپ علیہ السلام کی کمر پر دو خال ہیں، ایک خال حضرت نبی اکرم کے خال کی مانند ہے اور دوسرا جسم کے رنگ سے مشابہ ہے۔
حضرت حجت خدا (علیہ السلام)کی کلائی مبارکآپ علیہ السلام کی کلائی لطیف زیبا اور مضبوط ہے اور دائیں کلائی پر یہ لکھا ہو اہے۔”جاءالحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا”حق آگیا اور باطل چلا گیا اور باطل جانے ہی والا ہے۔آپعلیہ السلام حجت الحق (علیہ السلام) کی دست ہائے مبارک و قد م ہائے مبارکآپ علیہ السلام کے دونوں ہاتھ قوی ہیں، دائیں ہاتھ پر تل ہے بعض نے لکھا ہے کہ آپ کے دونوں ہاتھوں پر لکھا ہوا ہے۔”بایعوہ فان البیعة للہ “عزوجل”یعنی ان کے ہاتھ پر بیعت کرو کہ ان کی بیعت اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔آپ علیہ السلام کی انگلیاں دستہائے مبارکہ اور قدم ہائے مبارک بھاری اور قوی ہیں جس طرح طاقتور اور مضبوط افراد کے ہوتے ہیں، حضرت ولی العصر(علیہ السلام) کے ہاتھوں اور بازوﺅں کی درمیانی جگہ ذرا لمبی ہے، آپ علیہ السلام کے قدم ہائے مبارک کے اوپر گوشت کم ہے۔حضرت ولی العصر(علیہ السلام)کا بطن مبارکحضرت امام زمانہ(علیہ السلام) کا دل بہت وسیع ہے، انہوں نے یہاں بطن کا معنی دل کیا ہے یعنی آپ علیہ السلام فراخ دل ہیں اور آپ(علیہ السلام) کا سینہ اور پیٹ برابر ہے سینے سے لے کر پیٹ تک بالوں کی ایک لکیر ہے یہی الفاظ حضرت نبی اکرم(صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی استعمال ہوئے ہیں، ان بالوں کی ایک لطیف لکیر کے علاوہ آپ علیہ السلام کے سینہ پر کوئی بال نہیں ہے۔حضرت صاحب الزمان(علیہ السلام) کی ران مبارکآپ علیہ السلام کی ران مبارک بڑی کشادہ، مضبوط اور قوی ہے، آپ علیہ السلام کی دائیں ران پر ایک خال ہے یعنی آپ علیہ السلامکے جسم کے اعضاءمبارک مضبوط، محکم اور طاقتور ہیں۔حضرت امام زمانہ(علیہ السلام) کا زانور مبارکآپکے زانو مبارک تھوڑے اندر کی طرف جھکے ہیں، اسی طرح حضرت نبی اکرم کے زانوﺅں کے بارے میں بھی روایت بیان ہوئی ہے…. عرب و عجم کے شعراءنے آپکے سراپا مبارک پر اپنی اپنی عقیدت کا خراج پیش کیا ہے اور آئندہ بھی ان کے ظہور مبارک تک لکھتے رہیں گے۔جیسا کہ ہم اس مقالے کے آغاز میں دے چکے ہیں کہ یہ مضمون قم المقدسہ ایران سے شائع ہونے والے سہ ماہی جریدہ “انتظار” کے دوسرے سال کے شمارہ پنجم کا ہے ص۱۵۱ تا ص۰۹۱ تک ہے اور اسکے تمام حوالہ جات اسکے ص۰۹۱ سے لےکر ص۴۹۱ تک ہیں وہاں سے ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے بعض دیگر اوصاف کا تذکرہ۱۔الجحجاح المجاہد المجتہد۔حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کی زندگی مسلسل جہاد ہوگی…. اس ضمن میں امام خمینیؒ سے پوچھا گیا کہ آپ کی زندگی کا ٹائم ٹیبل کیا ہے تو جواب دیا کہ میں ۴۱ گھنٹے مسلسل کام کرتا ہوں یعنی آپ علیہ السلام امام زمانہ(علیہ السلام) کی پیروی میں ایسا کرتے تھے ۔تو آپ اس سے خود سوچ لیں کہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی عملی زندگی کیسی ہوگی۔۲۔خاشع للہ کخشوع النسرلجناحہامام زمانہ(علیہ السلام) اللہ کے احکام کے معاملے میں اتنی احتیاط کرنے والے ہیں کہ جتنی عقاب اپنے پروں کی حفاظت کرتا ہے۔۳۔یکون اشد الناس تواضعاًللّٰہ” عزوجل “امام مہدی علیہ السلامتمام لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کے لئے سردھڑ کی بازی لگانے والے ہوں گے۔۴۔شدید علی العمال رحیم علی المساکینامام(علیہ السلام) اپنے کارندوں، منیجروں، آفیسروں پر سخت گیر اور کمزور اور غریبوں پر نہایت مہربان ہوں گے۔۵۔ علیہ کمال موسیٰ وبہاءعیسیٰ وصبرایوبامام مہدی علیہ السلامکمال موسیٰعلیہ السلام، عیسیٰعلیہ السلام کی سطوت اور ایوب علیہ السلام کے صبر کے مالک ہوں گے۔۶۔تعرفون المہدی بالسکینة والوقارتم حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کو ان کے پرسکون اور باوقار ہونے سے پہچان لو گے۔یعنی امام(علیہ السلام) کا اتنا رعب اور دبدبہ ہوگا کہ اس لئے ہر ایک انہیں دیکھ کر یہ تسلیم کرے گا کہ واقعی یہ ہی امام زمانہ(علیہ السلام) ہیں ۔۷۔ولایضع حجر علی حجرحضرت امام مہدی(علیہ السلام) پتھروں کے اوپر پتھر نہیں رکھیں گے یعنی امام مال و دولت جمع نہیں کریں گے۔۸۔ یحذوفیہا علی مثال الصالحینحضرت امام مہدی(علیہ السلام) صالحین کی مثال پر چلیں گے یعنی خوشامد پسند، خود ستا، نہیں ہوں گے۔۹۔ یعتاد مع سمرتہ صفرة من سہر اللیل بابی، من لیلہ یرعی النجوم ساجدا راکعابابی من لایا ¿خذلومة لائم مصباح الدجی بابی القائم بامراللہ۔حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کی رنگت رات بھر جاگنے اور تہجد پڑھنے کی وجہ سے زرد ہو گی….میرے والد ان پر قربان ہوں جس کو ساری رات ستارے کبھی قیام میں دیکھیں گے کبھی رکوع میں کبھی سجدے میں دیکھیں گے…. میرے والد ان پر قربان! جو خدمت دین میں کسی کی ملامت سے نہ ڈریں گے، وہ گمراہی کی تاریکی میں ہدایت کاروشن چراغ ہیں…. میرے والد ان پر قربان ہوں! جو اللہ کے حکم کو قائم کریں گے۔۰۱۔ فیستشیر المہدی اصحابہحضرت امام مہدی(علیہ السلام)اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے والے ہوں گے۔۱۱۔ ویشترط علی نفسہ لہم ان یمشی حیث یمشون ویلبس کما یلبسون ویرکب کمایرکبون ویکون من حیث یریدون ویرضی بالقلیل۔حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اپنی ذات کے لئے یہ لازم کرنے والے ہوں گے کہ (مشورہ کے بعد) جہاں اصحاب چلیں گے وہ بھی ساتھ چلیں گے جو لباس اصحاب پہنیں گے وہی وہ خود پہنیں گے، جس چیز پر اصحاب سوار ہوں گے اس پر وہ بھی سوار ہوں گے اصحاب جو رائے پاس کریں گے وہ ہی ان کی رائے ہوگی اور امام علیہ السلام قناعت کرنے والے ہوں گے۔اللہ کے ہاں حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کا مقام و منزلتہم حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کانام مبارک آپ کے اوصاف کو جان چکے ہیں اس باب میں ہم حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی اللہ کے ہاں جو شان اور منزلت ہے اس بارے ذکر کریں گے اللہ کی نمائندگی میں اللہ کی ساری زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے والی شخصیت آپ علیہ السلام ہی ہیں آپعلیہ السلام اللہ کے خلیفہ ہیں، آپ علیہ السلام ہی مہدی(علیہ السلام) موعود ہیں، جن کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنے سارے نمائندگان کو آگاہ کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب اپنے اپنے زمانہ میں اللہ کے آخری نمائندہ کا تعارف کروائیں اور ان کی اطاعت سب پر فرض قرار دی گئی اس ضمن میں چند روایات ملاحظہ ہوں۔۱۔ انس بن مالک سے روایت ہے میں نے حضرت رسول اللہ سے یہ بات سنی کہ آپ نے فرمایا “ہم عبدالمطلب(علیہ السلام) کی اولادجنتیوں کے سردار ہیں (اس سے مراد) میں خود، حمزہ(علیہ السلام) علی(علیہ السلام) جعفر(علیہ السلام)حسن(علیہ السلام) حسین(علیہ السلام)، مہدی(علیہ السلام) ہیں”۔(حوالہ جات :سنن ابن ماجة:۲/۸۶۳۱ باب ۴۳ حدیث نمبر ۷۸۰۴، ومستدرک الحاکم ۳/۱۱۲ وتاریخ بغداد:۹/۴۳۴حدیث ۰۵۰۵ ومطالب السو ¿ول:۲/۱۸ باب ۲۱ والبیان: ۱۰۱باب ۳ وذخائرالعقبی: ۵۱ و ۹۸، والریاض النضرة: ۳/۴و۲۸۱فصل ۸وعقد الدرر:۴۹۱، باب ۷وفرائد السمطین:۲/۳۲،باب ۷ حدیث ۰۷۳ومقدمہ ابن خلدون:۸۹۳ باب ۳۵ والفصول المھمة: ۴۸۲ط دارالاضواءفصل ۲۱ وجمع الجوامع: ۱/۱۵۸وصواعق ابن حجر:۰۶۱ باب ۱۱فصل ۱ وف ¸ ص۷۸۱باب ۱۱فصل۲، حدیث ۹۱وبرہان المتق ¸: ۹۸ باب ۲ حدیث ۳ واسعاف الراغبین:۴۲۱وعرف السیوط ¸ ،الحاو ¸:۲/۴۱۲)۲۔ عبداللہ بن عباس نے نبی اکرم سے یہ حدیث نقل کی ہے” مہدی(علیہ السلام) اہل جنت کے طاﺅوس ہیں”۔(حوالہ جات: الفردوس ج۴ص۲۲۲البیان ص۸۱۱، باب نمبر۸عقدالارر ۹۱۱ باب ۷۔ العفول ۴۸۲فصل ۲۱، برہان المتقی، ۷۷۱باب ۲۱حدیث۲، کنوز الاقائق : ۲۵۱، نور الابصار: ۷۸۱، ینابیع المودة: ۱۸۱ باب ۵۶)۳۔ابو ہریرہ نے نبی اکرم سے روایت بیان کیا ہے “اس امت کے درمیان ایک خلیفہ ہوں گے ان پر ابوبکر اور عمر(دونوں) کو برتری نہ ہوگی یعنی وہ دونوں پر فضیلت رکھتے ہوں گے”۔(حوالہ جات: ابن ابی شیبہ ج۵۱ص۸۹۱ حدیث ۶۹۴۹۱، الکامل، ابن عدی ج۲ص ۳۳۴۲،عقد الارد: ۹۹۱باب۷ برہان المتقی باب ۲۱ص۲)۴۔ عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ نے فرمایا”مہدی(علیہ السلام ) خروج کریں گے انکے سر پر ایک گہرے بادل کا ٹکڑاہوگا اس بادل کے اندر ایک منادی موجود ہو گا، جو یہ نداءدے رہا ہوگایہ ہیں مہدی(علیہ السلام) :اللہ کے خلیفہ ہیں،تم سب لوگ ان کی اتباع کرو”۔(حوالہ جات: البیان: ۲۳۱باب ۵۱، عقد الدرر:۳۸۱ باب ۶، فرائد السمطین ج۲ ص۶۱۳ باب ۱۶ حدیث ۶۶۵، ۹۶۵، الفصول المہمہ ۸۹۲ فصل ۲۱،عرف السیوطی، الحاوی ج۲ ص۷۱۲ تاریخ الحمنیس ج۲ص۸۸۲ نور الابصار ۸۸۱ ۔۹۸۱)۵۔ عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضورپاک نے فرمایا”مہدی(علیہ السلام) خروج کریں گے، ان سے سر کے اوپر ایک فرشتہ موجود ہوگا جو یہ نداءدے گا، بتحقیق بلاشک و تردید سب آگاہ ہو جاﺅ یہ ہیں مہدی(علیہ السلام) !تم سب لوگ ان کی پیروی و اتباع کرو”۔(حوالہ جات: تخلیص المتشابہ ج۱ ص۷۱۴، والبیان: ۳۳۱ باب ۶۱وفرائد السمطین ج۲ ص۶۱۳ باب ۱۶ حدیث نمبر ۹۶۵ وعرف السیوطی الحاوی ج۲ ص۷۱۶، والقول المختصر ۹۳، باب ۱ حدیث ۴۲، وبرہان المتقی ۲۷ باب ۱حدیث ۲ وینابیع المودّة ۷۴۴ باب ۸۷)حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اللہ کے خلیفہ اور خاتم الائمہ علیہ السلام ہیںحضرت امام مہدی (علیہ السلام) اللہ کے خلیفہ اور خاتم الائمہ (علیہم السلام) ہیںجب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مہدی(علیہ السلام) جو ہیں وہ محمد بن الحسن علیہ السلام العسکری علیہ السلام ہیں اور اللہ کے ہاں ان کی منزلت یہ ہے کہ وہ اللہ کے خلیفہ برحق ہیں، ان کی اطاعت واجب ہے، اب ایک سوال ہے کہ کیا ان کے بعد کوئی اور امام علیہ السلام بھی آئے گا یا وہی آئمہ اہل البیت علیہ السلام سے آخری امام ہیں اور وہ ہی خاتم الائمہ علیہ السلام ہیں، ان پہ امامت کا سلسلہ ختم ہے جیسا کہ شیعہ بارہ امامی کاعقیدہ ہے اور جس کی وہ انتظار کررہے ہیں، اہل سنت سے جو روایات ملتی ہیں ان میں یہ بات واضح ہے کہ مہدی(علیہ السلام) موعود ہی خاتم الائمہ علیہ السلام ہیں اور خلفاءمیں آخری خلیفہ ہیں۔۱۔ ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا” تمہارے چھپے ہوئے (زیر زمین ) خزانہ کہ پاس تین افراد کے درمیان جنگ ہوگی، وہ تینوں حاکم کے بیٹے ہوں گے، پھر یہ خلافت وحکومت ان میں سے کسی ایک کے پاس نہ رہے گی، اس واقعہ کے بعد مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے، وہ ان سب کو قتل کریں گے، ایسی جنگ لڑی جائے گی کہ اس سے پہلے کسی قوم نے ایسی جنگ نہ دیکھی ہوگی” راوی کہتا ہے: کہ اس کے بعد حضورپاک نے ایک بات ارشاد فرمائی جو مجھے یاد نہیں ہے…. اس کے بعد آپ نے فرمایا”جب تم اسے دیکھو :تو ان کی بیعت کرنا، اگرچہ تمہیں برف کے اوپر گھٹنوں کے بل چل کر ہی کیوں نہ آنا پڑے کیونکہ وہی شخصیت اللہ کے خلیفہ مہدی(علیہ السلام) ہوں گے”۔(حوالہ جات: البیان :۴۰۱،باب۳، سنن ابن ماجہ ج۲ص۷۶۳۱ حدیث ۴۸۰۴، المستدرک: ج۴ ص۳۶۴، تلخیص المتدرک ض ج۴ ص۴۶۔۳۶۴، مسند احمد بن حنبل: ج۵ ص۷۷۲)۲۔ حضرت علی ابن ابی طالب(علیہ السلام) فرماتے ہیں “میں نے حضرت رسول اللہ سے یہ سوال کیا: کیا مہدی(علیہ السلام) ہم اہل بیت(علیہم السلام) سے ہیں یا وہ ہمارے غیر سے ہیں؟ رسول اللہ نے فرمایا”وہ ہم سے ہیں، ہمارے ہی ذریعہ دین کا اختتام ہوگا یعنی آخری دین والے ہم ہی ہیں، جس طرح دین کا آغازہم سے ہوا ہے، ہمارے ذریعہ فتنوں کی گمراہ کرنے والے فتنوں سے نجات پائیں گے، جس طرح انہوں نے شرک کی گمراہی سے ہمارے وسیلہ سے نجات پائی ہے، ہمارے ذریعہ اللہ” تعالیٰ” دین کے بارے ان کے دلوں میں الفت و وحدت ایجاد فرما دے گا،جب کہ دشمنی کے فتنوں میں سب گھر چکے ہوں گے، جس طرح دلوں کو دین کی محبت و الفت کی رسی میں جوڑ دیا۔(حوالہ جات:المعجم الاوسط:۱/۶۳۱ حدیث ۷۵۱، والبیان: ۵۲۱ باب ۱۱ وعقد الدرر:۲۹۱ باب۷ ومجمع الزوائد: ۷/۶۱۳۔۷۱۳ ومقدمة ابن خلدون:۶۹۳ باب ۳۵والفصول المہمة:۸۸۲ مع اختلاف یسیر فصل ۲۱ وعرف السیوط ¸، الحاو ¸: ۲/۷۱۲ وجمع الجوامع :۲/۷۶ وصواعق ابن حجر: ۳۶۱، باب ۱۱فصل۱،کنزالعمال: ۴۱/۸۹۵حدیث ۲۸۶۹۳ و برہان المتق ¸: ۱۹باب ۲حدیث ۷و۸ وفرائد فوائد الفکر:۳،باب ۱ونور الابصار:۸۸۱)۳۔ ابن حجر الحیثمی، المتوفی ۴۷۹ نے تحریر کیا ہے ابو الحسین الآبری نے کہا ہے اخبار اور روایات متواترہ موجود ہیں، راویوں کی کثیر تعداد نے اس معنی کی روایات کو بیان کیا ہے کہ حضرت محمد مصطفی نے فرمایا “مہدی(علیہ السلام) بھی زمین کو عدالت وانصاف سے بھردیں گے اور حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کے ہمراہ خروج کریں گے اور دجال کے قتل میں حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی مدد کریں گے اور دجال کا قتل “باب لُد” پر ہوگا جوکہ سرزمین فلسطین میں ہے اور مہدی(علیہ السلام) ہی اس امت کی امامت کریں گے اور حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کے پیچھے نماز ادا کریں گے “۔ (الصواعق المحرقہ، ابن حجر:۵۶۱طبع مصر)۴۔ الشیخ الصبان ( تاریخ وفات ۶۰۲۱ھ) نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم سے متواتر روایات بیان ہوئی ہیں کہ” امام مہدی(علیہ السلام) خروج کریں گے اور امام مہدی(علیہ السلام) آپ علیہ السلام کے اہل بیت سے ہیں اور بلاشک و تردید مہدی(علیہ السلام) ہی زمین کو عدالت اور انصاف سے بھر دیں گے، حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) دجال کے قتل کرنے میں حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی مدد کریں گے اور دجال کاقتل فلسطین کی سرزمین پر مقام “باب لُد” میں ہوگا بتحقیق حضرت امام مہدی(علیہ السلام) ان کی امامت فرمائیں گے اور جناب عیسیٰعلیہ السلام آپ علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھیں گے”۔(حوالہ : سعاف الراغبین الصبان ص۰۴۱)۵۔ ابو سعید کی روایت میں آیا ہے “زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی (ویران ہوگی) (حضور پاک فرماتے ہیں) میری عترت سے ایک مرد خروج کرے گا جو اس زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا (آباد و خوشحال کردے گا)۔ (حوالہ: مستدرک الحاکم ج۴ ص۸۵۵)حضرت امام مہدی(علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امامت فرمائیں گےحضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کے پیچھے نماز ادا کریں گےکتب صحاح اور غیر صحاح میں کثیر تعداد میں روایات حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی جن کی شخصیت آپ علیہ السلام کے نسب ، نام، اوصاف کو بیان کر رہی ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا اتنی ساری گواہیوں کے بعد بھی کسی مسلمان کے لئے حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے عقیدہ سے متعلق کسی اور دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟! ذات امام علیہ السلام کی اطاعت اور ہر قسمی انحرافات سے بچنے کا انتظام ان شواہد میں موجود ہے، تمام روایات اس بات کی بھی تصدیق کر رہی ہےں کہ نبی عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام بن الحسن العسکری علیہ السلام کی امامت میں نماز ادا کریں گے، جیسا کہ شیعہ بارہ امامی کا عقیدہ ہے اہل سنت کی روایات میںبھی اسی بات کو بیان کیا گیا ہے چند روایات ملاحظہ ہوں ۔۱۔ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب “المصنف” میں ابن سیرین سے روایت بیان کی ہے‘ ‘ مہدی(علیہ السلام) اس امت سے ہیں اور وہی عیسیٰعلیہ السلام بن مریم (سلام اللہ علیہا) کے امام ہوں گے”۔(حوالہ :المصنف/ابن ابی شیبہ ج۵۱/۸۹۱/حدیث ۵۹۴۹۱)۲۔ حافظ ابونعیم نے عبداللہ بن عمر سے روایت بیان کی ہے “مہدی علیہ السلام پر عیسیٰ علیہ السلام بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے پیچھے حضرت عیسیٰعلیہ السلام نماز پڑھیں گے”۔(الحاوی للفتاوی ،اسیوطی ۲/۸۷)۳۔ یہ جوحدیث ہے کہ” ہم ہی سے وہ شخصیت ہیں جن کے پیچھے عیسیٰعلیہ السلام بن مریم علیہ السلام نماز پڑھیں گے” اس حدیث کی شرح میں “المنادی” نے لکھا ہے، ہم سے مراد حضور پاک کی اہل بیت علیہ السلام ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ بن مریم علیہ السلام آسمان سے اتریں گے، یہ آخری زمانہ میں ہوگا آپ علیہ السلام صبح کی نماز کے وقت دمشق کی شرقی جانب”منارہ بیضاءپر اتریں گے، وہ اس وقت دیکھیں گے کہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) نماز شروع کرنے والے ہیں، حضرت امام مہدی(علیہ السلام) محسوس کر لیں گے کہ جناب عیسیٰعلیہ السلام تشریف لے آئے ہیں، حضرت امام مہدی(علیہ السلام) پیچھے ہٹیں گے تاکہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) آگے بڑھیں، لیکن حضرت عیسیٰعلیہ السلام انہیں آگے کردیں گے اور حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے پیچھے نماز پڑھیں گے اس امت کے واسطے اس شرف اور برتری سے بڑھ کر اور کون ساشرف ہو سکتا ہے ۔ (حوالہ فیض القدیر المناوی ۶/ج۶ ص۷۱)۴۔ ابن برہان شافعی نے حضرت عیسیٰعلیہ السلام کے نزول سے متعلق اس طرح تحریر کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) کانزول صبح کی نماز کے وقت ہوگا، آپ حضرت مہدی (علیہ السلام)کے پیچھے نماز پڑھیں گے، جب کہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) ان سے یہ گذارش کریں گے کہ اے روح اللہ: آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں تو حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) عرض کریں گے، آپعلیہ السلام آگے بڑھیں یہ نماز آپ علیہ السلام کے لئے کھڑی ہوئی ہے…. آگے چل کر لکھتے ہیں بتحقیق حضرت امام مہدی(علیہ السلام) جناب عیسیٰعلیہ السلام کے ساتھ خروج کریں گے، حضرت عیسیٰعلیہ السلام دجال کے قتل کرنے میں حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی مدد کریں گے اور یہ روایت بیان ہو چکی ہے کہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) عترت نبی سے ہیں اور وہ بھی جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی اولاد سے ہیں ۔ (حوالہ: السیدة الحلبیہ ابن برہان الشافعی:ؒ ج۱/۶۲۲۔۷۲۲)۵۔ فتح الباری شرح بخاری میں اس طرح بیان ہوا ہے “ابو الحسن الخسعی الآبدی نے مناقب الشافعی میںلکھاہے، روایات متواترہ موجود ہیں کہ امام مہدی(علیہ السلام) اس امت سے ہیں اور یہ کہ عیسیٰعلیہ السلام مہدی(علیہ السلام) کے پیچھے نمازپڑھیں گے اور یہ بات انہوں نے اس حدیث کے جواب میں لکھی ہے جسے ابن ماجہ نے اس سے نقل کیا ہے کہ “مہدی(علیہ السلام) ‘ ‘ سوائے عیسیٰ(علیہ السلام) کے کوئی اور نہیں ہیں، اس کے بعد الطیب ¸ کی اس بات کا بھی حوالہ بھی دیا ہے جس میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام)تمہارا امام ہوگا، وہ آپعلیہ السلام کے دین میں ہوگا، اس نے اس بات کو رد کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)امامت کروائیں گے وہ کہتا ہے…. جو مسلم کے نزدیک ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عیسی (علیہ السلام)سے کہا جائے گا کہ تم ہمارے لئے نماز پڑھاﺅ تو حضرت عیسیٰعلیہ السلام کہیں گے نہیں، میں نماز نہیں پڑھاتا! کیونکہ ان کے بعض جو ہیں وہ دوسرے بعض پرحاکم ہیں، اس امت کی کرامت اور عزت کی خاطرایسا ہوگا…. اس کے بعد ابن الجوزی سے اس قول کو نقل کیا ہے! اگر عیسیٰعلیہ السلام امام کے عنوان سے آگے بڑھ جائیں تو درحقیقت ایک اشکال پیدا ہو جائے گاکیونکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰعلیہ السلام جب آگے بڑھیں گے تو وہ نائب بن کر یا شرعی طور پر خود ہی امام ہوں گے، ظاہر ہے نائب تب ہوتا ہے جب اصل موجود نہ ہو، اور وہ خود امام ہوں تو یہ اسلامی مسلمات کے خلاف جاتا ہے…. یہی وجہ ہے کہ اس لئے آپ علیہ السلام ماموم بنیں گے تاکہ اشتباہ واقع نہ ہو اور حضورپاک کا جو فرمان ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اس حدیث پر کسی کو بھی اشکال نہ ہو۔ (حوالہ: فتح الباری شرح صحیح البخاری، ابن حجر العسقلانی ج۶ص۳۸۳،۵۸۳)۶۔ ابن ابی شیبہ نے ابن سیرین سے اس بات کو نقل کیاہے “مہدی(علیہ السلام)” اس امت سے ہیں اور آپعلیہ السلام ہی عیسیٰعلیہ السلام بن مریم(سلام اللہ علیہا) کی امامت کرائیں گے۔(حوالہ المصنف بن ابی شیبہ ۵۱/۸۹۱،حدیث نمبر۵۹۴۹۱)حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کا پرچمحضرت امام مہدی (علیہ السلام) کا پرچمعصر ظہور میں ایک مسلمان کو گمراہی سے بچانے کے واسطے حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کے پرچم کی تفصیلات اور آپ کا جو مخصوص شعار اور نعرہ ہوگا اسے بھی بیان کیا گیا ہے تاکہ اس پرچم کی نشانی سے حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کے ظہور کے منتظرین ہدایت پائیں گے۔عبداللہ بن شریک سے روایت ہے۔”حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے ساتھ رسول اللہ کا پرچم جو “المغلبہ” ہو گا (غالب آنے والا پرچم ) کاش کہ میں اس زمانہ کودرک کرو اور میں اس کی طرف بلا رہاہوں۔(حوالہ: ابن حماد ص۹۴۲،حدیث۲۷۹، القول المختصرص۰۰۱، باب نمبر۳، برہان المتقی ص۲۵۱،باب۷ ج۴۲،)۲۔ ابو اسحاق نے نوف البکائی سے روایت نقل کی ہے”مہدی(علیہ السلام) کے پرچم پر یہ تحریر موجود ہوگی “البعیة اللہ”….بیعت اللہ کے لئے ہے”(حوالہ: ابن حماد،۹۴۲،ج۳۷۹، القول المختصر:۱۰۱باب ۳ج۶۳،برہان المتقی ۲۵۱ باب۷ حدیث ۵۲، فرائدفوائدالفکر۸ باب ۴ینابیع المودة۵۳۴باب ۳۷)حضرت امام مہدی(علیہ السلام) عطاءو بخشش خوشحالی کادورحضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی عطاءو بخششاس بات میں شک نہیں ہے عدالت اپنی تمام ترشکلوں کے ساتھ حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کی قیادت میں مشخص ہوگی، آسمان اور زمین اپنی ساری برکتیں انڈیل دیں گے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ جو دیاگیا وہ پورا ہوگا اور یہ وہی مثالی حکومت ہوگی جس کی سب کو انتظار تھی، اس میں انسان ہر لحاظ سے خوشحال ہوگا، امن ہوگا، ظلم ہوگانہ فساد و غربت ہوگی نہ افلاس، ان حقائق کو درج ذیل روایات میں ملاحظہ کریں ۔درج ذیل روایات کچھ مزید حقائق کوبیان کررہی ہیںجو کہ اہل سنت کی کتب سے ماخوذ ہیں۔۱۔ ابو سعید الخدری نبی اکرم سے حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ “مہدی (علیہ السلام) کے زمانہ میں میری امت آسودہ حال ہوگی، اتنی خوشحالی کہ اس سے قبل اس طرح کی خوشحالی انہیں نصیب نہ ہوئی ہوگی، آسمان ان پر مسلسل نعمتیں بھیجے گا،زمین کسی بھی انگوری کو نہ چھوڑے گی، مگر یہ کہ اسے باہر نکال دے گی اور مال کے ڈھیر لگ جائیں گے، ایک آدمی کھڑا ہو کر سوال کرے گا یا مہدی(علیہ السلام) مجھے دیں! تو مہدی(علیہ السلام) اس سے کہیں گے جو چاہتے ہواٹھالو”۔(حوالہ جات: ابن حماد،۳۵۲حدیث ۲۹۹،البیان:۵۴۱باب۳۲، عقد الورد:۵۲۲ باب۸ الفصول المہمہ ۸۲۲،۲۲،فصل ۲۱،نور الابصار:۹۸۱باب ۲)۲۔ ابو سعید الخدری سے ہے، رسول اللہ نے فرمایا: “میری امت میں مہدی(علیہ السلام) ہوں گے، اگر تھوڑی مدت کے لئے تو سات سال ،وگرنہ نو، ان کے زمانہ میں میری امت اس قدر خوشحال اور آسودہ ہوگی کہ اس قسم کی خوشحالی اس سے پہلے نہ دیکھی ہوگی، زمین اپنی غذائیں اگل دے گی اور کچھ بھی ان سے روکے گی نہیں ، اس دور میں مال کے ڈھیر لگ جائیں گے پس ایک آدمی کھڑے ہو کر مہدی(علیہ السلام) سے مانگے گا، مہدی(علیہ السلام) اس سے کہیں گے جو چاہتے ہو لے لو‘ ‘(حوالہ سنن ابن ماجہ ج۲ص۶۶۳۱،۱۶۳۱، حدیث نمبر۳۸۔۴، مستدرک الحاکم ج۴، برہان المتقی ۱۸،باب۱،ص۲۸ باب۱ حدیث ۶۲)۳۔ ابو سعید الخدری نے رسول اللہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کہ” بتحقیقمیری امت میں مہدی(علیہ السلام) ہوں گے، وہ خروج کریں گے، وہ پانچ یاسات یانو سال زندگی کریں گے (بلاشک وتردید سالوں میں رواں کی طرف سے ہے) ابو سعید کہتا ہے ہم نے دریافت کیا، ان اعداد سے کیامرادہے ؟آپ نے فرمایا “اس سے سال مراد ہیں، مہدی(علیہ السلام) کے پاس آدمی آئے گا اور وہ کہے گا اے مہدی(علیہ السلام) مجھے عطاءکرو، مجھے عطاءکر دو آپ نے فرمایا: اس شخص کے واسطے کپڑا بچھا دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گاجو چاہتے ہو تم لے لو”۔(حوالہ جات :سنن الترمذی:۴/۹۳۴ باب ۳۵ حدیث ۲۳۲۲و البیان:۷۰۱ باب ۶ والعلل المتناہیة:۲/۸۵۸ حدیث ۰۴۴۱ ومشکاة المصابیح: ۳/۴۲فصل ۲حدیث ۵۵۴۵ ومقدمة ابن خلدون:۳۹۳فصل ۳۵ وعرف السیوط ¸، الحاو ¸:۲/۵۱۲ وصواعق ابن حجر:۴۶۱ باب۱۱ فصل۱وکنزالعمال:۴۱/۲۶۲حدیث ۴۵۶۸۳ ومرقاة المفاتیح: ۹/۲۵۳ومشارق الانوار:۴۱۱ فصل۲ وتحفة الاحوذ ¸:۶/۴۰۴حدیث ۳۳۳۲والتاج الجامع للاصول:۵/۲۴۳۳۴۳)۴۔جابر بن عبداللہ انصاری نے رسول اللہ سے حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا”آخری زمانہ میں خلیفہ ہوگا اس کے پاس ڈھیروں مال آئے گا کہ اسے شمار نہیں کیا جا سکے گا”۔(حوالہ: مصابیح السنہ ج۳ص۸۸۴، حدیث ۹۹۱۴، مصنف عبدالرزاق ج۱۱ ص۱۷۲ حدیث ۰۷۷۰۲ باب المہدی علیہ السلام اسے الکافی کی ج۱ص۶۶۲سے لیاہے)۵۔ مسلم نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ “آخری زمانہ میں خلیفہ ہوگا وہ مال کی تقسیم کرے گا اور مال کو شمار تک نہ کرے گا”(صحیح مسلم بشرح النووی ج۸۱ص۹۳)حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے معجزات اور کراماتجب یہ طے ہے کہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) آئمہ معصومین علیہ السلامسے ہی ایک جیسا کہ شیعہ بارہ امامی کاعقیدہ ہے، تو ضروری ہے کہ اس امام کےلئے بھی اللہ تعالیٰ کی خصوصی ،ہوںہرقسمی علم کے مالک ہو، معجزہ دکھانے پر قادر ہوں تاکہ ضرورت پڑنے پر اپنی خلافت اور امامت پردلیل پیش کر سکیں اور خودکو نمائندہ الٰہی ثابت کرنے میں صاحب معجزہ ہوں، جب کہ آپ کے آباءواجداد کے ہاتھوں بوقت ضرورت اسی قسم کے معجزات اور خارق عادت قانون عمومی واقعات ظاہر ہوئے تھے اس حقیقت کی طرف درج ذیل روایات راہنمائی کرتی ہیں ۔۱۔حضرت علی علیہ السلامبن ابی طالبعلیہ السلام سے روایت ہے کہ آپنے فرمایا کہ “حضرت امام مہدیعلیہ السلام پرندے کو اشارہ کریں گے وہ آپعلیہ السلام کے ہاتھ پر آجائے گا،آپعلیہ السلام زمین کے ٹکڑے پر ایک خشک ٹہنی لگائیں گے تو وہ فوراً سرسبز ہو جائے گی ، اس کے پتے نکل آئیں گے”۔ (برہان المتقی ج۶۷حدیث ۴۱)۲۔حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام)سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ “تین پرچم باہمی اختلاف کریں گے”۔۱۔مغرب میں ایک پرچم۔ ۲۔ایک پرچم جزیرة میں ۔۳۔ایک پرچم شام میں،ایک سال تک ان کے درمیان جنگ و فتنہ رہے گا۔پھر آپ علیہ السلام نے سفیانی کا خروج اور اس کے مظالم کو بیان کیا، اسکے بعد آپعلیہ السلام نے حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے خروج رکن اور مقام کے درمیان لوگوں کا آپعلیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنا اور دیگر امور کو بیان کیا ہے، اس کے بعد آپعلیہ السلام نے فرمایا کہ “لشکر لے کر نکلیں گے، وادی القریٰ سے امن و سکون اور آرام سے چلیں گے، اسی حال میں ان کے ابن عم بارہ ہزار کا لشکر لے کر فارس سے انکے ساتھ آ ملے گا (وہ حسنی ہوں گے) وہ آکر کہیں گے اے ابن عم میں زیادہ حق رکھتا ہوں، آپ اس لشکر کی کمان مجھے دے دیں، میں ابن الحسن ہوں، اور میں ہی مہدی ہوں حضرت مہدی ان کے جواب میں کہیں گے کہ نہیں!میں مہدی(علیہ السلام) ہوں، بس حسنی سید انکے جواب میں کہیں گے تو کیا آپکے پاس کوئی دلیل و نشانی اس دعویٰ پر ہے تاکہ میں آپ کی بیعت کرلوں پس مہدی(علیہ السلام) پرندے کی طرف اشارہ کردیں گے، وہ آپ علیہ السلام کے ہاتھ پر آجائے گا خشک ٹہنی زمین میں گاڑھیں گے وہ سرسبز درخت ہو جائے گی، یہ دیکھ کر حسنی کہے گا کہ یابن العم یہ امامت و خلافت آپ کے لئے ہے “۔ (البرھان المتقی ج۶۷ باب۱ حدیث ۵۱)سابقہ بیانات کا خلاصہ اور نتیجہسابقہ ابحاث سے یہ نتائج حاصل ہوتے ہیں ۔۱۔ ایک عالمی مصلح کا خروج حتمی اور یقینی ہے اور یہ بات فقط آسمانی ادیان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ غیر دینی، فکری اور فلسفی مکاتب میں بھی یہ نظریہ موجود ہے۔۲۔ یہودیوں اورمسیحی عہدوں کی کتب میں اس مصلح کی فقط بشارت ہی نہیں بلکہ بیان آیا ہے کہ وہ مصلح مہدی(علیہ السلام) ہوں گے اور اسکا تعلق آخری پیغمبر کی اولاد سے ہے اور وہ جناب فاطمہعلیہ السلام بنت رسول اللہ کی نسل سے ہوں گے۔۳۔ اسلامی مذاہب کے علماءنے اپنے مسلکی اختلافات کے باوجود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی ولادت ہوچکی ہے اور وہ ۰۶۲ھ سے لے کر آج تک اس قسم کے اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے۔۴۔مسلمانوں کی بنیادی کتب میں حضرت امام مہدیعلیہ السلام کے بارے جو روایات موجود ہیں اس سب سے یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ حضرت رسول اکرم سے تواتر کےساتھ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کا نظریہ ثابت ہے، اس میں ذرا برابر شک کی گنجائش نہیں ہے۔اہل سنت کی کتابوں میں اس بات کا تواتر اجمالی طور پر ثات ہے۔(حوالہ ابزاز الوھم المکنون ص۷۳۴)اور کثیر تعداد میں محدثین نے اسے نقل کیا ہے۔استاد محمد علی دخیل نے اپنی کتاب “الامام المہدی (علیہ السلام)”کے ص۹۵۲، ۵۶۳ میں اہل سنت کی تیس کتابوں سے اس تواتر کو نقل کیا ہے ۔۵۔ جن مشہور علماءاہل سنت نے حضرت امام مہدی(علیہ السلام)سے متعلق احادیث کے صحیح ہونے کی تصدیق کی ہے ان میں سے چند مشاہدے درج ذیل ہیں ۔خالترمذی، المتوفی ۷۹۲ھ: سنن الترمذی ج۴خ حافظ ابوجعفر العقیلی، المتوفی ۲۲۳ھ: الضعفاءالکبیر ج۳خ الحاکم نیشاپوری، المتوفی ۵۔۴: مستدرک الحاکم ج۴خ الامام البیہقی، المتوفی ۸۵۴ھ: الاعتقاد والہدایة الی سبیل الرشاد ص۷۲۱خ الامام البضوی، المتوفی ۰۱۵: مصابیح السنة ص۲۹۴،۳۹۴خ ابن الاثیر، المتوفی ۶۰۶ھ : النہایة فی غریب الحدیث والاثر ج۵خ القرطبی المالکی، المتوفی ۱۷۶ھ: التذکرة باب ماجاءفی المہدیخ ابن تیمیہ، المتوفی ۸۲۷ھ: منہاج السنہ ج۴ص۱۱۲خ الحافظ الذہبی، المتوفی ۸۴۷: تلخیص المستدرک ج۴خ الکنجی الشافعی، المتوفی ۸۵۶ھ: البیان فی اخبار صاحب الزمان ص۰۵خ الحافظ ابن القیم، المتوفی ۱۵۷ھ: المنار المنیف، متعدد صفحات پر۶۔ علماءاہل سنت کی ایک بڑی جماعت نے حضرت امام مہدی علیہ السلامکے بارے واردہ احادیث کے متواتر ہونے کو بیان کیاہے، ان علماءمیں سے چند کے نام حسب ذیل ہیں ۔خ البربہاری، المتوفی ۹۲۳ھ: الاحتجاج بالاثر علی من انکر المہدی علیہ السلامخ محمد بن الحسن الابری الشافعی، المتوفی ۳۶۳ھ: اسے القرطبی مالکی نے نقل کیاہے:التذکرة ج۱: المزنی فی تہذیب الکمال ج۵۲۔خ الحافظ المتفق جمال الدین المزنی، المتوفی ۲۴۷ھ: المزنی فی تہذیت الکمال،خ ابن القیم، المتوفی ۱۵۷ھ: التذکرہ ج۱خ ابن الحجر العسقلانی، المتوفی ۲۵۷ھ: المنار اطنیف ۵۳۱مزید برآں جو بات حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے احادیث کے تواتر کو تقویت دیتی ہے وہ احادیثیںجو آپ کے نسب کابیان، آپعلیہ السلام کانام، آپعلیہ السلام کے القاب، آپعلیہ السلام کے شمائل، آپعلیہ السلام کے اوصاف، آپعلیہ السلام کے ماں وباپ کا نام ہے۔۷۔جو احادیث مطلق اور عام طور پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ذکر کرتی ہیں، انہیں دیگر احادیث کو سامنے رکھ کر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بعینہ شخصیت کا تعارف آسانی سے ہوسکتا ہے جیسےالف: مہدی(علیہ السلام) اولاد عبدالمطلب (علیہ السلام)سےب: مہدی(علیہ السلام) ابو طالب(علیہ السلام)بن عبدالمطلب(علیہ السلام)کی اولاد سےج: مہدی(علیہ السلام) اہل بیت(علیہم السلام) سےد: مہدی (علیہ السلام) رسول اللہ کی اولاد سےھ: مہدی(علیہ السلام) فاطمة الزہرائ(سلام اللہ علیہا) بنت رسول اللہ کی اولاد سےد: مہدی(علیہ السلام) حسین (علیہ السلام) بن فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی اولاد سےز: مہدی(علیہ السلام) امام جعفر صادقعلیہ السلام بن محمد بن علی بن الحسین علیہ السلام بن فاطمہ علیہ السلام کی اولاد سےح: مہدی(علیہ السلام)امام علی رضعلیہ السلامبن موسیٰعلیہ السلام بن جعفرصادق(علیہ السلام) کی اولاد سے۸۔یہ بات بھی ثابت ہے کہ مہدی(علیہ السلام)اللہ کے خلیفہ ہیں، خاتم الائمہ علیہ السلام ہیں، حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) آپ علیہ السلام کے پیچھے نمازپڑھیں گے۔یہ سب احادیث امام مہدی(علیہ السلام) کو معین و مشخص کررہی ہیں،یہ مہدیعلیہ السلام موعود امام خلائق ہوں گے، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، رسول اللہ کے بارہویں جانشین ہوں گے، امام معصوم علیہ السلام ہوں گے اور محمد بن الحسن العسکریعلیہ السلام بن علی الہادیعلیہ السلام بن محمد النقی علیہ السلام بن علی الرضا علیہ السلام بن موسیٰ الکاظم علیہ السلامبن جعفر الصادقعلیہ السلام بن محمد الباقرعلیہ السلام بن علی زین العابدین علیہ السلامبن حسین علیہ السلام بن فاطمہ علیہ السلام( بنت رسول اللہ بن عبداللہ علیہ السلام بن عبدالمطلب علیہ السلام، حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام بن عبدالمطلب علیہ السلام) ہیں۔۹۔ یہ بھی واضح ہوگیا کہ امام مہدی(علیہ السلام) پندرہ شعبان ۵۵۲ھ ق سامرا میں پیدا ہوئے اور اسی میں زندہ ہیں، اسی زمین پر موجود ہیں، ان کی انتظار کی جاری ہے، ان کے ذریعہ اللہ اپنی زمین پر اپنے نظام کا مکمل نفاذ کرے گا۔۰۱۔ احادیث میں حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کی بدنی خصوصیات تک کو بیان کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی شخصی کسی پر مشتبہ نہ ہواور مفاد پرست ٹولہ اپنی شخصی اور ذاتی اغراض کے تحت اس عنوان سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں۔