نظریہ حضرت امام مہدی عج پر نارروا اتہامات اور ان کے جوابات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللھم صل علی محمد وآل محمد وعجل فرجھم والعن اعدائمافسوس ناک امرشیعہ مسلمانوں کی طرف غلط عقائد کی نسبتکبھی توان علماءکی جانب سے یہ کہا جا تا ہے کہ ہم اہل سنت امام مہدی علیہ السلام کے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں لیکن یہ امام مہدی علیہ السلام وہ نہیں ہے جو کنوئیں میں غائب ہو ئے بلکہ وہ مہدی علیہ السلام نبی اکرم کی اولا د سے ہیں جو آخری زمانہ میں آئے گا کبھی یہ کہتے ہیں یہ وہ مہدی نہیں ہیں جس کا غالی شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں جو سرداب میں غائب ہو ئے ، اور اب تک مسلسل وہ شیعہ اپنی سواریوں پر وہاں حاضر ہو تے ہیں اور اپنے امام کے سر داب سے با ہر آنے کی انتظار کرتے رہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں اے مہدی باہر آجائیں ، اے مہدی علیہ السلام ! باہر تشریف لے آئیں۔ابن خلدون کا اعتراضاسی قسم کا اعتراض ابن خلدون نے اپنے مقدمہ کے صفحہ نمبر 701پر کیا ہے ۔وہ کہتا ہے خصوصی طور پر بارہ امامی جو ان غالی شیعوں سے ہیں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے آئمہ سے بارہواں امام محمد بن الحسن العسکری ہے اور وہ اسے مہدی کا لقب دیتے ہیں اور وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کا باہرواں امام علیہ السلام حلہ شہر میں جو، اُن کاگھر تھا اس کے سرداب میں داخل ہو گیا ہے اور وہ اس وقت غائب ہو گیا جس وقت ان کی ماں کو گر فتار کیا گیا اور ایسی جگہ پر غائب ہوا وہ آخری زمانہ میں ظاہر ہو کر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا اوریہ علماءاس حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو التر مذی کی کتاب جو مہدیءکے بارے ہے موجود ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ اس مہدی علیہ السلامکی اس وقت انتظار کر رہے ہیں اور اسے منتظر کہتے ہیں اور ہر رات مغرب کی نماز کے بعد سرداب کے دروازے کے باہر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے لئے وہاں پر سواری بھی تیاررکھتے ہیںاور اس کے نام سے آواز دیتے ہیں اور پکارتے ہیں کہ وہ با ہر آجائیں اور اسی سواری پرسوار ہوں یہ سلسلہ رات کے تھم جانے تک جاری رہتا ہے ۔ابن خلدون نے مہدی کے بارے مفصل بحث کی ہے اور اہل سنت علماءجنہوں نے ابن خلدون کی روش کو اپنائ۷ے ہوئے ان ہی فرسودہ اور غیر منطقی اعتراضات کو امین محمد جمال الدین زیر بحث ہے (دیکھئے کتاب عمر امت مسلمہ اور ہرمجدون یا تیسری عالمی جنگ)۔حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے شیعوں کا عقیدہجو کچھ بعض علماءاہل سنت نے شیعوں کا عقیدہ امام مہدی علیہ السلام کے بارے بیان کیا ہے کہ وہ سرداب (تہہ خانے) میں غائب ہیں اور آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گے کیا ایسا ہی ہے؟ یا امام مہدی علیہ السلام ابھی تک پیدا ہی نہیں ہو ئے اور انہوں نے آخری زمانہ میں پیدا ہو نا ہے جیسا کہ بعض علماءاہل سنت کا خیال ہے؟سب سے پہلے تو ہم یہ بتا دیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا نظریہ بہت ہی واضح اورروشن ہے اس بارے کسی قسم کا ابہام انہیں ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خصوصیات اور آپ کی ولادت کے بارے متواتر احادیث موجود ہیں کہ مہدی جو آخری زمانہ کے امام ہیں وہ رسول اللہ کے بارہویں وصی ہیں نبی کے بیٹے ہیں علی علیہ السلام و فاطمہ کی اولا د سے ہیں، امام حسین علیہ السلام کے نویں فرزند ہیں ، امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں اس میں کسی قسم کا شک و شبہ موجود نہیں ہے حسن اتفاق یہ ہے کہ ان روایات کو علماءشیعہ اور اہل سنت کے نا مور اور بزرگ علماءنے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور یہ سب روایات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہیں آپ کے اصحاب نے ان کو اپنی روایات میں بیان کیا ہے ۔ تمام اسلامی فرقوں میں یہ بات تسلیم شدہ ہے، فقط بات اتنی ہے کہ اگر بعض غیر شیعہ علماءان باتون کو تسلیم کر لیں جبکہ وہ ان ڈھیر ساری روایتوں سے چشم پو شی بھی نہیں کر سکتے تو پھر وہ مجبور ہو جائیں گے کہ امامت اورخلافت کے بارے شیعوں کے عقیدے کو قبول کر لیں تو بہت سارے ان کے نظریات و عقائد کا باطل ہونا ثابت ہو جائے گا جس کو اپنی شناخت قرار دیتے ہیںاسی وجہ سے ان کے لئے اس بات کے سواءکوئی اور چارہ نہیں بچتا کہ وہ یہ نظریہ اپنائیں کہ امام مہدی علیہ السلام کہ جس کے بارے اس قدر زیادہ احادیث نبویہ موجود ہیں انہوں نے ابھی پیدا ہو نا ہے اور پھر شیعوں کے خلاف لا یعنی قسم کی باتیں اپنی عوام میں مشہور کریں کہ شیعہ کہتے ہیں کہ ان کے بارہویں امام علیہ السلام تہہ خانہ میں چھپ گئے ہیں اور وہ لوگ تہہ خانے(سرداب)کے دروازے پر سواری لے کرانتظار میں کھڑے رہتے ہیں۔ اس قسم کی بات سوائے جھوٹ، افتراءاور تہمت کے اور کچھ نہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ جو کچھ وہ شیعوں کے بارے اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ ان کا حضرت امام مہدی علیہ السلام بارے اس قسم کا عقیدہ ہے تو اس بارے وہ شیعوں کی کتابوں سے کوئی دلیل پیش نہیںکرتے اور نہ ہی اس کی کوئی واقعیت شیعہ محافل و مجالس سے لا سکتے ہیںاور نہ ہی سامرہ شہر میں اس قسم کا کوئی واقعہ دکھا سکتے ہیں۔شیعوں پر نارروا تہمتان علماءمیں ذھبی جیسے لوگ بھی ہیں جو یہ لکھتے ہیں کہ محمد بن الحسن العسکری علیہ السلام کے رافضہ(شیعہ) منتظر ہیںِ ان کا خیال ہے وہی مہدی علیہ السلام ہیں اور صاحب الزمان ہیں وہ سرداب میں غائب ہوئے اور ان کی ماں ان کے انتظار میں ہے اسی سے ملتی جلتی باتیں ابن خلدون نے کہی ہیں….یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے۔ شیعہ اس قسم کاعقیدہ ہرگزنہیں رکھتے پھرکس طرح انہوں نے شیعوں کی کتب احادیث اور امامت پر لکھی جانے والی کتابوں کو نظر انداز کر دیا جس میںواضح ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنی غیبت صغریٰ کے ستر سالوں میںکئی مرتبہ اور کتنے سارے اپنے اصحاب سے ملے ہیں ان سے مسائل شرعیہ بیان کئے ہیںان کے سوالات کے جوابات بھی دیئے ہیںیہ سب کچھ کتب احادیث میں موجودہے۔شیعہ محدث مرحوم الکلینیؒ نے اپنی کتاب الکافی میں جسے انہوں نے ایک ہزار سال قبل تحریر کیا اس کتاب میں “باب الحجة” میں ان لوگوں کے اسماءلکھے ہیں جنہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کو خود دیکھا اور ان سے ملاقات کی ہے اسی طرح ایک اور شیعہ عالم محقق شیخ مفیدؒ نے اپنی کتاب الارشاد میں ان افراد کے بارے تحریر کیا ہے جنہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات کی ہے ابوجعفر محمد بن علی الصدوق نے اپنی کتاب کمال الدین میںیہی کچھ لکھا ہے اور اسی طرح کی سینکڑوں کتابیں اب تک شیعہ محققین و علماءکی منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں ان افراد کا تذکرہ موجود ہے جنہوں نے غیبت صغریٰ جو کہ ۰۷ سال کے عرصہ پر محیط ہے، میں حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات کی اور جن کے پاس امام مہدی علیہ السلام نے خطوط بھیجے ان کے اسامی موجود ہیںاور غیبت کبریٰ میں بھی جن لوگوں نے آپ علیہ السلام سے ملاقات کی ان کے ناموں کا بھی ذکر موجود ہے اورغیبت کبریٰ میں جن علماءکے پاس حضرت امام مہدی علیہ السلام نے خطوط لکھے ان کے نام بھی موجود ہیں۔پس کہاں سے یہ نظریہ لایا گیا ہے کہ شیعہ کہتے ہیں کہ ان کے امام علیہ السلام سرداب (تہہ خانہ) میں داخل ہو گئے ہیں اورشیعہ آج تک اسی درازہ پرکھڑے ہیں اور ان کے باہر آنے کا انتظار کر رہے ہیں یہ من گھڑت اور اوچھی قسم کی بات ہے جس کی نسبت شیعہ کی طرف دی گئی ہے جس کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔بے بنیاد تہمتان علماءکے تعصب اور ناروا اتہام کی انتہاءہے کہ وہ اپنی کتابوں میں بہت ہی ڈھٹائی سے لکھتے ہیں کہ وہ سرداب سامرہ میں ہے بعض نے لکھا ہے کہ وہ سرداب حلہ ہے اور بعض نے لکھا ہے کہ وہ بغداد میں ہے….ابن خلدون اور اس کے علاوہ ترمذی تک نے یہ لکھ ڈالا کہ شیعہ نماز مغرب کے بعد اپنے گھوڑے سدھائے حلہ شہرمیںسرداب کے دروازے پر کھڑے انتظار کر رہے ہوتے ہیں جب رات چھا جاتی ہے تووہاں سے واپس چلے جاتے ہیں بعض نے لکھا ہے کہ طلوع فجر تک ایسا کرتے ہیںاور یہ کام ہر رات کرتے ہیںیہ کتنا بڑا جھوٹ ہے۔ عراق میں حلہ جو کہ شیعہ شہر ہے موجود ہے سامرہ بھی موجود ہے جوسنی آبادی کا شہر ہے اور شیعہ وہاں پر فقط اپنے آئمہ علیہ السلام(امام علی نقی علیہ السلام، امام حسن عسکری علیہ السلام) کی زیارات کے لئے جاتے ہیں ان مزارات کا کنٹرول خود اہل سنت کے پاس ہے اور بغدادمیں بھی صدیوں سے شیعہ اور سنی اکھٹے زندگی گزار رہے ہیں، نجف شیعوں کا مرکز ہے وہاں بھی اہل سنت جاتے ہیں کہاں پرایسا ہوتاہے؟ اس کے کوئی آثار تک موجود نہیں ہیںاور نہ ہی شیعوں کا یہ عقیدہ ہے اور نہ ہی ان کی کسی کتاب میں اس قسم کی لغویات کاذکر ہوا ہے یہ شیعوں سے سنی مسلمانوں کو دور کرنے کی سازش کے سوا،اور کچھ نہیں کیونکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا عقیدہ مسلمانوں میں وحدت اور یکجہتی ایجاد کرنے کا وسیلہ ہے یہم لوگ اس عقیدہ کومسلمانوں سے چھیننا چاہتے ہیں اور اسے مسلمانوں کے درمیان اختلافی بنانے پرتلے ہوئے ہیں۔حضرت امام مہدی علیہ السلام کاظہور مکہ سے ہونا ہے کسی سرداب سے نہیںشیعہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور مکہ مکرمہ سے ہوگا اور مسجد الحرام میں کعبة اللہ کے پاس حجر اسود والے کونے پر کھڑے ہو کر اس کا اعلان ہوگا اور یہ بات عالم اسلام کی مسلمہ روایات سے ہے اور شیعہ عقائد کی کتابیں اس بارے بھری پڑی ہیں پس ایک ایسی بات جس کی کوئی بنیاد ہی سرے سے نہیں ہے اس کی شیعہ کی طرف کیسے نسبت دیتے ہیںانتہائی تعجب ہے؟اس بات کے جھوٹ ہونے پر یہی کافی ہے کہ اخبار الطوال کے مصنف فرمانی جس نے کہا کہ وہ سرداب بغداد میں ہے، ابن خلدون جس نے کہا کہ وہ سرداب حلہ میں ہے اور دوسروں نے کہا کہ وہ سرداب سامرہ میں ہے کسی نے اس سرداب کا حوالہ نہیں دیابلکہ یہ کہہ دیا کہ وہ کسی کنوئیں میں غائب ہوئے ہیں یہ بات سچ ہے کہ جو جھوٹا ہوتا ہے اسے بھولنے کی بیماری بھی لاحق ہوتی ہے انہوں نے ایک جھوٹ بولا ہے اور پھر اس جھوٹ پر کوئی سند بھی پیش نہیں کی اپنی جھوٹی بات کو سچ بنانے کے لئے کئی اور جھوٹ بولے ہیں۔
حضرت امام مہدی علیہ السلامکے بارے اہل سنت کاعقیدہ بھی شیعہ والا ہے۱۔ سچ تو یہ ہے کہ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام محمد بن الحسن العسکری بن علی الہادی علیہ السلام بن محمد النقی علیہ السلام بن علی رضا بن موسیٰ الکاظم علیہ السلام بن جعفرالصادقعلیہ السلام بن محمد الباقر علیہ السلامبن علی زین العابدین علیہ السلام بن الحسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام و فاطمہ علیہ السلام بنت رسول اللہ ہیں اور آپ شیعوں کے گیارہویں امام حسن عسکری علیہ السلام کے بلا فصل بیٹے ہیں اور یہی سلسلہ نسب رسول اکرم سے مروی ہے مضبوط اور مستند احادیث ہیں۔جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا (دیکھیں ینابیع المودة ، للقندوزی الحنفی،تذکرہ الخواص ،ابن الجوزی، المہدی الموعود، تاریخ بعد الظہور، منتخب الاثر،عقیدة المہدی، الشمس المختفیہ)اور سب سے اہم اور بنیادی حوالہ جس پر علماءاہل سنت کا اعتماد ہے وہ حافظ امام، ابونعیم الاصفھانی کی کتاب اربعین ہے ابونعیم کی تاریخ وفات ۰۳۴ہجری قمری ہے جس میں انہوں نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے چالیس احادیث صحیحیہ درج کی ہیں اور لکھا ہے کہ آپ امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ہیں اسی طرح فرائد السمطین اہل سنت کی ایک اور کتاب ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ہیں۔قیامت سے پہلے اہم واقعہاحادیث میں واضح بیان ہوا ہے کہ قیامت سے پہلے امام مہدی علیہ السلام کا خروج ضرور ہو گا اور وہ آخری امام ہیں، بارہویں امام ہیں، خلفاءراشدین سے بارہویں ہیں، خود رسول اللہ نے ان کا نام و نسب بیان کیا ہے، ۵۱ شعبان ۵۵۲ ہجری میں پیدا ہوئے، سامرہ شہر میں، امام علی نقی علیہ السلام امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر میں پانچ سال کی عمر میں آپ علیہ السلام کے بابعلیہ السلام شہید کر دیے گئے آپ علیہ السلام نے اپنے بابعلیہ السلام کی نماز جنازہ مجمع عام میں پڑھائی اور پھراس وقت کے حکمران آپ علیہ السلام کوگرفتار کرنا چاہتے تھے آپ علیہ السلام اپنے گھر کے اندر چلے گئے اور اسی طرح آپ اپنے مخالفین سے غائب ہو کر کسی محفوظ جگہ پر چلے گئے۔خدا وندنے اپنی قدرت کاملہ سے آپ کی حفا ظت فرمائی اور حکمران آپ کو تلاش نہ کرسکے یہاں تک کہ انہوں نے آپ کے گھر کو مسمار کردیا ، بعد میں ایک عباسی خلیفہ نے اس گھر کے آثار میں سے تہہ خانہ جو باقی تھااس تہہ خانہ ( سرداب) کو یاد گار کے طورپر تعمیر کردیا تاکہ امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر کی یاد باقی رہے اور یہ کہ یہی دہ جگہ تھی جہاں حضرت اما م مھدی علیہ السلام متو لد ہوئے تھے اور اس جگہ ان کا گھر تھا ، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے ۔علماءاہل سنت کی بہت بڑی تعداد شیعہ عقائد کی تائید کرتی ہےحضرت امام مھدی علیہ السلام کے بارے جو شیعہ کا عقیدہ ہے اسی عقیدے کی تائید بہت سارے علماءاہل سنت نے کی ہے۔ اس بارے تفصیلی بحث کو آپ “موسوعة الامام مہدی علیہ السلام ج 1ص 26سے ص 41تک ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔ہم اس جگہ ان علماءاہل سنت کی ایک فہرست دیتے ہیں جن کا عقیدہ کہ امام مہدی علیہ السلام حضرت امام حسن علیہ السلام عسکر ی کے فرزند ہیں جو۵۵ھ میں پیدا ہوئے اور وہ اس وقت غائب ہیں ، آخری زمانہ میں کعبة اللہ مکہ مکرمہ سے ظہور فر مائیں گے اور ان میں بعض نے حضرت امام مہدیعلیہ السلام سے ملاقات بھی کی ہے ان سب کا عقیدہ بھی حضرت امام مہدی علیہ السلامکے متعلق وہی ہے جو شیعوں کا ہے ، اب جبکہ وہ علامات اورنشانیاں یکے بعد دیگرے پوری ہوتی جارہی ہیں جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے ہونا ہیں تو پھر ہمیں اختلافی نظریات کو عوام میں پھیلانے کی بجائے فریقین میں متفق علیہ عقائد کو عام کرنا چاہیے اور اس بڑے واقعہ کے لئے خود کو آمادہ کرنا چاہیے ۔علماءاہل سنت اور مشائخ صوفیا ءکی فہرستعرفاءاور صوفیا ئے کرام کی فہرست ملاحظہ ہو جو حضرت امام مہدی علیہ السلامکے بارے میں وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو شیعوں کا ہے۔۱۔ حافظ امام ابو نعیم اصفھانی ۔۲۔ کمال الدین محمد بن طلحہ الشافعی ولادت 583ھ مطالب المسﺅل ،۳۔ الحافظ محمد بن یوسف بن محمد الکنجی الشافعی ، کتاب البیا ن فی اخبار صاحب الزمان ق۔۴۔ ابن الصباغ الما لکی ،کتاب صاحب الفصول ا لمھمہ۔۵۔ السبط ابن الجوزی ، کتاب تذکرہ الخواص ۔۶۔ الشیخ محی الدین بن العربی فتوحات المکیہ باب ۶۶۳ یہ باب حضرت امام مہدی علیہ السلام سے مخصوص ہے۔۷۔الشیخ عبدالوھاب الشعرانی، کتاب البواقبت والجواھر۔۸۔ الشیخ حسن العراقی۔۹۔ الشیخ علی الخواص۔۰۱۔ الشیخ عبدالرحمن الجا می۔۱۱۔الحافظ محمد البخاری۔۲۱۔ابن الفوارس الرازی اپنی کتاب اربعین احادیث۔۳۱۔ سید جمال الدین المحدث۔۴۱۔ الحافظ احمد البلا ذری۔۵۱۔ ابن الختاب البغدادی۔۶۱۔ ملک العلماءدولت آبادی۔۷۱۔ الشیخ متقی الہندی ، کتاب کنز العمال۔۸۱۔ابن روز بھان شیرازی۔۹۱۔ التابع الدین للہ لعباسی۔۰۲۔شیخ سلمان القندوزی ،کتاب ینا بیع المودة۔۰۲۔صرح الدین الصفوی۔۲۲۔ الشیخ قطب مدار۔۳۲۔ الشیخ عبد الرحمن ابسطامی۔۴۲۔الشیخ عبدالرحمن صاحب مرآة الاسرار۔۵۲۔الشیخ سعدالدین الحموی۔۶۲۔ الشیخ عطار تتایوری ۷۲۔ الشیخ صدو لادین القونوی۔۸۲۔ الشیخ عامر البقرنی۔۹۲۔ الشیخ صدرالدین القونوی۔۰۳۔ شیخ جلال الدین الرومی۔۱۳۔شیخ عطار نیشاپور ی۔۲۳۔ شیخ شمس الدین تبریزی۔۳۳۔ السیدنعمة اللہ ا لولی مشائخ الصوفیہ۔۴۳۔ السید علی الہمدانی۔۵۳۔الشیخ عبداللہ العطری۔۶۳۔ السید سراج الدین الرفاعی ۔۷۳۔ شیخ محمد الصبا ن الحصری۔۸۳۔ محمد ابن ابراہیم الحموینی انجو بن الشافعی فرائدالسمطین۔۹۳۔ محمد بن شحفہ الحنفی ، روضة المنا ظر فی اخبار الاوائل والاواخر۔۰۴۔ البغوی۔۱۴۔ شہاب الدین بن حجر المکی صاحب الصوا عق المحرقہ۔۳۴۔ مومن الشبلخجی صاحب نورالابصار الباب الثانی۔۴۴۔ الحافظ ابوبکر البیہقی ۵۴۔ ابن خلکا ن مشہورمورخ مشہور مورخ ۔۶۴۔الفر مانی صاحب الا خبار الطوال۔۷۴۔ سمش الدین بن طولون صاحب اشذوالذھبیہ۔۸۴۔ الحافظ ابو نعیم رضوان العقبی ۔۹۴۔علی بن حسین المسعودی مروج ا لذ ھب ۔۰۵۔ ابن الا ثیرالجزری۔۱۵۔ابوالفداءالمختصر فی اخبارالبشر ،محمدخواند امیر روضة الصفاء۔۲۵ ، خواند امیر حسیب السیر۔۳۵۔حسین بن محمدالدیار البکری تاریخ الخمیس 55۔الشیخ ابن ا لعماد الحنبلی، صاحب شندرالذھب۔ ۶۵۔ابوعباس بن عبدالمومن المغربی کتاب الوھم المکنون فی الرد علی ابن خلدون۔۷۵۔المتقی الھندی البرھان فی ماجاءصاحب الزمان علیہ السلام، جلال الدین سیوطی، علامات المہدی، ابن حجر الھیثمی المختصر فی علامات المہدی، الشوکانی، التوضیح فیما توترعن الرجال والمنتظر والمسیحان کے علاوہ دسیوں اور کتابیں ہیں جو اس لمبی تاریخ میں علماءاہل سنت نے تحریر کی ہیں علماءاہل سنت نے پانچ سو سے زائداحادیث امام مہدی علیہ السلام کے بارے اپنے طرق سے نقل کی ہیں اور۰۶ معتبر کتابوں سے زیادہ میں یہ سب کچھ درج ہے(دیکھیں کشف الاستارالمحدث نوری )رابطہ العالم الاسلامی کے سیکرٹری جنرل جناب محمد صالح کا بیانجو حضرات اہل سنت کے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عقیدہ کو شیعوں کے عقیدہ امام مہدی علیہ السلامسے مختلف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لئے وھابی مسلک کے علماءکا یہ بیان مطالعہ کر لینا چاہیے کہ جس میں انہوں نے واضح کیا ہے بارہ خلفاءراشدین کے آخری امام مہدی علیہ السلام ہوں گے ان کا ظہور مکہ سے ہوگا اہل سنت کی معتبر کتابوں میں تفاصیل درج ہیں امام مہدی علیہ السلام کے بارے احادیث تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں رسول اللہ کے بزرگ ترین صحابہ جن میں حضرت علی علیہ السلام حضرت سلمانعلیہ السلام، حضرت طلحہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف، شامل ہیں ان کی تعداد پندرہ بنتی ہے، اس بارے علامہ سخاوی کی کتاب فتح المغیث، محمد بن احمد السفاوینی کی کتاب شرح العقیدہ، ابوالحسن الابری کی کتاب المناقب، فتح المغیث، محمد بن احمد السفاوینی کی کتاب شرح العقیدہ، ابوالحسن الابری کی کتاب المناقب اور ابن تیمیہ کی کتاب الفتاوی، السیوطی کی کتاب الحادی اور محمد بن جعفر الکتانی کی کتاب نظم المتتاتر کو دیکھا جا سکتا ہے(بحوالہ: مجلہ الجامعة الاسلامیہ عدد نمبر۳ سال اول ذی العقدہ ۸۸۳۱ ھ ق مدینة منورہ) میں اس بارے مفصل بحث کی گئی ہے۔اس مجلہ میں شیخ عبدالحسین العباد جو کہ جامعہ مدینة المنورہ میں پروفیسر ہیں ان کی بحث کا عنوان ہے “عقیدہ اہل السنہ والاثرفی المہدی المنتظر” اس بحث میں امام مہدی علیہ السلام کے بارے مفصل بات کی گئی ہے،اس تحریرکی چند نمایاں باتیں یہ ہیں۔۱۔رسول اللہ کے مشہور۶۲ صحابہ کے حالات بیان کئے ہیںجنہوں نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے احادیث نقل کی ہیں۔۲۔اہل سنت کے علماءاور محدثین کی مشہور۸۳ شخصیات کے نام دیے ہیں جو اصحاب صحاح ، المعاجم، المسانید کے مصنف ومولف ہیں اور انہوں نے اپنی کتب میں امام مہدی علیہ السلام کے متعلق لکھاہے۔۳۔دس ایسے قدیم علماءکا ذکر ہے جنہوں نے امام مہدی علیہ السلامکے بارے میںکتابیں لکھی ہیں۔۴۔ایسے افراد کے کلمات اوربیانات کا ذکرکیا گیا ہے جنہوں نے اس موضوع بارے لکھا ہے۔۵۔امام مہدی علیہ السلام کے بارے جو کچھ کتابوں میں درج ہے اسے بیان کیا گیاہے۔۶۔صحیحین(بخاری، مسلم) کے علاوہ دوسری کتب میںجو امام مہدی علیہ السلامکا ذکر آیا ہے اسے بیان کیا ہے۔اس کے علاوہ ابن خلدون کا بیان بھی نقل کیا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور امور مسلمہ سے ہے اور اس نے یہ جو کہا ہے کہ مسیح ہی امام مہدی علیہ السلام ہوں گے اس نظریہ کا جواب دیا ہے اور اس کے خیال کو مسلمہ احادیث کی روشنی میں غلط ثابت کیا ہے۔درج ذیل کتب کے مولفین نے ان احادیث کو اپنی کتب میں دیا ہے۔ان کا تذکرہ خصوصیت سے کیا گیاہے۔۱۔صحیح الترمذی، ابوعیسی محمد الترمذی متوفی ۹۷۲ھ۲۔ ابوداﺅد ، سلمان ابن الاشعث بن اسحاق بن شداد بن عمروبن عمران الازدی….، سنن ابن داﺅد متوفی ۲۷۲ھ۳۔ سنن ابن ماجہ، محمد بن یزید بن ماجہ القزوینی، متوفی ۳۷۲۴۔ المسند الکبیر، البزار ابوبکر بن احمد بن عمر البصری المتوفی ۲۹۲ھ۵۔الحاکم نیشاپوری متوفی ۳۰۴ھ(المستدرک)۶۔المسند الکبیر ابولیلی الموصلی احمد بن علی التیمی الموصلی متوفی ۷۰۳ھ۷۔سلیمان بن احمد بن ایوب، الطبرانی متوفی ۰۶۲ھ
اس ساری بحث سے ہمارا ہدف و مقصداتنی ساری بحث کا ہدف یہ ہے کہ آج کے دور میں امام مہدی علیہ السلام کے متعلق بہت کچھ لکھا جا رہا ہے، پڑھا جارہا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ شیعہ مسلمانوں اور سنی مسلمانوں کے نزدیک امام مہدی علیہ السلام کے بارے اختلاف موجود ہے جب کہ ایسا نہیں ۔امام مہدی علیہ السلام کے موضوع پر اتفاقامام مہدی علیہ السلام کے موضوع سے متعلق درج ذیل باتوں پر مکمل اتفاق تمام اسلامی فرقوں میں پایا جاتا ہے اس میں شیعہ سنی کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔۱۔ امام مہدی علیہ السلام رسول اللہ کی بیٹی فاطمہ علیہ السلام کے فرزند ہیں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی صلب سے ہیں۔۲۔امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے ہیں، امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے نہیں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے ہونے کے بارے جو روایت نقل کی جاتی ہے وہ کئی حوالوں سے قابل اعتماد نہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔۳۔ امام مہدی علیہ السلام رسول اللہ کے بارہویں خلیفہ راشد ہیں۔۴۔ امام مہدی علیہ السلام کانام محمد علیہ السلام ہے کنیت ابوالقاسم ہے آپ کے باپ کا نام حسن عسکری علیہ السلام ہے کچھ نے عبداللہ لکھا ہے تو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا نام بعض کتب میںعبداللہ بھی لکھا گیا ہے لہٰذا اس بابت اختلاف بھی ختم ہو جاتاہے۔۵۔امام مہدی علیہ السلام قیامت سے پہلے ظہور کریں گے، زمین کو عدل و انصاف سے بھردیں گے ظلم و جور کا خاتمہ کریںگے اسلام کی ہر جگہ بالادستی ہوگی۔۶۔امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے پوری دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں گے جنگیں ہوں گی،قحط ہوگا،فتنے ہوں گے، ایک بڑی جنگ کے بعد ہی آپ علیہ السلام کا ظہور ہوگا اور آخر کار پوری زمین پر اللہ کا نظام نافذ ہوگا۔۷۔ امام مہدی علیہ السلام حضرت عیسیٰعلیہ السلام کے علاوہ ہیں حضرت عیسیٰعلیہ السلام امام مہدی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔۸۔ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور مکہ سے ہوگا کعبة اللہ سے آپ کے ظہور کا اعلان ہوگا جو ہر انسان تک پہنچے گا آپ کے خصوصی ناصران ۳۱۳ ہوں گے اور مکہ ہی میں آپ کی فوج کا پہلا دستہ دس ہزار افراد پر مشتمل ہے۔عالمی اسلامی حکومت کے قیام کا آغاز مکہ سے ہونا ہے۔شیعہ اور سنی میں اختلافی امورحضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے جو شیعہ سنی میں اختلاف ہے وہ درج ذیل امور میں ہے۔۱۔ اہل سنت میں سے بعض کا نظریہ یہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی صفات اور خصوصیات، نسب و حسب پر شیعہ سنی کا اتفاق ہے، اس قسم کی شخصیت نے ابھی پیدا ہونا ہے، جب کہ تمام شیعہ بارہ امامی کا اس پر اتفاق ہے کہ امام مہدی علیہ السلام ۵۵۲ ہجری ۵۱شعبان کو سامرہ میں پیدا ہوئے اور آپ پانچ سال کے تھے جب آپ کے باپ کی شہادت ہوئی اور اسی نظریہ کو بہت سارے محقق علماءاہل سنت اور مشائخ صوفیہ نے قبول کیا ہے جیسا کہ بیان ہو چکا ہے۔۲۔ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ آپ بارہویں امام ہیں اور بالترتیب آئمہ کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان آئمہ ہی کو رسول اللہ کے بارہ اوصیاءاور بارہ خلفاءراشدین مانتے ہیں، جب کہ علماءاہل سنت حضرت امام مہدی علیہ السلام کوان کی تمام خصوصیات وصفات سمیت بارھواں خلیفہ راشد اور بارہواں وصی قبول کرتے ہیں جب کہ باقی گیارہ اماموں کو خلیفہ راشدقبول نہیں کرتے فقط حضرت علی علیہ السلام کو چوتھے نمبر پر خلیفہ راشد مانتے ہیں جب کہ شیعہ حضرت علی علیہ السلام کو امام اور پہلا خلیفہ راشد قرار دیتے ہیں بہرحال یہ اختلاف حضرت امام مہدی علیہ السلام پر آ کر ختم ہو جاتا ہے سنی شیعہ دونوں حضرت امام مہدی علیہ السلام ہی کو بارہواں خلیفہ راشد مانتے ہیں اور ان کی خصوصیات و صفات حسب و نسب اور ان کی آمدکے طریقہ کارپر دونوں کا اتفاق ہے۔حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے سرداب کا عنوان اور موضوعشیعوں پرجوتہمت بعض علماءاہل سنت نے سرداب کے حوالے سے لگائی ہے یہ انتہائی افسوس ناک ہے اسے اسلام دشمنوں نے بڑا بنا کر پیش کیا ہے اور اس عنوان کوشیعوںکے خلاف اپنے زہریلے پروپیگنڈے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیاہے اورانہوں نے یہ بات بغیر کسی ثبوت کے شیعوں کے سرتھونپی ہے کہ وہ اس بات کے قائل ہے کہ ان کے امام مہدی علیہ السلام سرداب میں غائب ہو گئے قابل افسوس امر یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی بعض علماءاہل سنت جوحضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے منتظر ہیں ان کے ظہور کی علامات کو بیان کر رہے ہیں جو علامات پوری ہوچکی ان کو امت اسلامیہ کے لئے لکھا ہے اور اس طرح وہ امت کو بیدار کرنا چاہتے ہیں افسوس ہے کہ انہوں نے شیعوں پرتہمت کے سلسلہ کو اپنے سابقہ اکابرین کی طرح بغیر ثبوت کے لکھ دیا ہے جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔سرداب کی حقیقتجو حضرات عراق، ایران کے گرم علاقوں سے واقف ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ عام طور پر موسم گرما کی گرمی سے بچنے کے لئے گرم علاقوں والے لوگ اپنے گھروں میں زمین دوز گہرے سرداب تعمیر کرتے ہیں اب بھی ایسے سردابوں کو ایران، عراق میںمشاہدہ کیا جا سکتا ہے سامرا شہر میں اہل سنت ہی کی زیادہ آبادی ہے ان کے پرانے بلکہ نئے گھروںمیںبھی سرداب دیکھے جاسکتے ہیں اور سرداب اس گھر کا حصہ ہوتے ہیں جس میں وہ رہتے ہیں۔حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے حاکم وقت خلیفہ عباسی سامرہ لے آیا اور پھر واپس مدینہ نہ جانے دیا اور آپ کے سارے بیٹے بھی آپ کے ساتھ تھے جن میں جناب جعفر، جناب محمد، جناب حسین اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام آپ کے خاندان کے اور افراد بھی تھے آپ کا اس وقت جہان پر مزار ہے اسی جگہ آپ کا بہت بڑا گھر تھا۔ ملاقاتیں اسی جگہ پراپنے اصحاب اور ماننے والوں سے کرتے تھے، حکمرانوں کے افسران اور وزراءبھی اسی جگہ آتے جاتے تھے۔ اسی گھر کے اطراف میں بنی ہاشم کے اور گھر بھی موجود تھے اور جس جگہ اس وقت سرداب موجود ہے یہ آپ کے گھر کا حصہ تھا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جب امام مہدی علیہ السلام نے اپنے باپ کا جنازہ خود پڑھایا اور حکمران جماعت کو پتہ چل گیا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند موجود ہیں تو وہ آپ علیہ السلام کو گرفتار کرنا چاہتے تھے آپ علیہ السلام جنازہ کے بعد اپنے گھر داخل ہو گئے اورسب کے سامنے اپنے گھر کے اندر گئے حکومتی کارندے آپ کے پیچھے آپ علیہ السلام کے گھر میں گھس گئے لیکن آپ علیہ السلام کو نہ پاسکے کچھ ہی عرصہ بعداس گھر کو عباسی خلیفہ نے مکمل طور پر مسمار کردیا اور کافی عرصہ گذرنے کے بعد ایک اور عباسی خلیفہ جو علماءاہل سنت سے تھے کیونکہ اس دور میں خلیفہ علماءسے ہوتا تھاانہوں نے اس گھر کی یاد مین اس گھر والی جگہ پر جو سرداب موجود تھا اور آئمجہ علیہ السلام کے گھر کا ہی حصہ تھا، اسے محفوظ کرلیا۔اس نے اس گھر کی یاد کے طور پر سرداب کے لئے دروازہ لگا دیا کیونکہ اس گھر سے فقط سرداب ہی باقی تھا۔ باقی رہی یہ بات کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کس طرح ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تو یہ اللہ کااپنا نظام ہے جس طرح رسول اللہ شب ہجرت کفار کے درمیان سے چلے گئے کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا تو اسی طرح آپ کے بارہویں خلیفہ کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمایا۔آپ علیہ السلام اپنے گھر کے اندر چلے گئے اور وہاں پر موجود لوگ آپ علیہ السلام کو نہ دیکھ سکے اور آپ علیہ السلام محفوظ جگہ پر منتقل ہوگئے۔باقی رہاکم سنی میں علمی برتری والی بات تو اس سے پہلے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور حضرت امام علی نقی علیہ السلام کم عمری میں امامت کے منصب پر پہنچے قرآن مجید میں حضرت عیسیٰعلیہ السلام، حضرت یحیٰعلیہ السلام بھی بچپن میں نبوت کے عہدے پر فائزہوئے، اس مسئلہ کی تفصیلی بحث عقائد کی کتابوں میں درج ہے۔تمام مذاہب والوں کا طریقہہم آج اس بات کا بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کس طرح مختلف مذاہب والے اپنے اکابرین کی یادگاروں کا احترام کرتے ہیں جس جگہ ان کے اکابرین نے جنم لیا ہوتا ہے جہاں پر انہوں نے درس پڑھا ہوتا ہے، جس جگہ پر انہوں نے زندگی گزاری ہوتی ہے ان کے استعمال کی چیزوں سب کو قومی ورثہ قرار دے کر محفوظ کیا جاتا ہے اور ان کا احترام کیا جاتا ہے اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس جگہ شیعوں کے تین آئمہ امام علی نقی علیہ السلام، امام حسن عسکری علیہ السلام، امام مہدی علیہ السلام نے زندگی گزاری ہو اگر اس گھر کی ایک نشانی سرداب بچ گئی ہے اگر اس کی حفاظت کی جائے اور اس جگہ کا احترام کیا جائے تو اس میں کون سی بات اسلام کے منافی ہے؟ یا یہ کون سا غیر اسلامی عمل ہے؟جب کہ اس سرداب میں رسول اللہ کی اولاد نے بہت عرصہ گذارا اس جگہ نمازیں پڑھیں، دعاومناجات کی اب اگر اس جگہ کوئی جا کر زیارت کر ے یاوہاں بیٹھ کردعا پڑھے، اپنے رب سے مناجات کرے تویہ کون ساکافرانہ عمل ہے؟ بلکہ یہ تو شعائر اللہ کی تعظیم سے شمار ہوتاہے۔امام مہدی علیہ السلام کسی سرداب سے باہر نہ آئیں گےشیعہ بارہ امامی کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں کہ امام مہدی علیہ السلام کسی شہر کے سرداب سے باہر آئیں گے بلکہ ان کا عقیدہ تو یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام صحراﺅں، پہاڑوں اور جنگلوں میں زندگی گزار رہے ہیں جس کا علم فقط اللہ تعالیٰ کو ہے اور ایسا بہت سارے انبیاءعلیہ السلام کے لئے بھی ہوتا رہا کوئی غاروں میں رہا تو کوئی درباروں میںکوئی صحراﺅں میں تو کوئی مچھلی کے شکم میں آپ کا ظہور جب ہوگا تو وہ مکہ شہر سے اور وہ بھی مسجد الحرام کعبة اللہ سے ہوگا اس پر شیعوں کا مکمل اتفاق ہے اس کے علاوہ کوئی ایک روایت موجودہی نہیں ہے۔حضرت امام مہدی علیہ السلام کی طولانی عمرباقی یہ بات کہ امام مہدی علیہ السلام اب تک زندہ کس طرح ہیں تو جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔حضرت الیاس اور حضرت ادریس زندہ ہیں،اللہ کے ولی حضرت خضرعلیہ السلامزندہ ہیں۔ابلیس ملعون زندہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسی طرح اپنے آخری نمائندہ کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔جس طرح اللہ کے عبد صالح حضرت خضر اس زمین پر موجود اور زندہ ہیں۔ حضرت موسیعلیہ السلام کے دور میں بھی وہ موجودتھے اورلوگوں میں رہتے تھے۔لیکن لوگ ان سے واقف نہ تھے۔ اسی طرح امام مہدی بھی لوگوں میں ہیں اور لوگ ان سے واقف نہیں ہیں۔ آپ حج پر موجود ہوتے ہیں،مدینہ منورہ، نجف اشرف،کربلا معلیٰ،کاظمین،سامرہ ،مشھد مقدس،میں اپنے وآباءاجداد کی مزاروں کی زیارت کیلئے تشریف لے جاتے ہیں ۔ اہل سنت کے عالم حافظ الگنجی الشافعی المتوفی458ھ لکھتے ہیں۔امام کی بقاءحضرت عیسیٰعلیہ السلام کی مانند ہے۔وہ عام غذا پانی کے بھی محتاج نہیں ہیں۔باوجود یہ کہ وہ حضرت مہدیعلیہ السلام کی طرح بشر ہیں۔ ان دونوں کی بقاءاللہ کے امر سے ہے۔اللہ کے امر سے اپنے لئے رزق وصول کرتے ہیں۔اختتام کلام…. امین محمدجمال الدین مصری کے دو کتابچے بارے حقائق نامہ1۔امت مسلمہ کی عمر اور مستقبل قریب میں مہدی علیہ السلام کے ظہور کا امکان2۔ہرمجدون یاتیسری عالمی جنگاپنے موضوع کے اعتبار سے یہ دونوں کتابچے بہت ہی عمدہ ہیں۔اختصار کے باوجود ایک قاری کو حضرت امام مہدی علیہ السلام اور آپ کے ظھور کے بارے میں مکمل آگاہی دیتے ہیں۔ اور مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے اس کے متعلق بھی ایک مسلمان کوآگہی دینے کیلئے کافی ہیں۔ ہم نے ان دو کتابچوں سے ایسے مطالب جو قابل اعتراض ہیں اورفاضل مو ¿لف نے شیعوں کے عقائد بارے جو کچھ لکھا ہے اس پر ہم نے اپنے قارئین کے لئے حقائق سے پردہ اٹھا دیا ہے امید ہے اس حقائق نامہ کو جب قاری ان دو کتابچوں کے ساتھ ملا کر مطالعہ کرے گا تو اسے یقین کامل ہو جائے گا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے عقیدہ رکھنا اور ان کے ظہور کے انتظار اور عالم اسلام کے لئے روشن مستقبل پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے اور ہمیں سب کو مل کرحضرت امام مہدی علیہ السلام کے لئے مدد بننا ہے اور ان کی آمد کے لئے خود کو تیار کرنا ہے۔البتہ فاضل مولف کی کتابوں کو اس وقت مزید چار پانچ سال کا عرصہ گذر چکا ہے اور بہت سارے مزیدواقعات عالم اسلام میں اور دیگرخطوں میںظاہر ہو چکے ہیں خاص کر حزب اللہ کی اسرائیل پر برتری اور اس بڑی جنگ”جولائی ۶۰۰۲ئ” میں کامیابی نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی انتظار کرنے والوں کے لئے بہت کچھ اور امور کو واضح کر دیا ہے ہو سکتا ہے کہ حزب اللہ کی اس بڑی کامیابی کے بعد فاضل مولف کے خیالات شیعہ بارہ امامیوں کے بارے تبدیل ہو چکے ہوں لیکن ہمارے پاس ابھی تک ان کی ایسی کوئی تحریر نہیں پہنچی خداوند سے دعا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے خدا ہر مسلمان کو اللہ عزوجل توفیق دے کہ وہ حق کو سمجھ لے اور اس پر چلے اور حق کا ساتھ دے۔