تقیہ تاریخ کے آئنے میں

247

الف:ظهوراسلام سے پهلےتاريخی اعتبار سے تقيہ کی ضرورت انسان کو اس وقت محسوس ہوتی ہے ،جب وہ اپنے آپ کو دشمن کے سامنے عاجز محسوس کرے . اور یہ عاجزی انسان میں گام بہ گام احساس ہونے لگتا ہے .اور یہ ایک طبیعی چيز ہے کہ انسان اس خوف اور ہراس کو اپنے سے دور کرنے کی فکر کرے .اور اس طبیعی امر میں تمام عالم بشریت حتی تمام ذی روح “حیوانات” بھی شریک ہیں.تقیہ کا مفہوم بہت وسیع ہے اس لئے اسے زندگی کے صرف ایک حصے سے مخصوص نہیں کياجاسکتا .بلکہ زندگی کے تمام پہلو میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے .خواہ یہ اخطار بھوک اور پیاس کی شکل میں ہو یا گرمی ، سردی اور بیماری کی شکل میں ہو ؛ انسان ان خطرات سے بچنے کیلئے کوئی نہ کوئی راہ پیدا کر لیتا ہے . لیکن ان طبیعی خطرات میں کوئی جنگ و جدال کی ضرورت نہیں ہے . لیکن غیر طبیعی خطرات اور مشکلات کے موقع پر جیسے اپنے کسی مسلمان بھائی پر ظلم وستم کو روکنے کا سبب هو تو تقیہ کرنا بہترہے .اس مقالہ ميں هم بہت هي اختصار کے ساتھ انبياء اوراولياءالهي نے جهاں جهاں تقيہ کئے هيں ؛ ان موارد کو بيان کريں گے : حضرت آدم(ع) اور تقيہسب سے پہلی سزا اپنے بھائی کے حسد اور دشمنی کی بنا پر قتل کرنے کی وجہ سے ملی وہ حضرت آدم ہی کے زمانےمیں ان کے بیٹے کو ملی.قرآن اس واقعے کو کچھ یوں بیان فرما رہا ہے : وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لَأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِكَ جَزَاء الظَّالِمِينَ فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ اور آپ انہیں آدم کے بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے. اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں، میں تو عالمین کے پروردگار اللہ سے ڈرتا ہوں. میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اپنے گناہ میں تم ہی پکڑے جاؤ اور دوزخی بن کر رہ جاؤ اور ظالموں کی یہی سزا ہے .چنانچہ اس کے نفس نے اس کے بھائی کے قتل کی ترغیب دی اور اسے قتل کر ہی دیا، پس وہ خسارہ اٹھانے والوں میں شامل ہو گیا.تاريخ بتاتي ہے چونکہ هابيل حضرت آدم(ع) کا وصی اور جانشین تھے ، ان کی شہادت کے بعد خلافت اور جانشینی ان کے بھائی شیث کی طرف منتقل ہوئی . اور سب سے پہلے جس نے تقیہ کیا وہ حضرت شيث (ع)تھا ، جس نے قابیل سے تقیہ کیا کہ اسے خدا تعالی نے علم عطا کیا تھا . اگر وہ تقیہ نہ کرتے تو روی زمین عالم دین سے خالی ہوجاتا. اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالم کے خلاف مقاومت اور مقابلہ کرنے سے عاجز اور ناتوان هونے کی صورت میں تقیہ کرنا جائزہوتاہے .اور یہ ایک فطری چیز ہے کہ حضرت ہابیل نے جو چیز اسے خدا کی طرف سے عطا ہوئی تھی ، اپنے بھائی قابیل سے چھپایا . اور یہ ان کا چھپانا صرف اس لئے تھا کہ حق کو نااہل لوگوں کے ہاتھ لگنے سے بچایا جائے .اور یہ ایک ایسی سنت ہے جس پر سارے انبيآء ، اوليآء اور صالحين(ع) نے عمل کئے ہیں. طبري نے اپنی تاريخ میں روایت نقل کي ہے کہ : حضرت آدم(ع)اپنی وفات سے پہلے گیارہ دن مریض ہوئے اور اپنے بیٹے شيث(ع) کو اپنا جانشین بنانے کے بعد فرمایا: میری یہ وصیت نامہ قابیل سے چھپائے رکھنا. حضرت ابراهيم(ع)او رتقيہابراهيم خليل(ع) نے بت پرستون اورمشركون کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا ؛ یہاں تک کہ ان کی قوم اسے آگ میں جلانے کے لئے تیار ہوگئ . قرآن اس واقعے کو یوں بیان فرما رہا ہے :َوَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بہ عَالِمِينَ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ قَالَ لَقَدْ كُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مّبِينٍ قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ قَالَ بَل رَّبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَى ذَلِكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ قَالُوا مَن فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيم قَالُوا فَأْتُوا بہ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُو نَ قَالُوا أَأَنتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوہمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ فَرَجَعُوا إِلَى أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُؤُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاءيَنطِقُونَ . اور بہ تحقیق ابراہیم کو پہلے ہی سے عقل کامل عطا کی تھی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے گرد تم جمے رہتے ہو؟ کہنے لگے: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایاہے. ابراہیم نے کہا: یقینا تم خود اور تمہارے باپ دادا بھی واضح گمراہی میں مبتلا ہیں.وہ کہنے لگے : کیا آپ ہمارے پاس حق لے کر آئے ہیں یا بیہود ہ گوئی کر رہے ہیں؟ابراہیم نے کہا: بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور میں اس بات کے گواہوں میں سے ہوں. اور اللہ کی قسم! جب تم یہاں سے پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی تدبیر ضرور سوچوں گا. چنانچہ ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت) کے تاکہ و ہ اس کی طرف رجوع کریں.وہ کہنے لگے: جس نے ہمارے معبودوں کا یہ حال کیا ہے یقینا وہ ظالموں میں سے ہے. کچھ نے کہا: ہم نے ایک جوان کو ان بتوں کا (برے الفاظ میں) ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں. کہنے لگے: اسے سب کے سامنے پیش کرو تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں. کہا :اے ابراہیم! کیا ہمارے معبودوں کا یہ حال تم نے کیا ہے ؟ ابراہیم نے کہا: بلکہ ان کے اس بڑے (بت )نے ایسا کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں. (یہ سن کر) وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور کہنے لگے : حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو. پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے اور (ابراہیم ) سے کہا: تم جانتے ہو یہ نہیں بولتے .بخاري روايت کرتا ہے : حضرت ابراهيم(ع) تین جھوٹ بولے: اس میں سے دو خدا کی ذات کے بارے میں «قوله اني سقيم» اور« بل فعله كبير هم» تیسرا جھوٹ اپنی بیوی سارہ کے بارے میں ، جو خوبصورت تھی ، اور فرعون کو کسی نے ان کی لالچ دکھائی تھی . فرعون نے ان کو اپنے دربار میں بلایا اور حضرت ابراہیم سے سوال کیا : یہ جو تمھارے ساتھ آئی ہے وہ کون ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا : یہ میری بہن ہے . اور ادھر سارا سے بھی کہہ رکھا تھا کہ تو بھی میری بات کی تائید کرے ، درحالیکہ خود ان کی بیوی تھی . حضرت ابراہیم کا تقیہ کرنے کا سبب یہی تھا کہ اپنی جان بچائی جائے ،کیونکہ فرعون ابراهيم کو قتل کرنا چاہتا تھا .حضرت يوسف(ع)ا ور تقيہحضرت يوسف(ع) کا واقعه بہت طولاني اور معروف ہے ، اس لئے خلاصه كلام بيان کروں گا وہ یوں ہے : فرمایا : فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ.(4 ) اس کے بعد جب یوسف نے ان کا سامان تیار کرادیا تو پیالہ کو اپنے بھائی کے سامان میں رکھوادیا اس کے بعد منادی نے آواز دی کہ قافلے والو تم سب چور ہو.اسی سے استدلال کرتے هوئے امام صادق(ع) نے فرمایا : التقيہ من دين الله . قلت:من دين الله؟ قال(ع):اي والله من دين الله لقد قال يوسف(ع): ايتها العير انكم لسارقون والله ما كانوا سرقوا شی. تقیہ دین خدا میں سے ہے ، میں نے سوال کیا: کیا دین خدا میں سے ہے ؟تو فرمایا: ہاں خدا کی قسم ؛دین خدا میں سے ہے بے شک یوسف پیامبر(ع) نے فرمایا: اے قافلہ والو بدون شک تم لوگ چور ہو ؛ درحالیکہ خدا کی قسم انہوں نے کوئی چوری نہیں کی تھی ……………(1 ) سوره مائدہ ۲۷ ـ ۳۰. (2 ) . التقيہ في فقه اهل البيت(ع) ، ج۱ ، ص ۱۵. (3 ) . انبياء /۵۱ ـ ۶۵. (4 ) . سوره يوسف/۷۰.(5 ) . تاريخ الامر والملوك،ج۱،ص۱۷۱.
حضرت موسي(ع)اورتقيہقرآن كريم نے حضرت موسي(ع) کی شجاعت کے بارے میں کئی دفعہ اشارہ کیا ہے کہ کس طرح فرعون کے ساتھ روبرو ہوا ، حضرت موسیٰ کو بہت سے پیغمبروں پر فضیلت حاصل ہے : تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ.(1 )یہ سب رسول (ع)وہ ہیں جنہیں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے. ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے خدا نے کلام کیا ہے اور بعض کے درجات بلند کئے ہیں .ان تمام شجاعت اور فضیلتوں کے باوجود اپنی زندگی میں کئی موقعوں پر لوگوں کو رسالت کی تبلیغ کے دوران تقیہ کئے ہیں .اور یہ تقیہ اپنی جان کے خوف سے نہیں بلکہ باطل کا حق پر غلبہ پانے کے خوف سے کئے ہیں .جب خدا نے موسي اور هارون (ع) کو حکم دیا :اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى .(2)تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے . اس سے نرمی سے بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا خوف زدہ ہوجائے .اورفرعون کے ساتھ نرم اور میٹھی زبان میں بات کرنا اور اعلان جنگ نہ کرنا ، جبکہ وہ طغیان اور نافرمانی کے عروج پر تھا ؛ ایک قسم کا تقیہ ہے .البتہ یہ تقیہ مداراتی تھا نہ خوفی . لیکن اصحاب موسي(ع) کے بارے میں قرآن مجيد اشاره کرتا ہے : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ.(3 )فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اور اس نے اہلِ زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا کہ ایک گروہ نے دوسرے کو بالکل کمزور بنادیا وہ لڑکوں کو ذبح کردیا کرتا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھا کرتا تھا. وہ یقینا مفسدین میں سے تھا . یہ خوف لوگوں کا تھا نہ اپنی جان کا .لیکن ولادت حضرت موسي(ع) کے بارے میں قرآن کہہ رہا ہے کہ جنہوں نے حضرت موسیٰ (ع)کی دعوت کو قبول کرلی تھی ، اپنے ایمان کو دلوں میں چھپائے رکھے تھے ، جب تک موسیٰ(ع) نے علیٰ الاعلان دعوت کرنا شروع کیا . تاریخ میں آپ کے بعض اصحاب اور مؤمنوں کی تاریخ کو قرآن نے ثبت کیا ہے ؛ جو درج ذیل ہیں :
مؤمن آل فرعون اور تقيہقرآن فرما رہا ہے : وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبہ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ.(4 )اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا ،یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں – بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے .ابن كثيرلکھتا ہے : یہ فرعون کا چچا زاد بھائی تھا اور اپنا ایمان کو اپنی قوم سے چھپا رکھا تھا . جس کے نام میں مورخین نے اختلاف کیا ہے ؛ کسی نے کہا آپ کا نام شمعان تھا ، کسی نے کہا حزقیل تھا .بہر حال جب فرعون نے حضرت موسیٰ کے قتل کا ارادہ کیا اور اپنے حواریوں سے مشورت کرنے لگا ، تو مؤمن اس ناپاک سازش سے آگاہ ہو ا تو سخت فکر مند ہوا ، فرعون کو یوں مشوره دیا : وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبىّ‏َِ اللَّهُ ؟! اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے .: قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى‏.(5) فرعون نے کہا کہ میں تمہیں وہی باتیں بتارہا ہوں جو میں خود سمجھ رہا ہوں .ثعلبي نے لکھا ہے اس شخص کا نام حزقیل ہے اور یہ اصحاب فرعون میں سے تھااور وہی ترکھان تھا جس نے حضرت موسیٰ (ع)کی ماں کیلئے وہی صندوق بنا کر دیا تھا جس میں ڈال کر موسیٰ کو دریای نیل میں ڈال دیا گیا تھا .قَالَ الصادق(ع):إِنَّ مَثَلَ أَبِي طَالِبٍ مَثَلُ أَصْحَابِ الْكَهْفِ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ وَ أَظْهَرُوا الشِّرْكَ فَآتَاهُمُ اللَّهُ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ .(6 )امام صادق (ع)نے فرمایا: بے شک ابوطالب کی مثال اصحاب کہف کی مثال ہے ، انہوں نے اپنا ایمان چھپائے رکھا اور شرک کا اظہار کیا ، خدا تعالیٰ انہیں قیامت کے دن دو دفعہ ثواب عطا کریگا .امام حسن العسکری (ع)نے فرمایا: ان ابا طالب كمؤمن آل فرعون يكتم ايمانه.(7 ) فرماتے ہیں : حضرت ابوطالب (ع)بھی مؤمن آل فرعون کی طرح اپنا ایما ن کفار قریش سے چھپا رکھا تھا .
آسيہ بنت مزاحم اور تقيہآپ فرعون کی بیوی ہے قرآن نے آپ کے بارے میں فرمایا:وَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبّ‏ِ ابْنِ لىِ عِندَكَ بَيْتًا فىِ الْجَنَّةِ وَ نجَِّنىِ مِن فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَ نجَِّنىِ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ .(8 ) اور خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ اس نے دعا کی کہ پروردگار !میرے لئے جنّت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلادے اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا کردے.روايات اهلبيت(ع) میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت آسیہ بہشت میں نبی کی بیویوں میں سے ہونگی.(9 )
اصحاب كهف او رتقيہقطب راوندي نے شيخ صدوق سے امام صادق(ع) کي روايت کو نقل کي هے : فَقَالَ لَوْ كَلَّفَكُمْ قَوْمُكُمْ مَا كَلَّفَهُمْ قَوْمُهُمْ فَافْعَلُوا فِعْلَهُمْ فَقِيلَ لَهُ وَ مَا كَلَّفَهُمْ قَوْمُهُمْ قَالَ كَلَّفُوہمُ الشِّرْكَ بِاللَّهِ فَأَظْهَرُوہ لَهُمْ وَ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ حَتَّى جَاءَهُمُ الْفَرَجُ وَ قَالَ إِنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ كَذَبُوا فَآجَرَهُمُ اللَّهُ إِلَى أَنْ قَالَ وَ قَالَ إِنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ وَ أَظْهَرُوا الْكُفْرَ فَكَانُوا عَلَى إِظْهَارِهِمُ الْكُفْرَ أَعْظَمَ أَجْراً مِنْهُمْ عَلَى إِسْرَارِهِمُ الْإِيمَانَ وَ قَالَ مَا بَلَغَتْ تَقِيَّةُ أَحَدٍ تَقِيَّةَ أَصْحَابِ الْكَهْفِ … فَأَعْطَاهُمُ اللَّهُ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ .(10) اگر تمهاري قوم کفر کا اظهار کرنے پر مجبور کرے تو اظهار کرنا اوراپنا ايمان آرام آنے تک چھپا رکھنا. پھر فرمايا اصحاب کهف نے بھي ظاهراً جھوٹ بولا اور الله تعالي نے بھي ان کو جزاے خير دي اور کها اصحاب کهف نے اپنے ايمان کو چھپائے اور کفر کا اظهار کئے.پس کفر کا اظهار کرنے کا ثواب ايمان کے چھپانے سے زياده هے . اور فرمايا: اصحاب کهف سے زياده کسي اور نے تقيہ نهيں کيا …الله تعالي نے بہي ان کو دو مرتبہ اجر اور ثواب عطا کيا.امير المؤمنين(ع)سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے : وَ عَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِحَبْلِ اللَّهِ وَ عُرْوَتِهِ وَ كُونُوا مِنْ حِزْبِ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ الْزَمُوا عَهْدَ اللَّهِ وَ مِيثَاقَهُ عَلَيْكُمْ فَإِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيباً وَ سَيَعُودُ غَرِيباً وَ كُونُوا فِي أَهْلِ مِلَّتِكُمْ كَأَصْحَابِ الْكَهْفِ وَ إِيَّاكُمْ أَنْ تُفْشُوا أَمْرَكُمْ إِلَى أَهْلٍ أَوْ وَلَدٍ أَوْ حَمِيمٍ أَوْ قَرِيبٍ فَإِنَّهُ دِينُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ الَّذِي أَوْجَبَ لَهُ التَّقِيَّةَ لِأَوْلِيَائِهِ فَيَقْتُلَكُمْ قَوْمُكُمْ الْخَبَرَ .(11 )امام حسن العسكري (ع) کی روايت اس بات کیلئے مؤيدہے: قال قال رسولالله(ص) : ان الانبياء انما افضلهم علي خلقه اجمعين بشدة مداراتهم لاعداء دين الله و حسن تقيتهم لاجل اخوانهم في الله.(12 )رسول خدا (ص ) نے فرمایا: بیشک انبیای الہی کو دوسرے لوگوں پر اس لئے فضیلت ملی ہے کہ خدا کے دشمنوں کے ساتھ مدارات کیا کرتے تھے اور نیک لوگوں کے ساتھ خدا کے خاطر اچھا تقیہ کیا کرتے تھے .یہ اسلام سے پہلے کے تقیہ کے کچھ موارد تھےجو آیات ، احادیث اور شیعہ سنی کتابوں میں مرقوم تھے . اور یہ ایسے حقائق ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے ……………(1 ) . سوره بقره۲۵۳.(2 ) . سوره طه۴۳،۴۴.(3 )سورہ قصص ۴ .(4 ). غافر۲۸ .(5 ). غافر۲۹ .(6 ) . الكافي باب مولد النبي ص و وفاته‏،ج 1، ص 448.(7 )۸۳ . . وسائل الشيعه ،ج۱۱، ص .(8 ). سوره تحريم ۱۱.(9 ) . تفسير نور الثقلين . ج۵ ، ص۲۷۷.(10 ) . مستدرك‏الوسائل ،ج 12 ،ص 272.(11 ). مستدرك، باب وجوب التقية مع الخوف إلى خر.(12 ) . همان ، با ب دوم .
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.