تقيہ کےاقسام
مختلف اعتبار سے تقيہ کی کئی قسمیں ہیں :سبب کے اعتبار سے تقیہ کی دو قسم ہیں: خوفي اور مداراتي. اور خود تقيہ خوفي یا حفظی کی تین قسم ہیں :الف: تقيہ جان ، مال ، عزت ، آبرو اور ان سے متعلقہ چیزوں کی وجہ سےکیاجائے .ب: تقيہ اپنے مؤمن بھائیوں کے خاطر ہو کہ ان پر کوئی ضرر یا نقصان نہ آنے پائے .ج : تقيہ دین مقدس اسلام پر کوئی ضرر یا آنچ آنے کے ڈر سے کیا جائے . کیونکہ ممکن ہے خود مسلمانوں کے درمیان اختلافات پائی جائے لیکن اسلام کے اوپر کوئی بات نہ آئے .جو اختلاف اور نزاع پایا جاتا ہے ، وہ تقیہ خوفی میں ہے . ورنه تقیہ مداراتی کہ لوگوں کے ساتھ نیک رفتاری اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ہے ؛ جسے ایک قسم کی ہوشیاری اور چالاکی تصور کیا جاتا ہے .Ø تقيہ کو تقيہ كننده کے اعتبارسےبھی کئی قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جیسے : تقيہ كننده يا وہ ایک عادي اور معمولي انسان ہے . یا مذہبی راہنما میں سے ہے . جیسے پيامبر (ص)او رائمه طاهرين(ع) فقهاء اور مسئولين.Ø تقيہ کو تقیہ پر مجبور کرنے والے کے اعتبار سے دو قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں :کافر ہے یا مسلمان .Ø تقيہ پرعمل کرنے کےاعتبار سےبھی کئی قسميں هيں . جیسے : يا وہ فعل ،حرام ہےاورچھوڑ دينا واجب ہے ، یا اس فعل کا شرط یا جزا میں تقیہ کرنا ہے .Ø تقيہ احكام کےاعتبارسے يا واجب ہے يا حرام، يا مستحب يا مباح يا مكروہ ،يا وجوب نفسي ہے يا وجوب غيري.(1 )
نمودار اقسام تقيہ
ـ مداراتي۱. مطلوبيت ذاتي رکھتا ہے = وجوب نفسي۲. مطلوبيت غيري رکھتا ہے = وجوب غيري
ـ خوفي۱. حوزه اسلام پر ضرر کا خوف کی وجہ سے .۲. دوسروں پر ضرر کا خوف کی وجہ سے .۳. یا اپنے نفس ، ما ل اورآبرو پر ضرر کا خوف کی وجہ سے .(2 )
آيات ، روايات کی روشنی میں تقیہ کي چار قسميں:1. تقيہ اكراهيه: مجبور شخص کا جابر اور ظالم شخص کے دستور کے مطابق عمل کرنا تاکہ اپنی جان بچائی جاسکے اور مال دولت اور عزت کو برباد ہونے سے محفوظ رکھ سکے .2. تقيہ خوفيه: اعمال اور عبادات کا اہل سنت کے علماء اور فقہاء کے فتاواي کے مطابق عمل کرنا ، تاکہ اپني اور اپنے ہم مسلک افراد کی جان محفوظ رکھ سکے .3. تقيہ كتمانيہ: ضعف اور ناتوانی کے مواقع پر اپنا مذہب اور مذہب والوں کی حفاظت کرنا اور ان کی طاقت اور پاور کو محفوظ کرنا تاکہ بلند و بالا اہداف حاصل کرسکے .4. تقيہ مداراتي يا تحبيبي: اهل سنت کےساتھ حسن معاشرت اور صلح آميز زندگي کرنے کے خاطر ان کے عبادي ا ور اجتماعي محفلوں اور مجلسوں میں جانا تاکہ وحدت پیدا ہو اور اسلام دشمن عناصر کے مقابلے میں اسلام اور مسلمین قدرت مند ہو .
اقسام تقيہ کی تشريحتقيہ اكراهيه: اس کا مصداق حضرت عمار بن یاسر (رض)ہیں . جن کے بارے میں قرآن فرمارها ہے: مَن كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبہ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ وَلَكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ .(3 )جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے …علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو …اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے .اس آیہ شریفہ کی شان نزول میں مفسرين کا کہنا ہے : جب پيامبر اسلام(ص) لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیتے هوئے بتوں کو اعلانیہ طور پر باطل قرارديتے تھے تو کفار قریش اسے تحمل نہیں کرسکتے تھے . اورجب کوئی اسلام قبول کر تا تھا ان پر ظلم وتشدد کیا کرتے تھے .چنانچہ بلال، عمار، ياسر و سميه (رض) جیسے پاک دل اور ایمان سے سرشار افراد کو مختلف مواقع پر جان لیوا اذیت اور آزار پہونچا تے تھے اور ان کو دوبارہ کفر کی طرف بلاتے تھے .چنانچہ عمار اور ان کے ماں باپ کو پیامبر اسلام (ص) کی شان میں گستاخی اور نازیبا الفاظ زبان پر لانے پر مجبور کیا گيا؛ تو جناب یاسر اور ان کی زوجہ ، یعنی حضرت عمار کے والدین نے یہ گوارا نہیں کیا کہ پیامبر اسلام (ص) کی شان میں گستاخی کئے جائيں . اسی جرم میں ان دونوں کو اپنے بیٹے کے سامنے شہید کئے گئے ، لیکن عمار کی جب باری آئی تو اپنی جان بچانے کے خاطر کفار قریش کے ارادے کے مطابق پیامبر کی شان میں گستاخی کی . جس پر کفار نے انہیں آزاد کیا .جب رسول اللہ (ص) کی خدمت میں یہ شکایت پہونچی کہ عمار نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہے . تو فرمایا : ایسا ممکن نہیں کہ عمار نے دوبار ہ کفر اختیار کیا ہو بلکہ وہ سر سے لیکر پیر تک ایمان سے لبریز اور اس کے گوشت و خون اور سراسر وجود میں ایمان کا نور رواں دواں ہے .اتنے میں عمار روتے ہوئے آپ (ص) کی خدمت میں پہونچے ،آنحضرت (ص) نے اپنے دست مبارک سے ان کے چهرے سے آنسو صاف کیا اور فرمایا : جو کام تو نے انجام ديا هے ، قابل مذمت اور جرم نہیں ہے اگر دوبارہ کبھی ایسا موقع آجائے اور مشرکوں کے ہاتھوں گرفتار ہوجائے تو کوئی بات نہیں کہ تو ان کی مرضی کے مطابق انجام دو .پھر یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی .جس سے معلوم ہوتا کہ دینی مقدسات کی شان میں گستاخی کرنے پر مجبور ہوجائے تو کوئی بات نہیں . آپ کو اختیار ہے کہ یا آپ تقیہ کرکے اپنی جان بچائے یا جرأت دکھاتے ہوئے جام شہادت نوش کرے .ایک روايت منقول ہے کہ ایک مسلمان کو مسیلمہ کے پاس لایا گیا جو نبوت کا ادعی ٰ کررہا تھا .مسیلمہ نے پوچھا: محمد (ص) کے بارے میں تو کیا کہتے ہو؟اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں .مسیلمہ : میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟مسلمان: آپ بھی اسی طرح ہے .دوسرے شخص کو لایا گیا ، اور اس سے یہی سوال تکرار کیا ، لیکن کچھ بھی نہیں کہا .تو اسے قتل کرنے کا حکم دیا گیا .یہ خبر رسول خدا(ص) تک پہونچی ، فرمایا: پہلا شخص نے ترخیص کے دستور کی رعایت کی اور دوسرے شخص نے حق کو آشکار اور بلند و بالا کیا .اور اس کی حق میں دعا کی اور فرمایا :ان کیلئے شہادت مبارک ہو . (4 )يوسف بن عمران روايت کرتا ہے کہ ميثم تمار(رہ) سے سنا ہے: امير المؤمنين(ع) نے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا : اے میثم (رہ)جب عبيد الله ابن زياد تجھے میرے بارے میں گستاخی کرنے اور مجھ سے برائت کرنے کا حکم دے گا تو تو کیا کرے گا؟میں نے کہا :يا امير المؤمنين(ع) خدا کی قسم! کبھی اظہار برائت نہیں کروں گا .فرمایا:پھر تو تم مارےجاؤ گے .میں نے کہا : میں صبر کروں گا ؛ کیونکہ راہ خدا میں جان دینا کوئی بڑھی بات نہیں ہے .فرمایا:اے میثم! تیرے اس رفتار کی وجہ سے تو قیامت کے دن میرے ساتھ ہونگے .پس یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اگر کسی نے تقیہ کے موارد میں تقیہ نہیں کیا تو اس نے خودکشی کرلی هو ، بلکہ ایسے موارد میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ شہادت کو اختیار کرے یا تقیہ کرکے اپنی جان بچائے تاکہ آئندہ ائمه طاهرين(ع) اور اسلام کي زیادہ خدمت کرسکے .
تقيہ خوفيه اوراسکے اسنادتقيہ خوفيه کی تعر يف گذر گئی لیکن اس کے موارد کو خود عاقل اور باہوش انسان تشخیص دے سکتے ہیں .جب ایک اہم اور مہم کے درمیان تعارض پيداہو جائے تو اہم کو مہم پر مقدم کرنا ہے .اور تقیہ خوفیہ کےاسناد درج ذیل ہیں :۱ـ سيد مرتضي علم الهدي(رہ) نے اپنا رساله (محكم اور متشبہ) میں تفسير نعماني سےنقل کی ہے :علي(ع)نے فرمایا: خدا تعالي نے مؤمن کو کافروں کے ساتھ دوستي اور وابستگی سے منع کیا ہے لیکن تقیہ کے مواقع پر تظاہر کرنے کی اجازت دی گئی ہے پھر اس آیہ شریفہ کی تلاوت کی : لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّهِ فِي شَيْءٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّهِ الْمَصِيرُ. (5 )خبردار صاحبانِ ایمان .مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے.کہتے ہیں کہ یہ مؤمنین کیلئے رخصت دینا، خدا کی رحمت اورتفضل ہے كه تقيہ کے موقع پر ظاہر ہوتا ہے .(6 )۲ـ تقيہ خوفيه کی دوسری دلیل:طبرسي (رہ)نےاميرالمؤنين(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : میں طبیب یونانی سے گفتگو کرنے اور کچھ اسرار ولایت دکھانے کے بعد وظیفہ شرعی کے بیان کرنے کے ضمن میں تجھے دستور دونگا کہ تو اپنے دین میں تقیہ پر عمل کرو . جیسا کہ خداوند تعالی نے فرمایا: : لا يتخذ المؤمنون…تجھے اجازت دونگا جب بھی تجھے کوئی مجبور کرے اور تمہیں خوف پیدا ہوجائے تو تو اپنے دشمنوں کی تعریف کیا کرو اور ہم سے دشمنی کا اظہار کرو. اگر واجب نمازوں کے پڑھنے سے جان کا خطرہ ہو تو ، ترک کردو .اس طرح کچھ دستور دینے کے بعد فرمایا: درحالیکہ تمھارے دل میں ہماری محبت پائی جاتی ہے اور ہماری پیروی کرتے ہو .مختصر وقت کیلئے ہم سے برائت کا اظہار کرکے اپنی جان ، مال ناموس اور دوستوں کو طولانی مدت کیلئے بچالو؛ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ تم پرآسانی کے دروازے کھول دے . اور یہ بہتر ہے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے اور اپنے دوستوں کی خدمات اور دینی امور میں ان کی اصلاح کرنے میں کوتاہی سے بچائے . (7 )
تقيہ كتمانيہيعني دین مقدس اسلام اور مکتب اہل بیت (ع)کی نشر واشاعت کے خاطر اپنی فعالیتوں کو مخفی اور پوشیدہ رکھنا ، تاکہ دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند ہو . سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ہمارے دینی اور مذہبی راہنما حضرات اس طرح تقیہ کرنے کا حکم دیتے ہیں ؟اس کا جواب یہی ہے کہ کیونکہ مکتب تشیع ایک ایسا مکتب ہے کہ حقيقي اسلام کو صرف اور صرف ان میں ملاحظہ کرسکتے ہیں .شیعہ ابتدا ہی سے مظلوم واقع ہوا ہے کہ جب ائمہ طاہرین(ع) تقیہ کرنے کا حکم دے رہے تھے اس وقت شیعہ انتہائی اقلیت میں تھے اور ظالم وجابر اور سفاک بادشاہوں اور سلاطین کے زد میں تھے .اگر شیعہ اپنے آداب و رسوم کو آشکار کرتے تو ہر قسم کی مشکلات ان کے سروں پر آجاتی اور جان بھی چلی جاتی .اور کوئی شیعہ باقی نہ رہتا . اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حقیقی اسلام باقی نہ رہتا . یہی وجہ تھی کہ ائمه اطهار(ع) نے تقیہ کا حکم دیا .
تقيہ كتمانيہ کی دلیل۱ـ: كِتَابُ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلَالِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيّاً ع يَقُولُ يَوْمَ قُتِلَ عُثْمَانُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ التَّقِيَّةَ مِنْ دِينِ اللَّهِ وَ لَا دِينَ لِمَنْ لَا تَقِيَّةَ لَهُ وَ اللَّهِ لَوْ لَا التَّقِيَّةُ مَا عُبِدَ اللَّهُ فِي الْأَرْضِ فِي دَوْلَةِ إِبْلِيسَ فَقَالَ رَجُلٌ وَ مَا دَوْلَةُ إِبْلِيسَ فَقَالَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ هُدًى فَهِيَ فِي دَوْلَةِ الْحَقِّ عَلَى إِبْلِيسَ وَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ ضَلَالَةٍ فَهِيَ دَوْلَةُ إِبْلِيسَ . (8 )کتاب سليم بن قيس هلالي نےحسن بصري سے روايت کي ہے : هم نے امير المؤمنين(ع) سےقتل عثمان کے دن فرماتے هوئےسنا :هم نے رسول خدا(ص)سے تاکید کے ساتھ فرماتے هوئےسنا: تقیہ میرا دین ہے اور جو بھی تقیہ کا قائل نہیں ، اس کا کوئی دین نہیں . اور اگر تقیہ کے قوانین پر عمل نہ ہوتا تو شیطان کی سلطنت میں روی زمین پر خدا کی کوئی عبادت نہ ہوتی . اس وقت کسی نے سوال کیا ، ابلیس کی سلطنت سے کیا مراد ہے ؟فرمایا : اگر کوئی خدا کا ولی یا عادل امام لوگوں پر حکومت کرے تو وہ خدائی حکومت ہے ، اور اگرکوئی گمراہ اور فاسق شخص حکومت کرے تو وہ شیطان کی حکومت ہے .اس روایت سے جو مطلب ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طاغوتی حکومت کے دوران صرف اپنے مذہب کو مخفی رکھنا اور خاموش رہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس میں بھی خدا تعالی کی عبادت و بندگی ہوتی رہے.اصحاب كهف کا عمل بھی اسی طرح کا تقیہ تھا ، اور حضرت ابوطالب(ع) کا تقیہ بھی اسی قسم کا تقیہ شمار ہوتا ہے .جسے ابتدای اسلام میں انہوں نے اختیار کیا تھا .کہ اپنے دین کو کفار قریش سے مخفی رکھا گیا . اور کفار کا ہم مسلک ظاہر کرتے رہے تاکہ رسول گرامي اسلام(ص) کی حمايت اور حفاظت آسانی سے کرسکے .اور مخفی طور پر دین مبین اسلام کی ترویج اور انتشار کرتے رہے . چنانچہ آپ ہی کی روش اور ٹیکنک کی وجہ سے پيامبر اسلام(ص) سے بہت سارے خطرات دور ہوتے رہے .
تقيہ مداراتياس نوع کی تعریف گذر گئی . لیکن اس کی شرعی جواز پر دلیل درج ذیل ہیں:o امام سجاد(ع) نے صحيفه سجاديه مسلمانوں کیلئے دعای خیر اور کفار کیلئے بددعا کرتے ہوئے فرمایا:خدايا اسلام اور مسلمين کودشمن کےآفات و بليات سے محفوظ فرما ، اور ان کے اموال کو با ثمر و منفعت اورپر بركت فرما. اور انہیں دشمن کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند اور شان وشوکت اور نعمت عطا فرما .اور میدان جنگ میں انہیں کافروں پر فتح و نصرت عطا فرما . اور تیری عبادت اور بندگی کرنے کی مہلت اور فرصت عطا فرما تاکہ توبہ اور استغفار اور راز و نیاز کر سکے، خدایا ! مسلمانوں کو ہر طرف سے مشرکوں کے مقابلے میں عزت اور قدرت عطا فرما اور مشرکوں اور کافروں کو اپنے درمیان جنگوں میں مشغول فرما ! تاکہ وہ مسلمانوں کے حدود اور دیار کی طرف دست درازی نہ کرسکے . (9 )o معاويه بن وہب کہتا ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے سوال کیا : کہ دوسرے مسلمانوں اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے ساتھ زندگی کرنے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے ؟امام(ع) فرمود: ان کی امانتوں کو پلٹایا جائے اور جب آپس میں کوئی نزاع پیدا ہو جائے اور حاکم شرع کے پاس پہنچ جائے تو حق دار کے حق میں گواہی دو اور ان کے بیماروں کی عیادت کیلئے جاؤ اور ان کے مرنے والوں کی تشییع جنازے میں شرکت کرو. (10 )o امام صادق(ع)نے فرمایا: اياكم ان تعملواعملا نعيّر بہ فان ولد السوء يعيّر ولده بعمله. كونوا لمن انقطعتم اليه زينا ولا تكونوا علينا شينا، صلوا في عشائرهم عودوا مرضاهم و اشهدوا جنائزهم ولا يسبقونكم الي شيئ من الخير. فا نتم اولي بہ منهم. والله ما عبدالله بشيئ احب اليه من الخباء . قلت: و ما الخباء؟ قال(ع): التقيہ. (11 )کوئی ایسے کاموں کے مرتکب ہونے سے پرہیز کرو جو ہمارے مخالفین کے سامنے سرزنش کا باعث بنے ، کیوں کہ لوگ باپ کو ان کےبرے بیٹوں کے اعمال کی وجہ سے ملامت کرتے ہیں .کوشش کریں کہ ہمارے لئے باعث زینت بنو نہ باعث ذلت. اہل سنت کے مراکز میں نماز پڑھا کرو اور بیماروں کی عیادت کیا کرواور ان کے مردوں کی تشییع جنازے میں شرکت کیا کرو اور ہر اچھے کاموں میں ان پر سبقت لے جاؤ ان صورتوں میں اگر ضرورت پڑي تو محبت جلب کرنے اور اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کیلئے اپنے عقائد کو چھپاؤ . خدا کی قسم ایسے مواقع میں اپنے کو کتمان کرنا بہترین عبادت ہے . راوی نے سوال کیا : یابن رسول اللہ ! کتمان سے کیا مراد ہے ؟ ! تو فرمایا: تقیہ .یہ تقیہ مداراتی اور تحبیبی کے جواز پر کچھ دلائل تھے . لیکن ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سارے عقیدتی ، فکری اور سلیقائی اختلافات مکمل طور پر ختم کرکے صرف ایک ہی عقیدہ اور سلیقہ کا پابندہوجائے ؟ !اس سوال کا جواب بالکل منفی میں ملے گا. یہ ناممکن ہے .کیونکہ کوئی بھی قوم یا قبیلہ نہیں ملے گا جس میں سینکڑوں اختلافات اور نظریات نہیں پائی جاتی ہو. حتی خود دین اسلام میں کہ سارے اصول اور فروع دین توحید کی بنیاد پر قائم ہے ، پھر بھی زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اصلی راستے اور قاعدے سے منحرف ہوجاتے ہیں اور اختلافات کا شکار ہوجاتے ہیں . پس ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟! اور راہ حل کیا ہے ؟!ایک طرف سے بغیر وحدت اور اتحاد کے کوئی کام معاشرے کے حوالے سے نہیں کرپاتے، دوسری طرف سے اس وحدت اور اتحاد کے حصول کیلئے سارے اختلافی عوامل کو پس پشت ڈالنا ہوگا.کیا ایسی صورت میں ہم بیٹھے رہیں اور اختلافات کے کیڑے مکوڑے معاشرے کی سعادت مند ستون کو اندر سے خالی کرتے کرتےسرنگون کرے؟!یا کوئی راہ حل موجود ہے جس کے ذریعے سے ايک حد تک وحدت برقرار کرلے ؟!یہ وہ مقام ہے جہاں دور حاضر کے مفکرین اور دانشمندوں نے کئي فارمولے تیار کئے ہیں جس کے ذریعے ممکن ہے کہ یہ ہدف حاصل ہوجائے ، اور وہ فامولے درج ذیل ہے:۱.ہر معاشرہ میں موجود تمام ادارے بغیر کسی قوم پرستی، رنگ و زبان اور موقعیت ، مذہب میں فرق کئے ، اجتماعی حقوق کو بعنوان “حقوق بشر” رسمی مان لیں اور خود مداری سے پرہیز کریں .۲. ہر ملک کو چاہئے کہ معاشرے میں موجود تمام گروہوں کو اس طرح تعلیم دیں کہ اتحاد و اتفاق کی حفاظت کے خاطر اجتماعی منافع کو شخصی منافع پر مقدم رکھیں . اور انہیں یہ سمجھائیں کہ اجتماع کی بقا میں افراد کی بقا ہے .۳. ہر ایک شخص کو تعلیم دیں کہ دوسروں کے عقائد کا احترام کریں کہ معاشرے کیلئے کوئی مشکل ایجاد نہ کرے .اور ملک اور معاشرے کے بنیادی اصولوں اور قواعد و ضوابط کیلئے ضرر نہ پہنچائيں . اور ایک دوسرے کے احساسات اور عواطف کا احترا م کریں .۴. ان کو سمجھائیں کہ دوسرے مکاتب فکر کے مختلف اور معقول آداب و رسوم میں شرکت کریں . اس طرح ایک دوسرے کے درمیان محبت پیدا کریں.پس اگر ايك جامعه یامعاشرے میں ان قوانین اور اصول پر عمل درآمدهوجائے تو سارے اسلامی ممالک ایک پليٹ فارم پر جمع ہونگے اور ایک دوسرے کے درمیان محبت اور جذبہ ایثار پیدا هونگے . یہی وجہ تھی کہ ائمه طاهرين(ع) نے اپنے گوہر بار كلمات میں اس بات کی طرف تشویق کرتے هوئے نظر آتے هيں.
تقيہ اور توريہ میں موازنہلغت میں توريہ ؛وراء یا پيٹھ سے نکلا ہے جس کا مد مقابل امام یعنی (آگے ) سے لیا گیا ہے .اور اصطلاح میں کسی چیز کو چھپانے کو کہا جاتا ہے .ü تقيہ اور توريہ کے درمیان نسبت تباين پایاجا تا ہے . کیونکہ توریہ لغت میں ستر اور تقیہ صیانت اور حفاظت کو کہا جاتا ہے .ü توریہ میں شخص واقعیت کا ارادہ کرتا ہے لیکن تقیہ میں نہیں .ü توریہ میں کئی مصلحت کو ملحوظ نظر نہیں لیکن تقیہ میں کئی مصالح کو ملحوظ نظر رکھا جاتا ہے .ü لیکن مصداق کے لحاظ سے ان دونوں میں عموم و خصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے . کہ ان دونوں کا مورد اجتماع یہ ہے کہ تقیہ کرنے والا تقیہ کے موارد میں اوراظہار کے موقع پر حق کے برخلاف ، توریہ سے استفادہ کرتا ہے کیونکہ خلاف کا اظہار کرنا ؛ حق کا ارادہ کرنے یا خلاف حق کا ارادہ کرنے سے ممکن ہے.ü تقيہ اور توريہ میں افتراق کا ایک مورد ، تقيہ كتماني ہے كه یہاں کوئی چیز بیان نہیں ہوئی ہے جو توریہ کا باعث بنے .ü ان دونوں میں افتراق کا ایک اور مورد یہ ہے کہ توریہ میں کوئی مصلحت لحاظ نہیں ہوا ہے اور اگر کوئی مصلحت ملحوظ ہوا ہے تو بھی ذاتی منافع ہے .
تقيہ ، اكراه اور اضطرارکے درمیان میں تقابلتقيہ کے بعض موارد کو اكراه و اضطرار کے موارد میں منحصر سمجھاجاتاہے .شيخ انصاري(رہ) مكاسب میں اكراه کے بارمیں یوں فرماتے ہیں : ثم ان حقيقة الاكراه لغة و عرفا حمل الغير علي ما يكرهه في وقوع الفعل من ذالك الحمل اقترانه بوعيد منه مظنون الترتب الغير علي ترك ذالك الفعل مضر بحال الفاعل او متعلقه نفسا او عرضا او مالا(12 ) اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اکراہ کے تحقق پانے کے تین شرائط ہیں:1. یہ مخالف کی طرف سے واقع ہوتا ہے . پس جہاں اگر خود انسان سے جلب منفعت یا دفع ضرر کیلئے کوئي اقدام اٹھائے تو وہ توریہ میں شامل نہیں ہے .2. اكراه یہ ہے کہ مستقيماکسی کام پر انسان کو مجبور کیا جائے نه بطور غير مستقيم.3. تهديد اور وعيد کے ساتھ ہو کہ اگر انجام نہ دے تو اس کی جان ، مال، عزت آبرو خطرے میں پڑ جائے .ان تین شرائط اور اولین آیہ شریفہ جو مشروعیت تقیہ کے بارے میں نازل ہوئی جس میں عمار ابن یاسر (رض) کا قصہ بیان ہوا ہے ، سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض موارد میں تقیہ اور اکراہ میں مطابقت پائی جاتی ہے . اور یہ تین شرائط کے ذریعے حضرت عمار(رض) کے تقیہ کرنے پا استدلال کیا جا سکتا ہے . اور تقیہ کی تعریف بھی اس پر منطبق ہوسکتی ہے .لیکن جہاں یہ تین شرائط صدق آئے اور تقیہ صدق نہ کرے تو وہ اکراہ اور تقیہ کے افتراق کے موارد ہونگے ……………(1 ). انديشه هاي كلامي شيخ طوسي، ج۱،ص ۲۷۷.(2 ). التقيہ في رحاب العلمين(شيخ انصاري و امام خميني)،ص۱۳.(3 ). نحل ۱۰۶.(4 ). تقيہ در اسلام ، ص۱۰.(5 ) . سوره آلعمران/۲۸.(6 ). وسائل الشيعه،باب امر بالمعروف،باب۲۹.(7 ) . علی تہرانی ؛ تقیہ در اسلام، ص ۵۰.(8 ). مستدركالوسائل، ج ۱۲، ص252 باب وجوب التقية مع الخوف .(9 ). همان، ص ۱۰۰.(10 ). وسائل الشيعه،ج۱ ، كتاب حج،احكام عشرت.(11 ). همان،ج ۱۱،ص ۴۷۱.(12 ). شيخ انصاري(رہ) ،المكاسب،شروط متعا قد ين،ص۱۱۹.