دلائل مشروعيت تقيہ
مقدمہہر ایک دلائل کی بررسی کرنے سے پہلے اس محل بحث کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں . چنانچہ اس فصل میں درج ذیل عناوین پر گفتگو ہوگی:1. شیعوں کے نزدیک تقیہ کی مشروعيت مسلمات میں سے ہے . صرف ایک دو موارد میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے کہ جائز ہے یا نہیں . اور وہ بھی ائمہ معصومین (ع)سے مربوط ہے . لیکن اس کے مقابلےمیں اہل سنت کے نزدیک کیا تقیہ جائز ہے یا نہیں ؛ بحث کریں گے .2. چونكه ہماری بحث اهل سنت سے ہے لہذا دلائل ایسے ہوں جن کے ذریعے اہل سنت کے ساتھ استدلال کرسکے .اس لئے هم کوشش کريں گے که زياده تر دلائل اهل سنت کي کتابوں سے پيش کريں.3. مشروعیت تقیہ سے مراد ، اصل جواز تقیہ ہے جو وجوب ، استحباب ، مباح، اور کراہت کو بھی شامل کرتا ہے .4. مشروعیت تقیہ کے بارے میں شیعوں اور اہل سنت حضرات کے درمیان ابتداے اسلام میں کوئی اختلاف نہیں پایاجاتا .کیونکہ قرآن کریم نے اسے ثابت کیا ہے . اصل اختلاف شیعہ اور اہل سنت کے درمیان دو نقطے پر ہے :الف: کیا مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ تقیہ کر سکتا ہے یا نہیں؟ جیسا کہ شیعہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں.ب: اس بات کو تو مانتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں تو تقیہ جائز تھا کیونکہ اس وقت اسلام اور مسلمانان ضعیف تھے .لیکن اب چونکہ اسلام ایک قدرت مند اور عزت مند اور بڑی شان وشوکت والا دین بن چکا ہے تو کیا اب بھی تقیہ کرنا مناسب ہے ؟انهي سوالات اور اشکالات کے جواب ميں هم قرآن و سنت واجماع و عقل اور فطرت سے استدلال کريں گے :
الف: قرآنقرآن مجيد نے کئی موقع پر تقیہ کے مسئلے کو بیان کیا ہے ؛ کبھی تقیہ ہی کے عنوان سے تو کبھی کسی اور عنوان سے اشارہ کیا ہے کہ تقیہ قرآنی احکام کے مسلمات میں سے ہے :سوره غافر میں اس مرد مجاهد ، فدا كاراور وفادارکا ذکر ہوا ہے ، جو فرعون کے دربار میں ایک خاص اور حساس مقام کا مالک ہے . اور حضرت موسیٰ(ع) کے آئین پر محکم ایمان رکھنے والا ہے ، جسے دل میں چھپا رکھا ہے تاکہ اپنے دوستوں کی ضرورت کے وقت اس سے استفادہ کیا جائے . جس کے بارے میں فرمایا:وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبہ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ. (1 )اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مؤمن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے؟ اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں – بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے .یہ آیہ شریفہ مؤمن آل فرعون کی مستدل اور منطقی بات کی طرف اشارہ ہے جب فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا.انہوں نے فرمایا: موسیٰ الله کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور قابل مطالعہ اور اچھی دلیل بھی ساتھ بیان کرتے ہیں تو یہ دو حالت سے خارج نہیں :یا وہ جھوٹ بول رہا ہے ،ایسی صورت میں وہ خود رسوا اور ذلیل ہوگا اور قتل کرنے کی ضرورت ہی نہیں . کیونکہ قتل کرنا اسے افکار عمومی میں ایک کامیاب اور فاتح ہیرو اور لیڈر بنادے گا . اور اس کے پیچھے ایک گروہ ہمیشہ کیلئے چلنے کی کوشش کرے گا ، اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں میں زندہ رہے اور لوگ خود ان سے دور ہو جائیں .یا واقعاً وہ سچ کہہ رہا ہے اور خدا کی طرف سے آیا ہے ، اس صورت میں جس چیز کی وہ تہدید کر رہا ہے ممکن ہے تحقق پائے . ہمارا ان کے ساتھ حساب کتاب بالکل صاف ہے اس لئے اسے قتل کرنا کسی بھی صورت میں عاقلانہ کام نہیں ہوگا.ان کلمات کے ساتھ لوگوں کو اور بھی کچھ نصیحیں کی .اس طرح فرعونیوں کے دل میں وحشت اور رعب ڈال دی ، جس کی وجہ سے وہ لوگ ان کے قتل کرنے سے منصرف ہوگئے .قرآن اس آیہ شریفہ میں مؤمن آل فرعون کے عقيده کو چھپانے کو ایک اچھا اور نیک عمل کے طور پر معرفی کررها ہے ، کیونکہ انہوں نے ایک بہت بڑے انقلابی رہنما کی جان بچائی اور دشمنوں سےنجات دلائی.اس سے معلوم ہوا کہ تقیہ عقیدہ کو چھپانے کے سوا کچھ نہیں .سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اس مرد مجاہد کے اس عمل کو اس حساس موقع پرایک عظیم ہدف کے بچانے کے خاطر فدا کاری اور جہاد کے علاوہ کچھ اور کوئي نام دےسکتا ہے ؟!کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ اگر یہ مرد مؤمن تقیہ کے اس ٹیکنیک سے استفادہ نہ کرتا تو حضرت موسي(ع) کی جان خطرے میں پڑ جاتی .حضرت ابراهيم (ع)تقیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ فَرَاغَ إِلَى آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَمَا لَكُمْ لَا تَنطِقُونَفَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِين. (2 )اپنی قوم سے کہنے لگے: میں بیمار ہوں اور میں تمھارے جشن میں نہیں آسکتا . قوم نے بھی اس کوچھوڑ دیا . ابراہیم(ع) نے بھی بت خانے کو خلوت پایا ؛بتوں کو توڑنے کی نیت سے چلے اور تمام بتوں کو مخاطب کرکے کہا:تم لوگ اپنے بندو ں کے رکھے ہوئے کھانوں کو کیوں نہیں کھاتے ہو؟ بات کیوں نہیں کرتے ہو؟ تم کیسے بے اثر اور باطل خدا ہو؟! پھر ایک مضبوط اور محکم کلہاڑی اٹھائی اور سب بتوں کو توڑ ڈالا سوای ایک بڑے بت کے.ان آیات اور روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) بتوں کو توڑنے کا ایک وسیع اور دقیق پروگرام بناچکے تھے ، اور اس پروگرام کو اجرا کرنے کیلئے ایک خاص اور مناسب موقع اور فرصت کی تلاش میں تھے . یہاں تک کہ وہ وقت اور عید کا دن آگیا اور اپنا کارنامہ انجام دیا . یہ دن دولحاظ سے زیادہ مناسب تھا کہ ایک تو سب لوگ شہر سے دور نکل چکے تھے جس کی وجہ سے اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دے سکتے تھے اور دوسرا یہ کہ لوگ چونکہ تہوار کے ختم ہونے کے بعد بت خانے میں عبادت کیلئے آناتھا، لہذا لوگوں کے افکار اور احساس کو بیدار کرنے اور ان کو نصیحت کرنے کیلئے زیادہ موزون تھا . اور آپ کا یہ کام باعث بنا کہ لوگ سوچنے لگے اور شہر بابل والے ظالم و جابر حکمرانوں کے چنگل سے آزاد ہوگئے .لوگوں کو آپ پر شک تو ہوچکا تھا لیکن آپ نے اپنے عقیدے کو مکمل طور پر چھپا رکھا تھا اور لوگوں کے دعوت کرنے پر کہا کہ میں بیمار ہوں .: فقال اني سقيم. جبکہ آپ کے جسم مبارک پر کوئی کسی قسم کی بیماری موجود نہیں تھی .لیکن آپ نے اپنے اس عظیم ہدف کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کے خاطر توریہ کیا ، کیونکہ آپ کی بیماری سے مراد روحانی بیماری تھی کہ لوگوں کے خدا کو چھوڑ کر بتوں کی پوجھا کرنے کی وجہ سے احساس کررہے تھے .۳ـ ٹیکنیکی تقیہ کے موارد میں سے این مورد حضرت مسیح (ع)کی جانب سے بھیجے ہوئے مبلغین کا داستان ہے جو انطاکیہ کے لوگوں کے درمیان میں بھیجے گئے تھے .جن کے بارے میں فرمایا: إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوہمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ (3 )اس طرح کہ ہم نے دو رسولوں کو بھیجا تو ان لوگوں نے جھٹلادیا تو ہم نے ان کی مدد کو تیسرا رسول بھی بھیجا اور سب نے مل کر اعلان کیا کہ ہم سب تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں.اس ماجرے میں ان دونوں شخص کو انطاکیہ کے بت پرستوں کے اصولوں کے ساتھ ٹکراؤ کی وجہ سے انطاکیہ کے بادشاہ نے جیل میں ڈالديا. اور کوئی تبلیغی نتیجہ حاصل نہیں ہوا. لیکن تیسرےشخص کو، جو ان دونوں کی مدد کیلئے آئے تھے ناچار اپنا مبارزہ اور ان کے ساتھ مقابله کا راستہ تبدیل کرنا پڑا .پہلے اپنا عقیدہ چھپا تارها. تاکہ اپنی تدبیر ، فصاحت و بلاغت کے ساتھ حکومت کے امور میں مداخلت کرسکے . اس کے بعد ایک مناسب فرصت اور موقع کا انتظار کرتے رہے تاکہ اپنے دوستوں کو نجات دلا سکے .اور اس شہر کے لوگوں میں اخلاقی ، اجتماعی اور فکری انقلاب برپا کرسکے.اتفاقاً دونوں ہدف حاصل ہوا کہ قرآن کریم نے اسے یوں تعبیر کیا ہے : “عززنا بثالث”یعنی ہم نے اس تیسرے شخص کے ذریعے ان دونوں کی مدد کی اور ان کو عزت اور قوت بخشی .اب سوال يه هے که کیا حضرت ابراهيم(ع)کا اپنا اعلیٰ ہدف کو چھپا رکھنا ترس اور خوف و ہراس کی وجہ سے تھا؟ یا اس اعلیٰ اور عظیم ہدف کو حاصل کرنے کیلئے مقدمہ سازی تھی؟!کیا عيسي مسيح(ع) کی طرف سے بھیجے ہوئے تیسرا شخص بھی اپنے دوستوں کی طرح تلخ تجربات کے مرتکب ہوتے؟ اور خود کو بھی زندان میں ڈلوا دیتے ؟!یا یہ کہ روش تقیہ سے استفادہ کرکے تینوں دوستوں کو دشمن کے قید اور بند سے رہائی دلاتے؟!!ان آیات سے بخوبی معلوم ہوجاتاہے کہ ہدف اور فلسفہ تقیہ کیا ہے اور اس کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟ (4 )
اگر تقيہ جائز نہیں تو ان ساري آیتوں کا کیا کروگے؟!شيعه، تقیہ کا انکار کرنے والوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر تقیہ جائز اور درست نہیں تو ان آیات مبارکہ کا کیا کرو گے ؟ کیا ان آیات کیلئے کوئی شان نزول نہیں ہے ؟ یا اہل قرآن کیلئے ان آیات کے ذریعے کوئی حکم نہیں بیان نہیں ہورہا ؟اگر يه آيتيں کوئی شرعی تکلیف کو معین نہیں کرتی تو نازل ہی کیوں ہوئیں؟ لیکن اگر کوئی شرعی حکم کو معین کرتی ہیں تو یہ بتائیں کہ وہ احکام کیا ہیں؟آیات شریفہ جو اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں ، درج ذیل ہیں:وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبىَِّ اللَّهُ وَ قَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَتِ مِن رَّبِّكُمْ وَ إِن يَكُ كَذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبہ وَ إِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يهَْدِى مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ. يَاقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فىِ الْأَرْضِ فَمَن يَنصُرُنَا مِن بَأْسِ اللَّهِ إِن جَاءَنَا قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَى وَ مَا أَهْدِيكمُْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ (5 ) اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو حُھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں – بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے .میری قوم والو بیشک آج تمہارے پاس حکومت ہے اور زمین پر تمہارا غلبہ ہے لیکن اگر عذاب خدا آگیا تو ہمیں اس سے کون بچائے گا فرعون نے کہا کہ میں تمہیں وہی باتیں بتارہا ہوں جو میں خود سمجھ رہا ہوں اور میں تمہیں عقلمندی کے راستے کے علاوہ اور کسی راہ کی ہدایت نہیں کررہا ہوں.لا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكافِرينَ أَوْلِياءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنينَ وَ مَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ في شَيْءٍ إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً وَ يُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَ إِلَى اللَّهِ الْمَصيرُ (6 ) خبردار! اےایمان والو!مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے .مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبہ مُطْمَئنُِّ بِالْايمَانِ وَ لَاكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (7 ) جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے … علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو …اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے .سوال یہ ہے کہ اگر تم لوگ تقیہ نہیں کرتے ہیں تو کیوں ہر خلیفہ اور بادشاہ کے ساتھ نشت و برخاست کرتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ؟جب کہ شیعہ عقیدے کے مطابق امام جماعت کی امامت کیلئے عدالت شرط ہے اور ظالم ، فاسق اور غاصب شخص کے پیچھے نمازپڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں.سوال یہ ہے کہ ہر فاسق وفاجر کے پیچھے نماز پڑھنا اگر تقیہ نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟!!
ب: سنتموجودہ اور گذشته تاريخ ميں، تقیہ کو کامیابی کیلئے ایک پل کی مانند تصور کیا جاتارہا ہے . آپ کی تقریب ذہن کیلئے ہم کچھ مثالیں بیان کریں گے :اعراب اور اسرئیل کے درمیان چھیڑی گئی چوتھی جنگ میں جو ماه رمضان سن ۵۲ھ میں واقع ہوئی اور اسرائیل کي شكست نا پذيري کا افسانہ پہلی ہی فرصت میں صحرای سینا کے خاک میں دفن ہوا اور اسرائیل کے پرخچے اڑادئے گئے . جس میں فتح اور کامیابی کا اصل راز اور مہم ترین عامل استتار اور تقیہ تھا.اگر مصر اور سوریہ والے جنگی نقشے اور نقل و انتقالات خود کو آخرین لحظہ تک نہ چھپاتے تو ہرگز اسرائیل کو اتنی آسانی سے شکست نہیں دے سکتے تھے .
۱.تقيہ، پیامبر(ص) کی تدبيرپيامبر اسلام(ص) کی زندگي میں موجود شهامت و شجاعت او رتدبيرمیں کسي دوست يا دشمن کو کوئی تردید نہیں .بعض مسائل جیسے تین سالہ ” مخفيانه دعوت ” اورآپ کی ” هجرت ” جو مکمل طور پر مخفیانہ اور چھپ کرانجام دیتے رہے . جس کی وجہ سے آنحضرت (ص) دشمن کے دائرہ محاصرہ سے نکلنے کے بعد ہی وہ لوگ متوجہ ہوئے . اس کے بعدمدینہ تشریف لانے تک غار ثورمیں مخفی رہنا اور رات کی تاریکیوں میں چلنا اور دن کو مخفی رہنا ، یہ سب تقیہ کےاعتقادی یا عملی مصادیق میں سے ہیں .
۲ .تقيہ،مقدس اهداف کے حصول کا ذریعہکیا کوئی کہ ایسے مسائل میں تقیہ کے اصولوں کا بروی کار لانے کو نقطہ ضعف یا ترس یا محافظہ کاری کہہ سکتے ہیں؟!امام حسين(ع) كه جس نے تقیہ کے سارے نمونے کو پیروں تلے روند ڈالا ، لیکن جب بھی ضرورت محسوس کی کہ مقدس اور ابدی اہداف کے حصول اور ظلم وستم ، کفر و بے ایمانی اور ساری جہالت کے خاتمے کیلئے تقیہ کرتے ہوئے مکہ معظمہ سے نکلے جب کہ سارے مسلمان اعمال حج انجام دینے کی تیاریوں میں مصروف تھے . اور اس کی علت بھی خود امام حسین (ع)نے فرمایا تھا اگرمیں چیونٹی کی بل میں بھی گھس جاؤں تو یہ لوگ وہاں سے نکال کرمجھے شہید کردیں گے . اور اگر مکہ میں ٹھہر تے تو حرم الہی کو میرے خون سے رنگین کردیں گے اور خانہ کعبہ کی بھی بے حرمتی کردیں گے .تو اہل انصاف سے ہم یہی سوال کریں گے کہ امام حسین (ع)کا اس موقع پر تقیہ کرنا کیا عقل انسانی کے خلاف تھا ؟ یا عین عاقلانہ کام تھا ؟!
۳.نقش تقيہ اورجنگ موتہجنگ”موتہ”کے میدان میں مجاہدین اسلام کے صفوف میں کچھ اس طرح سےترتیب دینا تاکہ امپراتوري روم کے لاکھوں افراد پر مشتمل فوج جو مسلمانوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھی ،کے ذہنوں میں تزلزل پیدا کرے اور روحی طور پر مفلوج کرے . اور یہ بہت مؤثر بھی رہا .
۴. فتح مكہ میں تقيہ کا کردارپيامبر اسلام(ص) نے مکہ کو فتح کرنے کے خاطر نہایت ہی مخفیانہ طور پر ایک نقشہ تیار کیا ؛ یہاں تک کہ انپے قریبی ترین صحابیوں کو بھی پتہ ہونے نہیں دیا . جس کے نتیجے میں مسلمان فتح مکہ جیسی عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوئے .اسی طرح بہت سے مواقع پر تقیہ کے اصولوں پر عمل کرکے فوجی طاقتون اور اسلحوں کی حفاظت کی .مقصد کہنے کایہ ہے کہ تقیہ زندگی کے ہر میدان میں خصوصاً ملکی حفاظت کرنے والوں کا سب سے پہلا اصول تقیہ اور کتمان ہے کہ دشمنوں سے ہر چیز کو چھپائی جائے تاکہ وہ ہم پر مسلط نہ ہو .اس لئے جو بھی تقیہ کرنے پر اعتراض کرتے ہیں وہ در اصل تقیہ کے مفہوم اور معنی سے واقف نہیں یا کسی ایک خاص مکتب کو دوسرے مکاتب فکر کےسادہ لوح افراد کے سامنے متنفر کرنے کیلئے اس قرآنی اور عقلانی اصول کی اصل اور حقیقی شکل و صورت کو بگاڑ کر پیش کرتے ہیں . ہم ان سے کہیں گے کہ آپ کسی مکتب کی اہانت نہیں کررہے ہیں در اصل آپ قرآن مجید کا مزاق اڑا رہے ہيں.
۵ . تقيہ دشمنوں کے مقابلے میں دفاعی وسیلہتقیہ دشمنوں کے شر سے بچنے کیلئے مجاہد بروی کار لاتے ہیں تاکہ اس ٹیکنیک کے ذریعے دشمن کو غافل گیر کرکے مغلوب بنایا جائے . اور میدان جنگ میں خود کامیابی سے ہمکنار ہوسکے.اس سے معلوم ہوتا ہے تقیہ گوشہ نشین افراد اور ڈرپوک اور غیر متعہد اور عافیت آرام طلب افراد کا شیوہ نہیں ہے بلکہ یہ مجاہدین اسلام اور محافظین دین کا شیوہ ہے . پس تقیہ بھی ایک طرح کی جنگ اور جہاد ہے .اور یہ تقیہ خود وزارت دفاع اورملکی حفاظت کرنے والوں کی طاقت شمار ہوتا ہے . چنانچه امير المؤمنين(ع)نے فرمایا: التقيہ من افضل اعمال المؤمن يصون بہا نفسه و اخوانه عن الفاجرين(8 ) یعنی تقیہ مؤمن کی افضل ترین عبادتوں میں سے ہے ، کیونکہ اس کے ذریعے فاسق اور فاجر طاقتوں کی شر سے وہ اپنی جان و اپنے دوسرے بھائیوں کی جا ن بچاتا ہے .
۶ ـ تقيہ مؤمن کی روشن بينيامام باقر(ع)نے فرمایا : اي شيئ اقر للعين من التقية؟ ان التقية جنة المؤمن (9 )يعني کونسی چیز تقیہ سے زیادہ مؤمن کیلئے سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہے ؟!
۷ .تقيہ مؤمن کا ڈھال ہےامام صادق(ع) نے فرمایا: التقية ترس المؤمن و التقية حرز المؤمن(10 ) بے شک تقیہ مؤمن کیلئے سپر اور ڈھال ہے . جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو دشمن کی شر سے بچاتا ہے .اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ ایک دفاعی مفہوم رکھتا ہے جسے اپنے دشمن کے مقابلے میں بروی کار لایا جاتا ہے .زرہ کا پہننا اور ڈھال کا ہاتھ میں اٹھانا مجاہدین اور سربازوں کا کام ہے . ورنہ جو میدان جنگ سے بالکل بے خبر ہو اور میدان میں اگر جائے توفرار کرنے والا ہو تو اس کیلئے زرہ پہننے اور ڈھال کے اٹھانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی.
۸ . تقيہ پيامبران مجاهدکی سنتامام صادق(ع)نےفرمایا: عليك بالتقيہ فانها سنت ابراهيم الخليل(ع)(11 ) تم پر تقیہ کرنا ضروری ہے کیونکہ تقیہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ(ع) کی سنت ہے . اور ابراہیم وہ مجاہد ہے جس نے اکیلا ظالم و جابر نمرود کے ساتھ مقابلہ کیا . نہ صرف اس کے ساتھ بلکہ تمام متعصب اور لجوج بت پرستوں کےساتھ مبارزہ کیا ؛ اور ہر ایک کو عقل اور منطق اور اپنی بے نظیر شجاعت کے ساتھ گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کرادئے . ان کے باوجود حضرت ابراہیم (ع)نے کئی مقام پر تقیہ کرکے اپنی جان بچائی ہے . لیکن کیاکوئی ابراہیم پر مصلحت اندیشی کا الزام لگا سکتا ہے ؟!ہرگز نہیں. اس لئے تقیہ حضرت ابراهيم(ع) کی سنت کے عنوان سے بھی معروف ہے .
۹ .تقيہ ،مجاهدوں کا مقامیہ بہت جالب بات ہے کہ امام حسن العسكري (ع) سے اس سلسلے میں کئی روایات نقل ہوئی ہیں : مثل مؤمن لا تقية له كمثل جسد لا راس له (12 ) وہ مؤمن جو تقیہ نہیں کرتا وہ اس بدن کی طرح ہے جس پر سر نہ ہو.اور بالکل یہی تعبیر “صبر اور استقامت” کے بارے میں بھی آئی ہے كه ايمان بغيرصبرو استقامت کے بغیر سرکے بدن کی طرح ہے .ان تعابیر سے ہماری سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے کہ تقیہ وہی صبر و استقامت کا فلسفہ ہے .سر بدن کے باقی اعضا کی نسبت سب سے زیادہ فعال ہے اور تقیہ ان اصول میں سے ہے جس کے ذریعے اپنی طاقت اور اسلحہ کا بندوبست اور ان کی حفاظت کياجاتا ہے .
۱۰ . تقيہ ،مسلمانوں کےحقوق کی حفاظتتقیہ کا مسئلہ اور مسلمان بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی دو ایسے فریضے ہیں جنہیں ایک دوسرے کے ساتھ ہی قرار دیا گیا ہے .امام حسن العسكري(ع)نے فرمایا : و اعظمهما فرضان : قضاء حقوق الاخوان في الله و استعمال التقيہ من اعداء الله(13 ) يعني تمام فرائض میں سے مهم ترین فریضہ دو چيز یں ہیں:اپنے دینی بھائیوں کے حقوق کا ادا کرنا اور اللہ کے دشمنوں کے سامنے تقیہ کرنا.اس تعبیر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تقیہ ان دو چیزوں کے درمیان ایک قسم کا رابطہ قائم کرنا ہے . اگر صحیح دقت کریں تو معلوم ہوگا کہ تقیہ کا مسئلہ دوسرے مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرح ایک اجتماعی مسئلہ ہے ……………(1 ). سوره غافر / ۲۸.(2 ) . سوره صافات / ۸۹ ـ ۹۳.(3 ) . سوره يس ۱۴.(4 ) . مكارم شيرازي؛ تقيہ سپري عميقتر براي مبارزه،ص ۳۵.(5 ). سوره غافر ۲۸ ـ ۲۹.(6 ). سوره آلعمران۲۸.(7 ). سوره نحل 106(8 ) . وسائل الشيعه ، ج ۳،باب ۲۸.(9 ). همان ، ج ۲۴ ، باب۲۶.(10 ) . همان ، ج ۶ ، باب۲۴ .(11 ) . همان .(12 ). همان،ج ۱۶، باب ۲۴.(13 ). همان، باب ۲۸، ح ۱.