اعتقادی مبا حث کی اہمیت

148

 
علم عقائدہر علم کی اہمیت اور قدر و قیمت کا دار و مدار اس کے موضوع پہ ہو تا ہے اور تمام علوم کے درمیان علم عقائد کا موضوع سب سے بہتر اور بیش قیمت ہے ۔ہر انسان کی جملہ مادی ومعنوی افکا ر و افعال کی بنیاد در اصل اس کے عقائد ہیں ، اگر وہ صحیح و سالم، قوی اور بے عیب ہو ں تو اس کے اعمال و افکا ر اور مختلف نظریات سبھی صحیح اور شائستہ ہو ں گے ،اسی بنیاد پر فروع دین (جو کہ اسلام کے عملی احکام ہیں ) کی جا نب ہر انسان کی کمی و کیفی توجہ اس بات پر موقوف ہو تی ہے کہ اصول دین کے سلسلہ میں اس کا عقیدہ کس معیار پر کھرا اترتا ہے ۔دوسرے یہ کہ اعتقاد ی مسائل میں خدا شناسی ( معرفت خدا ) کا ایک خاص مقام ہے کیونکہ ایک موحد انسان کے تمام عقائد اور دنیا پر طرز نگاہ کی اصل بنیاد اور نقطۂ مرکزی اس کی خدا شناسی ہے !قال الصادق علیہ السلا م: لو یعلم الناس ما فی فضل معرفة اللّٰہ ما مدوا أعینھم الیٰ ما متع بہ الأعداء من زھرة الحیاة الدنیا و نعیمھا وکا نت دنیاھم ،أقل عندھم مما یطئونہ بأرجلھم (١)اگر لوگ معرفت خدا کی حقیقت سے آگاہ ہوجا تے تو دنیاجس سے دشمنان خدا نے زیادہ استفادہ کیا ہے اس کی رنگینیوں کی جانب کبھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے اور دنیا ان کی نگا ہوں میںپیروں سے روندی ہوئی خاک سے بھی زیادہ کم قیمت ہوتی ۔اس چھوٹے سے مقدمہ کے بعد اصول عقائد کی بحث، خاص طور توحید الٰہی کی اہمیت بالکل روشن اور واضح ہو جا تی ہے، لیکن اس سے پہلے کہ توحید کی بحث شروع کی جائے بہتر یہ ہو گا کہ دین پر اعتقاد رکھنے کے جو فوائد اور نتائج ہیں ان کو بیان کردیا جائے ۔…………..(١)وافی جلد ١٠،ص ٤٢
دینی عقیدے کے آثار١۔ دین، زندگی کو وزنی بناتاہے ،اگر دین کو زندگی سے جدا کرلیں تو کھوکھلاپن اور حیرانی کے سوا کچھ بھی نہیں رہ جائے گا ۔٢۔ دین حیرت و استعجاب کو دور کرتا ہے .یعنی اس حیرانی کو دورکرتاہے کہ کہاں تھے؟ کہا ں ہیں ؟کس لئے ہیں اور کہاں جا ئیں گے ؟مولا امیرالمومنین ں فرماتے ہیں:”رحم اللّہ امرء علم من أین وفی أین و الی أین”خدا رحمت نازل کرے اس شخص پر جو یہ جا نتاہے کہ کہا ں سے آیا ہے ،کہاں ہے اور کہا ں جا نا ہے!٣۔ انسان ذاتی طور پر ترقی اور کمال کا تشنہ اور اس کا فدائی ہو تا ہے اور صرف دین وہ شی ٔہے جو انسان کو حقیقی کمال کی جا نب ہدایت کر سکتا ہے۔امام با قر ںفرماتے ہیں :”الکمال کل الکمال التفقہ فی الدین والصبر علی النائبة و تقدیر المعیشة”تمام کے تمام کمالا ت کا خلاصہ دین میں بصیرت ،مشکلا ت میں صبر اور زندگی میں میانہ روی اختیار کرنا ہے۔(١)٤۔ فکری سکو ن صرف آغوش دین میںہے ،بے دین ہمیشہ مضطرب خائف اورپریشان رہتا ہے ، اگر دنیا کی فیصدی آبادی کو ملا حظہ کیا جا ئے تو ذہنی او ر اعصابی نیز نفسانی بیماریاں ان معاشروں میں زیادہ ہیں جہا ں دین نام کی کسی چیز کا وجود نہیں ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :(الّذینَ آمَنُوا ولم یَلبسُوا اِیمانھِم بظلمٍ اُولئِکَ لَھُم الأمنُ وَ ھُم مُھتَدُونَ)(٢)”جو لوگ ایمان لا ئے او ر ایمان کو ظلم سے آلو دہ نہیں کیا وہ وہی لوگ ہیں جن کے لئے امن و سکو ن ہے اور وہ سالکین راہ ہدایت ہیں ”۔٥۔ کو شش اور امید صرف دامن دین میں ہے جب کبھی حوادث روزگا ر اور زندگی کے پیچیدہ مسائل انسان کی زندگی میں سر اٹھا تے ہیں اور اس کو تمام راہیں مسدود نظر آتی ہیں اور وہ ان مشکلا ت کے سامنے اپنے آپ کو بے بس ،مجبور و کمزور محسوس کرتاہے تو ایسے وقت میں صرف مبداء و معاد، توحید و قیامت پر ایمان ہی وہ…………..(١) منتھی الامال ،کلمات امام باقر(٢) انعام آیة: ٨٢مرکز ہے جو بے تکان اس کی مدد کو دوڑتا ہے اور اس کو قوت عطا کرتا ہے،ایسے وقت میں و ہ ا پنے آپ کو تنہا محسوس نہیں کرتا بلکہ اس با ت کا احساس کرتاہے کہ ایک بہت بڑی طاقت اس کی پشت پناہی کر رہی ہے ۔پھر امید اور حوصلہ کے ساتھ اپنی محنت اور کو شش کو جا ری رکھتا ہے او رسختیوں کا گلا گھونٹ دیتاہے لہٰذا تو حید او رقیامت پر ایمان رکھنا انسان کے لئے پشت پناہ نیز استقامت و جواں مردی کا سر چشمہ ہے ۔نبی اکرم ۖ فرماتے ہیں :”المُؤمنُ کالجبلِ الراسخِ لا تحرّکہ العواصف””مومن اس پہا ڑکی مانند ہے جس کو آندھیاں ہلا بھی نہیں سکتی ہیں ”دین کے فوائد کے با رے میں حضرت علی ںکے چند اقوال :١۔الدین أقویٰ عماد” دین سب سے مستحکم پایگاہ ہے”۔٢۔صیانة المرء علی قدر دیانتہ”انسان کی حفاظت اس کی دیانت داری کی مطابق ہو تی ہے ”۔٣۔الدّین أفضل مطلوب”دین بہترین مطلوب و مقصود ہے ”۔٤۔اجعل دینک کھفک” دین کو اپنی پنا ہ گا ہ قرار دو” ۔٥۔الدّین یصدّ عن المحارم ”انسان کو گنا ہوںسے بچائے رکھتاہے ”۔٦۔سبب الورع صحة الدین دین کی سلا متی پرہیز گاری کا سبب ہے ۔٧۔یسیر الدّین خیر من کثیر الدنیا” تھوڑا سا دین بہت ساری دنیا سے بہتر ہے ”۔٨۔من رزق الدّین فقد رزق خیر الدنیا و الاخرة”جوکوئی بھی دیندار ہو گیا گو یا خیر دنیا و آخرت اس کو عطا کر دی گئی ”۔٩۔الدّین نور”دین نو ر ہے”۔١٠۔نعم القرین الدّین”بہترین ساتھی او ردوست دین ہے”۔ (١)
دین او رمعاشرتی عدالت کی حفاظتکسی نے امام رضا ںسے سوال کیا کہ خدا ، رسول اور امام پر ایمان لانے کا فلسفہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا : لعلل کثیرة منھا ان من لم یقرّ باللّہ عزّو جلّ لم یجتنب معاصیہ ولم ینتہ عن ارتکاب الکبائر ولم یراقب أحداً فیما یشتھی و یستلذّ مِن الفساد والظلم (٢)”ممکن ہے اس کی بہت ساری علتیں ہو ں جن میں سے ایک یہ ہے کہ جو شخص خدا پر ایمان نہیں رکھتا و ہ گنا ہوں سے پر ہیز نہیں کرتا . اور گنا ہان کبیرہ کا مرتکب ہو تا ہے او ر وہ فساد و ظلم جو اس کے لئے باعث لذت ہے اس کو انجام دینے میں کسی بات کی پرواہ نہیں کرتا ”۔یہ بالکل عام سی بات ہے کہ جو شخص خدا و قیامت پر یقین نہیں رکھتا اسی کے…………..(١)تمام احادیث ،غرر ودرر جلد ٧، باب دین،(٢) میزان الحکمة، با ب معرفت ۔
لئے عدالت مساوات ،ایثار، عفو ودر گذشت بلکہ تمام اخلا قی مسا ئل بالکل کھو کھلے بے معنی اور بے قیمت ہیں ۔اور ایسے شخص کی نظر میں عادل ،ظالم ،صالح اور مجرم کے درمیان کو ئی فرق نہیںہے کیونکہ اس کی نظر میں مرنے کے بعد سب ایک مساوی نقطہ پر پہنچیں گے۔لہٰذا پھر کو نسی ایسی چیز ہے جو اس انسان کو فتنہ و فساد اور ہو س رانی سے روک سکے ۔نتیجةًخدا اور قیامت پر ایمان اس بات کا باعث ہو تا ہے کہ انسان اپنے ہر فعل پر خو د کو خدا کے سامنے جو اب دہ و ذمہ دار قرار دے ۔ایک متدین انسان اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ اس کا معمولی سا عمل چاہے نیک ہو یا بد اس کا حساب ضرور ہوگا ۔(فَمَنْ یَعمل مِثقالَ ذَرَّةٍ خَیْراً یَرَہُ وَمَنْ یَعمل مِثقالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَہُ)(١)”جو کو ئی بھی ذرہ برابرنیک عمل کرے گا اس کو( روز محشر) دیکھے گا اور جو ذرہ برابر براعمل انجام دے گا اس کو (روزمحشر ) دیکھے گا ”۔
بیشمار مسلمان دین کے والا مقام تک کیو ں نہیں پہونچ سکے؟گذشتہ بحثوں میں دین پر اعتقادرکھنے کے جو نتائج و فوائدبیان کئے گئے ہیں ان کی روشنی میں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اگر دین زندگی کو قیمتی اور بھاری بھر کم بناتا…………..(١(١) سو رہ زلزال ٧۔٨
انسان کو حیرانی و سر گردانی سے نکا لتانیز انسان کے لئے کمال و سعادت کا باعث ہوتااور اگردین سکو ن قلب کاسبب او رقوم وملت میں عدل وانصاف کے پھیلنے کا باعث ہوتا تو مسلمانو ں کی اکثریت ان مقامات کو کیوں نہ پاسکی ؟اس سوال کا جو اب امیرالمومنین کے کلا م کی روشنی میں ملا حظہ فرمائیں ۔قال علی ”الیمانُ اِقرار باللسان ومعرفة بالقلبِ و عمل بالجو ارح ””ایمان زبان سے اقرار ،دل سے معرفت اور اعضا ء و جوارح سے عمل کرنے کا نام ہے ”۔ اور یہ بات بالکل روز روشن کی مانند واضح ہے کہ مسلمانوں کی اکثرتعداد پہلے مرحلہ سے آگے نہ بڑھ سکی” ۔(١)نتیجہ یہ ہو ا کہ معرفت وعمل کے بغیر صر ف زبانی ایمان کا کو ئی اثراور فائدہ نہیں ہو ا ۔قال الصادق علیہ السلام : لا معرفة الاّ بالعمل فَمَنْ عرف دلتہ المعرفة علیٰ العمل و من لم یعمل فلا معرفة لہ (٢)”معرفت، عمل کے سو ا کچھ بھی نہیں اور جس نے بھی معرفت حاصل کی معرفت نے اسی کو عمل کی راہ پر گا مزن کردیا لہٰذا جو شخص با عمل نہیں وہ با معرفت بھی نہیں ”۔امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس نورانی قول کی روشنی میں یہ با ت ثابت…………..(١) بحا رالانوار جلد ٦٩، ص ٦٨ (٢)اول کا فی .باب جو نادانستہ عمل کرے (حدیث دوم )
ہو جا تی ہے کہ ایمان کے آثار و فوائد اس وقت ظاہر ہوتے ہیں جب ایمان دل کی تہوں میں اترجا ئے اور دل کے توسط سے اعضا ء و جو ارح کے ذریعہ عمل ظہو رپذیر ہو جا ئے ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.