دلائل مشروعيت تقيہ حصہ دوم

125

عقلمعمولاً تقيہ اقلیتوں سے مخصوص ہے جو اکثریت کے پنجوں میں اسیر ہوجاتے ہیں ایسی صورت میں اگر وہ اپنا عقیدہ کا اظہار کرتا ہے تو اس کے لئے جانی یامالی نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا .اور ساتھ ہی اس اقلیت والے گروہ کے ہاں موجود قومی سرمایہ اور طاقت کا ہدر جانے کے علاوہ اسے کچھ نہیں ملتا .کيا عقل نہیں کہتي کہ یہ قومی سرمائے اور طاقت کا اہم ضرورت کے موقعوں کے لئے محفوظ رکھنا ایک عاقلانہ اور اچھا کام ہے ؟ بلکہ عقل کہتی ہے کہ ان طاقتوں کو اپنے عقیدے کوچھپا کر اور کتمان کرکے زخیرہ کیا جائے تاکہ انہیں مناسب فرصت اور مواقع پر بروی کار لایا جائے .مثال کےطورپر: کوہستانی علاقوں اور دیہاتوں میں مختلف جگہوں سے پانی کے چھوٹے چھوٹے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں. اگر ان کو ایک تالاب میں جمع کریں گے تو اس سے بہت بڑے مزرعے کو سیراب کرسکتے ہیں ، لیکن اگر ان کواسی طرح بہنے دیں تو کھیتوں کو سیراب کئے بغیر پانی اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے . اسی لئے زمیندار ان چشموں کے نزدیک تالاب بناتے ہیں تاکہ اس پانی کو جمع کرکے بیج بوتے وقت زمین کو سیراب کر سکے . جب کہ اس سے قبل سارا پانی ہدر جاتا تھا . اسی طرح تقیہ بھی ہے کہ موقع محل پر مؤثر طریقے سے اس طاقت کو استعمال کرنے کیلئے عام موقعوں پر تقیہ کے ذریعے اس طاقت کی حفاظت کرتے ہیں . جو ایک معقول کام ہے اور ایک عاقلانہ فکر ہے .
۱.دفع ضرراور عقل بتاتی ہے کہ دفع ضرر واجب ہے ؛ اور تقیہ ایک ایسی ٹیکنیک ہے کہ جس کے ذریعے انسان جانی یا مالی ضرر کو اپنے سے اور اپنے دوسرے هم فکر افراد سے دفع کر سکتا ہے .اسی لئے فقہاء فرماتے ہیں : فقد قضي العقل بجواز دفع الضرر بہا (بالتقيہ) بل بلزومه و اتفق عليها جميع العقلاء: بل هو امر فطري يسوق الانسان اليه قبل كل شيئ عقله و لبہ و تدعوہ اليه فطرته(1 ) یعنی عقل تقیہ کے ذریعے سے دفع ضرر کو جائز قرار دیتی ہے بلکہ اس کے واجب ہونے پر تمام فقہاء اور عقلاء کا اتفاق ہے .اور اس سے بھی بالا تر یہ ایک فطری بات ہے کہ جو انسان کو اس کی فطرت اور عقل سب سے پہلے تقیہ کے ذریعے اپنی جان اور مال کی حفاظت کرنے پر ابھارتی ہے .اور یہ غریزہ ہر انسان اور حیوان میں پایاجاتا ہے .
۲ـ مہم پر اہم کا مقدم کرنافالعقل السليم يحكم فطريا بانه عند وقوع التزاحم بين الوظيفة الفرديه مع شوكة الاسلام و عزته و قوته او وقوع التزاحم بين الحفظ النفس و بين الواجب او محرم آخر لابد من سقوط الوظيفة الفرديه و ليست التقيہ الا ذالك.(2 )حكم عقل سليم فطرتاً ایسی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے فریضے کی انجام دہی کے موقع پر اسلام کی قدرت ، شان وشوکت اور عزت کے ساتھ مزاحم ہوجاتا ہے . یا اپنی جان بچانے کا وقت آتا ہے تو یہ کسی واجب یا حرام کام کا ترک کرنے یا انجام دینے پر مجبور ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اہم کو انتخاب کرتے ہوئے مہم کو ترک کرنے کا نام تقیہ ہے . اس استدلال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ : ان العقل يري ان احكام الدين انما شرعت لسعادة الانسان في حياته الي الابد، فاذا كانت هذه السعادة و ادانت الاكام متوقفة و الاخفاء عن الاعداء في فترة من الزمن فالفعل يستقل بالحكم بحسن التقية لقديما للاهم علي المهم. (3 )عقل بتاتی ہے کہ احكام دين کو انسان کی ابدی خوش بختی کیلئے تشریع کیا ہے . لیکن اگر یہی خوش بختی اور احکام دین پر عمل کرنا کچھ مدت کیلئے اپنے جانی دشمنوں سے چھپا نے پر مجبور ہو تو عقل، تقیہ کرنے اور اہم کام کو مہم کام پر مقدم کرنے کو ایک اچھا اور مناسب عمل سمجھے گی .اگر ان بیانات کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہے تو یوں کہہ سکتے ہیں :جب بھی انسان یا مکلف دو کاموں کوانجام دینے پر مجبور ہو ؛ لیکن ان دوکاموں میں سے صرف ایک کو فی الحال انجام دی سکتا ہے . اب وہ سوچتا ہے کہ کس کام کو انجام دوں اور کس کام کو چھوڑ دوں؟! اگر وہ عاقل اور سمجھدار ہو تو وہ جس میں مصلحت زیادہ ہوگی اسے انجام دیں گے اور جس کام میں مصلحت کم ہوگی اسے ترک کریں گے . اسی کا نام تقیہ ہے .
د : فطرتاگر صحیح معنوں میں فکر کریں تو معلوم ہوگا کہ تقیہ سراسر عالم حيات کے قانون کی اساس اور بنیاد ہے .اور تمام زندہ موجودات اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان بچانے کے خاطراس اصول سے استفادہ کرتے ہیں .جیسے بحری حیوانات جب احساس خطر کرتے ہیں تو وہ اپنی جان بچانے کے خاطر اپنے جسم پر موجودخاص تھیلیوں سے استفادہ کرتے ہیں کہ جس میں ایک کالے رنگ کا ایک غلیظ مادہ ہوتا ہے جسے وہ اپنے اطراف میں پھیلادیتی ہے جیسے آنسو گیس استعمال کرکے اس جگہے سے دور ہو جاتے ہیں .اسی طرح بہت سے حشرات ہیں جو اپنے جسم کو پر اور بال کے ذریعے اس طرح چھپاتے ہیں کہ بالکل اس شاخ کے رنگ و روپ میں بدل جا تا ہے اور جب تک غور نہ کرے نظر نہیں آتا . بعض جاندار ایسے ہیں جو مختلف موقعوں پر اپنا رنگ بھی اسی محیط کے رنگ و روپ میں تبدیل کرتے رہتے ہیں ، اور اس حيران کن دفاعی سسٹم کے ذریعے جانی دشمن کی نظروں سے اوجھل ہو جاتےہیں، تاکہ اپنی جان بچا سکیں .بعض حیوانات ہیں جو خطرے کی صورت میں اپنے جسم کو بالکل بے حس و حرکت بناتے ہیں تاکہ دشمن کو دھوکه دے سکیں .خلاصہ کلام یہ ہے جو بھی تقیہ کے مسئلے کو شیعوں کا مسئلہ قراردیتے ہوئے اعتراضات کرتے ہیں ، حقیقت ميں وہ تقیہ کے مفہوم اور معنی سے واقف نہیں ہے، یا واقف تو ہیں لیکن شیعوں کو دیگر مکاتب فکر یا سادہ لوح عوام کی نگاہوں میں گرانے کے خاطر اس فطری اور عقلانی اصول یا سسٹم سے انکار کرتے ہیں .ان مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ کا سسٹم تمام مکاتب فکر میں کم و بیش پایا جاتا ہے .لیکن یہ یاد رکھیں کہ ہمیشہ نیک اور صالح افراد کہ جو تعداد کے لحاظ سے تھوڑے ہیں ، ان جنایت کار اور ظالم افراد کہ جو تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہے ، سے تقیہ کرتے آئے ہیں ؛ تاکہ اس ٹیکنک یا سیسٹم کے ذریعے اپنی جان ، مال عزت ، آبرو اور ناموس ، کی حفاظت کرسکیں . (4 )
ه : اجماعجنگي نقشے بھی ہمیشہ مخفیانہ طور پر بنتا ہے کہ جنگجو افراد ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ خود کو دشمن کی نظروں سے چھپائے رکھیں ،اور اپناجنگی سامان اور اسلحے کو میدان جنگ کے گوشہ و کنارميں درخت کے پتوں یا کیچڑوں اور مٹی مل کر چھپا تے هیں ، اسی طرح فوجیوں کی وردیاں بھی کچھ اسطرح سے پہنائے جاتے ہیں کہ میدان جنگ میں آسانی کے ساتھ دشمنوں کی نظروں میں نہ آئے .یا کبھی جنگجو افراد مصنوعی دھوان چھوڑکر دشمن کوغافل گیر کرتے ہیں .یا رات کی تاریکی میں ايک جگه سے دوسري جگه نقل مکاني کرتے ہیں .اسی طرح جاسوس اور اطلاعات والے جب دشمن کے علاقوں میں جاتے ہیں تو وہ اس علاقے کے لوگوں کے لباس اور ماحول اور فرہنگ میں اپنے آپ کو ضم کرتے ہیں . اگر غور کریں تو یہ سب امور تقیہ کے مختلف شکلیں ہیں .جنہیں بروی کار لاتے ہوئے دشمن پر فتح و کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں . (5 )اداری اور دفتری کاموں میں خواہ وہ سیاسی امور ہو یا اقتصادی یا معاشرتی ، مختلف مقاصد کے حصول کیلئے رموز کا استعمال کرنا ، یہ سب اس سسٹم کی مختلف شکلیں ہیں ،جسے کوئی بھی عاقل انسان رد نہیں کرسکتا . بلکہ سب ان کی تائید کریں گے .بلکہ اگر ایسی صورت میں جبکہ دشمن اس کے مقابل میں ہو اور وہ اپنی شجاعت دکھاتے ہوئے آشکار طور پر دشمن کے تیروتلوار یا گولیوں کے زد میں نکلیں تو اس کی عقل پر شک کرنا چاہئے.یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ تقیہ ہر مکتب فکر والوں میں موجود ہے جس کے ذریعے ہی قومی سرمایہ اور عوام کی جان اور مال اور ملکی سالمیت کی حفاظت ممکن ہے ……………(1 ). جعفر سبحاني؛ مع الشيعه الاماميه في عقائدهم، ص ۸۹.(2 ). صادق ، روحاني؛فقه الصادق ،ج۱۱ ، ص۳۹۳.(3 ). محمد علي،صالح المعلم؛ التقيہ في فقه اهل البيت،ج۱، ص۶۶.(4 ). مكارم شيرازي؛ تقيہ سپري عميقتر ، ص۲۲.(5 ). همان ، ص ۱۸.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.