کیا خلاف تقيہ عمل باطل ہے ؟
شيخ انصاري(رہ) فرماتے هيں : اگر تقیہ کی مخالفت کرے جہان تقیہ کرنا واجب ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ بعض ترک شدہ عمل اس میں انجام پائے گا . تو حق یہ ہے کہ خود تقیہ کا ترک کرنا بذات خود عقاب کا موجب ہو گا . کیونکہ مولی کے حکم کی تعمیل نہ کرنا گناہ ہے .پس قاعدہ کا تقاضا یہ ہے کہ یہ فعل بھی باطل ہوگا . بالفاظ دیگر ہم ادلہ کے تابع ہیں اور موارد تقیہ میں ہیں . اس کے بعد شیخ ایک توہم ایجاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شارع اقدس نے تقیہ کی صورت میں اسی فعل کا انجام دینے کا حکم یا ہے .لیکن یہ توہم صحیح نہیں ہے کیونکہ تقیہ کے ساتھ قید ایک بيروني قید ہے جس کا کوئی اعتبارنہیں ہے .اور نہ هي شرعی قید بطلان کا موجب ہے . (1 )امام خميني(رہ) اس عنوان «ان ترك التقية هل يفسد العمل ام لا؟» کے تحت فرماتے ہیں کہ اگر تقيہ کے برخلاف عمل کریں تو صحيح ہے ، کیونکہ تقیہ کا حکم ہونا موجب نہیں بنتا کہ عمل سے بھی روکا گیا ہو .علم اصول میں ایک قاعدہ ہے: انّ الامر بالشيئ لا يقتضي النهي عن ضدّه سرايت نہیں کرتا.امام خميني(رہ) کے مطابق یہ ہے کہ چونکہ ایک عنوان سے روکا گيا هے اور دوسرے عناوین میں بطور مطلق تقیہ کے خلاف عمل کرنا صحیح ہے . (2 )
وہ موارد جہاں تقيہ حرام ہےتقیہ عموما ً دو گروہ کے درمیان مورد بحث قرار پاتا ہے اور یہ دونوں کسی نہ کسی طرح صحیح راستے سے ہٹ چکے هوتے ہیں .اور اپنے لئے اور دوسروں کے لئے درد سر بنے هوتے ہیں:پہلا گروہ :وہ مؤمنین جو ترسو اور ڈرپوک ہیں اور وہ لوگ کوئی معلومات نہیں رکھتے، دوسرے لفظوں میں انہیں مصلحت اندیشی والے کہے جاتے ہیں کہ جہاں بھی اظہار حق کو ذاتی مفاد اور منافع کے خلاف دیکھتے ہیں یا حق بات کا اظہار کرنے کی جرأت نہیں ہوتي، تو فوراً تقیہ کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ: التقية ديني و دين آبائي لا دين لمن لاتقية له.یعنی تقیہ میرا اور میرے آباء و اجداد کا دین ہے ، جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں ہے .اس طرح دین اور مذہب کا حقیقی چہرہ مسخ کرتے ہیں .دوسرا گروہ: نادان یا دانا دشمن ہے جو اپنے مفاد کے خاطر اس قرآنی دستور یعنی تقیہ کےمفہوم کو مسخ کرکے بطور کلی آئین اسلام یا مذہب حقہ کو بدنام کرنے کی کوشش ميں لگا رهتا ہے .يه لوگ تقيہ کے مفہوم میں تحریف کرکے جھوٹ ،ترس،خوف ، ضعیف ، مسئولیت سے دوری اختیار کرنا، …کا معنی کرتے ہیں . سرانجام اس کا یہ ہے کہ و ہ اپني ذمه داري کو نبھانے سے دوري اختیار کرتے ہیں ،ان دونوں گروہ کي غلطي دور کرنے کیلئے کافی ہے کہ دو موضوع کی طرف توجہ کریں .
۱. تقيہ کامفهوممفهوم تقيہ کے بارے میں پہلے بحث کرچکے ہیں ، کہ تقیہ کامعنی خاص مذہبی عقیدہ کا چھپانا اور کتمان کرنا ہے . اور وسیع تر مفہوم یہ ہے ہر قسم کے عقیدہ ، فکر ، نقشہ، یا پروگرام کااظهار نه کرنا ،تقیہ کہلاتا ہے .
۲. تقيہ کاحكمہمارے فقهاء اور مجتہدین نے اسلامی مدارک اور منابع سے استفاده کرتے ہوئے تقیہ کو تین دستوں میں تقسیم کئے ہیں : ۱ـ حرام تقيہ ۲ـ واجب تقيہ ۳جائز تقيہ.اور کبھی اسے پانچ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں : یعنی مکروہ اور مباح کو بھی شامل کرتے ہیں .لہذا یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ تقیہ نہ ہر جگہ واجب ہے اور نہ ہرجگہ حرام یا مکروہ ، بلکہ بعض جگہوں پر واجب ،و مستحب اور بعض جگہوں پر حرام یا مکروہ هے.اسي لئے اگر کسی نے حرام مورد میں تقیہ کیا تو گویا اس نے گناہ کیا .
تحريم تقيہ کےموارد اور اس کا فلسفہكلي طورپر جب بھی تقیہ کر کے محفوظ کئے جانے والا ہدف کے علاوہ کوئی اور ہدف جو زیادہ مہمتر ہو ، خطرے میں پڑ جائے تو اس وقت تقیہ کا دائرہ توڑنا واجب ہے ، چوں کہ تقیہ کا صحیح مفہوم ؛ قانون اہم اور مہم کے شاخوں میں سے ایک شاخ ہے جب یہ دونوں ہدف آپس میں ٹکرا جائیں تو اہم کو لیتے ہیں اور مہم کو اس پر فدا کيا جاتا ہے.یہی اهم اور مهم کا قانون کبھی تقيہ کو واجب قرار دیتا ہے اور کبھی حرام. روایات کي روشني میں بعض موارد ميں تقیہ کرنا حرام ہے ، درج ذیل ہیں:
۱. جہاں حق خطر ے میں پڑ جائےجہاں اپنے عقیدے کو چھپانا مفاسد کا پرچار اور کفر اور بے ایمانی یا ظلم وجور میں اضافہ اور اسلامی ستونوں میں تزلزل اور لوگوں کا گمراہی اور شعائریا احکام اسلامی کا پامال ہو نے کا سبب بنے تو وہاں تقیہ کرنا حرام ہے . لہذا ایسے مواقع پر اگر ہم کہیں کہ تقیہ مباح ہے تو یہ بھی بہت بڑی غلطی ہوگی . اور اس قسم کا تقيہ « ويران گر تقيہ » کہلائے گا .پس وہ تقیہ مجاز یا واجب ہے جو مثبت اورمفيد ہو اور اہداف کے حصول کی راہ میں رکاوٹ کا سبب نہ ہو.
۲.جہاں خون خرابہ کا باعث ہوجہان خون ریزی ہو اور بے گناہ لوگوں کی جان مال کو خطرہ ہو تو وہاں تقیہ کرنا حرام ہے . جیسا کہ اگر کوئی مجھ سے کہہ دے کہ اگر فلانی کو تم قتل نہ کرو تو تجھے قتل کروں گا. تو اس صورت میں مجھے حق نہیں پہنچتا کہ میں اس شخص کو قتل کروں . اگرچہ مجھے یقین ہوجائے کہ میری جان خطرے میں ہے .ایسی صورت میں اگر کوئی کہہ دے کہ ہمارے پاس روایت ہےکہ (المأمور معذور ). لہذا اگر میں فلانی کو قتل کروں تو کوئی گناہ نہیں ہے .اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معروف جملہ «المامور معذور» سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ اس کی اصلی سند « شمر» تک پہنچتی ہے .(3 ) اسے کوئی عاقل اور شعور رکھنے والا قبول نہیں کرسکتا.کیونکہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی جان بچانے کے خاطر کسی دوسرے بے گناہ کی جان لے لے . اور اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ قاتل ہوگا . چنانچه امام محمد باقر(ع) فرماتے ہیں : انّما جعل التقية ليحقن بہا الدم فاذا بلغ الدم فليس التقية(4 ) يعني تقيہ شریعت میں اس لئے جائز قرار دیا ہے کہ قومی اور انفرادی قدرت ہدر نہ جائے ، اپنے اور دوسروں کے خون محفوظ رہے . اور اگر خون ریزی شروع ہوجائے تو تقیه جائز نہیں ہے .
۳. وہ موارد جہاں واضح دليل موجود ہووہ موارد جہاں واضح طور پرعقلی اور منطقی دلائل موجود ہو،جیسے اسلام میں شراب نوشی کی ممانعت هے يهاں تقيہ کرکے شراب پينے کي اجازت نهيں هے .اور تقیہ حرام ہے یہاں عقیدہ چھپانے کے بجائے عقلی اور منطقی دلائل سے استدلال کریں .اور ایسا حال پیدا کریں کہ مد مقابل کو یقین ہوجائے کہ یہ حکم قطعی ہےاور اس کا اجراء کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے .لیکن کبھی بعض ڈرپوک اور بزدل لوگ جب شرابیوں کے محفلوں میں پہنچ جاتے ہیں تو وہ بجائے اعتراض کرنے کے ، ان کے ساتھ ہم پیالہ ہو جاتے ہیں . یا اگر نہیں پیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ شراب میرے مزاج کیلئے مناسب نہیں ہے .لیکن یہ دونوں صورتوں میں مجرم اور خطاکار ہیں.یا صراحت کے ساتھ کهه ديں کہ ہم مسلمان ہیں اس لئے شراب نہیں پیتے .اسی طرح اجتماعی ، معاشرتی اور سیاسی وظيفے کی انجام دہی کے موقع پر بھی دو ٹوک جواب دینا چاہئے .
۴. شارع اور متشرعين کے نزدیک زیادہ اہميت والے مواردبعض واجبات اور محرمات جو شارع اور متشرعین کے نزدیک زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ، وہاں تقیہ جائز نہیں ہے .جیسے اگر کوئی خانہ کعبہ کی بے حرمتی یا انہدام کرنے کی کوشش کرے یا اسی طرح اور دینی مراکز جیسے مسجد ، ائمہ کے قبور کی بے حرمتی کرے تو وہان خاموش رہنا جرم ہے ، اسی طرح گناہان کبیرہ کے ارتکاب پر مجبور کرے تو بھی انکار کرنا چاہئے ……………(1 ). همان ، ص ۲۴.(2 ). ہمان(3 ). مكارم شيرازي؛ تقيہ مبارزه عميقتر،ص ۷۱.(4 ) . شيخ اعظم انصاري؛ مكاسب، ج ۲، ص ۹۸.