غدیرکے ذریعہ اتمام حجت
۱۔ابن عباس کے جلسہ میں جناب ابوذر نے کھڑے هو کر عرض کیا :میں جندب بن جنادہ ابوذر غفاری هوں ۔میں تم کو خدا اور اس کے رسول کے حق کی قسم دے کر سوال کرتا هوں :کیا تم نے پیغمبر اکرم (ص)کا یہ فرمان سنا ھے: زمین وآسمان میں ابوذر سب سے سچے ھیں ؟سب نے کھا : ھاں جناب ابوذ رۺ ۻنے کھا : کیا تم اس بات کو قبول کرتے هو کہ پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم کے میدان میں ھم سب کو جمع کر کے فرمایا : “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔؟سب نے کھا :ھاں ،خدا کی قسم ۔ [76]
۲۔غدیر کے ذریعہ جناب عماریاسر کا اتمام حجت کرناجنگ صفین میں عمار یاسر اور عمرو عاص کے مابین مناظرہ هوا اور کچھ مطالب ردوبدل هوئےمنجملہ جناب عما ر ۺنے کھا :اے ابتر ،کیا تجھ کو پیغمبر اکرم(ص) کا یہ فرمان “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”یاد ھے ؟اس بنا پر میرے مو لا و صاحب اختیار خدا وند عالم اس کا رسول (ص)اور ان کے بعد حضرت علی علیہ السلام ھیں لیکن تیرا کو ئی مو لااور صاحب اختیار نھیں ھے !![77]
۳۔غدیر کے ذریعہ مالک بن نویرہ کا اتمام حجت کرناقبیلہٴ بنی حنیفہ کے سردار مالک بن نویرہ مدینہ کے نزدیک کے رہنے والے غدیر خم میں مو جود تھے۔ آپ (مالک بن نویرہ )پیغمبر کی رحلت کے بعد مدینہ آئے اور تعجب سے ابوبکر کو پیغمبر اکرم(ص) کے منبر پر دیکھا تو اس سے مخا طب هو کر کھا :”اے ابو بکر کیا تم نے غدیر خم کے دن حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کو بھلا دیا ھے ؟یہ منبر تمھاری جگہ نھیں ھے جس پر تم بیٹھ کر خطاب کر رھے هو “!یہ کہہ کر آپ اپنے قبیلہ میں واپس پلٹ آئے ۔ابو بکر نے مالک سے انتقام کی خا طر خالد بن ولید کو لشکر کے ساتھ روانہ کیا تو لشکر نے مالک بن نویرہ اور ان کے اصحاب کو قتل کر دیا اور ان کی عورتو ں کو اسیر کر کے مدینہ لے آئے !امیر المو منین علیہ السلام نے اس سلسلہ میں اھل سقیفہ سے مقابلہ کیا۔[78]
۴۔غدیر کے ذریعہ حذیفہ بن یمان ۺکا اتمام حجت کرنا۱۔حذیفہ غدیر خم میں حاضر تھے اور ان افراد میں سے تھے جنھو ں نے خطبہٴ غدیر کے کامل اور مفصل متن کو حفظ کیا اور وھاں پر غیر مو جود افراد تک پہنچایا ۔[79]۲۔ایک مو قع پر حذیفہ ۺداستان غدیر کو اس طرح نقل کر تے ھیں :خدا کی قسم میں غدیر خم میں رسول خدا(ص) کے سامنے بیٹھا هوا تھا اور مھا جرین و انصار اس مجلس میں مو جود تھے ۔رسول اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے دائیں طرف کھڑے هو نے کا حکم دیا اس کے بعد فر مایا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”[80]۳۔جناب حذیفہ قتل عثمان کے بعد حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی ظاھری حکو مت کے دور میں شھر مدائن کے گور نر تھے ۔آپ نے لوگوں سے امیر المو منین علیہ السلام کےلئے بیعت لینے کی خاطر منبر پر جا کر اس طرح خطبہ دیا : اس وقت تمھا را حقیقی صاحب اختیار امیر المو منین اور وہ ھے جو اس نام کا حقیقت میں حق دار ھے “!بیعت کا پروگرام تمام هو جا نے کے بعدایران کے ایک مسلم نامی جوان نے جناب حذیفہ کے پاس آکر سوال کیا آپ نے جو یہ “امیرالمو منین حقیقی “کھکر اس سے پھلے خلفاء کی طرف اشارہ کیا ھے ۔اگر پھلے تین خلفا ء حقیقی نھیں تھے تو اس مطلب کی میرے لئے وضاحت کیجئے !جناب حذیفہ ۺنے اس کےلئے تاریخ کے مفصل مطالب بیان کئے یھاں تک کہ غدیر کے واقعہ تک پہنچ گئے آپ نے واقعہٴ غدیر کو مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کیا کہ کسی روایت میں اتنی تفصیل کے ساتھ بیان نھیں هوا ھے ۔آپ نے غدیر کے اصلی حصہ کو اس طرح بیان کیا :پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم کے میدان میں بلند آواز سے علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان فر مایا اور ان کی اطاعت لوگوں پر واجب فرمائی ۔۔۔اور فرمایا : “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”۔اس کے بعد سب کو حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کر نے کا حکم دیا ،اور سب نے آپ(ع) کی بیعت کی ۔[81]
۵۔غدیرکے ذریعہ بلال حبشی کا اتمام حجت کرناحضرت رسول اکرم(ص) کے موٴذن جناب بلال ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے ابو بکر کی بیعت نھیں کی تھی ،حالانکہ ابو بکر نے ھی اپنے پیسوں سے جناب بلال کو غلامی سے نجات دلا ئی تھی اور آپ (بلال)کو آزاد کر دیا تھا ۔ایک دن عمر نے جناب بلال کا گریبان پکڑ کر کھا :کیا ابو بکر کی تجھے آزاد کرانے کی یھی جزا ھے ؛کیا اب بھی تم ان(ابوبکر )کی بیعت نھیں کروگے ؟جناب بلال نے کھا :اگر اس نے مجھے خدا کےلئے آزاد کرا یا تھا توخدا کے لئے مجھے میرے حال پر چھوڑدے ،اور اگر غیر خدا کے لئے آزاد کرایا تھا تو تمھاری بات پر عمل کرنا چا ہئے !!لیکن رھا ابو بکر کی بیعت کر نے کا مسئلہ ،تو جس شخص کو پیغمبر اسلام(ص) نے خلیفہ مقررنھیں فرمایا اور اس کو مقدم نھیں رکھا تو میں اس کی بیعت نھیں کرونگا ۔۔۔اے عمر تم اچھی طرح جا نتے هو کہ پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے چچا زاد بھائی کے لئے عھد لیا اور قیامت کے دن تک کے لئے ھما ری گردنوں پر ان کو غدیر خم کے میدان میں ھمارا مو لا و صاحب اختیار قرار دیا ۔کس شخص میں ھمت هو سکتی ھے کہ وہ اپنا صاحب اختیار رکھتے هو ئے کسی دوسرے کی بیعت کرے ؟!اس کے بعد ان لوگوں نے جناب بلال کو مدینہ سے باھر جا کر کسی دوسری جگہ زند گی بسر کرنے پر مجبور کیا [82]
۶۔ غدیرکے ذریعہ اصبغ بن نباتہ کااتمام حجت کرناجنگ صفین میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے اصبغ بن نباتہ کے ذریعہ معاویہ کےلئے ایک خط ارسال فرمایا ۔اصبغ بن نباتہ نے معاویہ کے پھلو میں بیٹھے هو ئے ابو ھریرہ سے خطاب کرتے هو ئے فرمایا :میں تجھ کو خدا کی قسم دیتا هوں۔۔۔ کیا تم غدیر خم میں حا ضر تھے ؟ابو ھریرہ نے کھا :ھاں ۔اصبغ بن نباتہ نے سوال کیا :پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں کیا فرمایاتھا ؟ ابو ھریرہ نے کھا :میں نے رسول اسلام(ص) کو یہ فرماتے سنا ھے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔،اللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ”۔اصبغ نے کھا :اگر ایسا ھے تو تم نے ان کے دشمن کی ولایت تسلیم کی اور ان سے دشمنی کی ھے !!ابوھریرہ نے ایک گھری سانس لی اور کھا :اِنَّاللہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔[83]
۷۔غدیر کے ذریعہ ابو الھیثم بن تیھان کا اتمام حجت کرنابارہ آدمیوں نے حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام کی اجازت سے جمعہ کے دن ابوبکر کے منبر کے سامنے کھڑھے هو کر اس پر اعتراض کرنے اور اتمام حجت کے عنوان سے مطالب بیان کرنے کا ارادہ کیا ۔ان میں سے ایک ابو الھیثم بن تیّھان تھے جنھوں نے اپنی جگہ پر کھڑے هو کر کھا :میں گوا ھی دیتا هوں کہ پیغمبر اسلام (ص)نے غدیر خم کے دن حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ و جا نشین مقرر فرمایا انصار کے ایک گروہ نے رسول خدا(ص) کی خدمت با برکت میں ایک شخص کو “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔‘ کے مطلب کے سلسلہ میں سوال کرنے کی غرض سے بھیجا ۔تو آنحضرت (ص) نے فرمایا ان سے کہنا کہ:علی علیہ السلام میرے بعد مو منوں کے صاحب اختیار اور میری امت کےلئے سب سے زیادہ ھمدردو خیرخواہ ھیں ۔[84]
۸۔غدیر کے ذریعہ ابو ایوب انصاری کا اتمام حجت کرناایک مسافر نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حاضر هوکر عرض کیا: اے میرے مولا اور صاحب اختیار آپ پر میرا سلام!حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا یہ کو ن ھے ؟تو عرض کیا گیا :یہ ابو ایوب انصاری ھیں ۔آپ(ع) نے فرمایا : اس کے راستہ سے ہٹ جا وٴ !لوگ راستہ سے ہٹے اور انھوں نے آگے آکر عرض کیا :میں نے پیغمبر اسلام(ص) کو یہ فرماتے سنا ھے : “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔،[85]
۹۔غدیر کے ذریعہ قیس بن سعد بن عبادہ کا ااتمام حجت کرنا۱۔ قیس اور ان کے باپ جوانصار کے سردار اور ابو بکر کے مخالف تھے ۔ایک دن ابو بکر نے قیس سے کھا :خدا کی قسم تم وہ کام انجام نھیں دو گے جس سے تمھا رے امام اور دوست ابو الحسن علیھما السلام نا راض هو تے هوں ۔قیس نے غضبناک هوکر کھا :اے ابو قحافہ کے بیٹے ،۔۔۔خدا کی قسم اگر چہ میرے ھاتھوں نے تیری بیعت کر لی ھے لیکن میرے دل اور زبان نے تو تیری بیعت نھیں کی ھے ۔حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں میرے لئے غدیر سے بلند و بالا کو ئی حجت نھیں ھے۔ھم کو ھمارے حال پر چھوڑ دے کہ ھم تیرے راستہ میں اندھے هوکر غرق هو جا ئیں اور تیرے سلسلہ میں گمرا ھی میں مبتلاهو جا ئیں حالانکہ ھمیں معلوم هو کہ ھم نے حق کا راستہ چھوڑ دیا ھے اور با طل کے راستہ کو اپنا لیا ھے!![86]۲۔حضرت امام مجتبیٰ علیہ السلام سے صلح هو جا نے کے بعد معاویہ سفر حج کے ارادے سے مدینہ پہنچا تو انصار نے اس کی کو ئی پروا نہ کی تومعاویہ نے اس سلسلہ میں قیس سے اعتراض کیا ۔ قیس نے اس کے جواب میں امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام کے فضائل اور ان کی مظلومیت کی یاد دلا ئی تو معاویہ نے سوال کیا :ان مطالب کی آپ کو کس نے تعلیم دی ھے ؟ قیس نے کھا : امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام سے تعلیم حاصل کی ھے ۔۔۔جب پیغمبر اکرم(ص) نے ان (علی علیہ السلام)کو غدیر خم کے میدان میں اپنا خلیفہ و جانشین بناکر فرمایا: “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”[87]
۱۰۔غدیر کے ذریعہ ابو سعید خدری ۺکا اتمام حجت کرنا۱۔ابو سعید خدری ان افراد میں سے ھیں جنھوں نے واقعہٴ غدیر کو مفصل طور پر نقل کیا ھے انھوں نے اپنی گفتگو کے ایک حصہ میں اس طرح کھا ھے :پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے روز لوگوں کو دعوت دی ۔۔۔حضرت علی علیہ السلام کے بازو پکڑ کر بلند کئے ۔۔۔اور فرمایا : “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہ۔۔”۔اس کے بعد آیہ ٴ :اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ ۔۔۔>نازل هو ئی ۔اس کے بعد حسان بن ثابت نے اشعار پڑھے ۔[88]۲۔عبد اللہ بن علقمہ وہ شخص تھا جو بنی امیہ کے پروپگنڈے سے بہت متاٴ ثر تھااور امیر المو منین علیہ السلام کو نا سزا الفاظ کہتا تھا ۔ایک دن ابو سعید خدری سے اس نے پوچھا :کیا تم نے حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں کو ئی منقبت سنی ھے ؟ابو سعید نے کھا :پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے روز ان کے سلسلہ میں تبلیغ کامل فر مائی اور ۔۔۔اور ان کے دونوں ھاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا : “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”اورآپ نے اس جملہ کی تین مرتبہ تکرارفرمائی۔عبد اللہ بن علقمہ نے تعجب سے سوال کیا :کیا تم نے پیغمبر اسلام (ص) کے اس فرمان کو خود سنا ھے ؟ابو سعید نے اپنے کانوں اور سینہ کی طرف اشارہ کرتے هو ئے کھا :پیغمبر اکرم(ص) کے اس فرمان کو میرے دونوں کا نوں نے سنا ھے اور میرے دل نے اس کو اپنے اندر جگہ دی ھے ۔اسی مقام پر عبد اللہ نے کھا :میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنے نا سزا الفاظ کہنے سے استغفار اور توبہ کرتا هوں ۔[89]
۱۱۔غدیر کے ذریعہ اُبیّ بن کعب کا اتمام حجت کرنامعروف صحابی ابی بن کعب نماز جمعہ میں ابو بکر پر اعتراض کے عنوان سے کھڑے هو گئے اور لوگوں سے مخاطب هوکر کہنے لگے :اے مھا جرین و انصار کیا تم نے خود کو فراموشی میں ڈالدیا ھے یا تم کو بفراموش کردیا گیا ھے یا تم تحریف کا قصد رکھتے هو یا حقیقتوں میں رد و بدل کرتے هو یا ذلیل و خوار کرنے کا قصد رکھتے هو یا عاجز هو گئے هو ؟!کیا تمھیں نھیں معلوم کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ایک اھم مو قع پر قیام فرمایا اور حضرت علی علیہ السلام کو ھمارا مو لا وآقا بنا کر فرمایا : “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”[90]
۱۲۔غدیر کے ذریعہ جابر بن عبد اللہ انصاری کا اتمام حجت کرنا۱۔جناب جابر غدیر کا واقعہ اس طرح نقل کرتے ھیں :خداوند عالم نے پیغمبر اکرم(ص) کوحکم دیا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کا خلیفہ و امام معین فر ما دیں اور لوگوں کو ان (علی (ع) )کی ولایت کی خبر دیدیں ۔اس حکم کے بعد حضرت رسول اکرم(ص) نے غدیر خم کے میدان میں تشریف فر ماکر حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان فر مایا ۔[91]۲۔حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام کی موجود گی میں ایک عراقی نے جناب جابر کے گھر میں داخل هوکر کھا :اے جا بر میں تم کو خدا کی قسم دیتا هوں جو کچھ تم نے پیغمبر اسلام (ص)سے دیکھا اور سنا ھے وہ میرے لئے بیان کریں۔جناب جابر نے کھا :ھم جحفہ کے علاقہ میں غدیر خم کے میدان میں تھے اور وھاںپر مختلف قبیلوں کے کثیر تعداد میں لوگ مو جود تھے تو آنحضرت (ص) اپنے خیمہ سے باھر تشریف لائے ،آپ نے اپنے دست مبارک سے تین مرتبہ اشارہ فر مایا اور حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے ھاتھ کو اپنے ھاتھ میں لیکر فر مایا : “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”[92]
۱۳۔غدیر کے ذریعہ زید بن صوحان کا اتمام حجت کرنازید پیغمبر اسلام(ص) کے بہترین اصحاب میں سے تھے جو جنگ جمل میں شھید هو ئے تھے جب وہ میدان جنگ میں زمین پر گرے تو حضرت امیرالمو منین علیہ السلام ان کے سرھانے تشریف لے گئے اور فرمایا :اے زید خدا تم پر اپنی رحمت نازل فرمائے ۔تم سبک بار تھے یقیناتمھاری مدد بہت اھمیت کی حا مل تھی زید نے اپنے سر کو امیر المو منین علیہ السلام کی طرف بلند کر تے هو ئے عرض کیا :۔۔۔خدا کی قسم میں آپ(ع) کے لشکر میں جھالت کی حالت میں قتل نھیں هونگا ،بلکہ میں نے رسول اسلا م(ص) کی زوجہ ام سلمہ کو یہ کہتے سنا ھے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے فر مایا تھا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔،اللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ”۔خدا کی قسم میںنے ھر گز آپ کو خوار کرنا نھیں چاھاچونکہ میں نے یہ دیکھا کہ اگر میں آپ(ع) کو خوار کروں تو خدا مجھ کو ذلیل و خوار کرے گا ۔ [93]
۱۴۔غدیر کے ذریعہ حذیفہ بن اسید غفاری ۺکا اتمام حجت کرناحذیفہ بن اسید واقعہٴ غدیر کو اس طرح نقل کر تے ھیں :پیغمبر اسلام(ص) نے حجة الوداع سے واپس پلٹتے وقت فرمایا :خداوند عالم میرا صاحب اختیار ھے اور میں ھر مسلمان کا صاحب اختیار هوں اور میں مومنین کے نفوس پرخود ان کی نسبت زیادہ اختیار رکھتا هوں ۔آگاہ هو جاوٴ !”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “[94]
۱۵۔غدیر کے ذریعہ عبد اللہ بن جعفرکا اتمام حجت کرنامعاویہ اپنی حکومت کے پھلے سال مدینہ آیا اور اس نے وھاں پر ایک جلسہ کیا جس میں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیھما السلام ،عبد اللہ بن جعفر ،ابن عباس اور دوسرے افراد کو دعوت دی ۔اس جلسہ میں معا ویہ کے خلاف بہت زیادہ آوازیں بلند هوئیںمنجملہ جناب عبد اللہ بن جعفر نے کھا :”اے معا ویہ ،پیغمبر اکرم(ص) منبر پر تشریف فرما تھے اور میں ،عمربن ابی سلمہ ،اسامہ بن زید،سعد بن ابی وقاص ، سلمان ،ابوذر ، مقداد، اور زبیر آنحضرت (ص) کے سامنے بیٹھے هو ئے تھے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا : کیا میں مو منوں کے نفوس پر خود ان کی نسبت زیادہ اختیار نھیں رکھتا؟ ھم سب نے عرض کیا : ھاں (کیوں نھیں ) یا رسول اللہ ۔تب آنحضرت (ص) نے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “۔معاویہ نے اس سلسلہ میں حضرت امام حسن اور امام حسین علیھما لسلام اور ابن عباس سے سوال کیا تو ابن عباس نے کھا :تو جوکچھ کہہ رھا ھے اس پر ایمان کیوں نھیں لاتا ۔اب جن اشخاص کے اس نے نام لئے ھیںان کو بلاکر ان سے سوال کر ۔معاویہ نے عمر بن ابی سلمہ اور اسامہ کو بلا بھیجا اور ان سے سوال کیا انھوںنے گواھی دی کہ جو کچھ عبد اللہ نے کھا ھے وہ با لکل صحیح ھے اور ھم نے اسی طرح پیغمبرا سلام(ص) کو فر ماتے سنا ھے ۔[95]
۱۶۔غدیر کے ذریعہ ابن عباس کا اتمام حجت کرنا۱۔مدینہ میں معاویہ کی اسی نشست میں ابن عباس نے معا ویہ پر احتجاج کر تے هو ئے کھا: پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم میں لوگوں میں سب سے افضل ،ان میں سب سے سزاواراور ان میں سب سے بہترین شخص کو امت کےلئے منصوب فرمایا اور حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ اس امت پر حجت تمام فرمائی اور ان کو حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔۔۔اور ان کو با خبر فرمایا کہ جس کا صاحب اختیار پیغمبر اکرم(ص) ھے علی علیہ السلا م بھی اس کا صاحب اختیار ھے ۔(اور ایک روایت میں آیا ھے اے معا ویہ کیا تجھ کو اس بات پر تعجب ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم کے میدان میں اور دوسرے متعدد مقامات پر امامو ں کے نا م بیان فر مائے ، ان (لوگوں) پرحجت تمام کی اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم صادر فر مایا ۔[96]۲۔ابن عباس نے ایک مقام پر غدیر کو اس طرح نقل کیا ھے :خداوند عالم نے پیغمبر اکرم(ص) کو حکم دیا کہ آپ حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کا امام معین فر ما دیں اور ان کو ان(علی (ع) ) کی ولایت کی خبر سے آگاہ فر ما دیں ۔اسی لئے آنحضرت (ص) نے غدیر خم کے میدان میں آپ(ع) کی ولایت کا اعلان کرنے کے لئے قیام فر مایا ۔[97]۳۔ایک دوسرے مقام پر ابن عباس واقعہ غدیر کو یوں نقل کرتے ھیں :پیغمبر اکر م(ص) نے لوگوں کے حضور میں حضرت علی علیہ السلام کے بازو پکڑ کر فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔” اس کے بعد ابن عباس نے کھا : خدا کی قسم اس اقدام سے لوگوں پر حضرت علی علیہ السلام کی بیعت واجب هو ئی ۔[98]
۱۷۔غدیر کے ذریعہ اسامہ بن زید کا اتمام حجت کرناپیغمبر اسلام(ص) کے سن مبارک کے آخری ایام میں اسامہ نے آنحضرت (ص)کے کمانڈر کے عنوان سے ایک فوج تیار کی اور رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے حرکت کی ۔اسی دوران ابوبکر نے خلافت غصب کرلی اور اس نے اسامہ کو ایک خط تحریر کیا جس میں اسامہ کو اپنی بیعت کرنے کی دعوت دی، اسامہ نے خط کا جواب اس طرح تحریر کیا :۔۔۔تم حق کو صاحب حق تک واپس پہنچا نے کی فکر کرو اور ان کے حوالہ کردو اس لئے کہ وہ تم سے کھیں زیادہ سزاوار ھیں ۔تمھیں اچھی طرح معلوم ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کےلئے کیا فر ما یا ھے اتنا زیادہ عرصہ بھی تو نھیں هوا جو تم بھول گئے هو![99]
۱۸۔غدیر کے ذریعہ محمد بن عبد اللہ حِمیَری کا اتمام حجت کرناایک دن معاویہ کے پاس تین شاعر موجود تھے جن میں سے ایک محمد حمیری تھے ۔معاویہ نے سونے کی ایک تھیلی باھر نکالتے هو ئے کھا :میں تم میں سے یہ تھیلی اس شخص کو دونگا جو حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں حق کے علاوہ اور کچھ نہ کھے دو شاعروں نے اٹھ کر حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نا سزا اشعار پڑھے ۔اس کے بعد محمد بن عبد اللہ حمیری نے اٹھ کر امیر المو منین علی علیہ السلام کی مدح میں اشعار پڑھے جس کی ایک بیت غدیر خم سے متعلق تھی :تَنَاسُوْا نَصْبَہُ فِیْ یَوْمِ خُمٌّ مِنَ الْبَارِیْ وَمِنْ خَیْرِالاَنَامِیعنی :غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ وامام و جانشین رسول معین هو نے کو بھلا دیا جو خدا وند عالم اور لوگوں میں سب سے بہترین شخص کے ذریعہ منصوب هوئے تھے !معاویہ نے کھا :تم نے ان سب میں سب سے صحیح اور سچ کھا !!یہ مال وزر کی تھیلی تم لے لو![100]
۱۹۔غدیر کے ذریعہ عمرو بن میمون اودی کا اتمام حجت کرناعمرو بن میمون اودی کہتے تھے :حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی نسبت بد گوئی کرنے والے جہنم کی لکڑیاں ھیں ۔میں نے پیغمبر اکرم(ص) کے بعض اصحاب کہ یہ کہتے سنا ھے کہ حضرت علی بن ابی طالب کو وہ صفات عطا کئے گئے ھیں جو کسی اور کو نھیں دئے گئے ھیں ۔منجملہ یہ کہ وہ صاحب غدیر خم ھیں پیغمبر اکرم(ص) نے صاف طور پر ان کے نام کا اعلان فر مایا ،ان کی ولایت کو امت پر واجب قرار دیا ،ان کے بلند و بالا مقام کا تعارف کرایا ، ان کی منزلت کو روشن کیا ۔۔۔اور فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “[101]
۲۰۔غدیر کے ذریعہ بَرد ھمدانی کا اتمام حجت کرناقبیلہٴ ھمدان کا ایک (بَرد )نامی شخص معاویہ کے پاس آیاحالانکہ عمرو عاص امیر المو منین (ع) کی شان میں بدگوئی کر رھا تھا ۔برد نے کھا :اے عمر و عاص ھمارے بزرگوں نے پیغمبر اکرم(ص) کو یہ فر ما تے سنا ھے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “کیا یہ حق ھے یا باطل ھے ؟عمرو عاص نے کھا حق ھے، اس سے بڑھکر میں یہ کہتا هوں کہ پیغمبر اکرم(ص) کے ا صحاب میں کو ئی بھی علی علیہ السلام جیسے منا قب نھیں رکھتا ھے !!اس مر د نے اپنے قبیلہ کے پاس واپس آکر کھا :ھم اس قوم کے پاس سے آئے کہ جن سے ھم نے خود ان کے اپنے خلاف اقرار لے لیاھے !آگاہ هوجاؤکہ علی علیہ السلام حق پر ھیں اور ان کے پیرو کار بنو ![102]
۲۱۔غدیر کے ذریعہ زید بن علی بن الحسین علیہ السلام کا اتمام حجت کرنازید بن علی (ع) کے پاس پیغمبر اکرم(ص) کے اس فر مان”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ”کا تذکرہ هوا تو زید نے کھا :پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو اس علامت کے طور پر معین فرمایا کہ جس سے اختلاف کے وقت خدا وند عالم کے حزب و گروہ کی شناخت هو جا ئے [103]
۲۲۔پیغمبر اکرم(ص) کے چالیس اصحاب کا غدیرکے ذریعہ اتمام حجت کرناسقیفہ کے واقعہ کے بعد ،اصحاب میں سے چا لیس افراد نے امیر المو منین علی علیہ السلام کی خدمت با بر کت میں آکر عرض کیا :خدا کی قسم ھم آپ کے علاوہ کسی کی اطاعت نھیں کریں گے حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :کس طرح ؟انھوں نے عرض کیا : ھم نے پیغمبر اکرم (ص)کو غدیر خم کے میدان میں آپ(ع) کے سلسلہ میں ان مطالب کو بیان فرماتے هو ئے سنا ھے ۔آپ(ع) نے فرمایا :کیا تم اپنے عھد و پیمان پر باقی هو؟ انھوں نے کھا :ھاں ۔آپ(ع) نے فرمایا :کل تم اپنے سرکے بال منڈاکر آنا ( تا کہ ھم ان سے جنگ کرنے کےلئے جا ئیں )۔[104]
۲۳۔انصا ر کے ایک گروہ کا غدیر کے ذریعہ اتمام حجت کرناانصار کے کچھ افراد نے کوفہ میں امیر المو منین علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حا ضر هوکر عرض کیا :اے ھما رے مو لا آپ(ع) پر ھمارا سلام !۔۔۔حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :میں تمھارا مو لا کیسے هوسکتا هو ں جبکہ تم نئی قوم هو؟انھوں نے عرض کیا :ھم نے غدیر خم میں پیغمبر اسلام(ص) کو آپ(ع) کے بازو پکڑکر یہ فر ما تے سنا ھے :خدا وند عالم میرا صاحب اختیار ھے اور میں مو منوں کا مو لا هوں اور جس شخص کا میںصاحب اختیار هوں یہ علی (ع) اس کے صاحب اختیار ھیں “[105]
۲۴۔پیغمبر اکرم(ص) کے چار اصحاب کے ذریعہ غدیرکے سلسلہ میں اتمام حجتچار آدمیوں نے کو فہ میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حا ضرهو کر عرض کیا :السلام علیک یا امیر المومنین ورحمة اللہ و برکاتہ ۔حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا : علیکم السلام کھاں سے آئے هو ؟ انھوں نے عرض کیا : ھم فلاں شھر سے آپ (ع) کے موالی ھیں ۔آپ(ع) نے فرمایا :تم کھاں سے ھما رے موالی هو ؟انھوں نے عرض کیا :ھم نے غدیر خم کے میدا ن میںپیغمبر اکرم (ص) کو یہ فر ما تے سنا ھے “مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”[106]
۲۵۔غدیر کے ذریعہ عبد الر حمن بن ابی لیلیٰ کااتمام حجت کرنا۱۔عبد الرحمن بن ابی لیلی نے حدیث غدیر کو اس طرح نقل کیا ھے :پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم کے میدان میں سب کے سامنے پیش کیا اور ان کااس طرح تعارف فرمایاکہ وہ ھر مومن مرد و عورت کے صاحب اختیار ھیں ۔[107]۲۔ایک دن عبد الرحمن نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت اقدس میں کھڑے هو کر عرض کیا : ھم آپ سے خلافت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لینے والوں کو کیسے خلافت کے آپ کی نسبت زیادہ سزوار کہہ سکتے ھیں ؟اگر ایسا کھیں تو پھرکیوں پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے میدان میں حجة الوداع کے بعد آپ(ع) کو خلیفہ منصوب کرتے هو ئے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”۔[108]
۲۶۔غدیر کے ذریعہ عمران بن حصین کا اتمام حجت کرناعمران بن حصین نے واقعہٴ غدیر کو اس طرح نقل کیا ھے :پیغمبر اسلام(ص) نے فر مایا :تم نے مجھ سے سوال کیاھے کہ میرے بعد تمھارا صاحب اختیار کو ن ھے اور میں نے تم کو اس کی خبر دیدی ھے ۔اس کے بعد غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کا ھاتھ اپنے ھاتھ میں لے کر فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”[109]
۲۷۔غدیر کے ذریعہ زید بن ارقم کا اتمام حجت کرنا۱۔زید بن ارقم وہ شخص ھیں جنھوں نے غدیر خم کے دن پیغمبر اکرم(ص) کے سر کے اوپر سے درختوں کی شاخوں کو پکڑرکھا تھا کہ خطبہ ارشاد فرماتے وہ آنحضرت (ص) کے سر مبارک سے نہ ٹکرائیں ۔ فطری طور پر وہ پیغمبر اکرم(ص) کے ذریعہ حضرت علی (ع) کے بلند کئے جانے اور ان کا تعارف کراتے و قت آنحضرت (ص)کا سب سے زیادہ نزدیک سے مشاھدہ کر رھے تھے ۔یہ وھی شخص ھے جس نے آنحضرت (ص) کے خطبہ ٴ غدیر کو مفصل طورپر حفظ کیا اور بعد میں آنے والی نسلوں کےلئے نقل کیا ھے ۔[110]۲۔حساس مواقع پرزید بن ارقم جیسے شخص کی گواھی کی ضرورت تھی جس نے غدیر میںپیغمبر اکرم(ص) کا اتنے نزدیک سے مشاھدہ کیاتھا ۔کوفہ میں حضرت علی (ع) نے اس سے فرمایا کہ وہ لوگوں کے سامنے غدیر کے ماجرے کی گواھی دے لیکن اس نے اٹھ کر گواھی نھیں دی اور کھا کہ میں بھول گیا هوں !!!اس وقت مو لا ئے کا ئنات علیہ السلام نے فر مایا :اگر تم جھوٹ بول رھے هو تو خدا وندعالم تمھاری آنکھو ں کو اندھا کرے وہ ابھی اس جلسہ سے باھر بھی نھیں گیا تھا کہ اندھا هو گیا اور لوگوں کے درمیا ن امیر المو منین علیہ السلام کے نفرین شدہ کے عنوان سے اس کی شناخت کی جا نے لگی ۔اس نے یہ معجز ہ دیکھنے کے بعد یہ قسم کھا ئی کہ اس کے بعد جو بھی اس سے غدیر کے سلسلہ میں سوال کرے گاتو جو کچھ سنا اور دیکھا ھے اس کوضرور بتا وٴں گا ۔[111]۳۔زید بن ارقم کے بھا ئی کا کہنا ھے :ایک دن ھم زید کے ساتھ بیٹھے هو ئے تھے ایک گھوڑا سوار اپنا سفر طے کر کے آیا اور اس نے سلام کرنے کے بعد زید کے بارے میں پوچھااور اس سے یوں عرض کیا: میں مصر کی فسطاط نامی جگہ سے آپ کے پاس اس لئے آیا هوں تاکہ آپ سے پیغمبر اکرم (ص)سے سنی هوئی اس حدیث غدیر کے بارے میں سوال کروںجو حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی ولایت پر دلالت کرتی ھے ۔زید نے غدیر کے واقعہ کو مفصل طور پر بیان کرنے کے دوران کھا :پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر میں منبر پر فرمایا : لوگو! کون شخص تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق رکھتا ھے ؟مجمع نے کھا :خدا اور اس کا رسول ھما رے صاحب اختیار ھیں ۔آنحضرت (ص) نے فر مایا :”خدایا گواہ رہنا اور اے جبرئیل تو بھی گواہ رہنا ‘ اور اس جملہ کی آپ نے اپنی زبان اقدس سے تین مرتبہ تکرار فرمائی ۔اس کے بعد علی بن ابی طالب(ع) کے ھاتھ کو تھام کر اور اپنی طرف بلند کرتے هو ئے فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”اور اس جملہ کی آپ نے اپنی زبان اقدس سے تین مرتبہ تکرار فر مائی ۔[112]۴۔عطیہ عو فی نے زید بن ارقم سے کھا :میں واقعہ ٴ غدیر کو آپ سے سننے کا متمنی هوں ۔زید نے کھا:پیغمبر اکرم (ص)غدیر میں ظھر کے وقت اپنے خیمہ سے باھر تشریف لائے اور حضرت علی (ع) کے بازو تھام کر فر مایا :اے لوگو!کیا تم اس بات کو تسلیم کرتے هو کہ میں تمھا رے نفسوں کا تم سے زیادہ صاحب اختیار هوں ؟ لوگوں نے جواب دیا :ھاں ۔تب آنحضرت (ص) نے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔ ۔۔۔”[113]
۲۸۔غدیر کے ذریعہ برا ء بن عازب کااتمام حجت کرنابراء بن عازب بھی وہ شخص تھے جو زید بن ارقم کی مدد کرنے کے لئے غدیر خم میں پیغمبر اکرم (ص) کے سراقدس کے اوپر سے درختوں کی شاخیں اٹھا ئے هو ئے تھے تا کہ پیغمبر اکرم(ص) بالکل آرام و سکون کے ساتھ خطبہ ارشاد فر ما سکیں ۔وہ غدیر خم میں آنحضرت (ص)کے سب سے نزدیک تھے جب کوفہ میں علی بن ابی طالب (ع) نے لوگوں کے مجمع میں اس سے غدیر کے سلسلہ میں گو اھی دینے کےلئے فرمایا تو اس نے انکار کیا اور وہ آپ (ع) کی نفرین میں گرفتار هوا۔وہ اس کے بعد اپنی اس حرکت پر شرمندہ هوا اور واقعہٴ غدیر کو اس طرح نقل کیا کرتا تھا :میں حجة الوداع میںپیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ تھا کہ جب آنحضرت (ص) غدیر خم میں اترے نماز جماعت کا حکم صادر هوا اورپیغمبر اکرم(ص) کےلئے درختوں کے درمیان جگہ صاف کئی گئی آنحضرت (ص) نے نماز ظھر ادا فرمائی اور حضرت علی علیہ السلام کے بازو تھام کر فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”[114]
۲۹۔غدیر کے ذریعہ شریک کااتمام حجت کرناشریک نخعی قاضی سے سوال کیا گیا :جو شخص ابو بکر کی معرفت حا صل کئے بغیر دنیا سے چلاجا ئے اس کا کیا حشر هو گا ؟شریک نخعی نے جواب دیا : کچھ نھیں ،اس کے ذمہ کو ئی چیز نھیں ھے ۔سوال کیا گیا :اگر حضرت علی علیہ السلام کی معرفت حا صل کئے بغیر دنیا سے چلا جا ئے تو اس کا کیا حشر هوگا؟ جواب دیا : اس کا ٹھکانا جہنم ھے ،اس لئے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان راہنما کے طور پر منصوب فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔”[115]
۳۰۔غدیر کے ذریعہ ام سلمہ کااتمام حجت کرنارسول اسلام(ص) کی زوجہ ام سلمہ غدیر خم میں موجود تھیں ، وہ حدیث غدیر کو اس طرح نقل فر ما تی ھیں :پیغمبر اسلام(ص) نے فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ،اللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ”[116]
۳۱۔غدیر کے ذریعہ خو لہٴ حنفیہ کااتمام حجت کرناجب قبیلہٴ حنیفہ کے سردار مالک بن نویرہ نے غدیر کے ذریعہ استدلال کرتے هوئے ابو بکر کی ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تو خالد بن ولید کے لشکر نے ان کے قبیلہ کے مردوں کو قتل کردیا اور عورتو ں کو قیدی بنا کرمدینہ لے آئے ۔ان ھی قیدیوں میں سے ایک خو لہٴ حنفیّہ نا می لڑکی کو مسجد میں لایا گیا وھاں پر اس نے امیر المو منین علیہ السلام سے عر ض کیا : آپ کون ھیں ؟آپ(ع) نے فر مایا :میں علی بن ابی طالب هوں؟ حنفیّہ نے عرض کیا : آپ (ع) وھی شخص ھیں جن کو پیغمبر اسلام نے غدیر خم کے میدان میں لوگوں کا راہنما بنایا ؟آپ (ع) نے فرمایا :ھاں، میں وھی هوں ۔حنفیّہ نے عرض کیا : آپ(ع) ھی کی وجہ سے ھم نے غضب کیا اور آپ (ع) ھی کی وجہ سے ھم پر دھاوا بولا گیا اور ھم کو قیدی بنا لیا گیا ،چونکہ ھما رے مردوں نے کھا تھا :ھم اپنے اموال کے صدقات (زکات و فطرہ وخمس وغیرہ)اور اپنی اطاعت ھر کسی کے اختیار میں قرار نھیں دیں گے مگر یہ کہ پیغمبر اسلام(ص) نے اسے ھمارا اور تمھارا امام و خلیفہ معین فر مایا هو ۔[117]
۳۲۔غدیر کے ذریعہ دارمیّہ حجونیہ کااتمام حجت کرنا(دارمیہ) نا م کی ایک سیاہ فام خاتون امیر المو منین علیہ السلام کے شیعوں میں سے تھی ،معا ویہ جب حج کی غرض سے مکہ آیا تو اس نے اس خاتون کو بلا بھیجا اور اس سے سوال کیا :تم علی (ع) کو کیوں دوست رکھتی هو اور مجھ کو کیوں دشمن رکھتی هو ؟اور ان کی ولایت کو کیوں قبول کرتی هو اور مجھ سے کیوں دشمنی رکھتی هو ؟ دارمیّہ نے کھا : میں حضرت علی (ع) کی ولایت کو اس عھد و پیمان کی بنا پر قبول کر تی هوں جو پیغمبر اسلام (ع) نے هوں جو پیغمبر اسلام (ص) نے غدیر خم کے روز ان(علی (ع) )کی ولایت کےلئے لیا تھا اور تو بھی اس وقت مو جود تھا ۔! [118]یہ غدیر کے سلسلہ میں منا ظروں اور استدلالات کے بعض نمو نے تھے ۔تاریخ میں ہزاروں ایسے مواقع ھیں جن میں غدیر کے سلسلہ میں شیعہ اور ان کے مخا لفوں کے ما بین بحثیںاورمنا ظرئے هو ئے ھیں اورحدیث غدیر کی سند اور متن کے سلسلہ میں اتمام حجت کےلئے بہت سے مطالب بیان هو ئے ھیں جن کو ایک مستقل کتاب میں بیان کر نے کی ضرورت ھے ۔
[76] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۹۳حدیث۷۶۔[77] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۳۳حدیث۳۰۔[78] نز ھة الکرام (رازی):جلد ۱صفحہ ۳۰۱۔۳۰۲۔ قبیلہٴ مالک کی بیٹیوں میںسے حنفیہ کی داستان جو قید کر لی گئیں تھیں اسی اتمام حجت کے چوالیسویں(۴۴) نمبر میں بیان کی جا ئے گی ۔[79] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۲۷،۱۳۱۔[80] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۹۳،۱۹۴۔[81] بحا رالانوار جلد ۲۸صفحہ ۹۸۔اثبات الھداةجلد ۲ صفحہ ۱۵۹حدیث۷۱۰۔[82] مثالب النواصب (ابن شھر آشوب)خطی نسخہ صفحہ ۱۳۴۔[83] الغدیر جلد ۱صفحہ ۲۰۳۔[84] بحا ر الانوار جلد ۲۸صفحہ ۲۰۰۔[85] الغدیر جلد ۱ صفحہ ۱۸۸۔[86] بحا رالانوار جلد ۲۹صفحہ ۱۶۶۔[87] کتاب سلیم حدیث ۲۶۔[88] کتاب سلیم حدیث ۳۹۔[89] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۲۳،۱۲۴۔[90] بحا رالا نوار جلد ۲۸صفحہ ۲۲۳۔[91] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۲۰حدیث ۴۹۸۔[92] الغدیر جلد ۱ صفحہ ۲۰۵۔[93] بحار الانوار جلد ۳۲صفحہ ۱۸۸حدیث ۱۳۸۔[94] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۷۱حدیث ۳۰۹۔[95] بحا ر الانوار جلد ۳۳صفحہ ۲۶۶۔[96] کتاب سلیم حدیث ۴۲۔[97] اثبات الھداة جلد ۲صفحہ ۱۲۰ حدیث۴۹۸۔[98] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۶۳۔[99] بحار الانوار جلد ۲۹صفحہ ۹۲۔[100] بحا رالانوار جلد ۳۳ صفحہ ۲۵۹۔[101] بحا رالانوار جلد ۴۰صفحہ ۶۸حدیث۱۰۴۔[102] الغدیر جلد ۱ صفحہ ۲۰۱۔[103] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۳۴۔[104] بحا رالانوار جلد ۲۸صفحہ ۲۵۹حدیث۴۲۔[105] الغدیرجلد۱ صفحہ۱۸۷۔۱۹۱۔[106] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۵۷حدیث۳۶۴۔[107] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۰۴حدیث ۴۲۸۔[108] بحار الانوار جلد ۲۹صفحہ ۵۸۲حدیث۱۶۔[109] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۷۳حدیث ۸۰۳۔[110] العدد القویہ صفحہ ۱۶۹،التحصین صفحہ ۵۷۸،الصراط المستقیم جلد ۱ صفحہ ۳۰۱۔[111] بحا رالانوار جلد ۳۱صفحہ ۴۴۷،جلد ۳۷صفحہ ۱۹۹۔الغدیر جلد ۱ صفحہ ۹۳۔[112] بحارالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۵۲۔[113] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۴۹۔[114] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۴۹۔[115] المسترشد صفحہ ۲۷۰حدیث۸۱۔[116] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۴۹حدیث ۶۵۲۔ اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۴۹حدیث ۶۵۲۔[117] ۔اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۳۲حدیث ۱۷۰۔[118] بحا رالانوار جلد ۳۳صفحہ ۲۶۰حدیث۵۳۲۔