آفاق میں خدا کی نشانیاں

423

زمین: (وَفِی الأرضِ آیاتُ لِلمُوقنینَ)[1] زمین ہی اہل یقین کے لئے نشانیاں ہیں۔قرآن میں تقریباً اسّی مقامات پر خلقت زمین کے سلسلہ میں بحث کی گئی ہے او رعشاق و فدائیان قران کو عظمت و خلقت زمین کی معرفت کی دعوت دی گئی ۔ امام جعفر صادق  نے مفضل کو مخاطب کر کے فرمایا :اس زمین کی خصوصیات پر غور کرو ، اس کی خلقت کچھ یوں کی گئی ہے کہ مستحکم واستوار ہے اور مختلف النوع اشیاء کا مستقر و پناہ گاہ ہے او رتمام فرزندان آدم اپنی حاجا ت بر آنے کیلئے اس پر تلاش و کوشش کر سکتے ہیں سکون و آرام کے وقت اس پر بیٹھ سکتے ہیں اور لذت خو اب سے بہرہ امند بھی ہو سکتے ہیں .. لہٰذا عبرت حاصل کرو اس وقت سے جب زلزلہ کے جھٹکے لگتے ہیں اور زمین کو قرار نہیں رہتا اور لوگ ناچار ہو کر گھروں کو چھوڑ کر فرار کی راہ لیتے ہیں [2] تعجب خیز بات تویہ ہے کہ یہ کشتی فضا ان تمام عظمتوں کے ہمراہ کروڑوں لوگوں کو اپنے دوش پر اٹھا ئے ہو ئے نہا یت ہی سرعت کے ساتھ ایک گہوارے کی مانند متمکن ومستقر۔ علی دعائے صبا ح میں فرماتے ہیں : یاَ من أَرقَدنِی فِی مھاد أمنہ و أمانہ”اے وہ !جس نے امن وامان کے گہوارے میں لذت خو اب عطاکیا” زمین کے بہترین حصہ دریائوں او رسمندروں کی نذر ہو گئے اور ان میں ایسے ایسے عجا ئبات پائے جاتے ہیں جن کی تفصیل کے لئے مستقل بحث کی ضرورت ہے ، یا من فی البحار عجا ئبہ ، اے وہ ذات! جس کے عجا ئبا ت کے مظہر دریا ئوں میں اٹے پڑے ہیں۔[3] مولا ئے متقیان کی دوسری منا جات میں آیا ہے : أنت الذیِ فی السمائِ عظمتک و فی الأرضِ قُدرتک وفیِ البحار عجا ئبک[4]تو خدا وہ ہے جس کی عظمت کے شاہکار آسمان میں ، قدرت کے نمونے زمین میںاور حیرت انگیز تخلیقات دریا وں میں بکھری پڑی ہیں ۔ امام جعفر صادقںنے مفضل سے فرمایا : اگر تم خالق کی حکمتوں اور مخلوقات کی کم مائیگی علم کو جاننا چاہتے ہو تو پھر سمندروں کی مچھلیوں اور آبی جا نوروں اور اصداف کو دیکھو یہ اتنی تعدادمیں ہیں کہ ان کا محاسبہ نہیں کیا جا سکتا اور ان کی منفعت کا علم بشریت پر دھیرے دھیرے روشن ہوگا ۔[5] چاند اور سورج (قال اللّہ تعالیٰ :ومِن آیا تِہِ اللَیلُ و النَّھارُ وَ الشَّمسُ والقَمَرُ)[6] اور خدا کی نشانیا ں میں سے دن ، رات ، اور چاند وسورج ہیں۔ سورہ یونس میں ارشاد ہو ا کہ وہ خدا ہے جس نے سورج کو چمک عطا کی اور چاند کو چاندنی سے نوازا او ران کے مستقر کو معین کیا تاکہ برسوں اور صدیوں کے حساب کو جا ن سکو اور خدا نے ان سب کو بجز حق خلق نہیں کیا ہے . اور وہ اہل علم و فکر کے لئے اپنی نشانیوں کو بیان کرتاہے ۔ سورج اپنی تابناکیو ں کے ذریعہ صرف بستر موجودات کا ئنات ہی کو گرم اور منور نہیں کرتا، بلکہ حیوانات و نباتات کو حیات عطا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتاہے۔ آج دنیا کے سامنے یہ حقیقت کھل کرآگئی ہے کہ کرۂ زمین کی تمام حرکات خورشید کی ضیاء باریوں کا صدقہ ہے ،خورشید کا حجم دنیا کے حجم کے ١٣ تیرہ لا کھ ہزار کے برابر بڑا ہے برج آسمانی میں سورج کا منظم حرکت کرنا اس کا دقیق طلوع و غروب کرنے کے علا وہ مختلف فصلو ں کا تعین او رزمان کی تعیین انسانوں کی اجتماعی زندگی میں بہت ہی مفید اور بے حد معاون ہے ۔ چاند ہر گھنٹہ میں تین ہزار چھ سو کیلو میٹر زمین کے اطراف میں اپنی مسافت طے کرتا ہے اور قمری مہینوں میں چاند کم و بیش ٢٩ روز کے اندر زمین کا مکمل چکر لگاتا ہے اور زمین کے ساتھ سال میں ایک بار سورج کا چکر لگا تا ہے چاند ، سورج ، ان میں سے ہر ایک کی گردش ایک خاص نہج پر ہے جس کو فکر بشر درک کرنے سے عاجز ہے ، جو کچھ ہم درک کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ منظم و مرتب طریقہ سے گردش کرنا ،زمان کی ترتیب او رشب و روز اور ماہ و سال کی پیدائش کا سبب ہے ۔ امام صادق نے مفضل سے روایت کردہ حدیث میں فرمایا: سورج کے طلوع اورغروب میں تدبر کرو خدا نے دن و رات کی حاکمیت کو سورج کے حوالے سے معین کیاہے اگر سورج طلوع نہ ہو تا تو نظام دنیا درہم برہم ہو جاتا ،اگر اس کا نور نہ ہو تا تو حیات کا ئنات بے نور ہوجا تی ، اور وہ غروب نہ ہو تا تو لوگوں کا چین حرام ہوجا تا کیو نکہ روح وجسم کو آرام و سکو ن کی شدید ضرورت ہو تی ہے سورج کا نشیب و فراز میں جا نا چار فصلو ں کے وجو د کا سبب ہے اور جو کچھ اس کے منافع و آثار ہیں، ان کے بارے میں غور و فکر کرو ،چاند کے ذریعہ خدا کو پہچانو کیونکہ لوگ اسی کے مخصوص نظام کے ذریعہ مہینو ں کو پہنچانتے ہیں اور سال کے حساب کو مرتب کرتے ہیں ، ذرا دیکھ تو سہی کہ کس طرح اندھیرے کے سینے کو چاک کرکے رات کو روشنی بخشتا ہے اور اس میں کتنے فوائد پو شیدہ ہیں۔ [7] ستارے : قال اللّہ: اِنَّا زَیَّنَّا ألسَّمَآئَ الدُّنیَا بِزِینَة الکَوَاکِبِ[8]ہم نے دنیاوی آسمان کو ستاروں کی محفل سے سجا یا ہے، مولائے کا ئنا ت فرماتے ہیں : آسمانوں میں بکھرے ہو ئے ستارے زمینوں پر بسے ہوئے شہروں کے مانند ہیں اور ان میں سے ایک شہر دوسرے شہر سے نورانی ستون سے متصل ہیں ۔[9] آسمانوں کی خلقت میں غور وخوض قال اللّہ 🙁 اِنَّ فِی السَّمٰوَاتِ والأَرضِ لأیاتٍ للمُؤمنِینَ)[10] بے شک زمین وآسمان میں اہل ایما ن کے لئے بے شمار نشانیاں ہیں ۔ قال اللّہ تعالیٰ:( اِنَّ فِی خَلقِ السَّمٰواتِ والأَرضِ وَ اختِلافِ اللَّیلِ والنَّھارِ لآیاتٍ لأولِی الألبابِ)[11] بے شک زمین و آسمان کی مخلو ق او ر روز و شب کی آمد ورفت میںصاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں ۔ (قَالَت رُسُلُھُم أَ فِی اللّہِ شکُ فَاطِرالسَّمواتِ والأرضِ)[12] ان کے رسولو ں نے کہا : کیا وجو د خدامیں شک ہے جو زمین و آسمان کا خالق ہے ؟ آل عمران کی آیت١٩٠کی تفسیر کے سلسلے میں حدیث میں وارد ہو اہے کہ نبی اکرم ۖ ایک تھوڑی سی استراحت کے بعد اٹھے وضو فرمایا اور مشغول نماز ہوگئے اور اتناگریہ فرمایا کہ آپ کے لباس کا سامنے کاحصہ تر ہو گیا اس کے بعد سجدے میں جاکراتنا گریہ کیا کہ اشک سے زمین نم ہو گئی ، اور گریہ و ندبہ کی یہ کیفیت اذان صبح تک جاری رہی جب موذن رسول عربی بلا ل نے آپ کو نماز صبح کے لئے آواز دی تو کیا دیکھاکہ آپ کی آنکھیں گریا ں کنا ں ہیں بلا ل نے پوچھ ہی لیا یا رسول اللہ ! گریہ کا سبب کیا ہے ؟جبکہ الطاف و اکرام الٰہی آپ کے گرد حلقہ کئے ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا : کہ کیا میں خدا کا شاکر بندہ نہ رہو ں ؟اور گریہ کیوں نہ کروں ؟آج رات مجھ پر دل ہلا دینے والی آیات کا نزول ہو اہے پھر مولا نے آل عمران کی مذکورہ آیت کے بعد کی چار آیتوں کی تلاوت فرمائی اور آخرمیں فرمایا : ”وَیلُ لِمَن قرأھا ولم یتفکر فیھا” ویل (جہنم کا ایک کنواں) ہے اس شخص کے لئے جو اس آیت کو پڑھے اور اس میں تفکر و تدبر نہ کرے ۔[13] فضا کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد دائرہ حیرت میں جو چیز وسعت کا سبب بنتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر گھٹا ٹوپ اندھیرا ہو اور آسمان پر چاند بھی نہ چمک رہا ہو ایسے میں آسمان کی جانب دیکھیں تو جو ایک طولانی علاقہ کمان کی مانند ایک افق سے دوسرے افق تک دیکھا ئی دے رہا ہے وہ سیا ہی زمین،میں ایک سفید نہرکے مانند دیکھا ئی دے گاوہی کہکشاں ہے ہر کہکشاں میں بے شمار ستارے ہوتے ہیں ہماری کہکشاں کی مسافت ایک ( جو کہ ہمارا شمسی نظام اس میں پایا جاتا ہے ) ہزار نوری سال ہے ، سورج جوکہ از حد سرعت کے ساتھ اس کہکشاں کا چکر لگا رہا ہے ڈھائی کروڑ سال میں اس کہکشاں کا مکمل چکر لگاتا ہے۔ [14] آخری تحقیقات کے مطابق کم سے کم ایک کروڑ کہکشاں اس عالم میں ہیں اورصرف ہماری کہکشاں میں ایک ارب ستارے پائے جاتے ہیں۔ [15] خدا وند متعال کی عظیم نشانیوں میںسے ایک نشانی خلقت آسمان ہے جس کو قرآن نے نہایت ہی اہتمام سے بیان کیا ہے ، اورتین سو تیرہ مرتبہ مفرد وجمع ملا کر آیات قرآنی میں لفظ آسمان کو ذکر کیا ہے، اور علی الاعلان بشریت کو خلقت آسمان میں تدبر کی دعوت دی ہے تاکہ اس کی معرفت میں اضافہ ہوسکے ۔ سورہ ق کی آیة ٦ میں ارشاد ہو ا ۔( أَفَلَم یَنظُرُوا اِلیٰ السَّمائِ فَوقَھُم کَیفَ بَنیناَھَا وَ زَّینَّاھا وَمَالَھا مِن فُروُجٍ)کیا انھو ںنے اپنے سر پہ سایہ فگن آسمان کو نہیں دیکھا ( اس میں تفکر نہیں کیا ) کہ ہم نے اس کو کیسے بنایا اس کو (ستاروں ) کے ذریعہ سجا یا سنوارا اور اس میں ( بال برابر ) شگاف نہیں ہے ۔ روایا ت میں آیا ہے کہ شب زندہ دار افراد جب سحر کے وقت نمازشب کے لئے اٹھیں تو پہلے آسمان کی جانب دیکھیں اور سورہ آل عمران کی آخری آیات کی تلاوت کریں ۔ خلقت آسمان اور معصومین کے نظریات واقوال نبی کریم ۖ جب نما ز شب کے لئے اٹھتے تھے ،پہلے مسواک کرتے تھے پھر آسمان کی جانب دیکھتے تھے اور اس آیت ( اِنّ َفِی خَلقِ السَّمٰواتِ وَ الأرضِ[16]کی تلاوت کرتے تھے ۔

مطالعہ آسمانی کے وقت امیر المومنین کی منا جات امیر المومنین علیہ السلام کے ایک صحابی جن کا نام حبَّہ عرنی ہے کہتے ہیں کہ ایک رات میں نو ف کے ساتھ دارالامارہ میں سویا ہوا تھا، رات کے آخری حصہ میں کیا دیکھاکہ امیر المومنین دارالا مارہ کے صحن میں ایک حیران اور مضطرب شخص کی طرح دیوار پر ہاتھ رکھ کر ان آیا ت کی تلا وت فرمارہے ہیں ۔ (اِنَّ فِی خَلقِ السَّمواتِ والأَرضِ وَ اختِلَافِ اللَّیلِ والنَّھارِ لآیاتٍ لأولِی الأَلبابِ الَّذینَ یَذکروُنَ اللّہَ قِیامًا وَ قُعُوداً وعلیٰ جُنُوبِھِم وَ یتفَکَّرُونَ فِی خلقِ السَّمواتِ والأَرضِ رَبَّنا ماخَلقتَ ھذا بَاطِلاً سُبحاَنک فَقِنا عَذَابَ النَّارِ رَبّنا اِنَّک مَنْ تُدخِل النَّارِ فَقَد أَخزَیتہُ وَما للِظَّالمِینَ مِن أنصارٍ رَبَّنا اِنّنَا سَمِعنا مُنادیًا یُنادیِ للایمانِ أَنْ آمِنوا بِرَبِّکُم فأمَنَّا رَبَّنا فَاغفِرلَنَا ذُنُوبَنا وَ کَفِّر عَنا سَیئاتَنا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الأَبرارِ رَبَّنا وآتِنا مَا وَعَدتنا علیٰ رُسُلِک ولا تُخزِنَا یَومَ القِیَامةِ اِنَّک لَا تُخلِفُ المِیعَادَ)[17] بیشک زمین و آسمان کی خلقت لیل و نہا ر کی آمد ورفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت کی نشانیاں ہیں ۔ جولوگ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے،خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی خلقت میں غور وفکر کرتے ہیں کہ خدا یا تونے یہ سب بیکا ر نہیں پیدا کیا ،توپاک وبے نیازہے ہمیںعذاب جہنم سے محفوظ فرما۔ پرور دگار !تو جسے جہنم میں ڈالے گا گویا اس کو ذلیل ورسوا کردیا اور ظالمین کاکوئی مدد گار نہیں ہے پرور دگا ر! ہم نے اس منا دی کوسنا جو ایمان کی آواز لگا رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لے آئو تو ہم ایمان لے آئے ،پرور دگار!اب ہما رے گنا ہو ں کو معاف فرما اور ہماری برائیوں کی پردہ پوشی فرما اورہمیں نیک بندوں کے ساتھ محشور فرما ،پروردگار! جو تونے اپنے رسولوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے اسے عطا فرمااور روز قیامت ہمیںرسوا نہ کرنا کہ تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ حبہ کہتے ہیں کہ حضرت ان آیا ت کی بار بار تلا وت فرما تے تھے اور خوبصورت آسمان اور اس کے خوبصورت خالق کے تدبر میں کچھ یوں غرق تھے کہ جیسے آپ کھوئے ہوئے ہوں اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میرے پاس آئے اور فرمایا: حبّہ جگ رہے ہو یا سورہے ہو؟ میں نے کہا آقا،جگ رہا ہو ں،لیکن میرے سید و سردار!آپ نے اتنے جہاد کئے اتنا روشن وتابناک آپ کا ماضی ہے اس قدر آپ کا زہد و تقوی ہے اورآپ گریہ فرمارہے ہیں، مولا نے آنکھو ں کو جھکالیا اور ہچکیاں لینے لگے پھر فرمایا : اے حبّہ ! ہم سب پیش پروردگا ر حاضر ہیں ،اور ہما را کوئی عمل اس پر پوشیدہ نہیں ہے، حبہ یہ بات بالکل قطعی ہے کہ خدا ہماری او رتمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور کو ئی چیز ہم کو او رتم کو خدا سے چھپا نہیں سکتی ۔ اس کے بعد مولا ،میرے ساتھی نوف کی جا نب متوجہ ہو ئے اور فرمایا: نوف سو رہے ہو ؟ انھو ں نے کہا :نہیں مولا آپ کی حیرت انگیز کیفیت کی وجہ سے آج کی رات بہت رویا ہو ں ۔آپ نے فرمایا :اے نوف اگر آج رات خو ف خداسے گریہ کروگے توکل پیش پروردگار تمہاری آنکھیں روشن ومنو ر ہوںگی ۔اے نوف ! کسی کی آنکھ سے ایک قطرہ بھی آنسو کا نہیں گرتا مگر یہ کہ ایک آگ کے دریا کو بجھا دیتا ہے (نوف کہتے ہیں ) آقا کا آخری جملہ یہ تھا کہ ترک ذمہ داری پر خدا سے ڈرو ، اور زمزمہ کرتے ہوئے ہمارے سامنے سے گذر ے اور فرمایا : اے میرے پروردگا ر ! اے کا ش میں یہ جا ن سکتا کہ جس وقت میں غافل ہو ں تونے مجھ سے منھ مو ڑ لیا ہے یا میری جانب متوجہ ہے ! اے کا ش میں جان سکتا کہ اتنی طویل ترین غفلت اور تیری شکرگزار ی میں کوتاہیوں کے باوجو د تیرے نزدیک میر اکیا وقار ہے نوف کہتے ہیں خدا کی قسم صبح تک آقا کی یہی کیفیت تھی۔ [18] امام سید سجا د ں نماز شب کے لئے اٹھے پانی میں ہاتھ ڈالا تاکہ وضو فرمالیں اس بیچ آسمان کی جا نب دیکھا اور اس میں تفکر کرتے ہو ئے اس قدر مشغول ہو گئے کہ صبح ہو گئی اور موذن نے اذان کہہ دی اور آپ کا دست مبارک ابھی تک وضو کے پا نی میں ڈوبا ہواتھا ۔ امیر المومنین ں فرماتے ہیں : سُبحانک ما اعظم ما نریٰ من خَلقک وما أصغر کلّ عظیمة فی جنب قدرتک وما اھول ما نریٰ مِن ملکو تک و ما احقر ذلک فیما غاب عنا من سلطانک وما أسبغ نعمک فی الدنیا وما أصغرھا فی نعم الآخرة [19] اے پاک وپاکیزہ پروردگار تو کتنا عظیم ہے ان چیزوں سے جو تیری مخلوقات میںمشاہدہ کرتے ہیں تیری قدرت کے سامنے سارے بلند قامت کس قدر (بونے دکھا ئے دیتے ہیں اور ) چھو ٹے ہیں ، ملکو ت کتنا حیرت انگیز (شاہکا ر ) ہے او رکتنی ایسی چھوٹی چیزیں ہیں جو تیری سلطنت میں ہما ری نگا ہو ں سے اوجھل ہیں دنیا میں تیری نعمتیں کتنی بے شمار ہیں اور آخرت کی نعمتوں کے مقابل یہ کتنی تھوڑی سی معلوم ہوتی ہیں ۔

[1] سورہ ذاریات آیة: ٢٠

[2] بحار الانوار ج٣ ،ص ١٢١

[3] جو شن کبیر

[4] بحار الانوار ج٩٧ ،ص٩٧

[5] بحار الانوار ج٣، ص ١٠٣

[6] سو رہ فصلت آیة: ٣٧

[7] بحا رالانوارج، ٥ ٥ ص ١٧٥

[8] سو ر ہ صافات آیة ،٦

[9] بحا الانوار ج٥٥ص ٩١

[10] سورہ جا ثیہ آیة:٣

[11] سورہ آل عمران آیة: ١٩٠

[12] سورہ ابراہیم آیة: ١٠

[13] پیام قرآن ج٢،ص ١٦٢( متعدد تفاسیر کے حوالے سے )

[14] راہ تکامل ج٦،ص ١٠٣

[15] پیام قرآن ج٢،ص ١٧٦

[16] مجمع البیا ن۔ مذکورہ آیة کے ذیل میں

[17] سو رہ آل عمران آیة ١٩٠سے١٩٤تک۔

[18] سفینہ البحار ج۔١ ص ٩٥ بحار الانوار ج،٤١ ص ٢٢

[19] نہج البلاغہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.