تقيہ اور آيات تبليغ کے درمیان تعارض

191

آلوسی کہتا ہے کہ تقیہ ان دو آیات کے ساتھ تعارض پیدا کرتا ہے کہ جن میں پیامبر اکرم (ص ) کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے . (1 )۱. يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ . (2 )اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے.اس آيه مباركه میں اپنے حبیب کو تبلیغ کا حکم دے رہا ہے اگر چہ خوف اور ڈر ہی کیوں نہ ہو.۲. الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا (3 ) يعني وہ لوگ ا للہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ،اوراللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے .اس آیہ شریفہ میں خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرنا ایک بہترین صفت قرار دیتے ہوئے سراہا گیا ہے .اسی طرح اللہ تعالی کے احکامات کو چھپانے کی مذمت میں بھی آیات نازل ہوئی ہیں ، جیسا کہ فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَ يَشْترَُونَ بہ ثمََنًا قَلِيلاً أُوْلَئكَ مَا يَأْكلُُونَ فىِ بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَمَةِ وَ لَا يُزَكِّيهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ. (4 )جو لوگ خدا کی نازل کی ہوئی کتاب کے احکام کو چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور خدا روز قیامت ان سے بات بھی نہ کرے گااور نہ انہیں پاکیزہ قرار دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے .اس اشکال کیلئے یوں جواب دے سکتے ہیں ؛ تبلیغ کبھی اصول دین سے مربوط ہے اور کبھی فروع دین سے . اور جب بھی تبلیغ اصول دین سے مربوط ہو اور تبلیغ نہ کرنا باعث بنے کہ لوگ دین سے آشنائی پیدا نہ کرے اور لوگوں کی دین سے آشنائی اسی تبلیغ پر منحصر ہو تو یہاں تقیہ حرام ہے اور دائرہ تقیہ کو توڑ کر تبلیغ میں مصروف ہونا چاہئے ، اگرچہ تقیہ ضرر جانی یا مالی کا سبب کیوں نہ بنے ؛ کیونکہ آیات مذکورہ اور داخلی اور خارجی قرینے سے پتہ چلتا ہے کہ تقیہ اسی نوع میں سے ہے . یہاں تقیہ بے مورد ہے .لیکن اگر تقیہ فروع دین سے مربوط ہو تو یہاں تبلیغ اور جانی ومالی نقصانات کا مقائسہ کرے گا کہ کس میں زیادہ مصلحت پائی جاتی ہے ؟ اور کون سا زیادہ مہم ہے ؟اگر جان یا مال بچانا تبلیغ سے زیادہ مہم ہو تو وہاں تقیہ کرتے ہوئے تبلیغ کو ترک کرنا واجب ہے . مثال کے طور پر ایک کم اہمیت والا فقہی فتويٰ دے کر کسی فقیہ یا عالم دین کی جان پچانا.
تقيہ اور ذ لّت مؤمناشکال :وہابي لوگ کہتے ہیں کہ تقیہ مؤمن کی ذلت کا باعث ہے . خداتعالی نے ہر اس چیز کو جو باعث ذلت ہو ،اسے شریعت میں حرام قرار دیا ہے . اور تقیہ بھی انہی میں سے ایک ہے. (5)جواب:اس جملے کاصغریٰ مورد اشکال ہے کیونکہ یہ بات قابل قبول نہیں کہ اگر تقیہ کو اپنے صحیح اور جائز موارد میں بروی کار لایا جائے تو موجب ذلت نہیں ہوسکتا . کیونکہ دشمن کے سامنے ایک اہم مصلحت کے خاطر حق بات کرنے سے سکوت اختیار کرنا یا حق کے خلاف اظہار کرنا نہ ذلت کا سبب ہے اور نہ مذمت کاباعث .چنانچه عمار ابن ياسر نے ایسا کیا تو قرآن کریم نے بھي اس کی مدح سرائي شروع کی .
تقيہ ،ما نع امر بہ معروفاشکال یہ ہے کہ تقیہ انسان کو امربہ معروف اور نہی از منکر کرنے سے روکتی ہے . کبھی جان کا خوف دلا کر تو کبھی مال یا مقام کا .جب کہ یہ دونوں (امر اور نہی ) واجبات اسلام میں سے ہے .اس مطلب کی تائید میں فرمایا : افضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر. ظالم و جابر حکمران کے سامنے حق بات کا اظہار کرنا بہترین جہاد ہے .اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :۱ـ امر بہ معروف و نهي از منكر بہ صورت مطلق جائز نہیں . بلكه اس کیلئے بھی کچھ شرائط و معيارہے كه اگر یہ شرائط اور معيار موجود ہوں تو واجب ہے ..ورنه اس کا واجب ہونا ساقط ہوجائے گا .من جمله شرائط امر بہ معروف و نهي از منكر میں سے یہ ہیں :انکار کرنے میں کوئی ایسا مفسدہ موجود نہ ہو جو اس سے بھی کسی بڑے جرم ،جیسے قتل و غارت میں مبتلا ہو جائے . ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کرنا جائز نہیں ہے .۲ـ وہ روایات جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا اظہار کرنے کو ممدوح قرار دیتی ہیں ، وہ خبر واحد ہیں جو ادلہ عقلی کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی . یعنی تعارض کے موقع پر دلیل عقلی مقدم ہو گا ،اس سے دفع ضرر اور حفظ جان مراد ہے . (6 )
تقيہ امام معصوم(ع)سےمربوط شبہاتاشکال کرنے والا اس مرحلے میں تقیہ کے شرعی جواز کو فی الجملہ قبول کرتا ہے ، کہ بعض موارد میں مؤمنین کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے . لیکن دینی رہنماؤں جیسے امام معصوم(ع) کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے . کیونکہ اگر دین کے رہنما تقیہ کرے تو درج ذیل اشکالات وارد ہوسکتے ہیں :
تقيہ اور امام(ع) کا بیان شريعتشیعہ عقیدے کے مطابق امام معصوم (ع)کے وجود مبارک کوشریعت اسلام کے بیان کیلئے خلق کیا گیا ہے . لیکن اگر یہ حضرات تقیہ کرنے لگے تو بہت سارے احکام رہ جائيں گےاور مسلمانوں تک نہیں پہنچ پائيں گے. اور ان کي بعثت کا فلسفہ بھي ناقص ہو گا.اسی سلسلے میں اہل سنت کے ایک عالم نے اشکال کیا ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے علي(ع) کو اظهار حق کے خاطر منصوب کیا ہے تو تقیہ کيا معني رکھتا ہے ؟!اس شبہہ کا جواب یہ ہے كه امامان معصوم (ع)نے بہترین انداز میں اپنے وظیفے پر عمل کئے ہیں لیکن ہمارے مسلمان بھائیوں نے ان کے فرامين کو قبول نہیں کیا (7 ). چنانچه حضرت علي(ع) کے بارے میں منقول ہے آپ ۲۵ سال خانہ نشین ہوئے تو قرآں مجید کی جمع آوری ، آیات کی شأن نزول ، معارف اسلامی کی توضیح اور تشریح کرنے میں مصروف ہوگئے . اور ان مطالب کو اونٹوں پر لاد کر مسجد میں مسلمانوں کے درمیان لے گئے تاکہ ان معارف سے لوگ استفادہ کریں ؛ لیکن خلیفہ وقت نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا .جب امام نے يه حالت ديکھي تو خاص شاگردوں کي تربيت اور ان کو اسلامي احکامات اور دوسرے معارف کا تعليم ديتے هوئے اپنا شرعي وظيفه انجام دينے لگے ؛ ليکن يه هماري کوتاهي تھي که هم نے ان کے فرامين کو پس پشت ڈالا اور اس پر عمل نهيں کيا .
امام (ع) کاتقيہ اور شيخ طوسي(رہ)امام کیلئے تقیہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں:1. معتزلہ والے کہتے ہیں کہ امام کیلئے تقیہ کرنا جائز نہیں ہے . کیونکہ امام کا قول ، پیامبر اسلامﷺ کے قول کی طرح حجت ہے .2. اماميه والے کہتے ہیں کہ اگر تقیہ کے واجب ہونے کے اسباب نہ ہو،کوئی اور مانع بھي موجود نہ ہو تو امام تقیہ کرسکتے ہیں .شيخ طوسي(رہ) کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام تقیہ کرسکتے ہیں بشرطیکہ شرائط موجود ہو .
امام(ع)کیلئے تقیہ جائز ہونے کے شرائطØ شرعی وظیفوں پر عمل پيرا هونا اور احکام کی معرفت حاصل کرنا اگر فقط امام پر منحصر نہ ہو جیسے امام کا منصوص ہونا فقط امام کے قول پر منحصر نہیں ہے بلکہ قول پیامبر ﷺ اور عقل سلیم کے ذریعے سے بھی مکلف جان سکتا ہے تو ايسي صورت ميں امام تقیہ کرسکتے ہیں .Ø اس صورت میں امام تقیہ کرسکتے ہیں کہ آپ کا تقیہ کرنا حق تک پہنچنے میں رکاوٹ نه بنے . اورساتھ ہی شرائط بھی پوری ہو.Ø جن موارد میں امام تقیہ کررہے ہیں وہاں ہمارے پاس واضح دلیل موجود ہوکہ معلوم ہوجائے کہ امام حالت تقیہ میں حکم دے رہے ہیں .اس بنا پر اگر احکام کی معرفت امام میں منحصر نہ ہو ، یا امام کا تقیہ کرنا حق تک جانے میں رکاوٹ نہ ہو اور کوئی ایسی ٹھوس دلیل بھی نہ ہو جو امام کا تقیہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتی ہو اور ساتھ ہی اگر معلوم ہو کہ امام حالت تقیہ میں ہو تو کوئی حرج نہیں کہ امام تقیہ کرسکتے ہیں . (8 )

(1 ) . ابوالفضل آلوسي؛ روح المعاني،ج ۳، ص ۱۲۵.(2 ) . مائدہ۶۷.(3 ) . احزاب ۳۹.(4 ) . بقرہ ۱۷۴.(5 ). موسي موسوي؛ الشيعه و التصحيح ، ص ۶۷.(6 ). دكتر محمود يزدي؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي، ص ۲۸۹.(7 ). محمد باقر حجتي؛ تاريخ قرآن كريم، ص ۳۸۷.(8 ). محمود يزدي؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي، ص۳۳۳.
 

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.