تقيہ، فرمان امام(ع) پر عدم اعتماد کاباعث
تقيہ اور علم امام (ع)علم امام(ع)کے بارے میں شيعه متكلمين کےدرمیان دو نظریے پائے جاتے ہیں :اور یہ اختلاف بھی روایات میں اختلاف ہونے کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں .پہلا نظریہ : قدیم شيعه متكلمين جیسے ، سيد مرتضي(رہ) وغیرہ معتقد ہیں کہ امام تمام احکامات اور معارف اسلامی کا علم رکھتےہیں . لیکن مختلف حادثات اور بعض واقعات جیسے اپنی رحلت کب ہوگی؟ یا دوسروں کی موت کب واقع ہوگی ؟و…بصورت موجبہ جزئیہ ہے نه موجبہ کلیہ .دوسرا نظریہ : علم امام(ع) دونوں صورتوں میں یعنی تمام احکامات دین اور اتفاقی حادثات کے بارے میں بصورت موجبہ کلیہ علم رکھتے ہیں . (1 )بہ هر حال دونوں نظریہ کا اس بات پر اتفاق هے كه علم امام(ع)احكام اور معارف اسلامي کے بارے میں بصورت موجبہ ہے . وہ شبہات جو تقیہ اور علم امام سے مربوط ہے وہ بعض کے نزدیک دونوں مبنا میں ممکن ہے . اور بعض کے نزدیک صرف دوسرے مبنی میں ممکن ہے .پهلا اشکال: تقيہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ائمه(ع) تمام فقهي احكام اور اسلامي معارف کا علم نہیں رکھتے ہیں اور اس کی توجیہ کرنےاور روایات میں موجود اختلاف کو ختم کرنے کیلئے تقیہ کا سہارا لیتے ہیں.اس اشکال کو سليمان ابن جرير زيدي نے مطرح کیا ہے ،جوعصر ائمه(ع)میں زندگی کرتا تھا .وہ کہتا ہے کہ رافضیوں کے امام نے اپنے پیروکاروں کیلئے دو عقیدہ بیان کئے ہیں . جس کی موجودگی میں کوئی بھی مخالف ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں نہیں جیت سکتا.پہلا عقیدہ بداء ہے .دوسرا عقیدہ تقيہ ہے.شيعيان اپنے اماموں سے مختلف مواقع پر سوال کرتے تھے اور وہ جواب دیاکرتے تھے اور شیعہ لوگ ان روایات اور احادیث کو یاد رکھتے اور لکھتے تھے ،لیکن ان کے امام ، چونکہ کئی کئی مہینے یا سال گذرجاتے لیکن ان سے مسئلہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا ؛ جس کی وجہ سے وہ پہلے دئے ہوئے جوابات بھی بھول جاتے تھے . کیونکہ اپنے دئے گئے جوابات کو یاد نہیں رکھتے تھے اس لئے ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جوابات دئے جاتے تھے .اورشیعه جب اپنے اماموں پر ان اختلافات کے بارے میں اشکال کرتےتھے تو توجیہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارے جوابات تقیۃً بیان ہوئے ہیں .اور ہم جو چاہیں اور جب چاہیں جواب دے سکتے ہیں .کیونکہ یہ ہمارا حق ہے. اور ہم جانتے ہیں کہ کیا چیز تمہارے مفاد میں ہے اور تمہاری بقا اور سالمیت کس چیز میں ہے .اور تمھارے دشمن کب تم سے دست بردار ہونگے .سليمان آگے بیان کرتا ہے : پس جب ایسا عقیدہ ایجاد ہوجائے تو کوئی بھی ان کے اماموں پر جھوٹے ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا . اور کبھی بھی ان کے حق اور باطل میں شناخت نہیں کرسکتا. اور انہی تناقض گوئی کی وجہ سے بعض شیعیان ابو جعفر امام باقر(ع) کی امامت کا انکار کرنے لگے . (2 )پس معلوم ہوا کہ دونوں مبنی کے مطابق شیعوں کے اماموں کے علم پر یہ اشکال وارد ہے .
جواب :اماميه کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے امامان معصوم(ع) تمام احكام اور معارف الهي کے بارے میں کلی علم رکھتےہیں اس بات پر متقن دلیل بھی بیان کیا گیا ہے لیکن ممکن ہے وہ دلائل برادران اہل سنت کیلئے قابل قبول نہ ہو.چنانچه شيخ طوسي (رہ)نے اپنی روایت کی كتاب تهذيب الاحكام کو انہی اختلافات کی وضاحت اور جواب کے طور پر لکھی ہے .علامه شعراني(رہ) اور علامه قزويني(رہ) یہ دو شيعه دانشمندکا بھی یہی عقیدہ ہے کہ شیعوں کے امام تقیہ نہیں کرتے تھے بلکہ تقیہ کرنے کا اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے تھے .علامه شعراني(رہ) کہتے ہیں : ائمه (ع) تقيہ نہیں کرتے تھے بلکہ صرف امر بہ معروف کیا کرتے تھے کیونکہ امامان تمام واقعیات سے باخبر تھے : اذا شائوا ان يعلموا علموا.کے مالک تھے ہمارے لئے تو تقیہ کرنا صدق آتا ہے لیکن ائمہ کیلئے صدق نہیں آتا کیونکہ وہ لوگ تمام عالم اسرار سے واقف ہیں .علامه قزويني(رہ) فرماتے ہیں :ائمه (ع)تقيہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ عالم تھے اور تمام اوقات اور وفات کی کیفیت اور نوعیت سے باخبرتھے . اس لئے صرف ہمیں تقیہ کا حکم دیتے تھے . (3 )
اس شبہہ کا جواباولا: علم امام کے دوسرے مبنا پر یه اشکال هے نه پهلے مبنا پر ، کیونکه ممکن هے جو پهلےمبنا کا قائل هے وہ کهے امام اپنی موت اور مرنے کے وقت اور کیفیت سے آگاه نهیں تھے ، اس لئے جان کے خوف سے تقیه کرتے تھے .ثانیاً : امام کا تقیه کرنا اپنی جان کے خوف سے نهیں بلکه ممکن هے اپنے اصحاب اور چاهنے والوں کی جان کے خوف سے هوں ؛ یا اهل سنت کے ساتھ مدارات اور اتحاد کے خاطر تقیه کئے هوں. دوسرے لفظوں میں اگر کهیں که تقیه کبھی بھی جان یا مال کے خوف کے ساتھ مختص نهیں هے .ثالثاً: جو لوگ دوسرے مبنا کے قائل هیں ممکن هے کهه دیں که امام اپنی موت کے وقت اور کیفیت کا علم رکھتے تھے اور ساتھ هی جان کا خوف بھی کھاتے اور تقیه کے ذریعے اپنی جان بچانا چاهتے تھے .ان دو شیعه عالم دین پر جو اشکال وارد هے یه هے ، که اگر آپ ائمه کے تقیه کا انکار کرتے هیں تو ان تمام روایتوں کا کیا جواب ديں گے که جن میں خود ائمه طاهرین (ع) تقیه کے بہت سے فضائل بیان فرماتے هیں اور ان روایتوں کا کیا کروگے جو امام کے تقیه کرنے کو ثابت کرتی هیں؟!
تقيہ اور عصمتاحکام اسلام کی تبلیغ اور ترویج میں ایک عام دین دارشخص سے بھی ممکن نهیں هے که وہ کسی بات کو خدا اور رسول کی طرف نسبت دے دے . تو یه کیسے ممکن هے که امام تقیه کرتے هوئے ایک ناحق بات کو خدا کی طرف نسبت دے ؟!یه حقیقت میں امام کے دین اور عصمت پر لعن کرنے کے مترادف هے ! . (4 )جواب یه هے که اگر هم تقیه کی مشروعیت کو آیات کے ذریعے ثابت مانتے هیں چنانچه اهل سنت بھی اسے مانتے هیں ، کهه سکتے هیں که الله تعالی نے تقیه کو حکم کلی قرار دیا هے.هم نهیں کهه سکتے هیں که امام (ع) نے بہ عنوان حکم اولی اس بات کو خدا کی طرف نسبت دی هے ؛ ليکن بعنوان حکم ثانوی کسی بات کو خدا کی طرف نسبت دینے میں کوئی اشکال نهیں هے .جیسے خود الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں مجبور شخص کیلئے مردار کھانے کوبحکم ثانوی ، جائز قرار دیا هے .ثانياً: شيعه اپنے اماموں کوصرف راوی کی حیثیت سے قبول نهیں کرتے بلکه انهیں خودشارعین میں سے مانتے هیں .جو اپنے صلاح دید کے مطابق حکم جاری کرتےهیں .
بجائےتقيہ؛ خاموشی کیوں اختیار نهیں کرتے؟اشکال: تقیه کے موقع پر امام بطور تقیه جواب دینے کے بجائے خاموشی کیوں اختیار نهیں کرتے ؟!
جواب :اولا: امام معصوم(ع) نےبعض موارد میں سکوت بھی اختیار کئے هیں اور کبھی طفره بھی کئے هیں اورکبھی سوال اور جواب کو جابجا بھی کئے هیں .ثانيا:سكوت خود تعريف تقيہ کے مطابق ایک قسم کاتقیه هے که جسے تقیه کتمانیه کها گیاهے .ثالثا: کبھی ممکن هے که خاموش رهنا ، زیاده مسئله کو خراب کرے . جیسے اگر سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس هو تو اس کو گمراه کرنے کیلئے تقیةً جواب دینا هي زياده فائده مند هے . (5 )رابعا: کبھی امام کے تقیه کرنے کے علل اور اسباب کو مد نظر رکھتے هوئے واقعیت کے خلاف اظهار کرنا ضروری هوجاتا هے . جیسے اپنے چاهنے والوں کی جان بچانے کے خاطر اپنے عزیز کو دشمنوں کے درمیان چھوڑنا . اور یه صرف اور صرف واقعیت کے خلاف اظهار کرکے هی ممکن هے .اور کبھی دوستوں کی جان بچانے کیلئے اهل سنت کے فتوی کے مطابق عمل کرنے پر مجبور هوجاتے تھے . چنانچه امام موسي كاظم(ع) نے علي ابن يقطين کو اهل سنت کے طریقے سے وضو کرنے کا حکم دیا گیا . (6 )
تقيہ کے بجائے توریه کیوں نهیں کرتے ؟!شبہہ: امام(ع)موارد تقيہ میں توریه کرسکتے هیں، تو توریه کیوں نهیں کرتے ؟ تاکه جھوٹ بولنے میں مرتکب نه هو .(7 )
اس شبہہ کا جواب:اولاً:تقیه کے موارد میں توریه کرنا خود ایک قسم کا تقیه هے .ثانياً: همارا عقیده هے که اگر امام کیلئے هر جگه توریه کرنے کا امکان هوتا تو ایسا ضرور کرتے .ثالثاً:بعض جگهوں پر امام کیلئے توریه کرنا ممکن نهیں هوتا اور اظهار خلاف پر ناچار هوجاتےهیں.
تقيہ اور دین کا دفاعشبہہ:اس میں کوئی شک نهیں که الله کے نیک بندوں کی ذمه داریوں میں سے ایک اهم ذمه داری ، الله تعالیٰ کے دین کی حفاظت کرنا هے .اگر چه اس راه میں قسم قسم کی اذیتیں اور صعوبتیں برداشت کرنا پڑے .اور اهل بيت پیامبر(ص) بالخصوص ان ذمه داری کو نبھانے کیلئے زیاده حقدار هیں . (8 )جواب:ائمه طاهرین (ع)نے جب بھی اصل دین کیلئے کوئی خطر محسوس کیا اور اپنے تقیه کرنے کو اسلام پر کوئی مشکل وقت آنے کا سبب پایا تو تقیه کو ترک کرتے هوئے دین کی حفاظت کرنے میں مصروف هوگئے .اور اس راه میں اپنی جان دینے سے بھی دریغ نهیں کیا .جس کا بہترین نمونه سالار شهیدان اباعبدالله (ع) کا دین مبین اسلام کا دفاع کرتے هوئے اپنی جان کے علوہ اپنے عزیزوں کی جانوں کا بھی نذرانه دینے سے دریغ نهیں کیا .لیکن کبھی ان کا تقیه نه کرنا اسلام پر ضرر پهنچنے ، مسلمانوں کا گروہوں میں بٹنے ، اسلام دشمن طاقتوں کے کامیاب هونے کا سبب بنتا تو ؛ وہ لوگ ضرور تقیه کرتے تھے ..چنانچه اگر علي(ع) رحلت پیامبر ﷺ کے بعد تقیه نه کرتے اور مسلحانه جنگ کرنے پر اترآتے تو اصل اسلام خطرے میں پڑ جاتا . اور جو ابھي ابھي مسلمان هو چکے تھے ، دوباره کفر کي طرف پلٹ جاتے .کيونکه امام کو اگرچه ظاهري فتح حاصل هوجاتي ؛ ليکن لوگ کهتے که انهوں نے پيامبر کے جانے کے بعد ان کي امت پر مسلحانه حمله کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کيا .پس معلوم هوا که ائمه طاهرین (ع) کا تقیه کرنا ضرور بہ ضرور اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر تھا.٭٭٭٭٭(1 ). كليني ؛ اصول كافي، ج۱ ، ص ۳۷۶.(2 )۱. نوبختي؛ فرق الشيعه ، ص ۸۵ ـ۸۷.(3 ) . مجله نور علم، ش ۵۰ ـ ۵۱، ص ۲۴ ـ ۲۵.(4 ). محسن امين، عاملي؛ نقض الوشيعه ، ص ۱۷۹.(5 ). فخر رازي؛ محصل افكار المتقدمين من الفلسفہ والمتكلمين،ص ۱۸۲.(6 ). همان ، ص ۱۹۳.(7 ). وسائل شيعه، ج۱، ص ۲۱۳.(8 ) . ابوالقاسم، آلوسي؛ روح المعاني،ج۳، ص۱۴۴.