تقيہ « سلوني قبل ان تفقدوني» کے منافی

184

امام علي(ع) فرماتے هیں : مجھ سے پوچھو قبل اس کے که میں تمھارے درمیان سے اٹھ جاؤں ، اور تم مجھے پانه سکو .اس روایت میں سوال کرنے کا حکم فرمارهے هیں ، جس کا لازمه یه هے که جو کچھ آپ بطور جواب فرمائیں گے ، اسے قبول کرنا هم پر واجب هوگا؛ اور امام کا تقیه کرنے کا لازمه یه هے که بعض سوال کا امام جواب نهیں دیں گے.جواب : یه کلام امير المومنين (ع) نے اس وقت فرمایا ، که جب آپ برسر حکومت تھے ؛ جس وقت تقیه کے سارے علل و اسباب مفقود تھے .یعنی تقیه کرنے کی ضرورت نه تھی.اور جو بھی سوال آپ سے کیا جاتا ،اس کا جواب تقیه کے بغیر کاملاً دئے جاسکتے تھے . البته اس سنهرے موقع سے لوگوں نے استفاده نهیں کیا .لیکن همارے دیگر ائمه طاهرین (ع)کو اتنی کم مدت کابھی موقع نهیں ملا. یهی وجه هے که بقیه اماموں سے ایسا جمله صادر نهیں هوا . اگرچه شیعه اور سنی سوال کرنے والوں کو احکام بیان کرنے میں ذره برابر کوتاهی نهیں کی .امام سجاد(ع) سے روايت هے که هم پر لازم نهیں هے که همارے شیعوں کے هر سوال کا جواب دیدیں .اگر هم چاهیں تو جواب دیں گے ، اور اگر نه چاهیں تو گريز کریں گے . (1 )
تقيہ اور شجاعتاس شبہہ کی وضاحت کچھ یوں هے که شیعوں کا عقیده هے که ان کے سارے امام انسانیت کے اعلاترین کمال اور فضائل کے مرتبے پر فائز هیں . یعنی هر کمال اور صفات بطور اتم ان میں پائے جاتے هیں . اور شجاعت بھی کمالات انسانی میں سے ایک هے .لیکن تقیه اور واقعیت کے خلاف اظهار کرنا بہت سارے مواقع پر جانی خوف کی وجه سے هے .اس کے علوہ اس سخن کا مضمون یه هے که همارے لئے الله تعالیٰ نے ایسے رهنما اور امام بھیجے هیں، جو اپنی جان کی خوف کی وجه سے پوری زندگی حالت تقیه میں گذاری . (2 )جواب: اولاً شجاعت اور تهور میں فرق هے . شجاعت حد اعتدال اور درمیانی راه هے لیکن تهور افراط اور بزدلی ، تفریط هے .اور شجاعت کا یه معنی نهیں که بغیر کسی حساب کتاب کے اپنے کو خطرے میں ڈالدے . بلکه جب بھی کوئی زیاده اهم مصلحت خطرے میں هو تو اسے بچانے کی کوشش کرتے هیں .ثانیاً: همارے لئے یه بات قابل قبول نهیں هے که تقیه کے سارے موارد میں خوف اور ترس هی علت تامه هو ، بلکه اور بھی علل و اسباب پائے جاتے هیں جن کی وجه سے تقیه کرنے پر مجبور هوجاتے هیں .جیسے اپنے ماننے والوں کی جان بچانے کے خاطر ، کبھی دوسرے مسلمانوں کے ساتھ محبت اور مودت ایجاد کرنے کے خاطر تقیه کرتے هیں . جن کا ترس اور خوف سےکوئی رابطه نهیں هے .ثالثا ً: امام کا خوف اپنی جان کی خوف کی وجه سے نهیں بلکه دین مقدس اسلام کے مصالح اور مفاد کے مد نظرامام خائف هیں ، که ایسا نه هو ، دین کی مصلحتوں کو کوئی ٹھیس پهنچے .جیسا که امام حسین (ع) نے ایسا هی کیا .اب اس اشکال یا بہتان کا جواب که ائمه طاهرین(ع) نے اپنی آخری عمر تک تقیه کیا هے ؛ یه هے:اولا ً : یه بالکل بیهوده بات هے اور تاریخ کے حقائق سے بہت دور هے .کیونکه هم ائمه طاهرین (ع)کی زندگی میں دیکھتےهیں که بہت سارے موارد میں انهوں نے ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ بہادرانه طور پر جنگ و جهاد کئے هیں . چنانچه امام موسی کاظم (ع)نے اس وقت ، که جب هارون نے چاها که باغ فدک آپ کو واپس کریں ، هارون الرشید کے کارندوں کے سامنے برملا عباسی حکومت کے نامشروع اور ناجائز هونے کا اعلان فرمایا ، اور مملکت اسلامی کے حدود کو مشخص کیا .ثانیا ً : هدایت بشر ی صرف معارف اسلامی کا برملا بیان کرنے پر منحصر نهیں هے ، بلکه بعض اهم اور مؤثر افراد تک اپنی بات کو منتقل کرنا بھی کافی اور باعث بنتا تھا که سارے لوگوں تک آپ کا پیغام پهنچ جائیں.
تقيہ اور تحليل حرام و تحريم حلالشبہہ یه هے که اگر اس بات کو قبول کرلے که امام بعض فقهی مسائل کا جواب بطو رتقیه دیں گے تو مسلماً ایسے موارد میں حکم واقعی (حرمت) کے بجائے (حلیت ) کا حکم لگے گا . اور یه سبب بنے گا شریعت میں تحلیل حرام اور تحریم حلال کا، يعني حرام حلال ميں بدل جائے گا اورحلال حرام ميں … (3)اس شبہہ کا جواب یه هے که شیعوں کے نزدیک تقیه سے مراد ؛اضطراری حالات میں بعنوان حکم ثانوی ،آیات اور روایات معصوم(ع) کی پیروی کرنا هے .تقيہ کا حكم بھی دوسرے احکام جیسے اضطرار، اكراه ، رفع ضرر اور حرج کی طرح هے ، که ایک معین وقت کیلئے حکم اولی کو تعطیل کرکے اس کی جگه تقیه والا حکم لگايا جاتا هے .اور ان جیسے احکام ثانوی فقه اهلسنت میں بھی هر جگه موجود هے .
تقيہ ا يك حكم اختصاصي هے يا عمومي؟اس حصے میں درج ذیل مسائل کي بررسی کرنے کي ضرورت هے :1. قانون تقیه پر اعتقاد رکھنا کیا صرف شیعه امامیه کے ساتھ مختص هے یا دوسرے مکاتب فکر بھی اس کے قائل هیں ؟اور اسے ایک الهی قانون کی حیثیت سے قبول کرتے هیں ؟!2. کيا تقيہ کوئی ایسا حکم هے جو هرجگه اور هرحال میں جائز هے یا اس کے لئے بھی خاص زمان یا مکان اور دیگر اسباب کا خیال رکھنا واجب هے ؟3. کيا حكم تقيہ ،متعلّق کے اعتبار سے عام هے یا نهیں ؟ بطوری که سارےلوگ ایک خاص شرائط میں اس پر عمل کرسکتے هیں ؟ یا بعض لوگ بطور استثنا هر عام و خاص شرائط کے بغیر بھی تقیه کرسکتے هیں ؟جیسے : پیامبر(ص) و امام(ع)؟
جواب: دو احتمال هیں :۱ـ تقيہ يك حكم ثانوي عام هے که سارے لوگ جس سے استفاده کرسکتے هیں .۲ـ پيامبران تقيہ سے مستثنی هیں . کیونکه عقلی طور پر مانع موجود هے . شيخ طوسي(رہ) اور اكثر مسلمانوں نے دوسرے احتمال کو قبول کئے هیں . كه پیامبر(ص) کیلئے تقيہ جائز نهیں هے .کیونکه اس کی شناخت اور علم اور رسائی صرف اور صرف پیامبر(ص) کے پاس هے .اور صرف پيامبر (ص) اور ان کے فرامین کے ذریعے شریعت کی شناخت اور علم ممکن هے .پس جب پیامبر(ص) کیلئے تقیه جائز هو جائے تو همیں کوئی اور راسته باقی نهیں رهتا جس کے ذریعے اپنی تکلیف اور شرعی وظیفه کو پهچان لیں اور اس پر عمل کریں . (4 )اسی لئے فرماتے هیں : فلا يجوز علي الانبياء قبائح و لا التقية في اخبارهم لا نّه يؤدي الي التشكيك(5 ) یعنی انبیا کیلئے نه عمل قبیح جائز هے اور نه اپنی احادیث بیان کرنے میں تقیه جائز هے.کیونکه تقیه آپ کے فرامین میں شکوک و شبہات پیدا هونے کا باعث بنتا هے. اور جب که هم پر لازم هے که هم پیامبر ﷺ کی هربات کی تصدیق کریں .اور اگر پیامبر ﷺ کے اعمال ، شرعی وظیفے کو همارے لئے بیان نه کرے اور همیں حالت شک میں ڈال دے ؛ تو یه ارسال رسل کی حکمت کے خلاف هے . پس پیامبر ﷺ کے لئے جائز نهیں که تقیه کی وجه سے هماری تکالیف کو بیان نه کرے .شيخ طوسي(رہ)پر اشكال : اگر هم اس بات کے قائل هوجائیں که پیامبرﷺ کیلئے تقیه جائز نهیں هے تو حضرت ابراهیم (ع)کا نمرود کے سامنے بتائی گئی ساری باتوں کیلئے کیا تأویل کریں گے که بتوں کو آنحضرت هی نے توڑ کر بڑے بت کی طرف نسبت دی ؟!اگر اس نسبت دینے کو تقیه نه مانے تو کیا توجیه هوسکتی هے ؟!
شيخ طوسي (رہ) کاجواب:آپ نے دو توجیه کئے هیں :۱. بل فعله کو «ان كانوا ينطقون»کے ساتھ مقید کئے هیں . يعني اگریه بت بات کرتاهے تو ان بتوں کوتوڑنے والا سب سے بڑا بت هے .جب که معلوم هے که بت بات نهیں کرسکتا.۲. حضرت ابراهيم(ع) چاهتے تھے که نمرود کے چیلوں کو یه بتا دے که اگر تم لوگ ایسا عقیده رکھتے هو تو یه حالت هوگی . پس آپ کا یه فرمانا: « بل فعله كبيرهم» الزام کے سوا کچھ نهیں اور « اني سقيم» سے مراد یه که تمھارے گمراه هونے کی وجه سے روحی طور سخت پریشانی میں مبتلا هوں.اسی طرح حضرت يوسف(ع) کا:« انّكم لسارقون»کهنا بھی تقیه هی تھا ، ورنه جھوٹ قاموس نبوت سے دور هے . (6 )تمام انبیاءالهی کے فرامین میں توریه شامل هے اور توریه هونا کوئی مشکل کا سبب نهیں بنتا .اور توریه بھی ایک قسم کا تقیه هے .ثانیا ً انبیاء الهی کے فرامین احکام شرعی بیان کرنے کے مقام میں نهیں هے .
کیوں کسی نے تقیه کیا اور کسی نے نهیں کیا ؟!یه سوال همیشه سے لوگوں کے ذهنوں میں ابھرتا رهتا هے که کیوں بعض ائمه اور ان کے چاهنے والوں نے تقیه کیا اور خاموش رهے ؟! لیکن بعض ائمه نے تقیه کو سرے سے مٹادئے اور اپنی جان تک کی بازی لگائی ؟!اور وہ لوگ جو مجاهدین اسلام کی تاریخ ، خصوصا ً معاویه کی ذلت بار حکومت کے دور کا مطالعه کرتے تو ان کو معلوم هوتا ،که تاریخ بشریت کا سب سے بڑا شجاع انسان یعنی امیر المؤمنین(ع) کا چهره مبارک نقاب پوش هوکر ره گیا . جب یه ساری باتیں سامنے آتی هیں تو یه سوال ذهنوں میں اٹھتا هے که کیوں پیامبر ﷺ اور علی(ع) کے باوفا دوستوں کے دو چهرے کاملاً ایک دوسرے سے مختلف نظر آتا هے :ایک گروہ : جو اپنے زمانے کے ظالم و جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا مقابله کرنے پر اتر آتے هیں ؛ جیسے میثم تمار ، حجر بن عدی، عبدالله و… اسی طرح باقی ائمه کے بعض چاهنے والوں نے دشمن اور حاکم وقت کے قید خانوں میں اپنی زندگیاں رنج و آالام میں گذارتے هوئے اپنی جانوں کا نذرانه پیش کئے .اور وحشتناک جلادوں کا خوف نهیں کھائے ، اور عوام کو فریب دینے والے مکار اور جبار حاکموں کا نقاب اتار کر ان کا اصلی چهره لوگوں کے سامنے واضح کردئے .اور دوسرا گروہ : باقی ائمه طاهرین کے ماننے والوں اور دوستوں میں بہت سارے ، جیسے علی ابن یقطین بڑی احتیاط کے ساتھ هارون الرشید کے وزیراور مشیر بن کر رهے !جواب : اس اشکال کا جواب امامیه مجتھدین اور فقها دے چکے هیں : که کبھی تقیه کو ترک کرتے هوئے واضح طور پر ما فی الضمیر کو بیان کرنا اور اپنی جان کا نذرانه دینا واجب عینی هوجاتا هے ؛ اور کبھی تقیه کو ترک کرنا مستحب هوجاتا هے . اور اس دوسری صورت میں تقیه کرنے والے نے نه کوئی خلاف کام کیا هے ، نه ان کے مد مقابل والے نے تقیه کو پس پشت ڈال کر فداکاری اور جان نثاری کا مظاهره کرتے هوئے ، جام شهادت نوش کرکے کوئی خلاف کام کیاهےاسی دلیل کی بنا پر ميثم تمار ، حجر بن عدی اوررشيد هجري جیسے عظیم اور شجاع لوگوں کو همارے اماموں نے بہت سراها هے ، اور اسلام میں ان کا بہت بڑا مقام هے .ان کی مثال ان لوگوں کی سی هے ، جنهوں نے اپنے حقوق سے هاتھ اٹھائے هیں اور معاشرے میں موجود غریب اور نادار اور محروم لوگوں کی حمایت کرتے هوئے ان پر خرچ کیا هو ، اور خود کو محروم کیا هو.اس میں کوئی شک نهیں که ان کی یه فداکاری اور محروفیت کو قبول کرنا ؛ سوائے بعض موارد میں ،واجب تو نهیں تھا . کیونکه جو چیز واجب هے وہ عدالت هے نه ایثار .لیکن ان کا یه کام اسلام اور اهل اسلام کی نگاه میں بہت قیمتی اور محترم کام شمار هوتا هے .اور یه احسان کرنا اس بات کی دلیل هے که احسان کرنے والا عواطف انسانی کی آخرین منزل کو طے کرچکا هے .جو دوسروں کو آرام و راحت میں دیکھنے کیلئے اپنے کو محروم کرنے کو اختیار کرے .پس تقیه کو ترک کرتے هوئے اپنی جانوں کو دوسرے مسلمانوں اور مؤمنوں کا آرام اور راحت کے خاطر فدا کرنا بھی ایسا هی هے .اور یه اس وقت تک ممکن هے ، جب تک تقیه کرنا وجوب کی حد تک نه پهنچا هو . اور یه پهلاراسته هے .دوسرا راسته یه هے که لوگ موقعیت اور محیط کے اعتبار سے مختلف هوتے هیں . اگر پست محیط میں زندگی کر رهے هوں ، جیسے معاویه کی حکومت کا دور هے ؛اس کی سوء تبلیغ اور اس کے ریزه خواروں اور مزدوروں اور بعض دین فروشوں کی جھوٹی تبلیغات کی وجه سے اسلام کے حقائق اور معارف معاشرے میں سے بالکل محو هوچکا تھا .اور لوگ اسلامی اصولوں سے بالکل بے خبر تھے .اور امیر المؤمنین (ع)کا انسان ساز مکتب بھی اپنی تمام تر خصوصیات کے باوجود ، سنسر کر دئے گئے ، اور پرده سکوت کے پیچھے چلا گیا .اور اس ظلمانی پردے کو چاک کرکے اسلامی معاشرے کو تشکیل دینے کیلئے عظیم قربانی کی ضرورت تھی .ایسے مواقع پر افشاگری ضروري تھا ، اگرچه جان بھی دینا کیوں نه پڑے .حجر بن عدي اور ان کے دوستوں کے بارے میں که جنهوں نے معاویه کےدور میں مهر سکوت کو توڑ کر علی (ع)کی محبت کا اظهار کرتے هوئے جام شهادت نوش فرمائي ؛اور ان کی طوفانی شهادت اور شهامت اس قدر مؤثر تھا که پورے مکه اور مدینه کے علوہ عراق میں بھی لوگوں میں انقلاب برپا کیا ؛ جسے معاویه نے کبھی سوچا بھي نه تھا .امام حسين(ع) نے ایک پروگرام میں ، معاویه کے غیراسلامی کردار کو لوگوں پر واضح کرتے هوئے یوں بیان فرمایا : الست قاتل حجر بن عدي اخا كنده ؛ والمصلين العابدين الذين كانوا ينكرون الظلم و يستعظمون البدع و لا يخافون في الله لومة لائم!اے معاویه ! کیا تو وہي شخص نهیں ، جس نے قبیله کنده کےعظيم انسان (حجر بن عدی) کو نماز گزاروں کے ایک گروہ کے ساتھ بے دردی سے شهید کیا ؟ ان کا جرم صرف یه تھا که وہ ظلم اور ستم کے خلاف مبارزه کرتے اور بدعتوں اور خلاف شرع کاموں سے بیزاری کا اظهار کرتے تھے، اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کا کوئی پروا نهیں کرتے تھے ؟!. (7 )٭٭٭٭٭(1 ) . وسائل الشيعه، ج ۱۸، ص۴۳.(2 ). كمال جوادي؛ ايرادات و شبہات عليه شيعيان در هند و پاكستان.(3 ). احسان الهي ظهير؛ السنّه والشيعه، ص ۱۳۶.(4 ) . محمود يزدي؛ انديشه هاي كلامي شيخ طوسي،ص ۳۲۸.(5 ) . التبيان ، ج۷ ، ص ۲۵۹.(6 ) . همان ، ص ۲۶۰.(7 ). مكارم شيرازي؛ تقيہ مبارزه عميقتر، ص ۱۰۷.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.