عدل الٰہی
مولا ئے کا ئنا ت نے ایک مختصر اورمفید عبارت کے ذریعہ توحید اور عدل کو ایک جگہ رکھ کر فرمایا :”التوحید ان لا تتوھمہ والعدل ان لا تتھمہ” توحید وہ ہے جوتمہاری واہمہ سے دور ہے (کیو نکہ جو واہمہ میں سماجائے وہ محدود ہے)اور عدل اس چیز کا نام ہے جسے تم متہم نہ کرو ( برے کام جو تم انجام دے رہے ہو اسے خدا کی طرف نسبت نہ دو ) (١)عدل الٰہی پر عقلی دلیل
ظلم قبیح (ناپسند) ہے او رصاحب حکمت خدا کبھی قبیح فعل انجام نہیںدیتا کیونکہ ظلم کے کچھ اسباب ہیں اور خدا ان چیزوں سے منزہ ہے ۔
ظلم کے اسباب اور اس کی بنیاد
١۔ضرورت :وہ شخص ظلم کرتاہے جوکسی مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے اور وہ مقصد صرف ظلم ہی کے راستے سے ممکن ہے ۔٢ ۔ جہالت اور نادانی: وہ شخص ظلم کرتا ہے جو ظلم کی برائیوں اور اس کی قباحت سے واقف نہیںہوتا ۔٣۔اخلاقی برائی :وہ شخص ظلم کرتاہے جس کے اندر کینہ ،عداوت ،حسد خواہشات پرستی ہے۔٤۔ عجز و ناتوانی : وہ شخص ظلم کرتا ہے جو خطرہ اور نقصان کو اپنے سے دور کرنے سے عاجز ہو اور اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے ظلم کے علاوہ کو ئی راستہ نہ پاتا ہو ۔اس دنیا میں جو بھی ظلم ہو تا ہے انہیں میں سے کسی ایک کی بنا پر ہوتاہے اگر یہ اسباب نہ پائے جا ئیں تو کہیں بھی کو ئی ظلم نہ ہو او رمذکورہ اسباب میںسے کو ئی ایک بھی خداکے لئے ممکن نہیں ہے کیونکہ خدا وند عالم :الف ): غنی ہے او رکسی کا محتاج نہیں ہے ۔ب): اس کا علم لا محدودہے اور کبھی ختم ہو نے والا نہیںہے۔ج): تمام اچھے صفات کا مالک ہے اور تمام عیوب اور نواقص سے پاک اور پاکیزہ ہے ۔د): لا محدود قدرت کامالک ہے لہٰذا وہ عادل ہے ۔صحیفۂ سجادیہ کی دعا نمبر ٤٥ میںآیا ہے” وعفوک تفضل وعقوبتک عدل”بارالٰہا! تیری عفو و بخشش تیرے فضل کانتیجہ ہے اور تیرا عقاب عین عدالت ہے۔ائمہ معصومین سے نقل ہے کہ نماز شب کے اختتام پر اس دعا کو پڑھا جائے ”وقد علمت یا الہیِ أَنّہ لیس فی نقمتک عجلة ولا فی حکمک ظلم واِنَّما یُعجّل من یخاف الفوت واِنَّما یحتاج اِلیٰ ظلم الضعیف وقد تعالیت یا ألہی عن ذلک علواً کبیراً”(2) ”بارالٰہا ! میں جانتا ہو ںکہ توعقاب میں جلدی نہیں کرتا اور تیرے حکم میں ظلم نہیں پایا جا تا، جلدی وہ کرتاہے جو ڈرتا ہے کہ کہیں وقت ہاتھ سے نکل نہ جائے اور ظلم وہ کرتا ہے جو ضعیف اور ناتواں ہوتا ہے اور اے میرے پروردگار تو ان سے کہیں زیادہ بلند و برتر ہے” ۔
عدالت خدا کے معانی
عدل کے اس مشہور معنی کے علا وہ (کہ خدا عادل ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا) دوسرے کئی معانی پائے جاتے ہیں ۔١۔ خد اعادل ہے یعنی خالق کا ئنا ت ہر اس کا م سے دور ہے جو مصلحت اورحکمت کے خلا ف ہے ۔٢۔ عدل یعنی : تمام لوگ خدا کی نظر میںایک ہیں تمام جہات سے اور کو ئی بھی اس کے نزدیک بلند وبالا نہیں ہے مگر وہ شخص جو تقوی اور اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے کو فساد اور نابودی سے بچائے(اِنّ أَکرَمکُم عِند اللَّہِ أتَقاکُم اِنَّ اللّٰہَ عَلیمُ خَبیرُ)بے شک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے اور اللہ ہر شی ٔ کا جاننے والا اور ہر بات سے با خبر ہے۔ (3)٣۔ حق کے ساتھ فیصلہ او رجزا : یعنی خدا وند عالم کسی بھی عمل کو چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا اور حقیر کیو ں نہ ہو اس کے بجا لانے والے کا حق ضائع نہیں کرتا اور بغیر جزاء کے نہیں رہنے دیتا او ربغیر کسی امتیاز کے تمام لوگوں کو ان کے اعمال کی جزاملے گی( فَمنْ یَعملْ مِثقالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرہُ وَمَنْ یَعمل مِثقالَ ذَرَّةٍ شَراً یَرہُ) پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا او رجس نے ذرہ برابربرائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا ۔(4)٤۔ ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا” العادل الواضع کُلّ شیئٍ موضعہ” عادل وہ شخص ہے جوہر چیز کو اس کی جگہ پر قرار دے۔ (5)خدا وند عالم نے تمام مخلوقات کو اس کی مناسبت سے خلق کیا ہے اور اس کے
اندر کی چیزیں اسی کے لحاظ سے خلق کی ہیں تمام موجودات عالم میں تعادل وتناسب پایا جاتاہے ”أنبتنا فیھا مِن کُلّ شیئٍ موزون” (6) اور ہر چیز کو معینہ مقدار کے مطابق پیدا کیاہے۔ہرکا م مقصد کے تحت : یعنی دنیا کی تمام تخلیق کا ایک مقصدہے اور اس دنیا کو خلق کرنے میںکچھ اسرارو رموز پوشیدہ ہیں اوراس دنیامیںکو ئی چیز بیکار و عبث نہیں ہے (أ فَحَسِبتُم انَّما خَلَقنَاکُم عَبثاً وَ أَنَّکم اِلینَا لا تُرجعُون)کیاتمہا را خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بیکا ر پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لا ئے جا ئو گے (7)ان مذکورہ عدالت کے معانی پر اعتقاد اور یقین اور ان میں سے ہر ایک معنی کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانے کی وجہ سے بہت سے اخلاقی آثار مرتب ہو ں گے عادل عدالت کا خواہاں ہو تا ہے ۔٭٭٭٭٭
(١) کلمات قصار نہج البلا غہ حکمت ٤٧٠
(2) مصباح المتہجد شیخ طوسی ص ١٧٣ (دعاء بعد از نماز شب )
(3)سورہ حجرات آیة ١٤(4) سورہ زلزال آیة ٧(5) مجمع البحرین کلمہ عدل
(6)سورہ حجر آیة ١٩(7) سورہ مومنون آیة :١١٥